بصیرت اخبار

۶۸ مطلب با موضوع «مفکرین اسلام» ثبت شده است

{ دروس ولایت فقیہ: قسط۴۹ }

ولایت کے معنی اور اس کی اقسام

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

امام خمینیؒ نظریہ ولایت فقیہ کو بدیہیات میں سے قرار دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ ولایت فقیہ کا درست تصور کر لیں خود ہی اس کی تصدیق کریں گے۔ لیکن ولایت فقیہ کا درست تصور کرنے کے لیے ہم پر اس عنوان کی شرح کرنا ضروری ہے۔

ولایت کے لغوی معنی

کلمہِ ولایت ’’و ۔ ل ۔ ی‘‘ سے مشتق ہے۔ عربی لغات اور مفسرین نے اس کے معنی دو اشیاء کا قریب ہونابیان کیا ہے۔ البتہ ایسی قربت یا نزدیکی جو مالکیت اور حقِ تصرف کا باعث بنے۔ بعض دیگراہل لغت نے تحریرکیا ہے کہ دو اشیاء کا اس طرح سے قریب ہونا کہ ان کےدرمیان ان کا غیر حائل نہ ہو۔ [1][2][3][4][5][6] معلوم ہوا کہ کلمہِ ولایت یا ولی کے لغوی معنی دو اشیاء کا قریب آنا اور ان کے درمیان غیر کا رکاوٹ یا واسطہ نہ بننا ہے۔یہ کلمہ مختلف  اوزان میں (فتح کسرہ کے ساتھ)محبت و دوستی،نصرت یا مدد،اتباع یا پیروی، اور سرپرستی کے معنی بھی دیتا ہے۔کہ ان سب معانی میں وجہ مشترک یعنی قریب ہونا پائی جاتی ہے۔

لفظ ولایت کا استعمال

لفظِ ولایت’’ و ۔ ل ۔ ی ‘‘کے مادہ کے  بہت سے مشتقات روایات میں کثرت سے استعمال ہوۓ ہیں، مثلاً تولی، متولی، والی، ولی، مولاوغیرہ۔ روایات اہل بیتؑ بالخصوص نہج البلاغہ میں لفظ ولایت حکمران اور حکومت کی زمام ہاتھ میں لینے کے بارے میں آیا ہے۔ یہیں سے یہ کلمہ ’’ ولایت فقیہ‘‘ کی اصطلاح کے لیے انتخاب کیا گیا۔ رسول اللہﷺ اور آئمہ معصومینؑ کے ادوار میں لفظ ولایت حکومت کے معنی میں  استعمال ہوتا تھا۔صحیح بخاری میں لفظ مولا بمعنی حاکم، سرپرست کے استعمال ہوا ہے۔[7]جب ولایت فقیہ کہا جاتا ہے تو اس سے مراد بھی سرپرستی و حاکمیت ہوتی ہے ۔ ولی فقیہ وہ شخص ہے جو حاکم اور اسلامی معاشرے کا سرپرست ہے۔ ولایت سے مراد اہل بیتؑ کے فضائل نہیں ہیں۔ اور نا ہی ولایت فقیہ سے یہ مراد ہے کہ فقیہ کو وہی مقام حاصل ہے جو امام کو حاصل ہے۔ یہ اشتباہ ہے۔ امام خمینیؒ نے اپنی کتاب حکومت اسلامی میں یہ بات وضاحت سے بیان کی کہ ولی فقیہ سے مراد امام یا معصوم ہونا نہیں ہے۔[8][9]

لفظ ولایت کا تکامل

ایک لفظ کسی معنی کے لیے کیسے استعمال ہونے لگتا ہے؟ اس کے دو مرحلے ہیں۔ ایک اس کا مرحلہ ایجاد ہے جس میں دیکھا جاتا ہے کہ یہ لفظ کس معنی کو بیان کرنے کے لیے ایجاد کیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر لفظ سیر ہے۔ اس لفظ کو چلنے کے معنی کے لیے ایجاد کیا گیا۔ بہت زیادہ چلنے والے کو سیّار کہا جانے لگا۔ بعد میں یہی لفظ گاڑی کے لیے بھی استعمال ہونے لگا کیونکہ گاڑی بہت زیادہ چلتی ہے تو اسے بھی سیّارہ کہا جانے لگا۔ اب لفظ سیر کا لغوی معنی تو چلنا تھا لیکن گاڑی کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہونے لگا۔ کاروان کے لیے بھی استعمال ہوا۔ ان سب استعمالات میں چلنے کا مشترک معنی پایا جاتا ہے۔ مثلا گاڑی بھی چلتی ہے، بس بھی چلتی ہے اور کاروان بھی چلتا ہے۔ پس ایک مرحلہ ایجاد ہے اور دوسرا مرحلہ استعمال ہے۔ اسی طرح سے لفظ ولایت بھی ہے۔ اس کو مرحلہ ایجاد میں قرب کے معنی کو بیان کرنے کے لیے وضع کیا گیا تھا۔ لیکن مرحلہ استعمال میں حاکم، سرپرست، دوست، غلام کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگا۔ البتہ ان سب معانی میں قرب کا اشتراک پایا جاتا ہے۔ ان دو مرحلوں کے علاوہ لفظ کی ایک اور جہت بھی موجود ہے۔ اور وہ یہ کہ ہر علم اور شعبے میں ایک ہی لفظ مختلف معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کا لغوی معنی ایک ہے لیکن مختلف علوم کی اصطلاح کے طور پر معانی مختلف دیتا ہے۔ مثلا لفظ واجب ہے۔ اس کا لغوی معنی لٹا دینا یا گرا دینا ہے۔[10] لیکن علوم دینی میں اس کے الگ معنی ہیں۔ فقہ میں واجب کسی اور معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے، کلام میں کسی اور معنی، منطق اور نحو میں دیگر معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ شعبہ بدل جانے سے معنی بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح سے لفظ وحی ہے۔ لغت میں اشارہ کرنے کو وحی کہتے ہیں۔ لیکن اصطلاح میں نبیؑ کے دل کے اندر ایک تعلیم ڈالنا وحی کہلاتا ہے۔ پس لفظ اور اس کے معنی کا حصول قواعد و ضوابط کا تابع ہے۔ ایک اس کا مرحلہ ایجاد ہے، ایک اس کا مرحلہ استعمال ہے، اور تیسرے مرحلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ متکلم نے یہ لفظ بول کر کیا معنی مراد لیا ہے۔ مراد متکلم سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ اس لفظ کو استعمال کر کے متکلم ہم تک کونسا معنی پہنچانا چاہتا ہے۔

ولایت کی اقسام

مصنف نے ولایت کی تین قسمیں بیان کی ہیں۔

۱۔ ولایت تکوینی:

اس سے مراد کائنات کے امور میں تصرف کرناہے۔ ایسی قدرت یا سرپرستی کہ آپ ہر شے میں تصرف کر سکیں۔ کائنات میں مختلف موجودات کو مراتب کے اعتبار سے یہ ولایت حاصل ہے۔ تاہم اس ولایت کا حقیقی منبع اللہ تعالی کی ذات ہے۔ با الفاظ دیگر حقیقی طور پر تکوینی ولایت صرف اللہ تعالی کی ذات کو حاصل ہے۔ اب اللہ تعالی نے اپنی مرضی کے مطابق ہر شے کو ایک حد تک ولایت دی ہے۔ مثلا حشرات، حیوانات، اور انسان ہیں۔ انسان کی ولایت حیوان اور حشرہ سے زیادہ ہے۔ عام انسان کائنات کے امور میں ایک حد تک تصرف کر سکتا ہے۔ اس کے بعد اولیاء کرام، و انبیاء عظام کی ولایت ہے۔ اسی طرح سے رسول اللہﷺ اور آئمہ معصومینؑ کی ولایت ان سب سے بڑھ کر ہے۔ جس کو زیادہ ولایت دی اس کے پاس قدرت بھی زیادہ ہوگی۔ مثلا معجزے کی قوت وغیرہ۔

۲۔ ولایت بر تشریع:

اس سے مراد قانون گذاری کا حق ہے۔ شریعت بنانا اور انسان کے لیے قانون مقرر کرنا صرف اللہ تعالی کے لیے ہے۔ نبی یا امام صرف قانون کو لے کر امت تک پہنچانے والے ہیں۔ خود سے قانون کو وضع نہیں کرتے۔ یا اپنی مرضی سے قانون نہیں بناتے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوا:

«فَاللَّهُ هُوَ الْوَلِیُّ».

ترجمہ: پس سرپرست تو صرف اللہ ہے۔[11]

سورہ یوسف میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

«إِنِ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلهِ».

 ترجمہ: فیصلہ تو صرف اللہ ہی کرتا ہے۔[12]

اختلافی مسئلہ

ولایت بر تشریع میں علماء تشیع نے اختلاف کیا ہے۔ بعض علماء کرام کا کہنا ہے کہ درست ہے کہ حقیقی طور پر ولایت بر تشریع صرف خدا کو حاصل ہے لیکن خود اللہ نے رسول اور امام کو بھی یہ اجازت دی ہے کہ وہ قانون بنا ئیں۔ لیکن یہ مسئلہ اختلافی ہے۔ ایک گروہ علماء کا کہنا ہے کہ رسول یا امام خود قانون نہیں بنا سکتا وہ صرف قانون کو لے کر اس کو اجراء کرنے والا ہے۔ لیکن درست قول یہ ہے کہ جزوی طور پر رسول یا امام بھی قانون بنا سکتے ہیں۔ اور یہ اجازت خود خدا نے ان کو دی ہے۔ الکافی میں کتاب الحجت میں ایک باب وارد ہوا ہے جس کا عنوان ’’باب التفویض فی امر الدین ‘‘ہے۔ تفویض کا کلمہ مشترک لفظی ہے۔ تفویض سے مراد ایک دفعہ معتزلہ کا افراطی نظریہ لیا جاتا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اللہ نے تمام قدرت انسان کو دے دی ہے۔ الکافی میں تفویض سے مراد یہ والا نظریہ نہیں ہے۔ اور دوسرا غالی فرقے کا نظریہ ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ کائنات کی تدبیر اللہ تعالی نے آئمہ معصومینؑ کو دے دی ہے۔ اس نظریے کو بھی تفویض کہا جاتا ہے۔ غالیوں کا نظریہ ہے کہ امام علیؑ خالق، رازق، اولاد دینے والے اور سب کچھ دینے والے ہیں۔ یہ نظریہ بھی تفویض کہلاتا ہے۔ ایک نظریہ فیض ہے جس میں وسائط کی بحث لائی جاتی ہے۔ نظریہ فیض اور نظریہ تفویض میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کیونکہ نظریہ فیض میں ہم بعض مقدس ہستیوں کو واسطہ قرار دیتے ہیں جبکہ تفویض میں یہ کہا جاتا ہے کہ خدا نے سب کچھ آئمہ معصومینؑ کے حوالے کر دیا ہے۔ ان دونوں میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔ بہرحال الکافی میں جو باب تفویض وارد ہوا ہے اس میں تفویض کے یہ دونوں معنی مراد نہیں ہیں بلکہ الکافی میں تفویض سے مراد یہ ہے کہ شریعت اور قانون اللہ تعالی کا ہے۔ دین اور شریعت میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ حلال محمد حلال الی یوم القیامۃ، اور حرام محمد حرام الی یوم القیامۃ ہے۔[13] لیکن جو چیزیں ثابت نہیں ہیں اور نئی پیش آ رہی ہیں ان میں اللہ تعالی نے یہ اختیار نبی اور امام کو دیا ہے کہ وہ قانون بنائیں۔[14] شیخ آصف محسنیؒ نے بھی اپنی کتاب معجم الاحادیث المعتبرہ میں اس باب سے احادیث لائی ہیں اور اس نظریہ کو درست قرار دیا ہے۔[15] تاہم یہ حق غیر معصوم کو حاصل نہیں ہے کہ وہ خود سے قانون گذاری کرے۔ لیکن نبی یا امام قانون گذاری کر سکتا ہے کیونکہ وہ جو کچھ بھی دیتا ہے وہ خدا کی جانب سے ہے جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

 «مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللهَ‌».

ترجمہ: جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔[16]

سورہ حشر میں وارد ہوا ہے:

«وَ ما آتاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَ ما نَهاکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا».

ترجمہ: اور رسول جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جاؤ۔[17]

ایک روایت میں الکافی میں وارد ہوا ہے:

«إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَدَّبَ نَبِیَّهُ فَأَحْسَنَ أَدَبَهُ فَلَمَّا أَکْمَلَ لَهُ الْأَدَبَ قَالَ- إِنَّکَ لَعَلى‌ خُلُقٍ عَظِیمٍ‌ ثُمَّ فَوَّضَ إِلَیْهِ أَمْرَ الدِّینِ وَ الْأُمَّةِ لِیَسُوسَ عِبَادَهُ».

ترجمہ: اللہ عز و جل نے اپنے نبی کو با ادب کیا اور بہت اچھا ادب کیا۔ جب ان کا ادب کامل ہوا تو فرمایا: بے شک آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔ اور اس وقت دین اور امت کے امور کو ان کے حوالے کیا تاکہ بندوں کی مدیریت کر سکیں۔[18] «لِیَسُوسَ عِبَادَهُ» کی تعبیر سے  پتہ چلتا ہے کہ خدا نے اپنے نبی کا تعارف سیاستدان کے طور پر کروایا ہے۔  زیارت جامعہ کبیرہ میں بھی آئمہ معصومینؑ کے لیے ساسۃ العباد کا کلمہ استعمال ہوا ہے۔ جس کا مطلب بنتا ہے کہ آئمہ معصومینؑ اللہ تعالی کے بندوں پر حقیقی سیاستدان ہیں۔[19]یہ لفظ کسی مفکر کا ایجاد کردہ نہیں ہے بلکہ ہمارے دینی منابع یہ لفظ وارد ہوا ہے۔ بہرحال لوگوں کے امور کی دیکھ بھال جسے سیاست کہتے ہیں، اللہ تعالی نے یہ امر نبی اور امام کو عطا کیا ہے۔ 

۳۔ ولایت تشریعی:

شریعت الہی و قانون الہی کے تابع رہتے ہوۓ معاشرے کی سرپرستی کرنا۔ ولایت تشریعی دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہے۔

۱۔ معاشرے کے نادار افراد کی سرپرستی

۲۔ معاشرے کے عام افراد کی سرپرستی

معاشرے کے نادار افراد کی سرپرستی سے مراد یہ ہے کہ وہ افراد جو محجور ہیں، سفیہ، یتیم، مریض، یا اپاہج لوگ ہیں جن کی سرپرستی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ ان افراد کی سرپرستی کرنا ولایت تشریعی ہے۔ جبکہ معاشرے کے عام افراد کی سرپرستی سے مراد یہ ہے کہ نادار طبقے کی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی مدیریت کرنا ولایت تشریعی ہے۔ ولایت فقیہ میں جو فقیہ کو ولایت حاصل ہے وہ ولایت تشریعی کی دوسری قسم ہے۔ فقیہ کو فقط نادار افراد کی ولایت حاصل نہیں ہے بلکہ عمومی طور پر پورے معاشرے کی مدیریت و سربراہی کا حق فقیہ کو حاصل ہے۔

ولایت کی ایک اور تقسیم

آیت اللہ مقتدائی نے ولایت کی قسمیں بیان کی ہیں:

۱۔ ولایت تکوینی

۲۔ ولایت تشریعی

فرماتے ہیں کہ ولایت تشریعی سے مراد ایک دفعہ فتوی دینے کی ولایت کا حاصل ہونا ہوتا ہے۔ جو ہر مجتہد کو حاصل ہے۔ ایک دفعہ ولایت سے مراد قضاوت کرنا ہوتا ہے۔ قاضی کو یہ ولایت حاصل ہوتی ہے۔ اور ایک دفعہ ولایت تشریعی سے مراد معاشرے کی سربراہی کرنا ہے۔ جب ولایت فقیہ میں فقیہ کی ولایت کی بحث ہوتی ہے وہاں ولی فقیہ سے مراد یہ نہیں ہوتا کہ وہ فتوی دینے کی ولایت رکھتا ہے، یا قضاوت کرنے کی ولایت رکھتا ہے۔ بلکہ ولی فقیہ سے مراد یہ ہوتا ہے کہ اسے معاشرے کی سربراہی کا حق حاصل ہے۔ رہبر معظم کو جب ولی فقیہ کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مجتہد ہیں اور بقیہ مجتہدوں کی طرح فتوی دے سکتے ہیں۔ رہبر معظم کے ولی فقیہ ہونے کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وہ قضاوت کر سکتے ہیں بلکہ ان کے ولی فقیہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پورے اسلامی معاشرے کے سربراہ و حاکم اور مدیر ہیں۔[20]

 

منابع:

 

↑1 راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ج۱، ص۵۳۳۔
↑2 ابن فارس، احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغۃ، ج۶، ص۱۴۱۔
↑3 مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج۱۳، ص۲۰۳۔
↑4 قیومی، احمد بن محمد، مصباح المنیر، ج۱، ص۳۴۶۔
↑5 علامہ طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۶، ص۱۲۔
↑6 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت در قرآن، ج۱، ص۸۳۔
↑7 بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، ج۶، ص۱۴۶۔
↑8 خمینی، سید روح اللہ، ولایت فقیہ،ج۱، ص۵۱۔
↑9 مفید، محمد بن نعمان، رسالۃ فی معنی المولی۔
↑10 مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج۱۳، ص۳۰۔
↑11 شوری: ۹۔
↑12 انعام: ۵۷۔
↑13 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۵۸۔
↑14 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۲۶۵۔
↑15 محسنی، محمد آصف، معجم الاحادیث المعتبرہ، ج۱، ص۴۷۶۔
↑16 نساء: ۸۰۔
↑17 حشر: ۷۔
↑18 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۲۶۶۔
↑19 زیارت جامعہ کبیرہ۔
↑20 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۲۳تا۱۲۵۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 August 22 ، 14:26
عون نقوی

{ دروس ولایت فقیہ: قسط۴۸ }

ضرورتِ ولایت فقیہ اور اس کے مقدمات

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

ولایت فقیہ کی باقاعدہ بحث اس کتاب کی تیسری فصل سے شروع ہوتی ہے ۔آج سے ہم باقاعدہ طور پر اس کتاب کی تیسری فصل میں داخل ہو رہے ہیں۔پہلی اور دوسری فصل میں ہم نے ولایت فقیہ کے مقدمات کو جانا۔ یہ مقدمات قرآن سے ماخوذ ہیں اور عقل بھی ان کی تائید کرتی ہے۔

آزادی اور انسان

ان مقدمات کو اگر ہم اختصار کے ساتھ بیان کرنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ولایت فقیہ کا پہلا مقدمہ انسان کی آزادی ہے۔ آیا انسان آزاد ہے یا نہیں؟ اگر آزاد ہے تو اس کی آزادی کی حدود کیا ہیں؟ آیا وہ مکمل طور پر آزاد ہے یا کچھ محدودیتیں بھی اس کو حاصل ہیں؟ اس کے جواب میں ہم نے بیان کیا کہ انسان آزاد ہے، اس کی خلقت کا مقصد رشد اور کمال ہے۔ اور رشد و کمال بغیر آزادی کے حاصل نہیں ہو سکتا۔[1] کائنات کی ہر شے رشد کررہی ہے انسان بھی کمال کا حصول چاہتا ہےاور اس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہم نے بیان کیا کہ اگر انسان کو مطلق طور پر آزادی دے دی جاۓ تو وہ سرکشی پر اتر آتا ہے اس لیے سرکشی کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے قانون کی ضرورت ہے۔[2] آزادی اور قانون کا بہت گہرا ربط ہے۔ یہیں سے ولایت فقیہ کی ضرورت پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر غیبت کے زمانے میں انسانوں نے دین کے مطابق زندگی گزارنی ہے تو آیا ان کو قانون اور نظم کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو ولایت فقیہ کی بھی ضرورت ہوگی۔[3]

قانون اور نظم کی ضرورت

اگر انسان فطرت کے عین مطابق زندگی گزاریں تو ممکن ہے انہیں قانون کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت فطرت کے مطابق نہیں بلکہ اپنی طبیعت کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ فطرت کی مثال بیج کی سی ہے۔ مثلا سیب کا بیج ہے اس کو زمین میں گاڑ دیں اور مناسب ماحول اور شرائط فراہم کریں تو سیب کے بیج سے سیب کا درخت ہی اگے گا ممکن نہیں کہ اس سے کوئی اور درخت وجود میں آ جاۓ۔ فطرت بھی اسی طرح سے ہے۔ اگر فطرت کے مطابق انسان زندگی گزاریں انسانِ کامل بن سکتے ہیں۔ لیکن انسان کے اندر اللہ نے فطرت کے ساتھ طبیعت بھی رکھی ہے اور طبیعت طغیان گر ہے۔ اس کی طغیانی کو روکنے کے لیے قانون کی ضرورت ہے اگر قانون نہ ہو تو انسانی معاشروں کے اندر نظم وجود میں نہیں آ سکتا اور افراتفری پھیل جاتی ہے۔ یہ سب مقدمات ہیں ولایت فقیہ کی بحث کے لیے جو آیت اللہ جوادی آملی دام ظلہ العالی نے اس بحث کے آغاز میں بیان فرماۓ۔ در اصل یہ سب عقلی اور قرآنی مقدمات ہیں باالفاظ دیگر یہ تفسیر قرآن بیان ہوئی ہے۔[4]

عبودیت میں انسانی آزادی

آزادی کے بارے میں ایک تفکر یہ ہے کہ انسان کامل طور پر آزاد ہونا چاہیے، اس کی طبیعت ہر قسم کی طغیانی کرنے میں آزاد ہو، مختلف شہوتیں انجام دینے کی اس کو اجازت ہو، پیسہ زمین مال سب عام ہو، افراد پر ظلم و ستم کی اسے اجازت ہو ۔ایسی آزادی یقینا کوئی بھی فطری انسان نہیں چاہتا۔ ایسی بے بند و بار آزادی ایک حیوان کو چاہیے۔ کیونکہ اگر انسان اتنا آزاد ہو جاۓ پھر وہ انسان نہیں رہتا بلکہ حیوان بن جاتا ہے۔[5] دین اسلام نے انسان کو محدود آزادی دی ہے۔ با الفاظ دیگر انسان آزاد تو ہے لیکن عبدِ خدا ہے۔ خدا کی عبودیت میں ہی اس کی آزادی ہے۔ اگر وہ خدا کا عبد نہ بنے تو دوسری اشیاء کا عبد بن جاۓ گا اور اس کی آزادی اس سے سلب ہو جاۓ گی۔ اگر خدا کا عبد نہیں تو پیسوں کا عبد بن جاۓ گا، مال کا عبد بن جاۓ گا کھانوں کا عبد بن جاۓ گا۔ اب یہ شہوتیں اس سے جو کروائیں گی یہ ویسا ہی کرے گا۔ اس کی مثالیں ہماری روز مرہ زندگی میں بہت ہیں۔ایک وزیر ہے اس کے پاس کروڑوں کا مال جمع ہے، دسیوں کھانے ایک وقت میں کھاتا ہے، بیسیوں افراد اس کے آگے پیچھے گھومتے ہیں لیکن پھر بھی اس کی اقتدار کی شہوت ختم نہیں ہو رہی۔ اس شہوت کو ختم کرنے کے لیے اور وزارت کے لیے یہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ امریکہ کا غلام بننے کو تیار ہے لیکن وزارت سے جان نہیں چھڑوا پا رہا۔ اسی کو غلام اور عبد کہتے ہیں لیکن یہ وزارت کا عبد ہے، خدا کا عبد نہیں۔ [6]ان سب مقدمات کا علم ہمارے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ انہیں کی مدد سے ہم اصل بحث میں داخل ہو سکتے ہیں۔

قانون گذاری اور بعثت انبیاء

یہاں تک ہم نے مان لیا کہ انسان کی آزادی محدود ہے اور اس کو آزادی کے لیے عبد بننا ہے۔ اب سوال پیدا ہوگا جب آزادی محدود ہے اور اسی محدود آزادی میں ہی اس نے کمال تک پہنچنا ہے تو اس کو قانون کی ضرورت ہوگی، تو قانون کو ن بناۓ؟۔[7] ہم نے عقلی اور نقلی دلائل سے یہ بات ثابت کی کہ صرف خدا قانون بنا سکتا ہے اگر بشر قانون بناۓ تو وہ ناقص ہوگا اور ممکن ہے انسان کے لیے مضر قانون بناۓ۔[8] قانون الہی کی تشریح اور اس کے نفاذ کے لیے اللہ تعالی نے انبیاء کرامؑ بھیجے۔ انبیاء الہی کا کام قانون الہی کی تبیین کرنا اور اس کو معاشروں میں نافذ کرنا ہے۔ اور یہیں سے امامت کا کردار بھی سامنے آ جاتا ہے۔ [9]اللہ کا قانون، دین اور شریعت اس لیے نہیں اترے کہ ان کو صرف بیان کر دیا جاۓ۔ بلکہ یہ شریعت نفاذ کے لیے اتری ہے۔ قانون صرف بیان کرنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ جب تک وہ نافذ نہ ہو جاۓ اس کی ضرورت کا فلسفہ پورا ہی نہیں ہوتا۔ انبیاء کرام کا کام صرف دین الہی بیان کرنا نہیں۔ انبیاء کرام اور آئمہ معصومینؑ کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اس شریعت اور قانون الہی کو معاشروں میں نافذ کربں۔

زمانہ غیبت میں شریعت اور اس کا وجودی فلسفہ

انسان کی خلقت ایک ہدف کے تحت ہوئی۔ اس ہدف تک پہنچنے کے لیے خدا نے شریعت کی شکل میں قانون الہی کو اتارا۔ انسان کی ہدایت کے لیے انبیاء کرام اور آئمہ معصومینؑ کو مبعوث فرمایا۔ کیوں؟ تاکہ انسان قانون الہی کے مطابق زندگی کرے اور کمال کی طرف بڑھ سکے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا غیبت کے زمانے میں یہ سارے فلسفے باطل ہو جائیں گے؟ شریعت کے نفاذ کا فلسفہ غیبت کے زمانے میں باطل ہو جاۓ گا؟ کیا دین الہی کے انسانوں پر عملی طور پر نافذ ہونے کی حکمت غیبت کے زمانے میں باطل ہو جاۓ گی؟ کیا دین خدا غیبت کے زمانے میں تعطیل پر ہے؟ عقل کیا کہتی ہے اور دین کیا کہتا ہے؟ کیا اب انسانوں کو کمال تک پہنچنے کی ضرورت ختم ہو گئی؟ جس ہدف اور مقصد کے لیے انبیاء آۓ اور آئمہ معصومینؑ نے قربانیاں دیں، جس مقصد کے لیے دین اترا وہ مقصد زمانہ غیبت میں پورا نہیں ہوگا؟ کیا زمانہ غیبت کا تقاضا یہ ہے کہ شریعت کو تعطیل کر دیں؟ دین کی اجتماعی ضرورت اب ختم ہو گئی؟ دین اسلام تو بشر کےتکامل کے لیے آیا تھا، مہدویت اور غیبت کا دور تو تکامل اور رشد کا زمانہ ہے تو یہ کیسا انحطاط اور تنزلی ہے جس کا شکار ہم ہو گئے؟ [10][11]زمانہ غیبت تو ایسا زمانہ ہے جس میں بشر نے تیار ہونا ہے اور مومنین نے آمادہ ہونا ہے عالمی حکومت کے لیے۔ اس دور میں مومنین نے امام زمانؑ کی عالمی حکومت اسلامی کے لیے میدان فراہم کرنا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جو ولایت فقیہ کو نا ماننے کی صورت میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے ولایت فقیہ کا انکار در اصل ان تمام اہداف کا انکار قرار پاتا ہے جس کے لیے دین اترا تھا۔ اگر اہم فردی نگاہ سے دین کو دیکھیں تو کہیں گے کہ دین تعطیل ہے امام آئیں گے تو خود وہ ٹھیک کریں گے۔ لیکن یہ نگاہ درست نہیں قرآن اور آئمہ معصومینؑ کی تعلیمات اس سے بالکل جدا ہیں۔

دین کا غلبہ اور قرآن

غیبت کے زمانے میں قانون الہی کی بھی ضرورت ہے اور اس کے نفاذ کی بھی ضرورت ہے۔ غیبت کے زمانے میں رہنے والے انسانوں کو عبودیت کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن کس عبودیت کی ضرورت؟ جو عبودیت صرف گھروں میں انفرادی طور پر ہو؟ یا ایسے قانون الہی کی ضرورت ہے جو صرف گھر کی چاردیواری میں نافذ ہو سکے؟ اللہ تعالی نے تو ایسا کوئی دین نہیں بھیجا جس کا دائرہ کار صرف گھر کی حدود میں ہو یا ایسی کوئی عبودیت قرار نہیں دی جو صرف گھر میں ہو۔ دین اسلام غلبہ کے لیے آیا ہے اور اللہ تعالی چاہتا ہے کہ کھل کر اس دین پر عمل ہو اور اس کے مطابق معاشرے عمل کریں۔ اعلانی طور پر دین کا نظام قائم ہو اجتماعی عبادات انجام دی جائیں۔[12] صرف امام غائب ہوا ہے دین تو غائب نہیں ہوا، دین کو کیوں تعطیل کر دیں ہم؟ دین کی جو اجتماعی ضرورت رسول اللہﷺ کے دور میں تھی وہ ضرورت آج بھی ہے۔ قانون الہی کی ضرورت اس وقت کے بشر کو بھی تھی اور آج کے بشر کو بھی اسی قانون الہی کی ضرورت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ قانون الہی نافذ ہو تو اس کے لیے خواہ نخواہ حکومت کی ضرورت ہوگی۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر عبودیت، قانون اور نظم کی ضرورت رسول اللہﷺ اور آئمہ معصومینؑ کے دور میں تھی تو یہی ضرورت آج غیبت کے زمانے میں بھی انسان کو ہے۔ اور اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے جس طرح ان زمانوں میں رسول یا امام تھے آج فقیہ ہے جو اس قانون الہی کو نافذ کرے گا اور معاشروں کو کمال کی طرف لے جاۓ گا۔

قانون اور حکومت کی ضرورت

مصنف نے اس کتاب میں ولایت فقیہ کے مقدمات قرآن کریم سے بیان کیے۔ ولایت فقیہ کی بحث میں دقت سے وارد ہونے کے لیے ان مقدمات کا جاننا ضروری ہے۔ انسان  آزاد ہے لیکن اس کی آزادی محدود ہے، اسے قانون کی ضرورت ہے۔ الہی قانون کی ضرورت ہے اور اس کو نافذ کرنے والا بھی ضروری ہے۔ اگر صرف قانون ہو لیکن اس کو نافذ نہ کیا جاۓ یا نافذ کرنے والا نا ہو تو یہ قانون کتابوں میں لکھا ہوا رہ جاتا ہے۔ اگر قانون الہی موجود ہو اور حاکم الہی نہ ہو جو اس کو قوت اور اقتدار کے ساتھ نافذ کرے تو لوگ امام علیؑ جیسے افراد کی بات بھی نہیں مانتے۔ سرکشی اور بغاوت کو بالآخر آپ کو حکومت کے ذریعے کنٹرول کرنا ہوگا۔ معاشرے کے استحکام کے لیے حکومت ضروری ہوتی ہے۔ اور یہ استحکام تدریجا آتا ہے ایک د و سال میں نہیں آ سکتا۔ امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں:

«لاَ بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ أَمِیرٍ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ».

ترجمہ: لوگوں کے لیے ایک حاکم کا ہونا ضروری ہے، خواہ وہ اچھا ہو یا برا ہو۔[13]

نظام امامت پر عقلی مقدمات

علامہ طباطبائیؒ تفسیر المیزان میں امامت پر عقلی دلیل قائم کرتے ہوۓ بالترتیب چند مقدمات ذکر کرتے ہیں۔[14]

پہلا مقدمہ

یہ زمین اللہ تعالی کی مخلوق ہے۔ اس خلقت ِخدا نے ایک دن نابود ہو جانا ہے سواۓ خدا کے ہر چیز کو فنا حاصل ہونی ہے ۔[15] چاہے کوئی مانے یا نا مانے بہرحال اس نے دنیا سے چلا جانا ہے۔ اللہ تعالی نے یہ کائنات قلیل مدت کے لیے قرار دی ہے۔ انسانوں کے لیے دنیا مقام ابتلاء و آزمائش ہے۔ اللہ تعالی نے اس دنیا کو جنت نہیں بنایا، آپ جتنی کوشش کر لیں اس کو جنت نہیں بنا سکتے۔ پس کوئی بے وقوف ہوگا جو اس دنیا کو جنت بنانا چاہتا ہے۔ زمین ابتلاء کے لیے ہے۔ انسان آۓ، نعمات سے استفادہ کرے، زحمت اٹھاۓ، مصیبتوں کا سامنا کرے تاکہ نکھر سکے، اللہ تعالی نے دنیا مصیبت اور نعمت کے بیچ میں رکھی ہے۔ کامل طور پر اس میں مصیبت ہے اور نا کامل طور پر نعمت۔

دوسرا مقدمہ

اللہ تعالی نے دنیا کے اندر تزاحم رکھ دیا۔ تزاحم سے مراد یہ ہے کہ ایک کا نفع دوسرے کا نقصان، اور دوسرے کا نقصان پہلے کے لیے نفع قرار پاتا ہے۔ بکرا مرتا ہے اس کو زندگی کھونا پڑتی ہے اور انسان اس کا گوشت کھا کے نفع حاصل کرتا ہے۔ ایک درندہ دوسرے جانور کو چیر پھاڑ کر اپنے کھانے کا بندوبست کرتا ہے۔ درندے کی طبیعت میں چیر پھاڑنا ہے، ہمیں ظلم لگتا ہے لیکن اس کی زندگی کے لیے یہی کام ضروری ہے ورنہ خود مر جاۓ گا۔ بلی اور چوہے کو ایک جگہ پر نہیں رکھ سکتے۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تزاحم کی حالت میں ہیں۔ ہر شے خود کا نفع اور دوسرے کا نقصان کر رہی ہے، سار ی خلقت ہی ایسی ہے۔ اگر ہم انسان گندم کے دانوں پر رحم کرنے لگ جائیں اور ان کو دانتوں کے ذریعے چبانا ظلم قرار دے دیں تو خود بھوکے مر جائیں گے، ہم گندم کھاکر اپنا نفع حاصل کرتے ہیں اور گندم کو نقصان۔یہ سب تزاحم ہے۔ ایک مالک ہے ایک مزدور، ایک مدیر ہے ایک کارکن، ان سب کی منفعتیں ہیں۔ جو ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور حالت تزاحم میں ہیں۔ اس تزاحم کی زندگی میں کیسے زندہ رہا جاۓ؟ اس کا چارہ صرف قانون ہے۔ اگر قانون نہ ہو تو سب مخلوقات نابود ہو جائیں۔ ہمیں قانون بنانا ہوگا اور ہر ایک کو اس کی ضروریات تک محدود کرنا ہوگا۔ ہمیں بتانا ہوگا کہ یہ آپ کا حصہ ہے اور یہ دوسرے شخص کا حصہ ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ایک شخص ہی سب کا حصہ لے لے گا۔

تیسرا مقدمہ

قانون کون بناۓ؟قانون کیسا ہو؟ ظاہر ہے اگر انسان قانون بنائیں گے تو وہ اپنی منفعت کو ترجیح دیں گے اور ایسا قانون بنائیں گے جو ان کے لیے سودمند ہو۔ یہاں سے امامت کا نظریہ پیدا ہوتا ہے۔ امامت کی ضرورت عقلی طور پر ثابت ہے۔ اللہ تعالی نے انبیاء کرام کو لوگوں کا امام بنا کر بھیجا تاکہ اس کے ذریعے لوگوں میں تزاحم ختم کیا جاۓ۔ ان کے اندر عدالت کا نظام برپا ہو سکے۔ قرآن کریم میں انبیاء کرام کی بعثت کا ہدف اس طرح سے بیان ہوا:

«لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ».

ترجمہ:  بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں۔ [16]

عصر حاضر کا تزاحم

ان مقدمات کے بعد اب سوال پیدا ہوگا کہ جس ضرورت کے تحت خدا نے قانون اتارا، شریعت بھیجی اور اس شریعت کو نافذ کرنے والے بھیجے، کیا اس کے نفاذ کی ضرورت آج ختم ہو گئی؟ جس انسانی تزاحم کو ختم کرنے کے لیے یہ سب اہتمام ہوا تھا کیا وہ ضرورت آج کے دور میں ختم ہو گئی؟ یا خود تزاحم ختم ہو گیا ہے؟ اگر عصرِ غیبت میں بھی تزاحم موجود ہے اور قانون الہی کو نفاذ کی ضرورت موجود ہے تو کیسے امامت کا انکار کیا جا سکتا ہے؟ واقعا بہت تعجب کی بات ہے جب ایک عالم دین نظام امامت کا انکار کرتا ہے۔ کیونکہ اس بات میں تو تمام عالَم اسلام کا اتفاق ہے کہ مسلمانوں کا نظام سیاسی امامت ہے۔ سب مسلمان ہی اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ قانون الہی ہونا چاہیے۔ قانون لانے والا بھی اللہ تعالی کا نمائندہ ہونا چاہیے۔ اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ قانون الہی کو نافذ کرنے والا بھی خدا کی طرف سے ہوگا یا لوگ خود اس کو چن سکتے ہیں؟ یہاں پر شیعہ سنی آپس میں اختلاف کرتے ہیں۔ شیعہ کہتے ہیں کہ قانون کو نافذ کرنے والا حاکم بھی الہی ہونا چاہیے، لوگ خود سے کسی کو اپنا حاکم نہیں بنا سکتے۔لیکن اہل سنت کہتے ہیں کہ حاکم کو لوگ خود چن سکتے ہیں۔

عصر غیبت میں امامت کا نظام

انبیاء کرامؑ اور آئمہ معصومینؑ کے دور میں تزاحم موجود تھا، اور آج بھی تزاحم موجود ہے۔ اُس دور میں بھی انسانی معاشروں کو الہی قانون کی ضرورت تھی اور آج غیبت کے دور میں بھی یہی ضرورت موجود ہے۔ پانی کم ہے آبادی زیادہ ہے، بجلی کم ہے لیکن اس کا خرچ زیادہ ہے، وسائل کم ہیں لیکن ان کو استعمال کرنے والے زیادہ ہیں۔ اس تزاحم کے ہوتے ہوۓ کیسے ممکن ہے کہ ہم کہیں آج کے دور میں نظام امامت کی ضرورت نہیں؟ آج کا انسان شدید طور پر تزاحم کا شکار ہے اور آج اس کو پہلے سے زیادہ الہی قانون اور اس کو نافذ کرنے والے کی ضرورت ہے۔ لیکن کیا نعوذباللہ اللہ تعالی نے غیبت کے دور کے لیے اس کا کوئی اہتمام نہیں کیا ہوا؟ کیا یہ گمان کرنا اللہ تعالی کے بارے میں درست ہے کہ جب تزاحم کم تھا تو اس وقت تو نظام امامت قرار دیا لیکن آج جب تزاحم شدید تر ہو گیا ہے لوگوں کو امامت کے نظام کی ضرورت نہیں؟ آج کے معاشروں کو نجات دینے والا کون ہے؟ الہی قانون کس کے ہاتھوں نافذ ہو؟ آیا آج کے انسان کو الہی قانون کی ضرورت ہے بھی یا نہیں؟ اگر ہے تو اس قانون کو نافذ کرنے کے لیے الہی حاکم کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو وہ کون ہے؟ آج کے دور میں تزاحم سے نجات کون دے گا؟ ریاست کا مدیر، رہبر اور حکمران کون ہوگا؟یہ وہ سوالات ہیں جو ولایت فقیہ کو نہ ماننے کی صورت میں ابھرتے ہیں ۔ اور ان کا جواب یہی ہے کہ غیبت کےدور میں انبیاء کرامؑ اور آئمہ معصومینؑ کی نیابت میں فقہاء یہ ذمہ داری ادا کریں۔  

ثقیفہ میں مسلمانوں کا انتخاب اور آج کے انتخاب

۱۱ ہجری میں مسلمانوں کو تزاحم سے بچانے کے لیے حکمران چننے کی ضرورت پڑی تو انہوں نے ثقیفہ میں جا کر خود سے ایک حکمران انتخاب کر لیا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر حکمران نہ ہوا تو معاشرے میں تزاحم وجود میں آۓ گا۔ آج بھی تمام انسانی معاشروں کا یہی مسئلہ ہے۔ پاکستان کے معاشرے میں ریاست کا مدیر کون ہو؟ تزاحم کو ختم کون کرے؟ مسلمین کے امور کس کی نظارت میں ہوں؟ مسلمین کا اختیار اور ان کے فیصلے کون کرے؟ ظاہر ہے ۱۱ ہجری میں انہوں نے ایک شخص کو اپنے میں سے انتخاب کیا تو اس وقت کے حقیقی امام  اور شیعہ نے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور کہا کہ کہ حکمران عوام نہیں چن سکتے بلکہ یہ اختیار اللہ تعالی کے پاس ہے۔ حاکم و امام ہمیشہ منصوص من اللہ ہوگا۔ آج پاکستان میں بھی ہم مسلمانوں کو یہی مسئلہ درپیش ہے۔ پاکستانی معاشرے میں بھی تزاحم موجود ہے، افراد کے منافع اور نقصان ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوۓ ہیں، مقتدر افراد سب کچھ ہڑپ لینا چاہ رہے ہیں اور غریب دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے۔ ان حالات میں تزاحم کو ختم کون کرے؟ قانون الہی کو نافذ کون کرے؟ عوام کا منتخب شخص یہ کام کرے یا آج کے دور میں بھی الہی حاکم ہو سکتا ہے؟ اگر آج کے دور میں اللہ تعالی نے ہمارے لیے کسی کو حاکم مقرر نہیں کیا تو پہلے ادوار میں کیوں مقرر کیا؟ کیا آج غیبت کے دور میں اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنا ضروری نہیں؟ یقینا یہ ایسی بات ہے جو عدل الہی کے برخلاف ہے۔ غیبت امام زمانؑ کا مطلب یہ نہیں کہ امت فساد کا شکار ہو جاۓ، اس پر طاغوت اور بدترین افراد حاکم ہو جائیں اور محرومیت کی زندگی گزاریں۔ غیبت کا دور محرومیت کا دور نہیں بلکہ رُشد کا دور ہے۔

ولایت فقیہ اسلامی مسئلہ

ان مبانی کی تبیین کے بعد ولایت فقیہ کی دلیل واضح ہو جاتی ہے۔ جس طرح امامت اسلامی مسئلہ ہے اسی طرح ولایت فقیہ بھی اسلامی مسئلہ ہے۔ ولایت فقیہ اسلامی معاشرے کے لیے اہم ترین مسئلہ ہے اس کو عراقی معاشرے، ایرانی معاشرے اور پاکستانی معاشروں کے ساتھ خاص قرار نہیں دے سکتے۔ ولایت فقیہ قومی مسئلہ نہیں بلکہ ضروریات دین اسلام میں سے ہے۔ مسلمانوں کے اوپر کیسے لوگ حکمران ہوں اور کیسا قانون ان پر نافذ ہو؟ یہ بات ایک بڑی حد تک ان کی دنیوی اور اخروی زندگی کو متاثر کرتی ہے۔ ملک کی سیاست انسانوں کے تمام شعبہ جات کو متاثر کرتی ہے۔ سیاست آپ کے دین کو متاثر کرتی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو آج کا انسان بہت بخوبی جانتا ہے ممکن ہے ماضی کا انسان اس کو بہتر نہ سمجھتا ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ اسلامی معاشروں میں نظام اسلامی ہو، قوانین اسلامی ہوں، حاکم اسلامی ہو ورنہ جو نظام آۓ گا مسلمانوں کا رخ اسی طرف موڑ دے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ جب کیمونزم آیا تو پوری دنیا کو متاثر کیا، اس کے بعد سرمایہ دارانہ نظام آیا۔ اور آج جمہوریت کے نظام کو ہم دیکھتے ہیں کہ پوری دنیا پر اسی نظام کا راج ہے۔ بعض نے جمہوریت کو بھی اسلامی کر دیا۔ خود ایران میں جب جمہوری اسلامی کہا جاتا ہے تو بارہا ذکر ہوا کہ اس سے مراد مغربی جمہوریت نہیں۔ امام خمینیؒ نے یہ کلمہ مغربی مفکرین سے نہیں لیا۔ جمہوریت کی جو تفسیر اسلامی مفکرین بالخصوص رہبر معظم اور امام خمینیؒ کرتے ہیں وہ مغربی جمہوریت سے بالکل جدا ہے۔ اس لیے دونوں کو جدا کرنا ضروری ہے۔[17]

منابع:

 

↑1 سائٹ البر۔
↑2 سائٹ البر۔
↑3, ↑7 سائٹ البر۔
↑4, ↑8 سائٹ البر۔
↑5 سائٹ البر۔
↑6 سائٹ البر۔
↑9 سائٹ البر۔
↑10 سائٹ البر۔
↑11 سائٹ البر۔
↑12 صف:۹۔
↑13 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۴۰۔
↑14 طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۲، ص۱۶۹۔
↑15 قصص: ۸۸۔
↑16 حدید: ۲۵۔
↑17 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۲۰تا۱۲۲۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 August 22 ، 14:00
عون نقوی

{ دروس ولایت فقیہ: قسط۴۷ }

مدینہ فاضلہ کے مقابلے میں سازشی عناصر

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

جب سے زمین خلق ہوئی ہے حق اور باطل کی جنگ جاری ہے۔ ایک طرف رحمانی طاقتیں ہیں جو حق کا غلبہ چاہتی ہیں اور دوسری طرف شیطان کاگروہ ہے جو مکتب کی شکل میں پوری دنیا پر غالب آنا چاہتا ہے۔ آج ہم یہودیت اور عیسائیت  کی شکل میں نہیں بلکہ باقاعدہ شیطان پرستی کا مذہب دیکھتے ہیں۔ پوری دنیا پر ان کا ایک طرح کا قبضہ ہے۔ سیاسی اور اقتصادی فیصلے پوری دنیا میں انہیں کے اشاروں پر ہوتے ہیں۔ شیطان پرستی کا نشان ہے اس نشان کو آپ مختلف پروڈکٹس پر دیکھ سکتے ہیں۔ پوری دنیا میں یہ لوگ ادارے خریدتے ہیں، سسٹم چلاتے ہیں، ان کے نظریات ہی نافذ نظر آتے ہیں۔ تعلیمی اداروں اور میڈیا کے ذریعے پوری  دنیا میں اپنے نظریات کی تبلیغ کرتے ہیں۔ مثلا ہمجنس بازی، انسان کی حیوان سے شادی، انسان کی اشیاء سے شادی، شتر بے مہار آزادی،  اور ہر قسم کی اقدار کے خلاف کھڑا ہونا ان کے مقاصد ہیں۔ لیکن دوسری طرف حق کا لشکر کھڑا ہے جو قلیل ہے لیکن موجود ہے۔ اس کا نعرہ عبودیت ہے۔ اس کا شعار یہ ہے کہ معاشرے عبد بن جائیں۔ انسانوں کی حیثیت عبد کی سی ہے وہ اللہ تعالی کے محتاج ہیں۔ انسان کی سرکشی اور بغاوت کو روکنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس مکتب کو چونکہ افراد بہت قلیل ملے ہیں اور مبلغ بھی کم ہیں اس لیے موجود تو ہے لیکن غالب نہیں ہو پا رہا۔ اس کے مقابلے میں شیطان پرست ہیں وہ اپنا کلچر، قوانین، لباس، حتی لوگوں کی سوچ بھی اپنے مطابق کررہے ہیں۔ لوگ ا ب انہیں کے قوانین کو قبول کرتے ہیں۔ حکومتی ڈھانچے شیطان پرست بنا کر دیتے ہیں، بڑے عہدوں پر فائز ہونے والے افراد کی تربیت بھی یہی لوگ کرتے ہیں۔ پاکستان میں آج یہ سب کچھ کھل کر ہو رہا ہے۔ اقتصاد کی وزارت کس کو ملے گی؟ ثقافتی اور تعلیمی وزارت کس کو ملنی ہے؟ ملک کی افواج کا چیف کس نے بننا ہے؟ باقاعدہ یہ سب لوگ باہر سے تربیت لے کر آتے ہیں ، ان کی نشو و نما پاکستان کے کلچر اور اس ملک عزیز کی اقدار کے مطابق نہیں ہوتی۔ بلکہ جس نے بھی مدیر بننا ہو باہر کا تربیت یافتہ ہوتا ہے۔ اس لیے آپ دیکھتے ہیں کہ جب بھی ملک کا نقصان ہوتا ہے تو یہ لوگ فورا غائب ہو جاتے ہیں کیونکہ  یہ پاکستانی ہوتے ہی نہیں اور نا ہی ان کی وفاداریاں پاکستان کے ساتھ ہوتی ہیں۔ ہمارے وطن عزیز میں شیطان پرستی کااتنا اثر و رسوخ ہے کہ آپ ایک مذہبی چینل تک نہیں کھول سکتے۔پیمرا (پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی)اجازت نہیں دیتا انہوں نے شرائط ہی ایسی رکھی ہوئی ہیں کہ اگر آپ چینل کھولتے ہیں تو سب فساد اور فتنہ نشر کرنا پڑے گا۔ بے پردگی، بیہودا اشتہارات وغیرہ کو نشر کرنا ہوگا ورنہ چینل کا مجوز ہی نہیں دینگے ۔   

حق کا غلبہ

آج آپ اسلامی معاشروں میں ایک ٹکراؤ دیکھ رہے ہیں۔ بعض ممالک تو شیطان پرستی کے آگے ڈھیر ہو چکے ہیں اور اپنا مذہب، فرہنگ، اور اقدار شیطان پرستی کے مطابق ڈھال چکے ہیں۔ لیکن بعض ممالک ابھی بھی اس سے لڑ رہے ہیں۔ ان حالات میں مومنین کے لیے ناامیدی بہت کاری ضرب واقع ہو سکتی ہے۔ اگر ہم مایوس ہو جائیں تو مردہ ہو جائیں گے اور باطل بالاتر ہو جاۓ گا۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ معاشروں میں امید پیدا کی جاۓ۔ قرآن کریم کا فرمانا ہے:

«وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوقًا».

ترجمہ: اور کہدیجئے: حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل کو تو یقینا مٹنا ہی تھا۔[1]

درست ہے کہ آج باطل ابھرا ہوا نظر آ رہا ہے لیکن اس نے مٹ جانا ہے۔ باطل کا زہوق تدریجی ہے۔ اور حق بھی تدریجا آتا ہے۔ باطل جتنا بھی طاقتور ہو جاۓ بالآخر اس نے ختم ہونا ہے۔ یہ ہمارے اوپر منحصر کرتا ہے کہ ہم کس کا ساتھ دیں اور کس کی تبلیغ کریں؟ حق کی یا باطل کی؟ اجتماعی زندگی کس کے مطابق گزاریں؟ ہم یہ نہ دیکھیں کہ مسلمان بہت زیادہ ہیں اور مدرسے وغیرہ بن رہے ہیں۔ جی نہیں! بلکہ یہ دیکھیں کہ یہ مسلمان اور ان کے ادارے کس طرز پر زندگی کر رہے ہیں؟ اسلامی طرز پر یا مغربی طرز پر؟ ان کے اجتماعی نظام اسلامی ہیں یا غیر اسلامی؟کیونکہ مسلمان معاشرے تو موجود ہیں، مساجد و مدارس اور دینی ادارے بھی بہت ہیں لیکن انہیں اداروں میں ہی منفی افراد موجود ہیں۔ حتی مجتہد کی سطح تک کے افراد گمراہ نظر آتے ہیں۔ اور یہ جنگ ہر دور میں رہی ہے۔امام علیؑ کے دور میں بھی یہی مسئلہ تھا۔ اس دور کے زہاد ثمانیہ موجود ہیں۔ زہاد ثمانیہ یعنی آٹھ زاہد، ان میں سے چار امام علیؑ کے لشکر میں تھے اور چار معاویہ کے لشکر میں۔[2] فقہاء، تابعی امیرالمومنینؑ کے لشکر میں بھی تھے اور معاویہ کے لشکر میں بھی تھے۔ آج حوزہ جات علمیہ اور مدارس دینیہ بھی اسی مشکل کا شکار ہیں۔ ہر عمامہ پہن لینے والا، داڑھی بڑھا کر مجلس پڑھنے والا ضروری نہیں کہ علیؑ والا ہو۔ معیار اس کی شخصیت نہیں بلکہ حق معیار ہے۔ اگر حق کا ساتھ دیتا ہے تو اس کی حمایت کریں اور اگر حق کی تضعیف کرتا ہے اور باطل کی راہوں کو سپورٹ کرتا ہے تو اس کو معاشروں میں بے عزت کریں۔ اگر یہ معاشروں میں عزیز ہو گیا تو یہ اسلام کو بے اہمیت کر دے گا۔ یہ نہ دیکھیں کہ کتنی کتابوں کو اس نے پڑھایا ہے، کتنا اچھا مدرس ہے، کتنی اچھی مجالس پڑھتا ہے اور اس کی مجالس میں مومنین کا رش لگا ہوتا ہے۔ یہ دیکھیں کہ اس کی باتیں، اس کی عادات اطوار اور فعالیت حق کے لشکر کو تقویت دے رہی ہے، اس کی باتیں حق کے لشکر کو فائدہ دیتی ہیں، عوامی رُشد اور اصلاح کی باعث بنتی ہیں تو قابل ستائش ہے چاہے اس کی بات کو بہت کم لوگ سنتے ہوں، چاہے اس کو کوئی بھی نہ جانتا ہو، لیکن اگر اپنی باتوں، اپنی ابحاث سے باطل کے لشکر کو حمایت پہنچا رہا ہے تو اس کو معاشروں میں مت ابھرنے دیں۔

باطل اور نفاق کا مٹنا

اسلام کو تقویت دینا اس امر کا باعث بنتا ہے کہ نفاق اور باطل مٹتا چلا جاتا ہے۔ اور جب اسلام کو تقویت حاصل ہو جاۓ تو معاشرے اللہ تعالی کی طرف گامزن ہو جاتے ہیں۔ امام علیؑ نے اپنے دور حکومت میں یہ کام کرنا چاہا لیکن ان کو شہید کر دیا گیا۔ امامؑ کو پانچ سال کے لگ بھگ حکومت کرنے کا موقع ملا، اس مدت میں مختلف مسائل کھڑے ہوۓ۔ ایک طرف سے گزشتہ خلفاء کی بدعات تھیں جو دین اور مومنوں کو اندر سے ضعیف کر رہی تھیں، اور دوسری طرف سے شامیوں کی حق کے امام کے خلاف بغاوت۔ جنگ جمل اور جنگ نہروان اس کے علاوہ ایک اور میدان تھا جس کو امام نے فتح کیا۔ خلفاء کی ایجاد کردہ بدعات میں سے امامؑ ایک بدعت کو بھی مکمل طور پر ختم نہیں کر سکے کیونکہ امت تیار نہ تھی، تراویح کو ختم کرنا چاہا تو مسجد میں ہنگامہ شروع ہو گیا، فدک کی بات بھی نہیں چھیڑی کیونکہ اس بات کا اندیشہ تھا کہ امام پر حکومت اور اقتدار کے ناجائز استعمال کا الزام لگتا۔جی ایسا ہرگز نہیں بلکہ امامؑ سے ایک روایت منقول ہے جس میں امامؑ بدعات کو ختم نہ کرنے کی وجہ بیان فرماتے ہیں:

«قَدْ عَمِلَتِ الْوُلَاةُ قَبْلِی اَعْمَالًا خَالَفُوا فِیهَا رَسُولَ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) مُتَعَمِّدِینَ لِخِلَافِهِ نَاقِضِینَ لِعَهْدِهِ مُغَیِّرِینِ لِسُنَّتِهِ وَ لَوْ حَمَلْتُ النَّاسَ عَلَی تَرْکِهَا وَ حَوَّلْتُهَا اِلَی مَوَاضِعِهَا وَ اِلَی مَا کَانَتْ فِی عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) لَتَفَرَّقَ عَنِّی جُنْدِی حَتَّی اَبْقَی وَحْدِی اَوْ قَلِیلٌ مِنْ شِیعَتِیَ».

ترجمہ: مجھ سے پہلے کے خلفاء نے کچھ کام ایسے انجام دیے ہیں کہ ان میں رسول اللہﷺ کی مخالفت کی۔ اور عمدی طور پر اس عہد کی مخالفت کی جو رسول اللہﷺ سے انہوں نے کیا۔ ان کے عہد و پیمان کو توڑا اور ان کی سنت کو تبدیل کر دیا۔ اور اگر میں لوگوں کو ان بدعات کے ترک کرنے کا کہوں اور ان کو اسی پہلے والے مقام پر لے جاؤں جس مقام پر وہ رسول اللہﷺ کے دور میں تھے تو میرا لشکر پراکندہ ہو جاۓ گا۔ اور میں تنہا رہ جاؤنگا یا بہت قلیل میرے شیعہ میرے پاس رہ جائیں گے۔[3]

امامؑ کے دور میں ان فقہی مسائل سے بڑھ کر بڑی نوعیت کے گھمبیرمسائل موجود تھے۔ امنیت کے مسائل اور مسلمین کی جانوں کے دفاع کا مسئلہ تھا۔ جب امیرالمومنینؑ کو ان بڑے مسائل کو حل کرنے کا موقع نہیں دیا گیا تو وہ ان فقہی مسائل کو کیسے حل کرتے؟ لوگوں کے اندر شدید قسم کا پروپیگنڈہ کیا گیا، امامؑ ریاست کے اندر افراتفری مچانے والے بدمعاشوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیتے تو آگے سے کوئی اطاعت کرنے والا ہی نہ ہوتا۔ یہی ٹکراؤ آج بھی موجود ہے۔ باطل ابھرا ہوا نظر آ رہا ہے لیکن ہم مایوس نہ ہوں۔ ہمارا وظیفہ یہ ہے کہ حق کی حمایت کریں، نظامِ حق کی تضعیف نہ کریں اور نا کسی کو تضعیف کرنے دیں۔ کم از کم اتنی حمایت حق کی ضرور کریں کہ ہماری فعالیت، ہماری ابحاث ،دروس، تقریریں اور باتیں اہل حق کو تقویت دیں۔ اس وقت دنیا کے سب شیطانی لشکر، امریکہ، اسرائیل، طالبان، داعش، سب ہی ولایت فقیہ کے نظام کے دشمن ہیں۔ اور اس نظام کو ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ اگر اسی اثناء میں ایک عالم نما شخص ولایت فقیہ کے نظریہ کو اساس سے ہی متزلزل کر دے اور کہے کہ ولایت فقیہ تو ثابت ہی نہیں۔ تو اس نے کس کا ساتھ دیا؟در اصل اس نے باطل کے گروہ کو امریکہ اور داعش کی حمایت کی ہے۔ اس نے تشیع کو نابود کر دیا ہے۔ جس اسلام کی وجہ سے اس کی لوگوں میں عزت ہے، جس کی وجہ سے اسلام دنیا میں عزیز ہوا اور غالب ہوا، اس کی یہ عالم نما انسان تضعیف کر رہا ہے۔

حق کی تضعیف اور باطل کو تقویت

یہ لوگ جو سوشل میڈیا پر ہمیں متحرک نظر آتے ہیں، جانے یا انجانے میں دشمن کا ساتھ دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر حق کی تضعیف کا باعث بنتے ہیں۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ یہ کام مت کریں تو آگے سے دلیلیں لے آتے ہیں کہ ولایت فقیہ کا مسئلہ تو ہے ہی اختلافی۔ اس لیے اختلافی مسئلہ ہم پر حجت نہیں اور اس پر مختلف شبہات کھڑے کرتے ہیں۔ اگر ایسی بات ہے تو پھر تو سارا دین ہی اختلافی ہے۔ فقہ کے تمام فتاوی اختلافی ہیں، حتی قیاس حنفی کے قائل بھی ہمارے بعض مجتہد رہے ہیں پھر ان سب کو رد کر دیں کیا؟ پھر تو اصول فقہ کے بہت سے ضابطے اختلافی ہیں اگر ان کو اکٹھا کر کے کسی کی شخصیت یا نظریے کو اڑانا ہے تو پھر تو کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ اس وقت ولایت فقیہ ایک محاذ بن چکا ہے۔ اس وقت شیطان کا پورا گروہ، غربی، عبری اور عربی دشمن اس نظام اسلامی کو ختم کرنے کے درپے ہے، پیسہ خرچ کر رہا ہے، اندر سے کمزور کر رہا ہے، پہلے آٹھ سال جنگ مسلط کی، اور پورے ایران کو ویران کر دیا، بعد میں بدترین اقتصادی پابندیاں لگائیں جو آج تک موجود ہیں، دشمن ولایت فقیہ کے اسلامی نظام کو ختم کرنا چاہتا ہے لیکن اللہ نے اس نور کو بچایا ہوا ہے اور آپ اسی کو ہی مشکوک بنا رہے ہیں؟

ولایت فقیہ کی مختلف جہات

اگر آپ ولایت فقیہ پر بحث کرتے ہیں تو علمی بحث کریں۔ ایسا نہیں کہ ادھر سے بات سنی، استاد سے پوچھا اور دو تین مقالے پڑھ کر پورے نظریے کو ہی مشکوک بنا کر خود کو سوشل میڈیا پر دشمن کے لشکر میں لا کھڑا کیا۔ جب بھی ولایت فقیہ کے نظریے پر بحث کریں پہلے مشخص کریں کہ اس بحث کو کہاں سے اٹھایا؟ کس شخصیت کے نظریہ پر بحث کرنی ہے؟ اس شخصیت نے جب یہ نظریہ بیان کیا ہے تو اس کے مقدمات کو پڑھیں۔ مثلا جس کتاب کو ہم زیر بحث لا رہے ہیں اس کتاب کے مصنف آیت اللہ جوادی آملی دام ظلہ العالی نے اس نظریے کو تیسری فصل میں بیان کرنا شروع کیا ہے۔ پہلی دو فصلیں اس بحث کا مقدمہ ہیں۔ اگر ان مقدمات کو جانے بغیر اصل بحث میں داخل ہو جائیں ،اشتباہ ہے۔ اسی طرح سے دیگر اسلامی مفکرین نے بھی اس نظریہ کو بیان کیا ہے ان کی بات کو سمجھنے کے لیے ان مقدمات کا جاننا ضروری ہے جن کی اساس پر انہوں نے یہ نظریہ بیان کیا ہے۔ آیت اللہ مصباح یزدیؒ کا نظریہ ولایت فقیہ، آیت اللہ ہادی معرفت کی کتاب ولایت فقیہ، اور خود امام خمینیؒ کا نظریہ ولایت فقیہ، ان سب شخصیات نے اپنی اپنی کتابوں میں اس نظریے کا روائی اور فقہی جائزہ بھی لیا ہے اور اپنے طور پر اس کے مقدمات بھی بیان کیے ہیں۔ ان سب شخصیات کو پڑھنا ہوگا، بعض نے تو سات یا آٹھ مقدمات بیان کیے ہیں اگر ان مقدمات کو مطالعہ کیے بغیر آپ ولایت فقیہ کو بحث کر رہے ہیں گویا آپ نے سوال ہی نہیں سمجھا جس کا جواب دے رہے ہیں۔ ولایت فقیہ مناظرہ کا موضوع نہیں جس طرح امامت مناظرہ کا موضوع نہیں تھا اور ہم نے اسے مناظروں کا عنوان قرار دے دیا۔ مناظرے میں تو کچھ بھی ثابت نہیں ہو سکتا، مناظرے میں تو معجزہ بھی آپ لے آئیں تب بھی منکر نہیں مانتا۔ موسیؑ معجزہ لے آۓ لیکن فرعون نے اسے سحر قرار دے دیا۔ ضد بازی اور حق کا انکار کسی بھی بات کو ثابت نہیں ہونے دیتا۔ اس کا فائدہ نہیں۔ ہاں اگر کوئی واقعی سمجھنے کے لیے پوچھتا ہے تو اس کو سمجھانا ضروری ہے۔ لیکن جو شخص پہلے سے ہی طے کر کے آیا ہو کہ اگلے کو ہرانا ہے تو اس سے بحث کا فائدہ نہیں۔ ایک اور مسئلہ جو عموما پیش آتا ہے وہ یہ کہ طلاب اور علماء کرام جب ولایت فقیہ کو بحث کرتے ہیں تو اس کو صرف فقہی جہت سے دیکھتے ہیں، مختلف فقہاء کی آراء لاتے ہیں، روایات لاتے ہیں ان کی سندی بحث اور دلالت و حجیت کی بحث کر کے فورا حکم لگاتے ہیں کہ یہ نظریہ درست ہے یا مردود۔ جبکہ ولایت فقیہ کی ایک کلامی جہت ہے کہ ہم امامت کے ذیل میں اس کا جائزہ لیتے ہیں اور ایک ولایت فقیہ کی سیاسی جہت ہے جسے علوم انسانی کے ذیل میں مورد بحث قرار دیا جاتا ہے۔ اگر ان دو جہات سے صرف نظر کیا جاۓ تو اس بحث پر ہم گفتگو نہیں کر سکتے۔ عموما ہم لوگ اس نظریہ کو سیاسی اور اجتماعی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور نا ہی مطالعہ کرتے ہیں اس لیے باریک بینی سے اس نظریہ کا مطالعہ نہ ہوتے ہوۓ بہت سطحی حکم لگاتے ہیں۔ 

فقہ سیاسی اور فقہ اجتماعی

آج علوم بہت ترقی کر چکے ہیں اگر آپ حوزہ میں بیٹھ کر ایک نظریہ کا صرف فقہ کی جہت سے مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں آپ کی غلطی ہے۔ انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے بعد بہت سے جدید مسائل پیش آۓ اور الحمد للہ فقہاء کرام کو نئے نئے مسائل پر اجتہاد کرنے کی زحمت اٹھانا پڑی۔ آج فقہ سیاسی اور فقہ اجتماعی کے نام سے الگ الگ ڈیپارٹمنٹ موجود ہیں جو جدید مسائل پر تحقیق کرتے ہیں۔ خود آیت اللہ سیستانی دام ظلہ العالی کے جدید استفتائات کے نام سے کتب سامنے آئی ہیں، جن میں جدید مسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ مثلا بینک کے مسائل، کرپٹو کرنسی کے مسائل، الیکشن اور ووٹنگ کے مسائل، مغربی دنیا میں رہنے والے مومنین کے مسائل، ویزے کے بغیر بارڈر پار کرنا اور زیارت کرنے کا حکم وغیرہ۔ اسی طرح سے سیاسی مسائل، سیاست خارجی، حقوق کی بحث، حقوق انسانی، حقوق مدنی، پر درس خارج ہو رہے ہیں۔ آج فقہ اجتماعی پر بہت سے مراجع درس خارج دے رہے ہیں، علوم میں بہت وسعت آگئی ہے۔ تاہم ان دروس کی کاوشیں اور ان پر تحقیق آئندہ سالوں میں سامنے آئے گی۔ لیکن الحمد للہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ جدید مسائل اور حالات حاضرہ سے آگاہی اس وقت عالم دین کے لیے پہلے سے زیادہ ضروری ہو گئی ہے۔ دنیا کے حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں۔ جنگ کا ماحول ہر طرف سے شدت دکھا رہا ہے۔ پوری دنیا میں ظلم و ستم بڑھ رہا ہے۔ ان جنگوں کا آغاز اگرچہ امریکہ کی طرف سے ہوا تاہم روس بھی ظلم کر رہا ہے ہم کسی ایک کی طرفداری نہیں کر سکتے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ یوکرائن کو ان حالات تک خود امریکہ نے پہنچایا ہے۔ پاکستان میں بھی یہی مسائل ہیں فکری طور پر انخلاء موجود ہے۔ بڑے جرائم  پر تو خاموشی ہے اور کوئی تجزیہ تحلیل کرنے کی جرات نہیں کرتا اور اس کی مختلف توجیہات پیش کی جاتی ہیں لیکن اسلامی نظریات اور اسلامی حکومت کو تضعیف کرنے کے لیے دلائل کے انبار موجود ہیں۔

ولایت فقیہ کے نظریہ کا دفاع

ولایت فقیہ کے نظریے کا دفاع در اصل مدینہ فاضلہ کے نظریے کا دفاع ہے۔ ہم جب نظام ولایت کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ ہم مدینہ فاضلہ (Ideal) آئیڈیل ریاست کے خواہاں ہیں۔ لیکن یہ بات آج بہت سے شیعوں، حتی طلاب اور علماء کو سمجھ میں نہیں آ رہی۔ آج ہماری ہی مومنین کی انجمنیں اور تنظیمیں یہ بات نہیں سمجھ پا رہیں کہ ولایت فقیہ کیا ہے اور اس سے دشمنی کر رہے ہیں۔ نجف اور قم سے بیٹھے بعض علماء اور طلاب اس نظریے کی تضعیف کر رہے ہیں۔ جب کہا جاۓ کہ اسلام سے دشمنی مت کریں تو کہتے ہیں کہ ہم نے کب اسلام سے دشمنی کی ہم تو ایک اختلافی موضوع بیان کر رہے ہیں اور اس اختلافی موضوع میں ہمیں ایک راۓ اختیار کرنے کا حق حاصل ہے۔ اختلاف کرنے کا حق ضرور ہے لیکن آپ جانے یا انجانے میں دشمن کو تقویت پہنچا رہے ہیں اور اگر عمدا یہ کام کر رہے ہیں تو دشمن سے بھی بدتر ہیں۔ کیونکہ ایک دفعہ دشمنی کا انداز یہ ہوتا ہے کہ آپ دشمن کا روپ لے کر مقابلہ کرتے ہیں اور آپ کی دشمنی بھی سب پر واضح ہوتی ہے دوست کو بھی صاف پتہ چل رہا ہوتا ہے کہ یہ ہمارا دشمن ہے اس سے ہم نے مقابلہ کرنا ہے۔ لیکن ایک دفعہ آپ دوست کے روپ میں دشمنی کرتے ہیں۔ یہ دشمنی سخت تر ہوتی ہے اور اس طرح کی دشمنی نقصان بھی زیادہ پہنچاتی ہے۔ آپ دوست بن کر اندر سے جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ اگر ولایت فقیہ اختلافی موضوع ہے اور اس بنا پر اس کو اڑا رہے ہیں تو پھر خود تقلید بھی اختلافی موضوع ہے۔ جیسا کہ گزشتہ سطور میں بیان ہوا پھر تو پورا دین ہی اختلافی ہے۔ کتنے ہی قم اور نجف میں ابھی بھی ایسے طلاب موجود ہیں جو تقلید کے مخالف ہیں اور باقاعدہ اس کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ تقلید اگر اختلافی موضوع ہے تو کیا اس کو اڑا دیں؟ معلوم ہوا کہ آپ کا مسئلہ اختلافی مسائل پر بحث کرنا نہیں بلکہ ولایت فقیہ آپ کا مسئلہ ہے۔ اس طرح کی شخصیات سب مسالک میں ہی موجود ہیں جن سے سب افراد ہی تنگ ہیں۔ جیسے توثیق الرحمن ہے اس طرح کی شخصیت مت بنیں۔ سب موضوعات کو ہی شک سے دیکھنا، علماء پر تہمتیں، ایک ناقص جملے کو اٹھا کر محترم ترین شخصیات کی شخصیت کشی کرنا، عزت کشی کرنا، یہ کیسی دینداری ہے؟

ضرورت ولایت فقیہ کا اثبات

ولایت فقیہ کا اثبات بدیہیات میں سے ہے۔ امام خمینیؒ کے بقول اگر ولایت فقیہ کے نظریے کا درست تصور کر لیں، فورا آپ اس کی تصدیق کریں گے۔ صرف موضوع اور محمول کا تصور کرنا ہی تصدیق کے لیے کافی ہے۔[4] ضروری نہیں کہ آپ دلائل کے انبار لگائیں۔ اگر اتنے بدیہی ترین نظریے کو آپ دشمن کی ایماء پر اڑا دینا چاہتے ہیں تو چاہے آپ عمامے میں ہیں یا بغیر عمامے کے اسلام کے دشمن ہیں۔ انہیں چند دہائیوں میں عراق کے جو حالات بنے ہیں اگر ولایت فقیہ کے نظریے کے پیروکاروں کی قربانیاں اور ولی فقیہ کی حمایت نہ ہوتی تو یہی افراد جو ولایت فقیہ کو مشکوک کر رہے ہیں ان کی سانسیں بند ہو جاتیں۔ داعش سر پر پہنچ چکی تھی، ہمارے آئمہ معصومینؑ کے حرم خطرے میں تھی، نجف کا ہزار سالہ حوزہ خطرے میں تھا لیکن انہوں نے دفاع کا کوئی کام نہیں کیا۔ اسی نظریہ ولایت فقیہ اور اس کے سپاہیوں نے عراق کا بھی دفاع کیا، داعش کو نابود کیا، حرم اور حوزے کو بچایا۔ آج ولایت فقیہ پوری دنیا کے استکبار سے ٹکراؤ میں ہے، ابلیسی نظام پوری طاقت اور اقتدار کے ساتھ اس کے خلاف کھڑا ہے اور ولایت فقیہ کا نظریہ سالوں سے ڈٹ کے اس کا مقابلہ کر رہا ہے اور یہی اس کی حقانیت کی دلیل بھی ہے۔ لیکن بعض نادان لوگ اس نظریے کو شکوک و شبہات میں اڑا دینا چاہ رہے ہیں۔

ولایت فقیہ اور قومیت

مدینہ فاضلہ کا نظریہ کسی ایک شخصیت کا نظریہ نہیں۔ اور نا ہی کسی ایک ملک کے افراد کا نظریہ ہے۔ کسی خاص مذہب کے افراد کا نظریہ بھی نہیں بلکہ تمام انسانوں کی آرزو ہے۔ اسی طرح سے ولایت فقیہ ہے۔ ولایت فقیہ ایرانی نظریہ نہیں ہے اور نا ہی ولی فقیہ ایرانیوں کا ہے۔ ایک بدترین شبہہ جو انہیں افراد کی جانب سے بیان کیا جاتا ہے یہ ہے کہ ولی فقیہ تو ایرانی ہے اس کا ہم نجفیوں اور پاکستانیوں سے کیا واسطہ؟ یہ ظلم ہے بلکہ شرک ہے۔ دین کا کوئی بھی نظریہ کسی خاص زمین اور کسی خاص قومیت کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ اسلام قومیت اور لسانیت کی حدود و قیود کا سخت مخالف ہے۔ جس طرح سے مرجعیت کسی خاص زمین کے ساتھ مختص نہیں ہے۔ جس طرح سے امامت اور نبوت کسی خاص منطقہ کے لوگوں کے لیے نہیں ہے اسی طرح سے ولایت فقیہ بھی کسی خاص ملک کے افراد کے لیے نہیں ہے۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ آیت اللہ سیستانی اصالتا سیستان کے ہیں اور ایرانی ہیں اس لیے ہم پاکستانی اور عراقی ان کی تقلید نہیں کر سکتے۔ اسی طرح سے آئمہ معصومینؑ اور انبیاء کرامؑ ہیں۔ رسول اللہﷺ اور آئمہ معصومینؑ سب ہی اعراب تھے تو پھر ہم پنجابی اور پٹھان ان کی بات کیوں مانیں۔ یقینا یہ استدلال غلط ہے۔ کیونکہ یہ شخصیات آفاقی ہیں اور پوری دنیا اور عالم کے لیے ہادی ہیں۔ ان کی شخصیت اور ان کے نظریات محدود نہیں ہو سکتے۔ ولایت فقیہ اور مرجعیت بھی اسی طرح سے ہے۔ تقلید اور مرجعیت کے بارے میں اگر آپ احادیث لے آئیں تو بہت سے فقہاء کے مبانی کے مطابق وہ احادیث ضعیف بنتی ہیں تو پھر کیا کریں؟ کیا تقلید کو ترک کر دیں؟ پھر تو آپ کو تقلید کے موضوع کی بھی مخالفت کرنی چاہیے جس طرح آپ ولایت فقیہ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ عصمت آئمہؑ اور سب آئمہ کے شہید ہو جانے کے نظریے پر آپ کیا کہیں گے؟ کیا چوتھی اور پانچویں صدی کے سب شیعہ علماء اس کے قائل تھے؟ اس پر کیوں نہیں بولتے؟ یہ مسئلہ بھی تو اختلافی ہے ان کی شخصیات کو بھی مسخ کر دیں؟ علامہ حلیؒ کی باتوں پر کتنوں نے اعتراض کیا حتی بعض علماء نے علامہ کے بارے میں کہا کہ گویا یہ کوئی اور فقہ تشیع میں لانا چاہتے ہیں۔ علامہ مجلسیؒ، ملا محسن فیض کاشانیؒ، حر عاملیؒ اور محدث نوریؒ تو تحریف قرآن کے بھی قائل تھے تو کیا ان سب شخصیات کو اڑا دیں؟ پھر بچے گا کیا؟ اگر اسی طرح سے ہم شخصیات کے نظریات کو اکٹھا کریں اور ان کے جزوی اختلافات کو موضوع بنائیں تو پھر تو کوئی بھی شخصیت قابل احترام نہیں رہے گی۔ اگر ایک ایک جملے اور دو دو منٹ کے کلپ کو ہی اٹھانا ہے پھر تو اہلسنت کا پورا مکتب ایک جملے میں ہی اڑ جاۓ گا۔ ام المومنین عائشہ کہتی ہیں کہ سورہ احزاب کی کچھ آیات کو بکری کھا گئی اس روایت کو بنیاد بنا کر ہم اہلسنت پر یہ بات تھونپ دیں کہ وہ تحریف قرآن کے قائل ہیں۔ یہ علماء کا طریق نہیں ہے کہ ایک شخص کی پوری زندگی، اس کے نظریات اور اس کا واضح کردار ہمارے سامنے ہو اور ہم اس کی تقریر کے دو منٹ کو کاٹ کر اس کی شخصیت کشی کریں۔ یقینا یہ لوگ بیمار ہیں اور اخلاقی بیمار ہیں۔ استاد ِاخلاق سے ان کو اپنا علاج کروانا چاہیے۔ نفس کے بیمار ہیں جب تک نفسانی بیماری ختم نہیں کرتے یہ بیماری ان کو لگی رہے گی۔[5]

منابع:

 

↑1 اسراء: ۸۱۔
↑2 سائٹ ویکی شیعہ۔
↑3 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۸، ص۵۹۔
↑4 آفیشل ویب سائٹ امام خمینیؒ۔
↑5 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت  فقیہ، ولایت، فقاہت و عدالت، ص۱۱۲تا۱۱۴۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 August 22 ، 13:56
عون نقوی

{ دروس ولایت فقیہ: قسط ۴۶ }

مدینہ فاضلہ اور مدینہ غیر فاضلہ

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

گزشتہ اقساط میں ہم نے مدینہ فاضلہ کی اوصاف کو بیان کیا۔ اگر ہم ان اوصاف کو کسی پر واضح کر دیں تو وہ مدینہ فاضلہ کا خواہاں ہو جاۓ گا۔ کوئی بھی عقلمند انسان اس کی مخالفت نہیں کرتا کیونکہ یہ وہ ریاست ہے جس میں ہر چیز اپنی آئیڈیل صورت میں ہے۔ تاہم اس کی مزید تبیین ضروری ہے۔ اس ریاست میں اور ہماری ریاستوں میں کیا فرق ہے؟ یہ مطلب جب تک ذہن نشین نہیں ہو جاتا ہم اس کی طرف نہیں بڑھ پائیں گے۔ با الفاظ دیگر ہم اپنے معاشروں کو مدینہ فاضلہ کیسے بنائیں؟ یہ ہمارے لیے اہم ترین سوال ہے۔

مدینہ فاضلہ میں رشد فرہنگی

مدینہ فاضلہ کے مقابلے میں مدینہ  غیر فاضلہ ہے۔ یہ وہ ریاست ہے جس کے اندر یا تو ترقی ہی نہیں ہوتی اور اگر ترقی ہو بھی تو وہ ترقی فرہنگی طور پر رشد کا باعث نہیں بنتی۔ کسی بھی معاشرے کی ترقی کا راز اس کے فرہنگی طور پر رشد پر ہوتا ہے ۔ خالی ٹیکنالوجی آ جانے سے ترقی نہیں کر جائیں گے جب تک یہ شعور نہ آ جاۓ کہ ہمیں بطور قوم اس زبوحالی سے نکلنا ہے۔ مثلا پچھلے ادوار میں ہمارے علماء کے پاس کمپیوٹر اور لیپٹاپ وغیرہ نہیں تھے۔ جیب سے موبائل نکال کر فورا کوئی چیز سرچ نہیں کر سکتے تھے، علمی مطلب کو ڈھونڈھنے کے لیے گھنٹوں تگ و دو کرنا پڑتی لیکن پھر بھی سینکڑوں جلد کتاب لکھ کر گئے ہیں اور آج ہم سے خالصتا دین کی خدمت کی نیت سے ایک ورق بھی نہیں لکھا جاتا۔ ان کے پاس دو وقت کا کھانا بھی نہیں ہوتا تھا، رہائش کے لیے مناسب جگہ بھی نہ ہوتی، غربت کے عالم اور بعض نے تو قیدخانوں میں یہ علمی خدمات انجام دیں۔ پس معلوم ہوا تیز انٹرنیٹ، کھانا ، رہائش، سردی گرمی کا اہتمام اور یہ سب کسی قوم کو فائدہ نہیں دیتے جب تک اس کی اساس عمل اور رشد نہ ہو۔

رُشد فرہنگی کے لیے ماحول بنانا

اللہ تعالی نے ہمیں نعمات دی ہیں ہم ان نعمات کو دین کی  تبلیغ انجام دینے کے لیے کیسے استعمال کریں؟ ہمیں خدا نے گھر دیا، بیوی اور اولاد دی اس کا شکر ادا کیسے کریں؟ عام انسان اپنی گھر کی ریاست میں تو سربراہ ہوتا ہی ہے۔اب اس چھوٹی سی ریاست کو مدینہ فاضلہ کیسے بنائیں؟ یہ یقین رہے کہ جو شخص گھر کی ریاست کو مدینہ فاضلہ نہیں بنا سکتا اسے اگر معاشرے میں اجتماعی ذمہ داری دی گئی تو وہاں بھی کچھ نہیں کر سکے گا۔ گھر کے اندر کیسا ماحول ہو یقینا ایک دو دن میں تو گھر کا ماحول درست نہیں ہو سکتا بلکہ یہ لانگ ٹرم منصوبہ ہے، آپ کو صبر اور تحمل سے کام لینا ہے، گھر میں نماز قائم کریں، دعاؤں کا اہتمام کریں، مناسب آواز میں اذان دیں، گھر میں قرآن کریم ضرور پڑھیں۔ اگر گھر میں یہ ماحول نہیں بنتا تو اس گھرانے کے افراد سے کوئی امید نہیں رکھ سکتے کہ یہ گھر سے باہر نکل کر مدینہ فاضلہ سے موافق کے لیے کوشش کرنے والے بنیں گے۔ ان کو پھر مدینہ فاضلہ نہیں چاہیے ہوگا۔ رشد فرہنگی ایجاد کرنا ہے تو اس کی اساس گھرانہ ہے اس کے لیے ماحول بنانا پڑے گا۔ گھروں میں جب تک یہ ماحول ایجاد نہیں ہوتا، ماں باپ خود آگے بڑھ کر دعاؤں کا اہتمام کریں، گھروں میں دعاء کمیل رکھیں، دعاء توسل کو ترک مت کریں، بچوں کو ہاتھ پکڑ کر محبت سے وضو سکھائیں، قرآنی افکار بیان کریں۔

قرآنی افکار کی تعلیم

ہمیں اپنے معاشروں میں قرآنی افکار کی تعلیم دینے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ہمارے معاشرے اگرچہ اسلامی معاشرے ہیں اور سب  مسلمان ہیں  لیکن قرآن کریم کی تعلیمات سے کوسوں دور ہیں۔ ابھی تو مسئلہ یہ پیش آتا ہے جب قرآنی افکار بیان کیے جائیں اپنے ہی دشمن بننے لگ جاتے ہیں۔ آپ آزمائش کر لیں قرآنی دین بیان کرنا شروع کر دیں دیندار ترین طبقہ اور علماء ہی آپ کے مخالف ہو جائیں گے۔ مثلا قرآن کریم نے طاغوت کے انکار کا حکم دیا ہے، جب آپ اس قرآنی تعلیم کو بیان کریں گے پیچھے سے اپنے ہی افراد آپ کو کہیں گے کہ یہ باتیں ادھر مت کرو، سیاسی باتیں مت کرو۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر آئمہ معصومینؑ پر بھی اعتراض کرو انہوں نے بھی اپنے زمانوں کے طواغیت کے خلاف قیام کیے۔ پھر مجلس امام حسینؑ کیوں رکھتے ہو؟ پھر ایک انوکھا اعتراض کرتے ہیں کہ اگر آپ کے نزدیک یہ سب طاغوت ہیں تو آپ اداروں میں کیوں جاتے ہو؟ ان سے پرمٹ کیوں لیتے ہو؟ یہ وہ اعتراض ہے جو بے تدبیر انسان ہی کر سکتا ہے۔ جس معاشرے میں انسان رہتا ہے بالآخر اسی کا حصہ ہوتا ہے، ایک دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ آپ اپنے انسانی، دینی اور مدنی حق کے لیے حاکم کے پاس جاتے ہو اور خود کو ایک قانون مدار شہری ثابت کرتے ہو، لیکن ایک دفعہ آپ حاکم کے ساتھ حکومتی اور سیاسی ایڈجسٹمنٹ کے لیے جاتے ہو، زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہمارے آئمہ معصومینؑ نے کسی بھی حاکم سے اس طرح کے روابط نہیں رکھے، ان کو کبھی بھی سیاسی مشروعیت نہیں دی، ہاں رہتے انہیں معاشروں میں تھے، بعض اوقات امت مسلمہ کے اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھ کر حکومتی مسائل میں بھی مداخلت کرتے لیکن جس مقام پر صرف طاغوتی حاکم کو فائدہ ہوتا وہاں مداخلت نہیں کرتے تھے۔ ابھی ہمارے معاشروں میں سب کچھ بالکل الٹ ہو رہا ہے، قرآنی تعلیمات کے برخلاف عمل ہو رہا ہے۔ طاغوتی حکمرانوں کی محبتوں کو نوجوانوں کے دلوں میں ڈال رہے ہیں، ظلم اور ظالم سے نفرت کی بجاۓ اس کی حمایت کا درس دے رہے ہیں اور جب ان سے دلیل پوچھی جاتی ہے کہ یہ سب کیوں کر رہے ہیں تو جواب میں آیت اور روایت پیش کرنے کے بجاۓ یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں عالم بھی تو حکمرانوں سے ملتا ہے۔ یہ کونسی دلیل ہوئی؟ کب سے ہمارے لیے قرآن اور سیرت معصومینؑ کی بجاۓ علماء حجت بن گئے؟

انفرادی برائی اور اجتماعی برائی

رشد فرہنگی اس وقت جنم لیتا ہے جب ہم اجتماعی برائیوں کو ترک کریں۔ ممکن ہے ایک شخص انفرادی طور پر گانے سنتا ہے، فلمیں دیکھتا ہے یا اس کی گھریلو زندگی خراب ہے۔ یہ بھی صحیح بات نہیں اس کا بھی گناہ ہے لیکن اصلی فکری بے راہروی یہ ہے کہ ہم اجتماعی طور پر فاسق حکمرانوں سے محبت کریں، طاغوت سے لو لگائیں اور ان کی حمایت میں قدم بڑھائیں۔ یہ اجتماعی بے راہروی ہے جو رشد فرہنگی کو متاثر کرتی ہے۔ جب تک یہ رشد نہیں آ جاتا کہ ہم طاغوتوں سے امیدیں نا رکھیں اور ہماری امیدوں کا مرکز صرف قرآن اور اہل بیتؑ ہوں، تب تک مدینہ فاضلہ وجود میں نہیں آ سکتا۔ ہمارے لیے منبع ہدایت موجود ہے، قرآن کریم تبلیغ اور فکر کا منبع ہے۔ جب تک خود دیندار طبقہ اس درست پٹڑی پر نہیں آ جاتا اور درست طریقہ کار کے مطابق عمل نہیں کرتا تبدیلی ممکن نہیں۔ ان افکار کو بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ رہبر معظم نے بطور ولی امر مسلمین حکم دیا ہے اور سب کے لیے واجب فوری قرار دیا ہے کہ جہاد تبیین کریں۔[1] جہاد تبیین یعنی قرآنی افکار کو بیان کریں اور ان کو ترویج دیں۔ اس ذمہ داری میں کسی بھی قسم کی سستی کرنا جائز نہیں۔ سوشل میڈیا کو ترک کرنا ایک غفلت ہے، سوشل میڈیا اس وقت جنگ کا میدان بن چکا ہے اگر ہم نے یہ میدان ترک کر دیا تو دشمن مکمل طور پر اپنے شیطانی لشکر ہم پر غالب کر دے گا، اور اس کے لشکر ہمارے ممالک، ہمارے شہروں اور حتی گھروں تک گھس آئیں گے۔ اس میدان کو ترک کرنا سراسر غلطی ہے۔

سرد جنگ کے میدان میں

ایک دفعہ تلوار اور نیزے سے یا بم اور میزائل سے دشمن ہدف کا نشانہ بناتا ہے اسے سخت جنگ کہتے ہیں۔ لیکن ایک دفعہ وہ آپ کو سخت ہتھیاروں سے نہیں مارتا بلکہ آپ کی ہویت آپ سے چھین لیتا ہے، آپ کا دین، ثقافت اور اقدار آپ سے چھین لیتا ہے۔ آپ بھی دشمن کی طرح سوچنے لگ جاتے ہو اور جب آپ بھی دشمن کے رنگ میں ڈھل جاتے ہیں تو پھر تو جنگ کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اس کو سرد جنگ کہتے ہیں۔ رہبر معظم کے مطابق سوشل میڈیا پر سرد جنگ ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر اگر آپ دشمن کے حملوں کا دفاع کرتے ہیں اور اس کے مقابلے میں خیر کو پھیلاتے ہیں اسلام کا دفاع کرتے ہیں بالکل اس شخص کی مانند ہے جو جنگ کے محاذ پر کھڑا ملک کا دفاع کر رہا ہے۔ صرف فرق یہ ہے کہ وہ آپ کے ظاہر کا دفاع کر رہا ہے زمین، شہر اور گھر کا دفاع کر رہا ہے اور یہ شخص جو سوشل میڈیا پر حق کا دفاع کر رہا ہے، آپ کے دین، آپ کے فرہنگ اور اقدار کا دفاع کر رہا ہے۔ فرق نہیں پڑتا ہماری بات ایک شخص تک پہنچ رہی ہے یا لاکھوں لوگ دیکھ رہے ہیں۔ اگر آپ کی لکھی ہوئی بات سے کوئی ایک شخص بھی ہدایت پا جاتا ہے کافی ہے۔ اثر ڈالنے والی اللہ تعالی کی ذات ہے ہم دلوں کو متاثر نہیں کر سکتے۔ صرف بات پہنچا سکتے ہیں۔ تبلیغ کرنا ضروری ہے ہمارے رشد فرہنگی کے لیے اس وقت جو اشد ترین ضرورت ہے وہ تبلیغ ہے۔ چاہے وہ عملی میدان میں تبلیغ ہے یا سوشل میڈیا کے میدان میں تبلیغ کرنا ہے۔ تبلیغ کا ایک غلط معنی جو ہمارے معاشروں میں رائج ہے وہ مراد نہیں، ہم لوگ پہلے سے لوگوں میں رائج مطالب کو دوبارہ بیان کر دینا تبلیغ سمجھتے ہیں، یا عوام پسند بات کرنا تبلیغ سمجھتے ہیں، جی نہیں! یہ تبلیغ نہیں ہے بلکہ اسلام کے برخلاف ہے۔ ہمارے لیے معیار یہ نہیں ہونا چاہیے کہ عوام کس بات کو سننا پسند کرتی ہے، یا اگر میں نے یہ بات کی تو اگلی دفعہ مجھے سنیں گے یا نہیں؟ جب تک اجتماعی طور پر یہ شعور اور فہم تمام طبقات میں نہیں آ جاتا تب تک رشد فرہنگی ممکن نہیں۔

مدینہ فاضلہ میں حقوق اور اقتصاد

مدینہ غیر فاضلہ کا ایک اور مسئلہ قومی اور بین الاقوامی حقوق کا خیال نہ رکھنا اور اقتصاد کی نابودی ہے۔ مثال کے طور پر ہم اپنے وطن عزیز پاکستان کو پیش کرتے ہیں کہ ملک کو اندرونی اور بیرونی طور پر شدید مشکلات کا شکار کر دیا گیا ہے۔ اور اس کے حل کے طور پر ہمارے مقتدر افراد یہ کہتے ہیں کہ دوسرے ممالک سے پیسے مانگے جائیں مثلا سعودیہ عرب بھیک دے یا عالمی ادارے قرض دیں۔ حالانکہ سب پر یہ بات عیاں ہے کہ سعودی خاندان دنیا کا بدمعاش ترین خاندان ہے، عیاش ترین اور ڈکٹیٹرشپ کا بدترین نمونہ یہی خاندان ہے لیکن ہمارے حکمران اور فوجی سربراہان ان سے بڑے شوق اور احترام سے ملتے ہیں اور ان کے آگے خاضع نظر آتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں اس مفاد کی دنیا میں کوئی بھی ملک مفت میں کسی اور ملک کو کچھ نہیں دیتا جب کچھ دیتا ہے تو لیتا بھی بہت کچھ ہے۔ ملک کے اندرونی مسائل میں مداخلت کرتا ہے، خودمختاری کا خیال نہیں رکھتا، حقوق مدنی کو متاثر کرتا ہے۔ اسی طرح سے آئی ایم ایف کا ادارہ ہے کہ ہمارا ملک مکمل طور پر اس کا غلام بن چکا ہے۔ جیسے وہ کہتا ہے ہمارے حکمران من و عن اس پر عمل کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے بجلی مہنگی کر دو، یہ بجلی مہنگی کر دیتے ہیں، وہ کہتا ہے پٹرول مہنگا کر دو یہ پٹرول مہنگا کر دیتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ اس کی قسط پوری کرنی ہے۔ اگر قسط وقت پر ادا نہ کریں تو ان کی سب باتیں ماننا پڑتی ہیں، اپنے ہی ملک کے شہریوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا پڑتا ہے، پھر اپنے ہی مدارس پر پابندی لگانا پڑتی ہے، پھر افغانستان میں ان کے کہنے پر جنگ بھی لڑنا پڑتی ہے۔ جب آپ کسی کے مقروض ہوں پھر ظالم کی حمایت اور مظلوم کو باغی کہنا پڑتا ہے۔ پوری دنیا کے سامنے سعودی منحوس خاندان یمن پر کئی سالوں سے بم برسا رہا ہے، عام شہریوں کو قتل عام اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتار رہا ہے لیکن ہمارے سابق وزیر اعظم خان صاحب نے اس مسئلے میں اپنے ملک کا دفاع کرنے والے یمنیوں کو باغی کہا۔ صرف خان صاحب ہی نہیں باقی سب بھی انہیں کے غلام ہیں۔ اب جب پیسہ کھا لیا اور ان سے بھاری قیمتی تحائف لیے ہوں تو کہاں آپ مظلوم کے حقوق کی بات کروگے؟ یہ شعور کب آۓ گا؟ جب تک یہ رشد حاصل نہیں کرتے ملک کا اقتصاد درست نہیں ہو سکتا، اقتصاد درست تب ہوگا جب ملک میں تجارت ہوگی، اور تجارت تب ہوتی ہے جب ملک میں امنیت ہو، امنیت آپ کی بیرونی مداخلتوں سے متاثر ہوتی ہے۔ اور جب آپ بیرونی مداخلت کرنے سے ان کو روکتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم پیسہ دینا بند کر دیں گے۔ پاکستان کا جتنا بھی تاجر طبقہ تھا وہ اپنا سرمایہ لے کر پاکستان سے باہر چلا گیا ہے۔ اور ادھر جتنی بھی کمپنیاں ابھی کام کر رہی ہیں وہ غیر ملکی ہیں۔ ان میں پاکستانی انجینئر کام ہی نہیں کر سکتے ان کو مروا دیا جاتا ہے۔ صرف نچلی سطح پر مزدور طبقے کے طور پر پاکستانی کام کر رہے ہیں۔

حقوق کا خیال اور بین الاقوامی مداخلت

یہ بات مسلم ہے کہ ایک ریاست تب تک آئیڈیل نہیں بن سکتی جب تک خودمختار نہ ہو۔ بیرونی مداخلت کا روکنا بہت ضروری ہے، بیرونی مداخلت مختلف قسم کی ہو سکتی ہے، ایک دفعہ ایسا ہے کہ دشمن نے ثقافتی طور پر حملہ کیا ہے اور آپ کی اقدار، فرہنگ اور دین پر حملہ ور ہے۔ اس کے لیے وہ نرم ہتھیار کا استعمال کرتا ہے لیکن ایک دفعہ ایسا ہے کہ دشمن بدمعاشوں کی طرح آپ کے ملک میں گھستا ہے۔ کاروائی کرتا ہے جاسوس چھوڑتا ہے اور بنا کسی جھجھک کے ملکی مسائل میں مداخلت کرتا ہے۔ جیسے امریکہ ہے کہ خود کو دنیا کا مالک سمجھتا ہے۔ جس وقت چاہے کسی بھی ملک پر کسی بہانے سے حملہ کرتا ہے، ان کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے اور بعد میں پھاڑ دیتا ہے۔ انسانی حقوق کو پائمال کرتا ہے، خود بھی ظلم کرتا ہے اور اپنے حواری ظالموں کا ساتھ بھی دیتا ہے۔ یمن میں کئی سالوں سے جنگ ہو رہی ہے لیکن وہاں مداخلت کر کے جنگ کو نہیں روکتا اور انسانی حقوق کا راگ نہیں الاپتا۔ کیوں؟ کیونکہ وہاں پر اس کا اتحادی سعودی منحوس خاندان ظلم کر رہا ہے۔ لیکن دیگر جگہوں پر حقوق کے نام پر مداخلت کرتا ہے اور بدمعاشی کرتا ہے۔ ملکوں اور قوموں کے حقوق ہوتے ہیں، حتی مجرموں کے حقوق ہیں۔ اقوام متحدہ میں باقاعدہ حقوق انسانی کے نام سے ایک چارٹر موجود ہے۔ تاہم جو انسانی حقوق امام سجادؑ نے رسالۃ الحقوق میں بیان کیے ہیں وہ کئی مدارج بالاتر ہیں ان حقوق سے جو اقوام متحدہ نے قرار دیے ہیں۔[2] اسی طرح سے مالک اشتر کا عہد نامہ ہے۔ امیرالمومنینؑ کا وہ مکتوب جو آپ نے مالک اشترؒ کو مصر کا والی مقرر کرتے ہوۓ ان کو ہدایات کے طور پر لکھ کر دیا۔ وہاں پر امام نے شہریوں، مومنوں اور حتی کافروں کے حقوق بیان کیے ہیں۔ وہاں پر امامؑ نے زکات اکٹھا کرنے والے حکومتی کارمندوں کو ہدایات دی ہیں۔ ان کو حکم دیا ہے کہ زکات لیتے وقت سختی مت کریں، ان کے اموال کو غارت مت کریں، مالک کی اجازت کے بغیر کوئی کام انجام نہ دیں وغیرہ۔[3] اس کے برعکس جب ہم جنگ عظیم اول اور دوم کی تاریخ پڑھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ انسانی حقوق کی بدترین پائمالی ہوئی۔ انہیں یورپیوں نے کروڑوں انسان قتل کیے جو اب ہم مسلمانوں کو دہشتگرد کہتے ہیں۔

مدینہ فاضلہ کی خارجہ پالیسی

مدینہ فاضلہ کی سیاست اس آیت کریمہ کی تعلیم کے مطابق ہے:

«لا تَظْلِمُونَ وَ لا تُظْلَمُونَ».

ترجمہ: نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔[4]

مدینہ فاضلہ وہ ہے جو کسی پر ظلم  نہیں کرتا اور ظلم ہونے بھی نہیں دیتا۔ اگر ہمارا ملک خدانخواستہ کسی پر ظلم کرتا ہے دوسرے ممالک پر یا خود اپنی قوم پر ظلم کرتا ہے مدینہ فاضلہ نہیں کہلاۓ گا۔ مہنگائی بڑھا دینا، شہریوں کو امنیت مہیا نہ کرنا، بنیادی سہولیات سے محروم کرنا، یہ ظلم ہے۔ ہمارے ملک میں سود کا نظام حاکم ہے اس کو تو سب پاکستانی ہی حرام سمجھتے ہیں چاہے سنی ہوں یا شیعہ۔ پھر کیوں عام ہے؟ اگر یہ اجتماعی گناہ معاشرے میں ہو رہا ہے تو یوں نہیں کہ جو سود کھاتا ہے صرف اسی پر عذاب ہوگا بلکہ پورا معاشرہ عذاب کا شکار ہوگا۔ یہ ظلم معاشرے میں عام نہیں ہونے دینا چاہیے۔ جب سودی قرضے ہماری حکومتیں اٹھاتی ہیں اس سے ملک تو نہیں سنورنا، بلکہ آئندہ آنے والی نسلیں بھی مقروض ہونگی۔ یعنی ہر پیدا ہونے والا بچہ جس نے کچھ بھی خرچ نہیں کیا مقروض ہے۔ اگر یہ ظلم ختم کرنا چاہتے ہو تو الہی نظام کی طرف آؤ، مدینہ فاضلہ کی طرف آؤ، مدینہ فاضلہ ظلم کویا  بلیک میلنگ کو قبول نہیں کرتا، مدینہ فاضلہ امریکی مداخلت کو قبول نہیں کرتا، مدینہ فاضلہ عربوں کے ریال سے ملک کو نہیں چلاتا۔ بلکہ مدینہ فاضلہ کی ان کے ساتھ دشمنی ہے، وہ نا خود ظلم کرتا ہے اور نا ظلم قبول کرتا ہے۔

بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری

مدینہ فاضلہ کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ عہد و پیمان پورا کرتی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

«وَ أَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ کانَ مَسْئُولاً».

ترجمہ: اور عہد کو پورا کرو، یقینا عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔[5]

قرآن کریم کی اس آیت میں اطلاق پایا جاتا ہے۔ عہد پورا کرنے میں کوئی شرط نہیں لگائی گئی۔ جب معاہدہ ہو جاۓ تو اس کو وفا کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے مشرکین مکہ کے ساتھ معاہدہ کیا تو اس کو وفا کیا۔ اسی طرح سے امام حسنؑ نے امیر شام کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا تو اس پر پابند  رہے۔ حتی ان کی شہادت کے بعد امام حسینؑ بھی اس عہد پر باقی رہے۔ اسلامی ریاست کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ داخلی اور بین الاقوامی معاہدوں کا پاس رکھے۔ مثلا دو ممالک معاہدہ کرتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کرینگے یہاں پر عہد کے خلاف کرنا حرام ہوگا۔ اور اگر اس حرام کا ارتکاب ہوتا ہے تو پوری ریاست مجرم ہے۔ پاکستان نے ایران سے تیل اور گیس لینے کا معاہدہ کیا، خود ہمارے حکمرانوں کے بقول ہم نے اس معاہدہ پر عمل نہ کیا کیونکہ ہم امریکہ سے ڈرتے ہیں۔ خان صاحب کی حکومت کے وزیر نے ایک پرواگرام میں آن ایئر یہ بات کی کہ انڈیا تو ایران سے تیل لے رہا ہے لیکن ہم نہیں لیتے کیونکہ امریکہ سے ڈرتے ہیں۔[6] اس جرم کا مرتکب پورا معاشرہ ہوا ہے۔ ہم مسلسل عہد کا نقض کر رہے ہیں۔ جب تک ہم انہیں حکمرانوں کا ساتھ دیتے رہیں گے، ان کے خلاف آواز بلند نہیں کریں گے اور اپنا راستہ ان سے جدا نہیں کر لیتے اس عہد شکنی میں ہم برابر کے شریک ہونگے۔ ابھی ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے دوبارہ یہ پیشکش دی ہے کہ ہم پاکستان کے تمام انرجی کے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ایران سے تیل اور گیس لیں تو بہت سستی مل سکتی ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی موقعیت ایسی ہے کہ دنیا کے مرکزی ترین ممالک میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ دریائی راستے بھی کھلے ہیں لیکن پھر بھی اتنی معیشتی پسماندگی عذاب کے سوا کچھ نہیں۔

مدینہ فاضلہ میں صنعتی ترقی

کسی بھی معاشرے میں خوشحالی برپا نہیں ہو سکتی جب تک صنعت میں ترقی نہ آۓ۔ وطن عزیز میں صنعت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور جو ہے اس کو بھی محدود کر دیا گیا ہے۔ گھاس کاٹنے تک کی مشین ہم نہیں بنا سکتے۔ ٹائر کھولنے کے لیے کمسن بچوں کو ورکشاپ پر رکھا جاتا ہے۔ جبکہ دوسرے ممالک میں یہ سب کام ایک بٹن دبائیں آٹومیٹک انجام پاتے ہیں۔ مدینہ فاضلہ وہ ہے جس میں صنعتی رشد ہو، اس لیے قرآن کریم میں انبیاء الہی کی حکومتوں کا تذکرہ وارد ہوا۔ لیکن ساتھ یہ بھی بیان ہوا کہ یہ رشد توحید کی اساس پر تھا۔ حضرت سلیمانؑ کے تخت اور قصر کا ذکر ہوا لیکن ساتھ ہی ملکہ سبأ کے توحید پر ایمان لانے کا بھی ذکر ہوا۔ 

مدینہ فاضلہ کی راہ میں مجاہدت

جب تک اجتماعی طور پر ایک حرکت اور نہضت وجود میں نہیں آتی ایک آئیڈیل ریاست کا حصول ہمارے لیے خواب کی طرح رہے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنا عہد وفا کریں، وہ عہد الہی یاد کریں، انبیاء الہی اور آئمہ معصومینؑ سے کیا عہد وفا کریں۔ نظام امامت سے وفا کریں، اقلیت، تنہائی اور اپنوں کی مخالفت کے بہانے نہ بنائیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«لَیْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ وَ الْمَلائِکَةِ وَ الْکِتابِ وَ النَّبِیِّینَ وَ آتَى الْمالَ عَلى حُبِّهِ ذَوِی الْقُرْبى وَ الْیَتامى وَ الْمَساکینَ وَ ابْنَ السَّبیلِ وَ السَّائِلینَ وَ فِی الرِّقابِ وَ أَقامَ الصَّلاةَ وَ آتَى الزَّکاةَ وَ الْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذا عاهَدُوا».

ترجمہ: نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنا رخ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو، بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ جو کوئی اللہ، روز قیامت، فرشتوں، کتاب اور نبیوں پر ایمان لائے اور اپنا پسندیدہ مال قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے نیز جب معاہدہ کریں تو اسے پورا کرنے والے ہوں۔[7]

ہمارے اس دینی ادارے’’ البر اسلامی فکری مرکز ‘‘کا ہدف بھی یہی آیت مجیدہ ہے۔ ادارے کا نام البر اسی آیت کے دوسرے کلمہ سے ماخوذ ہے۔ اس آیت کے ایک حصے میں ذکر ہوا ہے کہ «وَ الْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذا عاهَدُوا »: مومن وہ ہیں جو اپنا عہد وفا کرتے ہیں، نظام امامت سے کیا عہد پورا کرتے ہیں، جسم و جان سے، اپنی توان کے مطابق خون کے آخری قطرے تک عہد پر باقی رہنا البر کا ہدف ہے۔ مصنف نے بھی کتاب میں یہی نکتہ ذکر کیا ہے۔ «وَ الْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذا عاهَدُوا » یعنی حق امامت کو پورا کرنا، یہ سب ہماری ذمہ داری ہے، ہمارے لیے اختیاری صورت نہیں ہے کہ ولایت فقیہ کی حمایت کریں یا نہ کریں؟ بلکہ ہم سب پر واجب ہے کہ اس کی حمایت کریں۔ اگر ہم نے یہ عہد پورا نہ کیا تو غضب الہی کا شکار ہونگے۔

قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

«الَّذینَ عاهَدْتَ مِنْهُمْ ثُمَّ یَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فی کُلِّ مَرَّةٍ وَ هُمْ لا یَتَّقُونَ».

ترجمہ: جن سے آپ نے عہد لیا پھر وہ اپنے عہد کو ہر بار توڑ ڈالتے ہیں اور وہ ڈرتے نہیں ہیں۔[8] ولایت فقیہ کو قومی اور لسانی یا ملکی مسئلہ نہیں بنانا۔ یہ ایک شیطانی سوچ پھیلائی جا رہی ہے کہ ولایت فقیہ تو ایرانی ہے۔ یہ مشرکانہ تفکر ہے۔ ولی فقیہ دینی تشخص رکھتا ہے، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آیت اللہ سیستانی چونکہ اصالتا ایران کے ہیں صوبہ سیستان کے ہیں لہذا وہ عراقیوں کے یا پاکستانیوں کے مرجع تقلید نہیں ہوسکتے۔ یا شیخ نمر باقر النمرؒ اور شیخ زکزاکی کا ہم سے کیا تعلق؟ ہمارا ان سب سے تشیع کا تعلق ہے۔ ورنہ ایک افریقی، ایک عربی اور ایک ایرانی ہے۔ شیخ زکزاکی نے ہمیں مقاومت کا درس دیا ہے، تبلیغ دین کا درس دیا ہے، ۲ کروڑ افراد کو شیعہ کیا ہے۔ یہ تاریخ میں پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے اتنی زیادہ تعداد کو تشیع کی طرف مائل کیا۔ لیکن اس راہ میں چھ بیٹے قربان کرواۓ۔ اسی طرح سے شہید قاسم سلیمانیؒ کی شخصیت ہیں۔ ان کی شخصیت بھی قومی اور زمینی سرحدی حدود سے بالاتر ہے۔ حرم آئمہ معصومینؑ کے مدافع ہیں، تشیع اور اسلام کا دفاع کرنے والے ہیں۔ اس لیے ہم سب کے لیے قابل احترام ہیں۔[9]

منابع:

 

↑1 آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔
↑2 ویکی اہلبیت۔
↑3 عہد نامہ مالک اشترؒ۔
↑4 بقره: ۲۷۹۔
↑5 اسراء: ۳۴۔
↑6 سائٹ یوٹیوب۔
↑7 بقرہ: ۱۷۷۔
↑8 انفال: ۵۶۔
↑9 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۰۸تا۱۱۴۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 August 22 ، 13:54
عون نقوی

{ دروس ولایت فقیہ: قسط۴۵ }

مدینہ فاضلہ اور صنعتی ترقی

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

مدینہ فاضلہ کے اندر تیسری خصوصیت صنعتی ترقی ہے۔ آئیڈیل اسلامی ریاست وہ ہے جو نعمات الہی سے بھرپور فائدہ اٹھاتی ہے۔ اس کے عہدے دار صنعتی ترقی کے اوج کو حاصل کرنے میں کوشاں ہیں۔ مدینہ فاضلہ میں علم اور صنعت کا اوج انسان کو اس کے ہدف سے دور نہیں کرتا۔ بلکہ یہ ترقی انسان کو سعادت حاصل کرنے میں مدد کرتی ہے۔ رسول اللہﷺ اور ان کے بعد امیرالمومنینؑ کی حکومت میں بھی ہمیں صنعتی ترقی کا اوج نظر نہیں آتاکیونکہ رسول اللہ ﷺ کے بعد امت ایک خاص ڈگر پر چل پڑی اور جو دین اور دنیا کے وارث تھے ان کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ امام زمانؑ کی عالمی حکومت میں ہم اس کو آئیڈیل صورت میں دیکھیں گے۔ اس کی جزوی شکل آج ہم نظام ولایت فقیہ کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ نظام ولایت فقیہ پر تشکیل حکومت صنعتی ترقی کا آئیڈیل نمونہ ہے لیکن یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اس کی ایک جزوی شکل ضرور ہے۔

صنعتی ترقی کی اساس

آج کے ترقی یافتہ معاشروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ صنعتی اور ٹیکنالوجی میں پیشرفت تو ہے لیکن ہدایت موجود نہیں ہے۔ میڈیکل کی ترقی اوج پر ہے لیکن ڈاکٹر حضرات قاتل بنے ہوۓ ہیں، دوائیاں بنانے اور بیچنے والی کمپنیاں باقاعدہ ڈاکٹروں کو کمیشن دیتی ہیں اور ان سے اپنے پروڈکٹس سیل کرواتی ہیں۔ با الفاظ دیگر جو ہم دوائیاں لیتے ہیں ان ایک دوائی بیماری ختم کرنے کے لیے ہوتی ہے اور کچھ دوائی خود بیماری ڈالنے کے لیے۔ انسانی اعضاء کی سمگلنگ پوری دنیا کا مسئلہ بن چکا ہے اور اس کام میں بڑے بڑے ڈاکٹر حضرات کا ہاتھ ہے، ہم یہ نہیں کہتے کہ سب ڈاکٹر ہی ایسے ہیں، ہاں! بہت سے اچھے ڈاکٹر بھی موجود ہیں جو کسی پر ظلم نہیں ہونے دیتے۔ اسی طرح سے بقیہ شعبہ جات ہیں، صرف میڈیکل کا شعبہ ہی خراب نہیں بقیہ شعبہ جات بھی عوام پر ظلم کرنے میں پیچھے نہیں ہیں۔ میڈیکل کے شعبے کو صرف مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ جہاں جہاں انسان نے ظاہری طور پر ترقی کی ہے علم اور صنعت کے اعتبار سے تو بہت اچھا ہے لیکن یہ سب ہدایت کے ہمراہ نہیں ہے۔ مدینہ فاضلہ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہاں علمی و صنعتی ترقی ہے لیکن ہدایت کے ہمراہ۔ وہاں علم اور صنعت کو انسان کی خدمت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے انسان کی بربادی کے لیے نہیں۔

دین اور صنعتی ترقی کا حکم

فضاؤں کی تسخیر کے بارے میں قرآن کریم میں وارد ہوا ہے۔

«وَ سَخَّرَ لَکُمْ مَا فِى السماوَاتِ وَ مَا فِى الاَرْضِ جَمِیعاً مِنْهُ اِنَّ فى ذلِکَ لآیات لِقَوْم یَتَفَکَّرُونَ».

اور جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کیا، غور کرنے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔[1] دین نے یہ نہیں کہا کہ مومنین غاروں میں زندگی گزاریں اور کبھی ترقی یافتہ نہ ہوں۔ عموما امام زمانؑ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تلوار سے لڑیں گے اور ان کے دور میں دوبارہ گھوڑے آ جائیں گے اور انہیں سے دشمن کا مقابلہ کریں گے یہ احمقانہ ترین بات ہے۔ یعنی اگر دشمن جدید ترین ہتھیار بناتا ہے مثلا وائرس کے ذریعے مسلمانوں کو نیست و نابود کرنا چاہتا ہے تو آپ اس کے جواب میں تلوار سے لڑیں گے؟ یہ وہ بات ہے جو ایک نادان انسان کر سکتا ہے۔ دشمن کا مقابلہ کرنا ہے تو جو ہتھیار وہ استعمال کر رہا ہے آپ بھی اسی سے لڑیں گے یا اس ہتھیار سے بھی ترقی یافتہ تر ہتھیار سے جواب دیں گے۔

حضرت سلیمانؑ اور صنعتی ترقی

قرآن کریم میں حضرت سلیمانؑ کی اسلامی ریاست کا ذکر وارد ہوا ہے۔ حضرت سلیمانؑ ایک بہت بڑی ریاست پر حکومت کرتے تھے اس وقت کی تقریبا تمام انسانی آبادیاں آپ کی حکومت کے ذیل میں تھیں۔ آپ کے دور میں صنعت و حرفت میں بھی کمال کی ترقی موجود تھی۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

«وَ لِسُلَیْمانَ الرِّیحَ غُدُوُّها شَهْرٌ وَ رَواحُها شَهْرٌ وَ أَسَلْنا لَهُ عَیْنَ الْقِطْرِ».

ترجمہ:اور سلیمان کے لیے (ہم نے) ہوا (کو مسخر کر دیا)، صبح کے وقت اس کا چلنا ایک ماہ کا راستہ اور شام کے وقت کا چلنا بھی ایک ماہ کا راستہ (ہوتا) اور ہم نے اس کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیا۔[2]

اگلی آیت میں ارشاد ہوا:

«یَعْمَلُونَ لَهُ ما یَشاءُ مِنْ مَحاریبَ وَ تَماثیلَ وَ جِفانٍ کَالْجَوابِ وَ قُدُورٍ راسِیاتٍ اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُکْراً وَ قَلیلٌ مِنْ عِبادِیَ الشَّکُورُ».

ترجمہ:سلیمان جو چاہتے یہ جنات ان کے لیے بنا دیتے تھے، بڑی مقدس عمارات، مجسمے، حوض جیسے پیالے اور زمین میں گڑی ہوئی دیگیں، اے آل داؤد! شکر ادا کرو اور میرے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہیں۔[3] مفسرین نے بیان کیا ہے کہ حضرت سلیمانؑ معجزات سے کام نہیں لیتے تھے بلکہ ان کے دور میں ٹیکنالوجی اپنے اوج پر تھی۔ کیونکہ اگر معجزات سے معاشرہ چلائیں تو اس میں تو کوئی کمال نہیں، کمال تب ہے جب معاشرے کو روزمرہ معمول کی کام آنے والی اشیاء اور علم کی مدد سے مدیریت کیا جاۓ۔

ملکہ سبأ کی حیرانگی

اس دور میں محل بنانے کی انجینئرنگ، نقاشی، ہنر، فرشتوں اور پیغمبروں کے مجسمےسازی کی مہارت موجود تھی۔ حضرت سلیمانؑ نے ایک شیشے کا قصر بنایا ہوا تھا وارد ہوا ہے کہ جب ملکہ سبأ قصر میں وارد ہونے لگیں تو اس نے سمجھا کہ پانی بہہ رہا ہے، اس لیے اس نے اپنے کپڑوں کو تھوڑا سا اوپر کر لیا تاکہ گیلے نہ ہو جائیں لیکن جب وہ آگے بڑھی تو حیران رہ گئی کیونکہ وہاں پانی نہیں تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اتنی خوبصورتی سے وہ محل بنایا گیا تھا کہ ایک ملک کی ملکہ بھی حیران ہوۓ بغیر نہ رہ سکی۔ قرآن مجید میں یہ واقعہ نقل ہوا ہے:

«قِیلَ لَهَا ادْخُلِی الصَّرْحَ فَلَمّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَ کَشَفَتْ عَنْ ساقَیْها قالَ إِنَّهُ صَرْحٌ مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِیرَ.».

ترجمہ:ملکہ سے کہا گیا: محل میں داخل ہو جائیے، جب اس نے محل کو دیکھا تو خیال کیا کہ وہاں گہرا پانی ہے اور اس نے اپنی پنڈلیاں کھول دیں، سلیمان نے کہا: یہ شیشے سے مرصع محل ہے۔[4] حضرت سلیمانؑ کے والد بزرگوار حضرت داودؑ نے بھی اپنے دور حکومت میں صنعت میں خوب ترقی کی۔ قرآن مجید میں وارد ہوا ہے کہ آپؑ لوہے سے زرہیں بناتے تھے۔ یہ صنعت پہلی بار ان کے دور میں رواج پا گئی۔

«وَ عَلَّمْناهُ صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَکُمْ لِتُحْصِنَکُمْ مِنْ بَأْسِکُمْ فَهَلْ أَنْتُمْ شاکِرُونَ».

ترجمہ:اور ہم نے تمہارے لیے انہیں زرہ سازی کی صنعت سکھائی تاکہ تمہاری لڑائی میں وہ تمہارا بچاؤ کرے تو کیا تم شکر گزار ہو ؟[5]

ایک اور سورہ میں بیان ہوا:

«أَنِ اعْمَلْ سابِغاتٍ وَ قَدِّرْ فِی السَّرْدِ وَ اعْمَلُوا صالِحاً إِنِّی بِما تَعْمَلُونَ بَصیرٌ».

 ترجمہ: کہ تم زرہیں بناؤ اور ان کے حلقوں کو باہم مناسب رکھو اور تم سب نیک عمل کرو بتحقیق جو کچھ تم کرتے ہو میں اسے دیکھتا ہوں۔[6]

مادی پیشرفت کی ضرورت

قرآن مجید کی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ صنعت میں ترقی کرنا ضروری ہے اور دین اسلام نے باقاعدہ اس کی ترغیب دی ہے۔ اس لیے انبیاء الہی کی عملی سیرت کے ذریعے ہمیں بتایا گیا ہے کہ اس کا صحیح استعمال کرنا چاہیے۔ ہر دور کی علمی اور عملی ضرورتوں کو پورا کرنا ضروری ہے اور یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم صنعت بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔ قرآن مجید میں چند مثالیں وارد ہوئی ہیں جو اس دور کی ضروریات تھیں اسی کے مطابق انبیاء الہی نے صنعت کو فروغ دیا اور ان کا درست استعمال کیا۔ پس آج بھی اگر انہیں الہی خطوط پر ایک اسلامی حکومت بنتی ہے تو اس پر بھی صنعت اور ٹیکنالوجی میں ترقی کرنا ضروری ہوگا۔ لیکن اس ٹیکنالوجی کا منفی استعمال جیسا کہ ایٹم بم بنا کر دوسرے ممالک کو دھمکی دینا، وائرس بنا کر پوری دنیا کا اقتصاد تباہ کرنا، زمین، دریا، ہوا، فضا، جنگلوں اور جانوروں کو نقصان پہنچانا ممنوع ہے۔[7]

منابع:

 

↑1 جاثیہ: ۱۳۔
↑2 سبأ: ۱۲۔
↑3 سبأ: ۱۳۔
↑4 نمل: ۴۴۔
↑5 انبیاء: ۸۰۔
↑6 سبأ: ۱۱۔
↑7 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۱۲تا۱۱۴۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 August 22 ، 13:50
عون نقوی