بصیرت اخبار

۶۸ مطلب با موضوع «مفکرین اسلام» ثبت شده است

آیت اللہ حائری شیرازی:

شب عاشور امام نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ ان یزیدیوں کی جنگ مجھ سے ہے میں تم سب سے اپنی بیعت اٹھاتا ہوں جس نے جانا ہے چلا جاۓ حتی چراغ بجھا دیے تاکہ کسی کو جانے میں عار محسوس نہ ہو لیکن اسی امام نے روز عاشور ''ھل من ناصر" کی صدا بلند کی اور فرمایا ہے کوئی نصرت کرنے والا؟؟ اگر نصرت ہی چاہیے تھی تو رات کو جانے کے لیے کیوں کہہ رہے تھے؟ 

جواب:
امام نے وہ کلام رات کو کیا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ کوئی خبیث شخص طیبین میں نہ ہو، کہ اگر کوئی ہے بھی تو اٹھ جائے۔  اور دن کو وہ کلام اس لیے کیا کہ کوئی طیب شخص خبیثوں میں نا ہو کہ اگر کوئی ہے تو ہماری طرف اجاۓ۔ امام نے رات کو اپنے اصحاب کو چھانا تاکہ فقط صالحین موجود رہیں اور دن کو یزید کے لشکر کو چھانا تاکہ اس کے لشکر میں فقط اشقیاء رہیں۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 25 August 21 ، 19:08
عون نقوی

شہید مرتضیٰ مطہری رحمۃ اللہ علیہ:

بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ علیؑ ہر میدان کے مرد تھے لیکن ایک اچھے سیاستدان نہیں تھے،  صاحبِ علم، باعمل، باتقوی، انسانیت دوست ، باتدبیر و بہت بڑے خطیب تھے لیکن ان کے اندر ایک بہت بڑا عیب یہ تھا کہ سیاست کے گُر نہیں جانتے تھے، ذرہ برابر بھی انعطاف نہیں رکھتے تھے اور سیاسی مصلحتوں سے کام نہیں لیتے تھے۔ ایک سمجھدار سیاستدان وہ ہوتا ہے جو ایک جگہ جھوٹ بولتا ہے ، جھوٹے وعدے دیتا ہے اور بعد میں بے شک عمل نہیں کرتا، مصلحت کو دیکھتے ہوۓ کسی غیر مردانہ معاہدے پر دستخط کر لیتا ہے اور بعد میں یوٹرن لے لیتا ہے۔ اسلام میں یہی تو مسئلہ ہے کہ بہت خشک ہے لچکدار نہیں ہے ، زمانے کے ساتھ نہیں چلتا بلکہ اصولوں کو لے کر چلتا ہے اگر آج کے دور میں کوئی سیاستدان اسلامی اصولوں کے مطابق سیاست کرنے لگ جاۓ تو اسے کوئی بھی سیاستدان نہیں کہے گا۔

حوالہ:

مطہری، مرتضی، اسلام و نیازہای زمان، ج۱، ص۲۲ً۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 August 21 ، 12:57
عون نقوی

آیت اللہ مصباح یزدى دام ظلہ العالی:

                                                                         dfgbd
اگر دین وہ ہے جس کو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے ، تو دین میں معاشرتى اور سیاسى مسائل شامل ہیں ، اس میں عبادات اور شخصى اخلاقیات کے ساتھ شہرى قوانین ، جرم و سزا کے قوانین اور بین الاقوامى سبھى موجود ہیں ، اور گھریلو زندگى ، شادى بیاہ، اور اولاد کى تربیت ، کاروبارى معلومات اور تجارت وغیرہ تک کے اصول بیان کردئے گئے ہیں۔ پس کون سى چیز باقى بچتى ہے جو دین کے دائرے سے خارج ہے ؟ قرآن کریم کى آیات معاملات ، قرض دینے اور رہن رکھنے اور رہن رکھوانے کے بارے میں ہیں۔ اگر اسلام وہى دین ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے تو کس طرح کوئى کہہ سکتا ہے کہ اسلام کا لوگوں کى معاشرتى زندگى سے کوئى تعلق نہیں ؟  اگر نکاح و طلاق کے معاملے دین کہ جز نہ ہوں ، اگر تجارت ، رہن خرید و فروخت اور سود کے مسائل دین سے تعلق نہیں رکھتے ، اگر ولایت کا مسئلہ اور ولى امر کى اطاعت دین کا حصہ نہیں ہے تو پھر دین میں کیا بچتا ہے ؟ اور آپ کس دین کى باتیں کرتے ہیں ؟ قرآن کریم نے تو مسلسل ان چیزوں کے بارےمیں گفتگو کى ہے۔

حوالہ:

اسلام اور سیاست ، مجموعہ از تقاریر آیت اللہ مصباح یزدی دام ظلہ العالی ، صفحہ: ٢٨

۱ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 August 21 ، 12:38
عون نقوی