بصیرت اخبار

۲۵ مطلب با موضوع «اسلامی داستانیں» ثبت شده است

{اسلامی داستانیں: داستان نمبر ۱۴۰}

ترجمہ: عون نقوی

 

شیخ محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی سند سے نقل کیا ہے:

امام صادقؑ کے کرام نامی شاگرد کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے قسم کھائی کہ جب تک قائم آل محمدؑ کا ظہور نہیں فرماتے تب تک دن میں کبھی بھی غذا نہیں کھاؤں گا اور روزہ رکھونگا۔ اس کے بعد امامؑ کی خدمت میں گیا اور ان سے عرض کی کہ آپ کے شیعوں میں سے ایک شخص نے قسم کھائی ہے کہ قائم کے ظہور تک غذا نہیں کھاۓ گا۔ امامؑ نے فرمایا: اے کرام! پس ہر روز روزہ رکھو لیکن سال کے دو دن ہرگز روزہ مت رکھنا۔ عید قربان اور عید فطر کے دن۔ اسی طرح تشریق کے تین دن (۱۱، ۱۲، ۱۳ ذی الحج)، جب بیمار ہو، مسافر ہو روزہ مت رکھنا۔ پھر امام نے فرمایا: جب امام حسینؑ شہید ہوۓ آسمان، زمین اور ان میں جو کچھ بھی تھا اور فرشتوں نے گریہ کیا اور کہا: اے خدا ہمیں اجازت دو کہ مخلوقات کو تباہ و برباد کر دیں۔ کیونکہ اس شہادت سے تیری حریم کی بے احترامی ہوئی اور تیرے منتخب بندے کو قتل کیا گیا۔ اللہ تعالی نے جواب میں فرمایا: اے فرشتو! اور آسمان و زمین، تحمل کرو۔ پھر خداوند متعال نے پردوں میں سے ایک پردہ ہٹا دیا، اس پردے کے پیچھے محمدﷺ اور ان کے بارہ وصی موجود تھے۔ اور پھر قائمؑ کا ہاتھ پکڑا اور تین بار فرمایا: اے فرشتو و زمین و آسمان، «بهذا انتصر لهذا». اس (قائمؑ) کے وسیلے سے اس (امام حسینؑ) کا انتقام لیا جاۓ گا۔[1][2]

منابع:

 
↑1 محمدى اشتہاردى،محمد،داستان ہاى اصول کافى، ص۴۱۴۔
↑2 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱،ص۵۳۴،ح۱۹۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 April 22 ، 21:30
عون نقوی

{اسلامی داستانیں: داستان نمبر ۱۴۱}

ترجمہ: عون نقوی

 

شیخ محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی سند سے نقل کیا ہے:

ابی جارود کہتے ہیں کہ میں نے امام باقرؑ کی خدمت میں عرض کیا: اے فرزند رسول! کیا آپ اپنی نسبت میری محبت، قلبی پیوند اور پیروی کو موجود پاتے ہیں؟

امام: ہاں! 

ابی جارود: میرا آپ سے ایک سوال ہے اور تقاضا ہے کہ اس کا جواب دیں۔ نابینائی کی وجہ سے بہت کم چلتا ہوں اس لیے میرے لیے ممکن نہیں ہے کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا رہوں۔

امام: تمہاری حاجت کیا ہے؟

ابی جارود: وہ دین جس کی بنا پر آپ اور آپ کا خاندان خدا کی پرستش کرتا ہے مجھے بتائیں کہ وہ کیسا ہے؟ تاکہ میں بھی اسی دین کی اساس پر خدا کی عبادت انجام دوں۔

امام: مختصر جملات میں بہت اہم اور بڑا سوال کیا ہے۔ خدا کی قسم! اسی دین کو میں تمہارے سامنے بیان کروں گا جس کی اساس پر میں اور میرا خاندان دیندار ہیں۔ یہ دین اس طرح سے ہے کہ:

۱۔ خدا کی یکتائی کی گواہی

۲۔ حضرت محمدﷺ کی رسالت کی گواہی اور اس پر ایمان لے آنا جو خدا کی طرف سے وہ لے آۓ

۳۔ ہمارے ولی کی امامت اور رہبری کی گواہی اور ہمارے دشمنوں سے دشمنی کرنا

۴۔ ہمارے فرامین کی اطاعت

۵۔ ہمارے قائمؑ کا انتظار

۶۔ واجبات انجام دینے اور محرمات سے بچنے کی کوشش اور پاک زندگی۔[1][2]

منابع:

 
↑1 محمدى اشتہاردى،محمد،داستان ہاى اصول کافى، ص۴۱۸۔
↑2 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۲،ص۲۲،ح۱۰۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 April 22 ، 21:30
عون نقوی

{اسلامی داستانیں: داستان نمبر ۱۴۲}

ترجمہ: عون نقوی

 

شیخ محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی سند سے نقل کیا ہے:

ہشام بن احمر کہتے ہیں کہ امام کاظمؑ نے مجھ سے فرمایا: کیا تمہیں علم ہے کہ کوئی اہل مغرب میں سے مدینہ آیا ہو؟ میں نے عرض کی: نہیں! امام نے فرمایا کہ ایک شخص آیا ہے۔ آؤ اس کو ملنے جاتے ہیں۔ ہم سواری پر اس کی طرف نکل پڑے وہاں جا کر ہم نے دیکھا کہ مدینہ کا رہنے والا ایک شخص غلام بیچ رہا ہے۔ میں نے اس شخص سے کہا کہ اپنے غلام مجھے بھی دکھاؤ۔ اس نے سات کنیزیں مجھے دکھائیں۔ امام کاظمؑ نے ان سب کے بارے میں فرمایا کہ یہ نہیں چاہئیں۔ امام نے فرمایا اس شخص کو کہو کہ اور غلام یا کنیزیں دکھاۓ۔ اس شخص نے کہا کہ صرف ایک کنیز ہے جو میں نے آپ کو نہیں دکھائی۔ وہ بیمار ہے۔ امام کاظمؑ نے فرمایا وہ کنیز تم نے ہمیں کیوں نہیں دکھائی؟ اس غلام فروش نے وہ کنیز بیچنے سے منع کیا، امام کاظمؑ بھی منصرف ہو گئے اور واپس آ گئے۔ ہشام بن احمر کہتے ہیں کہ اگلے دن امام کاظمؑ نے مجھے دوبارہ اس غلام فروش کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ اس سے کہو بیمار کنیز کی جتنی قیمت چاہتے ہو ہم ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ میں اس غلام فروش کے پاس گیا اور اس بیمار کنیز کے بارے میں بات کی۔ اس نے قیمت بتائی۔ میں نے کہا مجھے ہر قیمت منظور ہے اور وہ مجھے دے دیں۔ غلام فروش نے کنیز میرے حوالے کی اور سوال کیا مجھے بتاؤ کل جو شخص تمہارے ساتھ تھا وہ کون تھا؟ میں نے کہا بنی ہاشم میں سے تھا۔ اس نے کہا کون سے بنی ہاشم؟ میں نے کہا مجھے اس بارے میں زیادہ اطلاع نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے پتہ ہے۔ میں نے کہا وہ کیسے؟ اس نے کہا اس کنیز کی بہت لمبی کہانی ہے۔ میں نے اسے مغرب کے بہت دور دراز علاقے سے خریدا ہے۔ اہل کتاب میں سے ایک خاتون نے مجھ سے اس کنیز کے بارے میں سوال کیا کہ یہ کنیز تمہارے ساتھ کیا کر رہی ہے؟ میں نے اس کو کہا کہ میں نے اسے اپنے لیے خریدا ہے۔ اس اہل کتاب خاتون نے کہا: سزاوار نہیں کہ اس جیسی خاتون تم جیسے انسان کے ساتھ رہے، وہ ایک ایسے بیٹے کی ماں بنے گی جس کی مثل مغرب اور مشرق میں نہیں ہو گی۔ ہشام کہتا ہے کہ میں یہ کنیز امام کاظمؑ کے پاس لے گیا اور وہ کنیز امام کاظمؑ کی زوجہ بن گئیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اس سے حضرت امام رضاؑ متولد ہوۓ۔ ان کا نام نجمہ خاتون تھا اور انہیں ام البنین بھی کہا جاتا تھا۔[1][2]

منابع:

 
↑1 محمدى اشتہاردى،محمد،داستان ہاى اصول کافى، ص۳۱۸۔
↑2 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱،ص۴۸۶،ح۱۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 April 22 ، 21:29
عون نقوی

{اسلامی داستانیں: داستان نمبر ۱۴۴}

ترجمہ: عون نقوی

 

شیخ محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی سند سے نقل کیا ہے:

چھٹے عباسی خلیفہ امین کی حکومت ساقط ہونے کے بعد عالم اسلام کی قلمرو ساتویں طاغوتی عباسی خلیفہ مامون نے سنبھال لی۔ مامون نے ایک خط کے ذریعے امام رضاؑ کو مدینہ سے خراسان آنے کی دعوت دی۔ امامؑ نے چند وجوہات کی بنا پر خراسان آنے کی دعوت کو قبول نہ فرمایا۔ مامون مسلسل امام کی خدمت میں خط بھیجتا رہا اور اصرار کرتا رہا کہ خراسان تشریف لائیں۔ امام ناچار ہو کر مجبوری کی حالت میں مدینہ ترک کرنے پر تیار ہو گئے اور خراسان کی طرف عازم ہوۓ۔ اس وقت امام جوادؑ کی عمر مبارک سات سال تھی۔ مامون نے امام رضاؑ کو ساتھ لانے والے اپنے افراد کو یہ تاکید کی ہوئی تھی کہ امام کو ایسے علاقوں سے نہ لائیں جہاں زیادہ تر شیعوں کی آبادی موجود ہے مثلا باختران، ہمدان اور قم کے راستوں سے امام کو نہ لایا جاۓ بلکہ اہواز اور بصرہ کی طرف سے ان کو مرو میں لایا جاۓ۔ امامؑ جب خراسان مرو پہنچ گئے تو مامون نے پیشکش کی کہ آپ خلافت کو قبول کر لیں۔ امامؑ کو چونکہ مامون کے تمام منصوبوں کا علم تھا قاطعیت سے اس پیشکش کو رد فرما دیا۔ پھر مامون نے اصرار کیا کہ اگر خلافت کو قبول نہیں کرتے تو ولی عہدی قبول کریں۔ امام رضاؑ انکار کرتے رہے لیکن بالآخر شدید اصرار کے بعد مشروط طور پر ولی عہدی قبول کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ مامون نے کہا کہ آپ کی جو شرط بھی ہو ہمیں قبول ہے۔ امام نے فرمایا کہ ولی عہدی اس شرط پر قبول کرونگا کہ کسی کو امر و نہی نہیں کروں گا، کسی سیاسی مسئلے میں دخالت نہیں کروں گا، حکم اور فتوی نہیں دونگا، کسی کو نصب یا عزل بھی نہیں کروں گا۔ اور اس طرح امامؑ نے ولایت عہدی کو قبول کیا جو کہ درحقیقت اس بات کی نشاندہی کرتی تھی کہ کسی بھی حکومتی امر میں دخالت نہ کرنا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ امام نے ایک ظالم حکومت کی ولی عہدی کو حقیقی طور پر قبول نہ فرمایا۔[1][2]

منابع:

 
↑1 محمدى اشتہاردى،محمد،داستان ہاى اصول کافى، ص۳۲۶۔
↑2 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱،ص۴۸۸،ح۷۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 April 22 ، 21:27
عون نقوی

{اسلامی داستانیں: داستان نمبر ۱۴۵}

ترجمہ: عون نقوی

 

شیخ محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی سند سے نقل کیا ہے:

مسافر نامی شخص کہتا ہے کہ جب ہارون بن مسیب نے محمد بن جعفر سے جنگ کی ٹھان لی تو امام رضاؑ نے مجھے فرمایا: مسیب کے پاس جاؤ اور اسے کہو کہ کل جنگ پر مت جاۓ اگر گیا تو بہت بری طرح سے شکست کھاۓ گا اور اس کے سب دوست قتل کر دیے جائیں گے۔ اگر وہ تم سے پوچھے کہ یہ سب تم کہاں سے جانتے ہو تو کہنا میں نے خواب میں دیکھا ہے۔

مسافر کہتا ہے کہ میں مسیب کے پاس گیا اور اسے سارا ماجرا سنایا۔ اس نے کہا تمہیں اس کی کیسے خبر ہوئی؟ میں نے کہا خواب میں دیکھا ہے۔ مسیب نے کہا اس شخص کا خواب جو ہمارے نیچے پیٹھتا ہے سچا نہیں ہو سکتا۔ مسیب اگلے دن جنگ پر گیا اور اسے بری طرح سے شکست ہوئی اور اس کے سب ساتھی قتل ہو گئے۔

مسافر کہتا ہے کہ ہم منا کی سرزمین پر موجود تھے۔ امام رضاؑ بھی ہمارے ساتھ تھے۔ یحیی بن خالد برمکی ہمارے سامنے سے گزرا اس نے گرد و غبار سے بچنے کے لیے اپنے سر پر کپڑا ڈالا ہوا تھا۔ امامؑ نے اسے دیکھ کر فرمایا: مساکین لا یدرون ما یحل بهم فی هذه السنه. ان بے چاروں کو پتہ ہی نہیں کہ اس سال ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟ گرد و غبار سے خود کو ڈھانپا ہوا ہے جبکہ اسی سال یہ خاک میں مل جائیں گے۔ پھر امام نے فرمایا: میں اور ہارون اس طرح سے باہم متصل ہو جائیں گے جیسے یہ دو انگلیاں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں۔

مسافر کہتا ہے کہ جیسا امام نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا اور اسی سال ہارون نے یحیی بن خالد برمکی کو قتل کروا دیا اور اس کے بقیہ اثر و رسوخ افراد کو بھی خاک میں ملا دیا۔ لیکن مجھے امام کی دوسری سمجھ نہ آئی جس میں امام نے دو انگلیوں کو ایک ساتھ ملا کر یہ فرمایا تھا کہ میں اور ہارون ایک ساتھ مل جائیں گے یہاں تک کہ امام رضاؑ کی شہادت کے بعد ان کو ہارون کی قبر کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔[1][2]

منابع:

 

↑1 محمدى اشتہاردى،محمد،داستان ہاى اصول کافى، ص۳۳۲۔
↑2 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱،ص۴۹۱،ح۹۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 April 22 ، 21:25
عون نقوی