بصیرت اخبار

امام خامنہ ای دام ظلہ العالی:

ہم شمر پر لعنت کیوں کرتے ہیں اس لیے کہ ان اسباب کو ختم کر سکیں جو کسی کو شمر بناتے ہیں، اور اس لیے کہ جو بھی شمر کی مانند کردار رکھتا ہے اس کو سرکوب کر سکیں۔ ہم یزید اور عبیداللہ بن زیاد پر لعنت اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ہمیں طاغوت کی حاکمیت سے مسئلہ ہے، یزیدی طرز کی حکومتیں، عیش و نوش اور مومنین پر ظلم کرنے والی حاکمیت سے مقابلے کے لیے یہ لعنتیں کی جاتی ہیں۔
حسین بن علیؑ نے بھی اس وقت اسی وجہ سے قیام کیا تھا تاکہ اسلامی، انسانی اور الہی اقدار کو پائمال کرنے والی حاکمیتوں کی ناک خاک میں رگڑ سکیں، عزاداری امام حسینؑ کا استمرار اس لیے جاری ہے کہ یہ مجالس در اصل ظلم اور زورگیری کے خلاف احتجاج ہیں، یہ مجالس دور حاضر کے شمروں، یزیدوں اور ابن زیاد جیسوں کے خلاف احتجاج کے طور پر برپا کی جاتی ہیں۔

حوالہ:
خامنہ ای ڈاٹ آئی آر

۱ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 16 August 21 ، 16:19
عون نقوی

جنگ نہروان کے بعد امیرالمومنینؑ شام جانے کا ارادہ رکھتے تھے اور فرمایا کہ اللہ تعالی نے تمہیں خوارج کے خلاف نصرت عطا کی اب شام جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہو، اشعث بن قیس اور دیگر افراد نے کہا کہ ہماری تلواریں کند ہو گئی ہیں اور نیزوں کی انیاں ناکارہ، کچھ دن کوفہ جانے دیجیے تاکہ لشکر کچھ سستا لے اور تازہ دم ہو کر دشمن سے لڑا جاۓ۔ امیرالمومنینؑ نے مخالفت کی اور فرمایا کہ ہمارا اصل ہدف تو شام ہے اس میں تاخیر کرنا مصلحت کے خلاف ہے لیکن آپؑ کے لشکر والوں نے ایک نہ مانی اور مجبور کر دیا کہ واپس کوفہ تشریف لے جائیں۔

ادھر جب کوفہ پہنچے تو اور فتنے کھڑے ہو گئے، ان فتنوں کو ہم اس تحریر میں دو حصوں میں تقسیم کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک فتنہ خوارج اور ان کے ہمفکر اشخاص کا پھیلایا ہوا فتنہ تھا اگرچہ جنگ نہروان میں ان کی ایک بہت بڑی تعداد ماری گئی لیکن پوری طرح سے ان کا خاتمہ نہ کیا جا سکا، خوارج کے بہت سے ہمفکر لوگ کوفہ میں بھی ان کے ساتھ ملحق ہو گئے اور جتھا بندی کر کے مملکت کے نظم و نسق کو درہم برہم کر نے لگے اور دوسرا فتنہ جس نے مملکت اسلامی میں ہر طرف سے افراتفری پھیلا رکھی تھی وہ امیر شام کا پھیلایا ہوا فتنہ تھا۔ عموما سمجھا جاتا ہے کہ امیرالمومنینؑ کے خلاف تین جنگیں لڑی گئیں اور جنگ نہروان کے بعد کوئی جنگ نہیں لڑی گئی لیکن اگر تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جاۓ تو معلوم ہوتا ہے کہ امیرالمومنینؑ نے اپنی ظاہری حکومت کے ایام میں ایک دن بھی چین سے نہیں گزارا اور فتنوں کو سرکوب کرنے میں مصروف رہے اور اسی مبارزے کے دوران شہید کر دیے گئے۔

 

۱۔ خوارج اور ان کے ہمفکر اشخاص کی بغاوتیں:

جنگ نہروان صفر کے مہینے سال ۳۸ ہجری میں برپاہوئی امیرالمومنینؑ جنگ سے فارغ ہونے کے بعد کوفہ واپس پلٹے ہی تھے کہ حکومت کے خلاف دیگر فتنوں نے سر اٹھا لیا جن کا اختصار کے ساتھ ذکر کیا جا رہا ہے۔

۱۔ اشرث بن عوف شیبانی کی بغاوت:

                        ربیع الثانی۳۸ ہجری میں اشرس بن اعوف شیبانی نے مقام دسکرہ میں امیرالمومنینؑ کی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور دو سو افراد کو اپنے ساتھ ملا کر انبار میں جا کر ڈیرے جما لیے۔ امیرالمومنینؑ نے ابرش بن حسان کو تین سو کے لشکر کے ساتھ اس کی سرکوبی کے لیے بھیجا جس کے نتیجے میں اشرس مارا گیا اور اس کے بچے کھچے ساتھی منتشر ہو گئے۔ (۱) یوسفی، شیخ محمد ہادی، موسوعۃ التاریخ الاسلامی، ج۵، ص۳۳۷۔

۲۔ ہلال ابن علفہ کی بغاوت:

امیرالمومنینؑ کے لشکر نے ابھی اشرث بن عوف کی بغاوت کو کچلا ہی تھا کہ کچھ دنوں بعد ہلال اور اس کے بھائی مجاہد نے خروج کیا، ان کے تعاقب کے لیے معقل بن قیس کو بھیجا گیا جنہون نے ماسبذان کے مقام پر ہلال اور مجاہد کو خونریز جنگ کے بعد شکست دی اور اس شورش کو بھی کچل دیا ۔ (۲) محمدی رے شہری، محمد، دانش نامہ امیرالمومنین بر پایہ قرآن و حدیث، ج۶، ص۵۰۵۔

 ۳۔ اشہب بن بشر کی بغاوت:

جمادی الثانی سال ۳۸ ہجری میں شہب بن بشر نے ایک سو اسی آدمیوں کے ساتھ بغاوت کی، یہ شخص قبیلہ بجلیہ سے ہے۔پہلے اپنا لشکر لے کر پہلے ماسبذان کی طرف گیا اور ہلال بن علفہ اور اس کے ساتھیوں کی میتوں پر نماز جنازہ پڑھی اور اس کے بعد امیرالمومنینؑ کے خلاف شورش کرنے نکل پڑا۔ اس کے مقابلہ کے لیے جاریہ بن قدامہ سعدی کو بھیجا گیا، سخت جنگ کے بعد جرجرایا میں مقام جوخا پر اشہب اور اس کے ساتھی قتل کر دیے گئے ۔ (۳) بغدادی، عبدالقاہر، الملل و النحل، ج۱، ص۶۱۔

۴۔ سعید بن قفل تیمی کی بغاوت:

ماہ رجب سال ۳۸ ہجری میں ہی سعید بن قفل تیمی نے بندنیجین کے مقام پر شورش برپا کی اور دو سو افراد کے ساتھ مقام درزنجان جا پہنچا جہاں حاکم مدائن سعد بن مسعود نے اس کے خلاف جنگ کی اور ان سب کو تہ تیغ کیا ۔ (۴) ابن الاثیر، عزالدین، الکامل فی التاریخ، ج۲، ص ۷۲۲۔

۵۔ ابو مریم سعدی تیمی کی بغاوت:

پانچویں بغاوت ماہ رمضان ۳۸ ہجری میں ابو مریم سعدی تیمی کی سربراہی میں ہوئی، ابو مریم سعدی کے ساتھ چار سو کے قریب عجمی افراد تھے اور اس کے لشکر میں فقط چھ افراد عرب تھے جن میں سے ایک عرب یہ خود تھا۔ اس نے کوفہ سے باہر پانچ فرسخ کے فاصلے پر پڑاؤ ڈالا جب امیرالمومنینؑ کو خبر دی گئی تو انہوں نے مذاکرات کے لیے ایک سفیر بھیجا اور اسے کہا کہ جاؤ اور ان سے بیعت طلب کرو، انہوں نے اسے پیغام دیا کہ ہمارے اور علیؑ کے درمیان جنگ ناگزیر ہے امیرالمومنینؑ نے شریح بن ہانی کو سات سو افراد کے ساتھ بھیجا لیکن ابو مریم سعدی تیمی کے لشکر نے ان کو ابھی سنبھلنے ہی نہ دیا تھا اور حملہ کر دیا، شدید حملے کے نتیجے میں شریح کے لشکر کے بہت سے افراد منتشر ہوگئے۔ اور ان کے ہمراہ فقط دو سو آدمی رہ گئے جنہوں نے ایک آبادی میں پناہ لی، منتشر ہو جانے والے پانچ سو افراد میں سے کچھ تو کوفہ واپس ہو گئے اور کچھ شریح سے ملحق ہو گئے  جب امیرالمومنینؑ کو شریح کے لشکر کے منتشر ہونے کی خبریں ملیں تو جاریہ بن قدامہ کو خوارج کے پاس بھیجا اور انہیں بیعت کرنے پر ابھارا۔جب یہ کوشش بھی ناکام رہی تو امیرالمومنینؑ خود تشریف لاۓ اور ان کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے باغیانہ موفق پر ڈٹے رہے، حضرتؑ نے جب ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو دیکھا تو ان پر حملہ کرنے کا حکم دیا اور ان کو تہ تیغ کر دیا ۔ (۵) بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف للبلاذری، ج۲، ص۴۸۵۔

۶۔ خریت بن راشد کی بغاوت:

خوارج کے باغی گروہوں میں سے ایک گروہ خریت بن راشد کا ہے جو بنی ناجیہ کے خوارج کا سربراہ اور کوفہ کا رہنے والا تھا۔ جب امیرالمومنینؑ جنگ نہروان کے بعد کوفہ واپس آۓ تو اس نے کوفہ کو ترک کر دیا اور امیرالمومنینؑ کو کہا کہ ہم آپ کا کوئی حکم نہیں مانیں گے، آپ کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے۔ کوفہ سے باہر نکل جانے کے بعد اس نے چند عرب اور مسیحی اپنے گرد اکٹھا کر لیے۔ عربوں کو یہ کہہ کر ورغلایا کہ اس حکومت کو زکات کے اموال نہ دیں کیونکہ یہ کافروں کی حکومت ہے اور مسیحیوں کو کہا کہ آپ لوگ اس حکومت کو جزیہ نہ دیں ان میں سے بعض ایسے افراد بھی تھے جنہوں نے مسیحیت کو ترک کر کے دین اسلام کو قبول کیا تھا اور نہیں چاہتے تھے کہ جزیہ دیں جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان لوگ تو آپس میں ہی لڑ بھڑ رہے ہیں اس سے تو ہمارا اپنا دین اچھا تھا۔ اس اختلاف و باہمی دشمنی کو دیکھ کر وہ مرتد ہو گئے لیکن خریت نے ان کو کہا کہ تمہارے پاس اب کوئی چارہ نہیں کیونکہ جو شخص اسلام قبول کر کے دوبارہ کسی اور دین کو قبول کر لے تو وہ مرتد کہلاتا ہے اور مرتد کی سزا موت ہے اس لیے تم لوگ یہی کر سکتے ہو کہ ہمارے ساتھ ملحق ہو جاؤ اور جنگ کرو ورنہ یہ حکومت ویسے بھی مرتد ہونے کے جرم میں تم لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دے گی۔ امیرالمومنینؑ نے معقل بن قیس کی سربراہی میں ایک لشکر خریت کے مقابلے کے لیے بھیجا۔ معقل نے خریت کے لشکر کے پاس جا کر پڑاؤ ڈالا اور یہ اعلان کروا دیا کہ جو بھی خریت کے لشکر میں تازہ شامل ہوۓ ہیں اگر وہ الگ ہو جاتے ہیں تو ان کی باز پرس نہیں کی جاۓ گی۔ اس اعلان کایہ اثر ہوا کہ ایک بہت بڑی جماعت خریت کے لشکر سے جدا ہو گئی جس کی وجہ سے خریت کے لشکر میں پھوٹ پڑ گئی اور باقی رہے سہے افراد کے حوصلے بھی ٹوٹ گئے اور اس طرح معقل نے خریت کے لشکر کو بدترین شکست دی اور اسے قتل کر دیا ۔ (۶) الثقفی الکوفی، ابراہیم، الغارات، ج۲، ص ۷۷۲۔

 

۲۔امیرالمومنینؑ کے خلاف اہل شام کی بغاوتیں:

                        امیرالمومنینؑ جنگ نہروان کے فورا بعد شام کی طرف نکلنا چاہتے تھے اور اس نامکمل جنگ کو مکمل کرنا چاہتے تھے جو صفین کے مقام پر فیصلہ کن مرحلے سے پہنچنے سے پہلے ہی امیر شام اور عمرو ابن عاص کے مکر و فریب کا شکار ہو گئی۔ جس کے نتیجے میں نا صرف امیر شام شامات کے علاقوں پر مسلط ہو گیا بلکہ امیرالمومنینؑ کا لشکر بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا اور بعض اپنے ہی نادانی میں امیرالمومنینؑ کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ جب امیرالمومنینؑ خوارج کے خلاف مصروف جنگ تھے ادھر امیر شام ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہ رہا اور اپنے لشکر کو تازہ دم کی، ان کے حوصلے بلند کیے اور اس سے پہلے کہ امیرالمومنینؑ خود شام کی طرف لشکر کشی کرتے امیر شام نے اپنے لشکر کو امیرالمومنینؑ کی حکومت کو متزلزل کرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔ ذیل میں امیر شام کی جانب سے چند متعین افراد کے احوال ذکر کیے جا رہے ہیں جنہوں نے لشکر کشی کی صورت میں اس وقت کی اسلامی حکومت کے مختلف علاقوں میں مسلحانہ حملے کیے مسلمانوں کے اموال لوٹے اور ان کو موت کے گھاٹ اتارا اور ہر اس شخص کو شدید ترین شکنجے دیے جو امیرالمومنینؑ کی بیعت میں تھا۔

۱ ۔ ضحاک بن قیس کی تباہ کاریاں:

ضحاک بن قیس فہری کا شمارحکومت بنی امیہ اور خصوصا معاویہ کے دور حکومت کے اہم ترین و بانفوذ سیاسی  افراد میں ہوتا ہے۔ وہ امیر شام کا مشاور و امین تھا اس  نے جنگ صفین میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔بعض منبع میں وارد ہوا ہے کہ وہ لشکر شام کے پیادہ نظام کا کمانڈر تھا۔   (۷)  ابن اعثم، احمد، الفتوح لابن اعثم، ج۳، ص۲۴۔

امیرالمومنینؑ جنگ نہروان سے ابھی فارغ ہوۓ ہی تھے کہ امیر شام نے ضحک بن قیس کی سربراہی میں چار ہزار کا لشکر کوفہ کی طرف بھیجا اور اسے  فرمان دیا کہ کوفہ کے تمام قبائل میں جاؤ اور اردگرد کی بستیوں کا چکر لگاؤ جو لوگ بھی علی کی اطاعت میں ہیں ان کو قتل کر دو اور ان کا مال و اسباب لوٹ لو، چنانچہ ضحاک بن قیس تمام آبادیوں کو روندتا ہوا مقام ثعلبیہ جا پہنچا۔ مقام ثعلبیہ سے ایک قافلہ جو حج کے لیے مکہ کی طرف جا رہا تھا ضحاک کے لشکر نے ان پر حملہ کر کے حاجیوں کے تمام ساز و سامان لوٹ لیا اور اس کے بعد تباہیاں مچاتا ہوا قطقطانہ کی طرف بڑھا جہاں عمرو بن قیس اور ان کے ساتھیوں کو قتل کر دیا۔ جب امیرالمومنینؑ کو ضحاک کی تباہ کاریوں کی خبر دی گئی تو حضرت منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ عمر بن عمیس کی مدد کے لیے فورا نکل پڑو کیونکہ وہ سب تمہارے بھائی ہیں اور خطرے میں ہیں لیکن امیرالمومنینؑ کے لشکر پر امام کے حکم کا کوئی اثر نہ ہوا ۔ آپؑ نے دردناک لہجے میں فرمایا کہ تمہاری حالت دیکھ کر میں معاویہ سے یہ معاملہ کرنے کے لیے تیار ہوں کہ وہ میرے  دس بندے لے لے اور اپنا ایک بندہ دیدے۔ حضرتؑ نے ان کے رویوں پر غم و غصہ کا اظہار کیا اور ان کی غیرت کو جھنجھوڑا بالآخر چار ہزار کا لشکر حجر ابن عدی کی قیادت میں آمادہ ہوا اور دشمن سے جنگ کرنے کے لیے سماوہ جا پہنچا۔ وہاں سے ضحاک کا لشکر کا نکل چکا تھا یہاں تک کہ حجر ابن عدی نے تدمر کے علاقے میں اسے پا لیادونوں کے درمیان شدید لڑائی ہوئی جس میں امیرالمومنینؑ کی فوج میں دو افراد شہید ہوۓ اور ضحاک کی فوج کے انیس افراد کام آۓ۔ بعد میں ضحاک کا لشکر رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ فرار ہو گیا اور جب صبح حجر ابن عدی کو معلوم ہوا تو وہ بھی کوفہ واپس لوٹ آۓ، ضحاک کی غارتگریوں اور اپنوں کی بے حالی اور سستی پر امیرالمومنینؑ نے مفصل دردناک خطبہ دیا جو نہج البلاغہ میں (خطبہ۹۲) موجود ہے اختصار کو مدنظر رکھتے ہوۓ قارئین کو اس خطبے کی طرف ارجاع دیا جا رہا ہے۔ (۸) بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف للبلاذری، ج۲، ص۴۳۸۔

اس جنگ کے بعد بھی رقہ اور قرقیسیا کے علاقوں میں اس نے پیوستہ حملے کیے اور ان علاقوں کی امنیت کو خراب کیا ۔ (۹) ثقفی، ابراہیم بن محمد، الغارات، ج۲، ص۵۲۶۔

۲۔ سفیان بن عوف غامدی کی تباہ کاریاں:

اسی سال ۳۹ہجری میں  معاویہ  نے سفیان بن عوف کی  سربراہی میں چھ ہزار فوجی ہیت ، انبار اور مدائن کی تباہی کے لیے بھیجے اسے ہدایت دی کہ وہ ہر فوجی چھاؤنی پر حملہ کرتا جاۓ اور انہیں تباہ و برباد کرتاجاۓ، ہیت کے گورنر جناب کمیل بن زیاد کو معلوم ہوا تو وہ شہر چھوڑ کر ان کے تعاقب میں چلے گئے جب سفیان چھپ چھپاتا ہیت پہنچا تو اس نے شہر کو خالی پا کر خوب تباہ کاری مچائی اور انبار کی طرف نکل گیا، شہر انبار کی حفاظت کے لیے پانچ سو افراد تعینات تھے جن میں سے اس وقت فقط دو سو افراد موجود تھے اور بقیہ ادھر ادھر جا چکے تھے، دشمن نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اکثر افراد کو شہید کر دیا وہاں شامیوں نے ایک ایک گھر کو لوٹا ، عورتوں کے زیورات اتار لیے اور جو ہاتھ لگا سمیٹ لیا۔ جب امیرالمومنینؑ کوخبر دی گئی تو آپؑ نے کمیل ابن زیاد کو تہدید آمیز خط لکھا اور اس کو شہر چھوڑنے پر توبیخ کی اور منبر پر جا کر لوگوں کو جہاد کی دعوت دی لیکن کسی سمت سے لبیک کی آواز بلند نہ ہوئی اس پر امیرالمومنینؑ غم و غصہ کی حالت میں تن تنہا دشمن کو کچلنے کے ارادہ سے خود تیار ہوۓ اب لوگوں کو غیرت آئی تو وہ بھی حضرت کے پیچھے وادی نخیلہ آن پہنچے، وہاں ہانی بن خطاب ہمدانی کو دشمن کی کھوج لگانے کے لیے بھیجا تو معلوم ہوا کہ سفیان کا لشکر آگے بڑھ چکا ہے۔

حضرتؑ نے دوبارہ ان کا تعاقب کرنے کے لیے اور جہاد کی اہمیت بیان کرتے ہوۓ خطبہ دیا جس میں فرمایا:

’’بنی غامد کے آدمی(سفیان بن عوف) کی فوج کے سوار انبار کے اندر پہنچ گئے ہیں اور حسان بن حسان بِکری کو قتل کر دیا اور تمہارے محافظ سواروں کو سرحدوں سے ہٹا دیا مجھے تو یہ اطلاعات بھی ملی ہیں کہ اس جماعت کا ایک آدمی مسلمان اور ذمی عورتوں کے گھروں میں گھس جاتا تھا اور ان کے پیروں سے کڑے(ہاتھوں سے کنگن) اور گلوبند و گوشوارے اتار لیتا تھا اور ان کے پاس اس سے حفاظت کا کوئی ذریعہ نظر نہ آتا تھا۔ سوا اس کے کہ انا للہ و انا الیہ راجعون کہتے ہوۓ صبر سے کام لیں، یا خوشامدیں کر کے اس سے رحم کی التجا کریں۔ وہ لدے پھندے ہوۓ پلٹ گئے، نہ کسی کو زخم آیا، نہ کسی کا خون بہا۔ اب اگر کوئی مسلمان ان سانحات کے بعد رنج و ملال سے مر جاۓ تو اسے ملامت نہیں کی جاسکتی بلکہ میرے نزدیک ایسا ہی ہونا چاہیے‘‘۔

حضرتؑ نے مزید فرمایا:

’’ ان لوگوں کا باطل پر ایکا کر لینا اور تمہاری جمیعت کا حق سے منتشر ہو جانا دل کو مردہ کر دیتا ہے اور رنج و اندوہ بڑھا دیتا ہے، تمہارا برا ہو، تم غم و حزن میں مبتلا رہو۔۔۔۔۔ اگر گرمیوں میں تمہیں ان کی طرف بڑھنے کے لیے کہتا ہوں تو تم کہتے ہو کہ یہ انتہائی شدت کی گرمی کا زمانہ ہے اتنی مہلت دیں کہ گرمی کا زور ٹوٹ جاۓ اور اگر سردیوں میں چلنے کے لیے کہتا ہوں تو تم  کہتے ہو کہ کڑاکے کا جاڑا ہے۔۔۔۔ پھر امامؑ نے فرمایا کہ اے مردوں کی شکل و صورت والے نامردو! تمہاری عقلیں بچوں کی سی اور تمہاری سمجھ حجلہ نشین عورتوں کی سی ہے‘‘۔ (۱۰)  مفتی جعفر، حسین، نہج البلاغہ اردو، خطبہ۲۷، ص۴۴۔

اس  پر جندب بن عفیف ازدی کھڑے ہوۓ اور کہا کہ میں اور میرا بھتیجا تیار ہیں آپ جو حکم دیں گے ہم وہ بجا لائیں گے ، امیرالمومنینؑ نے فرمایا کہ جو میں چاہتا ہوں وہ تم دو آدمیوں کے بس میں نہیں کیونکہ حضرتؑ یہ چاہتے تھے کہ ان تمام افراد کو سزا دی جاۓ جنہوں نے جہاں کہیں بھی مملکت اسلامی کا امن خراب کرنے کی کوشش کی۔ آپؑ نے سعید بن قیس کی واپسی کے بعد دوبارہ اہل کوفہ کو جمع کر کے خطبہ دیا اور فرمایا کہ انصار مدینہ تعداد میں تم سے کم تھے لیکن انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی حمایت و نصرت کی یہاں تک کہ اسلام کا پرچم فضاۓ عرب میں لہرانے لگا۔ اس پر ایک دراز قامت شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اے علی! آپ نہ محمد ہیں اور نہ ہم انصار ، ہم پر اتنا بوجھ ڈالیں جتنا ہم اٹھا سکیں۔ حضرتؑ نے فرمایا کہ بات کو سمجھو اور سوچ کر بولو۔ میں نے کب کہا کہ میں محمد ہوں اور تم انصار؟میں نے فقط مثال دی کہ اگر انصار کی روش پر چلیں تو دشمن کی غارتگریوں کا جواب دیا جا سکتا ہے۔ اس پر ایک اور شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ آج امیرالمومنینؑ کو اصحاب نہروان کی ضرورت کا احساس ہوا ہوگا کہ جنہیں خود اپنے ہاتھوں سے قتل کیا ۔ (۱۱) مفتی جعفر، حسین، سیرت امیرالمومنین، ج۱، ص۶۹۲۔

بعد میں امیرالمومنینؑ نے معقل بن قیس تمیمی کو چھ ہزار کا لشکر دے کر سفیان بن عوف کے تعاقب کے لیے بھیجاجب معقل اس تک پہنچےتب تک سفیان بن عوف  اپنا کام کر چکا تھا، امیرالمومنینؑ کے لشکر کے تیار ہونے تک اس نے  فرات کے ساحلی علاقوں، شہر انبار، اور مدائن میں خوب تباہ کاریاں مچائیں جب اسے معقل کے لشکر کا علم ہوا تو وہ فرار کر کے شام کی طرف بھاگ گیا۔(۱۲) ثقفی الکوفی، ابراہیم، الغارات، ج۲، ص۴۷۰۔

۳۔عبداللہ بن مسعدہ فزاری کی لشکر کشی:

اسی سال امیر شام نے عبداللہ بن مسعدہ فزاری کو سترہ سو افراد کے ساتھ تیماء کی جانب روانہ کیا اور اسے کہا کہ وہ مکہ اور مدینہ کی اردگرد کی بستیوں میں وہاں کے لوگوں سے زکات کا مطالبہ کرے اور جو انکار کرے اس کو قتل کر دے۔ جب امیرالمومنینؑ کو اس کا علم ہوا تو آپؑ نے مسیب بن نجبہ فزاری کو جنگ کے لیے بھیجا، مسیب ظہر کے وقت تیماء جا پہنچے دونوں کے درمیان جنگ ہوئی، مسیب نے تیسرے وار پر ہی ابن مسعدہ کو گرا دیا چونکہ یہ  دونوں ایک ہی قبیلے سے تھے مسیب نے چپکے سے اسے کہا کہ بھاگ جاؤ۔ اس کے نتیجے میں ابن مسعدہ اور اس کے ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ (۱۳) طبری، ابن جریر، تاریخ طبری تاریخ الرسل و الملوک و صله تاریخ الطبری، ج۵، ص۱۳۵۔

۴ ۔ بسر ابن ابی ارتاۃ کی تباہ کاریاں:

بسر بن ابی ارطاۃ قبیلہ قریش بنی عامر سے ہے بعض شامی مؤرخین نے اسے صحابی قرار دیا ہے جبکہ مشہور قول کی بنا پر اس کی ولادت رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے دو سال بعد ہے اور اس بنا پر اکثر محققین اس کے صحابی ہونے کو رد کرتے ہیں۔ بسر جنگ صفین میں امیر شام کی سپاہ کے کمانڈروں میں سے تھا، امیرالمومنینؑ کے سامنے آنے سے گھبراتا تھا، ایک بار جب ناگزیر صورتحال میں امیرالمومنینؑ سے جنگ میں سامنا ہوا تو عمرو بن عاص کی طرح خود کو امیرالمومنینؑ کے آگے ننگا کر دیا جس کی وجہ سے امیرالمومنینؑ منہ پھیر کر آگے بڑھ گئے اور اس نے اپنی جان بچا لی۔  (۱۴) منقری، نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ج۱، ص۴۶۱۔

جنگ نہروان کے بعد امیر شام کی جانب سے امیرالمومنینؑ کی حکومت کو متزلزل کرنے کے لیے جو اقدامات اٹھاۓ گئے ان کا ایک حصہ اوپر بیان ہوا ہے، انہیں اقدامات میں سے معاویہ کا بسر ابن ابی ارطاۃ قرشی کو لشکر دے کر مختلف بلاد اسلامی میں اعزام کرنا ہے جس نے امیرالمومنینؑ کی حکومت کو شدید نقصان پہنچایا اور مسلمانوں کی عزت و ناموس کی دھجیاں اڑا دیں۔ امیر شام نے عراق و حجاز کی سرزمین پر امیرالمومنینؑ سے بیعت کرنے والے قبائل کو کچلنے کے لیے بسر کو تین ہزار کے لشکر کے ساتھ روانہ کیا اور اسے کہا کہ جو بھی امیرالمومنینؑ کی بیعت کو توڑ کر میری بیعت نہ کرے اسے موت کے گھاٹ اتار دو۔ (۱۵) ابن ابی الحدید، عزالدین، شرح نہج البلاغہ، ج۲، ص۶۔

بسر شام سے تباہیاں پھیلاتا ہوا مدینہ پہنچا تو والی مدینہ ابو ایوب انصاری وہاں سے نکل کھڑے ہوۓ، بسر مدینہ کے لوگوں سے خصوصا انصار سے نہایت سخت لہجے سے پیش آیا اور ایک قول کی بنا پر ہر اس شخص کو قتل کر دیا جس پر خلیفہ سوم کے قتل کا اتہام تھا ۔ (۱۶) ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۰، ص۱۵۲۔

بسر جیسے ہی مدینہ میں داخل ہوا مسجد نبوی کے منبر پر جا کر سب کو قتل کر دینے کی دھمکی دی اور کہا کہ تم سب لوگ خلیفہ سوم کے قتل کے جرم میں شریک ہو بعدمیں  عبداللہ بن زبیر کی سفارش پر اس کام سے رک گیا اور مدینہ کے لوگوں سے زبردستی امیر شام کے لیے بیعت لی۔ اہل مدینہ میں سے اکثریت نے بیعت کر لی یا خوف سے شہر سے باہر نکل گئے انہیں میں سے ایک شخصیت جابر بن عبداللہ انصاری ہیں، بسر نے جابر کے قبیلے والوں سے کہا کہ جابر کو میرے پاس لاؤ ورنہ تم سب کو قتل کر دیا جاۓ گا جب جابر کو اس کی خبر ہوئی تو وہ ام المومنین ام سلمہ کے پاس مشورت کے لیے تشریف لاۓ اور پوچھا کہ اسے کیا کرنا چاہیے؟ اگر بیعت نہ کروں تو میری جان اور قبیلے والے خطرے میں پڑ سکتے ہیں اور اگر بیعت کروں تویہ بھی ضلالت و گمراہی ہے۔ تاریخ طبری میں آیا ہے کہ اس ملاقات کے بعد جابر نے بسر کے ہاتھ پر امیر شام کی بیعت کر لی۔  (۱۷) طبری، ابو جعفر، تاریخ الطبری تاریخ الرسل و الملوک، و صلۃ تاریخ الطبری، ج۵، ص۱۳۹۔ بسر مدینہ میں ایک ماہ رہا اس دوران اس نے انصار اور شیعیان علیؑ کے گھروں کو جلایا، جن میں  زرارہ بن جرول، رفاعہ بن رافع، ابو ایوب انصاری کے گھر شامل ہیں۔   (۱۸) ثقفی الکوفی، ابراہیم، الغارات، ج۲، ص۵۵۴۔

ان تمام افراد کو بھی قتل کر دیا جن کا قتل خلیفہ سوم میں شریک ہونے کا شک یا ظن تھا، اس کے علاوہ بنی کعب بن عمرو کے چند افراد کو کنویں میں پھینکوایا ۔ (۱۹) ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری متمم الصحابۃ الطبقۃ الخامسۃ، ج۲، ص۱۸۶۔

ایک ماہ کی مدینہ میں سکونت کے بعد بسر مکہ کی طرف بڑھا، راستے میں بنی خزاعہ کے بہت سے افراد کو قتل کیا اور ان کے اموال کو غارت کیا۔  (۲۰) ثقفی، ابراہیم بن محمد، الغارات، ج۲، ص۴۰۴۔ امیرالمومنینؑ کی جانب سے متعین مکہ کے والی قثم بن عباس کو جب علم ہوا کہ بسر نے مکہ کی طرف رخ کر لیا ہے تو وہ شہر سے بھاگ کھڑا ہوا اس طرح بسر بنا کسی خوف و خطر کے مکہ میں داخل ہوا، بسر مکہ میں پہنچا تو قریش مکہ میں سے ایک گروہ بسر کو ملنے گیا، بسر نے سب کو قتل کرنے کی دھمکی دی بعد میں بخشش طلب کرنے اور قبائلی تعصب آل امیہ سے وفاداری کی قسم کھا کر ان کی جان بخش دی۔ اس کے بعد خطبہ میں امیر شام کو خلافت کے لیے سزاوار تر قرار دیتے ہوۓ اہل مکہ کو ان کے گھروں کو جلا دینے کی دھمکی دیتے ہوۓ ڈرا کرمعاویہ کے لیے  بیعت لی اور شیبہ بن عثمان بدری کو مکہ کا حکمران قرار دے کر مکہ سے نکل کھڑا ہوا۔ (۲۱) ابن اثیر، عزالدین، الکامل فی التاریخ، ج۳، ص۳۸۳۔

یمن کا رخ کرنے سے پہلے بسر نے طائف اور نجران جانے کا فیصلہ کیا، جہاں شیعیان علیؑ کو بے دردی سے شہید کیا۔  راستے میں دہشت و خوف پھیلاتا ہوا یمن پہنچا، یمن میں سب سے پہلے اس نے جا کر امیرالمومنینؑ کی جانب سے متعین یمن کے والی عبیداللہ بن عباس کے دو کم عمر بچوں کو بے دردی سے ذبح کیا ۔ (۲۲) طبری، ابو جعفر، تاریخ الطبری تاریخ الرسل و الملوک، وصلۃ تاریخ الطبری، ج۵، ص۱۴۰۔

نیز عمرو بن اراکہ جو عبیداللہ بن عباس کے جانشین تھے اور ان کے ہمراہ ایک سو ایرانی شرفاء کو اس جرم میں قتل کیا کہ عبیداللہ کے دو بیٹے ام نعمان کے ہاں کیوں چھپاۓ گئے۔ (ام نعمان ایرانی شرفاء میں سے ایک بزرگ بزرج کی بیٹی تھیں)۔ (۲۳) ابن ابی الحدید، عزالدین، شرح نہج البلاغہ، ج۲، ص۱۶۔ بسر نے شہر یمن کے مضافاتی علاقوں سراۃ، نجران، ارحب، جرف اور جیفان کے مختلف قبائل کو تہ تیغ کیا اور وہاں پر رہنے والے شیعیان علیؑ کو  با طرز فجیع قتل کیا اور ان کی عورتوں کو اسیر بنایا ۔ (۲۴) یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۱۹۹۔

اس کے علاوہ بسر نے حضرموت میں بھی شیعیان علیؑ کی ایک بہت بڑی تعداد کو قتل کیا، مختلف تاریخی اسناد کے مطابق بسر بن ابی ارطاۃ نے اس ماموریت میں شام آنے سے واپس جانے کی اس مسافت کے دوران ۳۰ ہزار مسلمانوں کو شہید کیا ۔ (۲۵) ابن اعثم، احمد بن علی، الفتوح لابن اعثم، ج۴، ص۲۳۸۔

جب امیرالمومنینؑ کو بسر کی تباہ کاریوں کی خبر ملی تو آپؑ اپنے اصحاب کی جہاد میں سستی سے بد دل ہو کر منبر کی طرف بڑھے اور فرمایا: مجھے خبر دی گئی ہے کہ بسر یمن پر چھا گیا ہے بخدا میں تو اب ان لوگوں کے متعلق یہ خیال کرنے لگا ہوں کہ وہ عنقریب سلطنت و دولت کو تم سے ہتیا لیں گے، اس لیے کہ وہ باطل پر متحد و یکجا ہیں اور تم اپنے حق سے پراگندہ و منتشر۔ تم امر حق میں اپنے امام کے نافرمان اور وہ باطل میں بھی اپنے امام کے مطیع و فرمانبردار ہیں۔ وہ اپنے ساتھی کے ساتھ امانتداری کے ساتھ فرض کو پورا کرتے ہیں اور تم خیانت کرنے سے نہیں چوکتے۔ وہ اپنے شہروں میں امن بحال رکھتے ہیں اور تم شورشیں برپا کرتے ہو میں اگر تم میں سے کسی کو لکڑی کے ایک پیالے کا بھی امین بناؤں تویہ ڈر رہتا ہے کہ وہ اس کے کنڈے کو توڑ کر لے جاۓ گا۔ (۲۶) مفتی جعفر، حسین، ترجمہ نہج البلاغہ اردو، خطبہ۲۵، ص۴۳۔

اس کے بعد امیرالمومنینؑ نے جاریہ بن قدامہ کو دو ہزار سپاہی دے کر بسر کے تعاقب کے لیے صنعا بھیجا، وہب بن مسعود خثعمی بھی دو ہزار سپاہیوں کے ساتھ حجاز میں اس کے ساتھ  ملحق ہو گئے، جب جاریہ  یمن پہنچے تو بسر وہاں سے فرار کرتے ہوۓ شام بھاگ چکا تھاالبتہ یہاں پر ابن اعثم کوفی نے بقیہ تاریخی اسناد سے اختلاف کرتے ہوۓ بیان کیا ہے کہ اس سے پہلے کہ بسر شام کی طرف فرار کرتے ہوۓ وہاں سے بھاگتا ،عبیداللہ بن عباس نے اسے پا لیا دونوں کے درمیان گھمسان کی لڑائی ہوئی اور اس لڑائی میں بسر اور اس کے چند ساتھی ہلاک ہو گئے۔  (۲۷) ابن اعثم، احمد بن علی، الفتوح لابن اعثم، ج۴، ص۲۳۸۔

نتیجہ:

                        ایک اعتراض جو اکثر سننے کو ملتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ بدعات اور خرافات جوخلفاء ثلاثہ کے زمانہ خلافت میں امت میں پھیلا دی گئی تھیں اگر وہ واقعی طور پر بدعات تھیں اور رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں امت میں رائج نہ تھیں تو کیوں زمانہ خلافت امیرالمومنینؑ میں ان خرافات و بدعات پر حکومتی پابندی نہ لگائی گئی جبکہ امیرالمومنینؑ حکم حکومتی سے ان تمام بدعات کو ختم کر سکتے تھے۔ اس کا جواب ہمیں اس تحریر کو پڑھنے سے مل جاتا ہے ، اور ہر ذی شعور شخص کے لیے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امیرالمومنینؑ نے جس دور میں حکومت کی ، امام کو ان خرافات و بدعات کو ختم کرنے کا موقع ہی نہ ملا، اس سے پہلے کہ امیرالمومنینؑ جزئی و فرعی اختلافات کو امت سے ختم کرتے امیرالمومنینؑ کی حکومت پر پے درپے حملے شروع ہوگئے، امیرالمومنینؑ کا ہدف بنیادی و اصلی ترین خرابی کو ختم کرنا تھا جس نے امت میں اختلاف و دشمنی کو پیدا کیا۔ ظاہر ہے جب خرافات و بدعات کی جڑ کٹ جاتی جزئی و فرعی اختلافات بھی آہستہ آہستہ تربیتی روش سے ختم ہو جاتے، لیکن امیرالمومنینؑ کو اس بنیادی ترین خرابی کو جڑ سے کاٹ پھینکنے کا بھی موقع میسر نہ ہوا اور شہید کر دیے گئے۔ ابتداء حکومت میں ہی بعض بیعت شکنوں اور مفاد پرستوں نے جنگ جمل میں امیرالمومنینؑ کو ام المومنین کے خلاف لا کھڑا کیا اور امت میں افتراق و اختلاف کی بنیاد رکھ دی، اس کے بعد صفین اور نہروان۔ امیرالمومنینؑ نے اپنادوران حکومت مسلسل جنگوں میں گزارا،حتی جن ایام میں آپؑ کی شہادت ہوئی انہیں ایام میں چالیس ہزار کا لشکر امیر شام کی ناجائز و ستمگر حکومت کو گرانے کے لیے آمادہ و تیار تھا لیکن امت کے شقی ترین انسان نے مسجد میں امیرالمومنینؑ کو شہید کر دیا ، خون کے آنسو روۓ انسان اس مصیبت پر کہ عین اسی وقت جب ایک طاغوت کو کچلنے کے لیے اسلامی افواج آمادہ ہو چکی تھیں ایک شقی ازلی اس قیام کے آگے مانع بن گیا اور اس کے نتیجے میں ایسا تاریک و ظلم و استبداد کا دور شروع ہو گیا کہ جس سے اسلام کے خدوخال مسخ ہو کر گئے۔

۱ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 August 21 ، 16:10
عون نقوی

 

 

 




 امام باقر علیہ السلام:


مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مُطِیعاً لِلَّهِ تَنْفَعُهُوَلَایَتُنَا وَ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ عَاصِیاً لِلَّهِ لَمْ تَنْفَعْهُ وَلَایَتتُنَا‌.
 

تم میں سے ہر وہ شیعہ جو اللہ تعالی کا مطیع و فرمانبردار ہوگا اسے ہماری ولایت فائدہ دے گی اور جو تم میں سے جو اللہ تعالی کی نافرمانی کرنے والا ہوگا اسے ہماری ولایت کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی۔

 

 حوالہ:
کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۲، ص۷۶۔

۱ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 16 August 21 ، 12:15
عون نقوی

نہضت کربلا میں وہ تیسرا گروہ جس کا ذکر بہت کم کیا جاتا ہے

کربلا میں ایک طرف سیدالشہداء اور ان کے ساتھی ہیں جو حق کا دفاع کرتے ہوۓ اپنا سب کچھ لٹا کر شہادت حاصل کرتے ہیں اور دوسری طرف یزیدی لشکر ہے جس نے آل رسولؐ پر ظلم کے پہاڑ توڑے اور ہمیشہ کے لیے لعنت کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیا۔ لیکن ان دو گروہ کے درمیان ایک تیسرا گروہ ہے جس کو بہت کم اہمیت دی جاتی ہے جبکہ یہ گروہ ایک کثرت پر مشتمل ہے جی کا تجزیہ تحلیل کرنا ضروری ہے۔ یہ تیسرا گروہ وہ ہے جو یزید کی فوج میں شامل ہوا اور نا امام حسینؑ کی نصرت کی۔ یہ گروہ خود چند اقسام میں تقسیم ہوتا ہے ان میں سے ایک قسم ان افراد کی ہے جو ظاہری اور حتی بعض مواقع پر دل سے سیدالشہداء علیہ السلام کے طرفدار اور ان سے محبت کرنے والے تھے لیکن ان کی یہ محبت ان کو کربلا میں کھینچ کر نہ لا سکی۔ 
اس تیسرے گروہ میں سب سے پہلی قسم ان افراد کی ہے جو اہلبیت علیہم السلام کے ساتھ فقط اس لیے تھے کہ ان کو اپنا دنیوی فائدہ نظر آ رہا تھا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ بہرحال امت پر حق حاکمیت صرف آل رسولؐ کو حاصل ہے اور وہ اس حق کے لیے اور حکومت عدل و انصاف کے لیے تحریک چلا رہے ہیں تو وہ بھی ساتھ کھڑے ہو گئے تا کہ بعد میں ان کو بھی کسی علاقے کی ولایت یا کوئی پوسٹ وغیرہ مل جاۓ۔ اہل کوفہ میں سے اکثر افراد ایسے تھے انہیں افراد میں سے ایک مشہور نام احنف بن قیس کا ہے۔ اس شخص کا شمار بصرہ کے بزرگان میں سے ہوتا ہے۔ جنگ جمل میں بے طرف رہا اور جنگ صفین میں امام علیؑ کا ساتھ دیا۔ جب امام حسینؑ نے اسے اپنی نصرت کے لیے خط لکھا تو اس نے جواب میں لکھا: قد جرّبنا آل أبی الحسن فلم نجد عندهم إیالة ولا جمعا للمال ولا مکیدة فی الحرب. 
 ’’ہم نے ابوالحسن کی آل کو آزما لیا ہے ان کے پاس حکومت داری کی توانائی، مال و ثروت کی جمع آوری اور جنگ میں حیلے اور مکر سے کام لینے والی کوئی بات نہیں پائی جاتی‘‘۔ (۱)
 اس شخص نے یہ بات کہہ کر بہت سے رازوں سے پردہ اٹھایا در اصل اس نے اس انحراف کا پتہ بتایا جو کربلا میں نہیں پہنچا۔ اس نے بتایا کہ میں نے تو اس خاندان کا بہت ساتھ دیا لیکن کچھ بھی نصیب نہیں ہوا۔ مقام ملا شہرت ملی اور نا پیروزی۔ اس گروہ کے بارے میں امام حسینؑ کا فرمانا تھا: الناس عبید الدنیا و الدین لعق علی السنتهم یحوطونه مادرت معایشهم فاذا محصوا بالبلاء قل الدیانون. 
 ’’لوگ دنیا کے عبد ہیں اور دین فقط ان کی زبانوں پر جاری ہے۔ جب ان کی زندگی سرشار ہو دین کو قبول کیے رہتے ہیں اور جب مصیبتوں میں مبتلا ہو جائیں تو دیندار بہت کم رہ جاتے ہیں‘‘۔ (۲)
یعنی جب تک امامؑ کا ساتھ دینے میں جان کا خطرہ نہیں، الٹا مقام و منصب مل رہا ہے تو امام کے ساتھ ہیں اور جیسے ہی حالات کچھ دگرگون ہوۓ پشت دکھا کر چل دیے۔ 
تیسرے گروہ میں دوسری قسم آتی ہے ان افراد کی ہے جو ظاہر میں خود کو امامؑ کا محب اور ارادتمند ثابت کرتے لیکن باطن میں ان کو اہلبیتؑ سے کوئی ہمدردی نہیں تھی۔ ان افراد میں سے ایک مشہور نام عبداللہ بن عمر کا ہے۔ عبداللہ بن عمر امامؑ کے پاس آتے بہت گریہ کرتے بظاہر اپنے آپ کو امام کا ہمدرد ثابت کرے اور امام کو نصیحت کرتے کہ وہ یزید کی بیعت کر لیں صلح کر لیں یا کسی طرح سے عازم کوفہ نہ ہوں۔ یہ شخص بظاہر عابد و زاہد مقدس مآب تھے۔ شاید کچھ لوگ ان کو سادہ لوح سمجھ کر کہہ دیں کہ ان کے پاس بصیرت نہیں تھی اس لیے امام کی نصرت نہیں کی لیکن تاریخ کے شواہد بتاتے ہیں کہ اسی عبداللہ بن عمر نے امیرالمومنینؑ کے دور میں کسی بھی مانع کے نہ ہونے کے با وجود امام علیؑ کی بیعت نہیں کی اور بہانہ یہ بنایا کہ چونکہ امام مسلمانوں کے خلاف جنگ کرتے ہیں اور اہل قبلہ کے خلاف جنگ کرنا حرام ہے اس لیے آپ کی بیعت نہیں کرتا لیکن اسی شخص نے بعد میں تاریخ کے سفاک اور خونریز ترین شخص حجاج بن یوسف کی بیعت کی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب یہ شخص حجاج کی بیعت کرنے گیا تو وہ مستی میں مدہوش تھا اس نے کہا کہ میرے ہاتھ فارغ نہیں ہیں پیروں پر بیعت کرو تو اس نے پیروں پر بیعت کی۔ (۳) 
اس گروہ میں تیسری قسم ان افراد کی ہے جو لالچی تھے اور نہ ہی دل کے بیمار۔ یہ اہلبیتؑ سے بغض رکھتے تھے اور نا ہی ان کو اپنے لیے دنیوی فوائد کے حصول کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ یعنی خود برے نہیں تھے بلکہ نیک افراد تھے لیکن اجتماعی اور سیاسی بصیرت نہیں رکھتے تھے اور اس بنا پر بر وقت فیصلہ نہ کر سکے اور کربلا میں نصرت امام سے محروم رہے۔ ان افراد میں ایک نام سلیمان بن صرد خزاعی کا ہے جو خود کو امام کا پیروکار کہتا تھا۔ کوفہ سے امامؑ کو خط میں لکھتا ہے: إِنّه لیسَ علینا إِمامٌ ، فأقبِلْ لعلّ اللّهَ أن یجمعَنا بکَ على الحقِّ ؛ والنُّعمانُ بنُ بشیرٍ فی قصرِ الأمارة لسْنا نجَمِّعُ معَه فی جمعةٍ ولا نخرجُ معَه إِلى عیدٍ ، ولوقد بَلَغَنا أنّکَ أَقبلتَ إِلینا أخرَجْناه. 
 ’’ہمارا کوئی پیشوا و امام نہیں ہے ہمارے پاس تشریف لائیے شاید خدا آپ کے ذریعے ہمیں حق کے گرد جمع کر لے۔ نعمان بن بشیر نے قصر حکومتی میں ڈیرے جماۓ ہوۓ ہیں ہم نماز جمعہ اس کے ساتھ نہیں پڑھتے اور عید کی نماز کے لیے اس کے ساتھ شہر سے خارج نہیں ہوتے اگر آپ ہمارے پاس تشریف لے آتے ہیں تو اس کو شہر سے باہر نکال دیں گے‘‘۔ (۴)
لیکن یہی سلیمان روز عاشور امام کی نصرت کے لیے نہیں پہنچا۔ اور بعد میں لشکر توابین کا سربراہ بنا یزیدی لشکر کے خلاف جنگ میں مارا گیا۔ اس کی شخصیت میں ثبات قدم نہیں تھا بار بار شک کرتا اور اپنے ہی لیے ہوۓ فیصلوں سے پیچھے ہٹ جاتا جس کی وجہ سے قافلہ عشق سے رہ گیا۔ اگر یہی سلیمان شہداء کربلا میں شامل ہوتا تو اس کا مقام جدا ہوتا۔
اس تیسرے گروہ کی چوتھی اور آخری قسم وہ افراد ہیں جو واقعی عبرت آموز ہیں۔ یہ افراد نہ تو اہلبیتؑ سے بغض رکھتے تھے، نہ ہی اہل فساد و لالچی تھے اور نہ ہی جنگ و میدان سے ڈرتے تھے۔ ان کے دلوں میں کسی بھی قسم کی تردید نہیں تھی لیکن ان کی نظر امامت کی جانب اس طرح سے نہیں تھی جس طرح سے شہداء کربلا کی تھی۔ نظریہ امامت و شخصِ امام حسینؑ کے بارے میں حقیقی معرفت نہیں رکھتے تھے خود امام کے بہت ہمدرد تھے اور واقعی دل سے ان کا بھلا چاہتے تھے لیکن امامؑ کے اقدام اور ان کے قیام کو مصلحت کے خلاف سمجھتے تھے۔ مثلا جب امام سے ملتے تو جہاں امام ان کو نصرت کی دعوت دیتے خود یہ امام کو مشورہ دے دیتے اور کہتے کہ اس سے بہتر کوئی اور راہ حال سوچا جاۓ یا کسی اور مناسب چارہ جوئی کا راستہ نکال کر دیتے۔ مثلا کہتے کہ آپ کا قیام بے ثمر ہے اور اس کی دلیل میں کہتے کہ آپ کوفیوں کے بل بوتے پر یزید کے خلاف قیام کرنا چاہتے ہیں نتیجہ یہ ہوگا کہ کوفی ہمیشہ کی طرح دھوکہ دہی دیں گے اور آپ مظلومیت سے مار دیئے جائیں گے۔ آپ کا قیام بے فائدہ رہ جاےؑ گا بجاۓ اس کے کوئی دوسرا راہ حل ڈھونڈھا جاۓ۔ یعنی ایسا نہیں تھا کہ اس لیے امام کی نصرت نہیں کرنا چاہتے کہ اس سے ان کو کوئی مالی فائدہ نہیں ہوگا یا ان کو اپنی جان و مال کے کھو جانے کا خوف ہے۔ بلکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ امام کا یہ اقدام اٹھانا مناسب نہیں۔ یہ سوچ خاندان بنی ہاشم میں موجود تھی جس کی بنا پر بہت سے امام کے اپنے ہی خاندان کے افراد نصرت کے لیے نہیں پہنچے۔ امامؑ نے ان افراد کے لیے مختصر سے خط میں فرمایا:
 أمّا بعد فإنَّ مَنْ لَحِقَ بی اسْتُشْهِد ، ومَنْ لَم یَلْحَقْ بی لم یُدرِکِ الفَتْحَ ؛ والسَّلام. ’’جو شخص مجھ سے ملحق ہوگا وہ شہید کر دیا جاۓ گا اور جو میرے ساتھ نہ آیا اسے فتح نصیب نہیں ہوگی والسلام‘‘۔ (۵) 
عبدالله بن جعفر انہیں افراد میں سے ایک ہیں جو حقیقی طور پر امامؑ کے ہمدرد اور غمخوار ہیں۔ حتی انہوں نے اپنے دو بیٹے کربلا میں امامؑ کی نصرت کے لیے بھیجے لیکن خود کربلا حاضر نہیں ہوۓ۔ شیخ مفیدؒ روایت نقل کرتے ہیں کہ جب امام حسینؑ کا قافلہ مکہ سے خارج ہوا تو عبداللہ بن جعفر کا ایک خط امام کو ملا۔ خط کے ساتھ ان کے دو فرزند عون و محمد بھی تھے۔ یہ خط امامؑ کے نام تھا جس میں لکھا تھا:  فإِنِّی أسألکَ بالله لمّا انصرفتَ حینَ تنظرُ فی کتابی ، فإِنِّی مشفقُ علیکَ منَ الوجهِ الّذی توجّهتَ له أن یکونَ فیه هلاکُکَ واستئصال أهلِ بیتِکَ ، إِن هلکتَ الیومَ طفئَ نورُ الأرضِ.
 ’’آپ سے بنام خدا چاہتا ہوں کہ جب اس خط کو پڑھیے واپس آ جائیے۔ مجھے ڈر ہے کہ اس سفر میں آپ اور آپکا خاندان ہلاک نہ ہو جاۓ اگر آپ قتل کر دیے جائیں تو نور خدا زمین بجھ جاۓ گا‘‘۔ (۶)
اس خط کے کلمات پر غور کیا جاۓ تو علم ہوتا ہے کہ ابن جعفر نا صرف امام کو نور خدا سمجھتے ہیں بلکہ امت کا ہادی و رہنما سمجھتے ہیں ان کے شدید حامی ہیں اور امام کا خیر اور بھلا چاہتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ خدانخواستہ یزید کے ڈر اور خوف کی وجہ سے امام کی نصرت نہیں کرنا چاہتے بلکہ امام کے اس قیام کو نہیں سمجھ پا رہے۔ جہاں پر امام اپنے لیے ایک راہ انتخاب کیے ہوۓ ہیں اس کے مقابلے میں ابن جعفر مستقل طور پر اپنی الگ سوچ رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس قیام کا کوئی سودمند نتیجہ نہیں نکلے گا اور اس کے نتیجے میں امام شہید کر دیے جائیں گے۔ ابن جعفر کو امام کے شہید ہو جانے کا خوف ہے اس لیے ہمدردی کے طور پر امام کو نصیحت و مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اس قیام کو متوقف کر لیں۔ عبداللہ بن عباس اور محمد بن حنفیہ کا شمار بھی اسی گروہ میں شمار ہوتا ہے جو حقیقی طور پر اور دل سے امام کے ہمدرد ہیں۔ یقینا اگر یزید کے علاوہ کوئی اور شخص امام پر حملہ ور ہوتا تو ان افراد کے بارے میں شک نہیں کیا جا سکتا کہ یہ افراد اپنی جان امام پر قربان کرنے میں ایک لحظے کے لیے دریغ نہ کرتے لیکن یزید کے خلاف قیام کو اپنے محاسبات کی بنیاد پر درست نہیں سمجھتے تھے۔ اس کے برعکس ایک شخصیت ابوالفضل العباسؑ کی ہے۔ جن کی امام شناسی اور معرفت پر کسی قسم کا حرف نہیں۔ یعنی اگر کسی امام کا مطیع محض ترین شخص ڈھونڈھا جاۓ تو وہ حضرت عباسؑ ہیں۔ جب امام کا حکم آ جاتا تو آگے کسی قسم کا مشورہ یا نصیحت نہ کرتے بلکہ حکم امام سمجھ کر فقط اس کی اطاعت بجا لاتے۔

 

 



حوالہ جات:

۱۔ عیون الاخبار، ج۱، ص۳۱۱۔
۲۔ بحارالانوار، ج۴۴، ص۳۸۳۔
۳۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱۳، ص۲۴۲۔
۴۔ الارشاد، ج۲، ص۳۷۔
۵۔ کامل الزیارات، ج۱، ص۷۶۔
۶۔  الارشاد، ج۲، ص۶۸۔

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 15 August 21 ، 19:00
عون نقوی