بصیرت اخبار

۲ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «علم رجال» ثبت شده است

کتاب: مقیاس الرواۃ فی علم الرجال

مصنف: آیت اللہ سیفی مازندرانی

مدرس: استاد حسن رضوی

اس کتاب میں تین جہات سے بحث ہے۔

۱۔ مؤلف پر قدح و جرح وارد نہیں ہے لیکن ان کے شیعہ اور اسماعیلی ہونے پر اختلاف ہے۔ اس اختلاف کو صرف نظر کر کے جو شیعہ سنی علماء نے تحریر کیا ہے اس سے ان کا حسن حال معلوم ہوتا ہے۔

۲۔ ان کی کتاب کے مقدمے سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کتاب کی ساری روایات صحیحہ اور معتبرہ ہیں۔ 

۳۔ یہ کتاب ہم تک پہنچی ہے یا نہیں پہنچ سکی۔ اگر اس کتاب میں کوئی تحریف واقع نا ہوئی ہو اور اہل باطل و فساد کی دست درازی نا ہوئی ہو تو یہ مقدمہ اس بات کی دلیل بن جاۓ گا کہ یہ ساری روایات صحیح ہیں۔ مصنف تیسری جہت پر اعتراض کرتے ہیں۔ کیونکہ جس طرح سے لکھی گئی ویسے پہنچ گئی ہو اس بات پر اطمینا نہیں ہے کیونکہ یہ فاطمیون کے بیچ میں تھی اور اس وقت اس کتاب کی شہرت نہیں تھی۔ اس لیے یہ جگہ مشکوک ہو جاتی ہے اس لیے وہ کتاب جو مصنف نے لکھی ہے وہ کتاب سالم صورت میں ہم تک نہیں پہنچی اور جو پہنچی ہے اس میں دست درازی ہوئی ہے۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 22 March 23 ، 13:30
عون نقوی

کتاب: مقیاس الرواۃ فی علم الرجال
مصنف: آیت اللہ سیفی مازندرانی
مدرس: استاد حسن رضوی

یہ کتاب ابن ادریس حلی (۵۹۸) نے لکھی ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں صرف کتب مشہورہ سے روایات لی ہیں۔ روایات کو بطور مرسل ذکر کیا لیکن ان کا روایات کو لینے کا مبنی یہ تھا کہ خبر واحد حجت نہیں ہے۔ صرف خبر متواتر یا خبر محفوف بالقرائن کو حجت سمجھتے تھے۔ اس لیے آیت اللہ خوئی اس بات کے قائل تھے کہ چونکہ یہ اس مبنی کے قائل تھے لہذا ان کی مرسلات قبول ہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ ان کی روایات صرف کتاب مشہورہ سے لی گئی ہیں۔

کتب مشہورہ تک ابن ادریس کا طریق

آیت اللہ خوئی نے ابن ادریس کی مرسلات کا جائزہ لیا ہے:

۱۔ کتب مشہورہ تک ابن ادریس کا طریق درست ہے اس لیے ان کا مشہور کتابوں سے روایت نقل کرنا قابل قبول ہے۔ خوئیؒ اس طریق سے وارد نہیں ہوۓ۔
۲۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ابن ادریس کے مبانی پر غور کیا جاۓ۔ جب خبر واحد جو صحیح السند ہے وہ جب قبول نہیں ہے تو پھر ضعیف روایت کو وہ کیسے قبول کر سکتے ہیں؟ لذا ان کا مبنی اتنا سخت ہے کہ وہ ہر روایت کو آسانی سے نہیں لیتے لہذا وہ صرف قطعی خبر کو مانتے تھے۔
آیت اللہ محسنی نے ان پر اعتراض کیا ہے اور فرمایا کہ ان کی مرسلات ہمارے لیے حجت نہیں ہو سکتیں خود ان کے لیے حجت ہیں۔ مثلا کتاب معروفہ سے لینا پہلے یہ ثابت ہو کہ خود کتاب معتبر ہونی چاہیے اور اس تک ابن ادریس کا طریق بھی ثابت ہونا چاہیے اور درست ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ نقد کیے ہیں لیکن آخر میں خود جزوی طور پر آیت اللہ محسنی بھی اس بات کے قائل ہوۓ کہ جن تک ابن ادریس کا طریق درست ہے وہ روایات قبول ہیں۔ 

مصنف نے یہ قول اختیار کیا ہے کہ ابن ادریس کا طریق صحیح ہے۔ کیونکہ ان تک کتابیں شیخ طوسی کے طریق سے آئی ہیں۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 18 March 23 ، 14:14
عون نقوی