بصیرت اخبار

۸ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «سید جواد نقوی» ثبت شده است

آیت اللہ علامہ سید جواد نقوی حفظہ اللہ تعالی

امام علىؑ کو  جو غم و دکھ اپنى قوم کى جانب سے ملے ان مىں سے انتہائى تکلىف دہ غم ان راستوں کوآپس مىں مخلوط کرنا تھا جن کواللہ تعالىٰ نے جدا اور الگ الگ رکھا تھا ۔

دلوں مىں پڑے ہوۓ حجالوں کى وجہ سے ہم ان کى تلخى اور سختى سے نا آشنا ہىں ورنہ ان کى سنگىنى اس قدر شدىد ہے کہ زخموں کى تاب لاتے ہوۓ موت سے گلے لگانا آسان ہے جبکہ ان جدا راستوں کو ىکجا دىکھنا امر دشوار اور کٹھن مرحلہ ہے ۔ امىر المومنىنؑ کو جب ابن ملجم ملعون نے شمشىر کا گہرا گھاؤ لگاىا تو آپؑ نے ان جملات کو ادا کىا:

فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَةِ. (خصائص الائمہ،شریف  رضىؒ ۴۰۶ھ،ص۶۳)

مىں کامىاب  ہوگىا  ربِّ کعبہ کى قسم۔

لىکن جب معاملہ ’’خلافت ’’ شورىٰ پر جا پہنچا اور آپؑ کو اصحابِ شورىٰ کے ساتھ کھڑا کىا گىا اور ان کے ساتھ موازنہ کىا گىا تو امىر المومنىن ؑ کے سىنے سے بے اختىار فرىاد ان جملات کى صورت مىں بلند ہوئى :

زَعَمَ‏ أَنِّی‏ مِنْهُمْ‏ فَیَا لَلَّهِ لَهُمْ وَ لِلشُّورَى‏.(علل الشرائع،،شىخ صدوقؒ،ص۱۵۱،باب:۱۲۲، حدىث:۱۲ )

انہوں نے ىہ گمان کىا ہے کہ مىں بھى ان مىں سے ہوں ، ىا الٰہى ، کہاں مىں اور کہاں ىہ شورىٰ۔(۱)

 

 


حوالہ:

(استاد محترم سىد جواد نقوى ، ماخوذ ازکتاب :کربلا حق و باطل مىں جدائى کا راستہ)

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 September 21 ، 21:30
عون نقوی

آیت اللہ علامہ سید جواد نقوی حفظہ اللہ تعالی

قرآن کرىم کى واضح تعلىمات ہىں کہ انسان کو حق و باطل مىں فرق کرکے حق کا اعلانىہ طور پر ساتھ دىنا چاہئے ۔ ہمىں اىسے وسوسوں ، مشوروں اور آوازوں پر کان نہىں دھرنے چاہئے جو اچھائى اور برائى مىں فرق کو ختم کرنے کا درس دىتے ہوں ۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ کسى کو برا نہ کہو ، صرف اپنى قبر کى فکر کرو ، کسى دوسرے سے کىا لىنا دىنا صرف اپنے آپ کو دىکھو ، انسان صرف اپنے عمل کا جوابدہ ہے اس لئے کسى کو کچھ مت کہو۔۔۔۔ وغىرہ ۔

اس طرح کا طرزِتفکر و خىالات و اعتقادات معاشروں کے قاتل شمار ہوتے ہىں اور انسانوں کو ہداىت کى زندگى سے نکال کر گمراہى کى وادىوں مىں بھٹکا دىتے ہىں ۔ ىہ طرزِ عمل سبب بنتا ہے کہ معاشروں مىں ’’ اچھے اور برے‘‘ کے معىار کو قدموں تلے روندے دىا جاتا ہے جس کى وجہ سے معاشرے فرعوں نما حکمرانوں کے پنجوں کى گرفت مىں جکڑے جاتے ہىں اور لوگ قتل و غارت ، فتنہ و فساد اور نا انصافىوں مىں ذلت کى زندگى بسر کرنے لگ جاتے ہىں ۔ معاشرتى و سىاسى نظاموں کے بارے بھى اسى طرح کى باتىں کى جاتى ہىں ، مثلاً کہا جاتا ہے کہ فلاںکو ووٹ دو کم از کم اپنے قوم و قبىلے کا بندہ ہے ۔۔۔جب معاشرے اىسے آفت زدہ اور زہرىلے افکار و نظرىات سے آلودہ ہوتو کىسے توقع رکھى جاسکتى ہے کہ اىسے معاشرے مىں فواحش ، فساد،قتل و غارت، نا انصافىوں اور انسانى اقدار کى پامالى نہ ہو؟(۱)

 

 


حوالہ:

(استاد محترم سىد جواد نقوى ، ماخوذ ازکتاب :کربلا حق و باطل مىں جدائى کا راستہ)

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 September 21 ، 21:21
عون نقوی

آیت اللہ علامہ سید جواد نقوی حفظہ اللہ تعالی علیہ

دىن کا اصلى مقصد ’’ انسان ‘‘ کو مقصدِ خلقت تک رہنمائى کرنا ہے۔ اس ہدف کے حصول کے لىے اللہ تعالىٰ نے دىن مىں ہر وہ چىز رکھ دى ہے جو انسان کى ضرورت ہو، جىسے آگہى ، معرفت، نظم انضباط، تعلىم و تزکىہ ، مادىت و معنوىت ، معىشت و معاشرت، عبادت و دُعا ، جہاد  و دفاع، انفرادىت و اجتماعىت ، کسب و کار ، خرچ و انفاق ، تجارت و زراعت، تولىد نسل و زوجىت، عمران و آبادى ، جنگ و صلح  ... غرض ہر شعبہ حىات سے متعلق ضرورى ہداىات عطا کر دى ہے۔  دىن کو نا خالص بنانے کے کئى طرىقے ہىں جن کى نشاندہى کلامِ الہٰى مىں کى گئى ہے۔ ان مىں سے اىک رائج طرىقہ حق کو باطل سے ملانا ہے جسے ’’ تَلْبِیْسُ الحَقِّ بِالْبَاطِلِ ‘‘ کہتے ہىں۔  دىن انسان کى ہداىت کے لىے ہے ۔ اس وجہ سے دىن اپنانا اور دىن کى پىروى انسان کے لىے لازم قرار دى گئى ہے۔ دىن خدا قبول کرنے، اس کے مطابق عمل کرنے اور اس کى پىروى کرنے کو دىندارى کہتے ہىں۔  دىن ’’ اللہ ‘‘ کا فعل ہے اور دىندارى ’’ انسان ‘‘ کا فعل ہے۔ دىن کى حفاظت ’’ اللہ ‘‘ کى ذمہ دارى ہے جبکہ دىندارى کى حفاظت ’’ انسان ‘‘ کا کام ہے۔ دىن کى بھى آفات ہىں اور دىندارى کى بھى آفات ہىں۔ دىن کو اللہ سبحانہ نے آفات سے بچاىا ہے لىکن دىندارى کو آفتوں سے بچانا دىندار کا کام ہے۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 September 21 ، 21:08
عون نقوی