بصیرت اخبار

۱۸ مطلب با موضوع «گھرانے کے مسائل» ثبت شده است

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

اردو ترجمہ:

شریعت میں آیا ہے کہ ازدواج کے اس رشتے کو محکم سے محکم تر بنایا جانا چاہیے۔ ازدواج کے لیے اسلام نے مختلف جہات سے شرائط مقرر کی ہیں، اخلاق اور رفتار کے لحاظ سے حکم دیا کہ جب مرد یا عورت شادی کرے تو اسے چاہیے کہ اپںا اخلاق اچھا کرے۔ ہمیشہ اپنے ہمسر کے ساتھ تعاون کرے، درگزر کرے، محبت سے پیش آۓ، اس کو عزیز رکھے اور اس سے وفادار رہے۔ یہ سب شریعت کے حکم ہیں یہ سب اسلامی دستور ہیں۔

البتہ مادی شرائط میں اسلام نے بہت آسانی رکھی۔ ازدواج کے سلسلے میں جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ بشری و انسانی مراعات کا خیال رکھنا ہے۔ اخلاق کی رعایت کرنا بہت ضروری ہے لڑکے اور لڑکی کے لیے تاکہ ساری زندگی ایک دوسرے کے ساتھ آرامش کے ساتھ رہ سکیں اور اس محکم پیوند کی حفاظت کر سکیں۔

اصلی متن:

در شرع آمده که پیوند ازدواج را محکم نگهدارید. بعد هم شرایط زیادی برای ازدواج در همه‌ی زمینه‌ها معین کرده است. در زمینه‌ی اخلاق و رفتار گفته: وقتی زن گرفتید، وقتی شوهر کردید، باید اخلاقتان را خوب کنید، باید همکاری کنید، باید گذشت کنید، باید محبت کنید، باید او را دوست بدارید و باید به او وفاداری کنید، اینها همه‌اش احکام شرع است، اینها همه‌اش دستورات است.13
و البته از لحاظ شرایط مادی سهل‌ترین است. آنچه که در ازدواج مهم است، رعایتهای بشری و انسانی است. رعایتهای اخلاقی است که دختر و پسر باید با همدیگر تا آخر عمرشان رعایت کنند و رعایت اصلی حفظ این پیوند است.(۱)

 

 


حوالہ:

آفیشل ویب سائٹ رہبر مععظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 October 21 ، 08:58
عون نقوی

 امام جعفر صادق علیہ السلام

متن عربی:

ثَلَاثَةٌ إِنْ یَعْلَمْهُنَّ الْمُؤْمِنُ کَانَتْ زِیَادَةً فِی عُمُرِهِ وَ بَقَاءَ النِّعْمَةِ عَلَیْهِ، تَطْوِیلُهُ فِی رُکُوعِهِ وَ سُجُودِهِ فِی صَلَاتِهِ وَ تَطْوِیلُهُ لِجُلُوسِهِ عَلَى طَعَامِهِ إِذَا أَطْعَمَ عَلَى مَائِدَتِهِ وَ اصْطِنَاعُهُ الْمَعْرُوفَ إِلَى أَهْلِهِ.

ترجمہ:

تین چیزیں ہیں کہ اگر ان کا مومن کو علم ہو جائے تو وہ اس کی طول عمر اور نعمتوں سے بہرہ مند ہونے کا باعث بنیں گی:

۱۔ رکوع و سجود کو طول دینا
۲۔ دسترخوان پر زیادہ دیر تک بیٹھے رہنا، ایسے دسترخوان پر کہ جس پر وہ دوسروں کو اطعام کروا رہا ہو۔
۳۔ اور اپنے اہل و عیال سے خوش رفتاری سے پیش آنا۔

 

 


 حوالہ:

کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۴، ص۴۹۔

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 10 October 21 ، 10:31
عون نقوی

امیرالمومنین امام علی علیہ السلام وہ شخصیت ہیں جنہوں نے اپنے عمل و کردار سے خود کو اپنوں اور غیروں میں منوایا، نا صرف انکے اپنے فضائل و مناقب بیان کرنے سے قاصر ہیں بلکہ غیر مسلم بھی انکی شخصیت کا مطالعہ کرکے سرگردانی کا شکار ہوتے ہیں. امام علی علیہ السلام کی زندگی کا مکمل احاطہ کرنا ناممکن ہے کیونکہ ایک لامحدود کردار کو ایک محدود سوچ رکھنے والا سوچے بھی تو اسے بھی محدود کردیتا ہے، اس تحریر میں امام علی علیہ السلام کی زندگی کے ایک مختصر سے پہلو کو مدنظر رکھا گیا ہے اور روایات کی روشنی میں بتایا گیا ہے کہ امام علی علیہ السلام بطور شوہر کیسے تھے اور انہوں نے شوہرداری کیسے کی؟ 

▪️ بہترین شوہر:
بہت سے مرد بطور شوہر اپنی تعریف کرتے ہیں لیکن بہترین شوہر وہ ہے جسکی شوہرداری کی تعریف اسکی بیوی کرے. 
رسول اللہ ص اپنی دختر گرامی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شادی کے بعد ان کے گھر تشریف لے گئے اور اپنی دختر سے سوال کیا:
کَیفَ رَأیتَ زَوجک؟
آپ نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ 
حضرت زهرا سلام اللہ علیہا نے جواب دیا:
یا اَبَهِ خَیرُ زَوجٍ
بہترین شوہر ہیں. (١)

▪️ بطور شوہر گھر کی تمام ضروریات کو پورا کرتے:
اسلام نے مرد پر بطور شوہر بیوی کا نفقہ ادا کرنا واجب قرار دیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ خاتون کی بنیادی ضروریات مثلا اسکا کھانا پینا، اوڑھنا بچھونا اور اسکی رہائش کا مناسب بندوبست کرنا شوہر پر واجب قرار دیا ہے، یعنی جس معاشرے میں وہ خاتون رہتی ہے اس معاشرے میں ایک معزز خاتون کی جو بنیادی ترین ضروریات بنتی ہیں انکو پورا کرنے شوہر پر فرض ہے. اگر مرد بطور شوہر اپنی بیوی کا نان و نفقہ پورا نہیں کرتا تو شرعی طور پر وہ مجرم شمار ہوتا ہے اور خاتون اسکی حاکم شرع سے شکایت کرنے کا حق رکھتی ہے. 
امام علی علیہ السلام بطور شوہر اپنی گھر کی ضروریات پورا کرنے کے لیے سخت کوشش و مشقت کرتے تھے اور ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ اس معاشرے کے لوگ نعوذ باللہ انکو حقیرانہ نظروں سے دیکھتے. اگرچہ یہ اور موضوع ہے کہ وہ محنت اور مشقت کرکے دولت اکٹھی نہیں کرتے تھے بلکہ اس کو غرباء و فقراء کے لیے وقف کردیا کرتے تھے اور خود وہ اور انوکھا گھرانہ زاہدانہ زندگی بسر کرتے. پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ انکا خود کا اختیار کیا ہوا راستہ تھا نا کہ خود نعوذبااللہ اپنی غفلت کی وجہ سے غریب تھے. آج ہمارے معاشروں میں مرد محنت خود نہیں کرتا خود بھی ذلیلانہ زندگی گزارتا ہے اور اپنے گھر والوں کی بھی ضروریات پورا نہیں کرپاتا. اسلام نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ غفلت میں پڑے رہیں اور حلال روزی کی تلاش میں محنت اور مشقت نہ کریں بلکہ حکم دیا ہے کہ اپنے گھر والوں پر خرچ کرو. 
امام علی علیہ السلام ایک محنت کش اور حلال کے رزق کی تلاش کرنے میں شدید کوشش کرنے والے انسان تھے روایات میں ملتا ہے کہ انہوں نے اپنی محنت و مشقت کے بلبوتے پر ایک ہزار غلام آزاد کروایا. (٢)
اس لیے بعض علماء فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین کا فقر اختیاری تھا انہوں نے خود فقر کو اختیار فرمایا تاکہ اس دور کے فقراء کے ساتھ عملی طور پر ھمدردی کرسکیں. تاریخ میں ملتا ہے کہ امام علیہ السلام کی اس سیرت کو دیکھ کر منافقین انکو غربت کا طعنہ دیا کرتے اور کہتے کہ علی کے پاس کچھ نہیں ہے. 
جبکہ ایسا ہرگز نہیں تھا شیخ کلینی رح نے کتاب الکافی میں نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ امام علی علیہ السلام تک یہ خبر پہنچی کہ طلحہ و زبیر کہتے ہیں کہ علی کے پاس مال و ثروت نہیں وہ فقیر ہے. اس پر امام علیہ السلام نے اپنے غلاموں کو حکم دیا کہ اس سال کے میرے ہاتھوں سے تیار شدہ باغات کی ثروت کو اکٹھا کرو، ایک لاکھ درھم جب ایک ساتھ لائے گئے تو امام علی علیہ السلام نے حکم دیا کہ طلحہ و زبیر کو لایا جائے. جب یہ دو حضرات آۓ تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ سب میرے آباد شدہ باغات کی آمد کا سالانہ جمع شدہ مال ہے اور اس سب مال میں میرا کوئی شراکتدار نہیں ہے سب میرا ہے اور بعد میں امام علی علیہ السلام نے وہ سب فقراء میں تقسیم کردیا. (٣)

▪️ بطور شوہر اپنی زوجہ سے محبت کرنے والے:
رسول اللہ ص ایک روایت میں ارشاد فرماتے ہیں:

قَوْلُ الرَّجُلِ لِلْمَرْئَهِ انّی احِبُّک لا یذْهَبْ مِنْ قَلْبِها ابَداً. (٤)
مرد کا اپنی زوجہ کو یہ کہنا کہ "میں تم سے محبت کرتا ہوں" عورت کے دل سے یہ بات کبھی فراموش نہیں ہوتی. 
امیرالمومنین علی علیہ السلام نا صرف عملی طور پر اپنی زوجہ کا احترام بجالاتے بلکہ لسانی طور پر بھی عاطفی و محبت آمیز کلمات سے مخاطب کیا کرتے، مثلا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو حَبِیبَتی زَهرَا پکارتے اور آگے سے بی بی جواب میں روحی لروحک الفداہ فرماتیں. 
شہید مطہری رحمة الله اپنی کتاب فلسفه أخلاق میں دیوان امام علی علیہ السلام سے ایک شعر نقل کرتے ہیں جس میں امام علی علیہ السلام اپنی زوجہ محترمہ کو یاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

کنا کزوج حمامة فی ایکة
 متمتعیـن بصحة و شباب

ہم دونوں کبوتروں کی جوڑی کی طرح سے تھے جو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو پاتے تھے. لیکن زمانے نے انکو جدا کردیا، شہید فرماتے ہیں بعض دفعہ امام علی علیہ السلام رات کی تنہائی میں قبر فاطمه زہرا سلام اللہ علیہا پر جا کر ان سے گلے و شکوے کرتے اور پھر خود فرماتے:

ما لی وقفت علی القبور مسلما
قـــبر الحبیب و لم یرد جوابی
 ا حبیب ما لک لا ترد جوابنا (٥)
میں کیوں اپنے محبوب کی قبر پر کھڑا اسے سلام کررہا ہوں؟ اور وہ مجھے جواب نہیں دیتیں؟ 
اے میری محبوب زوجہ کیوں آپ جواب نہیں دیتیں؟
 
▪️ بطور شوہر گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے:
امیرالمومنین امام علی علیہ السلام فقط زبانی کلامی اپنی زوجہ سے محبت کا اظہار کرنے پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ عملی طور پر گھر کے کاموں میں بھی بی بی کا ہاتھ بٹاتے، اگرچہ یہ وہ امر ہے جسے ہمارے معاشرے میں درست نہیں سمجھا جاتا، مرد حضرات گھر میں چاہے نکمے بھی ہوں تب بھی گھریلو کام کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں لیکن سیرت امیرالمومنین علیہ السلام میں اسے بخوبی دیکھا جاسکتا ہے کہ کیسے امام نا صرف باہر کے کام کاج کو نبٹاتے تھے بلکہ گھریلو کاموں میں بھی زوجہ کی مدد کرتے. ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ ایک دن امام علی علیہ السلام اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کام کاج کی تقسیم کررہے تھے، اسی دوران رسول اللہ ص تشریف لائے اور کاموں کی تقسیم میں رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ گھر سے باہر کے کام علی ع کے ذمہ ہونگے اور گھر کے کام حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے، تقسیم کے بعد رسول اللہ ص نے اپنی دختر گرامی قدر سے پوچھا کہ کیا وہ اس تقسیم پر خوش ہیں؟ بی بی نے جواب دیا:
علیها) با خوشحالی فرمود: فَلا یَعلَمُ ما داخَلَنِی مِنَ السُّرُورِ اِلاَّ الله. (٦)
اس تقسیم سے جتنی خوش ہوں سواۓ اللہ کے اور کوئی نہیں جان سکتا.
اگرچہ گھر کے کام خود رسول اللہ ص کی تقسیم کے مطابق بی بی کے ذمہ تھے لیکن اس کے باوجود امام علی علیہ السلام کے گھریلو کام کاج میں بی بی کا ہاتھ بٹاتے.
ایک دن رسول اللہ ص اپنی دختر گرامی کے گھر تشریف لائے تو دیکھا علی ع اپنی زوجہ کے ساتھ کام کروا رہے ہیں تو رسول اللہ ص نے فرمایا:
ما مِن رَجُلٍ یُعیِنُ اِمرَئَتَهُ فی بَیتِها إلّا کانَ لَهُ بِکُلِّ شَعرَهٍ عَلَی بَدَنِهِ عِبادَهُ سَنَهٍ، صِیامُ نِهارِها وَ قِیامُ لَیلِها. (٧)
کوئی بھی مرد جب گھر کے کام کاج میں اپنی بیوی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اسکے سر کے بالوں کی تعداد کے برابر ایک سال کی عبادت کا ثواب عطا کرتا ہے اور وہ بھی ایسا سال کہ جس کے دنوں میں وہ روزہ دار تھا اور راتوں کو نماز کے لئے کھڑا رہا.
ایک اور روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

کان أمیر المؤمنین (صلوات الله علیه) یحتطب ویستقی ویکنس وکانت فاطمة (سلام الله علیها) تطحن وتعجن وتخبز. (٨)
امیرالمومنین علی علیہ السلام کھانا پکانے کے لیے لکڑیوں کا بندوبست کیا کرتے، پانی لایا کرتے اور گھر کی صفائی کرتے جبکہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا گندم پیس کر اسکا آٹا بناتیں، آٹا گوندتیں اور روٹی تیار کرتی تھیں.
▪️ بطور شوہر غیرت کا پیکر:
اسلام میں عورت کے گھر سے باہر جانے پر کلی طور پر ممانعت وارد نہیں ہوئی بلکہ تعلیم کے حصول کے لیے یا کسی بھی اور شرعی یا عقلی ضرورت پڑنے پر گھر سے باہر جانے میں کوئی حرج نہیں لیکن بغیر کسی مجبوری کے یا گھر کے مردوں کی موجودگی میں باہر جانا اور بازاروں کی زینت بننا یا نامحرم کے لیے خود کو آمادہ کرنا اسلام نے حرام قرار دیا ہے، اس سلسلے میں امام علی علیہ السلام رسول اللہ ص کی تقسیم کار پر ہمیشہ عمل کرتے، جس طرح سے رسول اللہ ص نے فرمایا تھا کہ فاطمہ س گھر کے کام کیا کریں گی اور علی ع باہر کے کام، اس لیے بی بی سلام اللہ علیہا نے اپنے شوہر نامدار کی موجودگی میں کبھی بھی کسی غیر ضروری امر کے لیے گھر سے باہر قدم نہ رکھا، البتہ جب اسی بی بی نے اپنے شوہر کو تنہا پایا تو نافقط گھر میں بلکہ گھر سے باہر بھی انکا دفاع کیا.
ایک دفعہ امام علی علیہ السلام کی خدمت میں شکایت لائی گئی جس میں کہا گیا کہ کوفہ کی عورتیں خود بازاروں میں آمد و رفت پہ شروع ہو گئی ہیں اور بازار آنے جانے سے ہرگز نہیں کتراتیں!
یہ جان کر امام علی علیہ السلام نے کوفہ والوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:

أما تَستَحیُونَ وَ لا تُغارُونَ وَ نِسائُکُم یِخرُجنَ إلی الأسواقِ. (٩)
کیا تم لوگ حیا نہیں کرتے؟ اور تم لوگوں کو غیرت نہیں آتی جب تمہاری عورتیں بازاروں میں جاتی ہیں؟

▪️ بطور شوہر سب بیویوں میں عدالت کو برقرار رکھتے:
جب تک حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا زندہ تھیں امام علی علیہ السلام نے دوسری شادی نہ کی، بی بی کے بعد آپ نے جتنی بھی ازواج کے ساتھ زندگی بسر کی کبھی بھی کسی سے ناانصافی سے کام نہ لیا اور ہمیشہ کوشش کرتے کہ سب کے درمیان ازدواجی امور میں عدالت کو برقرار کریں.
عدالت کی برقراری کا اندازہ اس روایت سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس میں نقل ہوا ہے کہ امام علیہ السلام اپنی ازواج کے حقوق کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ جس دن کسی ایک زوجہ کے ہاں رات بسر کرنے کی باری ہوتی تو وضو بھی اسی زوجہ کے گھر جا کر کرتے اور اس دن کسی دوسری زوجہ کے گھر سے وضو نہیں کرتے تھے. (١٠)
▪️ نتیجہ:
اگرچہ کوئی بھی شوہر اس طرح سے نہیں ہو سکتا جس طرح سے امام علی علیہ السلام تھے، لیکن ضروری ہے کہ ہر شوہر اپنی زوجہ سے تعامل کرتے ہوئے ان سنہری اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش ضرور کرے.

حوالہ جات:
١. دانشنامه امام علی علیه السلام، ج١، ص١٠٠٦.
٢. علامه مجلسی، بحار الأنوار، ج٤١، ص١٣٩.
٣. الشیخ کلینی، الکافی، ج٦  ص٤٤٠. 
٤. شیخ حر آملی، وسائل الشیعه، ج۱۴، ص١٢٠. 
٥. شہید مطہری، فلسفه اخلاق،    ج١ ص٢٤٩. 
٦. محمد تویسرکانی، لئالی الاخبار، ج١، ص٨٣. 
٧. مھدی النراقی، جامع السعادات، ج٢، ص١٤٠. 
٨. شیخ کلینی، الکافی، ج٥، ص٨٦. 
٩. الفیض الکاشانی، محجّه البیضاء، ج٣، ص١٠٤. 
١٠. شیخ حر آملی، وسائل الشیعه ج١٥، ص٨٥.

تحریر: عون نقوی

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 August 21 ، 11:53
عون نقوی