بصیرت اخبار

۸۸ مطلب با موضوع «مقالات عمومی» ثبت شده است

اگر مطلق کی تقیید ہو جاۓ تو کیا یہ مطلق کے مجاز کا موجب بنے گی یا نہیں؟

جواب: اس میں چند اقوال ہیں۔

۱۔ مجازیت مطلق، قید متصل ہو یا منفصل ہو ہر صورت میں مطلق مجاز ہو جاۓ گا۔ کیونکہ اس مجاز سے اس کا شیوع چلا جاتا ہے قید آ کر مجاز پر دلالت کرنے لگے گا۔
۲۔ حقیقت مطلق، قید متصل ہو یا منفصل ہو ہر صورت میں مطلق حقیقت ہوگا۔ اس قول کو سلطان العلماء محقق اصفہانی نے اختیار کیا ہے۔ کیونکہ تقیید سے اطلاق میں کسی قسم کا تصرف نہیں ہوتا۔
۳۔ صاحب موجر فی الاصول سبحانی فرماتے ہیں کہ چاہے تقیید موجب مجاز نہیں ہے۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 25 February 23 ، 16:32
عون نقوی

پوری دنیا میں صرف ایک ایسا بندہ دکھائیں جو

دنیا کی مقتدر طاقتوں سے انقلابی زبان
سیاستدانوں سے ڈپلومیسی کی زبان
علماء و فقہاء سے درس کی زبان
حکومتی عہدے داروں سے سیاسی زبان
یونیورسٹی کے طلاب سے علمی زبان
اداکاروں اور شعبہ نشرو اشاعت سے ہنری زبان
شہدا کی فیملی سے مہربانی کی زبان
یتیموں سے ایک مہربان باپ کی زبان
اور نوبلوغ بچیوں سے بچوں کی زبان بولتا ہو۔

یہ افتخار صرف امت مسلمہ کو حاصل ہے کہ اس کا اتنا دقیق و فصیح و بلیغ عالم رہبر ہے۔



 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 04 February 23 ، 12:21
عون نقوی

{علم حدیث}

حدیثِ مرسل

تحریر: عون نقوی 

 

حدیث مرسل خبر واحد کی اقسام میں سے ہے۔ ایسی حدیث جس کے سلسلہ سند میں ایک یا  ایک سے زائد راوی مذکور نہ ہوں اسے مرسل کہتے ہیں۔ علی القاعدہ حدیث مرسل ضعیف حدیث شمار ہوتی ہے۔

حدیث مرسل کی تعریف

معروف عالم رجالی علامہ مامقانی نے حدیث مرسل کی دو صورتیں بیان کی ہیں:
مرسل بمعنی اعم: ایسی حدیث جس کے سلسلہ سند میں تمام یا چند ایک راوی حذف کر دئیے گئے ہوں، اگر چہ محذوف رواۃ کا مبہم کلمات مثلا بعض، بعض اصحابنا کے ساتھ ذکر ہو تب بھی حدیث مرسل کہلاۓ گی۔[1]
مرسل بمعنی اخص: ایسی حدیث ہے جس میں تابعی بغیر(صحابی کے) واسطے کے رسول اللہﷺ سے روایت نقل کرے۔[2]

حدیث مرسل کی بعض اقسام

۱۔ مرفوع حدیث: ایسی حدیث جس کے وسط یا آخر سلسلہ سند میں کسی ایک راوی کا ذکر نہ کیا گیا ہو اور صراحت کے ساتھ کلمہ ’’رفع ‘‘وارد ہوا ہو۔
۲۔ موقوف حدیث: ایسی حدیث جس کا سلسلہ سند صحابی پیغمبرﷺ یا امام کے ساتھی پر جا کر رک جاۓ۔ اکثر اہلسنت کے نزدیک صحابہ کے مقام و اعتبار کی بنا پر موقوف حدیث کو حجت قرار دیا جاتا ہے لیکن اہل تشیع اس وقت تک موقوف حدیث کو حجت نہیں مانتے جب تک ثابت نہ ہو جاۓ کہ یہ کلام امام سے صادر ہوا ہے۔
۳۔ مدلس حدیث: ایسی حدیث جس میں راوی نے جس سے روایت سنی ہے اس کا نام چھپا دیتا ہے۔ یا کسی ایسے شخص کا نام بیان کر دیتا ہے جس سے اس نے درحقیقت روایت نہیں لی۔

حدیث مرسل کی حجیت کا حکم

فقہاء کرام کی اصطلاح میں جب حدیث مرسل کا کلمہ بولا جاتا ہے تو اس سے مرسل بمعنی عام مراد ہوتا ہے۔ اس کی حجیت پر دو اقوال ہیں۔
۱۔ مطلق طور پر حدیث مرسَل قبول ہے۔ چاہے صحابی کو سلسلہ سند سے گرایا گیا ہے یا تابعی کو، گرنے والا راوی جلیل القدر ہو یا عام راوی، ایک راوی کو سند سے گرایا گیا ہے یا چند ایک کو گرایا گیاہو۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ مرسِل ثقہ ہو۔ مکتب تشیع میں احمد بن خالد برقیؒ، اور ان کے والد اس قول کے قبول کرتے تھے۔ اہلسنت علماء میں آمدی، مالک، ابوہاشم، اور بعض معتزلہ اس کے قائل ہیں۔[3]
۲۔ دوسرا قول یہ ہے کہ حدیث مرسل حجیت نہیں رکھتی۔ اکثریت علماء اس کے قائل ہیں۔ جن میں شیخ طوسیؒ، محقق حلیؒ، علامہ حلیؒ، شہید اولؒ، شہید ثانیؒ، اور اکثر متاخر علماء تشیع و تسنن شامل ہیں۔

مراسیل مقبولہ

حدیث مرسل ہم پر حجت نہیں ہے۔ لیکن ہمارے بعض علماء رجال نے کچھ اصحاب کی مرسل حدیثوں کو معتبر قرار دیا ہے۔ جن میں تین بڑے نام مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ محمد بن ابی عمیر
۲۔ صفوان بن یحیحی
۳۔ احمد بن محمد بن ابی نصر بزنطی[4]
یہاں پر بحث فقط محمد بن ابی عمیر کی مراسیل پر ہے۔ کیونکہ باقی دو اصحاب کی اتنی کثیر مراسیل وارد ہی نہیں ہوئیں۔ محمد بن ابی عمیر ایسی شخصیت ہیں جن سے مراسیل کا ایک مجموعہ ہم تک پہنچا ہے اگر ان کو حجت قرار دے دیا جاۓ تو روایات کا ایک ذخیرہ ہمارے لیے قابل استفادہ قرار پا سکتا ہے۔ ورنہ وہ سب روایات ضعیف ہو جائیں گی۔
اس کے علاوہ سات نام اور بھی ہیں جن کی مراسیل کو بعض علماء نے حجت قرار دیا ہے۔
۱۔ ابو عباس نجاشی
۲۔ احمد بن غالب ضراری
۳۔ احمد بن محمد عیسی اشعری
۴۔ جعفر بن بشیر
۵۔ علی بن حسن عطائی
۶۔ محمد بن ابی بکر حمام اسکافی
۷۔ محمد بن اسمعیل زعفرانی۔[5]

محمد بن ابی عمیر کی مراسیل

محمد بن ابی عمیر امام کاظمؑ کے اصحاب میں سے ہیں۔ امام کاظمؑ کا دور شیعہ کے لیے سخت ترین دور تھا۔  امامؑ چند سال ہارون رشید کے زندان میں قید رہے۔ ان کے اصحاب کو بھی زدو کوب کیا جاتا اور زندانوں میں ڈالا جاتا۔ محمد بن ابی عمیر کو بھی حکومتی اہلکار گرفتار کرنے آۓ تو ان کو پہلے سے اطلاع مل گئی۔ جلدی میں سب کتابوں کو انہوں نے گھر میں گڑھا کھود کر دفن کر دیا۔ حکومتی اہلکاروں نے گھر کی خوب تفتیش کی لیکن ان کو کچھ نہ ملا، محمد بن ابی عمیر کو گرفتار کر کے لیے گئے، ایک عرصے کے بعد جب ان کو رہائی ملی اور انہوں نے گھر آ کر کتابوں کی خبر لی تو آدھے سے زیادہ کتابیں تلف ہو چکی تھیں۔ ان کے ذہن میں متن حدیث تو موجود تھا لیکن کونسی روایت کس سے لی، سند حدیث یاد نہ رکھ سکے۔ اس لیے روایت تو نقل کرتے لیکن اس کی سند بیان نہیں کرتے تھے۔ اس بنا پر بعض علماء رجال نے ان کی مراسیل کو حجت قرار دیا ہے۔[6][7]
آیت اللہ خوئی ؒنے اس قول کو قبول نہیں کیا اور کہا کہ دوسروں کی مراسیل اور محمد بن ابی عمیر کی مراسیل میں کوئی فرق نہیں۔ کیونکہ محمد بن ابی عمیر بھی ضعیف راویوں سے نقل کرتے ہیں۔ اور ہمیں علم نہیں ہے کہ جو مرسلہ روایات محمد بن ابی عمیر نے بیان کی ہیں وہ ثقہ راویوں سے لی گئی ہیں یا ضعیف سے۔[8] تاہم اس کا جواب دیا گیا ہے کہ حساب احتمال کے نظریہ کے تحت محمد بن ابی عمیر نے جن ضعیف راویوں سے روایات لی ہیں وہ بہت قلیل ہیں۔ ایک یا دو فیصد روایات کا مجموعہ ایسا ہے جو محمد بن ابی عمیر نے ضعیف راویوں سے لیا ہے۔ اس بنا پر آپ محمد بن ابی عمیر کی تمام مراسیل کو ضعیف قرار نہیں دے سکتے۔کیونکہ کثیراحتمال یہ ہے انہوں نے وہ مراسیل ثقہ راویوں سے نقل کی ہیں۔

منابع:

↑1 مامقانی، عبداللہ، مقباس الہدایہ، ج۱، ص۲۵۴۔
↑2 مامقانی، عبداللہ، مقباس الہدایہ، ج۱، ص۲۵۵۔
↑3 مامقانی، عبداللہ، مقباس الہدایہ، ج۱، ص۲۵۶۔
↑4 سیفی مازندرانی، علی اکبر، مقیاس الرواۃ فی کلیات علم الرجال، ص۱۹۶۔
↑5 حوالہ    درکار  ہے۔
↑6 نجاشی‌، احمد، الرجال‌ النجاشی، ج۲، ص۲۰۶۔
↑7 شیخ مفید، محمد بن نعمان، الاختصاص، ج۱، ص۸۶۔
↑8 حوالہ درکار ہے۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 27 November 22 ، 10:46
عون نقوی

{علم رجال}

محمد بن سنان

تحریر: عون نقوی 

 

محمد بن سنان  امام کاظمؑ، امام رضاؑ اور امام تقیؑ کے اصحاب میں سے ہیں۔ علماء حدیث و رجال نے محمد بن سنان کی وثاقت میں اختلاف کیا ہے۔ قدماء میں سے بعض نے انہیں غالی قرار دیتے ہوۓ تضعیف کی ہے۔ اور دیگر بعض علماء آپ کی وثاقت کے قائل ہیں۔ اور انہیں امامؑ کا خاص صحابی قرار دیتےہیں۔ متاخرین میں سے ایک گروہ نے رجالیین(طوسیؒ، نجاشیؒ) کی تضعیف کی بنا پر ان کو ضعیف قرار دیا ہے یا توقف کیا ہے ۔لیکن علماء کی ایک کثیر تعداد محمد بن سنان کی مدح میں وارد ہونے والی روایات کی بنا پر ان کی توثیق کے قائل ہیں۔

ابتدائی تعارف

رجال کی کتابوں میں محمد بن سنان نامی دو افراد ذکر ہوۓ ہیں۔ ایک کا نام محمد بن حسن بن سنان زاہری ہے اور دوسرا محمد بن سنان ظریف ہاشمی ہے۔ ہماری بحث پہلے راوی میں ہے۔
پورا نام ابو جعفر محمد بن حسن بن سنان زاہری ہے۔ آپ کے بچپن میں والد کی وفات ہوگئی، دادا نے کفالت کی ذمہ داری لے لی۔[1]آپ نے فضل بن شاذان، ان کے والد، یونس بن عبدالرحمان، محمد بن عیسی عبیدی، محمد بن حسین بن ابی الخطاب، حسین بن سعید اہوازی اور ایوب بن نوح سے سے کسب فیض حاصل کیا۔

مدح میں وارد ہونے والی روایات

شیخ کشیؒ نے اپنی کتاب رجال میں محمد بن سنان کے بارے میں ایک روایت نقل کی ہے۔اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ امام کاظمؑ نے محمد بن سنان کی مدح فرمائی۔ اس روایت میں امامؑ فرماتے ہیں:
«قد وجدتک فی صحیفة أمیر المؤمنین(ع) أمّا أنّک فى شیعتنا أبین من البرق فى اللّیلة الظلماء …یا محمّد! إنّ المفضّل اُنسی و مستراحی، و أنت اُنسهما و مستراحهما، حرام على النار أن تمسّک أبداً ‌(یعنى أبا الحسن و أبا جعفر(‌ع)».
ترجمہ: میں نے تمہارا نام صحیفہ امیرالمومنینؑ میں پایا۔ تمہارا شیعیان امیرالمومنینؑ میں سے ہونا شب کی تاریکی میں بجلی کی چمک سے زیادہ واضح ہے۔ اے محمد! مفضل میرے لیے انس اور راحت کا سرمایہ تھا اور تو بھی میرے لیے انس و راحت کا سامان ہو۔[2]
ایک اور روایت میں امام جوادؑ محمد بن سنان کو فرماتے ہیں:
«یا محمّد! أنت عبدٌ قد أخلصت لله . إنّی ناجیت الله فیک، فأبى إلاّ أن یضلَّ بک کثیراًً و یهدی بک کثیراً».
ترجمہ: اے محمد! تم ایک ایسے عبد ہو جس نے اللہ کے لیے خود کو خالص کیا۔ میں نے تمہارے بارے میں اللہ سے نجوی کیا ہے۔ خدا نے یہ چاہا ہے کہ تمہارے ذریعے بہت سوں کو گمراہ اور بہت سوں کو ہدایت دے۔[3]
شیخ طوسیؒ نے اپنی کتاب الغیبہ میں ایک روایت نقل کی ہے جس میں محمد بن سنان کی توثیق و مدح وارد ہوئی ہے:
«و روی عن أبی طالب القمّی قال: دخلت علی أبی جعفر الثانی( فی آخر عمره، فسمعته یقول: جزی الله صفوان بن یحیی و محمّد بن سنان و زکریا بن آدم و سعد بن سعد عنّی خیراً، فقد وفوا لی . إلی أن قال: و أما محمّد بن سنان، فإنه روی عن علی بن الحسین بن داوود، قال: سمعت أبا جعفر( یذکر محمّدَ بن سنان بخیر، و یقول: رضی الله عنه برضائی عنه، فما خالفنی و لا خالَف أبی قطُّ».
ترجمہ: ابی طالب قمی سے روایت کی گئی ہے کہ اس نے کہا میں امام تقیؑ کیآخر عمر میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے سنا کہ انہوں نے فرمایا: اللہ میری طرف سے صفوان بن یحیی، محمد بن سنان، زکریا بن آدم، اور سعد بن سعد کو جزاء خیر دے۔ انہوں نے میرے ساتھ وفا کی۔ یہاں تک کہ امام نے فرمایا: جہاں تک محمد بن سنان کی بات ہے، یہ علی بن حسین سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے امام جوادؑ سے سنا وہ محمد بن سنان کی اچھائی بیان کر رہے تھے۔ اور انہوں نے کہا کہ خدا ان (محمد بن سنان) سے راضی ہو جس طرح سے میں ان سے راضی ہوں۔ انہوں نے میری اور میرے والد کی کبھی مخالفت نہیں کی۔[4]

توثیق کرنے والے علماء

شیخ مفیدؒ نے محمد بن سنان کے بارے میں لکھا ہے:
«إنّه من خاصّة الکاظم( ع)و ثقاته و أهل الورع و العلم و الفقه من شیعته».
ترجمہ: وہ (محمد بن سنان) امام کاظمؑ کے خواص، قابل اعتماد، اہل ورع، اور ان کے عالم و فقیہ شیعوں میں سے تھے۔[5]
علامہ حلیؒ نے اپنی کتاب خلاصۃ الاقوال میں رجالیوں کے اقوال نقل کرنے کے بعد تبصرہ کرتے ہوۓ فرمایا کہ میں ان کی شخصیت پر توقف کروں گا۔[6] لیکن اس راۓ سے پلٹتے ہوۓ اپنی کتاب مختلف الشیعہ میں محمد بن سنان کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔[7]
علامہ مجلسیؒ، سید نعمت اللہ جزائریؒ اور سید ابن طاؤوسؒ نے بھی محمد بن سنان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور ان کو آئمہ معصومینؑ کے خواص میں سے قرار دیا ہے۔[8]
صاحب وسائل شیخ حر عاملیؒ محمد بن سنان کے بارے میں لکھتے ہیں:
محمد بن سنان کی شیخ مفیدؒ نے توثیق کی ہے۔ ظاہرا نجاشیؒ اور طوسیؒ نے محمد بن سنان کی تعضیف ابن عقدہ کی وجہ سے کی ہے۔ ابن عقدہ کا نظریہ تھا کہ محمد بن سنان کی روایات سماعت کی اساس پر نہیں، وجادت کی اساس پر ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ دلیل ان کے ضعیف ہونے کے لیے کافی نہیں ہے۔ ابن طاؤوسؒ، ابن شعبہ، اور دیگر بزرگان شیعہ ان کو ثقہ مانتے ہیں۔ اور یہی راۓ (محمد بن سنان کا ثقہ ہونا)درست ہے۔[9]
سید بحر العلومؒ لکھتے ہیں:
محمد بن سنان کے بارے میں متاخرین میں اختلاف علماء رجال کے اقوال سے پیدا ہوا۔ جن میں کشیؒ، نجاشیؒ، مفیدؒ، طوسیؒ، ابن شہر آشوبؒ، ابن طاؤوسؒ، علامہ حلیؒ، اور ابن داؤود ؒشامل ہیں۔ ہمارے بعض علماء نے ان کی تضعیف اور بعض نے توثیق کی ہے۔ کچھ علماء نے ان پر توقف کیا ہے۔ بہرحال تمام اقوال کو مدنظر رکھتے ہوۓ ہماری راۓ یہ ہے کہ محمد بن سنان ثقہ ہیں۔[10]
ابو المعالی کلباسی نے اپنی کتاب الرسائل الرجالیہ میں محمد بن سنان پر مختلف اقوال پر تبصرہ کرتے ہوۓ آخر میں ان کی وثاقت کے قول کو اختیار کیا ہے۔[11]
البتہ ان میں سے بعض علماء متاخر شمار ہوتے ہیں اور ان کی توثیق ہمارے لیے حجیت نہیں رکھتی لیکن بہرحال قابل استفادہ ضرور ہے۔

تضعیف کرنے والے علماء

نجاشیؒ نے اپنی رجال میں لکھا ہے:
«و هو رجل ضعیف جدّاً».
ترجمہ: وہ (محمد بن سنان) نہایت ضعیف شخصیت ہیں۔[12]
شیخ طوسیؒ نے اپنی رجال کی دونوں کتابوں میں محمد بن سنان کو ضعیف قرار دیا ہے۔[13][14]
ابن غضائری نے محمد بن سنان کے بارے میں لکھا ہے:
«ضعیف، غال، یضع (الحدیث) لا یلتفت إلیه‌».
ترجمہ: ضعیف، غالی اور حدیث گھڑنے والے ہیں۔ ان کی (روایات)طرف توجہ نہیں کی جاۓ گی۔[15]
ابن داؤود حلیؒ نے اپنی رجال کی کتاب میں محمد بن سنان کو ضعیف قرار دیا ہے۔[16]
آیت اللہ خوئیؒ نے توثیق اور تضعیف کے اقوال اپنی کتاب میں بیان کئے اور آخر میں تبصرہ کیا:
محمد بن سنان کے بارے میں جو روایات میں ملتا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ آئمہ معصومینؑ کے موالی تھے اور ان کی آئمہ نے مدح کی ہے۔ خاص طور پر جن روایات میں امامؑ نے ان سے راضی ہونے کا ذکر کیا کی ہے۔ آگے لکھتے ہیں کہ اگر ابن عقدہ، نجاشی،ؒ شیخ طوسیؒ، اور ابن غضائری ؒنے ان کی تضعیف نہ کی ہوتی تو ان کی مدح میں وارد ہونے والی روایات پر عمل کرنے میں ہمارے لیے مشکل نہ ہوتی۔ لیکن ان بزرگان کا محمد بن سنان کو ضعیف قرار دینا ہمارے لیے ان پر اعتماد کرنے سے مانع بنتا ہے۔[17]

محمد بن سنان کی تضعیف کے اسباب

نجاشیؒ نے محمد بن سنان کے حالات زندگی بیان کرتے ہوۓ ان ضعیف لکھا ہے۔[18] اس کے علاوہ طوسیؒ نے بھی ان کی تضعیف کی ہے۔

 غالی ہونے کا اتہام

صفوان بن یحیی سے شیخ طوسیؒ نے نقل کیا ہے:
«ان محمد بن سنان کان من الطیارة فقصصناه».
ترجمہ: محمد بن سنان غالیوں میں سے تھے، ہم نے ان کے خلاف قیام کیا۔[19]

 محمد بن سنان کا وجادتاً روایات نقل کرنا

محمد بن سنان نے سماعتاً روایات نہیں لیں۔ بلکہ انہوں نے اس وقت کی کتابوں میں جو پایا اس کو نقل کیا۔ اس طرح (وجادتاً)روایات نقل کرنا جنہیں آپ نے کسی سے نا سنا ہو، یا کسی نے آپ کو بیان نہ کیا بلکہ کسی بھی کتاب سے آپ نے پڑھ کر نقل کیا ہو، قابل قبول نہیں  ہے۔ ایوب بن نوح سے نقل ہوا ہے کہ اس نے محمد بن سنان کے بارے میں کہا کہ میں نے اس سے روایات سن کر اپنے پاس لکھی ہیں لیکن ان کو نقل نہیں کرونگا۔ کیونکہ محمد بن سنان نے مرنے سے پہلے مجھے کہا کہ جو کچھ بھی میں نے تمہیں بتایا وہ سماعت یا روایت کی بنا پر نہیں تھا بلکہ وجادت کی بنا پر تھا۔
وجادت دو طرح سے ہے۔ ایک دفعہ آپ کسی بھی کتاب سے اٹھا کر مطلب نقل کر دیتے ہیں۔ اس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ لیکن ایک دفعہ آپ ایک ایسی کتاب سے نقل کرتے ہیں جو علماء اور فقہاء میں شہرت رکھتی ہے۔ یہ وجادت قابل قبول ہے۔

معضل روایات نقل کرنے والا

خود محمد بن سنان سے نقل ہے کہ اس نے کہا:
«من أراد المعضلات فإلی، و من أراد الحلال و الحرام فعلیه بالشیخ».
ترجمہ: جو معضل روایات کو نقل کرنا چاہتاہے وہ میری طرف رجوع کرے اور جو حلال حرام جاننا چاہتا ہے وہ اس شیخ (صفوان بن یحیی) کی طرف رجوع کرے۔[20]
(معضل روایت کے دو معنی ہیں۔ ایسی روایت جس کے معنی کو سمجھنا دشوار ہو، اسے معضل کہتے ہیں۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ ایسی روایت جس کے سلسلہ سند میں دو یا اس سے زائد راوی حذف ہوں۔)

کذاب ہونے کا اتہام

شیخ طوسیؒ نے فضل بن شاذان سے نقل کیا ہے کہ فضل نے اپنی کتابوں میں محمد بن سنان کے بارے میں لکھا ہےکہ  وہ مشہور کذاب تھا۔[21]

تضعیف کے اسباب پر تبصرہ

جہاں تک نجاشیؒ کے قول کا تعلق ہے تو ان کی عبارت میں ابہام موجود ہے۔ معلوم نہیں  جو عبارت لائی گئی ہے وہ ان کی اپنی ہے یا وہ ابن عقدہ سے نقل کر رہے ہیں۔ اگرچہ نجاشی نے دوسری جگہ پر محمد بن سنان کی تضعیف کی ہے ،تاہم شیخ مفیدؒ، شیخ طوسیؒ (نے اپنی کتاب الغیبہ میں محمد بن سنان کی مدح میں وارد ہونے والی روایت نقل کی ہے)، سید بن طاؤوسؒ، شیخ حر عاملیؒ، اور وحید بهبهانیؒ جیسے علماء کا ان کو ثقہ قرار دینا آپس میں تعارض رکھتا ہے اس لیے نجاشیؒ کے قول کا اعتبار ساقط ہو جاتا ہے۔
شیخ طوسیؒ کا اپنی رجال کی کتابوں میں ان کو ضعیف قرار دینا اور کتاب الغیبہ میں ان کی توثیق کرنا ،خود تعارض رکھتا ہے۔ اس لیے تعارض کی حالت میں ان کا قول بھی ہم پر حجت نہیں رہتا۔

غلو کی بنا پر تضعیف

محمد بن سنان پر غالی ہونے کا الزام چند بنا پر مسترد ہے:
اولا: اہل قم بالخصوص احمد بن محمد بن عیسی، محمد بن حسن بن ولید اور محمد بن علی بن بابویہ جیسی شخصیات کا محمد بن سنان پر اعتماد کرنا انہیں اس اتہام سے بری کر دیتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اہل قم ہر شخص سے روایت نقل نہیں کرتے تھے، بلکہ ایسے شخص کو بھی قم سے نکال دیتے تھے جو خود تو ثقہ ہوتا لیکن کسی غیر ثقہ سے روایات لیتا تھا۔اگر اہل قم محمد بن سنان کی روایات کو لے رہے ہیں معلوم ہوتا ہے ان کی نظر میں قابل اعتماد تھے۔
ثانیا: بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب دوسرے کی راۓ آپ کی راۓ سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو اس کو غلو سے متہم کر دیا جاتا ہے۔اس لیے غلو کا الزام لگا دینا کافی نہیں بلکہ ثابت کیا جاۓ کہ وہ کونسے غلو آمیز نظریے کے قائل تھے۔
ثالثا: ہم جانتے ہیں کہ آئمہ معصومینؑ کے چند بہت ہی خاص اصحاب تھے۔ آئمہ معصومینؑ فقط ان پراسرار و عجائب کی دنیا فاش کرتے تھے۔ چونکہ یہ صلاحیت سب میں موجود نہ تھی، اس بنا پر جو صاحب اسرار نہ بن پاتا ، عدم معرفت کی بنا پر دوسرے پر غلو کا الزام لگا دیتا۔ جس طرح سلمان ؓو ابوذر ؓکے بارے میں بھی وارد ہوا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اگر ابوذرؓ کو علم ہو جاۓ سلمانؓ کے دل میں کیا ہے تو وہ انہیں قتل کر دیں گے۔ [22] سلمانؓ صاحب اسرار شخصیت تھے۔ اگر ان کی معرفت اور نظریات کا ابوذرؓ کو علم ہو جاتا تو وہ یقینا ان پر غالی اور شاید مرتد کا الزام لگا کر ان کو قتل کر دیتے۔ یہی صورت حال آئمہ معصومینؑ کے بقیہ اصحاب میں بھی تھی۔ اور عین ممکن ہے اسی بنا پر محمد بن سنان کو بھی غالی قرار دیا گیا ہو۔ اور اس پر امام جوادؑ کی وہ روایت گواہ ہے جس میں امام نے ابن سنان کو فرمایا کہ اللہ تعالی کا ارادہ یہ ہے کہ تمہارے ذریعے بہت سوں کو ہدایت دے اور بہت سوں کو گمراہ کرے۔[23] یہ روایت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ محمد بن سنان خاص اصحاب میں سے تھے۔ سیرت علماء میں یہ امر بہت زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ تفکرات اور نظریات کے اختلاف پر انہوں نے ایک دوسرے پر نقص ایمان یا غلو کا الزام لگایا۔ جس طرح سید مرتضی علم الہدیؒ اور شیخ صدوقؒ کے مابین پیش آیا۔[24]

 وجادتاً روایات نقل کرنے کی بنا پر تضعیف

اولا: جیسا کہ بیان ہوا وجادہ کی دو صورتیں ہیں۔ وجادہ اگر قابل اعتماد اور مشہور کتاب سے ہو تو وہ معتبر ہے۔اس لیے اگر محمد بن سنان مشہور کتابوں سے وجادتاً روایت نقل کرتے ہیں تو وہ قابل قبول ہے۔
ثانیا: جن مضامین پر مشتمل روایات محمد بن سنان سے نقل ہوئی ہیں اس سے یہ تصور کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ سب وجادتاً نقل ہوئی ہوں۔
ثالثا: ایوب بن نوح سے منقول مضمون در اصل محمد بن سنان کے دفاع میں ہے۔ نا کہ ان کی تضعیف پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ ایوب بن نوح نے کہا کہ میں نے محمد بن سنان کی کاپی سے بہت کچھ اپنی کتاب میں نقل کیا ہے لیکن اس کو بیان نہیں کرتا۔ ایوب بن نوح کا کتاب سے نقل کرنا ان کے محمد بن سنان پر اعتماد کرنے پر دلالت کرتا ہے، اور ان کا محمد بن سنان کی روایت کو نقل نہ کرنااز روۓ  احتیاط ہے۔شاید اس بنا پر ہو کہ روایات کے مضامین اسرار پر مشتمل ہیں اس لیے ان کو صرف اہلیت رکھنے والے اشخاص کے سامنے نقل کیا جانا چاہیے۔
رابعا: اگر فرض کر لیں کہ محمد بن سنان نے بعض روایات کو وجادتاً لیا ہے تو ایک کثیر مجموعہ ایسا ہے جو انہوں نے وجادتاً نہیں لیا بلکہ مستقیم طور پر امامؑ سے سنا ہے۔ ہم ان چند روایات کی بنا پر محمد بن سنان کی تمام روایات کو غیر معتبر قرار نہیں دے سکتے جو انہوں نے مستقیم طور پر امامؑ سے لیں یا سماعت کی بنا پر لیں۔

 معضل روایات نقل کرنے کی بنا پر تضعیف

محمد بن سنان کا اپنے بارے میں یہ کہنا کہ جس نے معضل روایات لینی ہوں وہ میری طرف رجوع کرے۔ اس سے ان کی عظمت و جلالت ثابت ہوتی ہے نا کہ تضعیف۔ کیونکہ روایات اہل بیتؑ کے بارے میں وارد ہوا ہے:
«إِنَّ حَدِیثَنَا صَعْبٌ مُسْتَصْعَبٌ لَا یَحْتَمِلُهُ إِلَّا صُدُورٌ مُنِیرَةٌ أَوْ قُلُوبٌ سَلِیمَةٌ أَوْ أَخْلَاقٌ حَسَنَةٌ».
ترجمہ: بے شک ہماری احادیث بہت سخت اور دشوار ہیں۔ ان کو تحمل نہیں کرسکتے مگر وہ جن کے سینے نورانی، قلوب سالم، اور اخلاق حسنہ ہیں۔[25]

 کذاب ہونے کی بنا پر تضعیف

کتب تراجم و رجال میں کسی بھی جگہ پر محمد بن سنان کا نام اس وقت کے مشہور کذابین میں ذکر نہیں۔ شیخ طوسیؒ نے فضل بن شاذان سے نقل کیا ہے کہ محمد بن سنان کذاب تھا، جبکہ خود فضل بن شاذان ان شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے کثرت سے محمد بن سنان سے روایات نقل کی ہیں۔ اگر محمد بن سنان کذاب تھا تو اس سے روایات کیوں نقل کی ہیں، صرف فضل بن شاذان ہی نہیں بلکہ دیگر بزرگان تشیع نے بھی محمد بن سنان سے روایات لی ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ وہ محمد بن سنان کو جھوٹا نہیں سمجھتی تھیں۔

محمد بن سنان کی توثیق پر بعض قرائن

محمد بن سنان کو جن اسباب کی بنا پر ضعیف قرار دیا گیا ان پر ایک تبصرہ ذکر کرنے کے بعد وہ قرائن بیان کرنا ضروری ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن سنان نا صرف ضعیف نہیں بلکہ جلیل القدر با عظمت شخصیت تھے۔
۱۔ محمد بن سنان کی مدح میں آئمہ معصومینؑ سے روایات نقل ہونا۔
۲۔ علماء رجال و حدیث کا محمد بن سنان پر اعتماد کرنا۔ جن میں شیخ مفیدؒ، علامہ مجلسیؒ، علامہ حلیؒ، شیخ حر عاملیؒ، اور سید بحر العلوم جیسے مشاہیر شامل ہیں۔
۳۔ بزرگ علماء و فقہاء کا محمد بن سنان سے روایت کرنا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ ان پر اعتماد کرتے تھے۔ ان میں سے بعض بزرگان کے نام ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں جنہوں نے محمد بن سنان سے روایات لی ہیں:
احمد بن محمّد بن عیسی
ایوب بن نوح
حسن بن سعید بن سعید
حسن بن علی بن یقطین
حسین بن سعید
صفوان بن یحیی
عبّاس بن معروف
عبد الرحمان بن ابی نجران
عبد الله بن صلت
فضل بن شاذان
محمّد بن اسمعیل بن بزیع
محمّد بن حسین بن ابی الخطّاب
محمّد بن عبد الجبار
موسى بن قاسم
یعقوب بن یزید
یونس بن عبد الرحمان
مشہور(مؤثق و مقبول )راویان حدیث میں سے وہ نام جنہوں نے محمد بن سنان سے روایات نقل کی ہیں:
ابراہیم بن ہاشم
احمد بن محمّد بن خالد
حسن بن حسین لؤلؤی
حسن بن علی بن فضّال
شاذان بن خلیل
علی بن اَسباط
علی بن حکم 
محمّد بن احمد بن یحیی
محمّد بن خالد برقی
اور محمّد بن عیسى بن عبید.
۴۔ بزرگ محدثین کا محمد بن سنان سے اپنی کتب میں روایات نقل کرنا بھی ان کے ثقہ ہونے پر ایک بہت بڑا قرینہ ہے۔ احمد بن محمد بن یحیی اشعری قمی نے اپنی کتاب نوادر الحکمہ، مرحوم کلینی نے الکافی، شیخ طوسیؒ نے کتاب تہذیب، اور مرحوم شیخ صدوقؒ نے من لا یحضرہ الفقیہ میں محمد بن سنان سے کثیر روایات نقل کی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے محدثین روایات لینے میں انتہائی محتاط انداز اپناتے تھے اور ہرکس و ناکس سے روایات نہیں لیتے تھے۔ ایسے میں ایک راوی سے کثیر روایات لینا، نا صرف اس کی وثاقت کی دلیل ہے بلکہ اس کے جلیل القدر ہونے کی بھی علامت ہے۔

نتیجہ

محمد بن سنان کے بارے میں ہمارے پاس تین اقوال ہیں۔
۱۔ ان کی شخصیت کو ضعیف یا ثقہ قرار دئیے بغیر توقف کیا جاۓ۔ ایسی صورت میں ہمارے لیے ان کی روایات بھی قابل عمل نہ ہونگی۔
۲۔ نجاشیؒ، اور شیخ طوسیؒ جیسے بزرگ رجالی علماء نے محمد بن سنان کو ضعیف قرار دیا ہے اس لیے ان کی روایات ہمارے لیے معتبر نہیں ہیں۔
۳۔ محمد بن سنان کو بعض رجالی چند اسباب کی بنا پر ضعیف قرار دیتے ہیں، لیکن اگر ان اسباب کی تحلیل کی جاۓ تو ان میں سے ایک سبب بھی ان کی تضعیف کا باعث نہیں بنتا۔ اس لیے محمد بن سنان نا صرف ضعیف نہیں بلکہ تین اماموں کے خاص اصحاب میں سے تھے۔ اور یہی ہمارا قول مختار بھی ہے۔

منابع:

↑1 نجاشی، ابو عباس احمد بن علی، رجال النجاشی، ج۱، ص۳۲۸۔
↑2 شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال، ج۲، ص۷۹۷۔
↑3 شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال، ج۲، ص۸۴۹۔
↑4 شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، الغیبہ، ص۳۴۸۔
↑5 شیخ مفیدؒ، محمد بن نعمان، الارشاد، ج۲، ص۲۴۸۔
↑6 علامہ حلی، جمال‌ الدین حسن بن یوسف، خلاصۃ الاقوال، ج۱، ص۳۹۴۔
↑7 علامہ حلیؒ، جمال الدین حسن بن یوسف، مختلف الشیعہ، ج۷، ص۸۔
↑8 خاقانی، شیخ علی، رجال خاقانی، ج۲، ص۱۶۲۔
↑9 شیخ حر عاملیؒ، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج۲۰، ص۳۲۹۔
↑10 سید بحر العلوم، محمد مہدی، الفوائد الرجالیہ، ج۳، ص۲۷۸۔
↑11 کلباسی، کمال الدین میرزا ابو مہدی، الرسائل الرجالیہ، ج۳، ص۶۵۱۔
↑12 نجاشی، احمد بن علی  ، رجال النجاشی، ص۳۲۸۔
↑13 شیخ طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ص۳۴۶۔
↑14 شیخ طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، ص۲۱۹۔
↑15 ابن غضائری، احمد بن حسین، الرجال۔ابن غضائری، ج۱، ص۹۲۔
↑16 ابن داؤود حلی، حسن بن علی، کتاب الرحال، ج۱، ص۲۷۳۔
↑17 خوئیؒ، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، ج۱۷، ص۱۷۰۔
↑18 نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص۳۲۸۔
↑19 شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی، ج۲، ص۷۹۶۔
↑20 شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی، ج۲، ص   ۷۹۶۔
↑21 شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی، ج۲، ص۸۲۳۔
↑22 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص  ۴۰۵۔
↑23 شیخ طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال، ج۲، ص۸۴۹۔
↑24 خاقانی، شیخ علی، رجال الخاقانی، ج۲، ص۱۶۱۔
↑25 کلینیؒ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۰۵۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 27 November 22 ، 10:44
عون نقوی

«دروس شرح الکافی»

تدریس: آیت الله رضا عابدینی

تدوین: عون نقوی(درس۸)

زمانہ غیبت میں امام کا دیدار

گزشتہ دروس میں ہم اس نتیجے تک پہنچے کہ زمانہ غیبت تمام زمانوں سے افضل زمانہ ہے۔ اگرچہ ظاہری طور پرہمیں لگتا ہے کہ ہم امام کو نہیں دیکھ سکتے اس لیے زمانہ محرومیت کا زمانہ ہے ۔ یہ بات درست ہے کہ ہم اپنے زمانے کے امام کو نہ تو ظاہری آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور نا ان سے ملاقات کر سکتے ہیں۔ جبکہ امام کا کسی زمانے میں ظاہر ہونا بہت بڑی سعادت ہے جس سے ہم لوگ محروم ہیں۔ یقینا کوئی بھی اس کا انکار نہیں کر سکتا۔ ہم سب امام کو دیکھنے کےمشتاق ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی زیارت کریں۔ لیکن ان سب محرومیتوں کے باوجود کہا گیا ہے کہ زمانہ غیبت میں جہاں آپ کو محرومیت ہے وہیں نظام روحی کے ذریعے ابصار باطنی سے آپ امام سے ارتباط برقرار رکھ سکتے ہیں۔ غیبت کو اللہ تعالی نے اسی لیے قرار دیا کہ مومنین اپنی باطنی آنکھوں کو روشن کریں اور ان سے قلبی ارتباط برقرار کریں ،اس دیدار کی اہمیت اور فضیلت ظاہری آنکھوں سے دیکھنے سے زیادہ ہے۔ اگر اللہ تعالی نے ایک طرف سے محرومیت قرار دی ہے تو دوسری طرف سے اس تلافی کا مکمل طور پر ہمیں موقع فراہم کیاہے۔ اس لیے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر آج کے دور میں امام ہوتے تو میں زیادہ با استعداد ہوتا، بلکہ فرمایا گیا ہے کہ آج بھی راستہ کھلا ہے۔ اگر ظاہری آنکھ سے دیکھنے کی محرومیت ہے تو وہیں قلبی ارتباط کا امکان ہے،اور یقینا یہ دیدار بالا تر درجے کی رُؤیت ہے۔

ہم محروم ہیں یا نہیں؟

لیکن یہاں پر کوئی سوال کر سکتا ہے کہ آج کے دور کا منتظر جو امیرالمومنینؑ کے دور میں بھی نہیں تھا اور ممکن ہے زمانہ ظہور میں بھی زندہ نہ ہو، یہ محروم نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ جن لوگوں نے امیرالمومنینؑ کے دور کو پایا، ان کا ساتھ دیا اور بصیرت سے ان کے ساتھ حق پر ڈٹے رہے یقینا ان کا بہت مقام ہے ،آج کا انسان اس مرتبے تک نہیں پہنچ سکتا،کیا یہ نعمت صرف اس دور کے لوگوں کے ساتھ خاص تھی اور ہم اس نعمت سے محروم ہیں؟ زمانے کے لحاظ سے تو نا ہم رسول اللہ ﷺ کی ہمراہی کر سکے ہیں اور نا کسی اور امام معصومؑ کی۔ بشر ہونے کی جہت سے تو ہم میں اور آئمہ معصومینؑ کے زمانے کے بشر میں کوئی فرق نہیں۔ یہاں پر ہماری استعداد کا کیا بنے گا جو نکھر نہیں سکی؟ اس کے جواب میں مختصر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہم زمانے کو معیار قرار دیں تو ایسا ہی ہے کہ ہم محروم ہیں۔

لیکن اگر ہم بدن کو انسانی وجود کا ایک مرتبہ قرار دیں، ساتھ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ انسانی وجود کے تمام مراتب کے لیے تعین اور حجاب نہیں بلکہ انسان کے روحی نظام کے لیے نا تو کوئی زمانہ حائل بنتا ہے اور نا ہی مکان۔ اس صورت میں ہم محروم نہیں کہلائیں گے۔ کیونکہ ہماری روح اگرچہ بدن کے ساتھ تعلق رکھتی ہے لیکن خود بدن میں نہیں ہے۔ اگر بدن میں ہوتی تو بدن میں مقید ہوتی، ممکن ہے خود میں اپنی روح کو بدن میں مقید کر لوں اور یہ اعتقاد بنا لوں کہ میں یہی بدن ہوں اور روح وغیرہ کچھ نہیں، اس طرح تمام زمان اور مکان سے بالاتر روحی کمالات سے بھی محروم ہو جاؤں گا۔ لیکن خود انسان کی روح کی حقیقت اس سے جدا ہے۔ دین نے انسان کو بہت وسعت دی ہے اس کو درک کرنا ہوگا کیونکہ عدم ادراک باعث بنتا ہے کہ ہم حسرت کریں کہ امیرالمومنینؑ کے ہمراہ نہیں تھے، جبکہ یہ حسرت فعلیت میں بھی بدل سکتی ہے۔

انسان کی استعداد اور اس کی فعلیت

انسان کی تمام استعدادیں فعلیت کے مرحلے تک پہنچ سکتی ہیں، چاہے امام ظاہر ہو یا غائب،ایک تنہا مومن ہو یا چاہےمومنین کا ایک جمع۔ اس طرح سے نہیں کہ ہم کسی شے کو زمانی یا مکانی طور پر نہیں پا سکے تو اس کی حسرت کریں، اگرچہ حسرت ہے لیکن ایسی حسرت نہیں ہے جو حاصل نہ ہو سکے۔ کیونکہ خود حسرت بھی  ایک عمل ہے۔ حسرت انسان کے روحی نظام کو فعلیت عطا کرتی ہے۔ اگر یہ نگاہ انسان کے اندر پیدا ہو جاۓ تو وہ ہر دور کے انسان اور ہر جگہ پر رہنے والے انسان کے کمالات کو اپنے اندر پیدا کرنے کا امکان دیکھتا ہے۔ راستہ کھلا ہے جو بھی اس راہ کا راہی بننا چاہے آ سکتا ہے۔ رجعت کی بحث بھی اسی بحث کے ذیل میں آتی ہے۔ رجعت کو کامل اور تبیین یہی بحث کرتی ہے۔ اگرچہ رجعت میں کہا گیا ہے کہ وہاں محض ایمان اور محض کفر کی رجعت ہے لیکن اس بحث میں ہم اس امر کو ہر انسان میں سرایت دے رہے ہیں۔ ہم مادی طور پر بھی اس کا شاہد لا سکتے ہیں۔ مثلا جب کسی انسان کی ایک حس کام کرنا چھوڑ دیتی ہے تو اس کی دیگر حسیں زیادہ قوی ہو جاتی ہیں اور اس طرح ایک مقدار تک جبران ہو جاتا ہے۔ لیکن  ہماری محرومیت کا جواب کیا ہے؟ اور ہم محروم کیسے نہیں ہیں؟ اس سوال کا جواب امامؑ دیتے ہیں۔

مستتر امام کے مراتب

ہم نے گزشتہ درس میں روایت کو ملاحظہ کیا تھا جس میں امام فرماتے ہیں:

«الْحُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَشْعَرِیُّ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ مِرْدَاسٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ یَحْیَى وَ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ عَمَّارٍ السَّابَاطِیِّ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع أَیُّمَا أَفْضَلُ الْعِبَادَةُ فِی السِّرِّ مَعَ الْإِمَامِ مِنْکُمُ الْمُسْتَتِرِ فِی دَوْلَةِ الْبَاطِلِ أَوِ الْعِبَادَةُ فِی ظُهُورِ الْحَقِّ وَ دَوْلَتِهِ مَعَ الْإِمَامِ مِنْکُمُ الظَّاهِرِ».

ترجمہ:عمار ساباطی کہتے ہیں کہ میں نے امام سے عرض کی: باطل کی حکومت میں امام مستتر کے ساتھ سِری عبادت انجام دینا افضل ہے یا حق کی حکومت میں امام ظاہر کے ساتھ ظاہری عبادت؟ [1]

واضح رہے کہ خود امام کے مستتر ہونے کے بھی مراتب ہیں۔ جس طرح ظالم حکومتوں کو ظلم کی مقدار کی جہت سے ہم مراتب میں تقسیم کر سکتے ہیں۔مثلا  ایک دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ظالم حکومت کا مکمل طور پر تسلط ہے اور مومنین شدید تقیہ کی حالت میں ہیں، لیکن بعض دفعہ ایسا ہے کہ ظالم حکومت موجود ہے لیکن اسے خود اپنی پڑی ہوئی ہے۔ مومنین اگر کوئی فعلیت انجام دیتے ہیں تو اگر حکومت کو ان کاموں سے کوئی خطرہ نہیں تو وہ بھی ان کاموں سے حساس نہیں ہوتی۔ اگرچہ خود مومنین اور حق کے امام کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی جبت، اور طاغوت کی حکومت میں اپنے کام سے کام رکھیں کیونکہ اللہ کی زمین پر قانون گذاری اور حکومت کا حق صرف خدا کو حاصل ہے۔ کسی بھی غیر الہی قانون کو کسی بھی حالت میں قبول نہیں کیا جا سکتا، مگر یہ کہ تقیہ کی حالت ہو۔

پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ امام کے مستتر ہونے کا دورصرف زمانہ غیبت کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ بقیہ گیارہ آئمہ معصومینؑ کے ادوار کو بھی شامل ہے۔ حتی امیرالمومنینؑ کا دور کہ اس دور میں بھی افراد ان کو امام ہونے کی حیثیت سے نہیں جانتے تھے۔ ان کو بقیہ خلفاء کی طرح ایک خلیفہ و حکمران سمجھتے تھے۔ خود امیرالمومنینؑ کی امامت مستتر تھی۔ بہت قلیل اور چند افراد ان کو اپنا امام مانتے تھے۔ یہ دور اسی طرح سے رہا یہاں تک کہ امام سجادؑ کے دور تک یہ استتار شدید تر ہوتا گیا۔ اسی طرح سے بقیہ آئمہ معصومینؑ کا دور مثلا امام ہادیؑ اور امام عسکریؑ کا دور، ان سب ادوار میں استتار کا مرتبہ شدید یا ضعیف ہوتا رہا۔ با الفاظ دیگر استتار ایک تشکیکی امر ہے۔ استتار کے تشکیکی ہونے  کے نتیجے میں ہمارے پاس جو احکام سامنے آتے ہیں وہ بھی تشکیکی ہونگے۔ ہر دور میں استتار کا جبران بھی تشکیکی ہوگا۔

سخت حالات میں عبادت کی افضلیت

راوی نے امام سے سوال کیا کہ باطل کی حکومت میں جب امام مستتر ہیں، اس دور میں چھپ کر کی جانے والی عبادت افضل ہے یا حق کے امام کی حکومت میں جب امام ظاہر ہیں علنى عبادت افضل ہے؟اگرچہ حق کے امام کی حکومت اور ظاہر ی امام کا اپنے اوج کو پہنچا ہوا مرتبہ ہمیں صرف زمانہ ظہور میں دیکھنے کو ملے گا۔تاہم  حق کی حکومت کا ایک مرتبہ امیرالمومنینؑ کی حکومت میں بھی ہم دیکھ سکتے ہیں، ظاہری طور پر خفاء نہیں تھا مگر یہ کہ بعض مقامات پر خود امام صلاح نہیں سمجھتے تھے۔

بہرحال کونسی عبادت افضل ہے؟ اس افضلیت کی اساس اور  معیار کیا ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ جس زمانے میں مومنین کی استعداد یں زیادہ نکھر کے سامنے آتی ہیں، اس زمانے کی عبادت زیادہ افضل ہوگی۔ اگر اس روایت کے ظاہر کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ جیسے امام کسی زمانے کی افضلیت کو بیان کرنے چاہ رہے ہیں لیکن اگر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ امام بتانا چاہتے ہیں کہ حالات کا تنگ ہو جانا اور شدید ترین حکومتی دباؤ اور مسائل مومن کی راہ کو بند نہیں کر سکتے۔ وہ ان حالات سے بھی نکل سکتا ہے۔ اس لیے امام افضلیت کو سخت ترین دور میں قرار دے رہے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ پرسکون حالات میں استعداد فعلیت کو نہیں پہنچ سکتی۔ لیکن واضح رہے جہاں مومن کے لیے حالات سخت ہو جائیں اس کے لیے موانع نہ صرف مانع نہیں بنتے بلکہ اس کے اندر کمال اور استعداد کے مواقع کو اور بڑھا دیتے ہیں۔ اس نگاہ کو اگر مومن اپنے اندر پیدا کر لے تو دشمن مجبور اور لاچار ہو کر رہ جاۓگا۔ کیونکہ اس کے پاس اب کوئی مومن کو شکست دینے کا راہ حل نہیں ہے ۔ حتی مومن کو زیر زمین زندان میں بند کر دیں وہاں بھی وہ سوچے گا کہ اللہ تعالی نے اس کے لیے یہی تکلیف معین فرمائی ہے۔

دینی نکتہ نظر سے ایک مومن چاہے وہ جس دور یا جس جگہ کا بھی ہو اس کے لیے اللہ تعالی کا قانون یکساں ہے۔ وہ شخص جو کال کوٹھڑی میں قید ہے اور وہ شخص جو منظر عام پر تمام افراد کی طرح معمولی زندگی بسر کر رہا ہے ہر دو کے لیے اس الہی قانون گذاری کے مطابق کمال تک پہنچنے کا راستہ کھلا ہے۔ کوئی بھی امر اس کے لیے مانع نہیں بن سکتا۔ دشمن جتنا بھی آپ کو مقید کر لے زیادہ سے زیادہ آپ کے بدن کو قید کر سکتا ہے لیکن کیا آپ کی روح کو بھی قید کر سکتا ہے؟ روح کو قید کرنا دشمن کے بس سے باہر ہے۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے کہ جب فرعون نے جادوگروں کو کہا کہ موسیؑ کے معجزے کا انکار کرو ورنہ تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ دونگا تو انہوں نے کہا:

«قَالُوا لَا ضَیْرَ إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا مُنْقَلِبُونَ».

ترجمہ: وہ بولے کوئی حرج نہیں ہم اپنے رب کے حضور لوٹ جائیں گے۔[2]

انہوں نے کہا کہ تمہارے بس میں نہیں ہے کہ ہمیں کوئی نقصان پہنچا سکو۔ ان جادوگروں کا فہم و بصیرت کے اس درجہ تک پہنچ جانا کوئی معمولی مرتبہ نہیں۔ بہت خوبصورت بیان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ تو کیا کر لے گا؟ ہمارے بدنوں کو شکنجہ کرے گا یا اسے موت کے گھاٹ اتار دے گا، یہ بدن تو آج یا کل ویسے بھی مر جانے ہیں لیکن تو ہماری روح و روان کو ختم نہیں کر سکتا۔

روایت کے اگلے حصے میں امام فرماتے ہیں:

«وَ اللَّهِ عِبَادَتُکُمْ فِی السِّرِّ مَعَ إِمَامِکُمُ‌ الْمُسْتَتِرِ فِی دَوْلَةِ الْبَاطِلِ وَ تَخَوُّفُکُمْ مِنْ عَدُوِّکُمْ فِی دَوْلَةِ الْبَاطِلِ وَ حَالِ الْهُدْنَةِ أَفْضَلُ». 

ترجمہ:خدا کی قسم! امام کے مستتر ہونے کی حالت میں، باطل کی حکومت میں، دشمن سے خوف اور اس باطل کی حکومت میں اس حال میں تمہاری عبادتیں افضل ہیں۔

امام فرماتے ہیں کہ باطل کی حکومت میں جو مومنین کو خوف لاحق ہوتا ہے وہ بھی عبادت ہے۔ اگر مومن حق کا مطیع ہے تو اس کا حق کی اطاعت میں رہنا، ظاہری عبادات انجام دینا یا حتی کسب معاش کرنا اور روابط بھی عبادت شمار ہونگے۔

حدیث معراجیہ میں وارد ہوا ہے کہ اگر عبادات کو دس حصوں میں تقسیم کریں تو اس کے نو حصے کسب حلال کو شامل ہیں۔[3] ایک عبادت کا تصور ہم لوگ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ صرف نماز پڑھنا اور روزے رکھنایا  تلاوت کرنا عبادت ہے جبکہ دین نے عبادت کے ۱۰ حصوں میں سے ۹ حصے کسب حلال میں قرار دیے ہیں۔ کیونکہ عبادت کا مغز اطاعت الہی ہے۔ اگر اطاعت الہی میں رہتے ہوۓ باطل کی حکومت میں کسب حلال کرتے ہیں ،بہت سخت ہے لیکن یہی سب سے بڑی عبادت ہے۔

نظام الہی میں موانع اور مواقع

اللہ تعالی نے اس عالم کو اس طرح سے خلق کیا ہے کہ کہ دشمن کی جانب سے پیش آنے والی محدودیت اور موانع، یا حتی طبیعی موانع بھی اس سیر کی حرکت کو روک نہیں سکتے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے بہتے ہوۓ پانی کے سامنے ڈیم آ جاۓ، ڈیم جب لبریز ہو جاۓ گا پانی پھر سے اپنے راہ کو پا لے گا۔ یہ قانون الہی ہم عالم طبیعت میں بھی دیکھ سکتے ہیں جیسے ہی مانع وجود میں آیا دیر نہیں لگتی کہ اسے راہ مل جاتا ہے۔ اللہ تعالی متعدد راستے نکال کر دے دیتا ہے۔

اس روایت میں لفظ «تَخَوُّفُکُمْ» وارد ہوا ہے۔ خود خوف مانع نہیں ہے بلکہ راہ ہے۔ دشمن چاہتا تھا کہ خوف اور دبدبہ ایجاد کر کے مانع ایجاد کرے لیکن خدا کہتا ہے کہ میں اسی مانع کو راہ بنا دونگا۔ بہت خوبصورت بیان ہے۔ حضرت موسیؑ اور ان کی قوم کے سامنے دریا موجود تھا، پیچھے فرعون اور اس کا لشکر، خدا نے اسی مانع(دریا) کو راہ بنا دیا۔ وہ آگ جسے نمرود نے حضرت ابراہیمؑ کو جلانے اور مارنے کے لیے بھڑکایا خدا نے اسی آگ کو ان کے لیے کامیابی اور فتح کا باعث بنا دیا۔ وہ جادوگر جو فرعون نے حضرت موسیؑ کا راستہ روکنے کے لیے مانع کے طور پر مدعو کیے تھے، اللہ تعالی نے انہیں جادوگروں کو ہدایت دی اور حضرت موسیؑ کی فتح کا ذریعہ بنا دیا۔

جو مانع ہے وہی راہ کا ذریعہ

اگر اس طرح کی دینی نگاہ ہمارے وجود میں پیدا ہو جاۓ کبھی سلوک الی اللہ میں مانع نہیں پائیں گے۔ ہر ظاہری رکاوٹ ہمیں راستے کی نشانی لگنے لگے گی۔ اگر یوسفؑ کو کنویں میں ڈالا گیا تو وہی کنواں ان کے عزیز مصر بننے کی راہ بنا۔ جن بھائیوں نے حضرت یوسفؑ کو نابود کرنا چاہا وہی باعث بنے کہ یوسفؑ مصر کی نجات کا باعث بن جائیں۔ جس طرف بھی آپ حوادث کی طرف غور کریں یہی سنت الہی آپ کو نظر آۓ گی۔ غیبت میں بھی یہی سنت حاکم ہے۔کلی طور پر  ہر حکم الہی میں یہی سنت حاکم ہے۔  اللہ تعالی کا ہر کلی یا جزئی حکم جو ہم پر نازل ہوا ہے اس کے لیے مانع کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اللہ تعالی ان موانع پر قاہر ہے اور یہ سب مقہور ہیں۔ نا صرف مقہور ہیں بلکہ اس کے آگے مسخر ہیں۔ آگ اور دریا جو دو نبیوں کے لیے مانع بن رہے تھے نا صرف مانع نہ بن سکے بلکہ مسخر ہو کر ان انبیاء کی فتح و کامرانی کا باعث بنے۔ وہی آگ تھی جس نے حضرت ابراہیمؑ کو نجات دی اور وہی دریا تھا جس نے حضرت موسیؑ اور ان کی قوم کو راستہ دیا۔

انسان کی زندگی میں جتنے بھی حوادث اور واقعات پیش آتے ہیں ظاہری طور پر مانع نظر آتے ہیں۔ لیکن وہی موانع اللہ تعالی نے راہ قرار دیے ہیں۔

قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا».

ترجمہ: البتہ مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔[4]

«فَإِنَّ بعدَ الْعُسْرِ یُسْرًا» وارد نہیں ہوا کہ کوئی کہے عُسر کے بعد یُسر ہوگی۔بلکہ عُسر ،یُسر کے ہمراہ ہے۔ دو زاویوں سے اس مسئلے کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر بدن کی جہت سے دیکھیں تو ممکن ہےعُسر ہو۔ لیکن روح کی جہت سے یُسر ہو۔ لہذا حضرت ایوبؑ کو جن تکلیفوں سے آزمایا گیا وہ تکالیف ان کے لیے گشائش کا سبب بنیں۔ یا حضرت موسیؑ کا قبطی کو قتل کے بعد فرار کرنا اور مشکلات میں پڑنا ہی باعث بنا کہ وہ حضرت شعیبؑ کے پاس جائیں اور وہاں رسالت جیسی عظیم  ماموریت کے لیے تیار ہو سکیں۔ وہی فرار ان کے لیے راہ بن گیا۔ اگر زندگی کے تمام واقعات کو اس الہی منظر سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ جن ظاہری موانع کو ہم اپنی زندگی میں رکاوٹ سمجھ رہے ہیں وہی ہمارے کمال کا باعث ہیں۔ تاہم جیسا کہ بیان ہوا دو متفاوت نگاہیں ہیں۔ ایک دفعہ انسان اور خدا کے درمیان رابطے کے ایجاد ہونے کی جہت سے دیکھتے ہیں، اور ایک دفعہ بدن کے اس جہان سے ارتباط کی جہت سے دیکھتے ہیں۔ اگر بدن کے اس جہان کے ارتباط کی جہت سے دیکھیں تو حتی خوشی اور سکون بھی مانع ہے۔ لیکن اگر پہلی نگاہ کو اختیار کریں تو جن کو ہم بدترین مانع قرار دے رہے ہیں وہ راہ ہیں اور مواقع ہیں۔ یہ نگاہ کنویں کی تاریک فضا میں بھی یوسفؑ کے لیے گشائش قرار پاتی ہے۔ بالالفاظ دیگر ایک منظر الہی ہے اور ایک منظر بدنی۔ بدنی نگاہ یا بشری تقاضوں کے مطابق دیکھیں تو ناامیدی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اگر حوادث کو منظر الہی سے  دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے اس کی ذات ہر وقت ہمارے ساتھ ہے۔

«إِنَّ مَعِیَ رَبِّی سَیَهْدِینِ».

ترجمہ: میرا رب یقینا میرے ساتھ ہے، وہ مجھے راستہ دکھا دے گا۔[5]

یہ نگاہ انبیاء کو حاصل ہوتی ہے جب بھی وہ موانع کو دیکھتے ہیں اسی موانع میں راہ نجات بھی دیکھ لیتے ہیں۔جہاں ہمارے حساب کتاب اور ہوتے ہیں خدا کا منصوبہ کچھ اور ہوتا ہے۔الله تعالی اپنے اولیاء کے امور کو بعض اوقات صرف ایک رات جیسے معمولی زمان میں درست کر دیتا ہے۔ جیسا کہ  حضرت موسیؑ کو ایک رات میں رسالت عطا ہوگئی۔ روایت میں واردہوا ہے:

«وَ إِنَّ اَللَّهَ لَیُصْلِحُ أَمْرَهُ فِی لَیْلَةٍ کَمَا أَصْلَحَ أَمْرَ کَلِیمِهِ مُوسَى عَلَیْهِ السَّلاَمُ».

ترجمہ: اور بے شک اللہ تعالی اپنے امر (ظہور کے مقدمات) کو ایک ہی رات میں درست کرے گا جس طرح اس نے موسیؑ کے امر کی ایک رات میں اصلاح کی۔[6]

جیسا کہ امام جعفر صادقؑ کا فرمان مبارک ہے:

«کُنْ لِمَا لَا تَرْجُو أَرْجَى مِنْکَ».

ترجمہ: جس چیز میں تمہیں کوئی امید نہ ہو  اس میں زیادہ پر امید رہو۔[7]

پس جہاں بھی ناامیدی شدید ہو جاۓ، زیادہ پر امید ہو جانا چاہیے۔ ایسے حالات میں جب دوسرے عوامل اور اسباب کو کم دیکھ رہے ہیں اور موانع زیادہ، وہاں ہم رجاء کو بڑھا لیں، یہ نگاہ پیدا کرنا ضروری ہے۔

منابع:

 

↑1 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۳۳۔
↑2 شعراء:۵۰۔
↑3 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۱۰۳،ص۹۔
↑4 شرح:۵۔
↑5 شعراء:۶۲۔
↑6 راوندی، قطب الدین، الخرائج والجرائح،ج۳،ص۱۱۷۱۔
↑7 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۵، ص۸۳۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 April 22 ، 14:19
عون نقوی