بصیرت اخبار

۲۶۶ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «عون نقوی» ثبت شده است

(۱۰۴)

وَ عَنْ نَّوْفٍ الْبِکَالِیِّ، قَالَ رَاَیْتُ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَیْهِ‏السَّلَامُ ذَاتَ لَیْلَةٍ، وَ قَدْ خَرَجَ مِنْ فِرَاشِهٖ، فَنَظَرَ فِی النُّجُوْمِ، فَقَالَ لِیْ:

نوف (ابن فضالہ) بکالی کہتے ہیں کہ: میں نے ایک شب امیر المومنین علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ فرش خواب سے اُٹھے ایک نظر ستاروں پر ڈالی اور پھر فرمایا:

یَا نَوْفُ! اَ رَاقِدٌ اَنْتَ اَمْ رَامِقٌ؟

اے نوف! سوتے ہو یا جاگ رہے ہو؟

فَقُلْتُ: بَلْ رَامِقٌ یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ، قَالَ:

میں نے کہا کہ: یا امیر المومنینؑ! جاگ رہا ہوں۔ فرمایا:

‏یَا نَوْفُ! طُوْبٰى لِلزَّاهِدِیْنَ فِی الدُّنْیَا، الرَّاغِبـِیْنَ فِی الْاٰخِرَةِ، اُولٰٓئِکَ قَوْمٌ اتَّخَذُوا الْاَرْضَ بِسَاطًا، وَ تُرَابَهَا فِرَاشًا، وَ مَآءَهَا طِیْبًا، وَ الْقُرْاٰنَ شِعَارًا، وَ الدُّعَآءَ دِثَارًا، ثُمَّ قَرَضُوا الدُّنْیَا قَرْضًا عَلٰى مِنْهَاجِ الْمَسِیْحِ.

اے نوف! خوشا نصیب ان کے کہ جنہوں نے دنیا میں زہد اختیار کیا اور ہمہ تن آخرت کی طرف متوجہ رہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے زمین کو فرش، مٹی کو بستر اور پانی کو شربت ِخوشگوار قرار دیا، قرآن کو سینے سے لگایا اور دُعا کو سپر بنایا، پھر حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح دامن جھاڑ کر دنیا سے الگ تھلگ ہو گئے۔

یَا نَوْفُ! اِنَّ دَاوٗدَ عَلَیْهِ السَّلَامُ قَامَ فِىْ مِثْلِ هٰذِهِ السَّاعَةِ مِنَ اللَّیْلِ فَقَالَ: اِنَّهَا سَاعَةٌ لَا یَدْعُوْ فِیْهَا عَبْدٌ اِلَّا اسْتُجِیْبَ لَهٗ، اِلَّاۤ اَنْ یَّکُوْنَ عَشَّارًا، اَوْ عَرِیْفًا، اَوْ شُرْطِیًّا، اَوْ صَاحِبَ عَرْطَبَةٍ (وَ هِیَ الطَّنْۢبُوْرُ)، اَوْ صَاحِبَ کُوْبَةٍ (وَ هِیَ الطَّبْلُ).

اے نوف! داؤد علیہ السلام رات کے ایسے ہی حصہ میں اٹھے اور فرمایا کہ: یہ وہ گھڑی ہے کہ جس میں بندہ جو بھی دُعا مانگے مستجاب ہو گی، سوا اس شخص کے جو سرکاری ٹیکس وصول کرنے والا، یا لوگوں کی برائیاں کرنے والا، یا (کسی ظالم حکومت کی) پولیس میں ہو، یا سارنگی یا ڈھول تاشہ بجانے والا ہو۔ (سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ: ’’عرطبہ‘‘ کے معنی سارنگی اور ’’کوبہ‘‘ کے معنی ڈھول کے ہیں)۔

وَ قَدْ قِیْلَ اَیْضًا: اِنَّ الْعَرْطَبَةَ: الطَّبْلُ، وَ الْکُوْبَةَ الطُّنْۢبُوْرُ.

اور ایک قول یہ ہے کہ ’’عرطبہ‘‘ کے معنی ڈھول اور ’’کوبہ‘‘ کے معنی طنبور کے ہیں۔

(۱۰۵)

اِنَّ اللهَ افْتَرَضَ عَلَیْکُمُ فَرَآئِضَ فَلَا تُضَیِّعُوْهَا، وَ حَدَّ لَکُمْ حُدُوْدًا فَلَا تَعْتَدُوْهَا، وَ نَهَاکُمْ عَنْ اَشْیَآءَ فَلَا تَنْتَهِکُوْهَا، وَ سَکَتَ لَکُمْ عَنْ اَشْیَآءَ وَلَمْ یَدَعْهَا نِسْیَانًا فَلَا تَتَکَلَّفُوْهَا.

اللہ نے چند فرائض تم پر عائد کئے ہیں انہیں ضائع نہ کرو اور تمہارے حدودِ کار مقرر کر دیے ہیں ان سے تجاوز نہ کرو۔ اس نے چند چیزوں سے تمہیں منع کیا ہے اس کی خلاف ورزی نہ کرو اور جن چند چیزوں کا اس نے حکم بیان نہیں کیا انہیں بھولے سے نہیں چھوڑ دیا۔ لہٰذا خواہ مخواہ انہیں جاننے کی کوشش نہ کرو۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 January 23 ، 18:55
عون نقوی

(۱۰۲)

یَاْتِیْ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَّا یُقَرَّبُ فِیْهِ اِلَّا الْمَاحِلُ، وَ لَا یُظَرَّفُ فِیْهِ اِلَّا الْفَاجِرُ، وَ لَا یُضَعَّفُ فِیْهِ اِلَّا الْمُنْصِفُ، یَعُدُّوْنَ الصَّدَقَةَ فِیْهِ غُرْمًا، وَ صِلَةَ الرَّحِمُ مَنًّا، وَ الْعِبَادَةَ اسْتِطَالَةً عَلَى النَّاسِ، فَعِنْدَ ذٰلِکَ یَکُوْنُ السُّلْطَانُ بِمَشُوْرَةِ النِّسَآءِ، وَ اِمَارَةِ الصِّبْیَانِ، وَ تَدْبِیْرِ الْخِصْیَانِ۔

لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جس میں وہی بارگاہوں میں مقرب ہو گا جو لوگوں کے عیوب بیان کرنے والا ہو، اور وہی خوش مذاق سمجھا جائے گا جو فاسق و فاجر ہو، اور انصاف پسند کو کمزور و ناتواں سمجھا جائے گا، صدقہ کو لوگ خسارہ اور صلہ رحمی کو احسان سمجھیں گے، اور عبادت لوگوں پر تفوق جتلانے کیلئے ہو گی۔ ایسے زمانہ میں حکومت کا دارومدار عورتوں کے مشورے، نو خیز لڑکوں کی کار فرمائی اور خواجہ سراؤں کی تدبیر و رائے پر ہو گا۔

(۱۰۳)

وَ رُئِیَ عَلَیْهِ اِزَارٌ خَلَقٌ مَرْقُوْعٌ، فَقِیْلَ لَهٗ فِیْ ذٰلِکَ فَقَالَ:

آپؑ کے جسم پر ایک بوسیدہ اور پیوند دار جامہ دیکھا گیا تو آپؑ سے اس کے بارے میں کہا گیا۔ آپؑ نے فرمایا:

یَخْشَعُ لَهُ الْقَلْبُ، وَ تَذِلُّ بِهِ النَّفْسُ، وَ یَقْتَدِیْ بِهِ الْمُؤْمِنُوْنَ. اِنَّ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةَ عَدُوَّانِ مُتَفَاوِتَانِ، وَ سَبِیْلَانِ مُخْتَلِفَانِ، فَمَنْ اَحَبَّ الدُّنْیَا وَ تَوَلَّاهَا اَبْغَضَ الْاٰخِرَةَ وَ عَادَاهَا، وَ هُمَا بِمَنْزِلَةِ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ، وَ مَاشٍۭ بَیْنَهُمَا کُلَّمَا قَرُبَ مِنْ وَّاحِدٍۭ بَعُدَ مِنَ الْاٰخَرِ، وَ هُمَا بَعْدُ ضَرَّتَانِ۔

اس سے دل متواضع اور نفس رام ہوتا ہے اور مومن اس کی تاسی کرتے ہیں۔ دنیا اور آخرت آپس میں دو ناساز گار دشمن اور دو جدا جدا راستے ہیں۔ چنانچہ جو دنیا کو چاہے گا اور اس سے دل لگائے گا وہ آخرت سے بَیر اور دشمنی رکھے گا وہ دونوں بمنزلۂ مشرق و مغرب کے ہیں اور ان دونوں سمتوں کے درمیان چلنے والا جب بھی ایک سے قریب ہو گا تو دوسرے سے دور ہونا پڑے گا۔ پھر ان دونوں کا رشتہ ایسا ہی ہے جیسا دو سوتوں کا ہوتا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 January 23 ، 18:52
عون نقوی

(۱۰۰)

وَ مَدَحَهٗ قَوْمٌ فِیْ وَجْهِهٖ:

کچھ لوگوں نے آپؑ کے روبرو آپؑ کی مدح و ستائش کی تو فرمایا:

اَللّٰهُمَّ اِنَّکَ اَعْلَمُ بِیْ مِنْ نَّفْسِیْ، وَ اَنَا اَعْلَمُ بِنَفْسِیْ مِنْهُمْ، اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنَا خَیْرًا مِّمَّا یَظُنُّوْنَ، وَ اغْفِرْ لَنَا مَا لَا یَعْلَمُوْنَ.

اے اللہ! تو مجھے مجھ سے بھی زیادہ جانتا ہے اور ان لوگوں سے زیادہ اپنے نفس کو میں پہچانتا ہوں۔ اے خدا! جو ان لوگوں کا خیال ہے ہمیں اس سے بہتر قرار دے اور ان (لغزشوں) کو بخش دے جن کا انہیں علم نہیں۔

(۱۰۱)

لَا یَسْتَقِیْمُ قَضَآءُ الْحَوَآئِجِ اِلَّا بِثَلَاثٍ: بِاسْتِصْغَارِهَا لِتَعْظُمَ، وَ بِاسْتِکْتَامِهَا لِتَظْهَرَ، وَ بِتَعْجِیْلِهَا لِتَهْنُؤَ.

حاجت روائی تین چیزوں کے بغیر پائیدار نہیں ہوتی: اسے چھوٹا سمجھا جائے تاکہ وہ بڑی قرار پائے، اسے چھپایا جائے تاکہ وہ خود بخود ظاہر ہو اور اس میں جلدی کی جائے تاکہ وہ خوشگوار ہو۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 January 23 ، 18:48
عون نقوی

(۹۸)

اِعْقِلُوا الْخَبَرَ اِذَا سَمِعْتُمُوْهُ عَقْلَ رِعَایَةٍ لَّا عَقْلَ رِوَایَةٍ، فَاِنَّ رُوَاةَ الْعِلْمِ کَثِیْرٌ، وَ رُعَاتَهٗ قَلِیْلٌ.

جب کوئی حدیث سنو تو اسے عقل کے معیار پر پرکھ لو، صرف نقل الفاظ پر بس نہ کرو۔ کیونکہ علم کے نقل کرنے والے تو بہت ہیں اور اس میں غور و فکر کرنے والے کم ہیں۔

(۹۹)

رَجُلًا یَّقُوْلُ: ﴿اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ﴾، فَقَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ:

ایک شخص کو ﴿انا لله و انا الیه راجعون﴾ (ہم اللہ کے ہیں اور ہمیں اللہ کی طرف پلٹنا ہے ) کہتے سنا تو فرمایا کہ:

اِنَّ قَوْلَنَا: ﴿اِنَّا لِلّٰهِ﴾ اِقْرَارٌ عَلٰۤى اَنْفُسِنَا بِالْمِلْکِ، وَ قَوْلَنَا: ﴿وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ﴾ اِقْرَارٌ عَلٰۤى اَنْفُسِنَا بِالْهُلْکِ.

ہمارا یہ کہنا کہ ’’ہم اللہ کے ہیں‘‘ اس کی مِلک ہونے کا اعتراف ہے اور یہ کہنا کہ ’’ہمیں اسی کی طرف پلٹنا ہے‘‘، یہ اپنے لئے فنا کا اقرار ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 January 23 ، 18:46
عون نقوی

(۹۶)

اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِالْاَنْۢبِیَآءِ اَعْلَمُهُمْ بِمَا جَآؤُوْا بِهٖ.

انبیاء علیہم السلام سے زیادہ خصوصیت ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے کہ جو ان کی لائی ہوئی چیزوں کا زیادہ علم رکھتے ہوں۔

ثُمَّ تَلَا:

پھر آپؑ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:

﴿اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰهِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ وَ هٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ؕ ﴾.

’’ابراہیمؑ سے زیادہ خصوصیت ان لوگوں کو تھی جو ان کے فرمانبردار تھے اور اب اس نبیؐ اور ایمان لانے والوں کو خصوصیت ہے‘‘ ۔

ثُمَّ قَالَ:

پھر فرمایا:

اِنَّ وَلِیَّ مُحَمَّدٍ ﷺ مَنْ اَطَاعَ اللّٰہَ وَ اِنْ بَعُدَتْ لُحْمَتُہٗ، وَ اِنَّ عَدُوَّ مُحَمَّدٍ ﷺ مَنْ عَصَی اللّٰہَ وَ اِنْ قَرُبَتْ قَرَابَتُہٗ.

حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا دوست وہ ہے جو اللہ کی اطاعت کرے، اگرچہ ان سے کوئی قرابت نہ رکھتا ہو، اور ان کا دشمن وہ ہے جو اللہ کی نافرمانی کرے، اگرچہ نزدیکی قرابت رکھتا ہو۔

(۹۷)

رَجُلًا مِّنَ الْحَرُوْرِیَّةِ یَتَهَجَّدُ وَ یَقْرَاُ فَقَالَ:

ایک خارجی کے متعلق آپؑ نے سنا کہ وہ نماز شب پڑھتا ہے اور قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو آپؑ نے فرمایا:

نَوْمٌ عَلٰى یَقِیْنٍ خَیْرٌ مِّنْ صَلٰوةٍ فِیْ شَکٍّ.

یقین کی حالت میں سونا شک کی حالت میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 January 23 ، 18:38
عون نقوی