نہج البلاغہ حکمت۱۰۲۔۱۰۳
(۱۰۲)
یَاْتِیْ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَّا یُقَرَّبُ فِیْهِ اِلَّا الْمَاحِلُ، وَ لَا یُظَرَّفُ فِیْهِ اِلَّا الْفَاجِرُ، وَ لَا یُضَعَّفُ فِیْهِ اِلَّا الْمُنْصِفُ، یَعُدُّوْنَ الصَّدَقَةَ فِیْهِ غُرْمًا، وَ صِلَةَ الرَّحِمُ مَنًّا، وَ الْعِبَادَةَ اسْتِطَالَةً عَلَى النَّاسِ، فَعِنْدَ ذٰلِکَ یَکُوْنُ السُّلْطَانُ بِمَشُوْرَةِ النِّسَآءِ، وَ اِمَارَةِ الصِّبْیَانِ، وَ تَدْبِیْرِ الْخِصْیَانِ۔
لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جس میں وہی بارگاہوں میں مقرب ہو گا جو لوگوں کے عیوب بیان کرنے والا ہو، اور وہی خوش مذاق سمجھا جائے گا جو فاسق و فاجر ہو، اور انصاف پسند کو کمزور و ناتواں سمجھا جائے گا، صدقہ کو لوگ خسارہ اور صلہ رحمی کو احسان سمجھیں گے، اور عبادت لوگوں پر تفوق جتلانے کیلئے ہو گی۔ ایسے زمانہ میں حکومت کا دارومدار عورتوں کے مشورے، نو خیز لڑکوں کی کار فرمائی اور خواجہ سراؤں کی تدبیر و رائے پر ہو گا۔
(۱۰۳)
وَ رُئِیَ عَلَیْهِ اِزَارٌ خَلَقٌ مَرْقُوْعٌ، فَقِیْلَ لَهٗ فِیْ ذٰلِکَ فَقَالَ:
آپؑ کے جسم پر ایک بوسیدہ اور پیوند دار جامہ دیکھا گیا تو آپؑ سے اس کے بارے میں کہا گیا۔ آپؑ نے فرمایا:
یَخْشَعُ لَهُ الْقَلْبُ، وَ تَذِلُّ بِهِ النَّفْسُ، وَ یَقْتَدِیْ بِهِ الْمُؤْمِنُوْنَ. اِنَّ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةَ عَدُوَّانِ مُتَفَاوِتَانِ، وَ سَبِیْلَانِ مُخْتَلِفَانِ، فَمَنْ اَحَبَّ الدُّنْیَا وَ تَوَلَّاهَا اَبْغَضَ الْاٰخِرَةَ وَ عَادَاهَا، وَ هُمَا بِمَنْزِلَةِ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ، وَ مَاشٍۭ بَیْنَهُمَا کُلَّمَا قَرُبَ مِنْ وَّاحِدٍۭ بَعُدَ مِنَ الْاٰخَرِ، وَ هُمَا بَعْدُ ضَرَّتَانِ۔
اس سے دل متواضع اور نفس رام ہوتا ہے اور مومن اس کی تاسی کرتے ہیں۔ دنیا اور آخرت آپس میں دو ناساز گار دشمن اور دو جدا جدا راستے ہیں۔ چنانچہ جو دنیا کو چاہے گا اور اس سے دل لگائے گا وہ آخرت سے بَیر اور دشمنی رکھے گا وہ دونوں بمنزلۂ مشرق و مغرب کے ہیں اور ان دونوں سمتوں کے درمیان چلنے والا جب بھی ایک سے قریب ہو گا تو دوسرے سے دور ہونا پڑے گا۔ پھر ان دونوں کا رشتہ ایسا ہی ہے جیسا دو سوتوں کا ہوتا ہے۔
balagha.org