بصیرت اخبار

۲۶۶ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «عون نقوی» ثبت شده است

(۱۱۴)

اِذَا اسْتَوْلَى الصَّلَاحُ عَلَى الزَّمَانِ وَاَهْلِهٖ، ثُمَّ اَسَآءَ رَجُلٌ الظَّنَّ بِرَجُلٍ لَّمْ تَظْهَرْ مِنْهُ خِزْیَةٌ، فَقَدْ ظَلَمَ! وَ اِذَا اسْتَوْلَى الْفَسَادُ عَلٰى الزَّمَانِ وَ اَهْلِهٖ، فَاَحْسَنَ رَجُلٌ الظَّنَّ بِرَجُلٍ، فَقَدْ غَرَّرَ.

جب دنیا اور اہل دنیا میں نیکی کا چلن ہو اور پھر کوئی شخص کسی ایسے شخص سے کہ جس سے رسوائی کی کوئی بات ظاہر نہیں ہوئی سوءِ ظن رکھے تو اس نے اس پر ظلم و زیادتی کی، اور جب دنیا واہل دنیا پر شر و فساد کا غلبہ ہو اور پھر کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے حسنِ ظن رکھے تو اس نے (خود ہی اپنے کو) خطرے میں ڈالا۔

(۱۱۵)

کَیْفَ تَجِدُکَ یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ؟ فَقَالَ ؑ:

امیر المومنین علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ آپؑ کا حال کیسا ہے؟ تو آپؑ نے فرمایا کہ:

کَیْفَ یَکُوْنُ حَالُ مَنْ یَّفْنٰى بِبَقَآئِهٖ، وَ یَسْقَمُ بِصِحَّتِهٖ، وَ یُؤْتٰى مِنْ مَّاْمَنِهٖ۔

اس کا حال کیا ہو گا جسے زندگی موت کی طرف لئے جا رہی ہو، اور جس کی صحت بیماری کا پیش خیمہ ہو، اور جسے اپنی پناہ گاہ سے گرفت میں لے لیا جائے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 January 23 ، 18:58
عون نقوی

(۱۱۲)

مَنْ اَحَبَّنَاۤ اَهْلَ الْبَیْتِ فَلْیَسْتَعِدَّ لِلْفَقْرِ جِلْبَابًا.

جو ہم اہل بیتؑ سے محبت کرے اسے جامہ فقر پہننے کیلئے آمادہ رہنا چاہیے۔

وَ قَدْ یُؤَوَّلُ ذٰلِکَ عَلٰى مَعْنًى اٰخَرَ لَیْسَ هٰذَا مَوْضِعُ ذِکْرِهٖ.

سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ: حضرتؑ کے اس ارشاد کے ایک اور معنی بھی کئے گئے ہیں جس کے ذکر کا یہ محل نہیں ہے۔


شاید اس روایت کے دوسرے معنی یہ ہوں کہ جو ہمیں دوست رکھتا ہے اسے دنیا طلبی کیلئے تگ و دو نہ کرنا چاہیے، خواہ اس کے نتیجہ میں اسے فقر و افلاس سے دو چار ہونا پڑے، بلکہ قناعت اختیار کرتے ہوئے دنیا طلبی سے الگ رہنا چاہیے۔

(۱۱۳)

لَا مَالَ اَعْوَدُ مِنَ الْعَقْلِ، وَ لَا وَحْدَةَ اَوْحَشُ مِنَ الْعُجْبِ، وَ لَا عَقْلَ کَالتَّدْبِیْرِ، وَ لَا کَرَمَ کَالتَّقْوٰى، وَ لَا قَرِیْنَ کَحُسْنِ الْخُلْقِ، وَ لَا مِیرَاثَ کَالْاَدَبِ، وَ لَا قَآئِدَ کَالتَّوْفِیْقِ، وَ لَا تِجَارَةَ کَالْعَمَلِ الصَّالِحِ، وَ لَا رِبْحَ کَالثَّوَابِ، وَ لَا وَرَعَ کَالْوُقُوْفِ عِنْدَ الشُّبْهَةِ، وَ لَا زُهْدَ کَالزُّهْدِ فِی الْحَرَامِ، و لَا عِلْمَ کَالتَّفَکُّرِ، وَ لَا عِبَادَةَ کَاَدَاۤءِ الْفَرآئِضِ، وَ لَاۤ اِیْمَانَ کَالْحَیَآءِ وَ الصَّبْرِ، وَ لَا حَسَبَ کَالتَّوَاضُعِ، وَ لَا شَرَفَ کَالْعِلْمِ، وَ لَا عِزَّ کَالْحِلْمِ، وَ لَا مُظَاهَرَةَ اَوْثَقُ مِنَ الْمُشَاوَرَةِ.

عقل سے بڑھ کر کوئی مال سود مند اور خود بینی سے بڑھ کر کوئی تنہائی وحشت ناک نہیں، اور تدبیر سے بڑھ کر کوئی عقل کی بات نہیں، اور کوئی بزرگی تقویٰ کے مثل نہیں، اور خوش خلقی سے بہتر کوئی ساتھی اور ادب کے مانند کوئی میراث نہیں، اور توفیق کے مانند کوئی پیشرو اور اعمال خیر سے بڑھ کر کوئی تجارت نہیں، اور ثواب کا ایسا کوئی نفع نہیں، اور کوئی پرہیز گاری شبہات میں توقف سے بڑھ کر نہیں، اور حرام کی طرف بے رغبتی سے بڑھ کر کوئی زہد اور تفکر و پیش بینی سے بڑھ کر کوئی علم نہیں، اور ادائے فرائض کے مانند کوئی عبادت اور حیاء و صبر سے بڑھ کر کوئی ایمان نہیں، اور فروتنی سے بڑھ کر کوئی سرفرازی اور علم کے مانند کوئی بزرگی و شرافت نہیں، حلم کے مانند کوئی عزت اور مشورہ سے مضبوط کوئی پشت پناہ نہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 January 23 ، 18:56
عون نقوی

(۱۱۰)

لَا یُقِیْمُ اَمْرَ اللهِ سُبْحَانَهٗ اِلَّا مَنْ لَّا یُصَانِعُ، وَ لَا یُضَارِعُ، وَ لَا یَتَّبِعُ الْمَطَامِـعَ.

حکم خدا کا نفاذ وہی کر سکتا ہے جو (حق کے معاملہ میں) نرمی نہ برتے، عجز و کمزوری کا اظہار نہ کرے اور حرص و طمع کے پیچھے نہ لگ جائے۔

(۱۱۱)

وَ قَدْ تُوُفِّیَ سَهْلُ بْنُ حُنَیْفٍ الْاَنْصَارِیُّ بِالْکُوْفَةِ بَعْدَ مَرْجِعِهٖ مَعَهٗ مِنْ صِفِّیْنَ، وَ کَانَ مِنْ اَحَبِّ النَّاسِ اِلَیْهِ:

سہل ابن حنیف انصاری حضرتؑ کو سب لوگوں میں زیادہ عزیز تھے۔ یہ جب آپؑ کے ہمراہ صفین سے پلٹ کر کوفہ پہنچے تو انتقال فرما گئے جس پر حضرتؑ نے فرمایا:

لَوْ اَحَبَّنِیْ جَبَلٌ لَّتَهَافَتَ.

اگر پہاڑ بھی مجھے دوست رکھے گا تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہو جائے گا۔

مَعْنٰى ذٰلِکَ اَنَّ الْمِحْنَةَ تَغْلُظُ عَلَیْهِ، فَتُسْرِعُ الْمَصَآئِبُ اِلَیْهِ-، وَ لَا یُفْعَلُ ذٰلِکَ اِلَّا بِالْاَتْقِیَآءِ الْاَبْرَارِ، وَ الْمُصْطَفَیْنَ الْاَخْیَارِ.

سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: چونکہ اس کی آزمائش کڑی اور سخت ہوتی ہے، اس لئے مصیبتیں اس کی طرف لپک کر بڑھتی ہیں اور ایسی آزمائش انہی کی ہوتی ہے جو پرہیز گار، نیکو کار، منتخب و برگزیدہ ہوتے ہیں اور ایسا ہی آپؑ کا دوسرا ارشاد ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 January 23 ، 19:02
عون نقوی

(۱۰۸)

لَقَدْ عُلِّقَ بِنِیَاطِ هٰذَا الْاِنْسَانِ بَضْعَةٌ هِیَ اَعْجَبُ مَا فِیْهِ وَ ذٰلِکَ الْقَلْبُ، وَ لَهٗ مَوَادُّ مِنَ الْحِکْمَةِ وَ اَضْدَادٌ مِّنْ خِلَافِهَا، فَاِنْ سَنَحَ لَهُ الرَّجَآءُ اَذَلَّهُ الطَّمَعُ، وَ اِنْ هَاجَ بِهِ الطَّمَعُ اَهْلَکَهُ الْحِرْصُ، وَ اِنْ مَّلَکَهُ الْیَاْسُ قَتَلَهُ الْاَسَفُ، وَ اِنْ عَرَضَ لَهُ الْغَضَبُ اشْتَدَّ بِهِ الْغَیْظُ، وَ اِنْ اَسْعَدَهُ الرِّضٰى نَسِیَ التَّحَفُّظَ، وَ اِنْ غَالَهُ الْخَوْفُ شَغَلَهُ الْحَذَرُ، وَ اِنِ اتَّسَعَ لَهُ الْاَمْنُ اسْتَلَبَتْهُ الْغِرَّةُ، وَ اِنْ اَفَادَ مَالًا اَطْغَاهُ الْغِنٰى، وَ اِنْ اَصَابَتْهُ مُصِیْبَةٌ فَضَحَهُ الْجَزَعُ، وَ اِنْ عَضَّتْهُ الْفَاقَةُ شَغَلَهُ الْبَلَآءُ، وَ اِنْ جَهَدَهُ الْجُوْعُ قَعَدَ بِهِ الضَّعْفُ، وَ اِنْ اَفْرَطَ بِهِ الشِّبَعُ کَظَّتْهُ الْبِطْنَةُ،

اس انسان سے بھی زیادہ عجیب وہ گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جو اس کی ایک رگ کے ساتھ آویزاں کر دیا گیا ہے اور وہ دل ہے جس میں حکمت و دانائی کے ذخیرے ہیں اور اس کے برخلاف بھی صفتیں پائی جاتی ہیں۔ اگر اسے امید کی جھلک نظر آتی ہے تو طمع اسے ذلت میں مبتلا کرتی ہے، اور اگر طمع ابھرتی ہے تو اسے حرص تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ اگر ناامیدی اس پر چھا جاتی ہے تو حسرت و اندوہ اس کیلئے جان لیوا بن جاتے ہیں، اور اگر غضب اس پر طاری ہوتا ہے تو غم و غصہ شدت اختیار کر لیتا ہے، اور اگر خوش و خوشنود ہوتا ہے تو حفظ ما تقدم کو بھول جاتاہے، اور اگر اچانک اس پر خوف طاری ہوتا ہے تو فکر و اندیشہ دوسری قسم کے تصورات سے اسے روک دیتا ہے۔ اگر امن و امان کا دور دورہ ہوتا ہے تو غفلت اس پر قبضہ کر لیتی ہے، اور اگر مال و دولت حاصل کر لیتا ہے تو دولتمندی اسے سرکش بنا دیتی ہے، اور اگر اس پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو بے تابی و بے قراری اسے رسوا کر دیتی ہے، اور اگر فقر و فاقہ کی تکلیف میں مبتلا ہو تو مصیبت و ابتلا اسے جکڑ لیتی ہے، اور اگر بھوک اس پر غلبہ کرتی ہے تو ناتوانی اسے اٹھنے نہیں دیتی، اور اگر شکم پُری بڑھ جاتی ہے تو یہ شکم پُری اس کیلئے کرب و اذیت کا باعث ہوتی ہے۔

فَکُلُّ تَقْصِیْرٍۭ بِهٖ مُضِرٌّ، وَ کُلُّ اِفْرَاطٍ لَّهٗ مُفْسِدٌ.

ہر کوتاہی اس کیلئے نقصان رساں اور حد سے زیادتی اس کیلئے تباہ کن ہوتی ہے۔

(۱۰۹)

نَحْنُ النُّمْرُقَةُ الْوُسْطٰى، بِهَا یَلْحَقُ التَّالِیْ، وَ اِلَیْهَا یَرْجِـعُ الْغَالِیْ.

ہم (اہلبیتؑ) ہی وہ نقطۂ اعتدال ہیں کہ پیچھے رہ جانے والے کو اس سے آ کر ملنا ہے اور آگے بڑھ جانے والے کو اس کی طرف پلٹ کر آنا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 January 23 ، 18:59
عون نقوی

(۱۰۶)

لَا یَتْرُکُ النَّاسُ شَیْئًا مِّنْ اَمْرِ دِیْنِهِمْ لاِسْتِصْلَاحِ دُنْیَاهُمْ، اِلَّا فَتَحَ اللهُ عَلَیْهِمْ مَا هُوَ اَضَرُّ مِنْهُ.

جو لوگ اپنی دنیا سنوارنے کیلئے دین سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں تو خدا اس دنیوی فائدہ سے کہیں زیادہ ان کیلئے نقصان کی صورتیں پیدا کر دیتا ہے۔

(۱۰۷)

رُبَّ عَالِمٍ قَدْ قَتَلَهٗ جَهْلُهٗ، وَ عِلْمُهٗ مَعَهٗ لَا یَنْفَعُهٗ.

بہت سے پڑھے لکھوں کو (دین سے) بے خبری تباہ کر دیتی ہے اور جو علم ان کے پاس ہوتا ہے انہیں ذرا بھی فائدہ نہیں پہنچاتا۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 January 23 ، 18:57
عون نقوی