بصیرت اخبار

۲۶۶ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «عون نقوی» ثبت شده است

(۱۲۴)

غَیْرَةُ الْمَرْاَةِ کُفْرٌ، وَ غَیْرَةُ الرَّجُلِ اِیْمَانٌ.

عورت کا غیرت کرنا کفر ہے اور مرد کا غیور ہونا ایمان ہے۔


مطلب یہ ہے کہ جب مرد کو چار عورتیں تک کر نے کی اجازت ہے تو عورت کا سوت گوارا نہ کرنا حلال خدا سے ناگواری کا اظہار اور ایک طرح سے حلال کو حرام سمجھنا ہے اور یہ کفر کے ہم پایہ ہے، اور چونکہ عورت کیلئے متعدد شوہر کرنا جائز نہیں ہے، اس لئے مرد کا اشتراک گوارا نہ کرنا اس کی غیرت کا تقاضا اور حرام خدا کو حرام سمجھنا ہے اور یہ ایمان کے مترادف ہے۔

مرد و عورت میں یہ تفریق اس لئے ہے تاکہ تولید و بقائے نسل انسانی میں کوئی روک پیدا نہ ہو، کیونکہ یہ مقصد اسی صورت میں بدرجۂ اَتم حاصل ہو سکتا ہے جب مرد کیلئے تعدد اَزواج کی اجازت ہو، کیونکہ ایک مرد سے ایک ہی زمانہ میں متعدد اولادیں ہو سکتی ہیں اور عورت اس سے معذور و قاصر ہے کہ وہ متعدد مردوں کے عقد میں آنے سے متعدد اولادیں پیدا کر سکے۔ کیونکہ زمانۂ حمل میں دوبارہ حمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اس پر ایسے حالات بھی طاری ہوتے رہتے ہیں کہ مرد کو اس سے کنارہ کشی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ چنانچہ حیض اور رضاعت کا زمانہ ایسا ہی ہوتا ہے جس سے تولید کا سلسلہ رک جاتا ہے اور اگر متعدد ازواج ہوں گی تو سلسلۂ تولید جاری رہ سکتا ہے، کیونکہ متعدد بیویوں میں سے کوئی نہ کوئی بیوی ان عوارض سے خالی ہوگی جس سے نسل انسانی کی ترقی کا مقصد حاصل ہوتا رہے گا، کیونکہ مرد کیلئے ایسے موانع پیدا نہیں ہوتے کہ جو سلسلۂ تولید میں روک بن سکیں۔

اس لئے خدا وند عالم نے مردوں کیلئے تعدد ازواج کو جائز قرار دیا ہے اور عورتوں کیلئے یہ صورت جائز نہیں رکھی کہ وہ بوقت واحد متعدد مردوں کے عقد میں آئیں۔ کیونکہ ایک عورت کا کئی شوہر کرنا غیرت و شرافت کے بھی منافی ہے اور اس کے علاوہ ایسی صورت میں نسب کی بھی تمیز نہ ہو سکے گی کہ کون کس کی صلب سے ہے۔

چنانچہ امام رضا علیہ السلام سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ: کیا وجہ ہے کہ مرد ایک وقت میں چار بیویاں تک کر سکتا ہے اور عورت ایک وقت میں ایک مرد سے زیادہ شوہر نہیں کر سکتی؟

حضرتؑ نے فرمایا کہ: مرد جب متعدد عورتوں سے نکاح کرے گا تو اولاد بہر صورت اسی کی طرف منسوب ہو گی اور اگر عورت کے دو یا دو سے زیادہ شوہر ہوں گے تو یہ معلوم نہ ہو سکے گا کہ کون کس کی اولاد اور کس شوہر سے ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں نسب مشتبہ ہو کر رہ جائے گا اور صحیح باپ کی تعیین نہ ہو سکے گی اور یہ امر اس مولود کے مفاد کے بھی خلاف ہوگا۔ کیونکہ کوئی بھی بحیثیت باپ کے اس کی تربیت کی طرف متوجہ نہ ہو گا جس سے وہ اخلاق و آداب سے بے بہرہ اور تعلیم و تربیت سے محروم ہو کر رہ جائے گا۔

(۱۲۵)

لَاَنْسُبَنَّ الْاِسْلَامَ نِسْبَةً لَّمْ یَنْسُبْهَا اَحَدٌ قَبْلِیْ: الْاِسْلَامُ هُوَ التَّسْلِیْمُ، وَ التَّسْلِیْمُ هُوَ الْیَقِیْنُ، وَ الْیَقِیْنُ هُوَ التَّصْدِیْقُ، وَ التَّصْدِیْقُ هُوَ الْاِقْرَارُ، وَ الْاِقْرَارُ هُوَ الْاَدَآءُ، وَ الْاَدَآءُ هَوَ الْعَمَلُ.

میں ’’اسلام‘‘ کی ایسی صحیح تعریف بیان کرتا ہوں جو مجھ سے پہلے کسی نے بیان نہیں کی: ’’اسلام‘‘ سر تسلیم خم کرنا ہے، اور سر تسلیم جھکانا یقین ہے، اور یقین تصدیق ہے، اور تصدیق اعتراف ہے، اور اعتراف فرض کی بجا آوری ہے اور فرض کی بجا آوری عمل ہے۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 January 23 ، 19:12
عون نقوی

(۱۲۲)

وَ تَبِعَ جَنَازَةً فَسَمِعَ رَجُلًا یَّضْحَکُ، فَقَالَ ؑ:

حضرتؑ ایک جنازہ کے پیچھے جار ہے تھے کہ ایک شخص کے ہنسنے کی آواز سنی جس پر آپؑ نے فرمایا:

کَاَنَّ الْمَوْتَ فِیْهَا عَلٰى غَیْرِنَا کُتِبَ، وَ کَاَنَّ الْحَقَّ فِیْهَا عَلٰى غَیْرِنَا وَجَبَ، وَ کَاَنَّ الَّذِیْ نَرٰى مِنَ الْاَمْوَاتِ سَفْرٌ عَمَّا قَلِیْلٍ اِلَیْنَا رَاجِعُوْنَ، نُبَوِّئُهُمْ اَجْدَاثَهُمْ، وَ نَاْکُلُ تُرَاثَهُمْ، کَاَنَّا مُخَلَّدُوْنَ بَعْدَھُمْ، ثُمَّ قَدْ نَسِیْنَا کُلَّ وَاعِظٍ وَ وَاعِظَةٍ، وَ رُمِیْنَا بِکُلِّ جَآئِحَةٍ!.

گویا اس دنیا میں موت ہمارے علاوہ دوسروں کیلئے لکھی گئی ہے، اور گویا یہ حق (موت) دوسروں ہی پر لازم ہے، اور گویا جن مرنے والوں کو ہم دیکھتے ہیں وہ مسافر ہیں جو عنقریب ہماری طرف پلٹ آئیں گے۔ ادھر ہم انہیں قبروں میں اتارتے ہیں ادھر ان کا ترکہ کھانے لگتے ہیں۔ گویا ان کے بعد ہم ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ پھر یہ کہ ہم نے ہر پند و نصیحت کرنے والے کو وہ مرد ہو یا عورت، بھلا دیا ہے اور ہر آفت کا نشانہ بن گئے ہیں۔

(۱۲۳)

طُوْبٰى لِمَنْ ذَلَّ فِیْ نَفْسِهٖ، وَ طَابَ کَسْبُهٗ، وَ صَلُحَتْ سَرِیْرَتُهٗ، وَ حَسُنَتْ خَلِیْقَتُهٗ،وَ اَنْفَقَ الْفَضْلَ مِنْ مَّالِهٖ، وَ اَمْسَکَ الْفَضْلَ مِنْ لِّسَانِهٖ، وَ عَزَلَ عَنِ النَّاسِ شَرَّهٗ، وَ وَسِعَتْهُ السُّنَّةُ، وَ لَمْ یُنْسَبْ اِلَى الْبِدْعَةِ.

خوشا نصیب اس کے کہ جس نے اپنے مقام پر فروتنی اختیار کی، جس کی کمائی پاک و پاکیزہ، نیت نیک اور خصلت و عادت پسندیدہ رہی، جس نے اپنی ضرورت سے بچا ہوا مال خدا کی راہ میں صرف کیا، بے کار باتوں سے اپنی زبان کو روک لیا، مردم آزاری سے کنارہ کش رہا، سنت اسے ناگوار نہ ہوئی اور بدعت کی طرف منسوب نہ ہوا۔

اَقُوْلُ: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّنْسُبُ هٰذَا الْکَلَامِ اِلٰى رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَکَذٰلِکَ الَّذِیْ قَبْلَہٗ.

سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ: کچھ لوگوں نے اس کلام کو اور اس سے پہلے کلام کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کیا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 January 23 ، 19:09
عون نقوی

(۱۲۰)

عَنْ قُرَیْشٍ، فَقَالَ:

حضرتؑ سے قریش کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا کہ:

اَمَّا بَنُوْ مَخْزُوْمٍ فَرَیْحَانَةُ قُرَیْشٍ، تُحِبُّ حَدِیْثَ رِجَالِهِمْ، وَ النِّکَاحَ فِیْ نِسَآئِهِمْ. وَ اَمَّا بَنُوْ عَبْدِ شَمْسٍ فَاَبْعَدُهَا رَاْیًا، وَ اَمْنَعُهَا لِمَا وَرَآءَ ظُهُوْرِهَا. وَ اَمَّا نَحْنُ فَاَبْذَلُ لِمَا فِیْۤ اَیْدِیْنَا، وَ اَسْمَحُ عِنْدَ الْمَوْتِ بِنُفُوْسِنَا. وَ هُمْ اَکْثَرُ وَ اَمْکَرُ وَ اَنْکَرُ، وَ نَحْنُ اَفْصَحُ وَ اَنْصَحُ وَ اَصْبَحُ.

(قبیلۂ)بنی مخزوم قریش کا مہکتا ہوا پھول ہیں، ان کے مردوں سے گفتگو اور ان کی عورتوں سے شادی پسندیدہ ہے، اور بنی عبد شمس دور اندیش اور پیٹھ پیچھے کی اوجھل چیزوں کی پوری روک تھام کرنے والے ہیں، لیکن ہم (بنی ہاشم) تو جو ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے اسے صرف کر ڈالتے ہیں اور موت آنے پر جان دینے میں بڑے جوانمرد ہوتے ہیں، اور یہ (بنی عبد شمس) گنتی میں زیادہ، حیلہ باز اور بدصورت ہوتے ہیں، اور ہم خوش گفتار، خیر خواہ اور خوبصورت ہوتے ہیں۔

(۱۲۱)

شَتَّانَ مَا بَیْنَ عَمَلَیْنِ: عَمَلٍ تَذْهَبُ لَذَّتُهٗ وَ تَبْقٰى تَبِعَتُهٗ، وَ عَمَلٍ تَذْهَبُ مَؤٗنَتُهٗ وَ یَبْقٰۤى اَجْرُهٗ.

ان دونوں قسم کے عملوں میں کتنا فرق ہے: ایک وہ عمل جس کی لذت مٹ جائے لیکن اس کا وبال رہ جائے، اور ایک وہ جس کی سختی ختم ہو جائے لیکن اس کا اجر و ثواب باقی رہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 January 23 ، 19:04
عون نقوی

(۱۱۸)

اِضَاعَةُ الْفُرْصَةِ غُصَّةٌ.

موقع کو ہاتھ سے جانے دینا رنج و اندوہ کا باعث ہوتا ہے۔

(۱۱۹)

مَثَلُ الدُّنْیَا کَمَثَلِ الْحَیَّةِ، لَیِّنٌ مَّسُّهَا، وَ السَّمُّ النَّاقِعُ فِیْ جَوْفِهَا، یَهْوِیْۤ اِلَیْهَا الْغِرُّ الْجَاهِلُ، وَ یَحْذَرُهَا ذُو اللُّبِّ الْعَاقِلُ!.

دنیا کی مثال سانپ کی سی ہے، جو چھونے میں نرم معلوم ہوتا ہے، مگر اس کے اندر زہر ہلاہل بھرا ہوتا ہے، فریب خوردہ جاہل اس کی طرف کھینچتا ہے اور ہوشمند و دانا اس سے بچ کر رہتا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 January 23 ، 19:02
عون نقوی

(۱۱۶)

کَمْ مِّنْ مُّسْتَدْرَجٍۭ بِالْاِحْسَانِ اِلَیْهِ، وَ مَغْرُوْرٍ بِالسَّتْرِ عَلَیْهِ، وَ مَفْتُوْنٍ بِحُسْنِ الْقَوْلِ فِیْهِ! وَ مَا ابْتَلَى اللهُ اَحَدًۢا بِمِثْلِ الْاِمْلَآءِ لَهٗ.

کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں نعمتیں دے کر رفتہ رفتہ عذاب کا مستحق بنایا جاتا ہے، اور کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی پردہ پوشی سے دھوکا کھائے ہوئے ہیں اور اپنے بارے میں اچھے الفاظ سن کر فریب میں پڑ گئے ہیں، اور مہلت دینے سے زیادہ اللہ کی جانب سے کوئی بڑی آزمائش نہیں ہے۔

(۱۱۷)

هَلَکَ فِیَّ رَجُلَانِ: مُحِبٌّ غَالٍ، وَ مُبْغِضٌ قَالٍ!.

میرے بارے میں دو قسم کے لوگ تباہ و برباد ہوئے: ایک وہ چاہنے والا جو حد سے بڑھ جائے، اور ایک وہ دشمنی رکھنے والا جو عداوت رکھے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 January 23 ، 19:00
عون نقوی