بصیرت اخبار

۹۱ مطلب با موضوع «نہج البلاغہ :: کلمات قصار» ثبت شده است

(۱۰۰)

وَ مَدَحَهٗ قَوْمٌ فِیْ وَجْهِهٖ:

کچھ لوگوں نے آپؑ کے روبرو آپؑ کی مدح و ستائش کی تو فرمایا:

اَللّٰهُمَّ اِنَّکَ اَعْلَمُ بِیْ مِنْ نَّفْسِیْ، وَ اَنَا اَعْلَمُ بِنَفْسِیْ مِنْهُمْ، اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنَا خَیْرًا مِّمَّا یَظُنُّوْنَ، وَ اغْفِرْ لَنَا مَا لَا یَعْلَمُوْنَ.

اے اللہ! تو مجھے مجھ سے بھی زیادہ جانتا ہے اور ان لوگوں سے زیادہ اپنے نفس کو میں پہچانتا ہوں۔ اے خدا! جو ان لوگوں کا خیال ہے ہمیں اس سے بہتر قرار دے اور ان (لغزشوں) کو بخش دے جن کا انہیں علم نہیں۔

(۱۰۱)

لَا یَسْتَقِیْمُ قَضَآءُ الْحَوَآئِجِ اِلَّا بِثَلَاثٍ: بِاسْتِصْغَارِهَا لِتَعْظُمَ، وَ بِاسْتِکْتَامِهَا لِتَظْهَرَ، وَ بِتَعْجِیْلِهَا لِتَهْنُؤَ.

حاجت روائی تین چیزوں کے بغیر پائیدار نہیں ہوتی: اسے چھوٹا سمجھا جائے تاکہ وہ بڑی قرار پائے، اسے چھپایا جائے تاکہ وہ خود بخود ظاہر ہو اور اس میں جلدی کی جائے تاکہ وہ خوشگوار ہو۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 January 23 ، 18:48
عون نقوی

(۹۸)

اِعْقِلُوا الْخَبَرَ اِذَا سَمِعْتُمُوْهُ عَقْلَ رِعَایَةٍ لَّا عَقْلَ رِوَایَةٍ، فَاِنَّ رُوَاةَ الْعِلْمِ کَثِیْرٌ، وَ رُعَاتَهٗ قَلِیْلٌ.

جب کوئی حدیث سنو تو اسے عقل کے معیار پر پرکھ لو، صرف نقل الفاظ پر بس نہ کرو۔ کیونکہ علم کے نقل کرنے والے تو بہت ہیں اور اس میں غور و فکر کرنے والے کم ہیں۔

(۹۹)

رَجُلًا یَّقُوْلُ: ﴿اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ﴾، فَقَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ:

ایک شخص کو ﴿انا لله و انا الیه راجعون﴾ (ہم اللہ کے ہیں اور ہمیں اللہ کی طرف پلٹنا ہے ) کہتے سنا تو فرمایا کہ:

اِنَّ قَوْلَنَا: ﴿اِنَّا لِلّٰهِ﴾ اِقْرَارٌ عَلٰۤى اَنْفُسِنَا بِالْمِلْکِ، وَ قَوْلَنَا: ﴿وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ﴾ اِقْرَارٌ عَلٰۤى اَنْفُسِنَا بِالْهُلْکِ.

ہمارا یہ کہنا کہ ’’ہم اللہ کے ہیں‘‘ اس کی مِلک ہونے کا اعتراف ہے اور یہ کہنا کہ ’’ہمیں اسی کی طرف پلٹنا ہے‘‘، یہ اپنے لئے فنا کا اقرار ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 January 23 ، 18:46
عون نقوی

(۹۶)

اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِالْاَنْۢبِیَآءِ اَعْلَمُهُمْ بِمَا جَآؤُوْا بِهٖ.

انبیاء علیہم السلام سے زیادہ خصوصیت ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے کہ جو ان کی لائی ہوئی چیزوں کا زیادہ علم رکھتے ہوں۔

ثُمَّ تَلَا:

پھر آپؑ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:

﴿اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰهِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ وَ هٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ؕ ﴾.

’’ابراہیمؑ سے زیادہ خصوصیت ان لوگوں کو تھی جو ان کے فرمانبردار تھے اور اب اس نبیؐ اور ایمان لانے والوں کو خصوصیت ہے‘‘ ۔

ثُمَّ قَالَ:

پھر فرمایا:

اِنَّ وَلِیَّ مُحَمَّدٍ ﷺ مَنْ اَطَاعَ اللّٰہَ وَ اِنْ بَعُدَتْ لُحْمَتُہٗ، وَ اِنَّ عَدُوَّ مُحَمَّدٍ ﷺ مَنْ عَصَی اللّٰہَ وَ اِنْ قَرُبَتْ قَرَابَتُہٗ.

حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا دوست وہ ہے جو اللہ کی اطاعت کرے، اگرچہ ان سے کوئی قرابت نہ رکھتا ہو، اور ان کا دشمن وہ ہے جو اللہ کی نافرمانی کرے، اگرچہ نزدیکی قرابت رکھتا ہو۔

(۹۷)

رَجُلًا مِّنَ الْحَرُوْرِیَّةِ یَتَهَجَّدُ وَ یَقْرَاُ فَقَالَ:

ایک خارجی کے متعلق آپؑ نے سنا کہ وہ نماز شب پڑھتا ہے اور قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو آپؑ نے فرمایا:

نَوْمٌ عَلٰى یَقِیْنٍ خَیْرٌ مِّنْ صَلٰوةٍ فِیْ شَکٍّ.

یقین کی حالت میں سونا شک کی حالت میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 January 23 ، 18:38
عون نقوی

(۹۴)

عَنِ الْخَیْرِ: مَا هُوَ؟ فَقَالَ:

آپؑ سے دریافت کیا گیا کہ نیکی کیا چیز ہے؟ تو آپؑ نے فرمایا کہ:

لَیْسَ الْخَیْرُ اَنْ یَّکْثُرَ مَالُکَ وَ وَلَدُکَ، وَ لٰکِنَّ الْخَیْرَ اَنْ یَّکْثُرَ عِلْمُکَ، وَ اَنْ یَّعْظُمَ حِلْمُکَ، وَ اَنْ تُبَاهِیَ النَّاسَ بِعِبَادَةِ رَبِّکَ، فَاِنْ اَحْسَنْتَ حَمِدْتَّ اللهَ، وَ اِنْ اَسَاْتَ اسْتَغْفَرْتَ اللهَ. وَ لَا خَیْرَ فِی الدُّنْیَا اِلَّا لِرَجُلَیْنِ: رَجُلٌ اَذْنَبَ ذُنُوْبًا فَهُوَ یَتَدَارَکُهَا بِالتَّوْبَةِ، وَ رَجُلٌ یُّسَارِعُ فِی الْخَیْرَاتِ.

نیکی یہ نہیں کہ تمہارے مال و اولاد میں فراوانی ہو جائے، بلکہ خوبی یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ اور حلم بڑا ہو، اور تم اپنے پروردگار کی عبادت پر ناز کر سکو۔ اب اگر اچھا کام کرو تو اللہ کا شکر بجا لاؤ اور اگر کسی برائی کا ارتکاب کرو تو توبہ و استغفار کرو۔ اور دنیا میں صرف دو شخصوں کیلئے بھلائی ہے: ایک وہ جو گناہ کرے تو توبہ سے اس کی تلافی کرے، اور دوسرا وہ جو نیک کاموں میں تیز گام ہو۔

(۹۵)

لَا یَقِلُّ عَمَلٌ مَّعَ التَّقْوٰى، وَ کَیْفَ یَقِلُّ مَا یُتَقَبَّلُ؟.

جو عمل تقویٰ کے ساتھ انجام دیا جائے وہ تھوڑا نہیں سمجھا جا سکتا، اور مقبول ہونے والا عمل تھوڑا کیونکر ہو سکتا ہے؟


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 January 23 ، 14:18
عون نقوی

(۹۲)

اَوْضَعُ الْعِلْمِ مَا وَقَفَ عَلَى اللِّسَانِ، وَ اَرْفَعُهٗ مَا ظَهَرَ فِی الْجَوَارِحِ وَ الْاَرْکَانِ.

وہ علم بہت بے قدر و قیمت ہے جو زبان تک رہ جائے، اور وہ علم بہت بلند مرتبہ ہے جو اعضا و جوارح سے نمودار ہو۔

(۹۳)

لَا یَقُولَنَّ اَحَدُکُمْ: اَللّٰهُمَّ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْفِتْنَةِ، لِاَنَّهٗ لَیْسَ اَحَدٌ اِلَّا وَ هُوَ مُشْتَمِلٌ عَلٰى فِتْنَةٍ، وَ لٰکِنْ مَّنِ اسْتَعَاذَ فَلْیَسْتَعِذْ مِنْ مُّضِلَّاتِ الْفِتَنِ، فَاِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ یَقُوْلُ: ﴿وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَاۤ اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَةٌ ۙ ﴾، وَ مَعْنٰى ذٰلِکَ اَنَّهٗ یَخْتَبِرُهُمْ بِالْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ لِیَتَبَیَّنَ السَّاخِطُ لِرِزْقِهٖ وَ الرَّاضِیْ بِقِسْمِهٖ، وَ اِنْ کَانَ سُبْحَانَهٗۤ اَعْلَمَ بِهِمْ مِنْ اَنْفُسِهِمْ، وَ لٰکِنْ لِّتَظْهَرَ الْاَفْعَالُ الَّتِیْ بِهَا یُسْتَحَقُّ الثَّوَابُ وَ الْعِقَابُ، لِاَنَّ بَعْضَهُمْ یُحِبُّ الذُّکُوْرَ وَ یَکْرَهُ الْاِنَاثَ، وَ بَعْضَهُمْ یُحِبُّ تَثْمِیْرَ الْمَالِ وَ یَکْرَهُ انْثِلَامَ الْحَالِ.

تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ: ’’اے اللہ! میں تجھ سے فتنہ و آزمائش سے پناہ چاہتا ہوں‘‘۔ اس لئے کہ کوئی شخص ایسا نہیں جو فتنہ کی لپیٹ میں نہ ہو، بلکہ جو پناہ مانگے وہ گمراہ کرنے والے فتنوں سے پناہ مانگے، کیونکہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے: ’’اور اس بات کو جانے رہو کہ تمہارا مال اور اولاد فتنہ ہے‘‘۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ لوگوں کو مال اور اولاد کے ذریعے آزماتا ہے، تاکہ یہ ظاہر ہو جائے کہ کون اپنی روزی پر چیں بجبیں ہے اور کون اپنی قسمت پر شاکر ہے۔ اگرچہ اللہ سبحانہ ان کو اتنا جانتا ہے کہ وہ خود بھی اپنے کو اتنا نہیں جانتے، لیکن یہ آزمائش اس لئے ہے کہ وہ افعال سامنے آئیں جن سے ثواب و عذاب کا استحقاق پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ بعض اولاد نرینہ کو چاہتے ہیں اور لڑکیوں سے کبیدہ خاطر ہوتے ہیں اور بعض مال بڑھانے کو پسند کرتے ہیں اور بعض شکستہ حالی کو برا سمجھتے ہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 January 23 ، 14:15
عون نقوی