(۸۸)
وَ حَکٰى عَنْهُ اَبُوْ جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ الْبَاقِرِ عَلَیْهِمَا السَّلَامُ اَنَّهٗ قَالَ:
ابو جعفر محمد ابن علی الباقر علیہما السلام نے روایت کی ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:
کَانَ فِی الْاَرْضِ اَمَانَانِ مِنْ عَذَابِ اللهِ، وَ قَدْ رُفِـعَ اَحَدُهُمَا، فَدُوْنَکُمُ الْاٰخَرَ فَتَمَسَّکُوْا بِهٖ: اَمَّا الْاَمَانُ الَّذِیْ رُفِعَ فَهُوَ رَسُوْلُ اللهُ ﷺ. وَ اَمَّا الْاَمَانُ الْبَاقِیْ فَالْاِسْتِغْفَارُ، قَالَ اللهُ تَعَالٰی: ﴿وَ مَا کَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْ ؕ وَ مَا کَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ﴾.
دنیا میں عذاب خدا سے دو چیزیں باعث امان تھیں، ایک ان میں سے اٹھ گئی، مگر دوسری تمہارے پاس موجود ہے، لہٰذا اسے مضبوطی سے تھامے رہو۔ وہ امان جو اٹھالی گئی وہ رسول اللہ ﷺ تھے، اور وہ امان جو باقی ہے وہ توبہ و استغفار ہے، جیسا کہ اللہ سبحانہ نے فرمایا: ’’اللہ ان لوگوں پر عذاب نہیں کرے گا جب تک تم ان میں موجود ہو (اور) اللہ ان لوگوں پر عذاب نہیں اتارے گا، جب کہ یہ لوگ توبہ و استغفار کر رہے ہوں گے‘‘۔
قَالَ الرَّضِیُّ: وَ هٰذَا مِنْ مَّحَاسِنِ الْاِسْتِخْرَاجِ وَ لَطَآئِفِ الْاِسْتِنْۢبَاطِ.
سیّد رضیؒ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ: یہ بہترین استخراج اور عمدہ نکتہ آفرینی ہے۔
(۸۹)
مَنْ اَصْلَحَ مَا بَیْنَهٗ وَ بَیْنَ اللهِ اَصْلَحَ اللهُ مَا بَیْنَهٗ وَ بَیْنَ النَّاسِ، وَ مَنْ اَصْلَحَ اَمْرَ اٰخِرَتِهٖ اَصْلَحَ اللهُ لَهٗ اَمْرَ دُنْیَاهُ، وَ مَنْ کَانَ لَهٗ مِنْ نَّفْسِهٖ وَاعِظٌ کَانَ عَلَیْهِ مِنَ اللهِ حَافِظٌ.
جس نے اپنے اور اللہ کے مابین معاملات کو ٹھیک رکھا تو اللہ اس کے اور لوگوں کے معاملات سلجھائے رکھے گا، اور جس نے اپنی آخرت کو سنوار لیا تو خدا اس کی دنیا بھی سنوار دے گا، اور جو خود اپنے آپ کو وعظ و پند کر لے تو اللہ کی طرف سے اس کی حفاظت ہوتی رہے گی۔
https://balagha.org/