بصیرت اخبار

۹۱ مطلب با موضوع «نہج البلاغہ :: کلمات قصار» ثبت شده است

(۱۱۰)

لَا یُقِیْمُ اَمْرَ اللهِ سُبْحَانَهٗ اِلَّا مَنْ لَّا یُصَانِعُ، وَ لَا یُضَارِعُ، وَ لَا یَتَّبِعُ الْمَطَامِـعَ.

حکم خدا کا نفاذ وہی کر سکتا ہے جو (حق کے معاملہ میں) نرمی نہ برتے، عجز و کمزوری کا اظہار نہ کرے اور حرص و طمع کے پیچھے نہ لگ جائے۔

(۱۱۱)

وَ قَدْ تُوُفِّیَ سَهْلُ بْنُ حُنَیْفٍ الْاَنْصَارِیُّ بِالْکُوْفَةِ بَعْدَ مَرْجِعِهٖ مَعَهٗ مِنْ صِفِّیْنَ، وَ کَانَ مِنْ اَحَبِّ النَّاسِ اِلَیْهِ:

سہل ابن حنیف انصاری حضرتؑ کو سب لوگوں میں زیادہ عزیز تھے۔ یہ جب آپؑ کے ہمراہ صفین سے پلٹ کر کوفہ پہنچے تو انتقال فرما گئے جس پر حضرتؑ نے فرمایا:

لَوْ اَحَبَّنِیْ جَبَلٌ لَّتَهَافَتَ.

اگر پہاڑ بھی مجھے دوست رکھے گا تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہو جائے گا۔

مَعْنٰى ذٰلِکَ اَنَّ الْمِحْنَةَ تَغْلُظُ عَلَیْهِ، فَتُسْرِعُ الْمَصَآئِبُ اِلَیْهِ-، وَ لَا یُفْعَلُ ذٰلِکَ اِلَّا بِالْاَتْقِیَآءِ الْاَبْرَارِ، وَ الْمُصْطَفَیْنَ الْاَخْیَارِ.

سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: چونکہ اس کی آزمائش کڑی اور سخت ہوتی ہے، اس لئے مصیبتیں اس کی طرف لپک کر بڑھتی ہیں اور ایسی آزمائش انہی کی ہوتی ہے جو پرہیز گار، نیکو کار، منتخب و برگزیدہ ہوتے ہیں اور ایسا ہی آپؑ کا دوسرا ارشاد ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 January 23 ، 19:02
عون نقوی

(۱۰۸)

لَقَدْ عُلِّقَ بِنِیَاطِ هٰذَا الْاِنْسَانِ بَضْعَةٌ هِیَ اَعْجَبُ مَا فِیْهِ وَ ذٰلِکَ الْقَلْبُ، وَ لَهٗ مَوَادُّ مِنَ الْحِکْمَةِ وَ اَضْدَادٌ مِّنْ خِلَافِهَا، فَاِنْ سَنَحَ لَهُ الرَّجَآءُ اَذَلَّهُ الطَّمَعُ، وَ اِنْ هَاجَ بِهِ الطَّمَعُ اَهْلَکَهُ الْحِرْصُ، وَ اِنْ مَّلَکَهُ الْیَاْسُ قَتَلَهُ الْاَسَفُ، وَ اِنْ عَرَضَ لَهُ الْغَضَبُ اشْتَدَّ بِهِ الْغَیْظُ، وَ اِنْ اَسْعَدَهُ الرِّضٰى نَسِیَ التَّحَفُّظَ، وَ اِنْ غَالَهُ الْخَوْفُ شَغَلَهُ الْحَذَرُ، وَ اِنِ اتَّسَعَ لَهُ الْاَمْنُ اسْتَلَبَتْهُ الْغِرَّةُ، وَ اِنْ اَفَادَ مَالًا اَطْغَاهُ الْغِنٰى، وَ اِنْ اَصَابَتْهُ مُصِیْبَةٌ فَضَحَهُ الْجَزَعُ، وَ اِنْ عَضَّتْهُ الْفَاقَةُ شَغَلَهُ الْبَلَآءُ، وَ اِنْ جَهَدَهُ الْجُوْعُ قَعَدَ بِهِ الضَّعْفُ، وَ اِنْ اَفْرَطَ بِهِ الشِّبَعُ کَظَّتْهُ الْبِطْنَةُ،

اس انسان سے بھی زیادہ عجیب وہ گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جو اس کی ایک رگ کے ساتھ آویزاں کر دیا گیا ہے اور وہ دل ہے جس میں حکمت و دانائی کے ذخیرے ہیں اور اس کے برخلاف بھی صفتیں پائی جاتی ہیں۔ اگر اسے امید کی جھلک نظر آتی ہے تو طمع اسے ذلت میں مبتلا کرتی ہے، اور اگر طمع ابھرتی ہے تو اسے حرص تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ اگر ناامیدی اس پر چھا جاتی ہے تو حسرت و اندوہ اس کیلئے جان لیوا بن جاتے ہیں، اور اگر غضب اس پر طاری ہوتا ہے تو غم و غصہ شدت اختیار کر لیتا ہے، اور اگر خوش و خوشنود ہوتا ہے تو حفظ ما تقدم کو بھول جاتاہے، اور اگر اچانک اس پر خوف طاری ہوتا ہے تو فکر و اندیشہ دوسری قسم کے تصورات سے اسے روک دیتا ہے۔ اگر امن و امان کا دور دورہ ہوتا ہے تو غفلت اس پر قبضہ کر لیتی ہے، اور اگر مال و دولت حاصل کر لیتا ہے تو دولتمندی اسے سرکش بنا دیتی ہے، اور اگر اس پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو بے تابی و بے قراری اسے رسوا کر دیتی ہے، اور اگر فقر و فاقہ کی تکلیف میں مبتلا ہو تو مصیبت و ابتلا اسے جکڑ لیتی ہے، اور اگر بھوک اس پر غلبہ کرتی ہے تو ناتوانی اسے اٹھنے نہیں دیتی، اور اگر شکم پُری بڑھ جاتی ہے تو یہ شکم پُری اس کیلئے کرب و اذیت کا باعث ہوتی ہے۔

فَکُلُّ تَقْصِیْرٍۭ بِهٖ مُضِرٌّ، وَ کُلُّ اِفْرَاطٍ لَّهٗ مُفْسِدٌ.

ہر کوتاہی اس کیلئے نقصان رساں اور حد سے زیادتی اس کیلئے تباہ کن ہوتی ہے۔

(۱۰۹)

نَحْنُ النُّمْرُقَةُ الْوُسْطٰى، بِهَا یَلْحَقُ التَّالِیْ، وَ اِلَیْهَا یَرْجِـعُ الْغَالِیْ.

ہم (اہلبیتؑ) ہی وہ نقطۂ اعتدال ہیں کہ پیچھے رہ جانے والے کو اس سے آ کر ملنا ہے اور آگے بڑھ جانے والے کو اس کی طرف پلٹ کر آنا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 January 23 ، 18:59
عون نقوی

(۱۰۶)

لَا یَتْرُکُ النَّاسُ شَیْئًا مِّنْ اَمْرِ دِیْنِهِمْ لاِسْتِصْلَاحِ دُنْیَاهُمْ، اِلَّا فَتَحَ اللهُ عَلَیْهِمْ مَا هُوَ اَضَرُّ مِنْهُ.

جو لوگ اپنی دنیا سنوارنے کیلئے دین سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں تو خدا اس دنیوی فائدہ سے کہیں زیادہ ان کیلئے نقصان کی صورتیں پیدا کر دیتا ہے۔

(۱۰۷)

رُبَّ عَالِمٍ قَدْ قَتَلَهٗ جَهْلُهٗ، وَ عِلْمُهٗ مَعَهٗ لَا یَنْفَعُهٗ.

بہت سے پڑھے لکھوں کو (دین سے) بے خبری تباہ کر دیتی ہے اور جو علم ان کے پاس ہوتا ہے انہیں ذرا بھی فائدہ نہیں پہنچاتا۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 January 23 ، 18:57
عون نقوی

(۱۰۴)

وَ عَنْ نَّوْفٍ الْبِکَالِیِّ، قَالَ رَاَیْتُ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَیْهِ‏السَّلَامُ ذَاتَ لَیْلَةٍ، وَ قَدْ خَرَجَ مِنْ فِرَاشِهٖ، فَنَظَرَ فِی النُّجُوْمِ، فَقَالَ لِیْ:

نوف (ابن فضالہ) بکالی کہتے ہیں کہ: میں نے ایک شب امیر المومنین علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ فرش خواب سے اُٹھے ایک نظر ستاروں پر ڈالی اور پھر فرمایا:

یَا نَوْفُ! اَ رَاقِدٌ اَنْتَ اَمْ رَامِقٌ؟

اے نوف! سوتے ہو یا جاگ رہے ہو؟

فَقُلْتُ: بَلْ رَامِقٌ یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ، قَالَ:

میں نے کہا کہ: یا امیر المومنینؑ! جاگ رہا ہوں۔ فرمایا:

‏یَا نَوْفُ! طُوْبٰى لِلزَّاهِدِیْنَ فِی الدُّنْیَا، الرَّاغِبـِیْنَ فِی الْاٰخِرَةِ، اُولٰٓئِکَ قَوْمٌ اتَّخَذُوا الْاَرْضَ بِسَاطًا، وَ تُرَابَهَا فِرَاشًا، وَ مَآءَهَا طِیْبًا، وَ الْقُرْاٰنَ شِعَارًا، وَ الدُّعَآءَ دِثَارًا، ثُمَّ قَرَضُوا الدُّنْیَا قَرْضًا عَلٰى مِنْهَاجِ الْمَسِیْحِ.

اے نوف! خوشا نصیب ان کے کہ جنہوں نے دنیا میں زہد اختیار کیا اور ہمہ تن آخرت کی طرف متوجہ رہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے زمین کو فرش، مٹی کو بستر اور پانی کو شربت ِخوشگوار قرار دیا، قرآن کو سینے سے لگایا اور دُعا کو سپر بنایا، پھر حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح دامن جھاڑ کر دنیا سے الگ تھلگ ہو گئے۔

یَا نَوْفُ! اِنَّ دَاوٗدَ عَلَیْهِ السَّلَامُ قَامَ فِىْ مِثْلِ هٰذِهِ السَّاعَةِ مِنَ اللَّیْلِ فَقَالَ: اِنَّهَا سَاعَةٌ لَا یَدْعُوْ فِیْهَا عَبْدٌ اِلَّا اسْتُجِیْبَ لَهٗ، اِلَّاۤ اَنْ یَّکُوْنَ عَشَّارًا، اَوْ عَرِیْفًا، اَوْ شُرْطِیًّا، اَوْ صَاحِبَ عَرْطَبَةٍ (وَ هِیَ الطَّنْۢبُوْرُ)، اَوْ صَاحِبَ کُوْبَةٍ (وَ هِیَ الطَّبْلُ).

اے نوف! داؤد علیہ السلام رات کے ایسے ہی حصہ میں اٹھے اور فرمایا کہ: یہ وہ گھڑی ہے کہ جس میں بندہ جو بھی دُعا مانگے مستجاب ہو گی، سوا اس شخص کے جو سرکاری ٹیکس وصول کرنے والا، یا لوگوں کی برائیاں کرنے والا، یا (کسی ظالم حکومت کی) پولیس میں ہو، یا سارنگی یا ڈھول تاشہ بجانے والا ہو۔ (سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ: ’’عرطبہ‘‘ کے معنی سارنگی اور ’’کوبہ‘‘ کے معنی ڈھول کے ہیں)۔

وَ قَدْ قِیْلَ اَیْضًا: اِنَّ الْعَرْطَبَةَ: الطَّبْلُ، وَ الْکُوْبَةَ الطُّنْۢبُوْرُ.

اور ایک قول یہ ہے کہ ’’عرطبہ‘‘ کے معنی ڈھول اور ’’کوبہ‘‘ کے معنی طنبور کے ہیں۔

(۱۰۵)

اِنَّ اللهَ افْتَرَضَ عَلَیْکُمُ فَرَآئِضَ فَلَا تُضَیِّعُوْهَا، وَ حَدَّ لَکُمْ حُدُوْدًا فَلَا تَعْتَدُوْهَا، وَ نَهَاکُمْ عَنْ اَشْیَآءَ فَلَا تَنْتَهِکُوْهَا، وَ سَکَتَ لَکُمْ عَنْ اَشْیَآءَ وَلَمْ یَدَعْهَا نِسْیَانًا فَلَا تَتَکَلَّفُوْهَا.

اللہ نے چند فرائض تم پر عائد کئے ہیں انہیں ضائع نہ کرو اور تمہارے حدودِ کار مقرر کر دیے ہیں ان سے تجاوز نہ کرو۔ اس نے چند چیزوں سے تمہیں منع کیا ہے اس کی خلاف ورزی نہ کرو اور جن چند چیزوں کا اس نے حکم بیان نہیں کیا انہیں بھولے سے نہیں چھوڑ دیا۔ لہٰذا خواہ مخواہ انہیں جاننے کی کوشش نہ کرو۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 January 23 ، 18:55
عون نقوی

(۱۰۲)

یَاْتِیْ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَّا یُقَرَّبُ فِیْهِ اِلَّا الْمَاحِلُ، وَ لَا یُظَرَّفُ فِیْهِ اِلَّا الْفَاجِرُ، وَ لَا یُضَعَّفُ فِیْهِ اِلَّا الْمُنْصِفُ، یَعُدُّوْنَ الصَّدَقَةَ فِیْهِ غُرْمًا، وَ صِلَةَ الرَّحِمُ مَنًّا، وَ الْعِبَادَةَ اسْتِطَالَةً عَلَى النَّاسِ، فَعِنْدَ ذٰلِکَ یَکُوْنُ السُّلْطَانُ بِمَشُوْرَةِ النِّسَآءِ، وَ اِمَارَةِ الصِّبْیَانِ، وَ تَدْبِیْرِ الْخِصْیَانِ۔

لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جس میں وہی بارگاہوں میں مقرب ہو گا جو لوگوں کے عیوب بیان کرنے والا ہو، اور وہی خوش مذاق سمجھا جائے گا جو فاسق و فاجر ہو، اور انصاف پسند کو کمزور و ناتواں سمجھا جائے گا، صدقہ کو لوگ خسارہ اور صلہ رحمی کو احسان سمجھیں گے، اور عبادت لوگوں پر تفوق جتلانے کیلئے ہو گی۔ ایسے زمانہ میں حکومت کا دارومدار عورتوں کے مشورے، نو خیز لڑکوں کی کار فرمائی اور خواجہ سراؤں کی تدبیر و رائے پر ہو گا۔

(۱۰۳)

وَ رُئِیَ عَلَیْهِ اِزَارٌ خَلَقٌ مَرْقُوْعٌ، فَقِیْلَ لَهٗ فِیْ ذٰلِکَ فَقَالَ:

آپؑ کے جسم پر ایک بوسیدہ اور پیوند دار جامہ دیکھا گیا تو آپؑ سے اس کے بارے میں کہا گیا۔ آپؑ نے فرمایا:

یَخْشَعُ لَهُ الْقَلْبُ، وَ تَذِلُّ بِهِ النَّفْسُ، وَ یَقْتَدِیْ بِهِ الْمُؤْمِنُوْنَ. اِنَّ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةَ عَدُوَّانِ مُتَفَاوِتَانِ، وَ سَبِیْلَانِ مُخْتَلِفَانِ، فَمَنْ اَحَبَّ الدُّنْیَا وَ تَوَلَّاهَا اَبْغَضَ الْاٰخِرَةَ وَ عَادَاهَا، وَ هُمَا بِمَنْزِلَةِ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ، وَ مَاشٍۭ بَیْنَهُمَا کُلَّمَا قَرُبَ مِنْ وَّاحِدٍۭ بَعُدَ مِنَ الْاٰخَرِ، وَ هُمَا بَعْدُ ضَرَّتَانِ۔

اس سے دل متواضع اور نفس رام ہوتا ہے اور مومن اس کی تاسی کرتے ہیں۔ دنیا اور آخرت آپس میں دو ناساز گار دشمن اور دو جدا جدا راستے ہیں۔ چنانچہ جو دنیا کو چاہے گا اور اس سے دل لگائے گا وہ آخرت سے بَیر اور دشمنی رکھے گا وہ دونوں بمنزلۂ مشرق و مغرب کے ہیں اور ان دونوں سمتوں کے درمیان چلنے والا جب بھی ایک سے قریب ہو گا تو دوسرے سے دور ہونا پڑے گا۔ پھر ان دونوں کا رشتہ ایسا ہی ہے جیسا دو سوتوں کا ہوتا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 January 23 ، 18:52
عون نقوی