بصیرت اخبار

۹۱ مطلب با موضوع «نہج البلاغہ :: کلمات قصار» ثبت شده است

(۱۲۰)

عَنْ قُرَیْشٍ، فَقَالَ:

حضرتؑ سے قریش کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا کہ:

اَمَّا بَنُوْ مَخْزُوْمٍ فَرَیْحَانَةُ قُرَیْشٍ، تُحِبُّ حَدِیْثَ رِجَالِهِمْ، وَ النِّکَاحَ فِیْ نِسَآئِهِمْ. وَ اَمَّا بَنُوْ عَبْدِ شَمْسٍ فَاَبْعَدُهَا رَاْیًا، وَ اَمْنَعُهَا لِمَا وَرَآءَ ظُهُوْرِهَا. وَ اَمَّا نَحْنُ فَاَبْذَلُ لِمَا فِیْۤ اَیْدِیْنَا، وَ اَسْمَحُ عِنْدَ الْمَوْتِ بِنُفُوْسِنَا. وَ هُمْ اَکْثَرُ وَ اَمْکَرُ وَ اَنْکَرُ، وَ نَحْنُ اَفْصَحُ وَ اَنْصَحُ وَ اَصْبَحُ.

(قبیلۂ)بنی مخزوم قریش کا مہکتا ہوا پھول ہیں، ان کے مردوں سے گفتگو اور ان کی عورتوں سے شادی پسندیدہ ہے، اور بنی عبد شمس دور اندیش اور پیٹھ پیچھے کی اوجھل چیزوں کی پوری روک تھام کرنے والے ہیں، لیکن ہم (بنی ہاشم) تو جو ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے اسے صرف کر ڈالتے ہیں اور موت آنے پر جان دینے میں بڑے جوانمرد ہوتے ہیں، اور یہ (بنی عبد شمس) گنتی میں زیادہ، حیلہ باز اور بدصورت ہوتے ہیں، اور ہم خوش گفتار، خیر خواہ اور خوبصورت ہوتے ہیں۔

(۱۲۱)

شَتَّانَ مَا بَیْنَ عَمَلَیْنِ: عَمَلٍ تَذْهَبُ لَذَّتُهٗ وَ تَبْقٰى تَبِعَتُهٗ، وَ عَمَلٍ تَذْهَبُ مَؤٗنَتُهٗ وَ یَبْقٰۤى اَجْرُهٗ.

ان دونوں قسم کے عملوں میں کتنا فرق ہے: ایک وہ عمل جس کی لذت مٹ جائے لیکن اس کا وبال رہ جائے، اور ایک وہ جس کی سختی ختم ہو جائے لیکن اس کا اجر و ثواب باقی رہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 January 23 ، 19:04
عون نقوی

(۱۱۸)

اِضَاعَةُ الْفُرْصَةِ غُصَّةٌ.

موقع کو ہاتھ سے جانے دینا رنج و اندوہ کا باعث ہوتا ہے۔

(۱۱۹)

مَثَلُ الدُّنْیَا کَمَثَلِ الْحَیَّةِ، لَیِّنٌ مَّسُّهَا، وَ السَّمُّ النَّاقِعُ فِیْ جَوْفِهَا، یَهْوِیْۤ اِلَیْهَا الْغِرُّ الْجَاهِلُ، وَ یَحْذَرُهَا ذُو اللُّبِّ الْعَاقِلُ!.

دنیا کی مثال سانپ کی سی ہے، جو چھونے میں نرم معلوم ہوتا ہے، مگر اس کے اندر زہر ہلاہل بھرا ہوتا ہے، فریب خوردہ جاہل اس کی طرف کھینچتا ہے اور ہوشمند و دانا اس سے بچ کر رہتا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 January 23 ، 19:02
عون نقوی

(۱۱۶)

کَمْ مِّنْ مُّسْتَدْرَجٍۭ بِالْاِحْسَانِ اِلَیْهِ، وَ مَغْرُوْرٍ بِالسَّتْرِ عَلَیْهِ، وَ مَفْتُوْنٍ بِحُسْنِ الْقَوْلِ فِیْهِ! وَ مَا ابْتَلَى اللهُ اَحَدًۢا بِمِثْلِ الْاِمْلَآءِ لَهٗ.

کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں نعمتیں دے کر رفتہ رفتہ عذاب کا مستحق بنایا جاتا ہے، اور کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی پردہ پوشی سے دھوکا کھائے ہوئے ہیں اور اپنے بارے میں اچھے الفاظ سن کر فریب میں پڑ گئے ہیں، اور مہلت دینے سے زیادہ اللہ کی جانب سے کوئی بڑی آزمائش نہیں ہے۔

(۱۱۷)

هَلَکَ فِیَّ رَجُلَانِ: مُحِبٌّ غَالٍ، وَ مُبْغِضٌ قَالٍ!.

میرے بارے میں دو قسم کے لوگ تباہ و برباد ہوئے: ایک وہ چاہنے والا جو حد سے بڑھ جائے، اور ایک وہ دشمنی رکھنے والا جو عداوت رکھے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 January 23 ، 19:00
عون نقوی

(۱۱۴)

اِذَا اسْتَوْلَى الصَّلَاحُ عَلَى الزَّمَانِ وَاَهْلِهٖ، ثُمَّ اَسَآءَ رَجُلٌ الظَّنَّ بِرَجُلٍ لَّمْ تَظْهَرْ مِنْهُ خِزْیَةٌ، فَقَدْ ظَلَمَ! وَ اِذَا اسْتَوْلَى الْفَسَادُ عَلٰى الزَّمَانِ وَ اَهْلِهٖ، فَاَحْسَنَ رَجُلٌ الظَّنَّ بِرَجُلٍ، فَقَدْ غَرَّرَ.

جب دنیا اور اہل دنیا میں نیکی کا چلن ہو اور پھر کوئی شخص کسی ایسے شخص سے کہ جس سے رسوائی کی کوئی بات ظاہر نہیں ہوئی سوءِ ظن رکھے تو اس نے اس پر ظلم و زیادتی کی، اور جب دنیا واہل دنیا پر شر و فساد کا غلبہ ہو اور پھر کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے حسنِ ظن رکھے تو اس نے (خود ہی اپنے کو) خطرے میں ڈالا۔

(۱۱۵)

کَیْفَ تَجِدُکَ یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ؟ فَقَالَ ؑ:

امیر المومنین علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ آپؑ کا حال کیسا ہے؟ تو آپؑ نے فرمایا کہ:

کَیْفَ یَکُوْنُ حَالُ مَنْ یَّفْنٰى بِبَقَآئِهٖ، وَ یَسْقَمُ بِصِحَّتِهٖ، وَ یُؤْتٰى مِنْ مَّاْمَنِهٖ۔

اس کا حال کیا ہو گا جسے زندگی موت کی طرف لئے جا رہی ہو، اور جس کی صحت بیماری کا پیش خیمہ ہو، اور جسے اپنی پناہ گاہ سے گرفت میں لے لیا جائے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 January 23 ، 18:58
عون نقوی

(۱۱۲)

مَنْ اَحَبَّنَاۤ اَهْلَ الْبَیْتِ فَلْیَسْتَعِدَّ لِلْفَقْرِ جِلْبَابًا.

جو ہم اہل بیتؑ سے محبت کرے اسے جامہ فقر پہننے کیلئے آمادہ رہنا چاہیے۔

وَ قَدْ یُؤَوَّلُ ذٰلِکَ عَلٰى مَعْنًى اٰخَرَ لَیْسَ هٰذَا مَوْضِعُ ذِکْرِهٖ.

سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ: حضرتؑ کے اس ارشاد کے ایک اور معنی بھی کئے گئے ہیں جس کے ذکر کا یہ محل نہیں ہے۔


شاید اس روایت کے دوسرے معنی یہ ہوں کہ جو ہمیں دوست رکھتا ہے اسے دنیا طلبی کیلئے تگ و دو نہ کرنا چاہیے، خواہ اس کے نتیجہ میں اسے فقر و افلاس سے دو چار ہونا پڑے، بلکہ قناعت اختیار کرتے ہوئے دنیا طلبی سے الگ رہنا چاہیے۔

(۱۱۳)

لَا مَالَ اَعْوَدُ مِنَ الْعَقْلِ، وَ لَا وَحْدَةَ اَوْحَشُ مِنَ الْعُجْبِ، وَ لَا عَقْلَ کَالتَّدْبِیْرِ، وَ لَا کَرَمَ کَالتَّقْوٰى، وَ لَا قَرِیْنَ کَحُسْنِ الْخُلْقِ، وَ لَا مِیرَاثَ کَالْاَدَبِ، وَ لَا قَآئِدَ کَالتَّوْفِیْقِ، وَ لَا تِجَارَةَ کَالْعَمَلِ الصَّالِحِ، وَ لَا رِبْحَ کَالثَّوَابِ، وَ لَا وَرَعَ کَالْوُقُوْفِ عِنْدَ الشُّبْهَةِ، وَ لَا زُهْدَ کَالزُّهْدِ فِی الْحَرَامِ، و لَا عِلْمَ کَالتَّفَکُّرِ، وَ لَا عِبَادَةَ کَاَدَاۤءِ الْفَرآئِضِ، وَ لَاۤ اِیْمَانَ کَالْحَیَآءِ وَ الصَّبْرِ، وَ لَا حَسَبَ کَالتَّوَاضُعِ، وَ لَا شَرَفَ کَالْعِلْمِ، وَ لَا عِزَّ کَالْحِلْمِ، وَ لَا مُظَاهَرَةَ اَوْثَقُ مِنَ الْمُشَاوَرَةِ.

عقل سے بڑھ کر کوئی مال سود مند اور خود بینی سے بڑھ کر کوئی تنہائی وحشت ناک نہیں، اور تدبیر سے بڑھ کر کوئی عقل کی بات نہیں، اور کوئی بزرگی تقویٰ کے مثل نہیں، اور خوش خلقی سے بہتر کوئی ساتھی اور ادب کے مانند کوئی میراث نہیں، اور توفیق کے مانند کوئی پیشرو اور اعمال خیر سے بڑھ کر کوئی تجارت نہیں، اور ثواب کا ایسا کوئی نفع نہیں، اور کوئی پرہیز گاری شبہات میں توقف سے بڑھ کر نہیں، اور حرام کی طرف بے رغبتی سے بڑھ کر کوئی زہد اور تفکر و پیش بینی سے بڑھ کر کوئی علم نہیں، اور ادائے فرائض کے مانند کوئی عبادت اور حیاء و صبر سے بڑھ کر کوئی ایمان نہیں، اور فروتنی سے بڑھ کر کوئی سرفرازی اور علم کے مانند کوئی بزرگی و شرافت نہیں، حلم کے مانند کوئی عزت اور مشورہ سے مضبوط کوئی پشت پناہ نہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 January 23 ، 18:56
عون نقوی