بصیرت اخبار

۷۹ مطلب با موضوع «نہج البلاغہ :: مکتوبات» ثبت شده است

اِلٰى الْعُمَّالِ الَّذِیْنَ یَطَاُ الْجَیْشُ عَمَلَهُمْ

ان عمال حکومت کی طرف جن کا علاقہ فوج کی گزر گاہ میں پڑتا تھا

مِنْ عَبْدِ اللّٰهِ عَلِیٍّ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِلٰى مَنْ مَّرَّ بِهِ الْجَیْشُ مِنْ جُبَاةِ الْخَرَاجِ وَ عُمَّالِ الْبِلَادِ.

خدا کے بندے علی امیر المومنین علیہ السلام کی طرف سے ان خراج جمع کرنے والوں اور شہروں کے عاملوں کو جن کے علاقہ سے فوج گزرے گی:

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنِّیْ قَدْ سَیَّرْتُ جُنُوْدًا هِیَ مَارَّةٌۢ بِکُمْ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ، وَ قَدْ اَوْصَیْتُهُمْ بِمَا یَجِبُ لِلّٰهِ عَلَیْهِمْ، مِنْ کَفِّ الْاَذٰى وَ صَرْفِ الشَّذٰی، وَ اَنَا اَبْرَاُ اِلَیْکُمْ وَ اِلٰى ذِمَّتِکُمْ، مِنْ مَّعَرَّةِ الْجَیْشِ اِلَّا مِنْ جَوْعَةِ الْمُضْطَرِّ، لَا یَجِدُ عَنْهَا مَذْهَبًا اِلٰى شِبَعِهٖ، فَنَکِّلُوْا مَنْ تَنَاوَلَ مِنْهُمْ شَیْئًا ظُلْمًا عَنْ ظُلْمِهِمْ، وَ کُفُّوْۤا اَیْدِیَ سُفَهَآئِکُمْ عَنْ مُّضَادَّتِهِمْ، وَ التَّعَرُّضِ لَهُمْ فِیْمَا اسْتَثْنَیْنَاهُ مِنْهُمْ.

بعد حمد و صلوٰۃ! معلوم ہو کہ میں نے کچھ فوجیں روانہ کی ہیں جو خدا نے چاہا تو عنقریب تمہارے علاقہ سے عبور کریں گی۔ میں نے انہیں ہدایت کر دی ہے اس کی جو اللہ کی طرف سے ان پر لازم ہے کہ وہ کسی کو ستائیں نہیں اور کسی کو تکلیف نہ دیں۔ اور میں تمہیں اور تمہارے اہل ذمہ کو بتانا چاہتا ہوں کہ فوج والے کوئی دست درازی کریں تو اس سے میں بے تعلق ہوں، سوا اس صورت کے جب کہ کوئی بھوک سے حالت اضطرار میں ہو اور پیٹ بھرنے کی کوئی صورت اسے نظر نہ آئے۔ اس کے علاوہ ان میں سے کوئی دراز دستی کرے تو تمہیں اس کی اسے سزا دینا چاہیے۔لیکن اپنے سر پھروں کے ہاتھ بھی روکنا کہ وہ ان سے نہ ٹکرائیں اور جس چیز کی ہم نے انہیں اجازت دی ہے اس میں ان سے تعرض نہ کریں۔

وَ اَنَا بَیْنَ اَظْهُرِ الْجَیْشِ، فَادْفَعُوْۤا اِلَیَّ مَظَالِمَکُمْ وَ مَا عَرَاکُمْ، مِمَّا یَغْلِبُکُمْ مِنْ اَمْرِهِمْ، وَ لَا تُطِیْقُوْنَ دَفْعَهٗ اِلَّا بِاللّٰهِ وَ بِیْ، فَاَنَا اُغَیِّرُهٗ بِمَعُوْنَةِ اللّٰهِ، اِنْ شَآءَ اللّٰهُ.

اور میں تو فوج کے اندر موجود ہی ہوں، لہٰذا جو زیادتیاں ہوں یا ایسی سختی تم پر ہو کہ جس کی روک تھام کیلئے تمہیں اللہ کی مدد اور میری طرف رجوع ہونے کی ضرورت ہو تو مجھے اطلاع دینا، میں ان شاء اللہ! اللہ کی مدد سے ٹھیک کردوں گا۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 December 22 ، 17:34
عون نقوی

اِلٰى کُمَیْلِ بْنِ زِیَادٍ النَّخَعِىِّ، وَ هُوَ عَامِلُهٗ عَلٰى هِیْتٍ، یُنْکِرُ عَلَیْهِ تَرْکَهٗ دَفْعَ مَنْ یَّجْتَازُ بِهٖ مِنْ جَیْشِ الْعَدُوِّ طَالِبًا لِّلْغَارَةِ:

والی ہیت کمیل ابن زیاد نحعی کے نام۔ اس میں ان کے اس طرز عمل پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے کہ جب دشمن کی فوجیں لوٹ مار کے قصد سے ان کے علاقہ کی طرف سے گزریں تو انہوں نے ان کو روکا نہیں۔

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ تَضْیِیْعَ الْمَرْءِ مَا وُلِّیَ وَ تَکَلُّفَهٗ مَا کُفِیَ، لَعَجْزٌ حَاضِرٌ وَّ رَاْیٌ مُّتَبَّرٌ، وَ اِنَّ تَعَاطِیَکَ الْغَارَةَ عَلٰۤى اَهْلِ قِرْقِیْسِیَا، وَ تَعْطِیْلَکَ مَسَالِحَکَ الَّتِیْ وَلَّیْنَاکَ، لَیْسَ بِهَا مَنْ یَّمْنَعُهَا، وَ لَا یَرُدُّ الْجَیْشَ عَنْهَا لَرَاْیٌ شَعَاعٌ، فَقَدْ صِرْتَ جِسْرًا لِّمَنْ اَرَادَ الْغَارَةَ مِنْ اَعْدَآئِکَ عَلٰۤى اَوْلِیَآئِکَ، غَیْرَ شَدِیْدِ الْمَنْکِبِ، وَ لَا مَهِیْبِ الْجَانِبِ، وَ لَا سَادٍّ ثُغْرَةً، وَ لَا کَاسِرٍ شَوْکَةً، وَ لَا مُغْنٍ عَنْ اَهْلِ مِصْرِهٖ، وَ لَا مُجْزٍ عَنْ اَمِیْرِهٖ.

آدمی کا اس کام کو نظر انداز کر دینا کہ جو اسے سپرد کیا گیا ہے اور جو کام اس کے بجائے دوسروں سے متعلق ہے اس میں خواہ مخواہ کو گھسنا ایک کھلی ہوئی کمزوری اور تباہ کن فکر ہے۔ تمہارا اہل قرقیسیا پر دھاوا بول دینا اور اپنی سرحدوں کو خالی چھوڑ دینا جبکہ وہاں نہ کوئی حفاظت کرنے والا ہے نہ دشمن کی سپاہ کو روکنے والا ہے، ایک پریشان خیالی کا مظاہرہ تھا۔ اس طرح تم اپنے دشمنوں کیلئے پل بن گئے جو تمہارے دوستوں پر حملہ آور ہونے کا ارادہ رکھتے ہوں، اس عالم میں کہ نہ تمہارے بازوؤں میں توانائی ہے، نہ تمہارا کچھ رعب و دبدبہ ہے، نہ تم دشمن کا راستہ روکنے والے ہو، نہ اس کا زور توڑنے والے ہو، نہ اپنے شہر والوں کے کام آنے والے ہو اور نہ اپنے امیر کی طرف سے کوئی کام انجام دینے والے ہو۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 December 22 ، 17:32
عون نقوی

اِلٰۤى اَهْلِ مِصْرَ مَعَ مَالِکٍ الْاشْتَرِ رَحِمَهُ اللّٰهُ لَمَّا وَلَّاهُ اِمَارَتَهَا:

جب مالک اشتر کو مصر کا حاکم تجویز فرمایا تو ان کے ہاتھ اہلِ مصر کو بھیجا:

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ اللّٰهَ سُبْحَانَهٗ بَعَثَ مُحَمَّدًا ﷺ نَذِیْرًا لِّلْعٰلَمِیْنَ، وَ مُهَیْمِنًا عَلٰى الْمُرْسَلِیْنَ، فَلَمَّا مَضٰى عَلَیْهِ‏السَّلَامُ تَنَازَعَ الْمُسْلِمُوْنَ الْاَمْرَ مِنْ بَعْدِهٖ.

اللہ سبحانہ نے محمد ﷺ کو تمام جہانوں کا (ان کی بداعمالیوں کی پاداش سے) ڈرانے والا اور تمام رسولوں پر گواہ بنا کر بھیجا۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی تو ان کے بعد مسلمانوں نے خلافت کے بارے میں کھینچا تانی شروع کر دی۔

فَوَاللّٰهِ! مَا کَانَ یُلْقٰى فِیْ رُوْعِیْ‏ وَ لَا یَخْطُرُ بِبَالِیْ اَنَّ الْعَرَبَ، تُزْعِجُ هٰذَا الْاَمْرَ مِنْۢ بَعْدِهٖ ﷺ عَنْ اَهْلِ بَیْتِهٖ، وَ لَاۤ اَنَّهُمْ مُنَحُّوْهُ عَنِّیْ مِنْۢ بَعْدِهٖ، فَمَا رَاعَنِیْۤ اِلَّا انْثِیَالُ النَّاسِ عَلٰى فُلَانٍ یُّبَایِعُوْنَهٗ.

اس موقع پر بخدا! مجھے یہ کبھی تصور بھی نہیں ہوا تھا اور نہ میرے دل میں یہ خیال گزرا تھا کہ پیغمبر ﷺ کے بعد عرب خلافت کا رخ ان کے اہل بیت علیہم السلام سے موڑ دیں گے، اور نہ یہ کہ ان کے بعد اسے مجھ سے ہٹا دیں گے۔ مگر ایک دم میرے سامنے یہ منظر آیا کہ لوگ فلاں شخص کے ہاتھ پر بیعت کرنے کیلئے دوڑ پڑے۔

فَاَمْسَکْتُ یَدِیْ حَتّٰى رَاَیْتُ رَاجِعَةَ النَّاسِ قَدْ رَجَعَتْ عَنِ الْاِسْلَامِ، یَدْعُوْنَ اِلٰى مَحْقِ دَیْنِ مُحَمَّدٍ ﷺ، فَخَشِیْتُ اِنْ لَّمْ اَنْصُرِ الْاِسْلَامَ وَ اَهْلَهٗ اَنْ اَرٰى فِیْهِ ثَلْمًا اَوْ هَدْمًا، تَکُوْنُ الْمُصِیْبَةُ بِهٖ عَلَیَّ اَعْظَمَ مِنْ فَوْتِ وِلَایَتِکُمُ الَّتِیْۤ اِنَّمَا هِیَ مَتَاعُ اَیَّامٍ قَلَآئِلَ، یَزُوْلُ مِنْهَا مَا کَانَ کَمَا یَزُوْلُ السَّرَابُ، اَوْ کَمَا یَتَقَشَّعُ السَّحَابُ، فَنَهَضْتُ فِیْ تِلْکَ الْاَحْدَاثِ، حَتّٰی زَاحَ الْبَاطِلُ وَ زَهَقَ، وَ اطْمَاَنَّ الدِّیْنُ وَ تَنَهْنَهَ.

ان حالات میں مَیں نے اپنا ہاتھ روکے رکھا۔ یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ مرتد ہونے والے اسلام سے مرتد ہو کر محمد ﷺ کے دین کو مٹا ڈالنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اب میں ڈرا کہ اگر کوئی رخنہ یا خرابی دیکھتے ہوئے میں اسلام اور اہل اسلام کی مدد نہ کروں گا تو یہ میرے لئے اس سے بڑھ کر مصیبت ہو گی جتنی یہ مصیبت کہ تمہاری یہ حکومت میرے ہاتھ سے چلی جائے جو تھوڑے دنوں کا اثاثہ ہے، اس میں کی ہر چیز زائل ہو جائے گی، اس طرح جیسے سراب بے حقیقت ثابت ہوتا ہے یا جس طرح بدلی چھٹ جاتی ہے۔ چنانچہ میں ان بدعتوں کے ہجوم میں اٹھ کھڑا ہوا۔ یہاں تک کہ باطل دب کر فنا ہو گیا اور دین محفوظ ہو کر تباہی سے بچ گیا۔

[وَ مِنْهُ]

[اسی خط کا ایک حصہ یہ ہے]

اِنِّیْ وَ اللّٰهِ! لَوْ لَقِیتُهُمْ وَاحِدًا وَ هُمْ طِلَاعُ الْاَرْضِ کُلِّهَا، مَا بَالَیْتُ وَ لَا اسْتَوْحَشْتُ، وَ اِنِّیْ مِنْ ضَلَالِهِمُ الَّذِیْ هُمْ فِیْهِ، وَ الْهُدَى الَّذِیْۤ اَنَا عَلَیْهِ، لَعَلٰى بَصِیْرَةٍ مِّنْ نَّفْسِیْ، وَ یَقِیْنٍ مِّنْ رَّبِّیْ، وَ اِنِّیْۤ اِلٰى لِقَآءِ اللّٰهِ وَ حُسْنِ ثَوَابِهٖ، لَمُنْتَظِرٌ رَّاجٍ، وَ لٰکِنَّنِیْۤ اٰسٰى اَنْ یَّلِیَ اَمْرَ هٰذِهِ الْاُمَّةِ سُفَهَآؤُهَا وَ فُجَّارُهَا، فَیَتَّخِذُوْا مَالَ اللّٰهِ دُوَلًا، وَ عِبَادَهٗ خَوَلًا، وَ الصّٰلِحِیْنَ حَرْبًا، وَ الْفَاسِقِیْنَ حِزْبًا، فَاِنَّ مِنْهُمُ الَّذِیْ قَدْ شَرِبَ فِیْکُمُ الْحَرَامَ، وَ جُلِدَ حَدًّا فِی الْاِسْلَامِ، وَ اِنَّ مِنْهُمْ مَنْ لَّمْ یُسْلِمْ، حَتّٰى رُضِخَتْ لَهٗ عَلَى الْاِسْلَامِ الرَّضَآئِخُ، فَلَوْ لَا ذٰلِکَ مَاۤ اَکْثَرْتُ تَاْلِیْبَکُمْ وَ تَاْنِیْبَکُمْ، وَ جَمْعَکُمْ وَ تَحْرِیْضَکُمْ، وَ لَتَرَکْتُکُمْ اِذْ اَبَیْتُمْ وَ وَنَیْتُمْ.

بخدا! اگر میں تن تنہا ان سے مقابلہ کیلئے نکلوں اور زمین کی ساری وسعتیں ان سے چھلک رہی ہوں، جب بھی میں پروا نہ کروں اور نہ پریشان ہوں۔ اور میں جس گمراہی میں وہ ہیں اور جس ہدایت پر میں ہوں، اس کے متعلق پوری بصیرت اور اپنے پروردگار کے فضل و کرم سے یقین رکھتا ہوں، اور میں اللہ کے حضور میں پہنچنے کا مشتاق اور اس کے حسن ثواب کیلئے دامن امید پھیلائے ہوئے منتظر ہوں۔ مگر مجھے اس کی فکر ہے کہ اس قوم پر حکومت کریں بدمغز اور بد کردار لوگ اور وہ اللہ کے مال کو اپنی املاک اور اس کے بندوں کو غلام بنا لیں، نیکوں سے بر سر پیکار رہیں اور بدکرداروں کو اپنے جتھے میں رکھیں، کیونکہ ان میں بعض کا مشاہدہ تمہیں ہو چکا ہے کہ اس نے تمہارے اندر شراب نوشی کی اور اسلامی حد کے سلسلہ میں اسے کوڑے لگائے گئے، اور ان میں ایسا شخص بھی ہے جو اس وقت تک اسلام نہیں لایا جب تک اسے آمدنیاں نہیں ہوئیں۔ اگر اس کی فکر مجھے نہ ہوتی تو میں اس طرح تمہیں (جہاد پر) آمادہ نہ کرتا، نہ اس طرح جھنجھوڑتا، نہ تمہیں اکٹھا کر نے اور شوق دلانے کی کو شش کرتا، بلکہ تم سرتابی اور کوتاہی کرتے تو تم کو تمہارے حال پر چھوڑ دیتا۔

اَ لَا تَرَوْنَ اِلٰۤى اَطْرَافِکُمْ قَدِ انْتَقَصَتْ؟ وَ اِلٰۤى اَمْصَارِکُمْ قَدِ افْتُتِحَتْ؟ وَ اِلٰى مَمَالِکِکُمْ تُزْوٰى؟ وَ اِلٰى بِلَادِکُمْ تُغْزٰى؟. اِنْفِرُوْا رَحِمَکُمُ اللّٰهُ اِلٰى قِتَالِ عَدُوِّکُمْ، وَ لَا تَثَّاقَلُوْۤا اِلَى الْاَرْضِ، فَتُقِرُّوْا بِالْخَسْفِ، وَ تَبُوْءُوْا بِالذُّلِّ، وَ یَکُوْنَ نَصِیْبُکُمُ الْاَخَسَّ، وَ اِنَّ اَخَا الْحَرْبِ الْاَرِقُ، وَ مَنْ نَّامَ لَمْ یُنَمْ عَنْهُ، وَ السَّلَامُ.

کیا تم دیکھتے نہیں کہ تمہارے شہروں کے حدود (روز بروز) کم ہوتے جا رہے ہیں اور تمہارے ملک کے مختلف حصوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے، تمہاری ملکیتیں چھن رہی ہیں اور تمہارے شہروں پر چڑھائیاں ہو رہی ہیں۔ خدا تم پر رحم کرے! اپنے دشمنوں سے لڑنے کیلئے چل پڑو اور سست ہو کر زمین سے چمٹے نہ رہو۔ ورنہ یاد رکھو کہ ظلم و ستم سہتے رہو گے اور ذلت میں پڑے رہو گے اور تمہارا حصہ انتہائی پست ہو گا۔ سنو! جنگ آزما ہوشیار و بیدار رہا کرتاہے اور جو سو جاتا ہے دشمن اس سے غافل ہو کر سویا نہیں کرتا۔ والسلام۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 December 22 ، 17:30
عون نقوی

اِلٰۤى اَبِیْ مُوْسَى الْاَشْعَرِىِّ، وَ هُوَ عَامِلُهٗ عَلَى الْکُوْفَةِ، وَ قَدْ بَلَغَهُ عَنْهُ تَثْبِیْطُهُ النَّاسَ عَنِ الْخُرُوْجِ اِلَیْهِ لَمَّا نَدَبَهُمْ لِحَرْبِ اَصْحَابِ الْجَمَلِ:

عامل کوفہ ابو موسیٰ اشعری کے نام، جب حضرتؑ کو خبر پہنچی کہ وہ اہل کوفہ کو جنگ جمل کے سلسلہ میں جب کہ آپؑ نے انہیں مدد کیلئے بلایا تھا، روک رہا ہے:

مِنْ عَبْدِ اللّٰهِ عَلِیٍّ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِلٰى عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ قَیْسٍ.

خدا کے بندے علی امیر المومنین علیہ السلام کی طرف سے عبد اللہ ابن قیس (ابو موسیٰ) کے نام:

اَمَّا بَعْدُ! فَقَدْ بَلَغَنِیْ عَنْکَ قَوْلٌ هُوَ لَکَ وَ عَلَیْکَ، فَاِذَا قَدِمَ رَسُوْلِیْ عَلَیْکَ فَارْفَعْ ذَیْلَکَ، وَ اشْدُدْ مِئْزَرَکَ، وَ اخْرُجْ مِنْ جُحْرِکَ، وَ انْدُبْ مَنْ مَّعَکَ، فَاِنْ حَقَّقْتَ فَانْفُذْ، وَ اِنْ تَفَشَّلْتَ فَابْعُدْ.

مجھے تمہاری طرف سے ایسی بات کی خبر ملی ہے جو تمہارے حق میں بھی ہو سکتی ہے اور تمہارے خلاف بھی پڑسکتی ہے۔ جب میرا قاصد تمہارے پاس پہنچے تو (جہاد کیلئے) دامن گردان لو، کمر کس لو، اور اپنے بل سے باہر نکل آؤ، اور اپنے ساتھ والوں کو بھی دعوت دو، اور اگر حق تمہارے نزدیک ثابت ہے تو کھڑے ہو، اور اگر بودا پن دکھانا ہے تو (ہماری نظروں سے) دور ہوجاؤ۔

وَ ایْمُ اللّٰهِ! لَتُؤْتَیَنَّ حَیْثُ اَنْتَ، وَ لَا تُتْرَکُ حَتّٰى یُخْلَطَ زُبْدُکَ بِخَاثِرِکَ وَ ذَآئِبُکَ بِجَامِدِکَ‏، وَ حَتّٰى تُعْجَلَ عَنْ قِعْدَتِکَ، وَ تَحْذَرَ مِنْ اَمَامِکَ کَحَذَرِکَ مِنْ خَلْفِکَ، وَ مَا هِیَ بِالْهُوَیْنَى الَّتِیْ تَرْجُوْ، وَ لٰکِنَّهَا الدَّاهِیَةُ الْکُبْرٰى، یُرْکَبُ جَمَلُهَا، وَ یُذَلُّ صَعْبُهَا، وَ یُسْهَّلُ جَبَلُهَا.

خدا کی قسم! تم گھیر گھار کر لائے جاؤ گے خواہ کہیں بھی ہو، اور چھوڑے نہیں جاؤ گے یہاں تک کہ تم اپنی دو عملی کی وجہ سے بوکھلا اٹھو گے اور تمہارا سارا تار پود بکھر جائے گا، یہاں تک کہ تمہیں اطمینان سے بیٹھنا بھی نصیب نہ ہو گا، اور سامنے سے بھی اسی طرح ڈرو گے جس طرح اپنے پیچھے سے ڈرتے ہو۔ جیسا تم نے سمجھ رکھا ہے یہ کوئی آسان بات نہیں ہے، بلکہ یہ ایک بڑی مصیبت ہے جس کے اونٹ پر بہرحال سوار ہونا پڑے گا، اور اس کی دشواریوں کو ہموار کیا جائے گا اور اس پہاڑ کو سر کیا جائے گا۔

فَاعْقِلْ عَقْلَکَ، وَ امْلِکْ اَمْرَکَ، وَ خُذْ نَصِیْبَکَ وَ حَظَّکَ، فَاِنْ کَرِهْتَ فَتَنَحَّ اِلٰى غَیْرِ رَحْبٍ، وَ لَا فِیْ نَجَاةٍ، فَبِالْحَرِیِّ لَتُکْفَیَنَّ وَ اَنْتَ نَائِمٌ، حَتّٰى لَا یُقَالَ اَیْنَ فُلَانٌ.

لہٰذا اپنی عقل کو ٹھکانے پر لاؤ، اپنے حالات پر قابو حاصل کرو اور اپنا حظ و نصیب لینے کی کوشش کرو، اور اگر یہ ناگوار ہے تو ادھر دفان ہو جہاں نہ تمہارے لئے آؤ بھگت ہے، نہ تمہارے لئے چھٹکارے کی کوئی صورت۔ اب یہی مناسب ہے کہ تمہیں بے ضرورت سمجھ کر نظر انداز کیا جائے۔ مزے سے سوئے پڑے رہو! کوئی یہ بھی تو نہ پوچھے گا کہ فلاں ہے کہاں؟

وَ اللّٰه!ِ اِنَّهٗ لَحَقٌّ مَّعَ مُحِقٍّ، وَ مَا نُبَالِیْ مَا صَنَعَ الْمُلْحِدُوْنَ، وَ السَّلَامُ.

خدا کی قسم! یہ حق پرست کا صحیح اقدام ہے اور ہمیں بے دینوں کے کرتوتوں کی کوئی پروا نہیں ہوسکتی۔ والسلام۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 December 22 ، 17:28
عون نقوی

اِلٰى مُعَاوِیَةَ جَوَابًا

بجواب معاویہ

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّا کُنَّا نَحْنُ وَ اَنْتُمْ عَلٰى مَا ذَکَرْتَ مِنَ الْاُلْفَةِ وَ الْجَمَاعَةِ، فَفَرَّقَ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ، اَمْسِ اَنَّاۤ اٰمَنَّا وَ کَفَرْتُمْ، وَ الْیَوْمَ اَنَّا اسْتَقَمْنَا وَ فُتِنْتُمْ، وَ مَاۤ اَسْلَمَ مُسْلِمُکُمْ اِلَّا کُرْهًا، وَ بَعْدَ اَنْ کَانَ اَنْفُ الْاِسْلَامِ کُلُّهٗ لِرَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ حِزْبًا.

جیسا کہ تم نے لکھا ہے (اسلام سے پہلے) ہمارے اور تمہارے درمیان اتفاق و اتحاد تھا، لیکن کل ہم اور تم میں تفرقہ یہ پڑا کہ ہم ایمان لائے اور تم نے کفر اختیار کیا اور آج یہ ہے کہ ہم حق پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں اور تم فتنوں میں پڑ گئے ہو۔ اور تم میں سے جو بھی اسلام لایا تھا وہ مجبوری سے، اور وہ اس وقت کہ جب تمام (اشراف عرب)اسلام لا کر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہو چکے تھے۔

وَ ذَکَرْتَ اَنِّیْ قَتَلْتُ طَلْحَةَ وَ الزُّبَیْرَ، وَ شَرَّدْتُّ بِعَآئِشَةَ، وَ نَزَلْتُ بَیْنَ الْمِصْرَیْنِ، وَ ذٰلِکَ اَمْرٌ غِبْتَ عَنْهُ، فَلَا عَلَیْکَ وَ لَا الْعُذْرُ فِیْهِ اِلَیْکَ.

تم نے (اپنے خط میں) ذکر کیاہے کہ میں نے طلحہ و زبیر کو قتل کیا اور عائشہ کو گھر سے نکالا اور (مدینہ چھوڑ کر) کوفہ و بصرہ میں قیام کیا، مگر یہ وہ باتیں ہیں جن کا تم سے کوئی واسطہ نہیں، نہ یہ تم پر کوئی زیادتی ہے، نہ تم سے عذر خواہی کی اس میں ضرورت ہے۔

وَ ذَکَرْتَ اَنَّکَ زَآئِرِیْ فِی الْمُهَاجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ، وَ قَدِ انْقَطَعَتِ الْهِجْرَةُ یَوْمَ اُسِرَ اَخُوْکَ، فَاِنْ کَانَ فِیْکَ عَجَلٌ فَاسْتَرْفِهْ، فَاِنِّیْۤ اِنْ اَزُرْکَ فَذٰلِکَ جَدِیْرٌ اَنْ یَّکُوْنَ اللّٰهُ اِنَّمَا بَعَثَنِیْۤ اِلَیْکَ لِلنِّقْمَةِ مِنْکَ، وَ اِنْ تَزُرْنِیْ فَکَمَا قَالَ اَخُوْ بَنِیْۤ اَسَدٍ:

اور تم نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ تم مہاجرین و انصار کے جتھے کے ساتھ مجھ سے ملنے (مقابلہ) کو نکلنے والے ہو، لیکن ہجرت کا دروازہ تو اسی دن بند ہو گیا تھا جس دن تمہارا بھائی گرفتار کرلیا گیا تھا۔ اگر جنگ کی تمہیں اتنی ہی جلدی ہے تو ذرا دم لو۔ ہو سکتا ہے کہ میں خود تم سے ملنے آ جاؤں اور یہ ٹھیک ہو گا اس اعتبار سے کہ اللہ نے تمہیں سزا دینے کیلئے مجھے مقرر کیا ہو گا۔ اور اگر تم مجھ سے ملنے کو آئے تو وہ ہو گا جو شاعر بنی اسد نے کہا ہے:

مُسْتَقْبِلِیْنَ رِیَاحَ الصَّیْفِ تَضْرِبُهُمْ

’’وہ موسم گرما کی ایسی ہواؤں کا سامنا کر رہے ہیں

بِحَاصِبٍ بَیْنَ اَغْوَارٍ وَ جُلْمُوْدِ

جو نشیبوں اور چٹانوں میں ان پر سنگریزوں کی بارش کر رہی ہیں‘‘۔

وَ عِنْدِی السَّیْفُ الَّذِیْۤ اَعْضَضْتُهٗ بِجَدِّکَ وَ خَالِکَ وَ اَخِیْکَ فِیْ مَقَامٍ وَّاحِدٍ، وَ اِنَّکَ وَ اللّٰه!ِ مَا عَلِمْتُ الْاَغْلَفُ الْقَلْبِ، الْمُقَارِبُ الْعَقْلِ، وَ الْاَوْلٰى اَنْ یُّقَالَ لَکَ: اِنَّکَ رَقِیْتَ سُلَّمًا اَطْلَعَکَ مَطْلَعَ سُوْٓءٍ عَلَیْکَ لَا لَکَ،‏ لِاَنَّکَ نَشَدْتَّ غَیْرَ ضَالَّتِکَ، وَ رَعَیْتَ غَیْرَ سَآئِمَتِکَ، وَ طَلَبْتَ اَمْرًا لَّسْتَ مِنْ اَهْلِهٖ، وَ لَا فِیْ مَعْدِنِهٖ.

میرے ہاتھ میں وہی تلوار ہے جس کی گزند سے تمہارے نانا، تمہارے ماموں اور تمہارے بھائی کو ایک ہی جگہ پہنچا چکا ہوں۔ خدا کی قسم! تم جیسا میں جانتا ہوں ایسے ہو جس کے دل پر تہیں چڑھی ہوئی ہیں اور جس کی عقل بہت محدود ہے۔ تمہارے بارے میں یہی کہنا زیادہ مناسب ہے کہ تم ایک ایسی سیڑھی پر چڑھ گئے ہو جہاں پر سے تمہارے لئے برا منظر پیش نظر ہو سکتا ہے، جس میں تمہارا برا ہی ہو گا، بھلا نہیں ہو گا۔ کیونکہ غیر کی کھوئی ہوئی چیز کی جستجو میں ہو اور دوسرے کے چوپائے چرانے لگے ہو، اور ایسی چیز کیلئے ہاتھ پیر مار رہے ہو جس کے نہ تم اہل ہو اور نہ تمہارا اس سے کوئی بنیادی لگاؤ ہے۔

فَمَاۤ اَبْعَدَ قَوْلَکَ مِنْ فِعْلِکَ، وَ قَرِیْبٌ مَاۤ اَشْبَهْتَ مِنْ اَعْمَامٍ وَ اَخْوَالٍ، حَمَلَتْهُمُ الشَّقَاوَةُ، وَ تَمَنِّی الْبَاطِلِ عَلَى الْجُحُوْدِ بِمُحَمَّدٍ ﷺ، فَصُرِعُوْا مَصَارِعَهُمْ حَیْثُ عَلِمْتَ، لَمْ یَدْفَعُوْا عَظِیْمًا، وَ لَمْ یَمْنَعُوْا حَرِیْمًۢا بِوَقْعِ سُیُوْفٍ، مَا خَلَا مِنْهَا الْوَغٰى، وَ لَمْ تُمَاشِهَا الْهُوَیْنٰى.

تمہارے قول و فعل میں کتنا فرق ہے اور تمہیں اپنے ان چچاؤں اور ماموؤں سے کتنی قریبی شباہت ہے جنہیں بدبختی و آرزوئے باطل نے محمد ﷺ کے انکار پر ابھارا تھا، جس کے انجام میں وہ قتل ہو ہو کر گرے۔ اور جیسا تمہیں معلوم ہے کہ نہ کسی بلا کو وہ ٹال سکے اور نہ اپنے محفوظ احاطہ کی حفاظت کر سکے، ان تلواروں کی مار سے جن سے میدان وَغا خالی نہیں ہوتا اور جن میں سستی کا گزر نہیں۔

وَ قَدْ اَکْثَرْتَ فِیْ قَتَلَةِ عُثْمَانَ، فَادْخُلْ فِیْمَا دَخَلَ فِیْهِ النَّاسُ، ثُمَّ حَاکِمِ الْقَوْمَ اِلَیَّ، اَحْمِلْکَ وَ اِیَّاهُمْ عَلٰى کِتَابِ اللّٰهِ تَعَالٰى، وَ اَمَّا تِلْکَ الَّتِیْ تُرِیْدُ، فَاِنَّهَا خُدْعَةُ الصَّبِیِّ عَنِ اللَّبَنِ فِیْۤ اَوَّلِ الْفِصَالِ، وَ السَّلَامُ لِاَهْلِهٖ.

اور تم نے عثمان کے قاتلوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے تو پہلے میری بیعت میں داخل ہو جاؤ جس میں سب داخل ہو چکے ہیں۔ پھر میری عدالت میں ان لوگوں پر مقدمہ دائر کرنا، تو میں کتاب خدا کی رو سے تمہارا اور ان کا فیصلہ کر دوں گا۔ لیکن یہ جو تم چاہ رہے ہو تو یہ وہ دھوکا ہے جو بچہ کو دودھ سے روکنے کیلئے دیا جاتا ہے۔ سلام اس پر جو اس کا اہل ہو!۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 December 22 ، 17:24
عون نقوی