بصیرت اخبار

۱۹۰ مطلب با موضوع «نہج البلاغہ :: خطبات» ثبت شده است

فِیْ ذَمِّ اخْتِلَافِ الْعُلَمَآءِ فِی الْفُتْیَا

فتاویٰ میں علماء کے مختلف الآرا ہونے کی مذمت میں فرمایا

تَرِدُ عَلٰۤى اَحَدِهِمُ الْقَضِیَّةُ فِیْ حُکْمٍ مِّنَ الْاَحْکَامِ فَیَحْکُمُ فِیْهَا بِرَاْیِهٖ، ثُمَّ تَرِدُ تِلْکَ الْقَضِیَّةُ بِعَیْنِهَا عَلٰى غَیْرِهٖ فَیَحْکُمُ فِیْهَا بِخِلَافِهٖ، ثُمَّ یَجْتَمِـعُ الْقُضَاةُ بِذٰلِکَ عِنْدَ الْاِمَامِ الَّذِی اسْتَقْضَاهُمْ، فَیُصَوِّبُ اٰرَآءَهُمْ جَمِیْعًا، وَ اِلٰهُهُمْ وَاحِدٌ، وَ نَبِیُّهُمْ وَاحِدٌ، وَ کِتَابُهُمْ وَاحِدٌ.

جب ان میں سے کسی ایک کے سامنے کوئی معاملہ فیصلہ کیلئے پیش ہوتا ہے تو وہ اپنی رائے سے اس کا حکم لگا دیتا ہے۔ پھر وہی مسئلہ بعینہٖ دوسرے کے سامنے پیش ہوتا ہے تو وہ اس پہلے کے حکم کے خلاف حکم دیتا ہے۔ پھر یہ تمام کے تمام قاضی اپنے اس خلیفہ کے پاس جمع ہوتے ہیں جس نے انہیں قاضی بنا رکھا ہے تو وہ سب کی رایوں کو صحیح قرار دیتا ہے، حالانکہ ان کا اللہ ایک، نبی ایک اور کتاب ایک ہے۔

اَفَاَمَرَهُمُ اللهُ تَعَالٰی بِالْاِخْتِلَافِ فَاَطَاعُوْهُ؟ اَمْ نَهَاهُمْ عَنْهُ فَعَصَوْهُ؟ اَمْ اَنْزَلَ اللهُ دِیْنًا نَّاقِصًا فَاسْتَعَانَ بِهِمْ عَلٰۤى اِتْمَامِهٖ؟ اَمْ کَانُوْا شُرَکَآءَ لَهٗ فَلَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا وَ عَلَیْهِ اَنْ یَّرْضٰى؟ اَمْ اَنْزَلَ اللهُ سُبْحَانَهُ دِیْنًا تَامًّا فَقَصَّرَ الرَّسُوْلُ ﷺ عَنْ تَبْلِیْغِهٖ وَ اَدَآئِهٖ؟ وَاللهُ سُبْحَانَهٗ یَقُوْلُ: ﴿مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ﴾، فِیْهِ تِبْیَانُ کُلِّ شَیْءٍ، وَ ذَکَرَ اَنَّ الْکِتَابَ یُصَدِّقُ بَعْضُہٗ بَعْضًا، وَ اَنَّهٗ لَا اخْتِلَافَ فِیْهِ، فَقَالَ سُبْحَانَهٗ: ﴿وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا۝﴾. وَ اِنَّ الْقُرْاٰنَ ظَاهِرُهٗ اَنِیْقٌ وَّ بَاطِنُهٗ عَمِیْقٌ، لَا تَفْنٰى عَجَآئِبُهٗ، وَ لَا تَنْقَضِیْ غَرَآئِبُهٗ، وَ لَا تُکْشَفُ الظُّلُمٰتُ اِلَّا بِهٖ.

(انہیں غور تو کرنا چاہیے) کیا اللہ نے انہیں اختلاف کا حکم دیا تھا اور یہ اختلاف کر کے اس کا حکم بجا لاتے ہیں۔ یا اس نے تو حقیقتاً اختلاف سے منع کیا ہے اور یہ اختلاف کر کے عمداً اس کی نافرمانی کرنا چاہتے ہیں۔ یا یہ کہ اللہ نے دین کو ادھورا چھوڑ دیا تھا اور ان سے تکمیل کیلئے ہاتھ بٹانے کا خواہشمند ہوا تھا۔ یا یہ کہ اللہ کے شریک تھے کہ انہیں اس کے احکام میں دخل دینے کا حق ہو اور اس پر لازم ہو کہ وہ اس پر رضا مند رہے۔ یا یہ کہ اللہ نے تو دین کو مکمل اتارا تھا مگر اس کے رسول ﷺ نے اس کے پہنچانے اور ادا کرنے میں کوتاہی کی تھی۔ اللہ نے قرآن میں تو یہ فرمایا ہے کہ: ’’ہم نے کتاب میں کسی چیز کے بیان کرنے میں کوتاہی نہیں کی‘‘اور اس میں ہر چیز کا واضح بیان کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ: قرآن کے بعض حصے بعض حصوں کی تصدیق کرتے ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ چنانچہ اللہ کا یہ ارشاد ہے کہ: ’’ اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی اور کا بھیجا ہوا ہوتا تو تم اس میں کافی اختلاف پاتے‘‘ اور یہ کہ اس کا ظاہر خوش نما اور باطن گہرا ہے۔ نہ اس کے عجائبات مٹنے والے اور نہ اس کے لطائف ختم ہونے والے ہیں۔ ظلمت (جہالت) کا پردہ اسی سے چاک کیا جاتا ہے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 January 23 ، 15:41
عون نقوی

فِیْ صِفَةِ مَن یَّتَصَدّٰى لِلْحُکْمِ بَیْنَ الْاُمَّةِ وَ لَیْسَ لِذٰلِکَ بِاَهْلٍ:

ان لوگوں کے بارے میں جو اُمت کے فیصلے چکانے کیلئے مسند قضا پر بیٹھ جاتے ہیں حالانکہ وہ اس کے اہل نہیں ہوتے:

اِنَّ اَبْغَضَ الْخَلَآئِقِ اِلَى اللهِ رَجُلَانِ:

تمام لوگوں میں سب سے زیادہ خدا کے نزدیک مبغوض دو شخص ہیں:

رَجُلٌ وَّکَلَهُ اللهُ اِلٰى نَفْسِهٖ، فَهُوَ جَآئِرٌ عَنْ قَصْدِ السَّبِیْلِ، مَشْغُوْفٌۢ بِکَلَامِ بِدْعَةٍ وَّ دُعَآءِ ضَلَالَةٍ، فَهُوَ فِتْنَةٌ لِّمَنِ افْتَتَنَ بِهٖ، ضَالٌّ عَنْ هَدْیِ مَنْ کَانَ قَبْلَهٗ، مُضِلُّ لِّمَنِ اقْتَدٰى بِهٖ فِیْ حَیَاتِهٖ وَ بَعْدَ وَفَاتِهٖ، حَمَّالٌ خَطَایَا غَیْرِهٖ، رَهْنٌۢ بِخَطِیْٓئَتِهٖ.

ایک وہ جسے اللہ نے اس کے نفس کے حوالے کر دیا ہو (یعنی اس کی بداعمالیوں کی وجہ سے اپنی توفیق سلب کر لی) جس کے بعد وہ سیدھی راہ سے ہٹا ہوا، بدعت کی باتوں پر فریفتہ اور گمراہی کی تبلیغ پر مٹا ہوا ہے۔ وہ اپنے ہوا خواہوں کیلئے فتنہ اور سابقہ لوگوں کی ہدایت سے برگشتہ ہے۔ وہ تمام ان لوگوں کیلئے جو اس کی زندگی میں یا اس کی موت کے بعد اس کی پیروی کریں، گمراہ کرنے والا ہے۔ وہ دوسروں کے گناہوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے اور خود اپنی خطاؤں میں جکڑا ہوا ہے۔

وَ رَجُلٌ قَمَشَ جَهْلًا مُّوْضِعٌ فِیْ جُهَّالِ الْاُمَّةِ، عَادٍ فِیْۤ اَغْبَاشِ الْفِتْنَةِ، عَمٍۭ بِمَا فِیْ عَقْدِ الْهُدْنَةِ، قَدْ سَمَّاهُ اَشْبَاهُ النَّاسِ عَالِمًا وَّ لَیْسَ بِهٖ، بَکَّرَ فَاسْتَکْثَرَ مِنْ جَمْعٍ، مَا قَلَّ مِنْهُ خَیْرٌ مِّمَّا کَثُرَ، حَتّٰۤى اِذَا ارْتَوٰى مِنْ مَّآءٍ اٰجِنٍ، وَ اکْتَنَزَ مِن غَیْرِ طَآئِلٍ. جَلَسَ بَیْنَ النَّاسِ قَاضِیًا ضَامِنًا لِّتَخْلِیْصِ مَا الْتَبَسَ عَلٰى غیْرِهٖ، فَاِنْ نَزَلَتْ بِهٖۤ اِحْدَى الْمُبْهَمَاتِ هَیَّاَ لَهَا حَشْوًا رَّثًّا مِّنْ رَّاْیِهٖ، ثُمَّ قَطَعَ بِهٖ، فَهُوَ مِنْ لَّبْسِ الشُّبُهَاتِ فِیْ مِثْلِ نَسْجِ الْعَنْکَبُوْتِ، لَا یَدْرِیْۤ اَصَابَ اَمْ اَخْطَاَ، فَاِنْ اَصَابَ خَافَ اَنْ یَّکُوْنَ قَدْ اَخْطَاَ، وَ اِنْ اَخْطَاَ رَجَاۤ اَنْ یَّکُوْنَ قَدْ اَصَابَ. جَاهِلٌ خَبَّاطُ جَهَالَاتٍ، عَاشٍ رَّکَّابُ عَشَوَاتٍ، لَمْ یَعَضَّ عَلَى الْعِلْمِ بِضِرْسٍ قَاطِعٍ، یُذْرِی الرِّوَایَاتِ اِذْرَآءَ الرِّیْحِ الْهَشِیْمَ. لَا مَلِیٌّ وَاللهِ! بِاِصْدَارِ مَا وَرَدَ عَلَیْهِ، وَ لَا هُوَ اَهْلٌ لِّمَا فُوِّضَ اِلَیْهِ، لَا یَحْسَبُ الْعِلْمَ فِیْ شیْءٍ مِّمَّاۤ اَنْکَرَهٗ، وَ لَا یَرٰى اَنَّ مِنْ وَّرَآءِ مَا بَلَغَ مَذْهَبًا لِّغَیْرهٖ، وَ اِنْ اَظْلَمَ عَلَیْهِ اَمْرٌ اکْتَتَمَ بِهٖ لِمَا یَعْلَمُ مِنْ جَهْلِ نَفْسِهٖ، تَصْرُخُ مِنْ جَوْرِ قَضَآئِهِ الدِّمَآءُ، وَ تَعِجُّ مِنْهُ الْمَوَارِیْثُ.

اور دوسرا شخص وہ ہے جس نے جہالت کی باتوں کو (اِدھر اُدھر سے) بٹور لیا ہے۔ وہ اُمت کے جاہل افراد میں دوڑ دھوپ کیا کرتا ہے اور فتنوں کی تاریکیوں میں غافل و مدہوش پڑا رہتا ہے اور امن و آشتی کے فائدوں سے آنکھ بند کر لیتا ہے۔ چند انسانی شکل و صورت سے ملتے جلتے ہوئے لوگوں نے اسے عالم کا لقب دے رکھا ہے، حالانکہ وہ عالم نہیں۔ وہ ایسی (بے سود) باتوں کے سمیٹنے کیلئے منہ اندھیرے نکل پڑتا ہے جن کا نہ ہونا ہونے سے بہتر ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ اس گندے پانی سے سیراب ہو لیتا ہے اور لا یعنی باتوں کو جمع کر لیتا ہے تو لوگوں میں قاضی بن کر بیٹھ جاتا ہے اور دوسروں پر مشتبہ رہنے والے مسائل کے حل کرنے کا ذمہ لے لیتا ہے۔ اگر کوئی الجھا ہوا مسئلہ اس کے سامنے پیش ہوتا ہے تو اپنی رائے سے اس کیلئے بھرتی کی فرسودہ دلیلیں مہیا کر لیتا ہے اور پھر اس پر یقین بھی کر لیتا ہے۔ اس طرح وہ شبہات کے الجھاؤ میں پھنسا ہوا ہے جس طرح مکڑی خود اپنے ہی جالے کے اندر۔ وہ خود یہ نہیں جانتا کہ اس نے صحیح حکم دیا ہے یا غلط۔ اگر صحیح بات بھی کہی ہو تو اسے یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں غلط نہ ہو اور غلط جواب ہو تو اسے یہ توقع رہتی ہے کہ شاید یہی صحیح ہو۔ وہ جہالتوں میں بھٹکنے والا جاہل اور اپنی نظر کے دھندلا پن کے ساتھ تاریکیوں میں بھٹکنے والی سواریوں پر سوار ہے۔ نہ اس نے حقیقت علم کو پرکھا نہ اس کی تہ تک پہنچا۔ وہ روایات کو اس طرح درہم و برہم کرتا ہے جس طرح ہوا سوکھے ہوئے تنکوں کو۔ خدا کی قسم! وہ ان مسائل کے حل کرنے کا اہل نہیں جو اس سے پوچھے جاتے ہیں۔ اور نہ اس منصب کے قابل ہے جو اسے سپرد کیا گیا ہے۔ جس چیز کو وہ نہیں جانتا اس چیز کو وہ کوئی قابلِ اعتنا علم ہی نہیں قرار دیتا اور جہاں تک وہ پہنچ سکتا ہے اس کے آگے یہ سمجھتا ہی نہیں کہ کوئی دوسرا پہنچ سکتا ہے اور جو بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی اسے پی جاتا ہے، کیونکہ وہ اپنی جہالت کو خود جانتا ہے۔ (ناحق بہائے ہوئے) خون اس کے ناروا فیصلوں کی وجہ سے چیخ رہے ہیں اور غیر مستحق افراد کو پہنچی ہوئی میراثیں چلا رہی ہیں۔

اِلَى اللهِ اَشْکُوْ مِنْ مَّعْشَرٍ یَّعِیْشُوْنَ جُهَّالًا، وَ یَمُوْتُوْنَ ضُلَّالًا، لَیْسَ فِیْهِمْ سِلْعَةٌ اَبْوَرُمِنَ الْکِتَابِ اِذَا تُلِیَ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ، وَلَا سِلْعَةٌ اَنْفَقُ بَیْعًا وَّ لَاۤ اَغْلٰى ثَمَنًا مِّنَ الْکِتَابِ اِذَا حُرِّفَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ، وَ لَا عِنْدَهُمْ اَنْکَرُ مِنَ الْمَعْرُوْفِ، وَ لَاۤ اَعْرَفُ مِنَ الْمُنکَرِ.

اللہ ہی سے شکوہ ہے ان لوگوں کا جو جہالت میں جیتے ہیں اور گمراہی میں مر جاتے ہیں۔ ان میں قرآن سے زیادہ کوئی بے قیمت چیز نہیں، جبکہ اسے اس طرح پیش کیا جائے جیسا پیش کرنے کا حق ہے اور اس قرآن سے زیادہ ان میں کوئی مقبول اور قیمتی چیز نہیں، اس وقت جب کہ اس کی آیتوں کا بے محل استعمال کیا جائے۔ ان کے نزدیک نیکی سے زیادہ کوئی برائی اور برائی سے زیادہ کوئی نیکی نہیں۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 January 23 ، 15:39
عون نقوی

لَمَّا بُوْیِـعَ بِالْمَدِیْنـَةِ

جب مدینہ میں آپؑ کی بیعت ہوئی تو فرمایا

ذِمَّتِیْ بِمَاۤ اَقُوْلُ رَهِیْنَةٌ، ﴿وَ اَنَا بِهٖ زَعِیْمٌ۝﴾. اِنَّ مَنْ صَرَّحَتْ لَهُ الْعِبَرُ عَمَّا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ الْمَثُلَاتِ حَجَزَتْہُ التَّقْوٰى عَنْ تَقَحُّمِ الشُّبُهَاتِ، اَلَا وَ اِنَّ بَلِیَّتَکُمْ قَدْ عَادَتْ کَهَیْئَتِهَایَوْمَ بَعَثَ اللهُ نَبِیَّکُمْ ﷺ، وَ الَّذِیْ بَعَثَهٗ بِالْحَقِّ لَتُبَلْبَلُنَّ بَلْبَلَةً، وَ لَتُغَرْبَلُنَّ غَرْبَلَةً وَ لَتُسَاطُنَّ سَوْطَ الْقِدْرِ حَتّٰى یَعُوْدَ اَسْفَلُکُمْ اَعْلَاکُمْ، وَ اَعْلَاکُمْ اَسْفَلَکُمْ، وَ لَیَسْبِقَنَّ سَابِقُوْنَ کَانُوْا قَصُرُوْا، وَ لَیَقْصُرَنَّ سَبَّاقُوْنَ کَانُوْا سَبَقُوْا. وَاللهِ! مَا کَتَمْتُ وَشْمَةً وَّ لَا کَذَبْتُ کِذْبَةً، وَ لَقَدْ نُبِّئْتُ بِهٰذَا الْمَقَامِ وَ هٰذَا الْیَوْمِ.

میں اپنے قول کا ذمہ دار اور اس کی صحت کا ضامن ہوں۔ جس شخص کو اس کے دیدۂ عبرت نے گزشتہ عقوبتیں واضح طور سے دکھا دی ہوں، اسے تقویٰ شبہات میں اندھا دھند کودنے سے روک لیتا ہے۔ تمہیں جاننا چاہیے کہ تمہارے لئے وہی ابتلاآت پھر پلٹ آئے ہیں جو رسول ﷺ کی بعثت کے وقت تھے۔ اس ذات کی قسم جس نے رسول ﷺ کو حق و صداقت کے ساتھ بھیجا! تم بری طرح تہ و بالا کئے جاؤ گے اور اس طرح چھانٹے جاؤ گے جس طرح چھلنی سے کسی چیز کو چھانا جاتا ہے اور اس طرح خلط ملط کئے جاؤ گے جس طرح (چمچے سے) ہنڈیا، یہاں تک کہ تمہارے ادنیٰ اعلیٰ اور اعلیٰ ادنیٰ ہو جائیں گے جو پیچھے تھے آگے بڑھ جائیں گے اور جو ہمیشہ آگے رہتے تھے وہ پیچھے چلے جائیں گے۔ خدا کی قسم! میں نے کوئی بات پردے میں نہیں رکھی، نہ کبھی کذب بیانی سے کام لیا۔ مجھے اس مقام اور اس دن کی پہلے ہی سے خبر دی جا چکی ہے۔

اَلَا وَ اِنَّ الْخَطَایَا خَیْلٌ شُمُسٌ حُمِلَ عَلَیْهَاۤ اَهْلُهَا، وَ خُلِعَتْ لُجُمُهَا فَتَقَحَّمَتْ بِهِمْ فِی النَّارِ، اَلَا وَ اِنَّ التَّقْوٰى مَطَایَا ذُلُلٌ حُمِلَ عَلَیْهَاۤ اَهْلُهَا، وَ اُعْطُوْاۤ اَزِمَّتَها، فَاَوْرَدَتْهُمُ الْجَنَّةَ.

معلوم ہونا چاہیے کہ گناہ ان سرکش گھوڑوں کے مانند ہیں جن پر ان کے سواروں کو سوار کر دیا گیا ہو اور باگیں بھی ان کی اتار دی گئی ہوں اور وہ لے جا کر انہیں دوزخ میں پھاند پڑیں۔ اور تقویٰ رام کی ہوئی سواریوں کے مانند ہے جن پر ان کے سواروں کو سوار کیا گیا ہو، اس طرح کہ باگیں ان کے ہاتھ میں دے دی گئی ہوں اور وہ انہیں (با اطمینان) لے جا کر جنت میں اتار دیں۔

حَقٌّ وَّ بَاطِلٌ، وَ لِکُلٍّ اَهْلٌ، فَلَئِنْ اَمِرَ الْبَاطِلُ لَقَدِیْمًا فَعَلَ، وَ لَئِنْ قَلَّ الْحَقُّ فَلَرُبَّمَا وَ لَعَلَّ، وَ لَقَلَّمَاۤ اَدْبَرَ شَیْءٌ فَاَقْبَلَ.

ایک حق ہوتا ہے اور ایک باطل اور کچھ حق والے ہوتے ہیں، کچھ باطل والے۔ اب اگر باطل زیادہ ہو گیا تو یہ پہلے بھی بہت ہوتا رہا ہے اور اگر حق کم ہو گیا ہے تو بسا اوقات ایسا ہوا ہے اور بہت ممکن ہے کہ وہ اس کے بعد باطل پر چھا جائے۔ اگرچہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی چیز پیچھے ہٹ کر آگے بڑھے۔

اَقُوْلُ: اِنَّ فِیْ هٰذَا الْکَلَامِ الْاَدْنٰى مِنْ مَّوَاقِعِ الْاِحْسَانِ مَا لَا تَبْلُغُهٗ مَوَاقِعُ الْاِسْتِحْسَانِ، وَ اِنَّ حَظَّ الْعَجَبِ مِنْهُ اَکْثَرُ مِنْ حَظِّ الْعَجَبِ بِهٖ، وَ ــ فِیْهِ مَعَ الْحَالِ الَّتِیْ وَصَفْنَا ــ زَوَآئِدُ مِنَ الْفَصَاحَةِ، لَا یَقُوْمَ بِهَا لِسَانٌ ، وَ لَا یَطَّلِعُ فَجَّهَا اِنْسَانٌ، وَ لَا یَعْرِفُ مَاۤ اَقُوْلُ اِلَّا مَنْ ضَرَبَ فِیْ هٰذِهِ الصِّنَاعَةِ بِحَقٍّ، وَ جَرٰى فِیْهَا عَلٰى عِرْقٍ، ﴿وَ مَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ۝﴾.

علامہ رضیؒ فرماتے ہیں کہ: اس مختصر سے کلام میں واقعی خوبیوں کے اتنے مقام ہیں کہ احساس خوبی کا اس کے تمام گوشوں کو پا نہیں سکتا اور اس کلام سے حیرت و استعجاب کا حصہ پسندیدگی کی مقدار سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس حالت کے باوجود جو ہم نے بیان کی ہے اس میں فصاحت کے اتنے بے شمار پہلو ہیں کہ جن کے بیان کرنے کا یارا نہیں، نہ کوئی انسان اس کی عمیق گہرائیوں تک پہنچ سکتا ہے۔ میری اس بات کو وہی جان سکتا ہے جس نے اس فن کا پورا پورا حق ادا کیا ہو اور اس کے رگ و ریشہ سے واقف ہو اور’’جاننے والوں کے سوا کوئی ان کو نہیں سمجھ سکتا‘‘۔

[وَ مِنْ هٰذِهِ الْخُطْبَةِ]

[اسی خطبے کا ایک حصہ یہ ہے:]

شُغِلَ مَنِ الْجَنَّةُ وَ النَّارُ اَمَامَهٗ، سَاعٍ سَرِیْعٌ نَجَا، وَ طَالِبٌۢ بَطِیْءٌ رَّجَا، وَ مُقَصِّرٌ فِی النَّارِ هَوٰى. الْیَمِیْنُ وَ الشِّمَالُ مَضَلَّةٌ، وَ الطَّرِیْقُ الْوُسْطٰى هِیَ الْجَادَّةُ عَلَیْهَا بَاقِی الْکِتَابِ وَ اٰثَارُ النُّبُوَّةِ، وَ مِنْهَا مَنْفَذُ السُّنَّةِ، وَ اِلَیْهَا مَصِیْرُ الْعَاقِبَةِ.

جس کے پیشِ نظر دوزخ و جنت ہو، اس کی نظر کسی اور طرف نہیں اٹھ سکتی، جو تیز قدم دوڑنے والا ہے وہ نجات یافتہ ہے اور جو طلبگار ہو، مگر سست رفتار اسے بھی توقع ہو سکتی ہے، مگر جو (ارادةً) کو تاہی کرنے والا ہو اسے تو دوزخ ہی میں گرنا ہے۔دائیں بائیں گمراہی کی راہیں ہیں اور درمیانی راستہ ہی صراطِ مستقیم ہے۔ اس راستے پر اللہ کی ہمیشہ رہنے والی کتاب اور نبوت کے آثار ہیں۔ اسی سے شریعت کا نفاذ و اجرا ہوا اور اسی کی طرف آخر کار بازگشت ہے۔

هَلَکَ مَنِ ادَّعٰى، وَ خَابَ مَنِ افْتَرٰى، مَنْ اَبْدٰى صَفْحَتَهٗ لِلْحَقِّ هَلَکَ، وَ کَفٰى بِالْمَرْءِ جَهْلًاۤ اَلَّا یَعْرِفَ قَدْرَهٗ، لَایَهْلِکُ عَلَى التَّقْوٰى سِنْخُ اَصْلٍ، وَ لَا یَظْمَاُ عَلَیْهَا زَرْعُ قَوْمٍ. فَاسْتَتِرُوْا فِیْ بُیُوْتِکُمْ، ﴿وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْ۪ ﴾، وَ التَّوْبَةُ مِنْ وَّرَآئِکُمْ، وَ لَا یَحْمَدْ حَامِدٌ اِلَّا رَبَّهٗ، وَ لَا یَلُمْ لَآئِمٌ اِلَّا نَفْسَهٗ.

جس نے (غلط) ادّعا کیا وہ تباہ و برباد ہوا اور جس نے افترا باندھا وہ ناکام و نامراد رہا جو حق کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے تباہ ہو جاتا ہے اور انسان کی جہالت اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ وہ اپنی قدر و منزلت کو نہ پہچانے وہ اصل و اساس، جو تقویٰ پر ہو برباد نہیں ہوتی اور اس کے ہوتے ہوئے کسی قوم کی کشت (عمل) بے آب و خشک نہیں رہتی۔ تم اپنے گھر کے گوشوں میں چھپ کر بیٹھ جاؤ، آپس کے جھگڑوں کی اصلاح کرو، توبہ تمہارے عقب میں ہے۔ حمد کرنے والا صرف اپنے پروردگار کی حمد کرے اور بھلا برا کہنے والا اپنے ہی نفس کی ملامت کرے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 January 23 ، 15:35
عون نقوی

فِیْ ذَمِّ اَھْلِ الْبَصْرَةِ

اہل بصرہ کی مذمت میں

کُنْتُمْ جُنْدَ الْمَرْاَةِ وَ اَتْبَاعَ الْبَهِیْمَةِ، رَغَا فَاَجَبْتُمْ، وَ عُقِرَ فَهَرَبْتُمْ. اَخْلَاقُکُمْ دِقَاقٌ وَّ عَهْدُکُمْ شِقَاقٌ، وَ دِیْنُکُمْ نِفَاقٌ، وَ مَآؤُکُمْ زُعَاقٌ، وَ الْمُقِیْمُ بَیْنَ اَظْهُرِکُمْ مُرْتَهَنٌۢ بِذَنْۢبِهٖ، وَ الشَّاخِصُ عَنْکُمْ مُتَدَارَکٌۢ بِرَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ. کَاَنِّیْ بِمَسْجِدِکُمْ کَجُؤْجُؤِ سَفِیْنَةٍ، قَدْ بَعَثَ اللهُ عَلَیْهَا الْعَذَابَ مِنْ فَوْقِهَا وَ مِنْ تَحْتِهَا، وَ غَرِقَ مَنْ فِیْ ضِمْنِهَا.

تم ایک عورت کی سپاہ اور ایک چوپائے کے تابع تھے۔ وہ بلبلایا تو تم لبیک کہتے ہوئے بڑھے اور وہ زخمی ہوا تو تم بھاگ کھڑے ہوئے۔ تم پست اخلاق و عہد شکن ہو۔ تمہارے دین کا ظاہر کچھ ہے اور باطن کچھ۔ تمہاری سر زمین کا پانی تک شور ہے۔ تم میں اقامت کرنے والا گناہوں کے جال میں جکڑا ہوا ہے اور تم میں سے نکل جانے والا اپنے پروردگار کی رحمت کو پالینے والا ہے۔ وہ (آنے والا) منظر میری آنکھوں میں پھر رہا ہے، جبکہ تمہاری مسجد یوں نمایاں ہو گی جس طرح کشتی کا سینہ در آنحالیکہ اللہ نے تمہارے شہر پر اس کے اوپر اور اس کے نیچے سے عذاب بھیج دیا ہو گا اور وہ اپنے رہنے والوں سمیت ڈوب چکا ہو گا۔

[وَ فِیْ رِوَایَةٍ]

[ایک اور روایت میں یوں ہے:]

وَایْمُ اللهِ لَتَغْرَقَنَّ بَلْدَتُکُمْ حَتّٰۤى کَاَنِّیْۤ اَنْظُرُ اِلٰى مَسْجِدِهَا کَجُؤْجُؤِ سَفِیْنَةٍ، اَوْ نَعَامَةٍ جَاثِمَةٍ.

خدا کی قسم! تمہارا شہر غرق ہو کر رہے گا، اس حد تک کہ اس کی مسجد کشتی کے اگلے حصے یا سینے کے بل بیٹھے ہوئے شتر مرغ کی طرح گویا مجھے نظر آرہی ہے۔

[وَ فِیْ رِوَایَةٍ]

[ایک اور روایت میں اس طرح ہے:]

کَجُؤْجُؤِ طَیْرٍ فِیْ لُجَّةِ بَحْرٍ.

جیسے پانی کے گہراؤ میں پرندے کا سینہ۔

[وَ فِیْ رِوَایَةٍ اُخْرٰى]

[ایک اور روایت میں اس طرح ہے:]

بِلَادُکُمْ اَنْتَنُ بِلَادِ اللهِ تُرْبَةً، اَقرَبُهَا مِنَ الْمَاءِ وَ اَبْعَدُهَا مِنَ السَّمَآءِ وَ بِهَا تِسْعَةُ اَعْشَارِ الشَّرِّ، الْمُحْتَبَسُ فِیْهَا بِذَنْۢبِهٖ، وَ الْخَارِجُ بِعَفْوِ اللهِ. کَاَنِّیْۤ اَنْظُرُ اِلٰی قَرْیَتِکُمْ هٰذِهٖ قَد طَبَّقَهَا الْمَآءُ، حَتّٰی مَا یُرٰی مِنْهَا اِلَّا شُرَفُ الْمَسْجِدِ، کَاَنَّہٗ جُؤْجُؤُ طَیْرٍ فِیْ لُجَّةِ بَحْرٍ.

تمہارا شہر اللہ کے سب شہروں سے مٹی کے لحاظ سے گندا اور بدبودار ہے۔ یہ (سمندر کے) پانی سے قریب اور آسمان سے دور ہے۔ برائی کے دس حصوں میں سے نو حصے اس میں پائے جاتے ہیں جو اس میں آ پہنچا وہ اپنے گناہوں میں اسیر ہے اور جو اس سے چل دیا عفو الٰہی اس کے شریک حال رہا۔ گویا میں اپنی آنکھوں سے اس بستی کو دیکھ رہا ہوں کہ سیلاب نے اسے اس حد تک ڈھانپ لیا ہے کہ مسجد کے کنگروں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور وہ یوں معلوم ہوتے ہیں جیسے سمندر کے گہراؤ میں پرندے کا سینہ۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 January 23 ، 15:32
عون نقوی

لَمَّاۤ اَظْفَرَهُ اللّٰهُ بِاَصْحَابِ الْجَمَلِ وَ قَدْ قَالَ لَهٗ بَعْضُ اَصْحَابِهٖ: وَدِدْتُّ اَنَّ اَخِیْ فُلَانًا کَانَ شَاهِدَنَا لِیَرٰى مَا نَصَرَکَ اللّٰهُ بِهٖۤ عَلٰۤى اَعْدَآئِکَ. فَقَالَ لَهُ ؑ:

جب خداوند عالم نے آپؑ کو جمل والوں پر غلبہ عطا کیا تو اس موقعہ پر آپؑ کے ایک صحابی نے آپؑ سے عرض کیا کہ میرا فلاں بھائی بھی یہاں موجود ہوتا تو وہ بھی دیکھتا کہ اللہ نے کیسی آپؑ کو دشمنوں پر فتح و کامرانی عطا فرمائی ہے تو حضرتؑ نے فرمایا کہ:

اَ هَوٰى اَخِیْکَ مَعَنَا؟

’’کیا تمہارا بھائی ہمیں دوست رکھتا ہے؟‘‘

فَقَالَ: نَعَمْ. قَالَ ؑ:

اس نے کہا کہ ہاں، تو آپؑ نے فرمایا کہ:

فَقَدْ شَهِدَنَا، وَ لَقَدْ شَهِدَنَا فِیْ عَسْکَرِنَا هٰذَاۤ اَقْوَامٌ فِیْۤ اَصْلَابِ الرِّجَالِ وَ اَرْحَامِ النِّسَآءِ، سَیَرْعَفُ بِهِمُ الزَّمَانُ، وَ یَقْوٰى بِهِمُ الْاِیْمَانُ.

وہ ہمارے پاس موجود تھا بلکہ ہمارے اس لشکر میں وہ اشخاص بھی موجود تھے جو ابھی مردوں کی صلب اور عورتوں کے شکم میں ہیں۔ عنقریب زمانہ انہیں ظاہر کرے گا اور ان سے ایمان کو تقویت پہنچے گی۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 January 23 ، 15:29
عون نقوی