بصیرت اخبار

۱۹۰ مطلب با موضوع «نہج البلاغہ :: خطبات» ثبت شده است

اَلَا وَ اِنَّ الشَّیْطٰنَ قَدْ جَمَعَ حِزْبَهٗ، وَ اسْتَجْلَبَ خَیْلَهٗ وَرَجْلَهٗ، وَاِنَّ مَعِیْ لَبَصِیْرَتِیْ. مَا لَبَّسْتُ عَلٰى نَفْسِیْ وَ لَا لُبِّسَ عَلَیَّ. وَایْمُ اللهِ! لَاُفْرِطَنَّ لَهُمْ حَوْضًا اَنَا مَاتِحُهٗ، لَا یَصْدُرُوْنَ عَنْهُ وَ لَا یَعُوْدُوْنَ اِلَیْهِ.

شیطان نے اپنے گروہ کو جمع کر لیا ہے اور اپنے سوار و پیادے سمیٹ لئے ہیں۔ میرے ساتھ یقیناً میری بصیرت ہے نہ میں نے خود (جان بوجھ کر) کبھی اپنے کو دھوکا دیا اور نہ مجھے واقعی کبھی دھوکا ہوا۔ خدا کی قسم میں ان کیلئے ایک ایسا حوض چھلکاؤں گا جس کا پانی نکالنے والا میں ہوں، انہیں ہمیشہ کیلئے نکلنے یا (نکل کر) پھر واپس آنے کا کوئی امکان ہی نہ ہو گا۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 January 23 ، 15:26
عون نقوی

لَمَّا قُبِضَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَ خَاطَبَهُ الْعَبَّاسُ وَ اَبُوْ سُفْیَانَ بْنُ حَرْبٍ فِیْۤ اَنْ یُّبَایِعَا لَهٗ بِالْخِلَافَةِ:

جب رسول اللہ ﷺنے دنیا سے رحلت فرمائی تو عباس اور ابو سفیان ابن حرب نے آپؑ سے عرض کیا کہ ہم آپؑ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں جس پر حضرتؑ نے فرمایا

اَیُّهَا النَّاسُ! شُقُّوْۤا اَمْوَاجَ الْفِتَنِ بِسُفُنِ النَّجَاةِ، وَ عَرِّجُوْا عَنْ طَرِیْقِ الْـمُنَافَرَةِ، وَ ضَعُوْا عَنْ تِیْجَانِ الْـمُفَاخَرَةِ. اَفْلَحَ مَنْ نَّهَضَ بِجَنَاحٍ، اَوِ اسْتَسْلَمَ فَاَرَاحَ، هٰذَا مَآءٌ اٰجِنٌ، وَ لُقْمَةٌ یَّغَصُّ بِهَا اٰکِلُهَا، وَ مُجْتَنِی الثَّمَرَةِ لِغَیْرِ وَقْتِ اِیْنَاعِهَا کَالزَّارِعِ بِغَیْرِ اَرْضِهٖ.

اے لوگو ! فتنہ و فساد کی موجوں کو نجات کی کشتیوں سے چیر کر اپنے کو نکال لے جاؤ، تفرقہ و انتشار کی راہوں سے اپنا رخ موڑ لو، فخر و مباہات کے تاج اتار ڈالو، صحیح طریقہ عمل اختیار کرنے میں کامیاب وہ ہے جو اٹھے تو پر وبال کے ساتھ اٹھے اور نہیں تو (اقتدار کی کرسی) دوسروں کیلئے چھوڑ بیٹھے اور اس طرح خلق خدا کو بد امنی سے راحت میں رکھے۔ یہ (اس وقت طلب ِخلافت کیلئے کھڑا ہونا) ایک گدلا پانی اور ایسا لقمہ ہے جو کھانے والے کے گلو گیر ہو کر رہے گا۔ پھلوں کو ان کے پکنے سے پہلے چننے والا ایسا ہے جیسے دوسروں کی زمین میں کاشت کرنے والا۔

فَاِنْ اَقُلْ یَقُوْلُوْا: حَرَصَ عَلَى الـمُلْکِ، وَ اِنْ اَسْکُتْ یَقُوْلُوْا: جَزَعَ مِنَ الْمَوْتِ! هَیْهَاتَ بَعْدَ اللَّتَیَّا وَ الَّتِیْ! وَ اللهِ! لَابْنُ اَبِیْ طَالِبٍ اٰنَسُ بِالْمَوْتِ مِنَ الطِّفْلِ بِثَدْیِ اُمِّهٖ، بَلِ انْدَمَجْتُ عَلٰى مَکْنُوْنِ عِلْمٍ لَوْ بُحْتُ بِهٖ لَاضْطَرَبْتُمُ اضْطِرَابَ الْاَرْشِیَةِ فِی الطَّوِیِّ الْبَعِیْدَةِ.

اگر بولتا ہوں تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ دنیوی سلطنت پر مٹے ہوئے ہیں اور چپ رہتا ہوں تو کہتے ہیں کہ موت سے ڈر گئے۔ افسوس! اب یہ بات جب کہ میں ہر طرح کے نشیب و فراز دیکھے بیٹھا ہوں۔ خدا کی قسم! ابو طالبؑ کا بیٹا موت سے اتنا مانوس ہے کہ بچہ اپنی ماں کی چھاتی سے اتنا مانوس نہیں ہوتا البتہ ایک علم پوشیدہ میرے سینے کی تہوں میں لپٹا ہوا ہے کہ اسے ظاہر کر دوں تو تم اسی طرح پیچ و تاب کھانے لگو جس طرح گہرے کنوؤں میں رسیاں لرزتی اور تھرتھراتی ہیں۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 January 23 ، 15:23
عون نقوی

بِنَا اهْتَدَیْتُمْ فِی الظَّلْمَآءِ، وَ تَسَنَّمْتُمُ الْعَلْیَآءِ، وَ بِنَا انْفَجَرْتُمْ عَنِ الْسَّرَارِ.

ہماری وجہ سے تم نے (گمراہی) کی تیرگیوں میں ہدایت کی روشنی پائی اور رفعت و بلندی کی چوٹیوں پر قدم رکھا اور ہمارے سبب سے اندھیری راتوں کو اندھیاریوں سے صبح (ہدایت) کے اجالوں میں آ گئے۔

وُقِرَ سَمْعٌ لَّمْ یَفْقَهِ الْوَاعِیَةَ، وَ کَیْفَ یُرَاعِی النَّبَاَةَ مَنْ اَصْمَتْهُ الصَّیْحَةُ، رُبِطَ جَنَانٌ لَّمْ یُفَارِقْهُ الْخَفَقَانُ، مَا زِلْتُ اَنْتَظِرُ بِکُمْ عَوَاقِبَ‏ الْغَدْرِ، وَ اَتَوَسَّمُکُمْ بِحِلْیَةِ الْمُغْتَرِّیْنَ، سَتَرَنِیْ عَنْکُمْ جِلْبَابُ الدِّیْنِ، وَ بَصَّرَنِیْکُمْ صِدْقُ النِّیَّةِ. اَقَمْتُ لَکُمْ عَلٰى سَنَنِ الْحَقِّ فِیْ جَوَادِّ الْمَضَلَّةِ، حَیْثُ تَلْتَقُوْنَ وَ لَا دَلِیْلَ وَ تَحْتَفِرُوْنَ وَ لَا تُمِیْهُوْنَ.

وہ کان بہرے ہو جائیں جو چلانے والے کی چیخ پکار کو نہ سنیں، بھلا وہ کیونکر میری کمزور اور دھیمی آواز کو سن پائیں گے جو اللہ و رسولؐ کی بلند بانگ صداؤں کے سننے سے بھی بہرے رہ چکے ہوں۔ ان دلوں کو سکون و قرار نصیب ہو جن سے خوفِ خدا کی دھڑکنیں الگ نہیں ہوتیں۔ میں تم سے ہمیشہ غدر و بیوفائی ہی کے نتائج کا منتظر رہا اور فریب خوردہ لوگوں کے سے رنگ ڈھنگ کے ساتھ تمہیں بھانپ لیا تھا۔ اگرچہ دین کی نقاب نے مجھ کو تم سے چھپائے رکھا، لیکن میری نیت کے صدق و صفا نے تمہاری صورتیں مجھے دکھا دی تھیں۔ میں بھٹکانے والی راہوں میں تمہارے لئے جادۀ حق پر کھڑا تھا جہاں تم ملتے ملاتے تھے مگر کوئی راہ دکھانے والا نہ تھا، تم کنواں کھودتے تھے مگر پانی نہیں نکال سکتے تھے۔

اَلْیَوْمَ اُنْطِقُ لَکُمُ الْعَجْمَآءَ ذَاتَ الْبَیَانِ، غَرَبَ رَاْیُ امْرِئٍ تَخَلَّفَ عَنِّیْ، مَا شَکَکْتُ فِی الْحَقِّ مُذْ اُرِیْتُهٗ، لَمْ یُوْجِسْ مُوْسٰى عَلَیْهِ‏ السَّلَامُ خِیْفَةً عَلٰى نَفْسِهٖ، اَشْفَقَ مِنْ غَلَبَةِ الْجُهَّالِ وَ دِوَلِ الضَّلَالِ، الْیَوْمَ تَوَاقَفْنَا عَلٰى سَبِیْلِ الْحَقِّ وَ الْبَاطِلِ مَنْ وَّثِقَ بِمَآءٍ لَّمْ یَظْمَاْ.

آج میں نے اپنی اس خاموش زبان کو جس میں بڑی بیان کی قوت ہے، گویا کیا ہے۔ اس شخص کی رائے کیلئے دوری ہو جس نے مجھ سے کنارہ کشی کی۔ جب سے مجھے حق دکھایا گیا ہے میں نے کبھی اس میں شک و شبہ نہیں کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی جان کیلئے خوف کا لحاظ کبھی نہیں کیا، بلکہ جاہلوں کے غلبہ اور گمراہی کے تسلط کا ڈر تھا (اسی طرح میری اب تک کی خاموشی کو سمجھنا چاہئے)۔ آج ہم اور تم حق و باطل کے دوراہے پر کھڑے ہوئے ہیں، جسے پانی کا اطمینان ہو وہ پیاس نہیں محسوس کرتا، (اسی طرح میری موجودگی میں تمہیں میری قدر نہیں)۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 January 23 ، 15:20
عون نقوی

وَ ھِیَ الْمَعْرُوْفَةُ بِالشِّقْشِقِیَّةِ

یہ خطبہ ’’ شقشقیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔

اَمَا وَ اللهِ! لَقَدْ تَقَمَّصَهَا ابْنُ اَبِیْ قُحَافَۃَ، وَ اِنَّهٗ لَیَعْلَمُ اَنَّ مَحَلِّیْ مِنهَا مَحَلُّ الْقُطْبِ مِنَ الرَّحٰی، یَنْحَدِرُ عَنِّی السَّیْلُ، وَ لَا یَرْقٰى اِلَیَّ الطَّیْرُ، فَسَدَلْتُ دُوْنَهَا ثَوْبًا، وَ طَوَیْتُ عَنْهَا کَشْحًا، وَ طَفِقْتُ اَرْتَئِیْ بَیْنَ اَنْ اَصُوْلَ بِیَدٍ جَذَّآءَ، اَوْ اَصْبِرَ عَلٰى طَخْیَةٍ عَمْیَآءَ، یَهْرَمُ فِیْهَا الْکَبِیْرُ، وَ یَشِیْبُ فِیْهَا الصَّغِیْرُ، وَ یَکْدَحُ فِیْهَا مُؤْمِنٌ حَتّٰى یَلْقٰى رَبَّهٗ. فَرَاَیْتُ اَنَّ الصَّبْرَ عَلٰى هَاتَاۤ اَحْجٰى، فَصَبَرتُ وَ فِی الْعَیْنِ قَذًى،وَ فِی الْحَلْقِ شَجًا، اَرٰى تُرَاثِیْ نَهْبًا.

خدا کی قسم! فرزند ابو قحافہ نے پیراہنِ خلافت پہن لیا، حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلافت میں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیلی کا ہوتا ہے۔ میں وہ (کوہ بلند ہوں) جس پر سے سیلاب کا پانی گزر کر نیچے گر جاتا ہے اور مجھ تک پرندہ پر نہیں مار سکتا۔ (اس کے باوجود) میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکا دیا اور اس سے پہلو تہی کر لی اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کر لوں، جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہو جاتا ہے اور مومن اس میں جدوجہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرینِ عقل نظر آیا۔ لہٰذا میں نے صبر کیا، حالانکہ آنکھوں میں (غبار اندوہ کی )خلش تھی اور حلق میں (غم و رنج کے) پھندے لگے ہوئے تھے۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا۔

حَتّٰى مَضَى الْاَوَّلُ لِسَبِیْلِهٖ، فَاَدْلٰى بِهَا اِلَى ابْنِ الْخَطَّابِ بَعْدَهٗ.

یہاں تک کہ پہلے نے اپنی راہ لی اور اپنے بعد خلافت ابنِ خطاب کو دے گیا۔

ثُمَّ تَمَثَّلَ بَقَوْلِ الْاَعْشٰى:

پھر حضرتؑ نے بطورِ تمثیل اعشیٰ کا یہ شعر پڑھا:

شَتَّانَ مَا یَوْمِیْ عَلٰى کُوْرِهَا

’’کہاں یہ دن جو ناقہ کے پالان پر کٹتا ہے اور کہاں وہ دن جو حیان برادرِ جابر کی صحبت میں گزرتا تھا‘‘۔

وَ یَوْمُ حَیَّانَ اَخِیْ جَابِرِ

فَیَا عَجَبًا! بَیْنَا هُوَ یَسْتَقِیْلُهَا فِیْ حَیَاتِهٖ اِذْ عَقَدَهَا لِاٰخَرَ بَعْدَ وَفَاتِهٖ، لَشَدَّ مَا تَشَطَّرَا ضَرْعَیْهَا! فَصَیَّرَهَا فِیْ حَوْزَةٍ خَشْنَآءَ، یَغْلُظُ کَلْمُهَا وَ یَخْشُنُ مَسُّهَا، وَ یَکْثُرُ الْعِثَارُ فِیْهَا وَ الْاِعْتِذَارُ مِنْهَا، فَصَاحِبُهَا کَرَاکِبِ الصَّعْبَةِ، اِنْ اَشْنَقَ لَهَا خَرَمَ وَ اِنْ اَسْلَسَ لَهَا تَقَحَّمَ، فَمُنِیَ النَّاسُ ـ لَعَمْرُ اللهِ! ـ بِخَبْطٍ وَّ شِمَاسٍ وَّ تَلَوُّنٍ وَّ اعْتِرَاضٍ. فَصَبَرْتُ عَلٰى طُوْلِ الْمُدَّةِ، وَ شِدَّةِ الْمِحْنَةِ.

تعجب ہے کہ وہ زندگی میں تو خلافت سے سبکدوش ہونا چاہتا تھا، لیکن اپنے مرنے کے بعد اس کی بنیاد دوسرے کیلئے استوار کرتا گیا۔ بے شک ان دونوں نے سختی کے ساتھ خلافت کے تھنوں کو آپس میں بانٹ لیا۔ اس نے خلافت کو ایک سخت و درشت محل میں رکھ دیا جس کے چرکے کاری تھے، جس کو چھو کر بھی درشتی محسوس ہوتی تھی، جہاں بات بات میں ٹھوکر کھانا اور پھر عذر کرنا تھا، جس کا اس سے سابقہ پڑے وہ ایسا ہے جیسے سرکش اونٹنی کا سوار کہ اگر مہار کھینچتا ہے تو (اس کی منہ زوری سے) اس کی ناک کا درمیانی حصہ ہی شگافتہ ہوا جاتا ہے (جس کے بعد مہار دینا ہی ناممکن ہو جائے گا) اور اگر باگ کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے تو وہ اس کے ساتھ مہلکوں میں پڑ جائے گا۔ اس کی وجہ سے بقائے ایزد کی قسم! لوگ کجروی، سرکشی، متلون مزاجی اور بے راہ روی میں مبتلا ہو گئے۔ میں نے اس طویل مدت اور شدید مصیبت پر صبر کیا۔

حَتّٰۤى اِذَا مَضٰى لِسَبِیْلِهٖ جَعَلَهَا فِیْ جَمَاعَةٍ زَعَمَ اَنِّیْۤ اَحَدُهُمْ.

یہاں تک کہ دوسرا بھی اپنی راہ لگا، اور خلافت کو ایک جماعت میں محدود کر گیا اور مجھے بھی اس جماعت کا ایک فرد خیال کیا۔

فَیَا لَـلّٰهِ وَ لِلشُّوْرٰى! مَتَى اعْتَرَضَ الرَّیْبُ فِیَّ مَعَ الْاَوَّلِ مِنْهُمْ، حَتّٰى صِرْتُ اُقْرَنُ اِلٰى هٰذِهِ النَّظَآئِرِ لٰکِنِّیْۤ اَسْفَفْتُ اِذْ اَسَفُّوْا، وَ طِرْتُّ اِذْ طَارُوْا، فَصَغٰی رَجُلٌ مِّنْهُمْ لِضِغْنِهٖ وَ مَالَ الْاٰخَرُ لِصِهْرِهٖ، مَعَ هَنٍ وَّهَنٍ.

اے اللہ! مجھے اس شوریٰ سے کیا لگاؤ؟ ان میں سب سے پہلے کے مقابلہ ہی میں میرے استحقاق و فضیلت میں کب شک تھا جو اَب ان لوگوں میں مَیں بھی شامل کر لیا گیا ہوں۔ مگر میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب وہ زمین کے نزدیک ہو کر پرواز کرنے لگیں تو میں بھی ایسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے ہو کر اڑنے لگیں تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں (یعنی حتی الامکان کسی نہ کسی صورت سے نباہ کرتا رہوں ان میں سے ایک شخص تو کینہ و عناد کی وجہ سے مجھ سے منحرف ہو گیا اور دوسرا دامادی اور بعض ناگفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر جھک گیا۔

اِلٰۤى اَنْ قَامَ ثَالِثُ الْقَوْمِ، نَافِجًا حِضْنَیْهِ بَیْنَ نَثِیْلِهٖ وَ مُعْتَلَفِهٖ وَ قَامَ مَعَهٗ بَنُوْۤ اَبِیْهِ یَخْضِمُوْنَ مَالَ اللهِ خَضْمَۃَ الْاِبِلِ نِبْتَةَ الرَّبِیْعِ، اِلٰۤى اَنِ انْتَکَثَ فَتْلُهٗ، وَ اَجْهَزَ عَلَیْهِ عَمَلُهٗ وَ کَبَتْ بِهٖ بِطْنَتُهٗ.

یہاں تک کہ اس قوم کا تیسرا شخص پیٹ پھلائے سرگین اور چارے کے درمیان کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ اس کے بھائی بند اٹھ کھڑے ہوئے جو اللہ کے مال کو اس طرح نگلتے تھے جس طرح اونٹ فصل ربیع کا چارہ چرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آ گیا جب اس کی بٹی ہوئی رسی کے بل کُھل گئے اور اس کی بداعمالیوں نے اس کا کام تمام کر دیا اور شکم پری نے اسے منہ کے بل گرا دیا۔

فَمَا رَاعَنِیْۤ اِلَّا وَ النَّاسُ کَعُرْفِ الضَّبُعِ اِلَیَّ، یَنْثَالُوْنَ عَلَیَّ مِنْ کُلِّ جَانِبٍ، حَتّٰى لَقَدْ وُطِئَ الْحَسَنَانِ، وَ شُقَّ عِطْفَایَ، مُجْتَمِعِیْنَ حَوْلِیْ کَرَبِیْضَةِ الْغَنَمِ، فَلَمَّا نَهَضْتُ بِالْاَمْرِ نَکَثَتْ طَآئِفَةٌ وَّ مَرَقَتْ اُخْرٰى وَ قَسَطَ اٰخَرُوْنَ، کَاَنَّهُمْ لَمْ یَسْمَعُوْا کَلَامَ اللهِ حَیْثُ یَقُوْلُ: ﴿تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا ؕ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ۝﴾، بَلٰى! وَاللهِ لَقَدْ سَمِعُوْهَا وَ وَعَوْهَا، وَ لٰکِنَّهُمْ حَلِیَتِ الدُّنْیَا فِیْۤ اَعْیُنِهِمْ، وَ رَاقَهُمْ زِبْرِجُهَا.

اس وقت مجھے لوگوں کے ہجوم نے دہشت زدہ کر دیا جو میری جانب بجُّو کے ایال کی طرح ہر طرف سے لگاتار بڑھ رہا تھا، یہاں تک کہ عالم یہ ہوا کہ حسنؑ اور حسینؑ کچلے جا رہے تھے اور میری رِدا کے دونوں کنارے پھٹ گئے تھے۔ وہ سب میرے گرد بکریوں کے گلے کی طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔ مگر اس کے باوجود جب میں امر خلافت کو لے کر اٹھا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی اور دوسرا دین سے نکل گیا اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کر لیا۔ گویا انہوں نے اللہ کا یہ ارشاد سنا ہی نہ تھا کہ: ’’یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کیلئے قرار دیا ہے جو دنیا میں نہ (بے جا) بلندی چاہتے ہیں، نہ فساد پھیلاتے ہیں اور اچھا انجام پرہیز گاروں کیلئے ہے‘‘۔ ہاں ہاں خدا کی قسم! ان لوگوں نے اس آیت کو سنا تھا اور یاد کیا تھا، لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کُھب گیا اور اس کی سج دھج نے انہیں لبھا دیا۔

اَمَا وَ الَّذِیْ فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَاَ النَّسَمَةَ! لَوْ لَا حُضُوْرُ الْحَاضِرِ وَ قِیَامُ الْحُجَّةِ بِوُجُوْدِ النَّاصِرِ وَ مَاۤ اَخَذَ اللهُ عَلَى الْعُلَمَآءِ اَنْ لَّا یُقَارُّوْا عَلٰى کِظَّةِ ظَالِمٍ وَّ لَا سَغَبِ مَظْلُوْمٍ، لَاَلْقَیْتُ حَبْلَهَا عَلٰى غَارِبِهَا وَ لَسَقَیْتُ اٰخِرَهَا بِکَاْسِ اَوَّلِهَا، وَ لَاَلْفَیْتُمْ دُنْیَاکُمْ هٰذِهِ اَزْهَدَ عِنْدِیْ مِنْ عَفْطَةِ عَنْزٍ.

دیکھو! اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں! اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہو گئی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اوّل کو سیراب کیا تھا اور تم اپنی دنیا کو میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابلِ اعتنا پاتے۔

قَالُوْا: وَ قَامَ اِلَیْهِ رَجُلٌ مِّنْ اَهْلِ السَّوَادِ عِنْدَ بُلُوْغِهٖ اِلٰى هٰذَا الْمَوْضِعِ مِنْ خُطْبَتِهٖ، فَنَاوَلَهٗ کِتَابًا، فَاَقْبَلَ یَنْظُرُ فِیْهِ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَآئَتِهٖ قَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا: یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! لَوِ اطَّرَدْتَّ خُطْبَتَکَ مِنْ حَیْثُ اَفْضَیْتَ.

لوگوں کا بیان ہے کہ: جب حضرتؑ خطبہ پڑھتے ہوئے اس مقام تک پہنچے تو ایک عراقی باشندہ آگے بڑھا اور ایک نوشتہ حضرتؑ کے سامنے پیش کیا۔ آپؑ اسے دیکھنے لگے۔ جب فارغ ہوئے تو ابنِ عباس نے کہا: یا امیر المومنینؑ! آپؑ نے جہاں سے خطبہ چھوڑا تھا وہیں سے اس کا سلسلہ آگے بڑھائیں۔

فَقَالَ ؑ:

حضرتؑ نے فرمایا کہ:

هَیْهَاتَ یَا ابْنَ عَبَّاسٍ! تِلْکَ شِقْشِقَةٌ هَدَرَتْ ثُمَّ قَرَّتْ.

اے ابن عباس! یہ تو ’’شقشقہ‘‘ (گوشت کا وہ نرم لوتھڑا جو اونٹ کے منہ سے مستی و ہیجان کے وقت نکلتا ہے) تھا جو اُبھر کر دب گیا۔

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَوَاللّٰهِ مَاۤاَسِفْتُ عَلٰى کَلَامٍ قَطُّ کَاَسَفِیْ عَلٰى هٰذَا الْکَلَامِ اَنْ لَّا یَکُوْنَ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ؑ بَلَغَ مِنْهُ حَیْثُ اَرَادَ.

ابن عباس کہتے تھے کہ: مجھے کسی کلام کے متعلق اتنا افسوس نہیں ہوا جتنا اس کلام کے متعلق اس بنا پر ہوا کہ حضرت وہاں تک نہ پہنچ سکے جہاں تک وہ پہنچنا چاہتے تھے۔

https://balagha.org/

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 January 23 ، 15:17
عون نقوی

اِلٰى بَعْضِ عُمَّالِهٖ

ایک عامل کے نام

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّکَ مِمَّنْ اَسْتَظْهِرُ بِهٖ عَلٰى اِقَامَةِ الدِّیْنِ، وَ اَقْمَعُ بِهٖ نَخْوَةَ الْاَثِیْمِ، وَ اَسُدُّ بِهٖ لَهَاةَ الثَّغْرِ الْمَخُوْفِ، فَاسْتَعِنْ بِاللّٰهِ عَلٰى مَاۤ اَهَمَّکَ، وَ اخْلِطِ الشِّدَّةَ بِضِغْثٍ مِّنَ اللِّیْنِ، وَ ارْفُقْ مَا کَانَ الرِّفْقُ اَرْفَقَ، وَ اعْتَزِمْ بِالشِّدَّةِ حِیْنَ لَا یُغْنِیْ عَنْکَ اِلَّا الشِّدَّةُ، وَ اخْفِضْ لِلرَّعِیَّةِ جَنَاحَکَ، وَ ابْسُطْ لَهُمْ وَجْهَکَ، وَ اَلِنْ لَّهُمْ جَانِبَکَ، وَ اٰسِ بَیْنَهُمْ فِی اللَّحْظَةِ وَ النَّظْرَةِ، وَ الْاِشَارَةِ وَ التَّحِیَّةِ، حَتّٰى لَا یَطْمَعَ الْعُظَمَآءُ فِیْ حَیْفِکَ، وَ لَا یَیْاَسَ الضُّعَفَآءُ مِنْ عَدْلِکَ، وَ السَّلَامُ.

تم ان لوگوں میں سے ہو جن سے دین کے قیام میں مدد لیتا ہوں، اور گنہگاروں کی نخوت توڑتا ہوں، اور خطرناک سرحدوں کی حفاظت کرتا ہوں۔ پیش آنے والی مہمات میں اللہ سے مدد مانگو۔ (رعیت کے بارے میں) سختی کے ساتھ کچھ نرمی کی آمیزش کئے رہو۔ جہاں تک نرمی مناسب ہو نرمی برتو اور جب سختی کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو سختی کرو۔ رعیت سے خوش خلقی اور کشادہ روئی سے پیش آؤ۔ ان سے اپنا رویہ نرم رکھو اور کنکھیوں اور نظر بھر کر دیکھنے اور اشارہ اور سلام کرنے میں برابری کرو، تاکہ بڑے لوگ تم سے بے راہ روی کی توقع نہ رکھیں اور کمزور تمہارے انصاف سے مایوس نہ ہوں۔ والسلام۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 January 23 ، 15:15
عون نقوی