بصیرت اخبار

نہج البلاغہ خطبہ ۱۶

Wednesday, 11 January 2023، 03:35 PM

لَمَّا بُوْیِـعَ بِالْمَدِیْنـَةِ

جب مدینہ میں آپؑ کی بیعت ہوئی تو فرمایا

ذِمَّتِیْ بِمَاۤ اَقُوْلُ رَهِیْنَةٌ، ﴿وَ اَنَا بِهٖ زَعِیْمٌ۝﴾. اِنَّ مَنْ صَرَّحَتْ لَهُ الْعِبَرُ عَمَّا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ الْمَثُلَاتِ حَجَزَتْہُ التَّقْوٰى عَنْ تَقَحُّمِ الشُّبُهَاتِ، اَلَا وَ اِنَّ بَلِیَّتَکُمْ قَدْ عَادَتْ کَهَیْئَتِهَایَوْمَ بَعَثَ اللهُ نَبِیَّکُمْ ﷺ، وَ الَّذِیْ بَعَثَهٗ بِالْحَقِّ لَتُبَلْبَلُنَّ بَلْبَلَةً، وَ لَتُغَرْبَلُنَّ غَرْبَلَةً وَ لَتُسَاطُنَّ سَوْطَ الْقِدْرِ حَتّٰى یَعُوْدَ اَسْفَلُکُمْ اَعْلَاکُمْ، وَ اَعْلَاکُمْ اَسْفَلَکُمْ، وَ لَیَسْبِقَنَّ سَابِقُوْنَ کَانُوْا قَصُرُوْا، وَ لَیَقْصُرَنَّ سَبَّاقُوْنَ کَانُوْا سَبَقُوْا. وَاللهِ! مَا کَتَمْتُ وَشْمَةً وَّ لَا کَذَبْتُ کِذْبَةً، وَ لَقَدْ نُبِّئْتُ بِهٰذَا الْمَقَامِ وَ هٰذَا الْیَوْمِ.

میں اپنے قول کا ذمہ دار اور اس کی صحت کا ضامن ہوں۔ جس شخص کو اس کے دیدۂ عبرت نے گزشتہ عقوبتیں واضح طور سے دکھا دی ہوں، اسے تقویٰ شبہات میں اندھا دھند کودنے سے روک لیتا ہے۔ تمہیں جاننا چاہیے کہ تمہارے لئے وہی ابتلاآت پھر پلٹ آئے ہیں جو رسول ﷺ کی بعثت کے وقت تھے۔ اس ذات کی قسم جس نے رسول ﷺ کو حق و صداقت کے ساتھ بھیجا! تم بری طرح تہ و بالا کئے جاؤ گے اور اس طرح چھانٹے جاؤ گے جس طرح چھلنی سے کسی چیز کو چھانا جاتا ہے اور اس طرح خلط ملط کئے جاؤ گے جس طرح (چمچے سے) ہنڈیا، یہاں تک کہ تمہارے ادنیٰ اعلیٰ اور اعلیٰ ادنیٰ ہو جائیں گے جو پیچھے تھے آگے بڑھ جائیں گے اور جو ہمیشہ آگے رہتے تھے وہ پیچھے چلے جائیں گے۔ خدا کی قسم! میں نے کوئی بات پردے میں نہیں رکھی، نہ کبھی کذب بیانی سے کام لیا۔ مجھے اس مقام اور اس دن کی پہلے ہی سے خبر دی جا چکی ہے۔

اَلَا وَ اِنَّ الْخَطَایَا خَیْلٌ شُمُسٌ حُمِلَ عَلَیْهَاۤ اَهْلُهَا، وَ خُلِعَتْ لُجُمُهَا فَتَقَحَّمَتْ بِهِمْ فِی النَّارِ، اَلَا وَ اِنَّ التَّقْوٰى مَطَایَا ذُلُلٌ حُمِلَ عَلَیْهَاۤ اَهْلُهَا، وَ اُعْطُوْاۤ اَزِمَّتَها، فَاَوْرَدَتْهُمُ الْجَنَّةَ.

معلوم ہونا چاہیے کہ گناہ ان سرکش گھوڑوں کے مانند ہیں جن پر ان کے سواروں کو سوار کر دیا گیا ہو اور باگیں بھی ان کی اتار دی گئی ہوں اور وہ لے جا کر انہیں دوزخ میں پھاند پڑیں۔ اور تقویٰ رام کی ہوئی سواریوں کے مانند ہے جن پر ان کے سواروں کو سوار کیا گیا ہو، اس طرح کہ باگیں ان کے ہاتھ میں دے دی گئی ہوں اور وہ انہیں (با اطمینان) لے جا کر جنت میں اتار دیں۔

حَقٌّ وَّ بَاطِلٌ، وَ لِکُلٍّ اَهْلٌ، فَلَئِنْ اَمِرَ الْبَاطِلُ لَقَدِیْمًا فَعَلَ، وَ لَئِنْ قَلَّ الْحَقُّ فَلَرُبَّمَا وَ لَعَلَّ، وَ لَقَلَّمَاۤ اَدْبَرَ شَیْءٌ فَاَقْبَلَ.

ایک حق ہوتا ہے اور ایک باطل اور کچھ حق والے ہوتے ہیں، کچھ باطل والے۔ اب اگر باطل زیادہ ہو گیا تو یہ پہلے بھی بہت ہوتا رہا ہے اور اگر حق کم ہو گیا ہے تو بسا اوقات ایسا ہوا ہے اور بہت ممکن ہے کہ وہ اس کے بعد باطل پر چھا جائے۔ اگرچہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی چیز پیچھے ہٹ کر آگے بڑھے۔

اَقُوْلُ: اِنَّ فِیْ هٰذَا الْکَلَامِ الْاَدْنٰى مِنْ مَّوَاقِعِ الْاِحْسَانِ مَا لَا تَبْلُغُهٗ مَوَاقِعُ الْاِسْتِحْسَانِ، وَ اِنَّ حَظَّ الْعَجَبِ مِنْهُ اَکْثَرُ مِنْ حَظِّ الْعَجَبِ بِهٖ، وَ ــ فِیْهِ مَعَ الْحَالِ الَّتِیْ وَصَفْنَا ــ زَوَآئِدُ مِنَ الْفَصَاحَةِ، لَا یَقُوْمَ بِهَا لِسَانٌ ، وَ لَا یَطَّلِعُ فَجَّهَا اِنْسَانٌ، وَ لَا یَعْرِفُ مَاۤ اَقُوْلُ اِلَّا مَنْ ضَرَبَ فِیْ هٰذِهِ الصِّنَاعَةِ بِحَقٍّ، وَ جَرٰى فِیْهَا عَلٰى عِرْقٍ، ﴿وَ مَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ۝﴾.

علامہ رضیؒ فرماتے ہیں کہ: اس مختصر سے کلام میں واقعی خوبیوں کے اتنے مقام ہیں کہ احساس خوبی کا اس کے تمام گوشوں کو پا نہیں سکتا اور اس کلام سے حیرت و استعجاب کا حصہ پسندیدگی کی مقدار سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس حالت کے باوجود جو ہم نے بیان کی ہے اس میں فصاحت کے اتنے بے شمار پہلو ہیں کہ جن کے بیان کرنے کا یارا نہیں، نہ کوئی انسان اس کی عمیق گہرائیوں تک پہنچ سکتا ہے۔ میری اس بات کو وہی جان سکتا ہے جس نے اس فن کا پورا پورا حق ادا کیا ہو اور اس کے رگ و ریشہ سے واقف ہو اور’’جاننے والوں کے سوا کوئی ان کو نہیں سمجھ سکتا‘‘۔

[وَ مِنْ هٰذِهِ الْخُطْبَةِ]

[اسی خطبے کا ایک حصہ یہ ہے:]

شُغِلَ مَنِ الْجَنَّةُ وَ النَّارُ اَمَامَهٗ، سَاعٍ سَرِیْعٌ نَجَا، وَ طَالِبٌۢ بَطِیْءٌ رَّجَا، وَ مُقَصِّرٌ فِی النَّارِ هَوٰى. الْیَمِیْنُ وَ الشِّمَالُ مَضَلَّةٌ، وَ الطَّرِیْقُ الْوُسْطٰى هِیَ الْجَادَّةُ عَلَیْهَا بَاقِی الْکِتَابِ وَ اٰثَارُ النُّبُوَّةِ، وَ مِنْهَا مَنْفَذُ السُّنَّةِ، وَ اِلَیْهَا مَصِیْرُ الْعَاقِبَةِ.

جس کے پیشِ نظر دوزخ و جنت ہو، اس کی نظر کسی اور طرف نہیں اٹھ سکتی، جو تیز قدم دوڑنے والا ہے وہ نجات یافتہ ہے اور جو طلبگار ہو، مگر سست رفتار اسے بھی توقع ہو سکتی ہے، مگر جو (ارادةً) کو تاہی کرنے والا ہو اسے تو دوزخ ہی میں گرنا ہے۔دائیں بائیں گمراہی کی راہیں ہیں اور درمیانی راستہ ہی صراطِ مستقیم ہے۔ اس راستے پر اللہ کی ہمیشہ رہنے والی کتاب اور نبوت کے آثار ہیں۔ اسی سے شریعت کا نفاذ و اجرا ہوا اور اسی کی طرف آخر کار بازگشت ہے۔

هَلَکَ مَنِ ادَّعٰى، وَ خَابَ مَنِ افْتَرٰى، مَنْ اَبْدٰى صَفْحَتَهٗ لِلْحَقِّ هَلَکَ، وَ کَفٰى بِالْمَرْءِ جَهْلًاۤ اَلَّا یَعْرِفَ قَدْرَهٗ، لَایَهْلِکُ عَلَى التَّقْوٰى سِنْخُ اَصْلٍ، وَ لَا یَظْمَاُ عَلَیْهَا زَرْعُ قَوْمٍ. فَاسْتَتِرُوْا فِیْ بُیُوْتِکُمْ، ﴿وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْ۪ ﴾، وَ التَّوْبَةُ مِنْ وَّرَآئِکُمْ، وَ لَا یَحْمَدْ حَامِدٌ اِلَّا رَبَّهٗ، وَ لَا یَلُمْ لَآئِمٌ اِلَّا نَفْسَهٗ.

جس نے (غلط) ادّعا کیا وہ تباہ و برباد ہوا اور جس نے افترا باندھا وہ ناکام و نامراد رہا جو حق کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے تباہ ہو جاتا ہے اور انسان کی جہالت اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ وہ اپنی قدر و منزلت کو نہ پہچانے وہ اصل و اساس، جو تقویٰ پر ہو برباد نہیں ہوتی اور اس کے ہوتے ہوئے کسی قوم کی کشت (عمل) بے آب و خشک نہیں رہتی۔ تم اپنے گھر کے گوشوں میں چھپ کر بیٹھ جاؤ، آپس کے جھگڑوں کی اصلاح کرو، توبہ تمہارے عقب میں ہے۔ حمد کرنے والا صرف اپنے پروردگار کی حمد کرے اور بھلا برا کہنے والا اپنے ہی نفس کی ملامت کرے۔

https://balagha.org

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی