بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

مقدمہ

ڈیموکریسی (Democracy) یونانی لفظ ہے جو دو اجزاء سے مرکب ہے۔ ’’ڈیموس‘‘ جس کے معنی انسانوں یا شہریوں کے ہیں۔ اور ’’کراتوس‘‘ جس کے معنی حکومت کرنا ہے۔ پس ڈیموکریسی کا لغوی معنی ’’شہریوں کی حکومت‘‘۔

اصطلاح میں ڈیموکریسی سے مراد یہ ہے کہ انسانوں کی انسانوں کے توسط سے انسانوں پر حکومت۔ با الفاظ دیگر ڈیموکریسی میں حاکمیت اور قانون گزاری میں اصالت انسانوں کی اکثریت یعنی عوام کو حاصل ہے۔ اور یہیں سے ڈیموکریسی کا ضد دین و ضد انسانیت ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔ لیکن کس طرح سے وہ ہم اس مختصر مقالے میں ادلہ کے ساتھ بیان کریں گے۔

ہم نے کہا کہ ڈیموکریسی میں حق حاکمیت اور حق قانون گذاری عوام کی اکثریت کو حاصل ہوتی ہے یہ وہ تعریف ہے جو ڈیموکریسی کے بانی اور اس کے شدید حامی بیان کرتے ہیں اور اس بات پر شدید تاکید کرتے ہیں کہ حق حاکمیت اور قانون گذاری دونوں ہی عوام کے پاس ہیں اس کے علاوہ اور کوئی طاقت حاکمیت یا قانون گذاری کا حق نہیں رکھتی۔ 

جبکہ دین اور عقل یہ کہتا ہے کہ انسان پر حقیقی حق حاکمیت اور حق قانون گذاری فقط اللہ تعالی کو حاصل ہے۔ اس لیے ہمارے بعض متفکرین نے ڈیموکریسی کو شرک قرار دیا ہے۔ اور بیان کیا ہے کہ جو مسلمان لبرل ڈیموکریسی کے قائل ہیں وہ در حقیقت مشرک مسلمان ہیں۔ قرآن کریم میں چند مرتبہ اللہ تعالی نے اپنی حق حاکمیت مطلقہ کا اعلان کیا ہے اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ تعالی بھی حاکم ہے اور اس کے قوانین بھی ایک معاشرے میں لاگو ہیں اور ہم بھی حاکم ہیں اور اللہ کے مقابلے میں قانون گذاری کر سکتے ہیں اور کوئی ضد دین قانون بنا لیں تو ایسے لوگ مشرک ہیں۔

ڈیموکریسی ایک ایسا طرز حکومت ہے جس کے حسن و نقائص پر بہت زیادہ ابحاث موجود ہیں، زمانہ قدیم سے ہی یونان میں یہ لفظ استعمال کیا جانے لگا اور سقراط، افلاطون جیسے حکماء نے اس طرز حکومت پر شدید تنقید کی۔ متاخرین میں بھی حتی غربی غیر مسلم مفکرین مثلا کانٹ نے بھی اس پر نقد کیا۔ 

صاحب تفسیر میزان علامہ طباطبائیؒ فرماتے ہیں کہ ڈیموکریسی در اصل وہی استبدادی ڈکٹیٹرشپ ہے بلکہ اس سے بھی بدتر ہے۔

ڈیموکریسی کے چند عیوب و نقائص:

۱۔ اکثریت کا اقلیت کا استثمار کرنا:

ڈیموکریسی کے نظام میں پہلا نقص یہ پایا جاتا ہے کہ ۵۱ فیصد افراد کو ۴۹ فیصد افراد پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔ یعنی اقلیت کو جو کہ حقیقت میں اقلیت ہوتی ہی نہیں جیسا کہ ہمارے ملک پاکستان میں اگر دیکھا جاۓ اکثر افراد ووٹ ہی نہیں دیتے۔ اور جو افراد ووٹ دیتے ہیں اگر تین پارٹیوں میں مقابلہ ہوا ہے تو اگر تین میں سے دو پارٹیوں نے ملا کر ۶۶ فیصد ووٹ لیے ہیں اور ایک پارٹی نے ۳۴ فیصد تو اس ۳۴ فیصد ووٹ لینے والی پارٹی کو باقی سب عوام پر مسلط کر دیا جاۓ گا۔ اور یہ پارٹی اپنے منافع کی حفاظت کے لیے ہر اس کام کو انجام دیتی ہے جس سے بالمقابل پارٹی کو نقصان اور اس کو فائدہ پہنچ سکے۔ اس کے بیچ اگر عوام پس بھی رہی ہے تو ان کو کوئی اثر نہیں پڑتا۔ 

۲۔ اقلیت، اکثریت کی شکل میں:

دنیا میں جہاں کہیں بھی ڈیموکریسی کا نظام نافذ ہے وہاں اکثریت کی حکومت نہیں بلکہ اقلیت کی حکومت ہے۔ ڈیموکریسی کا سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ اس میں کہا جاتا ہے کہ اکثریت کی حکومت ہوگی۔ ہم دور نہیں جاتے اپنے وطن عزیز پاکستان کی مثال لے لیتے ہیں، چند دہائیوں سے چند خاندان اور چند مال و دولت رکھنے والے افراد پورے پاکستان پر مسلط ہیں۔ یہ باقدرت اور با نفوذ افراد مستقیم یا غیر مستقیم طور پر پروپیگنڈے کے ذریعے عوام فریبی سے اوپر آتے ہیں اور اپنے بینک بیلنس بڑھا رہے ہیں۔ آج تک کوئی عوامی بندہ اس سسٹم کے ذریعے اوپر نہیں آسکا۔ اگر آ بھی جاۓ تو وہ پہلے سے موجود با نفوذ حریفوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لہذا ہمیشہ یہی افراد اپنے چہرے بدل کر اور پارٹیاں یا جھنڈے بدل کر نئے شعار لگا کر سامنے آتے ہیں اور مسلط ہو جاتے ہیں۔

۳۔ ڈیموکریسی میں مساوات:

علامہ اقبالؒ بیان فرماتے ہیں:

گریز از طرز جمہوری غلامی پختہ کاری شو

کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید

علامہؒ فرماتے ہیں کہ جمہوری نظام حکومت سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ دو سو گدھے بھی اگر اکٹھے ہو جائیں تو ایک انسان کی فکر کے حامل نہیں ہو سکتے۔

ڈیموکریسی میں ایک بدترین نقص یہ پایا جاتا ہے کہ یہ نظام مساوات کا قائل ہے۔ مساوات سے مراد یہ کہ اس سسٹم میں یونیورسٹی کے چانسلر کی راۓ اور ایک ان پڑھ ریڑھی لگانے والی کی راۓ برابر ہے۔ دونوں کے ووٹ کی ایک جیسی قیمت ہے۔ یعنی ایسا نہیں کہ الیکشن کمیشن کسی پڑھے لکھے انسان کے ووٹ کو دو ووٹ گنے گا اور کسی ان پڑھ جاہل کے ووٹ کو ایک ہی گنے۔ جمہوریت میں ایک عادل اور ایک قاتل کا ووٹ برابر ہے، جمہوریت میں ایک تجربہ کار و معاشرے کے لیے کارآمد انسان کا ووٹ اور ایک عام انسان کا ووٹ برابر ہے جبکہ عقل یہ کہتی ہے کہ دونوں برابر نہیں۔ قرآن کریم میں بھی خداوند متعال نے عالم اور جاہل کو یکساں قرار نہیں دیا۔ لیکن اس نظام میں سب برابر ہیں۔

۴۔ اصلی معیارات کو ترک کرنا:

اس نظام میں چونکہ حاکم فقط ایک معین مدت کے لیے حاکم قرار پاتا ہے اس لیے ناچار ہو کر بغیر کسی معیار اور ملاک کے اکثریت (جو کہ حقیقت میں اقلیت ہوتی ہے) کے مطالبات کو پورا کرتا ہے۔ وہ اگلی نسلوں اور ملک کی مستقبل کا نہیں سوچتا بلکہ صرف اگلے الیکشن کا سوچتا ہے۔ وہ اجتماعی اور دور رس سوچ کے لیے تیار نہیں ہوتا بلکہ اس کو فوری نتائج چاہیے ہوتے ہیں تاکہ اگلے الیکشن کے لیے عوام فریبی کے طور پر کچھ نا کچھ پیش کر سکے۔

۵۔ ووٹر کا آزاد و بی بند و بار ہونا:

نظام ڈیموکریسی میں ووٹر کسی اخلاقی یا وجدانی عہد کا پابند نہیں ہوتا بلکہ اسے مکمل آزادی دی جاتی ہے جسے انتخاب کرے اور جسے انتخاب نہ کرے۔ اور یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ اگر انسان کو مکمل آزاد کر دیا جاۓ اور بغیر کسی تعہد و اخلاقیات کے وہ کسی بھی اچھے یا برے انسان کو انتخاب کرنے میں مختار ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے لوگ معاشروں پر حاکم ہو جاتے ہیں جن کو کسی ایک فرد کا اختیار دینا بھی عقلانیت کے خلاف ہے کجا یہ کہ اسے مکمل طور پر معاشرے کی رہبریت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے انتخاب کر لیا جاۓ۔

۶۔ اکثریت کا غلط راہ پر ہونا:

ہمیشہ اکثریت درست نہیں ہوتی۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ معاشرے کے کسی خاص مسئلے پر وہاں کا پڑھا لکھا اور باشعور طبقہ کچھ اور سوچتا ہے لیکن عوام کی اکثریت اس کے بر عکس سوچ رہی ہوتی ہے۔ یہاں پر درست روش یہ نہیں کہ چونکہ اکثریت یہ کہہ رہی ہے لذا یہ کام چاہے غلط بھی ہے بس ہونا چاہیے۔ جبکہ اس مسئلے پر اس موضوع کے متخصصین کچھ اور سوچ رہے ہیں۔ یہی بات قرآن کریم میں بھی چند مرتبہ بیان ہوئی ہے جس میں اللہ تعالی نے واضح طور پر اکثریت کے بارے میں فرمایا کہ ’’اکثرھم لا یعلمون‘‘ یا ’’اکثرهم لا یعقلون’’ وغیرہ۔

۷۔ نظام جمہوریت  میں آزاد انتخابات:

جن ممالک میں بھی جمہوریت کا نظام موجود ہے اکثر طور پر دعوی کیا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں انتخابات آزاد ہوۓ ہیں۔ اور کہیں سے بھی اس الیکشن کو متاثر نہیں کیا گیا، خود عوام نے اپنے شعور سے نمائندے چنے ہیں۔ اولا تو یہ بات درست نہیں، پوری دنیا میں انتخابات کہیں بھی آزاد نہیں ہوتے اور نا کہیں عوام اپنے شعور اور بصیرت کی بنا پر ووٹ دیتی ہے بلکہ ہمیشہ پروپیگنڈے کے ذریعے اور عوام فریبی کے ذریعے انتخابات ہوتے ہیں ورنہ اگر یہی عوام شعور سے کسی کو حاکم چنے تو یہ وڈیرہ ان پڑھ جو پچھلے ۳۰ سال سے حاکم ہے یہ کیسے حاکم بن جاتا۔ ہمیشہ عوام کو پہلے بے وقوف بنایا جاتا ہے، دلفریب نعروں سے ان کی شہوتیں بھڑکائی جاتی ہیں، مختلف میڈیاز کے ذریعے پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اور پھر جا کر ایک نمائندہ پارلیمان میں جا پہنچتا ہے۔

بالفرض اگر مان لیا جاۓ کہ انتخابات آزادانہ ہوۓ ہیں اور پشت پردہ کسی کا ہاتھ نہیں تھا یا حکومت نے کوئی زور زبردستی نہیں کی تو ایسی صورت میں اس ریاست کے دشمنوں کے لیے میدان کھلا رہ جاتا ہے۔ اگر حکومت حقیقت میں انتخابات کو آزاد کر دے تو دشمن کا نفوذ اس ملک میں سرایت کر جاۓ گا اور جیسا یہ نظام ہے عین ممکن ہے کوئی دشمن کا جاسوس پارلیمنٹ کا رکن بن جاۓ اور آپ کے ملک کے حساس ترین ادارے میں مداخلت کرے۔

۸۔ حاکمیت کا پشت پردہ ہونا:

جمہوریت کے نظام میں حاکمیت ہمیشہ پشت پردہ رہتی ہے اور عوام کو آخر سال تک پتہ نہیں چلتا کہ ہمارے کام کیوں نہیں ہو سکے۔ ہر ادارہ ایک دوسرے پر ذمہ داریاں ڈالتا ہے اور ہر وزیر دوسرے وزیر پر سب ملبہ ڈال دیتا ہے۔ حتی عوام پر ظلم ہوتا ہے لیکن کسی کو کچھ نہیں پتہ چلتا کہ اس کا ذمہ دار کون ہے اور اس ظلم کا قصاص کس نے ادا کرنا ہے۔ آج پاکستان میں آپ دیکھ سکتے ہیں ملک کا ذمہ دار ترین شخص مجبور نظر آتا ہے اور بعض اوقات کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ میرے بس میں کچھ نہیں۔ اگر آپ کے بس میں کچھ نہیں تو اس وقت سہانے خواب کس دلیل کےطور پر دکھاۓ تھے؟ یا آپ کا علاقے کا تحصیلدار یا ایم۔این۔اے جب ووٹ لینے آتا ہے اس وقت کھل کر کہتا ہے کہ میں آپ کے کا کروا دونگا لیکن بعد میں کہتا ہے کہ میرے بس میں نہیں، اوپر سے آرڈر نہیں آیا وغیرہ۔ یہ اوپر کہاں ہے اور کدھر ہے نظام جمہوریت میں مخفی رہتا ہے۔

۹۔ الیکشن کے موقع پر تباہی:

ڈیموکریسی کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ ایک معین مدت کے بعد آپ کو دوبارہ انتخابات کروانے ہیں۔ جس پر ایک عام ایم۔پی۔اے سے لے کر پارٹیوں کے بڑے بڑے افراد کروڑوں بلکہ کھربوں روپے خرچ کرتے ہیں، خود الیکشن کا خرچہ الگ ہے جو عوام کی جیب سے دیا جاتا ہے۔ یہ پارٹی فنڈ کہاں سے آتے ہیں اور کدھر خرچ ہوتے ہیں ظاہری طور پر کسی کو کچھ نہیں معلوم ہوتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب عوام کا پیسہ ہوتا ہے جو لوٹ مار میں سرف ہوتا ہے۔

۱۰۔ نا اہل افراد کا اوپر آنا:

آج تک آپ نے کسی بھی یونیورسٹی کا چانسلر یا کسی اسکول کا پرنسپل ان پڑھ جاہل نہیں دیکھا ہوگا بلکہ خاص معیاروں پر ایسے افراد کو رکھا جاتا ہے۔ یعنی کہیں بھی ایسا نہیٍں ہوتا کہ اگر کسی کالج یا تجربہ گاہ کے لیے کسی مدیر کی ضرورت پڑی ہو تو لوگوں نے انتخابات کروا کے کسی جاہل ان پڑھ کو کالج کا مدیر یا سربراہ لگا دیا ہو۔ لیکن جمہوریت میں ایسا ہوتا ہے۔ جمہوریت میں جاہل ترین انسان وزیر تعلیم بن جاتا ہے اور پڑھا لکھا با شعور طبقہ اس کے نیچے کام کرتا ہے یہ خود علم شعور کی توہین ہے۔

۱۱۔ رفاہی کاموں کا تعطل کا شکار ہونا:

نظام جمہوریت کا ڈھانچہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک چھوٹا سا چھوٹا کام بھی ہونے میں سالوں لگ جاتے ہیں کیونکہ پہلے اسے حکومتی کابینہ میں بحث کیا جاۓ گا، بعد میں اسے پارلیمان میں بحث کیا جاۓ گا اور اگر وہاں سے بھی نصیب اچھے ہوۓ سب نے اتفاق کر لیا تو تب جا کر عملی مرحلے تک پہنچے گا۔ اس کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ چند سال سے ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ہمارے ملک کو ایک ڈیم کی شدید ضرورت ہے اب اس پر کتنے سالوں سے اور کتنی حکومتیں گزر گئیں بحث ہو رہی ہے کہ بننا چاہیے یا نہیں؟ اور یہ بات بالکل درست  ہے نظام جمہوریت کے ذریعے منتخب ہونے والے شخص کو ڈیم کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ کیونکہ ڈیم بنانا ان کا کام ہی نہیں، یہ ایک لمبا اور بڑا منصوبہ ہے ایسے منصوبے صرف عوامی دکھ درد رکھنے والے افراد پورا کر سکتے ہیں جس نے صرف پانچ سال کا اپنا دورانیہ پورا کرنا ہے اس کو کیا پڑی ہے کوئی ایسا کام شروع کرے جو اس کی حکومت میں ختم ہی نہ ہو حتی اگلی حکومت اس کا کریڈٹ لے لے۔

۱۲۔ رہبر شکن نظام:

نظام جمہوریت میں اکثر طور پر معاشرے کے ایسے افراد حاکم بن کر سامنے آتے ہیں جن کے اندر مختلف مہارتیں ہوتی ہیں اور اگر کوئی چیز ان میں نہیں ہوتی تو وہ ہے رہبرانہ صلاحیت۔ اکثر اوقات معاشرے کی سیلیبریٹیز ابھر کر سامنے آ جاتی ہیں مثلا ویسے کھلاڑی بہت اچھا ہے، اداکاری بہت اچھی کر لیتا ہے، کاروباری ذہانت رکھتا ہے لیکن یہ سب باتیں اس چیز کا ثبوت نہیں کہ وہ ایک اچھا رہبر بھی بن سکتا ہے۔ لیکن چونکہ وہ عوام میں مقبول ہے اور اسے اکثریت نے ووٹ دیا ہے وہ معاشرے کا حاکم بن جاتا ہے اور چہ بسا ایسا ہوتا ہے کہ اس کے مقابلے میں ایک حقیقی رہبر جو واقعا صلاحیتیں رکھتا ہے وہ ہار جاتا ہے کیونکہ اس کو عوام میں اتنی مقبولیت ہی حاصل نہیں۔

نتیجتا کہا جا سکتا ہے جمہوریت ایک ایسا نظام ہے عوام میں سے فقط ایک مخصوص گروہ کے لیے خلق ہوا جس نے ان کے مفادات پورے کئے اور ظاہری طور پر عوام کو فریب دینے کے لیے اسے عوامی حکومت کا نام دیا گیا جبکہ حقیقت میں اس طرز حکومت کا عوام سے دور تک کا کوئی واسطہ نہیں۔

 

 


منابع:

۱۔ قرآن کریم۔

۲۔ آفیشل ویب سائٹ آیت اللہ صافی۔

۳۔ پیام مشرق۔

۴۔ گرد آوری از کتاب حکومت مہدوی۔

۵۔ سایٹ لائف میتھڈ۔

۶۔ سائٹ ویکی فقہ فارسی۔

۷۔ سائٹ ایرنا۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 September 21 ، 19:19
عون نقوی

ٹوکیو اولمپک اور پیرالمپک 2020 میں شامل اسلامی جمہوریہ ایران کے کارواں میں میڈل حاصل کرنے والے کھلاڑیوں اور چیمپینوں نے آج رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔

آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس ملاقات میں اسپورٹس کے مقابلوں میں فتح کو سماج کے لیے توانائی، نشاط، عزم اور ارادے کی طاقت کے پیغام کا حامل بتایا اور کہا: سبھی محسوس کرتے ہیں کہ یہ شخص، جو اس وقت فاتح کے پائیدان پر کھڑا ہوا ہے، اس نے عزم کیا، ارادہ کیا اور اپنی توانائی کو عملی شکل دی اور اس طرح وہ سماج کو نشاط عطا کرتا ہے۔ در حقیقت اسپورٹس کے چیمپین استقامت، امید اور نشاط کے معلم ہیں۔

انھوں نے صیہونی حکومت کی جانب سے اسپورٹس کے میدانوں سے فائدہ اٹھا کر اپنے وجود کا قانونی جواز حاصل کرنے کی کوشش کی طرف اشارہ کیا اور کہا: ایک آزاد منش اور سر بلند کھلاڑی، ایک میڈل کے لیے ایک مجرم حکومت کے نمائندے سے ہاتھ نہیں ملا سکتا اور کھیل کے میدان میں اسے قانونی طور پر تسلیم نہیں کر سکتا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح بہت سے کھلاڑیوں کی جانب سے جنوبی افریقا کی اپارتھائیڈ حکومت کے نمائندوں کے ساتھ نہ کھیلنے کے تجربے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: آج صیہونی حکومت کے لیے ہنگامہ مچایا جاتا ہے لیکن ماضی میں جنوبی افریقا کی اپارتھائیڈ حکومت اسی طرح کی تھی اور دنیا کے بہت سے کھلاڑی اس کے ساتھ نہیں کھیلتے تھے۔ وہ حکومت ختم ہو کر نابود ہو گئی اور یہ حکومت بھی ختم ہوگی، یہ بھی نابود ہو جائے گی۔

انھوں نے ملکی حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ صیہونی حکومت کی نمائندگی کرنے والے کھلاڑی کے ساتھ نہ کھیلنے کے سبب تادیبی کارروائی کا شکار ہونے والے ایرانی بلکہ الجزائری کھلاڑی کی طرح غیر ایرانی کھلاڑیوں کے حقوق کا دفاع کریں اور ان کی حمایت کریں۔

آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے صحیح اور غلط چیمپین بننے اور میڈل حاصل کرنے کو الگ الگ بتاتے ہوئے غلط طریقوں سے حاصل کیے جانے والے بعض میڈلز کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اسپورٹس کے بعض عالمی میدانوں میں جان بوجھ کر کیے جانے والے غلط فیصلے، سیاسی جوڑ توڑ اور رشوت دہی وغیرہ سے لے کر کھلاڑیوں کی جانب سے طاقت بڑھانے والی دواؤں کے استعمال اور ڈوپنگ جیسے کام اور یہاں تک کے میڈل کے حصول کے لیے ایک کھلاڑی کی جانب سے وطن فروشی اور خود فروشی تک کی جاتی ہے۔ اس میڈل کی کوئی وقعت نہیں ہے، بلکہ یہ باعث ننگ ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ان کے لیے ایک قابل توجہ نکتہ یہ تھا کہ اس بار (اولمپک اور پیرالمپک میں) ملک کے بنے ہوئے اسپورٹس کے لباس کو کئی ملکوں نے استعمال کیا۔ ایران کی یہ نشانی دنیا میں درخشاں ہوئی اور اس طرح کئی عالمی برانڈز کی روایتی اجارہ داری کو توڑنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ بہت ہی اہم ہے۔ انھوں نے حکام سے مطالبہ کیا کہ اس پروڈکٹ کی بھی حمایت کی جائے اور اسپورٹس کے بقیہ سامان بھی ملک میں ہی تیار کیے جائیں۔

آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسپورٹس کے مقابلوں میں محجبہ کھلاڑیوں کی زبردست کارکردگی کو حجاب کے سلسلے میں دشمنوں کے پروپیگنڈوں پر خط بطلان قرار دیا اور ایران کی خاتون کھلاڑیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: آپ کے اس حجاب نے دیگر مسلم ممالک کی خواتین کو بھی حوصلہ عطا کیا ہے۔ میں نے سنا کہ دس سے زیادہ مسلمان ملکوں کی خاتون کھلاڑی اس سال حجاب کے ساتھ اسپورٹس کے عالمی میدانوں میں آئیں۔ یہ کام رائج نہیں تھا، یہ کام آپ نے کیا ہے۔ ایران کھلاڑی اور چیمپین کی حیثیت سے آپ نے یہ کام کیا اور یہ راستہ کھول دیا۔

انھوں نے اسی طرح کہا کہ ہماری خاتون کھلاڑیوں نے ثابت کر دیا کہ حجاب، کمال کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے جیسا کہ سیاست کے میدان، علم کے میدان اور مینیجمینٹ کے میدانوں میں بھی وہ پہلے اسے ثابت کر چکی ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کھلاڑیوں کے کچھ اور گرانقدر کاموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: آپ نے جس اخلاقی رویے اور معنویت کے ساتھ اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کیا، اسپورٹس کے کاروانوں کا نام شہیدوں خاص طور پر شہید قاسم سلیمانی کے نام پر رکھا،  کچھ چیمپینوں نے کچھ خاص شہیدوں کو اپنا میڈل ہدیہ کیا، ایثار اور استقامت کے مظہر کی حیثیت سے 'چفیے' کا استعمال اور چفیے پر خدا کا سجدہ، یہ سب بہت گرانقدر ہیں، یہ چیزیں عالمی رائے عامہ کی سطح پر معنویت اور عالمی جذبات کو پھیلاتی ہیں اور بہت گرانقدر ہیں۔

آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ ہمیں اس لحاظ سے خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ یہ فتوحات اور امید آفرینی صرف کھیل کے میدان تک نہیں ہیں، ہم علم کے میدان میں بھی ایسے ہی ہیں، ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی ایسے ہی ہیں اور ادب کے میدان میں بھی ایسے ہی ہیں۔

source: urdu.khamenei.ir

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 September 21 ، 11:42
عون نقوی

کویتی آرٹسٹ کا صیہونی ریاست کی جیل سے فرار کرنے والے چھ فلسطینیوں کو خراج تحسین۔

چند روز پہلے ۶ فلسطینی زندانی جو اسرائیل کی جیل میں سخت ترین سیکیورٹی کے باوجود جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوۓ ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوۓ اس کویتی آرٹسٹ نے یہ خارق العادہ مجسمہ خلق کیا۔

واضح رہے کہ ان چھ فلسطینیوں نے چمچ کے ذریعے جیل سے زیر زمین راستہ بنایا جس سے وہ فرار کرنے میں کامیاب ہوۓ۔ اور اس روز سے پوری دنیا میں اسرائیلی سیکیورٹی سسٹم پر سنجیدہ سوال کھڑے ہوۓ ہیں اور سوشل میڈیا پر اسرائیلیوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ 

 

منبع: ہمشہری آنلائن

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 17 September 21 ، 22:15
عون نقوی

Taqwa is acquired through Seerate Mustaqim but the right path has dangers of existence of distorted paths (Subul) alongside it. One of the distorted paths is that of Zalalat, which is the state of confusion where a person cannot find guidance. When a person gets into this state of Zalalat where he cannot differentiate between guidance and misguidance, that is what is religion and what is non-religiousness. This is the state of Zalalat. Who creates this confusion? There are several sources, one of them are the elders and Syeds.

Syed in Arabic are elderly persons , chieftains who have well recognized position in their society, whom people listen are the chieftains. These are the biggest source of misguidance since they have respect as an elderly person and hence people blindly listen to them. They adulterate religiousness and non-religiousness.

In Surah Furqan, verse 17 and 18

وَیَوْمَ یَحْشُرُهُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَیَقُولُ أَأَنْتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِی هَٰؤُلَاءِ أَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِیلَ {17}
On the day that He will muster them and those whom they worship besides Allah, He will say, ‘Was it you who led astray these servants of Mine, or did they themselves stray from the way?’

قَالُوا سُبْحَانَکَ مَا کَانَ یَنْبَغِی لَنَا أَنْ نَتَّخِذَ مِنْ دُونِکَ مِنْ أَوْلِیَاءَ وَلَٰکِنْ مَتَّعْتَهُمْ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ نَسُوا الذِّکْرَ وَکَانُوا قَوْمًا بُورًا {18}
They will say, ‘Immaculate are You! It does not behoove us to take any Wali in Your stead! But You provided for them and their fathers until they forgot the Reminder, and they were a ruined lot.’

In these verses when on the day of Qayamat when both Abideen and Ma’bud are mustered on the day of Judgement. Ibadat does not mean worship as per Quran it means obedience and these worships which we do are expression of this obedience.

Man in abundance is occupied with obedience of non-Allah and Taghoot, because man thinks he is not worshipping Taghoot so its fine, but to obey the orders of anyone else other than Allah is Uboodiyat of non-Allah. If you listen to someone’s order, manifesto, decision than he is your Ma’bud. We have gathered the entire discussion of Shirk and Tauheed on worship, hence many polytheists think that they worship a lot but they obey others completely. When the term deities (Ma’bud) come, then we start to imagine idols of stones and woods. Man is mostly involved in Shirk of making other humans as deities. As per Surah Yusuf; majority of those who believe in Allah are polytheists. This is because even though they worship Allah they obey many other humans as deities (Ma’bud). We should look at ourselves to whom all’s instructions and commands we listen. Those who are expressing the decision and order of Allah like parents are giving Allah’s orders to children then this is obedience of Allah and not parents. The prophets, Imams, saints present the orders of Allah hence obeying them is the worship of Allah and not human.

Allah will gather those who obey and those were obeyed in place of Allah on the day of Qayamat. The day of judgement is not for idols of stones and wood, it is for all humans. On this day of judgement of human beings, Allah will question those who were obeyed as deities, whether you misguided my bondsmen, did you take them away from my obedience to obey yourself? This verse is telling that this is happening on earth today where Ma’bud is the slave of Allah and Abid is the slave of human. The one who is being obeyed is the servant of Allah himself is what this verse says. This group of Ma’bud in this verse is distinct because many other Ma’bud like Taghoot’s, tyrants are not obedient to Allah. One exclusive category of Ma’bud is one that they are obedient servants of Allah but still they are being obeyed by people. They themselves do not attest being Ma’bud. Who are these?

As per commentators of Quran, amongst Prophets there are some whose community have given them the status of Allah. Like the Christians who give Prophet Isa the status of Allah from various dimensions. The Christians are the majority religion in the world today even though practically they are not. They believe in Prophet Isa as the son of God, or God or incarnation of God inside Isa. They will be gathered with Prophet Isa on the day of Qayamat. Like Jews consider Prophet Uzair on the position of Allah. In this era the group of Gaali’s who give the status of Allah to Ahlulbayt (a) and even to Zuljinah (horse of Imam Hussain (a)) they give the status of Allah and they are filthiest ones present in Pakistan.

When Allah will gather the Ma’bud and Abid together, Allah is asking the Ma’bud that did you misguide them to obey and worship yourself? The second part of the question is whether they themselves got misguided? The Ma’bud will reply that your essence is immaculate , it is impossible for us to tell anyone to obey us, we do not have the rights to do this and neither can we make anyone else other then you as our guardian. It is not worth our position to tell these people that either we or someone else is your guardian.

Today in the sects this kind of worship is in abundance. The Gaali’s are not Shias and it is a big mistake, laziness of Shias that they have not separated Gaali’s from their religion. The Qadyani’s are today as well Qadyani only who believe Mirza Gulam Ahmad was the Prophet. They are followers of Hanafi sect and their scholars give Fatwa as per Hanafi sect but still the Hanafi’s have not said that if we consider them as non-Muslims the Hanafi’s numbers will reduce and they explicitly declared them as non-Muslims and all sects did it. The Muslims hate Qadyani’s. The Shias should wash this filth and declare that Gaali’s are not Shias and not just this even they are not Muslims. The Gaali’s when they speak Shirk get all associated with Shias. This hyperbole that is taking place in the name of Shias is complete filth. The other sects also do the same. Like for Hazrat Gaus ul Aza, the hyperbole that is done for Sheikh Abdul Qadi Gilani is much beyond the Gaali’s. Like they say Sheikh gave some life back even though Allah did not want. All this is extravagance and this is considering someone as deity. Does Sheikh Gilani also believes the same about himself, no but his followers do this about him.

The President has said in Parliament that entire world should do allegiance of Imran Khan. In politics you can see the hyperbole about personalities. These leaders who are considered as deities, do they also consider themselves as deity? Allah says not all are like this. As in this verse they are saying we do not have the rights to accept someone as guardian (Wali) other than you. There are many other verses in the same context. In one other verse Prophet Isa is explicitly asked and he replies that it is not like this they are themselves misguided. Allah has given these personalities the position not because they can be made deities. It is not that there is Trinity of Allah, Prophet and Ulul Amr. The Prophet and Ulul Amr are expressing the obedience of Allah.

Now these whom people have made deities (Ma’bud) will express the reason on what has misguided them. They will say that Allah you have given them the assets of life , the wealth, property which has misguided them. The wealth assets of theirs and forefathers has left them astray, they have forgotten you and they have turned into a barren community ( قَوْمًا بُورًا ). This part of the verse needs more explanation which we will talk later.

Allah says that on Seerate Mustaqim you will acquire Taqwa and the danger of Seerate Mustaqim are the various diverse paths along with the right path. From where this misguidance develops, and when people are gathered as one reference in this verse it is seen that they are misguided and live-in astonishment due to the wealth and assets they have and hence have turned into a barren community.

source: islamimarkaz.com

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 17 September 21 ، 15:22
عون نقوی

ایک عربی سائٹ نے عرب عمارات کی صیہونیوں کے ساتھ دیرینہ دوستی کو افشاء کرتے ہوۓ بیان کیا ہے کہ عرب عمارات نے تقریبا ۹۰ لاکھ سے زائد غیر ملکیوں کی اطلاعات صیہونیوں کے اختیار میں قرار دی ہیں۔

وب سائٹ مجہر الجزیرہ نے بیان کیا ہے کہ عرب عمارات کی وزارت خارجہ نے ۹۴۰۵۸۴۰ غیر ملکی جو عرب عمارات میں مقیم ہیں، کی اطلاعات صیہونی حکومت کے حوالے کی ہیں۔ دعوی کیا گیا ہے کہ باقاعدہ رسمی لیٹر کے ذریعے ڈپلومیٹک امور کے مدیر حمد مطر الشامسی نے ایک لیٹر میں ان اطلاعات کو صیہونی قابض ریاست کے حوالے کیا جس کے ذیل میں موصوف کے دستخط موجود ہیں۔

ویب سائٹ نے مزید لکھا ہے کہ اس رسمی لیٹر میں بیان کیا گیا کہ یہ شدید محرمانہ اطلاعات ہیں۔ ان افراد میں ۴۲۴۷۲ چینی، ۴۹۵۳۵ امریکی، ۱۶۲۴۰۵ پاکستانی، ۱۳۵۹۲ ترکی، ۱۷۴۳۴ روسی، ۲۸۱۲۰ فرانسیسی، ۷۵۴۰۸ فلسطینی، ۴۴۸۱۱۱ مصری اور ۶۴۲۰۱ لبنانی شامل ہیں۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 September 21 ، 22:12
عون نقوی