بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

آج کے انسان کے اہم خدشوں میں سے ایک عورتوں کے حقوق کا دفاع ہے، اگرچہ عورتوں کے حقوق کے دفاع کی تاریخ قدیمی ہے۔ لیکن پھر بھی یہ مسئلہ سب سے اہم اجتماعی مسائل میں شمار ہوتا ہے۔ عورتوں کے حقوق کے دفاع کا مسئلہ آج کل، زیادہ تر عورت کے تمام انفرادی اور اجتماعی حقوق میں مردوں کے برابر ہونے اور اجتماعی پابندیوں سے عورت کی آزادی کے محور کے موضوع پر ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مذکورہ سوال کا صحیح اور دقیق جواب دینے کے لیے پہلے مغرب میں عورت کے دفاع کے جریان اور ،موجودہ واقعات پر ایک نظر ڈالی جائے، جسے آج "فمینزم" کہتے ہیں، اس کے بعد ایک منصفانہ نقطہ نگاہ سے مغربی دنیا میں عورت کی آزادی پر تحقیق کی جائے۔

دنیا میں ہمیشہ مرد اور عورتیں تعداد میں برابر تھے، اور کبھی شاید عورتیں مردوں سے زیادہ تھیں، لیکن پوری تاریخ میں عورت، مرد کے تسلط میں رہی ہے اور عورت ہمیشہ ایک ایسے معاشرہ میں زندگی بسر کرتی تھی، جہاں پر اس کے حقوق پامال کیے جاتے تھے۔ بعض معاشروں میں اس کا تعارف حقیر اور پست ترین مخلوق کے عنوان سے کیا جاتا تھا کہ وہ صرف مردوں کی خدمت کے لیے پیدا ہوئی ہے۔ قدیم یونان کا تمدن  اس زمانہ کا ایک درخشاں ترین اور وسیع ترین تہذیب و تمدن شمار ہوتا تھا، اس میں بھی عورتوں کی حالت اس ترقی یافتہ تمدن کے ساتھ ہرگز متناسب نہیں تھی۔ " وہ عورت کو صرف جنسی خواہشات پوری کرنے کے ایک عنصر کے عنوان سے جانتے تھے اور عورت کسی صورت میں مرد کی شریک حیات شمار نہیں ہوتی تھی، کیونکہ وہ اس کو مکمل انسانی قوتوں کی مالک نہیں سمجھتے تھے اور عورت کو بدبختیوں اور مشکلات کا سرچشمہ جانتے تھے۔ عورت کو زندگی کے تمام ابعاد میں پست اور ذلیل جانتے تھے اور اسی وجہ سے اس کو شوہر کے مرنے کے بعد زندہ رہنے کا حق نہیں تھا۔ یونانی، عورت کو پاک نہ ہونے والی ایک مخلوق اور شیطان کی نسل جانتے تھے اور اسے مردوں کی خدمت کرنے ان کی جنسی خواہشات پوری کرنے کے علاوہ کسی کام میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔(۱)

قدیم روم میں بھی عورت کی بہتر حالت نہیں تھی اور اس تمدن میں عورت کو شیطان کی علامت سمجھا جاتا تھا اور اس کے اجتماعی اور خاندانی مقام سے چشم پوشی کی جاتی تھی اور لوگ عورت کو شیطان کا مکمل مظہر اور نقصان دہ ارواح میں سے جانتے تھے اور اسے عقل و دماغ کی گمراہی کا مظہر جانتے تھے اور اسی لیے وہ عورت کو اذیتیں پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے تھے اور اسے ہنسنے اور بات کرنے سے منع کرتے تھے۔ حقیقت میں رومی عورتوں کو انسان شمار نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ ان کی حیثیت عام چیزوں جیسی ہوتی تھی اور موت کے بعد یہ بھی دوسری چیزوں کی مانند وراثت میں ملتی تھیں۔(۲)

عورت کے بارے میں یہ نقطہ نظر مغربی تمدن کی پوری تاریخ میں ، "رنسانس" کے دور تک جاری تھا، جسے مغربی تمدن کی بیداری کا دور کہا جاتا تھا۔ حتی کہ دوسرے معاشروں میں بھی عورت کے ساتھ یہی امتیازی سلوک برتا جاتا تھا اور عورت مالکیت ، وراثت اور اجتماعی حقوق وغیرہ سے محروم تھی۔

مثال کے طور پر، ہندوستان میں عورت کو مرد کو خراب کرنے والی ایک شرپسند مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ آسٹریلیا کے بعض قبیلوں میں بنیادی طور پر عورتوں کو انسان شمار نہیں کیا جاتا تھا۔(۳)

مصر، چین، افریقہ اور دنیا کے دوسرے علاقوں میں بھی عورتیں اجتماعی حقوق سے محروم تھیں اور فرمانبردار کی حیثیت سے مردوں کے اختیار میں ہوتی تھیں تاکہ ان سے کام لیا جائے اور ان سے جنسی پیاس بجھانے میں استفادہ کیا جائے۔

علامہ طباطبائی ماضی بعید کے اقوام میں عورتوں کی حالت کو یوں بیان کرتے ہیں: " اس سلسلہ میں جو چیز تمام قوموں کے درمیان مشترک تھی، وہ یہ تھی کہ ان اقوام کی نظر میں عورت کو کسی قسم کی آزادی و حریت کا حق نہیں تھا۔ نہ ارادہ میں اور نہ عمل میں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں مرد کی ولایت و سرپرست کے تحت ہوا کرتی تھی۔ وہ کسی کام کو اپنی مرضی اور ارادہ سے انجام نہیں دے سکتی تھی اور اجتماعی مسائل میں سے کسی ایک میں مداخلت کرنے کا اختیار نہیں رکھتی تھی{نہ حکومت میں، نہ عدلیہ میں اور نہ کسی اور شعبے میں}۔ اب ہم ذرا دیکھتے ہیں کہ کسی قسم کا حق نہ رکھتے ہوئے اس کی کونسی ذمہ داریاں تھیں؟ اولاً: وہ سب ذمہ داریاں جو مرد پر تھیں، عورت کے ذمہ بھی تھیں، حتی کہ کام کاج کرنا، کھیتی باڑی اور لکڑی توڑنا وغیرہ  اور ثانیاً: ان کاموں کے علاوہ ، گھر کا نظم و نسق چلانا اور بال بچے پالنا بھی اسی کے ذمہ تھا، اور اس کے علاوہ جو کچھ مرد کہے اس پر عمل کرنا بھی اس کے ذمہ تھا۔(۴)

اسلام کے ظہور اور عورتوں کے حقوق کے ترقی یافتہ دین کے ابلاغ کے بعد ، عورت کی تحقیر کرنے اور اسے پست سمجھنے کی فضا بدل گئی اور مسلمانوں پر فرض بن گیا کہ عورت کو محترم سمجھیں اور اس کے حقوق کی رعایت کریں اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو ان کا مواخذہ کیا جائے گا اور بعض مواقع پر ان کو سزا ملے گی۔بہرحال مغربی تمدن کے قرون وسطی ، حتی کہ "رینسانس" کے دوران بھی عورت نامناسب حالات سے دوچار تھی اور اسے صرف عورت ہونے کے جرم میں گوناگون مظالم سے دوچار ہونا پڑتا تھا۔ غرض ازدواج، تعلیم و تربیت، ووٹ دینے، اجتماعی فیصلوں اور بعض مواقع پر مالکیت کے حق سے بھی محروم ہوتی تھی۔ مغرب میں ترقی پسند دور میں ۱۷۸۹ء میں جب فرانس میں حقوق انسانی کی قرارداد کو قبول کیا گیا ، اس میں بھی عورتوں کے حقوق اور ان کے مردوں کے مساوی ہونے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔(۵)

ایسے ظالمانہ حالات میں جب عورت کے لیے حتی کہ اپنے دانشوروں کی نظروں میں بھی کوئی پناہ گاہ موجود نہیں تھی، تو قدرتی بات ہے کہ وہ اپنے چھینے گیے حقوق کو پھر سے حاصل کرنے کے درپے ہو تاکہ اپنے فطری حقوق سے بہرہ مند ہو جائے۔

مغربی دنیا میں شدت سے تبدیلیاں پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ ، عورتوں کی طرف سے اپنے حقوق کی بحالی اور ان کے دفاع کے لیے تحریکیں شروع ہوئیں اور یہ تحریکیں "فمینزم" کے نام سے مشہور ہوئیں۔ ان تبدیلیوں کی داغ بیل مغربی فلسفہ کی بنیادوں پر ڈالی گئی ، کہ یہ "ہیومینزم" یا انسانی محوری کا ایک اصول ہے، جو انسان کا مطالبہ ہے، اور اسی اصول کو بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ سیکولرازم، کے معنی ، اس دنیا سے متعلق بننا ہے اس طرح کہ دین اور دنیا کے قلمرو کو تفکیک کر کے دین کو انسان کے مختلف شعبوں سے الگ کر کے انفرادی زندگی تک محدود کرنا ہے۔ فردگرائی کے یہ معنی ہے کہ انسان اپنے جسم کا مالک ہے اور خود اپنے بارے میں فیصلہ کرتا ہے۔

ان ہی فلسفیانہ بنیادوں پر عورتوں نے مردوں کے مساوی حقوق حاصل کرنے کے لیے کئی تحریکوں کا آغاز کیا، اگرچہ عورتیں آزادی اور برابری کا حق حاصل کرنے کے لیے مبارزہ کر رہی تھیں، لیکن اس کے باوجود مختلف اعتقادات رکھتی تھیں اور حتی کہ بعض عورتوں کے گروہ ایک دوسرے کو قبول نہیں کرتے تھے۔ اس طرح "فمینزم" کی تحریکیں مختلف گروہوں میں تقسیم ہوتی رہیں ان میں سے بعض کی طرف ان کے اھداف اور تشکیل کے لحاظ سے ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے، تاکہ ان کے مقاصد سے آگاہی حاصل ہو سکے۔

لیبرل فمینزم:

یہ تحریک قدیمی ترین اور سب سے بڑی فمینزم تحریک کو تشکیل دیتی ہے اور اس تحریک کا اعتقاد سیاسی و اجتماعی قوانین کی اصلاح کے ذریعہ زن و مرد کے حقوق کو مساوی قرار دینا ہے۔ ان کا اعتقاد ہے کہ ادبیات کے میدان میں پروگرام کے تحت مردوں کی سرپرستی اور سالاری کے الفاظ اور عبارتوں کو خاتمہ بخشنا چاہئیے۔ عورتوں کی انفرادی آزادی کی حفاظت کی جانی چاہئیے، جو اجتماعی رسومات اور اداروں سے اہم تر ہے۔ اگرچہ اس گروہ سے متعلق عورتیں بھی خاندانی نظام کی تشکیل کی زیادہ تنقیدیں کرتی ہیں، لیکن اس کے تحفظ کا بھی مطالبہ کرتی ہیں۔

مارکیسسٹ فمینزم:

اس تحریک سے متعلق عورتیں، عورتوں کے تحت تسلط قرار پانے کے عامل کو ، اقتصادی روابط کی پیداوار جانتی ہیں، جس کے مطابق سرمایہ داری اور مالکیت مردوں سے مخصوص ہے، ان تبدیلیوں کی بنیاد مغربی فلسفہ کے اصول پر ڈالی گئی ہے۔ اس گروہ سے متعلق افراد معاشرہ میں خاندان کی تشکیل کے زبردست مخالف ہیں اور عورتوں کے گھر میں کام کاج کرنے کا متبادل حل ریسٹورانٹوں اور اطفال خانوں میں کام کرنا جانتے ہیں تاکہ عورت عام جگہوں پر آزادانہ طور پر شرکت کر سکے۔ البتہ جدید مارکسیسٹ، خاندان کے مثبت پہلووں کی تاکید کرتے ہیں۔

ریڈیکل فمینزم:

اس گروہ کے افراد اعتقاد رکھتے ہیں کہ مردوں کی بالادستی اور ان کا ظلم تمام اجتماعی برائیوں، من جملہ عورت کی تحقیر کا سرچشمہ ہے۔ اس گروہ کے افراد کے عقیدہ کے مطابق ، نکاح ایک خطرناک وسیلہ ہے، جسے مردوں نے عورتوں کو قید و بند کرنے کے لیے وضع کیا ہے۔ اس عقیدہ کے مطابق ، ازدواج کو، عورت کے زندانی ہونے کا پیغام شمار کیا جاتا ہے۔ ریڈیکل فمینزم نے سقط جنین کو قانونی بنانے کی زبردست کوشش کی ہے۔ نسل کی حفاظت کے لیے اعتقاد رکھتے ہیں کہ نسل پیدا کرنے کے پرانے طریقہ کو بدلنا چاہئیے اور مصنوعی لقاح )تخم ریزی( اور مصنوعی طور پر لیبارٹریوں میں نشونما کے ذریعہ عورتوں کو حاملگی اور وضع حمل کی مشکلات سے نجات دلانا چاہئیے۔

سوشل فمینزم:

سوشل فمینزم کے قائل افراد ، مردوں کی عورتوں پر بالادستی کا ایک حصہ مردوں کی جنسی خواہشات کی بالادستی جانتے ہیں اور اس کا ایک حصہ اقتصاد اور سرمایہ داری نظام جانتے ہیں۔ اس گروہ کے افراد ازدواج کے فطری طریقہ کے قائل نہیں ہیں اور اسے ایک بناوٹی امر جانتے ہیں۔ اگرچہ اس کی مخالفت کو ضروری نہیں سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ عورتوں کی آزادی کی راہ میں طبقاتی اور ہم جنس بازی جیسے امور سے مقابلہ کرنا ناگزیر سمجھتے ہیں۔

سپر ماڈرن فمینزم:

فمینزم میں افراط و تفریط کے نتیجہ میں سپر ماڈرن فمینزم وجود میں آیا ہے کہ نسبت پرستی اور ہر قسم کے اعتقاد کا انکار کرنا اس کی خصوصیات ہیں۔ ان کا اعتقاد ہے کہ عورتوں پر مردوں کی بالادستی کے عوامل، ثقافت کی نوعیت، دین اور جغرافیہ وغیرہ پر منحصر ہے، اور ان عوامل کا انکشاف کرنے کے لیے مقامی طور پر تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔

مغربی دنیا میں جو کچھ عورت کو ملا ہے بظاہر وہ حیرت انگیز ہے، فمینزم کی تحریک کی دین بہت کچھ ہے۔ جو اصلی سوال یہاں پر پیش کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ اس وقت جہاں پر مغربی عورت کھڑی ہے، کیا اس انفرادی اور اجتماعی آزادی کے بعد اس کی شان اور انسانی تکریم کو تحفظ ملا ہے؟ بہ الفاظ دیگر کیا آج کی مغربی عورت کو سکون ملا ہے یا یہ کہ اضطراب اور بے آرامی کی حالت میں ہے؟

اس کے جواب میں کہنا چاہئیے کہ: مغربی دنیا میں ایک طولانی تحریک کے بعد عورتوں کی آزادی کا نتیجہ: حق رائے، سقط جنین کا حق، بلاوجہ طلاق حاصل کرنا ، مالی آزادی، جنسی آزادی، سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی امور میں وسیع پیمانے پر شرکت، ازدواج کی عمر کا بڑھنا، مجرد زندگی بسر کرنے میں افزائش، خاندان کی نابودی، طلاق میں افزائش، زن و مرد میں لڑائی جھگڑے کا پیدا ہونا، نسوانیت کا تباہی سے دوچار ہونا، عورتوں میں شناخت کا بحران، مردانگی کو کمزور کرنا، خصوصی و عمومی (گھر اور معاشرہ) کے حدود کو پاٹنا، ہم جنس بازی کا رواج، عورتوں میں مختلف قسم کی بیماریوں، من جملہ روحانی و جسمانی بیماریوں کو بڑھاوا ملنا، سقط جنین کے ذریعہ عورتوں کا سرمایہ داروں کے منافع کے لیے وسیلہ بننا، جنسی قوا کا نابود ہونا اور جنسی روابط میں کمزوری پیدا ہونا وغیرہ ہے۔

یہ نتائج اس چیز کی علامت ہیں کہ فمینزم نے عورت کے ایک جہت کے رشد و بالیدگی پر توجہ کر کے اس کے وجود کے دوسرے ابعاد کو ضائع کر کے رکھ دیا ہے۔ اس تحریک کے قبل و بعد کے حالات پر تحقیق کرنے کے بعد ، خود فمینزم کے طرفداروں کے اعتقاد کے مطابق اور فمینزم کی تنقید کرنے والوں کے مطابق ، اگرچہ عورتوں نے  مذکورہ مسائل میں آزادی حاصل کی ہے، لیکن وہ اپنی فطرت سے بیگانہ بن گئی ہیں اور یہ مسئلہ عورتوں کے لیے عدم شناخت اور سرانجام مغربی عورتوں کے لیے اضطراب کا سبب بنا ہے۔ فمینزم کا انتقاد کرنے والا ڈاکٹر ٹانی گرنٹ کہتا ہے: " آج معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں صرف آزاد ہوئی ہیں۔ لیکن جذبات کے لحاظ سے محتاج تر ، بےامن و متزلزل تر اور اپنی ماوں اور دادیوں کی بہ نسبت بے چارہ اور تنہا تر بن گئی ہیں۔(۶)

جس چیز کی اہمیت ہے، وہ عورت کے معاشرہ میں سرگرمیوں کے اثرات ہیں۔ جو عورتوں کی خصوصی صلاحیتوں ، خاص کر جسمانی اور روحانی قابلیتوں اور عورتوں کی انسانی تکریم کے پیش نظر ہو سکتے ہیں،لیکن فمینزم کے مختلف گروہوں نے عورتوں کے اس اثر کو عورت کے جسمانی ظہور تک محدود کر کے رکھ دیا ہے، اس اعتبار سے، عورت ، مغربی تمدن کے لحاظ سے انفرادی آزادی حاصل کرنے کے باوجود صرف ظاہری جہت سے قابل توجہ قرار پائی ہے، یہ وہ نظریہ ہے جس نے آج کی مغربی عورت کو بے چارہ اور بے بس کر کے رکھ دیا ہے۔

 

 


حوالہ جات:

۱۔ قائمی، علی، حیات زندگی زن در اندیشہ اسلامی، ص۴۱۔

۲۔ ایضاً، ص۴۲۔

۳۔ معصومی، مسعود، فمنیسم در یک نگاہ، ص۱۹۔

۴۔ طباطبائی، محمد حسین، المیزان، مترجم، موسوی ہمدانی، محمد باقر، ج‏۲، ص ۳۹۷۔

۵۔ فمنیسم در یک نگاہ، ص۲۶۔

۶۔ اسلاملو، نعیمہ، و دیگران، زن ستم تاریخی ستم برابری، ص۸۰۔

source: islamquest.net

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 14 September 21 ، 22:26
عون نقوی

مقدمہ

ویسے تو ہر دور میں ہی شیعہ اپنے سیاسی و اجتماعی نظریات کی وجہ سے حکومتوں کے زیر نظر اور زیر عتاب رہا ہے لیکن سیاسی طور پر امام محمد باقرؑ کا دورِ امامت خصوصاً تشیع اور شیعہ کے لیے سخت ترین دور تھا، تشیع کی رہبریت نے بھی اس ضمن میں ہمیشہ اپنے شیعوں کو صبر و استقامت کا درس دیا جیسا کہ امام رضاؑ سے منقول ہے:
مَن بَلَی مِن شِیعَتِنا بِبَلاء فصَبرَ کتبَ اللّه لهُ اَجر الف شَهِید.(١)
ہمارے شیعوں میں سے اگر کوئی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایک ہزار شہید کا ثواب اس کے لیے قرار دیتا ہے۔
اس حقیقت کو ہر دور کی حکومتیں بطور احسن جانتی تھیں کہ شیعہ ہی وہ واحد فرقہ ہے جو ہمارے لئے سیاسی طور پر خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ بنیادی طور پر شیعہ و سنی کا بنیادی ترین اختلاف ہی سیاسی اختلاف تھا ناکہ کوئی کلامی یا فقہی اختلاف۔ شیعہ وہ واحد سیاسی گروہ ہے جو امامت کا قائل ہے اور جنکے رہبر بھی اس چیز کے مدعی ہیں، لوگوں کی دینی و دنیوی رہبری کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں جیسا کہ خود امام باقرؑ کا فرمان مبارک ہے:

بُنِیَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ عَلَى الصَّلَاةِ وَ الزَّکَاةِ وَ الصَّوْمِ وَ الْحَجِّ وَ الْوَلَایَةِ وَ لَمْ یُنَادَ بِشَیْ‌‌ءٍ کَمَا نُودِیَ بِالْوَلَایَةِ فَأَخَذَ النَّاسُ بِأَرْبَعٍ وَ تَرَکُوا هَذِهِ یَعْنِی الْوَلَایَةَ.(٢)
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: نماز، زکات، روزہ، حج اور ولایت۔ اور لوگوں کو جتنا ولایت کے لیے پکارا گیا اتنا کسی اور امر کے لیے تاکید نہیں کی گئی لیکن لوگوں نے باقی چار کو تو لے لیا اور اس کو یعنی ولایت کو ترک کردیا۔

امام باقر کا طاغوت مخالف رویہ

امامؑ نے ہمیشہ ولایت کے لیے لوگوں کو آمادہ کیا اور کبھی بھی اپنے شیعوں کو ظالم و فاسد نظام سے ھمکاری یا تعاون کرنے کی ہرگز اجازت نہ دی، ایک سال سفر حج پر امامؑ اور خلیفہ وقت ہشام بن عبدالملک اکٹھے ہو گئے، مکہ میں خلیفہ وقت نے محسوس کیا کہ جس طرح سے لوگ امامؑ کو پروٹوکول دے رہے ہیں اس طرح سے خلیفہ وقت کو منہ نہیں لگا رہے، استبدادی حاکم کو امامؑ عزت افزائی اور اپنی ذلت ہضم نہ ہوسکی اور دل میں کینہ لیے عازم شام ہوا وہاں جا کر صدارتی حکم جاری کیا اور مدینہ کے گورنر کو لکھوا بھیجا کہ امام باقرؑ اور انکے بیٹے جعفر صادقؑ کو شام إحضار کیا جائے۔

امام باقرؑ کا دارالحکومت شام کی جانب سفر اور ناقابل یقین تیراندازی کا واقعہ

اس سفر میں امامؑ کے فرند ارجمند امام جعفر صادقؑ بھی شریک تھے اور اس سفر کے احوال بھی امام جعفر صادق   سے نقل ہوئے ہیں، روایات میں نقل ہوا ہے کہ جب امام   دمشق پہنچے تو
فلما وردنا مدینة دمشق حجبنا ثلاثا ، ثم أذن لنا فی الیوم الرابع فدخلنا.
حاکم وقت نے تین دن ان کو ملاقات کا وقت نہ دیا تاکہ انکو تنگ کیا جاسکے چوتھے دن خلیفہ وقت کے سامنے پیش کیا گیا۔ جب امام   دربار میں پہنچے تو خلیفہ وقت نے انکی تعظیم نا کی بلکہ ہر ممکن کوشش کی جس سے انکی تحقیر کی جاسکے، تفریح کے لیے خلیفہ وقت نے اپنے ماہر تیرانداز بلاۓ اور انکے درمیان مقابلہ کروایا، ھشام اپنے ماہر تیر اندازوں کی مہارت کا رعب امامؑ پر ڈالنے کی کوشش کررہا تھا، لوگوں کے درمیان امامؑ کی تحقیر کرنے کے لیے کہنے لگا:

ھشام: ارم مع قوم اشیاخک! 
آئیے آپ بھی اپنے قوم کے بزرگوں کی طرح تیراندازی کیجئے! 

امام:  إنی قد کبرت عن الرمی فهل رأیت أن تعرفینی۔ 
میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں مجھے اس کام سے معاف رکھئے۔ 

ہشام کا اصرار بڑھنے لگا اور امام انکار کرتے رہے، بالآخر امام   نے ایک سپاہی سے تیر کمان لیا اور نشانہ بنایا۔ روایت میں نقل ہوا ہے:
انتزع ورمى وسط الغرض فنصبه فیه ، ثم رمى فیه الثانیة فشق فواق سهمه إلى نصله ثم تابع الرمی حتى شق تسعة أسهم بعضها فی جوف بعض ، وهشام یضطرب فی مجلسه فلم یتمالک إلا أن قال : أجدت یا أبا جعفر وأنت أرمى العرب والعجم ، هلا زعمت أنک کبرت عن الرمی ، ثم أدرکته ندامة على ما قال. 
امامؑ نے تیر چھوڑا جو ھدف کے وسط میں لگا، گویا آفرین کی صدائیں دلوں میں گونج رہی تھیں لیکن زبانیں بے صدا تھیں، اس کے بعد دوسرا تیر لیا نشانہ بنایا، تیر کو چھوڑا جو پہلے تیر کو چیرتا ہوا ھدف کو جا لگا، اسی طرح تیسرے تیر کو رہا کیا جو دوسرے تیر کو چیرتے ہوئے ھدف پر لگا، یکے بعد دیگرے ۹ تیر ھدف کی جانب چھوڑے جو ایک دوسرے کو چیرتے ہوئے عین ھدف کے وسط میں لگتے رہے، گویا تیر ھدف پر نہیں بلکہ ھشام کے سینے میں پیوست ہو رہے تھے، یہ سب دیکھ کر مجمع حیرت زدہ اور ھشام مضطرب ہونے لگا اور از روۓ ناچاری کہنے لگا کہ اے ابا جعفر! آپ نے بہت بہترین تیر پھینکے آپ سے ماہر ترین تیر انداز ہم نے پورے عرب و عجم میں نہیں دیکھا، آپ نے تو کہا تھا کہ بوڑھا ہو گیا ہوں۔

ہشام بن عبدالملک اور امامؑ کے درمیان گفتگو اور نصرانی عالم سے مناظرہ

تیراندازی کے بعد ہشام نے امامؑ کو ناچار ہو کر اپنے پاس بٹھایا اور کہنے لگا کہ ہم سب ایک ہی نسل سے ہیں اور سب عبدمناف کے بیٹے ہیں۔ آپ لوگوں کو ہم پر کسی قسم کی فوقیت حاصل نہیں، آپ لوگ ادعا کرتے ہیں مثلا ابوطالبؑ کا بیٹا علم غیب کا دعویٰ کرتا تھا جبکہ اللہ تعالٰی نے علم غیب کو فقط اپنے لیے مخصوص قرار دیا ہے یہ سن کر امامؑ نے چند آیات استدلال کے طور پر بیان کیں اور احادیث بیان کیں جس پر ھشام ہکا بکا رہ گیا، اس ملاقات کے بعد امام   کو تحت تعقیب رکھا گیا، حاکم وقت کے سپاہی اور جاسوس امامؑ کے ساتھ ہمیشہ رہتے۔ اسی دوران امام   کا ایک نصرانی عالم سے مناظرہ ہوا جس میں امامؑ نے نصرانی کو حیرت زدہ کردیا، کیونکہ اس نصرانی نے جو بھی سوالات کئے امامؑ نے انکا جواب دیا۔ آخر میں اس نے کہا:
وقاموا النصارى على أرجلهم فقال لهم عالمهم : جئتمونی بأعلم منی وأقعدتموه معکم حتى هتکنی وفضحنی.
نصرانی کھڑا ہوا اور کہا کہ تم لوگ جان بوجھ کر ایسے شخص کو لاۓ ہو جو مجھ سے زیادہ جانتا ہے اور اعلم ہے تاکہ مجھے رسوا کرسکو۔ بعض روایات میں ملتا ہے کہ وہ نصرانی امامؑ کے ہاتھوں مسلمان ہوگیا۔

 امامؑ کی گرفتاری اور ھشام بن عبدالملک کا خوفزدہ ہونا

امامؑ کے ان عظیم تحرکات اور اقدامات کی وجہ سے پورے شام میں امام باقرؑ شامیوں کے مورد بحث قرار پائے ہر محفل میں امامؑ کے علم و دانش کا تذکرہ ہونے لگا، وارد ہوا ہے:
وَ اَزدَھم اَھل الشّام عَلَی الاِمَام وَ ھُم یَقُولُون ھَذَا ابنُ اَبِی تُراب۔
اہل شام ھجوم کی شکل میں امامؑ کی طرف جذب ہوۓ اور وہ کہتے تھے کہ یہ ابوتراب کا فرزند ہے۔ امامؑ نے شامیوں کے اس جم غفیر میں ایک جامع خطبہ ارشاد فرمایا جس میں بنو امیہ کے حکام پر تلویحا تنقید کی اور فضائل امام علیؑ بیان کرنا شروع کئے، جس پر ھشام کے سپاہیوں نے امام   کو گرفتار کرلیا۔ امامؑ چند روز ھشام کے حکم سے زندان میں اسیر رہتے ہیں لیکن بعد میں امام   کی شام میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کے ڈر سے آزاد کردیا جاتا ہے اور فورا مدینہ کی جانب بھیج دیا جاتا ہے، ہشام خوفزدہ تھا  کہ جو کام امامؑ نے شام میں کیا اور لوگوں کو اپنی طرف جذب کیا یہی کام اپنے واپسی مدینہ کے سفر میں راستے میں آنے والے شہروں میں بھی کریں گے اور ہر شہر میں اگر انہوں نے اسی طرح سے خطبے دئیے اور لوگوں پر حقیقت برملا کی تو انکی حکومت کا تختہ الٹ سکتا ہے، اس خوف سے ھشام نے امامؑ کی روانگی سے قبل چند افراد کو معین کیا جو ہر اس شہر میں  سے گزرتے جہاں سے امام نے گزرنا تھا، وہاں جا کر پروپیگنڈہ کرتے افواہیں پھیلاتے اور کہتے کہ یہاں سے چند گمراہ اور اسلام کے منکر افراد کا گزر ہونا ہے، اور کہتے کہ خلیفہ وقت نے ان گمراہ افراد سے ملنے پر پابندی لگائی ہے جو بھی ان سے ملے گا یا انکو کوئی چیز فراہم کرے گا اس کو سزا دی جائے گی۔

امامؑ کا شہر مدین میں پڑاؤ

امامؑ کے مدینہ واپسی کے سفر میں مدین کے شہر سے گزر ہوا تو امامؑ نے حکم دیا کہ وہاں سے کھانے پینے اور دیگر ضروریات خرید کی جائیں، اہالی مدین نے امامؑ پر شہر کا دروازہ بند کردیا اور ھشام کا حکم مانتے ہوئے امامؑ کو کوئی بھی چیز نا خریدنے دی، الٹا کہنے لگے کہ یہ کون کافر لوگ ہمارے شہر میں گھسنا چاہتے ہیں اور امیرالمومنین علیؑ کو دشنام دینے لگے۔ امام باقرؑ نے ملاطفت سے انکو کہا کہ اتنے سختگیر مت بنیں جو خبر آپ کو پہنچائی گئی ہے ہم اس طرح سے نہیں ہیں، اور اگر بالفرض ایسی بات ہے بھی تو تب بھی ہم سے معاملہ کریں جس طرح سے کفار اور یھود و نصاری سے معاملات کرتے ہو آخر ہمیں خوردونوش کی اشیاء تو قیمت کے عوض دو۔ لیکن انہوں نے ایک نا مانی، امامؑ نے یہ دیکھ کر ناراحتی کا اظہار کیا اور ایک پہاڑی پر چڑھ کر قرآن کریم کی ان آیات کی تلاوت کرنا شروع کردی جو قوم مدین اور حضرت شعیبؑ سے مربوط تھیں، خداوند متعال کے حکم سے شدید طوفانی ہوائیں چلنا شروع ہو گئیں فضا میں تاریکی پھیلنے لگی، اہل مدین اپنے مکانوں کی چھتوں پر چڑھنے لگے ایسے میں ایک بوڑھے شخص نے فریاد بلند کی:
 اے لوگو! اے اہل مدین خدا سے ڈرو یہ شخص جو قرآن کی تلاوت کررہا ہے بالکل اسی جگہ پر کھڑا ہے جہاں پر حضرت شعیبؑ نے کھڑے ہو کر اپنی قوم پر نفرین کی تھی اگر تم لوگوں نے اپنے شہر کے دروازے اس پر نہ کھولے تو خدا کا عذاب تم لوگوں کو گھیر لے گا۔
لوگوں نے عذاب کے آثار اور اس بوڑھے شخص کی باتوں کا اثر لے کر دروازہ کھول دیا، بعد میں ھشام نے اس بوڑھے مرد کو قتل کروا دیا، اور مدینہ کے گورنر کو لکھوا بھیجا کہ جب باقرؑ مدینہ پہنچے تو اس کو کھانے یا پینے کی چیز میں زہر دے کر شہید کروا دیا جائے۔

 

 


حوالہ جات:

۱۔ شیخ حر آملی، وسائل الشیعۃ، ج۳، ص۲۶۰۔

۲۔ شیخ کلینی، الکافی، ج۲، ص۱۸، باب دعائم الاسلام، ح۳، ط اسلامیہ۔
۳۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج۴۶، باب۷، ص۳۰۶، الی۳۲۰۔

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 September 21 ، 13:09
عون نقوی

تعارف

آپ کا نام علی اور کنیت ابوالحسن ہے، ھادی، نقی، عالم، فقیہ، امین اور طیب مشہور القاب ہیں. امام علی نقی علیہ السلام شیعہ اثنا عشری کے دسویں امام ہیں، آپ ۱۵ ذی الحج سال ۲۱۲ ہجری مدینہ منورہ میں متولد ہوئے۔
آپ کے والد ماجد نویں امام یعنی محمد تقی علیہ السلام ہیں اور والدہ کا نام سمانہ ہے۔ (۱)

علمی فعالیت

۱۔  شاگردان تیار کرنا 

امام نقیؑ کا عصر ویسے تو جبر و استبداد کا عصر تھا جس میں کسی بھی شخصیت کے لیے معاشرے میں علمی و سیاسی یا کسی بھی قسم کی فعالیت رکھنا خطرناک تھا لیکن امام علیہ السلام نے اپنا الہی فریضہ سمجھتے ہوئے اپنے وظائف سے غفلت نہ برتی. ایسے سخت ترین دور میں امام علیہ السلام نے بہترین شاگرد آمادہ کئے جنہوں نے مکتب کی ہر میدان میں خدمت کی، شیخ طوسی رح کے بقول امام علیہ السلام نے ۱۸۰ شاگرد تیار کئے جو مختلف اسلامی علوم کے ماہر تھے. ان میں فضل بن شاذان، حسین بن سعید اهوازی، علی بن مهزیار اهوازی دورقی، ایوب بن نوح، حسن بن راشد، احمد بن محمد بن عیسی اشعری قمی و عثمان بن سعید عمری مشہور ترین ہیں۔ (۲)

۲۔  ترویج تشیع اور مخالفین کے شبہات کے جواب

آئمہ معصومینؑ نے ہر دور میں حقیقی اسلام کے نظریات کو معاشرے میں تبلیغ کیا، جہاں پر مختلف منحرف فرقوں کے معاشرے میں ابھارے گئے شبہات کا جواب دیتے وہیں پر حکومتوں سے منسلک درباری علماء کا بھی مقابلہ کرتے، وہ چاہے خود تشیع کے اندر غلو کی صورت میں پھیلتا ہوا انحراف تھا یا درباری علماء کی جانب سے کلامی و تفسیر و حدیث کے بارے میں پھیلے ہوئے شبہات تھے، ہر دو انحراف کے خلاف امام علیہ السلام نے اپنے علم لدنی سے حق اور حقیقت کی تبلیغ کی اور مکتب کی حقیقی معنی میں رہبریت کی. یہی وجہ تھی کہ امام علیہ السلام نے معاشرے میں ایک مخصوص مقام حاصل کرلیا اور مقبولیت حاصل کرلی. بطور نمونہ عباسی حکومت کے کارندے بریحہ عباسی کا متوکل کے نام خط پیش کیا جاسکتا ہے کہ جس میں وہ متوکل کو لکھتا ہے کہ اگر مکہ اور مدینہ پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتے ہو تو علی نقی کو یہاں سے نکال دو کیونکہ وہ لوگوں کو اپنی جانب جذب کررہا ہے اور ایک بہت بڑی جماعت اسکے ساتھ ملحق بھی ہو چکی ہے۔ (۳)

سیاسی فعالیت

متوکل عباسی کی حکومت سے پہلے امامؑ مدینہ میں موجود تھے، جب متوکل تخت نشین ہوا تو اس نے امامؑ کو زیر نظر رکھنے کے لیے سامرہ بلوا لیا، یہ امر بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارے آئمہ معصومینؑ کبھی بھی رضامندی سے درباروں اور طاغوتی فاسق حکمرانوں کے ساتھ ملحق نہیں رہے، بلکہ انکو زبردستی حکمرانوں نے اپنے ساتھ ملا کر رکھا، تاکہ ایک تو ان کو زیر نظر رکھا جائے اور دوسرا یہ کہ انکے پیروکار شیعہ بھی کسی قسم کے تحرکات جو حکومت کے لیے نقصان دہ ہوں، انجام نہ دیں۔ اس لئے درباروں اور حکومتوں کا حصہ بننا اور اسکے لئے یہ دلیل قائم کرنا کہ ہمارے آئمہ معصومینؑ نے بھی یہ کام کیا تھا، غلط ہے. شیخ مفیدؒ نے ایک روایت میں اس حقیقت کو ذکر کیا ہے کہ امام ھادیؑ کی سامرہ میں آمد انکی رضامندی کے ساتھ نہیں تھی بلکہ اجباراً انکو سامرہ لایا گیا۔ (۴)

۱۔  نظام وکالت

امام ھادیؑ نے امام رضاؑ اور امام جوادؑ کا قائم کردہ نظام وکالت، شیعیان جہان کیساتھ ارتباط کے لیے ویسے ہی جاری رکھا، امامؑ کی جانب سے متعین وکیل اسلامی ممالک کے تمام شہروں میں موجود تھے، یہ افراد شیعیان اور امام کے درمیان واحد ربط تھے، ان کے ذریعے مسئلہ امامت کی تبیین، خمس و زکات کی جمع آوری اور بقیہ مختلف امور انجام پاتے۔ اس استبدادی دور میں امام کا وکیل ہونا بھی کوئی آسان کام نہ تھا بلکہ جان ہتھیلی پر رکھ کر خطرہ مول لینے والی بات شمار ہوتی، متوکل عباسی نے سامرہ میں امامؑ کو کھلی چھٹی نہیں دے رکھی تھی بلکہ سخت ترین انتظامات کئے گئے تھے تاکہ امامؑ کسی بھی قسم کی فعالیت انجام دینے سے قاصر رہیں لیکن اس کے باوجود امامؑ نے اپنے شیعوں کے ساتھ ارتباط کو قطع نہ کیا۔

۲۔ مسئلہ امامت کی تبیین

یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اہلبیتؑ کی تعلیمات فاسق طاغوتی حکمرانوں کے لئے نقصان دہ تھیں، ایک طرف سے آئمہؑ کا دین اور دنیا ہر دو میدانوں میں امت مسلمہ کی رہبریت کا مدعی ہونا اور دوسری طرف سے انکے پیروکاران یعنی وہ شیعہ جو اپنی جان راہ امامت میں فدا کرنے کے لیے آمادہ ہوتے، یہ وہ دو امر تھے جن سے ہر دور کی حکومت خوفزدہ ہوتی اس لیے ہمارا ہر امام یا تو تلوار سے شہید کیا گیا ہے یا زہر سے مسموم کیا گیا ہے۔ دنیا میں ایسا کوئی بھی فرقہ نہیں جس کے سب رہبر شہید کئے گئے ہوں. امام ھادی نقی علیہ السلام نے بھی نا صرف بقیہ آئمہؑ کی طرح مسئلہ امامت کو اپنے شیعوں کے لیے تبیین کیا بلکہ طاغوتی حکومتوں کو شدید دباؤ میں قرار دیا یہاں تک کہ عباسی خلیفہ نے امامؑ کو شہید کردیا۔

راہ امامت میں مصائب و صعوبتیں اور شہادت

جب امامؑ کو جبری طور پر سامرہ لایا گیا تو شیخ مفید نقل کرتے ہیں کہ متوکل نے امام کی توہین اور تحقیر کے لیے انکی رہائش کے لئے ایک ایسی جگہ متعین کی جو اس علاقے کی حقیر اور پست ترین جگہ تھی، اس جگہ کا نام خان صعالیک تھا اور یہاں فقط گداگر بھکاری، اندھے بہرے مستمند افراد رہا کرتے تھے، کچھ دن وہاں پر رکھنے کے بعد امامؑ کو ایک فوجی چھاؤنی میں لے جایا گیا، متوکل نے حکم دیا کہ امام کو جس جگہ رکھا جائے اس کے احاطے میں ایک گھڑا کھودا جائے جو قبر کی مانند ہو۔ (۵)
متوکل عباسی نے اگرچہ امامؑ کو زیر نظر رکھا ہوا تھا لیکن اس کے باوجود اکثر اوقات رات کو ڈراؤنے خواب  دیکھتا اور ڈر جاتا، پریشانی و سرگردانی میں امامؑ سے انتقام لیتا اور سپاہیوں کو حکم دیتا کہ جاؤ امامؑ کے مکان کی تلاشی لو، یہ سپاہی بھی کبھی اجازت سے اور کبھی بنا اجازت آتے اور سختی سے بدتمیزی کا ارتکاب کرتے ہوئے ساحت مقدس امام میں ہتاکی کرتے، تاریخ میں لکھا ہے کہ بعض اوقات متوکل عباسی دن کو شراب کی مستی کی حالت میں امام کو اپنے پاس حاضر کرواتا اور نعوذبااللہ امام کو شراب پینے کی دعوت دیتا۔ (۶)
متوکل عباسی کے مرنے کے سات سال بعد بھی امامؑ سامرہ میں اسیر رہے بالآخر معتز کے حکم سے امامؑ کو تین رجب المرجب سال ۲۵۴ ہجری انار کے شربت یا پانی میں زہر دے کر مسموم کردیا گیا۔ (۷)

 

 

 


حوالہ جات:

۱۔ شیخ مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج الله علی العباد، ج۲، ص۲۹۷، کنگره شیخ مفید، قم،  طبع اول، ۱۴۱۳ق۔
۲۔ شیخ طوسی، رجال الطوسی، ص۳۸۳-۳۹۴، تحقیق: قیومی اصفهانی، جواد، جامعه مدرسین، قم، طبع اول، ۱۴۱۵ق۔
۳۔ علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج۵۰، ص۲۰۹۔ 
۴۔ شیخ مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج الله علی العباد، ج۲، ص۳۱۱ ۳۰۹، کنگره شیخ مفید، قم، طبع اول، ۱۴۱۳ق۔
۵۔ علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج۵۰، ص۱۹۴۔ 
۶۔ علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج۵۰، ص۲۱۱۔ 
۷۔ ابن شہر آشوب مازندرانی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۳، ص۵۰۶، مؤسسہ انتشارات علامہ، قم، ۱۳۷۹ق۔

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 September 21 ، 12:23
عون نقوی

وطن ایک ایسا عنوان ہے جو تقریبا دنیا کے ہر کونے میں بسنے والے انسان کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ تمام ادیان بالخصوص دین اسلام نے وطن دوستی کو لازمی قرار دیا ہے۔ البتہ یہ وطن دوستی افراط کی حد تک قبول نہیں یعنی ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ حب الوطنی کے عنوان سے حدود خدا کو پائمال کر دیں۔ اسلامی مفکرین اس بات پر متفق ہیں کہ حب الوطنی شرعی طور پر کسی قسم کا اشکال نہیں رکھتی بلکہ بہت سی آیات و روایات سے اس کو ثابت کیا ہے اس تحریر میں اختصار کے ساتھ ان ادلہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔

قرآن کریم میں سورہ ممتحنہ میں اسی مطلب کی طرف اشارہ موجود ہے جس میں اللہ تعالی نے وطن کو ایک ایسا مفہوم قرار دیا ہے جو اعلی اقدار میں سے ہے:
لایَنْهاکُمْ اللهُ عَنِ الَّذینَ لَمْ یُقاتِلُوکُمْ فِى الدّینِ وَ لَمْ یُخْرِجُوکُمْ مِنْ دِیارِکُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَ تُقْسِطُوا اِلَیْهِمْ اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ إِنَّما یَنْهاکُمُ اللهُ عَنِ الَّذینَ قاتَلُوکُمْ فی الدّینِ وَ أَخْرَجُوکُمْ مِنْ دِیارِکُمْ وَ ظاهَرُوا عَلى اِخراجِکُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَ مَنْ یَتَوَلَّهُمْ فَأوُلئِکَ هُمُ الظّالِمُونَ.
 جن لوگوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اللہ تمہیں ان کے ساتھ احسان کرنے اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا، اللہ یقینا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تو یقینا تمہیں ایسے لوگوں سے دوستی کرنے سے روکتا ہے جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اور تمہاری جلاوطنی پر ایک دوسرے کی مدد کی ہے اور جو ان لوگوں سے دوستی کرے گا پس وہی لوگ ظالم ہیں۔(۱)
ان دو آیات میں صراحت کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے کہ وطن کو مقاتلہ در دین کے مترادف رکھا گیا ہے۔ یعنی اگر دین کے معاملے میں آپ سے کوئی جنگ کرتا ہے اس کی اہمیت اور جنہوں نے آپ کو آپ کے گھروں اور وطنوں سے نکال باہر کیا ہر دو ایک ردیف میں ہیں۔
سورہ مبارکہ بقرہ میں بنی اسرائیل کے کلام کو اللہ تعالی نے نقل کیا ہے: 

قالُوا وَ ما لَنا أَلاّ نُقاتِلَ فى سَبیلِ اللهِ وَ قَدْ اُخْرِجْنا مِنْ دِیارِنا وَ أَبْنائِنا.
 کہنے لگے:ہم راہ خدا میں جنگ کیوں نہ کریں جب کہ ہم اپنے گھروں سے نکالے گئے اور اپنے بچوں سے جدا کیے گئے ہیں؟(۲)
 اس آیت مجیدہ میں بیان ہوا ہے کہ بنی اسرائیل نے جنگ کا ارادہ کیا اور ان کا جنگ کرنے کا ارادہ نہ فقط حفظ دین خدا تھا بلکہ وطن کی نجات بھی تھی جس میں وہ کہتے ہیں کہ ہم ضرور جنگ کریں گے کیونکہ ہمیں اپنے گھروں سے نکالا گیا۔ جس کے جواب میں پیغمبر نے ان کے کلام پر اعتراض نہیں کیا اور عملا ان کی تائید کی۔
سورہ حج میں اللہ  تعالی نے ان لوگوں کو جہاد کرنے کی اجازت دی ہے جن کو ان کے گھروں اور وطن سے نکال دیا گیا اور وطن کے دفاع کے لیے مبارزے کو جائز بلکہ لازم قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

أُذِنَ لِلَّذِینَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِیرٌ الَّذِینَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِهِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن یَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ. 
جن لوگوں پر جنگ مسلط کی جائے انہیں (جنگ کی) اجازت دی گئی ہے کیونکہ وہ مظلوم واقع ہوئے اور اللہ ان کی مدد کرنے پر یقینا قدرت رکھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے ہیں، محض اس جرم میں کہ وہ یہ کہتے تھے: ہمارا رب اللہ ہے۔(۳)
وارد ہوا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ کیا تو بہت رنجیدہ دل و افسردہ تھے۔ مکہ ان کے لیے جہاں پر معنوی مقام رکھتا تھا وہیں پر متعدد جہات سے رسول اللہ ﷺ اس شہر سے مانوس تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی افسردگی کو دیکھ کر اللہ تعالی نے جبرئیلؑ کو بھیجا، حضرت جبرئیلؑ نے رسول اللہ ﷺ کو کہا: 

أ تشتاق إلى بلدک و مولدک فقال نعم قال جبرائیل فإن الله یقول.
 کیا آپ مکہ کے لیے مشتاق ہو رہے ہیں اور اس جگہ کے لیے جو آپ کی زادگاہ ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں!(۴)
جبرئیلؑ نے کہا کہ اللہ تعالی کا فرمانا ہے:

إِنَّ الّذى فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرآنَ لَرَادُّکَ إِلَى مَعَاد.
 اے رسول) جس نے آپ پر قرآن (کے احکام کو) فرض کیا ہے وہ یقینا آپ کو بازگشت تک پہنچانے والا ہے۔ (۵)
حضرت فاطمہؑ اپنے والد بزرگوار کے متعلق فرماتی ہیں:

کان رسول الله  یهتم لعشرة أشیاء فآمنه الله منها وبشرة بها : لفراقه وطنه.
 رسول اللہ ﷺ دس امور کو لے کر بہت پریشان تھے پھر اللہ تعالی نے ان کو آسودہ خاطر کیا اور بشارت دی، ان میں سے ایک امر وطن سے فراق تھا۔ بعد میں بی بیؑ نے سورہ قصص کی ۸۵ نمبر آیت تلاوت کی اور فرمایا کہ اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کر کے رسول اللہ ﷺ کے غم کو خوشی میں بدل دیا۔(۶)
ایک روایت جو امیرالمومنینؑ سے منقول ہے وارد ہوا ہے:

 عُمِرَتِ الْبُلْدانُ بِحُبِّ الأَوْطانِ.
 شہر حب الوطنی سے آباد ہوتے ہیں۔(۷)
اور معروف روایت جو کہ رسول اللہ ﷺ سے منسوب ہے:

 حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الاْیمانِ.
وطن سے محبت ایمان میں سے ہے۔(۸)
ہمارے جید علماء کرام کی سیرت بھی یہی رہی  ہے۔ امام خمینیؒ فرماتے ہیں:

خوشحالم که بعد از سالهاى طولانى در میان شما رفقا- جوانان- هستم. من همیشه در فکر ایران و در فکر وطن خودم- قم- بودم.
میں بہت خوش ہوں کہ بہت سالوں بعد آپ سب دوستوں اور جوانوں کے درمیان ہوں۔ میں ہمیشہ ایران اور اپنے وطن قم کی فکر میں رہتا تھا۔ (۹)
مندرجہ بالا نکات کو مد نظر رکھتے ہوۓ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وطن سے محبت اور عشق کا ریشہ نہ فقط قرآن مجید و روایات میں موجود ہے بلکہ عقل اور انسانی مزاج بھی اس کی تاکید کرتا ہے۔ تاہم وطن سے محبت اس چیز کا سبب نہیں بننی چاہیے کہ انسان اعلی اہداف کو ترک کر دے۔ اگر علمی و مادی و معنوی تکامل کے لیے وطن کو ترک کرنا پڑے تو انسان کو ہچکچانا نہیں چاہیے۔ جس طرح سے ہم سنت نبویﷺ میں دیکھتے ہیں کہ جب انہوں نے دیکھا کہ مکہ میں دین خدا ترقی نہیں کر سکتا تو مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ حتی بعد از فتح مکہ بھی رسول اللہ ﷺ اپنے زادگاہ کی طرف نہیں لوٹے بلکہ مدینہ کی طرف واپس ہو گئے۔ کسی بھی چیز کی محبت اگر اپنی حدود میں ہو تب تک تو صحیح ہے لیکن اگر افراط کیا جاۓ یہاں تک کہ حدود خدا کو بھی پائمال کر دیا جاۓ تو اسے حب الوطنی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔

 

 


حوالہ جات:

۱۔ سورہ ممتحنہ:۸۔
۲۔ سورہ بقرہ: ۲۴۶۔
۳۔ سورہ حج:۳۹۔
۴۔ طبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ج۷، ص۴۲۰۔
۵۔ سورہ قصص:۸۵۔
۶۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۴۳، ص۳۴۔
۷۔ ابن شعبہ حرانی، تحف العقول،ج۱، ص۲۰۷۔
۸۔ قمی، شیخ عباس، سفینۃ البحار، ج۸، ص۵۲۵۔
۹۔ خمینی، روح اللہ موسوی، صحیفہ امام، ج۱۰، ص۳۷۲۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 September 21 ، 12:29
عون نقوی

عمرو ابن حریث کہتے ہیں کہ ایک دن دوپہر کے وقت مجھے امام علیؑ کی خدمت میں حاضر ہونے کا اتفاق ہوا۔ میں نے دیکھا کہ ایک مہر شدہ تھیلی آپؑ کے آگے رکھی ہے، آپؑ نے اس میں سے سوکھی روٹی کے ٹکڑے نکالے اور انہیں پانی میں بھگو کر اور ان پر نمک چھڑک کر کھانے لگے۔

میں نے روٹی کے ٹکڑوں کو دیکھ کر فضہ سے کہا کہ تم سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ گوندنے سے پہلے آٹا چھان کر بھوسی الگ کر دیا کرو۔ فضہ نے کہا کہ میں نے ایک دفقہ آٹا چھانا تھا مگر حضرتؑ نے آیندہ ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ اور میں نے اس تھیلی میں سوکھے ٹکڑوں کے علاوہ کھانے کی کچھ اور چیزیں بھی رکھ دی تھیں مگر حضرتؑ نے اس پ مہر لگا دی تاکہ اس میں کسی اور چیز کا اضافہ نہ کرسکوں۔(۱)

 


حوالہ:

۱۔ مفتی جعفر حسین، سیرت امیرالمومنینؑ، ص۱۲۷۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 September 21 ، 22:48
عون نقوی