بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

تاریخ کربلا سے مربوط بہت سی  شخصیات ہیں جن سے ہم شدید نفرت کرتے ہیں اور کرنی بھی چاہیے، لیکن ہمیں ان کی درست شناخت نہیں۔ ہم ان کی تاریخ پڑھنے کے لائق نہیں سمجھتے اس سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہم نہیں سمجھ پاتے کہ جو افراد امام حسین علیہ السلام کے خلاف آ کر کھڑے ہوئے وہ کیسے لوگ تھے؟ ان کا کردار اور شخصیت کیسی تھی؟ تاریخ کے ان اوراق پر نظر رکھنے سے ہمیں آج کے دشمنان حسین ع بھی سمجھ میں آئیں گے اور ہم اپنے آس پاس دیکھ سکیں گے کہ آج کا شمر کون ہے جو مقدس ہستیوں کا سر کاٹ رہا ہے؟ آج کا حرملہ کون ہے جو بچوں کو ذبح کررہا ہے، آج کا ابن زیاد کون ہے جس سے ہمارا امام برسرپیکار ہوگا؟ آج کا یزید کون ہے جو امت مسلمہ کا حقیقی دشمن ہے۔ ان شخصیات میں سے ایک شخصیت قاضی شریح کی ہے جو اپنے زمانے کی سیاسی و اجتماعی صورتحال میں ایک حد تک دخیل ہے، خواص میں سے ہے اور ایک بہت بڑا طبقہ اسکی پیروی کرتا ہے۔ وقت کا چیف جسٹس، فقیہ، مجتہد، عالم ہے لوگ اسکی طرف رجوع کرتے ہیں اور اپنے مسائل کے حل کیلئے اسکی طرف بڑھتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم بحث میں وارد ہوں یہ جان لیجیے کہ شخص نا صرف خلفاء راشدین کے دور میں اہم حکومتی مناصب پر تھا بلکہ امیرالمومنین کی خلافت ظاہری کے دور بھی اس کو منصب سے نہیں ہٹایا گیا۔ ایک ایسا شخص جس نے ہر قسم کی ایک دوسرے سے متضاد حکومتوں میں اپنی جگہ بنائے رکھی امیرالمومنین کا مقرر کردہ قاضی تھا کیسے قتل سیدالشہداؑ کا باعث بن گیا؟ یہ وہ اہم سوال ہے جس کا جواب جاننا ضروری ہے۔

نام شریح بن حارث بن قیس بن جھم معاویہ ہے، قبیلہ کند سے ہے۔ القاب میں سے ابو امیہ کندی، ابو عبدالرحمن، شریح قاضی، کاذب مشہور ترین ہیں۔ تاریخ ولادت کے بارے میں کسی بھی تاریخ میں اشارہ موجود نہیں، سال وفات 78 یا 80 ہجری بیان کیا گیا ہے، اسکی عمر 106 یا 110 سال بیان ہوئی ہے۔ اصالتاً یمنی ہے اور وہاں سے حجاز کی طرف ہجرت کرتا ہے۔ قاضی شریح کے صحابی یا تابعی ہونے میں مورخین نے اختلاف کیا ہے، بعض مورخین کے مطابق وہ تابعی تھا، ابن حجر کے مطابق رسول اللہ ص سے اسکی ملاقات ثابت ہے لیکن ذھبی اس بات کو رد کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ قاضی شریح اپنے دور کی بااثر شخصیات میں سے تھا جس نے اپنی زندگی بڑے نامدار صحابیوں کے ساتھ گزاری۔

قاضی شریح خلیفہ اول کے زمانے میں تازہ مسلمان شدہ افراد میں سے تھا، اس وجہ سے اس دور میں قاضی شریح کا کوئی خاص مقام نہیں تھا اور نہ ہی زیادہ معروف تھا۔ خلیفہ دوم  کی خلافت کے اوائل میں اس شخص کو کوئی خاص منصب نہیں ملتا لیکن جلد ہی فتوحات مسلمین کے بعد مختلف علاقوں میں والی و قضاة بھیجنے کی ضرورت پیش آنے پر قاضی شریح جیسے افراد کو موقع ملتا ہے۔ خلیفہ دوم کی خلافت میں قاضی شریح کا شمار مدینہ کے پڑھے لکھے افراد میں سے ہونے لگتا ہے جو شاعر اور علم انساب کو بخوبی جانتا ہے، ان خصوصیات کو دیکھتے ہوئے خلیفہ دوم قاضی شریح کو کوفہ کی جانب بھیجتے ہیں اس وقت قاضی شریح کی عمر 40 سال ہے۔ بعض منابع میں وارد ہوا ہے کہ کوفہ کے قاضی ہونے کی جہت سے ماہانہ سو درہم وصول کرتا تھا۔ خلیفہ سوم کی خلافت کے دوران بھی قاضی شریح اپنے منصب پر باقی رہتا ہے اور اس 12 بارہ سالہ خلافت عثمان کے دوران ان کا اور خلیفہ کا تعلق خوشگوار رہتا ہے۔

بعض مورخین کے مطابق امام علی علیہ السلام کی خلافت ظاہری کے شروع ہونے کے بعد تین لوگ اپنے اپنے منصب پر باقی رہے جن میں سے ایک قاضی شریح تھا، درحقیقت امام علی علیہ السلام کی حکومت میں بھی قاضی شریح اپنے منصب قضاوت پر براجمان رہا، امام علی علیہ السلام کی خلافت کے دوران قاضی شریح کی کچھ غلط قضاوتوں سے امام ع اس پر برہم ہوۓ، اس دوران قاضی شریح نے 80 دینار کا مجلل و مرفہ گھر خریدا جس پر امام علیہ السلام نے اسکا مواخذہ کیا کہ جسکی تفصیل کتاب نہج البلاغہ میں بھی وارد ہوئی ہے، ظاہرا امام علی علیہ السلام کی شہادت کے وقت مسند قضاوت کوفہ پر موجود تھا۔ امام حسن علیہ السلام کی مختصر خلافت کے دورانیہ میں بھی یہ شخص اپنے مسند پر فائز رہا، اور اسکے بعد امیر شام کی 20 سالہ حکومت کے دوران بھی اس نے اپنے عہدے کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔

قاضی شریح نے پہلی بار نہضت کربلا سے خود کو اس وقت مربوط کیا جب 70 بزرگان کوفہ جن میں حبیب ابن مظاہر، محمد بن اشعث، مختار ثقفی، عمر بن سعد وغیرہ شامل تھے، نے قاضی شریح کی موجودگی میں امام حسین علیہ السلام کو کوفہ دعوت دینے کی تحریک چلائی، اس اکٹھ کے بعد جب ابن زیاد کوفہ میں داخل ہوا تو یہ شخص بغیر کسی شرم و عار و اپنے تعہد پر باقی رہنے کے فورا دارالامارہ چلا جاتا ہے اور عبیداللہ بن زیاد کا مشاور بن جاتا ہے، چونکہ ابن زیاد کو بھی اس جیسے مقدس مآب، فقیہ اور عالم کی ضرورت تھی اس نے گرمجوشی سے اسکا استقبال کیا اور سرکاری پروٹوکول دیا۔ ھانی کی شہادت کے بعد ھانی کے قبیلے والوں کو پراکندہ کرنے کے لیے ابن زیاد نے قاضی شریح کو استعمال کیا، ھانی کے قبیلے والوں نے جب دیکھا کہ ایک بزرگ و فقیہ گواہی دے رہا ہے کہ ھانی ٹھیک ہیں تو وہ خاموش ہو کر چلے گئے۔ یہاں پر قاضی شریح کا ایسا کردار ادا کرنا بہت زیادہ اہم ہے کیونکہ یہ ایک سیاسی و دفاعی اقدام تھا اگر قاضی شریح نے یہ قدم نہ بڑھایا ہوتا تو شاید اسی وقت ھانی کے قبیلے والے کہ جنہوں نے دارالامارہ کا محاصرہ کیا ہوا تھا ابن زیاد کو ھانی کے قتل کے جرم میں مار دیتے اور کوفہ کی حکومت کا رخ ہی بدل جاتا۔

قاضی شریح نے امام حسین علیہ السلام کے قتل کا فتوی جاری کیا تھا یا نہیں؟ اس واقعیت پر مضبوط سند موجود نہیں ہے لیکن بعض محققین کے مطابق یہ فتوی جاری کیا گیا جس نے کوفہ اور شام کے لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کے قتل پر آمادہ کیا، جب لوگوں نے دیکھا کہ ایک فقیہ، مجتہد، مفسر، اور خلفاء راشدین کا مقرر شدہ قاضی یہ فتوی دے رہا ہے تو درست ہی کہہ رہا ہوگا، اس پر شواہد موجود ہیں جو اس فتوی کے موجود ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔

۱۔ قاضی شریح کا ہر وقت کے حاکم کے ساتھ سازگار ہونا اور افکار و نظریات میں انکا موافق ہونا۔

۲۔ ابن زیاد کی قدرت کو درک کرتے ہی قاضی شریح کا اسکے ساتھ ملحق ہوجانا، اور اسکے ہاتھوں مختلف مواقع پر استعمال ہونا۔

۳۔ ضعف نفس، بے حد محتاط اور ڈرپوک ہونا۔

۴۔ ہم کربلا میں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جو افراد جنگ پر آۓ تھے وہ قربتا الی اللہ کی نیت سے نواسہ رسولﷺ کو شہید کر رہے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی تھئوریسین نے ان کو اس جرم عظیم کا شرعی جواز دیا ہوا تھا۔

۵۔ اگر مان لیا جائے کہ صریح اور واضح طور پر فتوی نہیں جاری کیا گیا تھا تو یہ ماننا پڑے گا کہ جس طرح سے قاضی شریح اور ابن زیاد کا تعلق تھا اور پھر قاضی شریح نے ابن زیاد کے آگے ڈرپوکی، عافیت طلبی، ریاکاری، دو پہلو باتیں کرنا، اور جھوٹ کا رویہ اختیار کیا ہوا تھا، اسی طرح سے ابن زیاد کا قاضی شریح کے جھوٹے دستخط اور مہر کا استعمال کرنا، اسکی کلی باتوں سے نتیجہ گیری اور غلط قیاس کا سمجھنا، یا قاضی شریح کا کلی طور پر امام حسین علیہ السلام کے قیام پر سوالات اٹھانا ابن زیاد کے لیے کافی تھا کہ وہ لوگوں کو نواسہ پیغمبر کے قتل کے لیے تیار کرے۔

سانحہ کربلا کے بعد کوفہ کے حالات خراب ہوجانے اور مختلف قیام اور تحریکوں کے اٹھنے کی وجہ سے قاضی شریح تقریبا 9 سال تک اپنے عہدے سے کنارہ گیر رہے مورخین نے اسکی وجہ عافیت طلبی اور عدم امنیت بیان کی ہے، ابن خلدون کے بقول مختار ثقفی نے کوفہ پر تسلط حاصل کرنے کے بعد قاضی شریح کو کوفہ کے منصب قضاوت کے لیے مقرر کیا، لیکن مختار کے سپاہیوں نے اس پر اعتراض کیا، قاضی شریح بھی ان اعتراضات کو سن کر خوفزدہ ہوا اور بیماری کا بہانہ بنا کر خانہ نشین ہوگئے، مختار بھی ان اعتراضات کے نتیجے میں قاضی شریح کو معزول کرنے پر مجبور ہوگیا۔ یہ شخص جانتا تھا کہ یہ قیام عارضی ہیں اور ان میں مداخلت خطرناک ہے، کوفہ میں مختلف حکومتیں و شورشیں ہوتی رہیں لیکن یہ کسی کا بھی حصہ نہیں بنا بعد میں عبدالملک بن مروان کی حکومت میں دوبارہ کوفہ کا قاضی مقرر ہوا۔ اس دوران عبدالملک بن مروان نے حجاج کو کوفہ کا گورنر بنایا اور قاضی شریح اس وقت نا صرف کوفہ کا چیف جسٹس تھا بلکہ حجاج کے مشاورین میں سے شمار ہونے لگا۔

قاضی شریح نے کوفہ میں کتنے سال قضاوت کی اس بارے میں اختلاف ہے کیونکہ اسکے وفات کے سال پر بھی مورخین نے اختلاف کیا ہے، 53 سے 75 سال تک کا عدد موجود ہے، ابن ابی الحدید نے بیان کیا ہے کہ قاضی شریح نے 57 سال قضاوت کی۔ قاضی شریح کی عمر کے بارے میں قوی قول یہ ہے کہ اسکی عمر 106 یا 110 سال تھی۔ مختلف منابع نے سال 72 ھجری یا سال 99 ھجری کو اسکی وفات کا سال قرار دیا ہے۔ نتیجے کے طور پر آخر میں کہا جاسکتا ہے کہ قاضی شریح اپنے دور کا فقیہ، مفسر، ماہر انساب، عالم اور قاضی تھا، لیکن اخلاقی خصوصیات کے لحاظ سے مصلحت پسند، فرصت طلب اور مقام و منصب کا دلدادہ تھا۔ اسکا مذہب و نظریہ یہ تھا کہ کوئی بھی حکومت ہو، علوی ہو یا شامی، یزیدی ہو یا حسینی، کسی بھی نظریے کے حاکم کے ساتھ خود کو ملحق کرنا ہے اور منصب لینا ہے۔ حقیقت کو اپنی ذاتی مصلحت پر فدا کرنا پڑے تو کوئی مسئلہ نہیں، ہمیشہ گول مول بات کرنی ہے جس سے حق بھی چھپ جاۓ اور باطل بھی واضح نہ ہو۔

منابع:

١۔ ابن اثیر جزری, عزالدین اسدالغابہ فی معرفہ الصحابہ، (بیروت دارالکتب العلمیہ)۔

٢۔ الکامل فی التاریخ، فارسی ترجمہ دکتر روحانی، (چاپ اول، تہران، انتشارات اساطیر، ١٣٧٣شمسی)۔

٣۔ ابن ایبک الصفدی، صلاح الدین خلیل، الوافی بالوفیات، (بیروت، دارإحیا، ١٤٠٢ہجری)۔

٤۔ ابن جوزی، جمال الدین ابی الفرج، صفہ الصفوه، (چاپ اول، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ١٤٠٣ہجری)۔

٥۔ ابن حبان، محمد بن أحمد، مشاہیر علمإ الامصار و إعلام فقہا القطار، (چاپ اول، بیروت، موسسه الکتب الثقافیہ، ١٤٠٨ہجری)۔

٦۔ ابن حجر عسقلانی، شہاب الدین، تہذیب التہذیب، (بیروت دارإحیاء)۔

٧۔ ابن حزم اندلسی، ابی محمد، جمہره الانساب العرب، (چاپ اول، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ١٤٠٣ہجری)۔

٨۔ ابن خلدون، عبدالرحمن، مقدمہ، فارسی ترجمہ محمدپروین گنابادی، (تہران، بنگاه ترجمہ و نشر کتاب، ١٣٣٦شمسی)۔

٩۔ ابن خلکان، احمدبن محمدبن ابراہیم، وفیات الاعیان و انبا الابنا الزمان، (بیروت، دارصادر، بی تا)۔

١٠۔ ابن سعد، محمد، طبقات کبری، (بیروت، دارصادر، بی تا)۔

١١۔ ابن عبدربہ اندلسی، احمدبن محمد، العقد الفرید، (بیروت، دارالکتب العلمیہ، بی تا)۔

١٢۔ ابن عساکر، ابی القاسم علیبن حسن شافعی، تاریخ مدینہ دمشق، (بیروت، دارالفکر، ١٤١٥ہجری)۔

١٣۔ ابن قنفذ، احمدبن خطیب، الوفیات، چاپ چهارم، (بیروت، دارالافاق الجدیده، ١٤٠٣ہجری)۔

١٤۔ ابن کثیر، ابی الفدإ، البدایہ و النہایہ، (چاپ پنجم، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ١٤٠٩ہجری)۔

١٥۔ ابن منظور، لسان العرب، چاپ دوم، (بیروت، دارإحیا ١٤١٢ہجری)۔

١٦۔ ابن وکیع، محمدبن خلف بن حیان، اخبار القضاه، (بیروت، عالم الکتب، بی تا)۔

١٧۔ اصفہانی، ابونعیم احمدبن عبدالله، حلیہ الاولیإ و طبقات الاصفیإ، (بی جا، مطبعہ السعاده، ١٣٩٤ہجری)۔

١٨۔ ابن حجر،الاصابہ فی تمییز الصحابہ، چاپ اول، (بیروت، دارالکتب العلمیه، ١٤١٥ہجری)۔

١٩۔ الراوی، ثابت اسماعیل، العراق فی العصر الاموی، (چاپ دوم، بغداد، منشورات مکتبہ الأندلس، ١٩٧٠عیسوی)۔

٢٠۔ بخاری جعفی، ابی عبدالله اسماعیل بن ابراہیم، تاریخ الکبیر، (بیروت، دارالکتب العلمیہ، بی تا)۔

٢١۔ ذہبی شمس الدین محمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، (چاپ دوم، بی جا، دارالکتب العربی، ١٤١٨ہجری)۔

٢٢۔ ذہبی، شمس الدین محمد، سیر اعلام النبلإ، (چاپ ہفتم، بیروت، موسسہ الرسالہ، ١٤١٠ہجری)۔

٢٣۔ شیخ مفید، الإرشاد، فارسی ترجمہ رسولی محلاتی، (چاپ چهارم، تہران، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، ١٣٧٨شسمی)۔

٢٤۔ طبری،محمدبن جریر، تاریخ الطبری، (بیروت دارالتراث، بی تا)۔

٢٥۔ طبری، محمدبن جریر، تاریخ طبری، ترجمہ ابوالقاسم پاینده، (تہران انتشارات بنیاد فرهنگ ایران، ١٣٥٣شسی)۔

٢٦۔ مسعودی، ابوالحسن علی بن حسین، التنبیہ و الاشراف، (بی جا، دارالصاوی، بی تا)۔

تحریر: عون نقوی

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 August 21 ، 12:28
عون نقوی

کربلا میں جہاں پر عظیم الشان کردار موجود ہیں وہیں پر دوسری طرف پست فطرت کردار بھی موجود ہیں جنکی شخصیت کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ ہم آج کے زمانے میں ان شخصیات کے مالک افراد کو پہچان سکیں اور ان سے اپنی راہ جدا کریں، رہبر معظم فرماتے ہیں کہ کربلا ایک درسگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ عبرت گاہ بھی ہے۔ انسان ان عبرتوں سے درس لے اور خود کو ان شخصیات کے ساتھ مقائسہ کرے، کربلا کے انہیں منفی کرداروں میں سے ایک کردار شبث بن ربعی کا ہے، یاد رہے شبث ایک شخص نہیں بلکہ ایک کردار و ایک شخصیت کا نام ہے جو ہر دور میں پائی جاتی ہے۔

اس کا پورا نام ابو عبدالقدوس شبث بن ربعی مذحجی ہے، زندگی کے ابتدائی ایام دوران جاہلیت میں گزارے اور بعد میں مسلمان ہوگیا، کربلا میں عمر بن سعد کی فوج میں تھا اور امام حسین علیہ السلام کے خلاف لڑا۔ رحلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد مرتد ہوا اور سجاح نامی جھوٹے نبی کا پیرو بنا، اسکا ایک عرصے تک ساتھ دیا، جھوٹے نبی کا مؤذن بنا رہا لیکن بعد میں توبہ کرکے دوبارہ مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوگیا۔ اس شخص کا کردار پڑھنا اور سمجھنا اس لیے بھی بہت اہم ہے کہ اس نے ذاتی مفاد کی خاطر متعدد مرتبہ مختلف گروہوں سے اپنی وفاداری کی قسم کھائی، جہاں پر بھی اقتدار، منصب و پیسہ ملنے کے چانس ہوتے وہاں پہنچ جاتا، امیرالمومنین علیہ السلام کی ظاہری خلافت کے بعد امام علیہ السلام کے ناصران کے ساتھ پیوست ہوا۔ واقعہ جمل میں امام علی علیہ السلام سے مخالفت کی اور ابو موسیٰ اشعری کے کہنے پر کوفے والوں کو بھی امام علیہ السلام کا ساتھ دینے سے روکتا رہا۔

شبث جنگ صفین میں پھر سے امام علی علیہ السلام کی صفوں میں شامل ہوگیا اور امام علیہ السلام کی جانب سے بنی حنظلہ کا فرماندار منتخب ہوا، جنگ صفین کے شروع ہونے سے پہلے امام علیہ السلام کی جانب سے ایک وفد معاویہ کی جانب بھیجا گیا جس کا کام معاویہ کو کتاب خدا کی طرف دعوت دینا تھا، شبث اس وفد کا رکن تھا، صفین میں عمرو بن عاص کے مکر و حیلے کے بعد جب اس نے قرآن کریم کو نیزوں پر اٹھایا تو شبث ان لوگوں میں سے ہوگیا جنہوں نے امام علیہ السلام پر زور ڈالا کہ فورا جنگ بند کی جائے اور فیصلہ حکمیت کے سپرد کردیا جائے۔ حکمیت کے بعد شبث اپنے چند کوفی ساتھیوں کے ہمراہ امام علی علیہ السلام کی فوج کو ترک کردیتا ہے اور خوارج میں شامل ہوجاتا ہے، خوارج نے شبث کو اپنے بزرگوں میں سے قرار دیا، لیکن جب اس نے دیکھا کہ یہ یک مشت جاہل اور خشک مغز افراد ہیں ان کے ساتھ رہ کر کچھ بھی نصیب نہیں ہونے والا دوبارہ خوارج کو بھی ترک کیا اور امام علی علیہ السلام کی فوج میں واپس آگیا، جنگ نہروان یعنی خوارج کے خلاف جنگ میں امام علی علیہ السلام نے اسے لشکر کوفہ کے میسرہ کی فرماندہی عطا کی۔

اس نے کبھی بھی امام علیہ السلام کا ساتھ اس بنا پر نہیں دیا تھا کہ اسے امام کی معرفت ہو گئی تھی یا یہ امام علی علیہ السلام کو امام حق منصوص من اللہ جانتا ہو، اس لیے شہادت امیرالمومنین علیہ السلام کے فورا بعد یہ شخص امیر شام سے منسلک ہوجاتا ہے اور اسکے سخت حامیوں میں سے قرار پاتا  ہے، لیکن جیسا کہ اسکی طبیعت اور شیطانی فطرت تھی اس نے امیر شام کی وفات کے بعد کوفہ کی شیعہ جماعتوں کے ساتھ تحرکات میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ یہ اس تحریک میں پیش پیش تھا جس میں کوفہ کے شیعوں نے امام حسین علیہ السلام کو کوفہ دعوت دینے کے لیے خطوط لکھے، اس نے نہ صرف امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا بلکہ ان کو دعوت دی اور اطاعت کی قسم کھائی، امام حسین علیہ السلام کو خط لکھتا ہے جس میں کہتا ہے: " باغ ہرے بھرے ہوگئے ہیں، میوہ تیار ہو چکا ہے، نہروں کا پانی بھر چکا ہے لہذا اگر آپ اس بات کی طرف مائل ہوں کہ اس فوج کے ساتھ پیوست ہو جائیں جو آپ کے لیے آمادہ ہوچکی ہے تو جلدی کریں

کوفہ میں جب تک مسلم بن عقیل علیہ السلام کے تحرکات جاری تھے یہ شخص شیعوں کے درمیان اور بہت متحرک تھا لیکن جیسے ہی ابن زیاد کوفہ میں داخل ہوتا ہے یہ شخص ابن زیاد کے ساتھ پیوست ہوجاتا ہے اور اسکے کہنے پر کوفہ کے اشراف کے ساتھ مل کر مسلم بن عقیل علیہ السلام کے ساتھیوں کو منتشر کرنے اور انکو ڈرانے دھمکانے میں کردار ادا کرتا ہے۔ مسلم ابن عقیل علیہ السلام کی شہادت کے بعد جب کوفہ میں خبریں پہنچتی ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کربلا کی طرف تشریف لے گئے ہیں تو ابن زیاد نے کوفہ سے فوجیں نکالنا شروع کیں، شبث اس خوف سے کہ کہیں مجھے بھی امام علیہ السلام کے خلاف لڑنا نا پڑجاۓ بیماری کا بہانہ کرکے گوشہ نشین ہوجاتا ہے، ابن زیاد کو اس کے مکر کا پتہ چل جاتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ خود کو مریض مت ظاہر کرو اگر ہمارے وفادار ہو تو جلد عمر سعد کے ساتھ ملحق ہو جاؤ، شبث بھی ابن زیاد کے کہنے پر ایک ہزار پیادہ نظام کا لشکر لے کر کربلا کی طرف روانہ ہوجاتا ہے اور ابن سعد کے ساتھ ملحق ہوتا ہے۔

شبث کربلا میں ابن سعد کی جانب سے یزیدی فوج کے پیادہ سواروں کا فرماندہ مقرر ہوتا ہے، چونکہ شبث ان افراد میں سے تھا جنہوں نے کوفہ سے امام علیہ السلام کو خط لکھ کر دعوت دی تھی اور اپنی وفاداری کا اظہار کیا تھا اس لیے امام علیہ السلام کے سامنے آنے سے کترا رہا تھا، صبح عاشور ابن سعد نے حملے کا حکم دیا عزرہ بن قیس یزیدی لشکر کی جانب سے چند گھڑ سوار لے کر آگے بڑھا لیکن لشکر امام علیہ السلام کی جانب سے اس حملے کا شدید جواب دیا گیا مجبور ہو کر بن قیس نے ابن سعد سے مدد طلب کی، بن سعد نے شبث کو بھیجنا چاہا لیکن شبث نے جانے سے امتناع کیا۔ حتی اس نے ابن سعد کے بعض قبیح اور گھٹیا کاموں کی غیر علنی صورت میں مخالفت کی، مثلا مسلم بن عوسجہ کے مارے جانے اور خیام حسینی کے جلاۓ جانے کی شمر کی دھمکی کی مخالفت کی۔ بعض روایات کے مطابق عصر عاشور امام حسین علیہ السلام نے اپنے خطبے میں اشراف کوفہ کے خطوط کا ذکر کیا جن میں سے ایک خط شبث بن ربعی کا تھا، شبث نے جب اپنی رسوائی ہوتے دیکھی تو اس خط کا ہی منکر ہوگیا۔

یزید کے جہنم واصل ہونے کے بعد اس نے اپنی وفاداری خاندان بنو امیہ سے توڑ کر عبداللہ بن زبیر سے جوڑ لی، عبداللہ بن زبیر کے گماشتے عبداللہ بن مطیع سے کوفہ میں بیعت کی۔ مختار ثقفی کے قیام کے بعد ابن مطیع کی حکومت کو بچانے کیلئے اس نے مختار کے خلاف جنگ لڑی لیکن شکست کھائی، مجبور ہو کر قصر کوفہ میں چھپ گیا۔ قیام مختار کی کامیابی کے بعد اور مختار کے انتقام کے ڈر سے شبث اور اس طرح کے بقیہ فراری بغاوت کی سازشیں کررہے تھے، لیکن انکی کوئی بھی بغاوت و لڑائی کارگزار ثابت نہ ہوئی مجبور ہو کر بصرہ کی طرف فرار کیا اور مصعب بن زبیر سے بصرہ میں ملحق ہوا۔  شبث نے آل زبیر کا ساتھ دیا یہاں تک کہ کوفہ میں قیام مختار کو زبیریوں کے ہاتھوں ناکامی حاصل ہوئی۔ آل زبیر کے ساتھ وفاداری بھی زیادہ دیر تک نہ ٹک سکی آخر میں آل مروان یعنی بنو امیہ کی دوسری لڑی کے ساتھ پیوست ہوا۔ شبث بن ربعی عبدالملک بن مروان کے ساتھ ملحق ہوا، بعض تاریخی منابع کے مطابق یہ شخص 70 ہجری میں مرا۔ 

 

منابع:
١۔ ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، ج٦، ص٢٤١۔
٢۔ طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، ج١١، ص٦٦٥۔
٣۔ زرکلی، خیرالدین، الإعلام، ج٣، ص١٥٤۔
٤۔ مسکویہ، ابو علی، تجارب الأمم، ج٢، ص١٦٨۔
٥۔ مسعودی، علی ابن الحسین، التنبیہ والإشراف، ص٢٤٨۔
٦۔ بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الإشراف، ج١٢، ص١٦٢۔
٧۔ ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، ج٢، ص٢١١۔
٨۔ خلیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفہ بن خیاط، ص١١۔
٩۔ دینوری، ابو حنیفہ احمد بن داوود، الأخبار الطوال، ص١٧٣۔
١٠۔ الطوال، تحقیق عبدالمنعم، ص٢١٠۔
١١۔ شیخ مفید، محمد بن نعمان، الإرشاد، ج٢، ص٥٢
۔

تحریر:  عون نقوی

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 24 August 21 ، 13:50
عون نقوی

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی:

ہمارے گھر میں سب افراد بغیر کسی استثناء کے (سب بڑے چھوٹے) مطالعہ کرتے ہوۓ سوتے ہیں خود میں بھی رات کو سونے سے پہلے مطالعہ کرتا ہوں۔ اس لیے نہیں کہ چلو نیند نہیں آ رہی تو مطالعہ کر لیں تاکہ نیند آنے لگے۔ ہمارے گھر میں تمام افراد کے ہاتھ میں کتاب ہوتی ہے اس سے پہلے کہ وہ سونے لگیں پہلے مطالعہ کر کے سوتے ہیں میری خواہش ہے کہ ہر ایرانی گھرانے میں یہ رواج پیدا ہو میری آپ سے یہ توقع ہے۔ 

متن اصلی:

در منزل خودِ من، همه افراد، بدون استثنا، هرشب در حال مطالعه خوابشان مى‌برد. خود من هم همین‌طورم. نه این‌که حالا وسط مطالعه خوابم ببرد. مطالعه مى‌کنم؛ تا خوابم مى‌آید، کتاب را مى‌گذارم و مى‌خوابم. همه افراد خانه ما، وقتى مى‌خواهند بخوابند حتماً یک کتاب کنار دستشان است. من فکر مى‌کنم که همه خانواده‌هاى ایرانى باید این‌گونه باشند. توقّع من، این است.

حوالہ:

سائٹ نوجوان خامنہ ای

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 August 21 ، 12:34
عون نقوی

امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ:

جب کہاجاتاہے کہ جو ولایت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ اور آئمہ طاہرین علیہم السلام کو حاصل تھى وہ ولایت زمانہ غیبت میں ایک عادل فقیہ کو بھى حاصل ہے تو اس سے کسى کو بھى یہ گمان پیدا نہیں ہونا چاہئے کہ جو مقام و مرتبہ اور فضیلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ اور آئمہ اطہار علیہم السلام کو حاصل تھا وہى رتبہ فقیہ کو بھى حاصل ہے !! (نہیں، ایسا ہر گز نہیں ہے) کیونکہ یہاں بات مقام و مرتبہ کى نہیں ہو رہى بلکہ بات وظیفہ کى ہورہى ہے۔ ولایت (اس سے مراد آئمہ علیہم السلام کے مقام و مرتبہ والی ولایت نہیں ہے بلکہ یہاں ولایت) یعنى حکومت، ایک مملکت کی مدیریت اور شریعت مقدس کے قوانین کو جاری کر ہے۔ پس یہ سب ایک فقیہ کا اسی طرح وظیفہ ہے جس طرح سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ  اور آئمہ طاہرین علیہم السلام کا وظیفہ ہے۔ 

حوالہ:
حکومت اسلامى و ولایت فقیہ در اندیشہ امام خمینى ؒ، ص:۱۲۴۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 August 21 ، 13:48
عون نقوی

امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ:

انبیاء علیہ السلام کا ہدف و ذمہ دارى فقط فقہى احکام بیان کرنا نہیں ، ایسی بات نہیں کہ مسائل اور فقہى احکام وحى کے ذریعے  رسول اکرم ؐ پرنازل ہوۓ ہیں انہوں نے اور آئمہ اطہارؑ نے ان مسائل کو بیان کرنا ہے۔ یعنى خداوند متعال نے ان کو بس اس لئے مبعوث کیا ہے کہ مسائل و فقہى احکام کو بغیر کسى سستى کے عوام تک پہنچا دیں۔ اور اہل بیت ؑ نے اس ذمہ دارى کو علماءکرام کے سپرد کر دیا کہ وہ بھى اس امانت کو عوام الناس تک بغیر کسى خیانت کے پہنچائیں۔ ’’الفقھاء امنا الرسل‘‘ کا مطلب فقط یہ نہیں کہ فقہاء کرام و علماء کرام مسائل و احکام پہنچانے میں انبیاء کے امین ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ علماء و فقہاء کرام اساسى ترین وظیفہ پیامبران یعنى ایک ایسا اجتماعى نظام جو عدل کى بنیادوں پر قائم ہے اس کو معاشروں میں برقرار کرنے میں امین ہیں۔ اسى مطلب کى طرف قرآن کریم میں بھى اشارہ موجود ہے ۔ 

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ
(الحدید: ۲۵)
ترجمہ:
بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں۔

 

حوالہ:
 حکومت اسلامى و ولایت فقیہ در اندیشہ امام خمینىؒ ، ص:۸۷۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 August 21 ، 13:41
عون نقوی