بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ:

آپ حضرات نوجوان ہیں اور ان شاء اللہ مستقبل میں اسلام کے لئے مفید ثابت ہوں گے جو مختصر مطالب آپ کے سامنے بیان کررہاہوں ، ان کو اپنى پورى زندگى کا وظیفہ بنائیے اور قوانین اسلام کو پہنچوانے میں باقاعدہ کوشش فرمائیے آپ جو طریقہ مناسب سمجھیں تحریراً، تقریراً، لوگوں کو بتائیے کہ اسلام اپنے دور سے ہى کتنى مشکلات سے گزرتا رہا ہے اور آج بھى اس کے کتنے دشمن ہیں اور اس کے لئے کتنى مصیبتیں ہیں ۔ ایسا نہ ہو کہ حقیقت ماہیت اسلام مخفى رہ جاۓ اور لوگ یہ سوچنے لگیں کہ عیسائیت کى طرح اسلام بھى حق و خلق کے درمیان رابطہ کے لئے صرف چند انگلیوں پر گننے والا دستور رکھتاہے اور مسجد کلیسا میں کوئى فرق نہیں ہے ۔

حوالہ:

 حکومت اسلامى، جزء اول، ص: ۵ 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 August 21 ، 13:27
عون نقوی

امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ:

ہماری حکومتی نظام کا ڈھانچہ جمہوری اسلامی ہے۔ جمہوری اس معنی ہے کہ لوگوں کی اکثریت اس کو قبول کرتی ہے اور اسلامی اس معنی میں کہ اس کو اسلامی قوانین کے مطابق چلایا جاۓ گا۔

حوالہ:

حکومت اسلامى و ولایت فقیہ در اندیشہ امام خمینى رح ، ص: ۵۷۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 August 21 ، 13:23
عون نقوی

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی:


تاریخ میں ظالموں کے خلاف بہت سے لوگوں نے قیام کیا لیکن امام حسین علیہ السلام کا قیام اپنی خصوصیات کے ساتھ بے مثل و بے نظیر ہے، وقت کا ذلیل ترین حاکم اپنی تمام قساوت و وقاحت میں روز بروز اضافہ کررہا ہے اور اس کو روکنے ٹوکنے یا سمجھانے کی کسی میں جرات نہیں، معاشرے میں اس قدر وحشت ہے کہ وہ لوگ جو امربالمعروف و نہی از منکر کرتے تھے وہ بھی نہیں چاہتے کہ کسی کا سامنا کریں. عبداللہ بن زبیر جیسے جسور ترین لوگ بھی جو حکمرانوں کے خلاف کافی گستاخ تھے اس وقت کھل کر یزید کا سامنا کرنے سے گریز کررہے ہیں، اسی طرح عبداللہ بن جعفر ہیں آپ امیرالمومنین علی علیہ السلام کے داماد و جناب زینب سلام اللہ علیہا کے شوہر بھی اس کوشش میں ہیں کہ سرکاری معاملات میں مداخلت یا مخالفت کرنے سے گریز کریں، اس قدر لوگ اور معاشرہ تحت فشار ہے.

عبداللہ بن عباس جیسے افراد معاشرے سے کنارہ گیری کررہے ہیں اور گوشہ نشین ہوگئے، یہ لوگ معمولی افراد نہیں تھے یہ بنی ہاشم کے برجستہ ترین لوگ ہیں اور اہل زبان تھے جن کا ماضی افتخارات سے بھرا ہے لیکن اس ماحول میں کسی کی جرات نہیں ہو رہی تھی کہ وہ آئیں اور حکومت یزید کے خلاف لوگوں کو تیار کریں. نہ صرف شام بلکہ مدینہ جو اصحاب سے بھرا ہوا تھا یزید کے خلاف سکوت اختیار کئے ہوئے تھا.ایسے وقت میں امام حسین علیہ السلام وقت کی سلطنت کو توڑنے کے لئے حرکت میں آتے ہیں لیکن یہ تحریک قدرت کے حصول کے لیے نہیں تھی جیسا کہ خود امام نے بھی فرمایا کہ "ما خرجت اشرا و لا بطرا و لا ظالما ولا مفسدا" اس قیام کا مقصد معروف کا زندہ کرنا اور منکرات کو ختم کرنا تھا۔

حوالہ:

آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 20 August 21 ، 10:37
عون نقوی

رسول اللہ ﷺ نے جب علانیہ تبلیغ اسلام کا آغاز کیا تو قریش کو حضرت ابو طالبؑ کا تھوڑا بہت پاس و لحاظ تھا انہوں نت براہ راست مزاحمت کرنے کے بجاۓ اپنے لڑکوں کو یہ سکھایا کہ وہ آنحضرت ﷺ کو جہاں پائیں ان کو ستائیں اور ان پر اینٹ پتھر برسائیں تاکہ وہ تنگ آ کر بت پرستی کے خلاف کہنا چھوڑ دیں اور اسلام کی تبلیغ سے کنارہ کش ہو کر گھر میں بیٹھ جائیں۔ چنانچہ جب رسول  اللہ ﷺ گھر سے باہر نکلتے تو قریش کے لڑکے پیچھے لگ جاتے کوئی خس و خاشاک پھینکتا اور کوئی اینٹ پتھر مارتا، آنحضرت ﷺ آزردہ خاطر ہوتے اذیتیں برداشت کرتے مگر زبان سے کچھ نہ کہتے اور نہ کچھ کہنے کا محل تھا، اس لیے کہ بچوں سے الجھنا اور ان کے منہ لگنا کسی بھی سنجیدہ انسان کو زیب نہیں دیتا۔ ایک مرتبہ امام علیؑ نے آپ کے جسم مبارک پر چوٹوں کے نشانات دیکھے تو پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ آپ کے جسم پر نشانات کیسے ہیں؟
رسول اللہ ﷺ نے بھر آئی آواز میں فرمایا کہ اے علی! قریش خود تو سامنے نہیں آتے اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں کہ وہ مجھے جہاں پائیں تنگ کریں، میں جب بھی گھر سے باہر نکلتا ہوں تو وہ گلیوں اور بازاروں میں جمع ہو کر ڈھیلے پھینکتے اور پتھر برساتے ہیں۔ یہ انہیں چوٹوں کے نشانات ہیں۔ امام علیؑ نے یہ سنا تو بے چین ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ آئندہ آپ تنہا کہیں نہ جائیں جہاں جانا ہو مجھے ساتھ لے جائیں۔ آپ تو ان بچوں کا مقابلہ کرنے سے رہے مگر میں تو بچہ ہوں میں انہیں اینٹ کا جواب پتھر سے دوں گا اور آئندہ انہیں جرات نہ ہوگی کہ وہ آپ کو اذیت دیں یا راستہ روکیں۔
دوسرے دن رسول اللہ ﷺ گھر سے نکلے تو علیؑ بھی ساتھ لے لیا۔ قریش کے لڑکے حسب عادت ہجوم کر کے آگے بڑھے دیکھا کہ آگے عیؑ کھڑے ہیں وہ بچے بھی علیؑ کے سن و سال کے ہوں گے انہیں اپنے ہمسن کے مقابلے میں تو بڑی جرات دکھانا چاہیے تھی مگر علیؑ کے بگڑے ہوۓ تیور دیکھ کر جھجکے۔ پھر ہمت کر کے آگے بڑھے ادھر علیؑ نے اپنی آستینیں الٹیں اور بپھرے ہوۓ شیر کی طرح ان پر ٹوٹ پڑے۔ کسی کا بازو توڑا کسی کا سر پھوڑا کسی کو زمین پر پٹخا او رکسی کو پیروں تلے روند دیا۔ بچوں کا ہجوم اپنے ہی سن و سال کے ایک بچے سے پٹ پٹا بھاگ کھڑا ہوا اور اپنے بڑوں سے فریاد کی کہ ’’قضمنا علی‘‘ علیؑ نے ہمیں بری طرح سے پیٹا ہے۔ مگر بڑوں کو بھی جرات نہ ہو سکی کہ فرزند ابو طالبؑ سے کچھ کہیں اس لیے کہ ہ سب کچھ انہی کے ایما پر ہوتا تھا۔ اس دن کے بعد بچوں کو بھی ہوش آگیا اور جب وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ علیؑ کو دیکھتے تو کہیں دبک کر بیٹھ جاتے یا ادھر ادھر منتشر ہو جاتے۔ اس واقعہ کے بعد علیؑ کو قضیم کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔ جس کے معنی ہیں ہڈی پسلی توڑ دینے والا۔

 حوالہ:
 علامہ مفتی جعفر حسین، سیرت امیرالمومنینؑ، ص ۱۴۶۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 August 21 ، 13:03
عون نقوی

رہبر معظم سید علی خامنہ ای دام ظلہ العالی:

  اگر زمانہ غیبت میں فقیہ کی حکومت اور ولایت فقیہ کا نظام نہ ہو تو پھر جو بھی حکومت ہوگی وہ طاغوت کی حکومت ہے۔ دنیا میں دو قسم کی حکومتیں ہیں یا الہی حکومتیں ہیں یا طاغوتی حکومتیں ہیں، اگر کوئی حکومت خدا کے اذن سے نہ بنے، اگر کسی ملک کے صدر یا وزیر کو فقیہ نائب امام منصوب نہ کرے تو اس کی حکومت غیر مشروع ہے۔ اور جب غیر مشروع ہے تو طاغوتی حکومت ہے، ایسے وزیر یا صدر کی اطاعت کرنا طاغوت کی اطاعت کے مترادف ہے۔

حوالہ:

نگاہی بہ نظریہ ہای انتظار، ص۱۴–١٥۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 August 21 ، 12:45
عون نقوی