آیت اللہ مصباح یزدى دام ظلہ العالی:
اگر دین وہ ہے جس کو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے ، تو دین میں معاشرتى اور سیاسى مسائل شامل ہیں ، اس میں عبادات اور شخصى اخلاقیات کے ساتھ شہرى قوانین ، جرم و سزا کے قوانین اور بین الاقوامى سبھى موجود ہیں ، اور گھریلو زندگى ، شادى بیاہ، اور اولاد کى تربیت ، کاروبارى معلومات اور تجارت وغیرہ تک کے اصول بیان کردئے گئے ہیں۔ پس کون سى چیز باقى بچتى ہے جو دین کے دائرے سے خارج ہے ؟ قرآن کریم کى آیات معاملات ، قرض دینے اور رہن رکھنے اور رہن رکھوانے کے بارے میں ہیں۔ اگر اسلام وہى دین ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے تو کس طرح کوئى کہہ سکتا ہے کہ اسلام کا لوگوں کى معاشرتى زندگى سے کوئى تعلق نہیں ؟ اگر نکاح و طلاق کے معاملے دین کہ جز نہ ہوں ، اگر تجارت ، رہن خرید و فروخت اور سود کے مسائل دین سے تعلق نہیں رکھتے ، اگر ولایت کا مسئلہ اور ولى امر کى اطاعت دین کا حصہ نہیں ہے تو پھر دین میں کیا بچتا ہے ؟ اور آپ کس دین کى باتیں کرتے ہیں ؟ قرآن کریم نے تو مسلسل ان چیزوں کے بارےمیں گفتگو کى ہے۔
حوالہ:
اسلام اور سیاست ، مجموعہ از تقاریر آیت اللہ مصباح یزدی دام ظلہ العالی ، صفحہ: ٢٨