بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

آیت اللہ مصباح یزدى دام ظلہ العالی:

                                                                         dfgbd
اگر دین وہ ہے جس کو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے ، تو دین میں معاشرتى اور سیاسى مسائل شامل ہیں ، اس میں عبادات اور شخصى اخلاقیات کے ساتھ شہرى قوانین ، جرم و سزا کے قوانین اور بین الاقوامى سبھى موجود ہیں ، اور گھریلو زندگى ، شادى بیاہ، اور اولاد کى تربیت ، کاروبارى معلومات اور تجارت وغیرہ تک کے اصول بیان کردئے گئے ہیں۔ پس کون سى چیز باقى بچتى ہے جو دین کے دائرے سے خارج ہے ؟ قرآن کریم کى آیات معاملات ، قرض دینے اور رہن رکھنے اور رہن رکھوانے کے بارے میں ہیں۔ اگر اسلام وہى دین ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے تو کس طرح کوئى کہہ سکتا ہے کہ اسلام کا لوگوں کى معاشرتى زندگى سے کوئى تعلق نہیں ؟  اگر نکاح و طلاق کے معاملے دین کہ جز نہ ہوں ، اگر تجارت ، رہن خرید و فروخت اور سود کے مسائل دین سے تعلق نہیں رکھتے ، اگر ولایت کا مسئلہ اور ولى امر کى اطاعت دین کا حصہ نہیں ہے تو پھر دین میں کیا بچتا ہے ؟ اور آپ کس دین کى باتیں کرتے ہیں ؟ قرآن کریم نے تو مسلسل ان چیزوں کے بارےمیں گفتگو کى ہے۔

حوالہ:

اسلام اور سیاست ، مجموعہ از تقاریر آیت اللہ مصباح یزدی دام ظلہ العالی ، صفحہ: ٢٨

۱ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 August 21 ، 12:38
عون نقوی

 

امام سجاد علیہ السلام سے ایک روایت منقول ہے جس میں امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر تم کسی کو دیکھتے ہو کہ وہ گناہ نہیں کرتا تو فورا اس پر اعتماد نہ کر لو شاید وہ اس گناہ کرنے کی سکت اور طاقت ہی نہ رکھتا ہو.

▪ پھر فرماتے ہیں کہ اگر تم دیکھتے ہو کہ اس کے پاس اس گناہ کو انجام دینے کی طاقت بھی تھی پھر بھی اس نے گناہ نہیں کیا تو پھر بھی فورا اس پر اعتماد مت کر لو شاید اسے یہ گناہ کرنا پسند ہی نہ ہو کوئی اور گناہ کرنا پسند کرتا ہو.

▪ پھر فرماتے ہیں کہ اگر دیکھو کوئی بھی گناہ نہیں کرتا تو پھر بھی اعتماد مت کرلینا شاید اس کا دماغ ٹھیک نہیں اور اپنے بھلے یا نقصان کا درک ہی نہیں رکھتا.

▪ آپ علیہ السلام نے اسی طرح سے اپنے کلام کو جاری رکھا اور فرمایا کہ اگر گناہ کی طاقت بھی رکھتا ہو، اسکے پسند کا بھی گناہ ہو، عقل بھی کام کرتا ہے پھر بھی اس پر اعتماد مت کر لو یہاں پر دیکھو کہ سیاستدان تو نہیں؟؟

▪ البتہ امام علیہ السلام نے اس اصطلاح (سیاستدان) کا تو استعمال نہیں کیا بلکہ آپ نے فرمایا کہ دیکھو مقام و منصب کا دلدادہ تو نہیں، اور ہم جانتے ہیں کہ مقام و منصب کے امور زیادہ تر سیاست کے زمرے میں آتے ہیں.

▪ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر اپنے سیاسی اثر و رسوخ سے بھی گزر جاتا ہے تو اس پر اعتماد کر لو لیکن اگر اپنے سیاسی مقاصد کو پس پشت نہیں ڈالتا اور ان سب خوبیوں کو رکھتا ہے تو خدا اس پر لعنت بھیجتا ہے.

▪ ہم اس کلام امام پر دقت سے اس بات کو بخوبی جان سکتے ہیں کہ ہمیں کس شخص پر اعتماد کرنا چاہیے، ہوسکتا ہے کوئی کہے کہ میں جس سیاستدان کا پیرو ہوں وہ نمازی ہے، داڑھی رکھتا ہے، غریبوں کا ہمدرد ہے، خمس و زکات کا پابند اور ماتمی ہے لیکن آیا ہم ان سب امور کو دیکھ کر اعتماد کر سکتے ہیں یا نہیں؟

▪  فقط یہ سب دیکھ کر ہم اس پر اعتماد نہیں کر سکتے، بلکہ ہم اسکے دین اور ان سب اعمال کو سیاست کے میزان میں تولیں گے، کیا یہ سب اعمال اپنے جاہ و منصب و مقام کے اضافے کے لئے تو نہیں کر رہا؟؟ آیا ان سب حرام امور کو اس لئے تو نہیں ترک کر رہا کہ ایک سب سے بڑا حرام أمر انجام دے.

▪ ہم اپنے اعمال اور کردار کو بھی اس معیار پر تول سکتے ہیں  اور خود کو سیاست کے میدان میں لاکر جان سکتے ہیں کہ ہمارا یہ اچھا کردار مقام و منصب کے لالچ میں تو نہیں؟؟

حوالہ:
١- احتجاج/٣٢٠/٢

تحریر: عون نقوی

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 August 21 ، 12:25
عون نقوی

رہبر معظم سید علی خامنہ ای دام ظلہ العالی:


غدیر کا مسئلہ حکومت بنانے کا مسئلہ ہے کیونکہ ولایتِ حکومتی (سیاسی) میں منصب پر فائز کیا جا سکتا ہے. جبکہ معنوی مقامات قابل منصب نہیں ہیں. ولایتِ معنوی ایسی چیز نہیں ہے کہ اس پر منصوب کرنے سے ایک مقام حاصل ہو جائے. البتہ امام علی ع بلند ترین معنوی مقامات پر فائز تھے اور جامع شخصیت کے مالک تھے جس کی وجہ سے نبی اکرم ص نے امام علی ع کو (اسلامی ریاست اور امت اسلامیہ پر حاکم اور) حکومت پر منصوب کیا....  حدیث غدیر میں جس ولایت کا تذکرہ موجود ہے وہ بمعنی حکومت ہے نہ کہ بمعنی مقام معنوی، مسئلہِ غدیر مسئلہ حکومت ہے، مسئلہِ غدیر مسئلہ سیاست ہے۔

حوالہ:
کتاب: نگاہی بہ نظریہ ہای انتظار، رہبر معظم، ص۱۴۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 August 21 ، 11:43
عون نقوی

 

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی:

                   

غدیر کا مسئلہ حکومت بنانے کا مسئلہ ہے کیونکہ ولایتِ حکومتی (سیاسی) میں منصب پر فائز کیا جا سکتا ہے. جبکہ معنوی مقامات قابل منصب نہیں ہیں. ولایتِ معنوی ایسی چیز نہیں ہے کہ اس پر منصوب کرنے سے ایک مقام حاصل ہو جائے. البتہ امام علی ع بلند ترین معنوی مقامات پر فائز تھے اور جامع شخصیت کے مالک تھے جس کی وجہ سے نبی اکرم ص نے امام علی ع کو (اسلامی ریاست اور امت اسلامیہ پر حاکم اور) حکومت پر منصوب کیا....  حدیث غدیر میں جس ولایت کا تذکرہ موجود ہے وہ بمعنی حکومت ہے نہ کہ بمعنی مقام معنوی، مسئلہِ غدیر مسئلہ حکومت ہے، مسئلہِ غدیر مسئلہ سیاست ہے.

حوالہ:

کتاب: نگاہی بہ نظریہ ہای انتظار، رہبر معظم، ص۱۴۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 17 August 21 ، 12:36
عون نقوی


امام حسینؑ کے راستے کا مطلب ہے دشمن سے نہ ڈرنا


رہبر معظم فرماتے ہیں:
آپ بھائیوں اور بہنوں اور ایران قوم کے تمام لوگوں کو یہ جاننا چاہئے کہ کربلا ہمارے لئے ہمیشہ رہنے والا نمونہ عمل ہے ۔ کربلا ہمارا مثالیہ ہے اور اس کا پیام ہے کہ دشمن کی طاقت کے سامنے انسان کے قدم متزلزل نہیں ہونے چاہئے ۔ یہ ایک آزمایا ہوا نمونہ عمل ہے ۔ صحیح ہے کہ صدر اسلام میں ، حسین بن علی علیہ السلام بہتر لوگوں کے ساتھ شہید کر دئے گئے لیکن اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ جو بھی امام حسین علیہ السلام کے راستے پر چلے یا جو بھی قیام و جد و جہد کرے اسے شہید ہو جانا چاہئے ، نہیں ۔ ملت ایران ، بحمد اللہ آج امام حسین علیہ السلام کے راستے کو آزما چکی ہے اور سر بلندی و عظمت کے ساتھ اقوام اسلام اور اقوام عالم کے درمیان موجود ہے ۔ وہ کارنامہ جو آپ لوگوں نے انقلاب کی کامیابی سے قبل انجام دیا وہ امام حسین علیہ السلام کا راستہ تھا امام حسین علیہ السلام کے راستے کا مطلب ہے دشمن سے نہ ڈرنا اور طاقتور دشمن کے سامنے ڈٹ جانا ہے ۔ جنگ کے دوران بھی ایسا ہی تھا ۔ ہماری قوم سمجھتی تھی کہ اس کے مقابلے میں مغرب و مشرق کی طاقتیں اور پورا سامراج کھڑا ہوا ہے لیکن وہ ڈری نہیں ۔ البتہ ہماری پیارے شہید ہوئے ۔ کچھ لوگوں کے اعضائے بدن کٹ گئے اور کچھ لوگوں نے برسوں جیلوں میں گزارے اور کچھ لوگ اب بھی بعثیوں کی جیل میں ہیں لیکن قوم ان قربانیوں کی بدولت عزت و عظمت کے اوج پر پہنچ گئ ۔ اسلام ہر دل عزیز ہو گیا ہے ، اسلام کا پرچم لہرا رہا ہے یہ سب کچھ مزاحمت کی برکت سے ہے۔

حوالہ:

آفیشل سائٹ رہبر معظم

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 17 August 21 ، 10:35
عون نقوی