بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

علامہ سید جواد نقوی کا کہنا ہے کہ بن سلمان نے اسلامی ممالک کی فوج بنانے کی آڑ میں پاکستان سے فوجی جنرل کو اپنے پاس بلا کر اپنی سکیورٹی کا بندوبست کروایا ہے۔

علامہ سید جواد نقوی allama syed jawad naqvi

مسجد بیت العتیق جامعہ عروة الوثقیٰ لاہور میں تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی کا خطبہ جمعہ میں کہنا تھا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان امریکی ایجنڈے کے تحت ہے اس لئے کہ بن سلمان چین سے پاکستان کے تعلقات خراب اور یمن میں مزید افواج پاکستان طلب کرنے کے لئے پاکستان کا دورہ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی ولی عہد خطرناک عزائم رکھتا ہے، اس نے اسلامی ممالک کی فوج بنانے کی آڑ میں پاکستان سے فوجی جنرل کو اپنے پاس بلا کر اپنی سکیورٹی کا بندوبست کروایا ہے۔ تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ نے کہا کہ محمد بن سلمان کے آنے سے چین کیساتھ عملی معاہدے اور تعلقات میں فعالیت ختم ہونے کا خدشہ ہے، کیونکہ امریکہ چین کو تنہا کرنا چاہتا ہے۔ شہزادہ 20 ارب ڈالر کے وعدے کے بدلے پاکستان سے فوج اور ایٹم بم لینے آرہا ہے اور پاکستان ایسے شخص کی آمد پر کرفیو لگا کر جشن منا رہا ہے۔

علامہ جواد نقوی نے کہا کہ پاکستان میں خوف کی فضا چھائی ہوئی ہے کیونکہ درپردہ سب کو پتہ ہے کہ غلط ہو رہا ہے لیکن خوف کے باعث مصلحت کا لبادہ اوڑھے کوئی آواز بلند کرنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ آل سعود ظالم و جابر خاندان ہے جو برطانیہ کی حمایت سے 1903 میں وجود میں آیا اور 1932 میں انھوں نے مکمل اقتدار سنبھال لیا۔ اور پھر خونریز جنگیں کی گئیں کہ جس میں ظلم کی انتہا کی گئی۔ اس گرو ہ نے سب مسلمان گروہوں میں نفرت، شدت پسندی اور تفرقہ بازی میں بھیانک کردار ادا کیا۔ دوسری طرف محمد بن سلمان کے حوالے سے خود امریکیوں کے اندر ایک بحث چھڑی ہوئی ہے، جس میں پارلیمنٹ و سینیٹ کہ جنھوں نے یہ قرارداد پاس کی ہے کہ یہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قاتل ہے لہٰذا اسے ہٹایا جائے اور قوی امکان ہے کہ آئندہ یہ ولی عہدی سے ہٹا بھی دیا جائے۔

واضح رہے کہ سعودی ولیعہد ناگزیروجوہات کی بناء پراب 16 فروری کے بجائے 17 سے 18 فروری تک پاکستان کے دورے پرجائیں گے اور ان کے دورے کے خلاف پاکستان میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے۔

source: defapress.ir

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 24 September 21 ، 16:18
عون نقوی

پاکستان کی انقلابی شخصیت حجۃ الاسلام و المسلمین علامہ سید جواد نقوی کا جامعہ جعفریہ گجرانوالہ میں 22 جنوری 2016 کو نماز جمعہ کا خطبہ جس میں انہوں نے موجودہ حالات کا تجزیہ پیش کیا ہے:

علامہ سید جواد نقوی allama syed jawad naqvi

تقویٰ سے دوری کے نتائج

 آج پوری دنیا میں مسلمان سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اس عدم تحفظ کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ تقویٰ سے دور ہیں، اسی وجہ سے دشمنوں کے نرغے میں ہیں، تفرقے کا شکار میں ہے، آپس میں دشمنیاں اور کدورتیں ہیں،فرقوں میں بٹ گئے ہیں اور وہی ملت جوکسی زمانے میں پیشواتھی، انسانیت اور دنیا کی امامت کرتی تھی آج وہ غلامی اور محرومیت میں مبتلا ہے،اپنے ممالک میں بھی بے گانوں اور اجنبیوں کے غلام بنے ہوئے ہیں، اپنی سرزمینیں، قومیں، دولت و ثروت اور نسلیں سب دشمنوں کے اختیار دے دی گئی ہیں اور خود بھی ان کی نوکری پر مأمور ہیں یہ سب سے بڑی ذلت اور بے تقویٰ ہونے کی علامت ہے۔ آج سب سے زیادہ پریشانیاں اور مشکلات دنیائے اسلام اور امت اسلامیہ کو درپیش ہیں ان مشکلات سے نکلنے کا واحدراستہ تقویٰ ہے کہ جب یہ تقویٰ کی راہ اپنائیں، شیطانی راہوں، شیطانی سیاستوں، شیطانی حکومتوں، شیطانی پارٹیوں، شیطانی لیڈروں اورشیطانی افکار کوچھوڑ کر تقویٰ کی راہ اختیار کریں اور الہٰی نظام کی پناہ میں آجائیں ۔

الہٰی نظام ہی تنہا وہ نظام ہے جو اللہ تعالی نے مقرر فرمایا ہے جس نظام کے اندر نجات ہے اور وہ نظام امامت و ولایت ہے ،اس کا کوئی متبادل نظام نہیں ہے ۔یوں نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہوا ہے کہ تمہاری مرضی ہے کہ نظام امامت اپنالو یا اس کا کوئی متبادل نظام اپنا سکتے ہو، اس کو کوئی متبادل نہیں ہے ، انسان ولایت خدا میں ہے یا ولایت طاغوت میں ہے ـــ۔

 

الہٰی اور طاغوتی نظام

 دو نظام ہیں ؛ایک طاغوت کا نظام اور ایک اللہ کا نظام، اگر اللہ کے نظام میں ہوں گے تو اللہ تمہارا ولی ہے اوراگراللہ کی ولایت میں نہیں ہو تو پھر طاغوت اور شیطان تمہارے متولی ہوں گے ۔یہ بہت افسوسناک ہے کہ مسلمین اللہ پر ایمان تو رکھتے ہیں لیکن نظام اور سرپرستی طاغوت کی ہے۔ آج طاغوت باقاعدہ طورپر مسلمانوں اور حکومتوں کے سرپرست بنے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
 اس وقت عالم اسلام میں پاکستان سب سے زیادہ، طاغوت پرستی اور شیطان زدگی کا نتیجہ دیکھ رہا ہے ۔چند روز قبل جو حادثہ ہوا وہ بہت ہی تلخ اور ناگوار تھا کہ خیبر پختونخواہ چارسدہ میں ایک یونیورسٹی کے اندر دہشت گرد داخل ہوئے اور وہاں پر طلاب کو شہید کیا ،مہمانوں کو شہید کیا ، ایک استاد بھی  شہید ہوئے ہیں ،یہ ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پیچھے باقاعدہ شیطان زدگی اور شیطان پرستی کی ایک پوری تاریخ ہے اور یہ سب طاغوت کی سرپرستی کا نتیجہ ہے ۔اب حالات یہاں تک جا پہنچے ہیں کہ اس کے باوجود کہ دہشت گردی کے ساتھ مقابلہ ہورہا ہے اور سارا ملک اور ملکی توانائیاں دہشت گردوں کے خلاف استعمال ہورہی ہیں پھر بھی وہ جہاں چاہتے ہیں وہاں اپنے گھناؤنے اعمال انجام دیتے ہیں کیونکہ ان کی جڑیں مضبوط ہیں، ان کے سرپرست ان کی پشت پر موجود ہیں ان کے عوامل اور اسباب موجود ہیں۔

دہشت گردی سے نمٹنے کا طریقہ

کچھ عرصہ پہلے اشارہ کیا تھا کہ دہشت گردی سے مقابلے کے لئے اس کے آثار، نتائج اورمعلولات کے ساتھ جنگ فائدہ مند نہیں ہے ۔معلولات اور مسببات کے خلاف جنگ، شکست خوردہ جنگ ہے ،کسی بھی شئی کے آثار کے خلاف جنگ کرنے سے انسان شکست کھاجاتا ہے ،جب تک کہ اس کے اسباب وعوامل اوراس کے بنیادی عوامل کے خلاف جنگ نہ کی جائے۔ اگر ایک بیماری کے آثار کے خلاف جنگ کی جائے، مثلاً انسان کے جسم میں سرطان کے آثار رونما نہ ہونے دیں، اس طرح آثار ختم کرنے سے انسان کبھی بھی جنگ نہیں جیت سکتا۔ جب تک سرطان کی جڑیں ختم نہ ہوں سرطان ختم نہیں ہوتا،جب تک اس کے اسباب ختم نہ ہوں ،جب تک اس کے بنیادی محرکات کو کنڑول نہ کیا جائے انسان سرطان سے نجات نہیں پاسکتا ہے۔
ملک کے اندر یہ شجرہ خبیثہ اور یہ خباثت آج سے لگ بھگ تیس سال یا اس سے کچھ عرصہ پہلے شروع کی گئی ہے۔۸۰ کی دھا ئی میں ضیاء الحق نے یہ بیج کاشت کیا اوراس کے ساتھ کے ٹولے اور اداروں نے باقاعدہ طور پر حماقت آمیز اقدام کیا کہ افغان جنگ کو بنیاد بنایا اور ادھر سے تشیع کو نشانہ بنانے کے لئے دو طرح کے لشکر بنائے؛ ایک لشکر وہ جو افغانستان یا کشمیر میں لڑے گا اور دوسرا لشکر وہ کہ جو پاکستان کے اندر لڑے گا۔ ان کو داخلی اور خارجی، اندرونی اوربیرونی جہاد سکھایا گیا، کیمپ لگائے گئے، ان کو تربیت دی گئی۔ جن لوگوں نے یہ دہشت گردبنائے ہیں انہیں کوئی نہیں پوچھتا، ان پرکوئی کیس نہیں اور مقدمہ نہیں چلتا ہے، ان کا ذکر کہیں نہیں آتا ہے ۔جن مجرموں نے یہ پالیسیاں بنائیں، غیرریاستی لشکربنائے ،فوجیں بنائیں،ٹرورسٹ بنائے اوران کی حمایت کی، ان کا نام کیوں نہیںلیتے ؟اور وہ ممالک جنہوں نے پاکستان میںیہ خباثت پھیلائی ہے ان ممالک کانا م کیوں نہیں لیتے؟ ان ممالک سے تعلقات کیوں نہیںتوڑتے؟جن کے پیسوں اور حمایتوں سے، جن کی پلاننگ اور تربیت سے یہ سب کچھ شروع ہو ا ہے ان ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں، ان ممالک کی مداخلت پاکستان میں جارہی ہے اور ہم دہشت گردی کے نتائج کو کچلنا چاہتے ہیں۔اس طرح دہشت گردی ختم کرنا ممکن نہیں ہے،جب تک دہشت گردی کے اسباب ختم نہیں کئے جائیں۔

اسباب دہشت گردی

دہشت گردی کے دو قسم کے مہم اسباب ہیں؛ کچھ اسباب ملک کے اندر اورکچھ ملک سے باہر ہیں۔ ملک سے باہر وہ ممالک ہیں جنہوں نے اس دہشت گردی کواپنی ضرورت کے تحت فروغ دیا ہے، امریکہ کو افغانستان میں جنگ لڑنی تھی، پاکستان میں دہشت گردی کے کیمپ لگائے ،پاکستان میں مجاہد پالے جو دہشت گرد بن گئے، دہشت گردی کاسب سے بڑا بانی امریکہ ہے اور جن ملکوں نے پیسہ لگا کر یہاں پر دہشت گردی کو فروغ دیا، لشکر بنائے اور ان کو بجٹ فراہم کیا وہ عرب ممالک ہیں، بالخصوص آل سعودنے کھلم کھلا، دن دھاڑے یہ کام کیا ہے اورپاکستان میںان کے مختلف مذہبی اور سرکاری ایجنٹ تھے جنہوں نے پاکستان میںدہشت گردی کی خباثت شروع کی ہے ۔یہ دہشت گردی کے علل و اسباب ہیں، ان میں سے کسی کو بھی نہیں چھیڑتے، نہ پاکستان میں امریکہ کی مداخلت روکتے ہیں، نہ پاکستان میں آل سعودکی مداخلت روکتے ہیں، نہ ان سرکاری اہلکاروں کا نام لیتے ہیں کہ جنہوں نے یہ لشکر بنائے اوران کی سرپرستی کی ہے، نہ ان مذہبی عناصر اور مذہبی تعلقات کو چھیڑتے ہیں کہ جنہوں نے اپنے مدرسوں اور اپنے ماحول میں یہ سب کچھ پالاپوسا ہے، بلکہ فقط اس کی شاخیں اور پتے کاٹنے میں مشغول ہیں۔ نتیجہ پھر یہی نکلتا ہے کہ کبھی پشاور میں اور کبھی چارسدہ میں حملہ ہوتا ہے اور پھر ایک المیہ یہ ہے کہ جب تک کسی سرکاری ادارے کے اسکو ل پر حملہ نہ ہواس کو دہشت گردی ہی نہیں سمجھتے ۔اگر امام بارگاہ پر حملہ ہوجائے ،ریلی پر حملہ ہوجائے، شخصیات پر حملہ ہوجائے ، مسجدوں پر حملہ ہوجائے ،جمعہ پر حملہ ہوجائے، عوامی اجتماعات پر حملہ ہوجائے تو دہشت گردی شمار ہی نہیںکرتے ہیں! بلکہ دہشت گردی صرف اسے شمار کرتے ہیں جو سرکاری املاک پر ہو۔
 بہر حال یہ بعض میڈیا والوں یا کچھ دوسرے لوگوں کی غلط سوچ ہے۔ درحقیقت یہ سب دہشت گردی ہے؛ چار سدہ کی یونیورسٹی پر حملہ ہو تو بھی دہشت گردی ہے ، پشاور اسکول پر حملہ ہو تو بھی دہشت گردی ہے، پشاور میں امامیہ مسجد پر حملہ ہو تو بھی دہشت گردی ہے، پاراچنار میں ہو تو بھی دہشت گردی ہے، نائیجیریایا یمین میں ہو تو بھی دہشت گردی ہے، کراچی اورپورے پاکستان میں جہاں پر بھی یہ کاروائی ہویہ سب ایک جیسی اور یکساں دہشت گردی ہے۔ یہ شجرہ خبیثہ ہے جو انہوں نے کاشت کیا ہے اورابھی بھی طالبان اور بعض دوسرے دہشت گروں کی سرپرستی کر رہے ہیں ،یہ وہ ممالک ہیں جو دہشت گردبناتے ہیں پھر انہی دہشتگردوں کے بہانے اگلی کاروائی کرتے ہیں۔

خود زنی کی اسٹراٹیجی

پہلے اشارہ کیا تھا کہ دو ہفتہ قبل پٹھان کوٹ ،انڈیا میں ائیر بس پر حملہ ہوا جس کا ذمہ دار انھوں نے پاکستانی لشکروں کو قرار دیا ۔اس کے بعد کاروائی بھی ہوئی اور وہی عرض کیا تھا کہ یہ ایک اسٹراٹیجی بن چکی ہے خودزنی کی ، یعنی اپنے اوپر حملے کرائواور پھر ان حملوں کے انتقام میں دوسرے ممالک پر چڑھائی کرو اور یہ توقع تھی کہ ایسا ہی ہوگا۔ پٹھان کوٹ کا حملہ یہ علامتیں ظاہر کر رہا تھاکہ پاکستان میں بھی کوئی بڑی کاروائی ہوگی ، وہاں پر کاروائی ہوئی ہے تو ادھر بھی ہونی چاہیے۔
 یہ سب اس وقت رکے گا جب اس کے اندر ونی و بیرونی تمام اسباب کو ختم کیا جائے اور اسباب ختم کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ جتنے اہلکار جہاں بھی ہیں ،اگروہ قبروں میں بھی چلے گئے ہیں توان پر بھی مقدمہ چلایا جائے۔ حمیدگل جیسے افراد پر مقدمہ چلایا جائے چونکہ ان کی وجہ سے یہ سب کچھ ہورہا ہے ،یہ ان کے کاشت کردہ پودے ہیں، جو زندہ ہیں ان پر مقدمہ چلایا جائے انھیں متعارف کروایا جائے اور ساری قوم کو یہ بتایا جائے کہ یہ وہ مذہبی چہرے ہیں کہ جنہوں نے پاکستان کو تباہ کرنے کے لیے پاکستان کو دہشت گردی کا تحفہ دیا ہے اور قوم کو یہ بتایا جائے کہ عربی اور غربی ممالک چاہے ا مریکہ ہو یا آل سعود ہوا یہ پاکستان کی بدبختی کے ضامن ہیں۔ ایک طرف ان کے ساتھ دوستی لگائی جائے ،انہیں دوست کہاجائے ،انہیں سرپرست بنایا جائے، انہیں بڑا مانا جائے، ان کی چاپلوسی کی جائے اور ساتھ یہ توقع بھی رکھی جائے کہ پاکستان میں دہشت گردی ختم ہورہی ہے ،یہ خام خیالی ہے اس طرح دہشت گردی ختم نہیں ہوگی۔

پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی

 اسی ہفتہ ، دو تین دن پہلے اوباما نے ایک بیان دیا ہے جس پر پاکستان کے بعض سیاست دانوں نے رد عمل دکھایا ہے۔اس نے بیان دیا ہے کہ پاکستان کئی دھائیوں تک ناامن رہے گا، استحکام نہیں آئے گا۔ کئی دھائیاں یعنی کئی دہ سال، جیسے ابھی ۲۰۱۰ کی دھائی چل رہی ہے یہ ۲۰۲۰ تک یہ دس سال، ایک دھائی کہلاتی ہے، ۲۰۰۱ سے لے کر ۲۰۱۰ تک ایک دھائی ہے ، اوباما نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان کئی دھائیوں تک ناامن رہے گایعنی ابھی مزید بیسیوں ،دسیوں سال ناامن رہے گا ،کچھ ہمارے لوگوں نے اسے رسمی طور پر جواب دیا کہ اوباما نے صحیح بات نہیں کی ہے کچھ نے گول مول تبصرے کئے ،یہ اوباما کی پیشن گوئی نہ سمجھیں وہ کوئی ولی اللہ ہے اور نہ اس نے کوئی ایسا تجزیہ اور تحلیل کیا ہے بلکہ اس نے اپنی پالیسی ظاہر کی ہے کہ دسیوں سال ناامن رکھا جائے گا ۔ ان کی مشرق وسطیٰ ، اپنے ممالک اور دیگر ممالک کے لئے جو پالیسیاں ہیں وہ تقاضا کرتی ہیں کہ پاکستان دسیوں سال ناامن رہے ،یہ امریکہ نے اپنی پالیسی کا اعلان کیا اور یہاں کسی نے کوئی جواب نہیں دیاکیونکہ ان کے اندر جواب د ینے کی جرأت نہیں ہے۔ آپ نے خبروں میں دیکھا کہ امریکی لانچوں نے ایران کی آبی حدودتجاوز کیا، دو چھوٹی کشتیاں اور لانچیں ایران کی سمندری حدود میں داخل ہوگئیں اور وہیں پر پاسدار گئے اور انہیں ہتھکڑیوں میں اسیر کرکے اپنے ملک کے اندر لے آئے اور پھر انہوں نے معافی مانگی اور عہد کیا کہ آئندہ ایسا نہیں کریںگے اور تصویریں نشر ہوئی ہیں، معافی کے بعد خود ان کو چھوڑا ، آپ اپنے ملک کا احترام بچائیں ، اپنے ملک کی حرمت اور تقدس بچائیں۔

پاکستانی قوم کی غیرت کو کیا ہوگیا ؟

 ایک شخص ساری دنیا میں آگ لگائے ہوئے ہے اور پاکستان کے بارے میں اعلان کرتا ہے کہ پاکستان کو دسیوں سال اور ناامن رہنا ہے ۔اس کا کیا جواب بنتا تھا ،یہاں عوام کو ردعمل دکھانا تھا ،مذہبی جو ہر مسئلے میں کود پڑتے ہیں ،دھرنے اور ریلی نکالتے ہیں ،یہ وقت پاکستان کے استحکام اور پاکستان کے تحفظ اور دفاع کا تھا یہ و قت پاکستان سے دفاع کا ہے ،روڈوں اورسڑکوں پر آنے کا وقت ہے، امریکی اداروں اور ایمبسیوں کے سفیر کو طلب کرو، امریکی سفیر کو پوچھوکہ کیوں پاکستان دسیوں سال اور ناامن رہے گا۔ پاکستان نے کیا گناہ کیا ہے؟ کیوں تم نے یہ پالیسی اعلان کی کہ باقی دنیا میں امن قائم کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں اور پاکستان کو دسیوں سال مزید ناامن رکھنے کی کوششیں ہو رہی ہیں جب تک یہ وجوہات ختم نہیں ہوتیں ان پر قابو نہیں پایا جاتا اس طرف توجہ نہیں آتا اس وقت تک دہشت گردی کیسے ختم ہو سکتی ہے؟

شجاع رہنماوں کی ضرورت

جرأت مند انسان اور جرأت مند سیاست مندچاہیے جو ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکے ان کی کلائی پکڑسکے ان کی کلائی مروڑ سکے ،تاکہ ان کو جواب دے سکے کہ کیسے ممکن ہے کہ ہمار ملک دسیوں سال ناامن رہے، کیوں انہوں نے یہ پالیسی اعلان کی ہے کیوں تم نے پاکستان کو ناامن رکھنے کی سازشیں کی ہیں؟ دلیر لوگ چاہیے، غیرتمند لوگ چاہیے جو اپنے ملک کے متعلق ایسے غیر ذ مہ دارانہ بیانات پر نوٹس لیں اور اس کا جواب دیں ۔عوام کو بھی چاہیے، تعجب ہوتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے کاموں پر جلسے جلوس کرنے والے، دھرنے دینے والے اتنے اہم مسئلہ کے اوپر بالکل ساکت و خاموش ہیں جیسے ان کے پیر نے بیان دیا اور وہ اس بیان کو سر آنکھوں پر لے رہے ہیں۔ آئندہ دسیوں سال پاکستان مزید غیر مستحکم اور ناامن رکھنے کے لئے گویااب اور بولی لگی ہے اور یہ اس کا ٹھیکہ لیں کہ اگر پاکستان کوناامن کرنا ہے تو پاکستان کی ناامنی کے لئے ہم حاضر ہیں ۔

ایران اور سعودی عرب کے درمیان پاکستان کی ثالثی

ایک اور حرکت کہ جو گذشتہ ہفتہ انجام پائی ہے پاکستان کے وزیراعظم صاحب اور فوجی چیف صاحب سعودی عرب اور ایران میں مصالحت کے لئے گئے ہیں ۔پہلے سعودی عرب گئے اور بعد میں ایران گئے ہیں اور کوشش کی ہے ان ملکوں کے اندر مصالحت کرائیںاور جو فضا بن چکی ہے سفارتی روابط ختم ہوگے ہیں اور اس میںمزید تلخی آ رہی ہے اپنا کردار ادا کریں ۔جو کچھ سعودی عرب پاکستان سے چاہ رہاتھا اس کے مقابلے میں پاکستان نے یہ بہترین قدم اٹھایا ہے۔ اس سے یہ تونہیں کہوں گا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے مسائل حل ہوجائیں گے چونکہ سعودی عرب اور پاکستان کے مسائل حل کرنے کے لئے دونوں کے ساتھ بہادری کی سطح پر تعلقات ہوناضروری ہے۔ جیسے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات ہیں ایسے ہی ایران کے ساتھ ہوں پھر تو ثالثی کا جواز بنتا ہے ،چونکہ دونوں طرف ایک جیسا اقدام ہے دونوں طرف ایک جیسا ماحول ہے، ایک جیسا اعتمادہے لیکن اگر ایک کے ساتھ دوستی ہواور ایک کے ساتھ نہ ہو تو وہاں ظاہر مصلحانہ کردار کی اتنی امید نہیں ہوتی کہ کچھ ہو پائے گا ۔
بہر کیف اچھی کوشش ہے اور پاکستان کے لئے بہت اچھی پالیسی ہے۔ ایران کو اس کا فائدہ ملے  یا نہ ملے ،سعودی عرب کو اس کا فائدہ ملے یا نہ ملے، خود پاکستان کے لئے یہ اچھی پالیسی ہے جو ہمارے ان سیاسی رہنماوؤں نے پاکستان کے لئے اختیارکی ہے۔ آپ توجہ فرمائیں پاکستان کی سیاسی پالیسیوں نے پاکستان کو ایسی جگہ جا پہنچایا ہے کہ اگر ایران اور سعودی عرب میں مزید مسئلہ بڑھتا ہے اورشدت اختیار کرتا ہے خدانخواستہ جنگ تک نوبت جا پہنچتی ہے کہ جس کے آثار ہیں اور نفی نہیں کی جاسکتی ،چونکہ سعودی عرب میں جنگ کا جنون پایا جاتا ہے کہ وہ ان کی ماموریت ہے وہ جنگ کے لئے پورے طور پر تیاری کررہے ہیں ،ابھی اس کا اشارہ کروں گا کہ وہ پوری تیاری میں ہیں کہ یکطرفہ طور پر حتماً یہ جنگ شروع ہو۔
سعودی عرب اور ایران کے مابین اگر یہ مسئلہ بڑھتا ہے اور شدت اختیار کرتا ہے تو پاکستان کے لئے کوئی امن کا راستہ نہیں بچتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان جنگ میں شریک بھی نہیں ہوسکتا ہے کہ یہ کسی ایک فریق کا ساتھی بھی نہیں بن سکتا ہے اور دونوں کا ساتھ بھی نہیں دے سکتا ہے اور لاتعلق بھی نہیں رہ سکتا۔ انسان ایک ایسے مخمصہ میں پھنس جائے کہ یہاں آپ دونوں کا ساتھ بھی نہیں دے سکتے کسی ایک کا ساتھ بھی نہیں دے سکتے لاتعلق بھی نہیں رہ سکتے ایسی صورت میں ایک ہی راستہ بچ جاتا ہے کہ ان کے درمیان آپس میں تصادم نہ ہو ورنہ ہمارے لئے سارے راستے بند ہوجاتے ہیں۔ دونوں کا ساتھ نہیں دے سکتے ممکن نہیں ہے کہ اِن کی بھی مدد کریں اور اُن کی بھی مدد کریں یہ تو ناممکن ہے، ایک کا ساتھ دینے کے لئے بیانات تو ہیں اخباروں میں  کہ اگر کوئی مسئلہ بڑھتا ہے تو ہم سعودی عرب کا ساتھ دیں گے ،سعودی عرب کا دفاع کریں گے لیکن عملی طور پرجو اقدام ابھی شروع کیا ہے پاکستان کے لئے بہترین اقدام ہے ،سعودی عرب کا ایران کا فائدہ ہو یا نہ ہولیکن خود اپنے ملک کے لئے یہ بہترین پالیسی ہے جو انہوں نے اپنائی ہے کہ ہمیں پاکستان کو محفوظ رکھنا ہے ،ہماری ذمہ داری سب سے پہلے پاکستان کو محفوظ رکھنا ہے، پاکستانیوں کو،پاکستانی فوج اور عوام کا پہلا فریضہ پاکستان کو بچانا ہے ۔یہ نہ ہو کہ کسی اور ملک کی خاطر (جس طرح پہلے کیا اورسعودی عرب کی خاطر) اپنا ملک تباہ کرلیااور دہشت گردی فروغ پائی ۔یہاں پر یہ غلطی دوبارہ تکرار نہ ہوایک کا ساتھ دینے کے لئے رحجانات موجود ہیں لیکن پاکستان کو اس کے بہت شدید نقصانات ہیں اور توقع بھی نہیں کی جاتی کہ پاکستان کو اتنا شدید نقصان پہنچانے کے لئے تیار ہوں۔
پاکستان لاتعلق بھی نہیں رہ سکتے کیونکہ خدانخواستہ اگر تصادم ہوتا ہے ایران پڑوسی ہے اور سعودی عرب پاکستان کے بقول وہ ان کا محسن ہے۔ سعودی عرب نے یہاں پر اتنی انویسمنٹ کی ہوئی ہے ،  ہر ایک کے اوپراتنے احسانات کئے ہیں لہذا وہ لاتعلق بھی نہیں رہ سکتے ہیں۔ وہ ساری دولت اور ثروت صرف کی گئی ہے وہ ایسے ہی دنوں کے لئے ہے اور ان کی پاکستان سے بہت زیادہ امیدیں ہیں۔ وہ کوئی اپنی فوج کے بھروسے پر تیاریاں نہیں کررہے، اپنے وسائل کی بدولت جنگ کی تیاریاں نہیں کررہے ،ان کی نگاہیں چند ملکوں پر لگی ہوئی ہیں۔ ان میں سرفہرست پاکستان ہے اور پاکستان کے بعد ان کی آنکھیں مصرپر لگی ہوئی ہیں لیکن مصر میں انہوں نے ابھی پیسے لگانے شروع کئے ہیں۔ اس سے پہلے مصر کے اوپر ہمیشہ رقابت رہی ہے ان کی اور مصر کی کہ عرب دنیا کی لیڈرشپ کس کو حاصل ہو ۔جمال عبد الناصر کے زمانے میں مصر خود عرب دنیا کا رہبر بننا چاہتا تھا اور ایک زمانے میں جمال عبد الناصر نے یہ لیڈرشپ لے بھی لی تھی اور وہ عرب دنیا کا رہنمابن گیا تھا اور اسے لیڈر مان لیا گیا تھا پھر اس کے بعد مصر کے حالات ناپائیدار رہے ، سیاست ناپائیدار رہی، تو دو لیڈر پیداہوئے ایک سعودی عرب جس نے خلیجی عرب ممالک کو اپنے ساتھ ملاکر رکھا اور ایک مصر تھا کہ دوسری عرب دنیا مصر کے محور میں متحد تھی ۔پس عرب دنیا کے دو لیڈر تھے سعودی عرب اور مصر، اس وجہ سے ان کی آپس میں رقابت ہے کہ عربوں کا رہنما کون ہے ،عربوں کا لیڈر کون ہے، کوئی کسی کے ماتحت نہیں ہونا چاہتا ہے ،نہ سعودی عرب مصر کے تحت اور نہ ہی مصر، سعودی عرب کے تحت جانا چاہتا ہے ۔ جب سے جنرل سی سی انتخاب ہوا ہے کہ ڈرامہ رچا کر الیکشن کروا کر، پرویز مشرف کی طرح  صدر بن گیا ہے اورضیاء الحق کی طرح صدر بن گیا ہے ۔اب انہوں نے اس کی طرف تھوڑا سا رخ کیا ہے اور یمن میں فی الجملہ اپنا اتحادی بنایا ہے۔ یمن کی جنگ میں مصر بھی شامل ہے محدود سطح تک شامل ہے بلکہ میڈیا میں ایک جوک بھی نشر ہوا ہے کہ سعودی فرمانرواںنے مصری فرمانرواں سی سی سے فون یا اپنے کسی آفیشل بندے کے ذریعے سے کہا گیا کہ سعودی عرب یہ عزائم رکھتاہے تو آپ اس کے لئے کچھ کریں ( ظاہراً کانفرنس میں شرکت کرنا تھی کہا کانفرنس میں شریک ہونا ہے ) تواس نے کہا  ٹھیک ہے ان سے کہو کہ اتنے بلین ڈالر میرے اکاونٹ میں ڈالو تو میں اس کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے تیار ہوں اور وہ اس کانفرنس میں شریک ہوا اور ڈالر وصول کیے۔ ظاہر ہے ابھی بھی وہ چاہتے ہیں کہ سعودی عرب سے مصر پیسہ لے اور اپنے ملک کے لئے وہ خرچ کرے۔
مصر سے ان کی توقع ہے، باقی ممالک ایسے ہیں جن کو مائکرو کنٹریز کہا جاتا ہے ؛مائکرو کنٹریز ان کو کہتے ہیں جو عام آنکھ سے نظر نہیں آتی ہیں، مائکرواسکوپ لگائیں تو نظر آتی ہے ایسے جراثیم ہیںکہ جن کو مائکرو کہتے ہیں ، ان کو مائکرواسکوپ کے ذریعہ دیکھا جاتا ہے، بعض چیزیں نظر آتی ہیں جیسے چیونٹی وہ مائکرو نہیں ہے مائکرو ان چیزوں کو کہا جاتا ہے جو مائکرواسکوپ کے بغیر دکھائی نہیں دیتی ہیں تو سیاسی حوالے سے بعض ممالک بھی مائکرو کنٹریز ہیں جیسے جیبوتی ، کومور، بوتینا فاسو، کسی نے ان کا نام بھی سنا نہیں ہوگا، یہ مائکرو کنٹری ہیں ،یہ ممالک نقشے کے اندر مائکروسکوپ کے ذریعہ نظر آتے ہیں یہ سعودی عرب کی ٹیم ہے ،سعودی عرب کو ان سے تو توقع نہیں ہے کہ یہ مائکرو فوجیں آئیں گی اور آکر سعودی عرب کے اس اتحاد میں شامل ہوکر ایران پر اٹیک کریں گی، ظاہر ہے اس کو طاقت چاہیے اپنی فوج تو لڑ نہیں سکتی ، وہ شہزادوں کی فوج ہے اور شہزادے لڑنے کے لئے نہیں ہوتے ، کھانے پینے کے لئے اور پرفیوم استعمال کرنے کے لئے ہوتے ہیں، ان کی زیادہ تر نگاہیں ادھر ہیں کیونکہ انھوں نے اناونسٹمینٹ کی ہے، اب وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے سابقہ احسانا ت کا جواب دے لیکن پاکستان کبھی بھی اس کام کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس لئے یہ بہترین حرکت تھی جو اس وقت انجام پائی ہے ،ہمارے وزیر اعظم صاحب اور جرنل صاحب دونوں مل کر سعودی عرب اور ایران گئے ہیں ۔بہر کیف جو بھی نتائج نکلے ہیں اس پالیسی کا اقدام پاکستان کے لئے نفع میں ہے اور اسی پر قائم رہنا چاہیے اور اس سے آگے نہیں بڑھے پہلے تو امید ہے کہ یہ تصادم نہ ہو۔

سعودی عرب کی ایٹمی پلاننگ

لیکن سعودی عرب کی جنگ کی بھر پور تیاری ہے جو آثارسے ظاہر ہے ۔ جان کری امریکی وزیر خارجہ نے جو تازہ ترین بیان دیا ہے وہ تشویشناک ہے کہ سعودی عرب ایٹم خریدنے کے چکر میں ہے کہ ایٹمی حملہ کرے ۔ایک طرف سے ایران پر ایٹمی پابندیاں لگادی کہ یہ ایٹم بم نہ بنا سکے اور پھر انھوں نے اس کے سسٹم کو بلاک کیا کہ یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ بہر کیف انھوں نے ایک طرف سے ایٹمی مسئلہ کو لاک کردیا کہ آپ کوکچھ نہیں بنانا ہے اور جو کچھ بنا چکے ہو وہ بھی بیچ دو ۔ایران نے بھاری پانی جو بنایا تھا انھوں نے وہ سارا ٹنوںکے حساب سے  بیچ دیا اورجو یورینیم انرچمنٹ کیا تھا وہ اسٹوروں میں رکھ دیا اور پابندیوں کی وجہ سے پلانٹ میں کنکریٹ بھروا دی ہے ، یہ سسٹم انھوں نے لاک کروادیا اور دوسری طرف سے سعودی عرب کے پاس ایٹمی توانائی نہیں ہے نہ علمی طاقت ہے اور ہی نہ بنا سکتا ہے لیکن پیسہ ہے اور پیسے کے ذریعہ سے خریدنا چاہتا ہے ۔جان کری نے یہ بیان دیا ہے کہ سعودی عرب کی نیت ہے کہ پاکستان سے ایٹم بم خریدے ، چونکہ سعودی عرب بیان دے چکاہے کہ یہ ایٹم بم ہمارا ہے کیونکہ ہمارے پیسے سے بنا ہے اور جان کری نے رہنمائی کی ہے اس سعودی وزیر کی کہ آپ کو اگر ایٹم بم خریدنا ہے تو آپ کو اس کا قانونی راستہ طے کرنا پڑے گا ۔یہ نہیں کہا کہ نہیں خرید سکتے ہو بلکہ کہا ہے کہ خریدنے کے لئے آپ کو اس کا قانونی راستہ طے کرنا پڑے گا، یعنی قانونی راستہ یہ ہے کہ آپ  پہلے یو این او سے اجازت لیں کہ آپ کو ایٹم بم چاہیے۔
ظاہر ہے موجودہ حالات میں وہ کہیں گے کہ دفاع کے لئے ایٹم بم کی ضرورت ہے اور یو این او میں امریکہ اور اس کے حواری ہیں اور وہ اجازت دینے کے لئے بلینز ڈالر ان سے لیں گے ایٹم بم کی قیمت الگ ہوگی اور اجازت الگ ہوگی ۔ اس لئے میں کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کے رہنماؤں نے جو پالیسی اختیار کی ہے یہ پاکستان کے حق میں بہترین پالیسی ہے اور پاکستان کی بقاء کے خاطرانھیں اس کو جاری رکھنا چاہیے اس پر اصرار کرنا چاہیے پاکستان کا صرف نام استعمال کر رہے ہیں، پاکستان ان کو ایٹم بم نہیں دے گا یہ طے ہے لیکن سعودی عرب نے ایٹم بم اسرائیل سے یا لے لیا ہے یا لینا ہے، اسرائیل سے لیں گے اور پاکستان کا نام لگائیں گے ۔ چونکہ سعودی عرب کے حکمران اور خصوصاً یہ موجودہ باپ اور بیٹادیوانے ہیں ، یہ دیوانے ہیں یہ باقاعدہ رسماً پاگل ہیں، نہ کہ ان کو سرزنش کے طور پر پاگل کہا جاتا ہے بلکہ وہ واقعاً پاگل ہیں، ان کا دماغ کام نہیں کرتا ہے ،ان کا باپ تو ختم ہوگیا ہے، اس ذہن بالکل اکسپائر ہوگیاہے اور بیٹا بھی ایک جوان لا ابالی اور دیوانہ کہ جو اس چکر میں ہے کہ ہم یہ کام کریں ایٹم بم خرید کر ایک دفعہ پھینک دیں اور وہ اس سے ختم ہوجائے۔ یہ خدمت کرنے کے لئے اسرائیل حاضر ہے ، اسرائیلی وزیر اعظم نے بیان دیا ہے کہ یورپی یونین، یورپی ممالک اور حکمران اسرائیل کے ساتھ بات کرنے کا ادب عربوں سے سیکھیں ، چونکہ یورپ والے کبھی کبھار بیان دے دیتے ہیں جیسے سویڈن کی وزیرخارجہ نے بیان دیا ہے کہ اسرائیل پر عدالتی مقدمہ ہونا چاہیے کیونکہ اس نے فلسطینیوں پرجنگی جنایات انجام دیئے ہیں ،ان کو سویڈن کی وزیر خارجہ کا بیان بہت برُا لگا اس طرح اور چند دو ممالک نے بیان دیا کہ اسرئیل فلسطینی عوام پر ظلم کر رہا ہے ان کو یہ بیان بہت برُے لگے، اس نے سویڈن کی وزیر خارجہ کو اشارہ دیا ہے کہ بات کرنے کا ادب عربوں سے سیکھو کہ دیکھو عرب ہمارے ساتھ کس طرح ادب سے بات کرتے ہیں۔ یہ اس نے خود سویڈن کی وزیر خارجہ کو ریفرنس دیا ہے۔
 اسرائیل چاہتا ہے کہ یہ کام ہو جائے چونکہ اگر یہ جنگ ہوتی ہے تو اسرائیل کے پاس ایٹمی طاقت موجود ہے ،وہ پہلے سے ہی آزاد ہے اور امریکہ کے شیلٹر کے نیچے بم بنا بھی چکا ہے اور بنا بھی رہا ہے۔ اس کے پاس ایٹمی طاقت ہے اور وہ  دنیا کے کسی ادارے کا رکن بھی نہیں ہے ،دوسری طرف وہ باپندیاں قبول بھی نہیں کرتا ہے، اس کا کوئی معاینہ یاچیکنگ بھی نہیں ہوتی اورنہ ہی اس کو کوئی روکتا ہے کیونکہ امریکہ اور یورپی یونین اس کے محافظ ہیں ظاہر ہے اگراسرائیل خود ایٹم بم استعمال کرتا ہے تو اس میں اس کی اپنی نابودی ہے ،وہ چاہتا ہے کہ یہ کام کوئی دوسراکرے اور اسے دنیا میں آل سعود سے بہتر نظر نہیں آتے، انھیں یقین ہے کہ یہ استعمال کریں گے۔ اب مشکل یہاں پر یہ ہے کہ جیسے میں نے کہاتھا کہ پاکستان کے لئے اب صورتحال یہ بن گئی ہے (نہ جای رفتن نہ پای ماندن)! یعنی نہ لا تعلق رہ سکتے ہیں اورنہ ہی اس جنگ میں شریک ہوسکتے ہیں، بہترین پالیسی یہ ہے کہ یہ نہ ہو کیونکہ تصادم ہوگا تو یہ جنونی ،جنون آمیز کاروائیاں کریں گے اور پاکستان شامل نہ بھی ہوا تو پاکستان کا نام استعمال کریں گے کہ ہم نے یہ ایٹم بم پاکستان سے لیا ہے کیونکہ پاکستان کا نام پہلے ہی دے چکے ہیں، پہلے ہی میڈیا میں کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کا ایٹم بم ہمارے پیسے سے بنا ہے وہ ہمارا ہے، ہمیں اپنے ملک میں ایٹم بم بنانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن جیسا میں نے عرض کیا کہ اصل کام جو انھوں نے کیا یا اس کے لئے میدان ہموار کر رہے ہیں کہ یہ اسرائیل سے ایٹمی ہتھیار لیں گے اور پاکستان کا نام بدنام کریں گے اور اس طرح سے ہمارے لئے مشکلات اور بڑھ جائیں گی اور ننگ و عار بھی ہے کہ پاکستان کا نام ایسے مہلک ہتھیاروں کے استعمال کے لئے استعمال ہو اس لئے میں کہہ رہا ہوں کہ یہ بہترین پالیسی ہے جو اس وقت سیاسی اور عسکری رہنماؤں نے اپنائی ہے۔
ملک کی بقاء کے لئے اسی کے اوپر عمل پیرا ہوں اور اس کے ذریعہ سے اس تصادم کو بھی روکیں اور کم سے کم اپنے ملک کو ترجیح دیں اور سب سے زیادہ سعودی عرب اور ایران پر اپنے ملک کو ترجیح دنیا ہے چونکہ ان کی ذمہ داری پاکستان بچانا ہے۔ایران بچانا یا سعودی عرب بچانا نہیں ہے۔ ایرانیوں کی ذمہ داری ایران بچانا ہے ،سعودیوں کی ذمہ داری سعودی عرب بچانا ہے ،پاکستانیوں کی ذمہ پاکستان بچانا ہے نہ یہ کہ ہم کسی کی خاطر پا کستان ڈبوئیں ۔

امریکہ کی شیطانی پالیسی

اوباما کا  خطرناک بیان پالیسی کے طور پر اس وقت جاری ہواہے کہ کئی دہائیوں تک پاکستان نا امن رہے گا ۔یہ بہت ہی ظالمانہ بیان ہے اور بہت ہی شیطانی پالیسی کا اعلان کیا ہے اور ادھر سے جو جان کری نے بیان دیا ہے کہ یہ آل سعود ایٹم بم کو لینے کے چکر میں ہیں اور اس کے لئے ان کو قانونی راستہ طے کرنا پڑے گا ۔بہرکیف یہ یو این او سے قانونی طور پر سعو دی عرب کو اجازت بھی دلوا دیں گے جس طرح ہمیشہ سے امریکہ کا یہ موقف ہوتا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق بنتا ہے کبھی بھی نہیں کہا کہ فلسطینیوں کو حق بنتا ہے۔ امریکہ کے نزدیک فلسطینی جارح ہیں جوجارحیت کرتے ہیں اور اسرائیل فلسطینیوں کی وجہ سے ناامن ہے لہٰذا اسرائیل کو حق پہنچتا ہے کہ جو مرضی ہے فلسطینیوں کے ساتھ کرے اس کوکرنے دو ، یہی بیان انھوں نے ابھی بھی دیا ہے اور وہ آئندہ ان کو اس نقطے تک لے جائیں گے جہاں سے امریکہ چاہتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں مسلمانوں کو نابود کرنے کے لئے خدانخواستہ ان پاگلوں اور جنونیوں سے یہ حرکت کروائے کیونکہ مشرقی وسطیٰ اسلام کا گہوارہ ہے ۔
مسلمانوں کی ساری طاقت مشرقی وسطیٰ کے اندر ہے اور اگر امریکہ مشرقی وسطیٰ میں جنگ کروانے میں کامیاب ہو گیا تو سب کی اس میں تباہی ہے جیسا کہ اشارہ کیا تھا کہ ایران سے پابندیاں اٹھائی گئی ہے جو انھوں نے ایٹمی منصوبے کی وجہ سے عاید کی تھی کہ ایران اپنا ایٹمی پروگرام بند کرے ،چونکہ اس ایٹمی پلان سے ایٹم بم بنے گا اور ایران اگر ایٹمی طاقت ہوگیا اور اس نے ایٹم بم بنا لیا تو دنیا کے لئے خطرہ ہے اسرائیل خطرے میں ہے، عرب خطرے میں ہیں انھوں نے یہ حساسیت بنائی اور ایران پر پابندیاں لگائیں،ایسی کمرشکن پابندیاں کہ جنھوں نے ایرانی اقتصاد کو مفلوج کردیا اور ایران کے اندربحران پیدا ہوا۔ اس بحران سے نکلنے کے لئے ایران نے مذاکرات کئے اور پابندیوں کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے اپنا منصوبہ ختم تو نہیں کیا لیکن انھوں نے  ایران سے اپنا سب کچھ منوا لیا جو کچھ وہ چاہتے تھے اس کی ایٹمی طاقت کو تخریب کرنا یا ایٹمی پلانٹ روکنا تھا کہ وہ رکوانے میں کامیاب ہوگئے۔ جیسا رہبر معظم نے فرمایا: اس بحران سے نکلنے کے لئے ہمیں بہت سارے کام کرنے پڑے، انھوں نے اپنے ملک کے اندرونی مسائل کی خاطر منصوبہ بنایا ہوا تھا جو ایٹمی منصوبے کے حوالے سے تھا ،فوراً ہی دوسری پابندیاں لگادی ہیں کہ ایران میزائل بنا رہا ہے، اس جرم میں او ر پابندیاں لگادیں چونکہ معاہدہ کیا تھا اس کے مطابق کچھ پابندیاں اٹھالیں ، اب جوپابندیاں اٹھائی ہیں ان سے بھی سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، ایک تو یہ کہ ان کا ایٹمی منصوبہ بلاک کردیا اور دوسروں کو اسرائیل کا گاہک بنادیا کہ آپ کو  اگر ایٹم بم چاہئے نام پاکستان کا استعمال کرو لیکن اسرائیل سے خریدو۔

ایک تیر کئی شکار کی پالیسی

امریکہ کی ایماء پر یہ کام ہونے جارہا ہے کہ ایران پر لگی پابندیاں اٹھانے کا ایک اور فائدہ جو حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہیں کہ ایران میں پارلیمنٹ اور خبرگان رہبری کے الیکشن ہو رہے ہیں ۔خبرگان رہبری   اہل خبرہ ۸۰ یا ۲۸ افراد کی ایک کونسل ہے جس میں سارے مجتہدین ہیں۔ ان کا کام رہبر تشخیص دینا، امت کے سامنے اس شخصیت کو متعارف کروانا ہے جو رہبری کے لئے کوالیفائی کرتے ہیں ،چونکہ یہ بڑی اہم کونسل ہے اور ایک مہینے کے بعد اس کے بھی الیکشن ہونے والے ہیں ۔دوسری طرف ایرانی پارلیمنٹ کے بھی انتخابات ہونے والے ہیں اور اگلے سال امریکہ کے اندر بھی صدارتی الیکشن ہونے والے ہیںلہذا یہ جو معاہدہ ہوا ہے اس سے کوششیں کر رہے ہیں کہ دونوں جگہ پر دونوں ملکوں میںانتخابات کے لئے اس کارڈ سے استفادہ کریں اور انتخابات کے لئے ان کی کوشش یہ ہے کہ پابندیاں اٹھانے کا سہرا ایران کے اندر ایسے افراد کے گلے میں ڈالا جائے کہ یہ لوگ ہیں کہ جنھوں ایرانی اقتصاد کو بچایا ہے ،ایرانی مہنگائی ختم کی ہے ،ایران میں ڈالر کا ریٹ بہتر کیا ہے، ایران میں کچھ تجارت بحال ہوئی ہے، ان کے دوسری دنیا کے ساتھ روابط قائم ہوئے ہیں، اس سب کا ذمہ دار ان لوگوںکو قرار دیں کہ جو مغرب نواز وامریکہ نواز ہیں، جوامریکہ دوست ہیں ان لوگوں کو کریڈٹ دینا چاہتے ہیں تاکہ ان کو عوام ملک کے لئے خیر سمجھ کر ووٹ دیں او ر پارلیمنٹ میں آجائیں اور پھر آہستہ آہستہ ایران کے اندر جو انقلابی گروہ ہے اس کو تنہا کردیں اور نہایتاً اس کو ضعیف کرکے ختم کردیا جائے۔ سیاست میں اس گروہ کا عمل دخل ختم کردیں۔
یہ امریکہ شیطان کی منحوس پالیسی ہے ایک تیر سے کئی شکار کرنے جارہا ہے کہ ایران کا ایٹمی منصوبہ روک کر اسرائیل کا ایٹمی منصوبہ بڑھانے کی کوشش میں ہے اور مشرقی وسطیٰ میں یہ فساد پھیلانے کے چکر میں ہے، دوسری طرف سے ایران کے اندر اپنا پسندیدہ گروہ لانے کے چکر میں ہے کہ چار پانچ سال تک پابندیاں لگائی رکھی جائیں، پابندیاں اٹھانے سے اپنے ہمنوا اور امریکہ نوازوں کو لانا چاہتا ہے کہ ایران کی سیاست میں عمل دخل کرے پارلیمنٹ میں ان کی اکثریت ہوجائے اور پھر امریکہ کے ساتھ دوستی اور پورا ایران امریکہ کے حوالے ہوجائے جیسا کہ انقلاب سے پہلے تھا، یہ اس کاایک ہدف ہے ، دوسرا ہدف یہ ہے کہ خبرگان کونسل کے بھی الیکشن ہورہے ہیں کہ وہ مجتہدین پر مشتمل ہوتی ہے جنھیں عوام چنتے ہیں ہر علاقے کے عوام ووٹ کے ذریعہ سے ان مجتہدین کو رائے دیتے ہیں اور یہ مجتہدین پھر رہبر تشخیص دیتے ہیں ۔رہبر کا الیکشن نہیں ہوتا بلکہ اگر ضرورت پڑ جائے تو وہ رہبر کو تشخیص دیتے ہیں، جیسے امام راحل امام خمینی ؒکی رحلت ہوئی اور اس کے بعدکونسل نے مقام معظم رہبری کو تشخیص دیا کہ یہ رہبری کے لئے دوسروں سے زیادہ موزوں ہیں اور پھر اس طرح سے لوگ رہبر کی بیعت کرلیتے ہیں اور رہبر کو قبول کرلیتے ہیں ۔اس کونسل کا کام تشخیص دینا ہے ،یہ بڑی اہم کونسل ہے اور اس وقت امریکہ سمجھتا ہے اور ساری دنیا جانتی ہے کہ انقلاب کا راستہ فقط رہبر معظم کے ذریعہ سے باقی ہے،انقلاب کا اصل رکن اس وقت یہ شخصیت ہیں، یہ بزرگوار ہیں جو انقلاب سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں،جوکسی قسم کے کمپرومائز کے لئے نہ امریکہ اور نہ ہی عربوں کے ساتھ تیار نہیں ہیں۔ اور اسی طرح نہ غربیوں کے ساتھ ، نہ ایران کے اندر کسی کے ساتھ اور نہ ہی ایران کے باہر کسی کے ساتھ سمجھوتا کرنے کے لئے تیار ہیں ،ایساشخص جو کسی سازش کو قبول کرنے لئے تیار نہیں ہے، ایک قدم انقلاب سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہے، جو انھوں نے خود بیان دیا تھا کہ میں ڈپلومیٹ نہیں ہوں میں انقلابی ہوں اور سفیروں جیسی بات یا وزیروں جیسی بات نہیں کروں گا ،میں انقلابی ہوں اورانقلابی بات دوٹوک ہوتی ہے واضح ہوتی ہے ،اس لئے ہمیشہ رہبر معظم نے  جو بھی انقلاب کا راستہ تھا بالکل دوٹوک الفاظ میں واضح بیان کیا یہ ساری دنیا کو پتہ ہے ایران کے اندر بھی باہر بھی کہ انقلاب کا راستہ اگر امام راحل کے بعد قائم ہے تو اسی ہستی کے ذریعہ سے ہے اس وقت کوشش یہ ہے کہ یہ سرحد بھی عبور کی جائے اس ہدف کوبھی نشانہ بنایا جائے کہ مجلس خبرگان میں اپنی پسند کے لوگ لے جائیں ،وہی لوگ جو امریکہ کی طرف مائل ہیں امریکہ نواز ہیں یا اقتدار اور شہرت پسند ہیں،جو انقلابی روح اور انقلابی مزاج نہیں رکھتے ہیں، انقلاب کی طرف زیادہ رجحان نہیں ہے بلکہ یا قوم پرست ہیں ایرانیت کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں یا امریکہ نواز ہیں یا خودخواہ ہیں اور خود پرست ہیں۔
سیاست دانوں کی یہی کمزوریاں ہوتی ہیں، ایسے لوگوں کو کونسل میں لا کر ان کے ذریعہ سے ایک اجلاس اور میٹنگ کرکے موجودہ رہبر معظم انقلاب کو اَن کوالیفائی کردیا جائے ۔یہ امریکہ کا منصوبہ ہے اور دوسرا منصوبہ یہ ہے کہ جس طرح ایک دن امام خمینیؒ اس دنیا سے چلے گئے( خدا رہبر معظم کو طول عمر اور صحت و سلامتی عطا فرمائے) لیکن یہ امیدیں باندھے ہوئے ہیں کہ جس طرح امام خمینیؒ کے بعد امیدیں تھیں کہ آپ کی آنکھ بند ہوگی اور انقلاب اسلامی ختم ہوجائے گا کیونکہ بعد میں  ان کے پاس کوئی نہیں ہے ، ہمیں یاد ہے اس وقت میڈیا میں کھلم کھلا اس بات کا اظہار کرتے تھے ابھی بھی صورتحال یہی ہے کہ رہبر معظم کے بعد کوئی نہیں ہے اور آپ کے بعد ان کے لئے میدان کھلاہوا ہے اس کے لئے تیاریاں کررہے ہیں کہ یہ خبرگان تشکیل دیں اور اس میں اپنے من پسند افراد کو داخل کرکے رہبری کو بھی ہدف قرار دیں اور انھوں نے رہبری کے لئے عجیب و غریب قسم کے منصوبے بنائے  ہوئے ہیں۔

جانشین خمینیؒ کے مقابلے میں خاندان خمینیؒ

ایک کام رسول اللہ (ص) کے جانشین امیرالمؤمنینؑ کے ساتھ ہوا کہ پہلی جنگ، جنگ جمل لڑی گئی اور پھربعد میں دوسری جنگیں صفین وغیرہ لڑی گئیں ، جنگ جمل بڑی پیچیدہ جنگ ہے، جنگ جمل میں جانشین رسول اللہ  (ص) ؑ کے مقابلے میں زوجہ رسول اللہ  (ص) کو لے کر آئے ،امیرالمؤمنینؑ کے مقابلے میں جانشین رسول ؐ کے مقابلے میں خاندان رسولؐ لے کر آئے ، اس وقت ایران کے اندر بھی یہی نقشہ امام خمینیؒ کے جانشین کے مقابلے میں ،امام خمینیؒ کا خاندان لے کر آئے ہیں امام خمینیؒ کے پوتے کو تیار کیا ہے کہ ہم آپ کو مجلس خبرگان میں رکن بناتے ہیں اور بعد میں آپ کو رہبر بنادیں گے۔مجلس خبرگان چونکہ مجتہدین کی کونسل ہے، انھوں نے کہا کہ ٹھیک ہے اگر یہ آنا چاہتے ہیں تو شوق سے آئیں لیکن مجتہد اور فقیہ ہونا ضروری ہے اور اگر اجتہاد مسلم نہیں ہے تو امتحان دینا پڑے گا ،آپ اجتہاد کا امتحان دیں اگر پاس ہوجاتے ہیں پھر آپ آسکتے ہیں ،الیکشن میں حصہ لیں اگرپبلک نے آپ کو ووٹ دے دیا تو آپ اس کونسل کے رکن بن جائیں گے لیکن انھوں نے امتحان نہیں دیا اور وہ امتحان کے بغیر الیکشن لڑناچاہتے ہیں کہ دوسروں نے ابھی تک دباؤ ڈالا ہے کہ چونکہ یہ امام خمینیؒ کے پوتے ہیں ان سے امتحان نہ لیا جائے ،چونکہ امام کے خاندان سے تعلق ہے اس وجہ سے کہا کہ ان سے امتحان لینا امام خمینیؒ کی توہین ہے۔
 اس طرح کے مسائل چھیڑ کر چاہتے تھے کہ ایک جنگ شروع کریں ،۔ظاہر ہے اس کونسل نے جو کوالیفائی کرتی ہے اورنمائندوں کی صلاحتیں چیک کرتی ہے انھوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ جو امتحان دے گا وہ اگلے مرحلے کے لئے حق رکھتا ہے اور انھوں نے امتحان نہیں دیا تو انھیں روک لیا گیا کہ آپ الیکشن نہیں لڑسکتے ۔
یہ ایران کے اندر کا ایک نمونہ پیش کررہا ہوں اور باہر تو آپ دیکھ رہیں جو کچھ کررہے ہیں مشرق وسطیٰ میں، آل سعود جنگی جنون میں مبتلا ہے اور ہر قیمت پر یہ جنگ چھیڑنا چاہتے ہیں کہ کسی طرح یہ جنگ شروع ہو لیکن ادھر سے ایک تو امریکہ نے یہ عالمی دباؤ اوراقتصادی پابندیاں لگائی ہیں ایران پر ،سیاسی طورپر شدید دباؤ رکھا ہوا ہے اور ادھر سے جنگی دباؤ  کے لئے آل سعود کو تیار کیا ہے کہ یہ جنگ کے لئے تیار ہوجائے اور اس نے مائکرو ممالک کو ملا کر ۳۴ ممالک کا لشکر تشکیل دیا ہے کہ ان کے ذریعہ سے جنگ کرنے آئے گا اور ملک کے اندر یہ فضا بنائی ہوئی ہے ۔ یہ ان کا شیطانی منصوبہ یہ ہے کہ الیکشن جیتنے کے لئے بھی پابندیاں اٹھائی جائیں ،جان بوجھ کے یہ اعلان معاہدہ اس موقعہ کے لئے روکا ہواتھا کہ الیکشن سے دو تین ہفتے پہلے ہم پابندیاں اٹھائیں گے لوگ ناچنا شروع کردیں گے کہ ایران سے پابندیاں اٹھ گئیں اور پھر ہم کہیں گے کہ پابندیاں رہبر کی وجہ سے نہیں اٹھیںہیں یہ اس گروہ کی وجہ سے اٹھی ہیں کہ جو امریکہ سے دوستی چاہتا ہے تو اگر ان لوگوں کو ووٹ دو تو امریکہ آئندہ بھی تمہارے اوپر ایسی نوازشیں کرے گا پابندیاں لگاکر اٹھاتا رہے گا۔
رہبر معظم نے خوبصوت مثال دی ، چونکہ کچھ لوگ امریکہ کا شکریہ ادا کررہے ہیں کہ انھوں نے پابندیاں اٹھادی ہیں تو رہبر نے ان کو ڈانٹا کہ احمقو، بیوقوفو! کہ گھر تمہارا ہے اورتمہارے گھر پر آکر ایک ڈاکو اورایک مافیا بندوق کے سہارے قابض ہوگیا کہاکہ یہ پلاٹ مجھے دے دو اور آپ نے کوشش کی عدالت گئے جرگہ بلایا پنچایت گئے بات چیت کی دباؤ بڑھایا مذاکرات کئے اور اس کے ذریعہ وہ ظالم راضی ہوگیا لیکن نکلتے ہوئے بھی اس نے کہا کہ آدھا پلاٹ میں رکھوں گا آدھا تمہیں دوں گا اور اب جب وہ آپ کا آدھا گھر چھوڑ کے نکل رہا ہے توآپ اس بات پر اس کا شکریہ ادا کررہے ہو کہ تیرا بہت شکریہ کہ تو نے ہمارا گھر غصب کیا تھا اب نکل رہا ہے آدھا تیرے پا س ہے ہم تیرے شکر گذار ہیں۔ رہبر معظم نے فرمایا: یہ ذلت اور بے غیرتی ہے، وہ مذمت کے قابل ہیں، اس کو پابندیاں لگانے کا کیا حق بنتا تھا جتنے حقوق سارے ممالک کے ہیں وہ ہمارے بھی ہیں ! یہ اس وقت خطے کے اندر شرارت اور شیطنت ہے جو امریکہ انجام دے رہا ہے، مسلمان ممالک کے اندر ماحول خراب کررہا ہے تاکہ اس طرح اسرائیل کوبھی تحفظ دے اور عربوں کو بھی اکسا رہا ہے خصوصاً یہ جنونی جو اس وقت سعودیہ کے اندر ہے ، چونکہ امریکہ کا مقصدبھی یہی ہے کہ نیا مڈل ایسٹ بنائے اور مڈل ایسٹ کی طاقتیں جو ہیں ان کو توڑدے۔

عالم اسلام کے بارے میں شیطانی منصوبے

آپ حضرات نے پڑھا یاسناہوگا کہ دوسری جنگ عظیم تک ایک عثمانی سلطنت تھی پہلے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہی تھی ،پہلے پورے دنیائے اسلام کی ایک حکومت تھی اس ایک حکومت میں کچھ علاقے الگ ہوگئے جیسے عرب دنیا اور ترکی اورکچھ علاقے عثمانی حکومت کے تحت تھے جو ایک بڑی حکومت تھی اور اس وقت دنیامیں جو بڑی طاقتیں تھیں اس میںایک روس بڑی طاقت تھا اور ایک امریکہ بڑی طاقت تھا یاامریکہ سے پہلے برطانیہ تھا ، تین بڑی طاقتیں دنیامیں تھیں۔ مسلمان حکومتوں میں عثمانی سلطنت طاقتور تھی ان کے حکمران ترک نژاد تھے اور ان کا دارالخلافہ بھی ترکی میں تھا ۔اس وقت عرب ممالک جتنے بھی تھے وہ عثمانی حکومت کے ماتحت تھے ۔ دنیا کی تین بڑی طاقتیں تھیں، جنگ عظیم پر آ کر تیسری بڑی طاقت ختم کر دی گئی ،عثمانی طاقت توڑ کے چھوٹے چھوٹے مائیکرو ملک بنائے گئے کویت ،قطر و بحرین جو مائیکروسکوپ سے نظر آتے ہیں ایسے ممالک تشکیل دے کر یہ طاقت ختم کر دی گئی اور اس وقت ان کو اطمینان ہوا کہ ہم نے مشرقی وسطیٰ میں مسلمانوں کی تیسری طاقت کو ختم کر کردیا ہے، اب دوہی طاقتیں ہیں روس اور امریکہ۔ بعد میں روسی طاقت بھی ختم ہوئی ،اب روس دوبارہ سر اٹھا رہا ہے لیکن اس دوران یہ ہوا کہ کچھ نئی طاقتیں وجود میں آ گئیں جیسے تیل کی طاقت، مشرقی وسطیٰ میں آنے سے عرب ممالک میں تیل کی طاقت آ گئی یا انقلاب اسلامی برپا ہونے سے خود ایران جو پہلے امریکہ کا کٹ پتلی حکمران تھا اور امریکہ کی ایک کالونی کے طور پر تھا اب انقلاب اسلامی کے آنے سے وہ بھی ایک طاقت بن گیا ہے۔ صدام ایک طاقت بن گیا تھا ان طاقتوں کو بھی ختم کرنا ان کے مقاصد میں ہے ۔امریکہ کا قطعی ارادہ ہے کہ مشرقی وسطیٰ میں کوئی بھی طاقت نہ ہو ۔نہ اقتصادی طاقت ہو ،نہ سیاسی طاقت ہو، نہ اسلامی طاقت ہو، نہ فوجی طاقت ہو، یہ کمزور اور ضعیف رہیں، کمزور کرنے کا ایک ذریعہ فوجی حملہ ہے۔ جیسے عراق پر خود حملہ کر کے ایک طاقتور حکومت ختم کر دی۔وہاں پر صدام اگرچہ ظالم تھا اور مسلمانوں کے لئے ایک فتنہ تھا لیکن اس علاقے کے لئے ایک سیاسی اورفوجی طاقت کے طور پر تھا ،اسے خود نابود کر دیا اور عراق کو افراتفری کا شکار کر دیا اور اس میں لشکر داعش بنا کر مزید اس کو کمزور کر دیا اب چاہ رہا ہے کہ عراق تین عراق  میں تقسیم ہوجائے ۔کرد عراق،شیعہ عراق اور سنی عراق ۔یہ باقاعدہ امریکہ نے رسماً اعلان کیا ہے کہ عراق ٹوٹنا چاہیے، ابھی بھی بار بار اصرار کرتا ہے کہ عراق کے مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے سوائے اس کے کہ تین ملک بن جائیں کردستان،سنی استان،شیعہ استان ۔تین ملکوں میں اس کو بانٹ دیں۔
سعودی عرب کو بھی چاہتا ہے کہ یہ ملک ختم ہو جائے کیونکہ اس کے پاس جو تیل اور انرجی کی طاقت ہے یہ خطرناک ہے ،اگرچہ بر سر اقتدار خاندان ان کا وفادار، غلام اور نوکر ہے لیکن یہ مطمئن نہیں ہیں کیونکہ یہ تیل اورگیس کی طاقت کسی بھی وقت دوسرے کے ہاتھ آ سکتی ہے، اس لئے ا س کو بھی ختم کرنا ضروری ہے اور سب سے اہم طاقت آئیڈیالوجی ہے جو اسلامی طاقت ہے۔ اس وقت انقلاب کی طاقت ایران کو بھی ختم کرنا چاہتا ہے لیکن اب اس کی پالیسی یہ ہے کہ ختم کرنے کے لئے جنگی ماحول بنایا جائے تاکہ سعودی حکومت ایران کے اوپر حملہ کرے اور اسرائیل ان کی مدد کرے اور دوسرے لیں اور اس طرح سارے اسلامی ممالک آپس میں لڑ کر کمزور ہو جائیں اور پھر حاکمیت ان کی قائم ہو جائے ۔یہ ان کا مشرق وسطیٰ کے لئے منصوبہ ہے ،آل سعود اس منصوبے پر سختی سے عمل پیرا ہیں۔ شاہی خاندان کے اندر شدید اختلاف ہے ،کچھ اس طرف متوجہ ہیں کہ یہ منصوبہ جو بنایا جا رہا ہے اور ہمیں سہانے خواب دکھائے جا رہے ہیں اس سے ہم خود بھی نابود ہو جائیں گے اور بعید نہیں ہے کہ مستقبل قریب میں شاہی خاندان کے اندر ایک جنگ شروع ہو جائے یہ بہت قریب لگ رہا ہے۔ اگر امریکہ یابرطانیہ نے ثالثی کر کے ان شہزادوں میں صلح و مصالحت نہ کروائی تو بہت جلد ان کے اندر آپس میں مسلّحانہ تصادم ہو گا اور جو کچھ امریکہ چاہتا ہے کہ بہت کچھ برباد کروا کے ان کو نابود کرے شاید یہ اپنے ہاتھوں سے اس بربادی سے پہلے ہی نابود ہو جائیں گے۔ یہ ا ن کے اندر کی کہانی ہے جو ان کے آپس کے شدید اختلاف ہیں اس لئے پاکستان کے لئے بھی یہ اہم مسئلہ ہے ۔پاکستانی قوم، میڈیا ، سیاستدان،حکمران،حکومت سب کے سب، اس خاندان کے اندر جو کچھ ہونے والا ہے، اس سے پاکستان کو بچا کر رکھیں کیونکہ اس میں پاکستان کا زیادہ نقصان ہو گا اگر اس سے آگے بڑھتے ہیں۔ بہرکیف خداوند تبارک و تعالیٰ انشاء اللہ تمام شیاطین سے امت اسلامیہ و سرزمین اسلامیہ کو محفوظ فرمائے۔

source: erfan.ir

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 24 September 21 ، 16:04
عون نقوی

امام حسینؑ کی شہادتِ عظمیٰ کی مناسبت سے مختلف ایام و مراسم کے اہتمام کی تاکید روایاتِ اہل بیتؑ میں وارد ہوئی ہے۔ انہیں مناسبتوں میں سے ایک مناسبت ’’چہلمِ امام حسینؑ ‘‘ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا چہلم کی کوئی شرعی حیثیت بھی ہے یا نہیں؟

اس سوال کو ہم چار عناوین کے تحت زیر بحث لاتے ہیں اور ہر عنوان سے مختصر بحث کرتے ہیں:

  • چہلم کی شرعی حیثیت
  • امام حسینؑ  کا چہلم روایات کی روشنی میں
  • زیارتِ اربعین
  • اربعین (چہلم) کے دن کی تعیین

کسی میت کے سوگ منانے کے مختلف طور طریقوں معاشروں میں رائج ہوتے ہیں۔ دین اسلام نے میت پر سوگ کو ممنوع نہیں قرار دیا لیکن ایسے انداز اور طریقے اختیار کرنے کی ممانعت کی ہے جو غیر انسانی یا انسانی خلقت کے اہداف سے ٹکراتے ہوں۔ غم و سوگ میں جن مراسم کا انعقاد کیا جاتا ہے ان میں سے ایک میت کی وفات کے چالیسویں (۴۰) دن میت کی یاد منانا ہے۔ اس کی آیا شرعی حیثیت ہے یا نہیں اس بارے میں درج ذیل نکات پیش خدمت ہیں:

معاشرے میں رائج طور طریقے

ہر معاشرے میں خوشی وغمی کے طور طریقے اس معاشرے کے رائج رسومات کے مطابق ہوتے ہیں۔ دینِ اسلام خوشی و غمی کے ان علاقائی یا معاشرتی رسم و رواج کی نہ مکمل مخالفت کرتا ہے اور نہ مکمل حمایت۔ اسلام کی نظر میں کوئی بھی رسم و رواج اس وقت حرام کہلاتا ہے جب اس میں درج ذیل امور پائے جائیں:

  • رسم ورواج کی نسبت دین اور سنتِ رسول ﷺ وآئمہ اہل بیت ؑ  کی طرف دے دی جائے جبکہ دین میں یا سنت کے عنوان سے وہ امر روایات میں وارد نہیں ہوا، مثلا یہ کہا جائے کہ یہ رسم اسلام کی نظر میں واجب ہے یا مستحب ہے !! جیسے مہندی کی رسم جو شادی کے مواقع پر انجام دی جاتی ہے کو سنتِ رسول ﷺ کی طرف نسبت دے دی جائے۔ اس صورت میں یہ بدعت کہلائے گی اور بدعتی کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ البتہ اگر اس رسم کو علاقائی بنیادوں پر انجام دیا جائے اور اسلام نے مباح کے عنوان سے جو وسعت دی ہے کے تحت برپا کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
  • دینِ اسلام کو اس سے نقصان پہنچتا ہو۔
  • انسانیت کے خلاف عمل ہو۔
  • مسلمانوں کی توہین ، اہانت اور فتنہ و فساد کا باعث ہو۔
  • طاغوت و استعمار کے عزائم و مقاصد کو پورا کرنے اور ان کی غلبہ کے حصول کا باعث ہو۔

اسی طرح خوشی اور غمی کے طور طریقے ہیں۔ اگر کوئی انہیں صرف معاشرتی بنیادوں پر انجام دے اور اسلام و اہل بیتؑ  کی طرف سے جاری حکم نہ قرار دے اور اسلام نے اس عمل سے روکا بھی نہ ہو تو ایسے عمل کو معاشرتی بنیادوں پر انجام دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اگر اسلام میں یہ عمل ممنوع ہوتا تو اس کی ممانعت آ جاتی اور ہر وہ چیز جس کی ممانعت نہیں وارد ہوئی اس کو انجام دینا جائز ہے۔ اسے شرعی اصطلاح میں ’’مباح‘‘ کہتے ہیں۔

بدعت کی تعریف

مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والے فقہاء نے بدعت کی درج ذیل تعریف بیان کی ہے:

إنّ‌ کلّ‌ ما علم کونه من الدین بالأدلة الخاصّة أو بالعمومات واُخرج منه، وکل ما علم خروجه من الدین بذلک واُدخل فیه فهو بدعة.

ترجمہ: ہر وہ چیز جس کا خصوصی دلائل یا عموم کی وجہ سے یہ علم ہو کہ یہ دین میں داخل ہے اگر اس کو کوئی دین سے خارج قرار دے دے تو یہ بدعت ہے۔ اسی طرح ہر وہ شیء جس کا دین سے خارج ہونے کا علم دلائل کی وجہ سے ہے اس کو کوئی دین میں داخل قرار دے دے ت وہ بدعت ہے۔(۱)

       ملا نراقی نے عوائد الایام میں درج ذیل الفاظ میں بدعت کی تعریف کی ہے:

کلّ‌ فِعلٍ یُفعَلُ بِقَصدِ العِبَادَةِ وَالمَشرُوعِیة وإِطاعة الشارع مع عدم ثبوته من الشرع.

ہر وہ عمل جو عبادت کی نیت سے یا شریعت کی جانب سے ہونے کی وجہ سے یا شارع کی اطاعت کی وجہ سے انجام دیا جائے جبکہ شریعت میں اس کا کوئی ثبوت موجود نہ ہو بدعت کہلاتا ہے۔(۲)

 

پس ایک عمل اس وقت بدعت بنتا ہے جب اپنی طرف سے وہ عمل ایجاد کیا جائے اور پھر کہا جائے کہ دین نے اس کا حکم دیا ہے اور اس کو انجام پانے سے اللہ تعالی خوش ہو گا جبکہ اس عمل کا کسی قسم کا ثبوت دین میں موجود نہ ہو۔ البتہ اگر کوئی عمل ایک معاشرہ یا ایک انسان انجام دیتا ہے اور دین نے اس کے انجام دینے سے اسے روکا بھی نہیں ہے اور وہ اس عمل کی نسبت بھی دین کی طرف نہیں دیتا تو اس کو انجام دینا بدعت نہیں کہلائے گا۔

 چہلم کی شرعی حیثیت 

دینی نصوص میں صرف امام حسینؑ  کے لیے چہلم کی زیارت کا تذکرہ وارد ہوا ہے۔ آیات و روایات میں امام حسینؑ  کے علاوہ کسی اور نبی یا امام کے چہلم منانے کا تذکرہ بھی موجود نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر کسی شخص کا چہلم منایا جائے تو یہ بدعت ہو جائے گا۔ ہاں! اگر امام حسینؑ  کے علاوہ کسی میت کا چہلم منایا یہ کہہ کر منایا جائے کہ دین نے اس شخص کے چہلم ماننے کا حکم دیا ہے تو یہ دین کے نام سے اپنی طرف سے اضافہ شمار ہو گا اور بدعت کی تعریف کے دائرے میں میں یہ عمل آ جائے گا ۔ جہاں تک امام حسین ؑ  کے چہلم منانے کا تعلق ہے تو آپؑ کے چہلم ماننے کے بارے میں آئمہ اہل بیت& سے روایات وارد ہوئی ہیں۔ نیز بعض کتب میں وارد ہوا ہے کہ صحابی رسول جناب جابر بن عبد اللہ انصاریؓ معروف تابعی عطیہ عوفیؓ کے ساتھ روزِ  اربعین امام حسینؑ  کی زیارت کی غرض سے کربلاء تشریف لے گئے۔ 

امام حسینؑ  کے علاوہ دیگر کے چہلم کو برپا کرنے کے بارے میں اختلاف وارد ہوا ہے۔ اکثر قائل ہیں کہ اس کی نسبت اگر دین کی طرف نہ دی جائے اور کسی حرام امر کا ارتکاب لازم نہ آتے تو کسی میت کے لیے اس رسم کو برپا کرنا جائز ہے۔ خصوصا اگر کسی کی شخصیت کا دن قائم کرنے سے دین اور اس کی تعلیمات زندہ ہوتی ہیں، جیسے امام خمینیؒ  کی برسی منانا تو یہ عمل مستحسن اور حکمت سے خالی نہیں ہے۔ لیکن بعض محققین برسی، چہلم اور سوم وغیرہ کی رسومات کو منفی نگاہ سے دیکھتے ہیں جیساکہ سید محمد محسن طہرانی اپنی کتاب ’’ الأربعین فی ثقافة الشیعة ‘‘ میں لکھتے ہیں:

نعلم أنه لیس لدینا فی الإسلام شیء یسمّی بـ الأسبوع أو الأربعین أن الذکری السنویة؛ لذلک یتّضح جلیّا أن هذه المناسبات مخالفة لسیرة الإسلام وسنّتِه … فالذکری السنویة حسب التراث الشیعی الأصیل مختصّة فقط بالمعصومین ؑ ؛ ولیس لدینا أیّ مدرک تاریخی ولا روائی یثبت أن الأئمة أمروا بتشکیل مجالس الذکری السنویة لأحد من صحابتهم ، فالذی ورد الحثّ والتأکید علیه من تشکیل مجلس الذکری ، مختصّ بإحیاء ذکری أهل البیت ؑ  فقط ، وأمّا مسألة الأربعین فإنها أشنع وأقبح من مسألة الأسبوع والذکری السنویّة قطعا، … فإن مسألة الأربعین (للإمام الحسین ؑ ) من شعائر التشیع وخصوصیاته، وهی مختصّة فقط وفقط بحضرة أبی عبد الله الحسین أرواحناه الفداء لا غیر.

ترجمہ: ہم جانتے ہیں کہ اسلام میں میت کی یاد میں ’’ہفتہ ‘‘ یا ’’چالیسواں یا سالانہ دن منانے کا تذکرہ کسی جگہ وارد نہیں ہوا۔ پس یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ (ایرانی و غیر ایرانی معاشروں میں میت کی وفات کی مناسبت سے) منعقد کیے جانے والے دن سیرت اور سنتِ اسلام کے مخالف ہیں۔  … ہمارے پاس کوئی ایسا تاریخی ثبوت یا روایت نہیں ہے جو ثابت کرتی ہو کہ آئمہ ؑ  نے اپنے صحابہ }ْ میں سے کسی کے لیے بھی سالانہ مجالس برپا کرنے کا حکم جاری کیا ہوا۔ جن ہستیوں کی یاد منانے کی غرض سے مجالس برپا کرنے پر ابھارا گیا ہے اور اس کی تاکید کی گئی ہے وہ فقط آئمہ اہل بیت ؑ  ہیں… ۔ جہاں تک چہلم یا چالیسواں کا مسئلہ ہے تو (میت ) کے لیے اس کا اہتمام کرنا ہفتہ یا سالانہ یاد منانے سے بھی زیادہ قبیح اور بدتر ہے، … صرف امام حسینؑ  کا چہلم تشیع کے شعائر وخصوصیات میں سے ہے۔ لہذا چہلم صرف اور صرف ابو عبد اللہ الحسین ؑ (ہماری ارواح ان پر قربان ہوں) کے ساتھ مختص ہے۔ ان کے علاوہ کسی اور کے لیے چہلم نہیں منایا جا سکتا۔

خلاصہِ کلام ’’مکتبِ تشیع‘‘ میں برسی، چہلم اور میت کے رسمی طریقوں سے یاد منانا اور محافل برپا کرنے کے بارے میں فقہاء کرام جواز کا فتوی دیتے ہیں۔ جبکہ بعض محققین نے اس کے جواز کو فقط امام حسینؑ  کے ساتھ مختص قرار دیا ہے۔ اسی طرح میت پر گریہ و آہ وبکاء اور اس کی یاد کو تازہ رکھنا امام حسینؑ  کے علاوہ دیگران کے لیے تین دن تک سوگ میں مقید قرار دیا گیا ہے۔ اس پہلو سے روایات کا نچوڑ یہ ہے کہ صرف تین دن تک غم منایا جائے اور غیر معصوم کے غم میں ماتم و سینہ کوبی جائز نہیں ہے۔ وفات کے تین دن بعد غم منانا عملِ قبیح ہے ۔ یہاں تک کہ خاتون کے لیے حکم وارد ہوا ہے کہ وہ شوہر کے علاوہ کسی کی وفات پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ منائے۔ پس ماتم، مجالس وعزا صرف معصوم ؑ کے ساتھ خاص ہیں۔

 چہلمِ امام حسینؑ   کے بارے میں احادیث

روایات کے مطابق ہرامامِ معصوم ؑ  کی کچھ مشترک خصوصیات ہیں ، جیسے منصبِ ولایت و امامت ، علم و شجاعت … وغیرہ اور کچھ مختص خصوصیات ہیں جو صرف ایک امام کے ساتھ خاص ہیں، جیسے ’’امیر المومنین‘‘ کا لقب صرف امام علی ؑ  کے ساتھ بولا جا سکتا ہے، جبکہ باقی آئمہ طاہرینؑ  کو ان کلمات کے ساتھ پکارنا ممنوع قرار دیا گیا ہے، اسی طرح  امام مہدی ؑ  کے نام کو زبان سے ادا کرنی کی ممانعت وارد ہوئی ہے یا عالمی حکومت کے قیام امام مہدی  ؑ کے ساتھ مختص قرار دیا گیا ہے … وغیرہ ۔ انبیاء و آئمہ طاہرین ؑ میں سے صرف امام حسین ؑ  کے چہلم منانے کی اجازت وارد ہوئی ہے۔ اس مقام پر ہمیں ’’ مجالس و میلاد‘‘ کے انعقاد اور ’’چہلم یا چالیسواں‘‘ کے اہتمام میں فرق کرنا چاہیے۔  مجالس وعزا اور میلاد کے انعقاد کا حکم تمام اہل بیت ؑ  کےلیے وارد ہوا ہے۔

مجالس و عزا اہل بیتؑ  کے سے متعلق عمومی احادیث

کتب احادیث میں متعدد ایسی روایات آئمہ اطہارؑ  سے   نقل ہوئی ہیں جن میں عزاداری کو خصوصی طور پر برپا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ان عمومی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہم ایک ایسے دن کا اہتمام کریں جس میں انسان اپنے آپ کو تمام مشغولیت سے فارغ کرے اور امام حسینؑ  کے ہدف اور ان کی قربانی و مصائب کو یاد کرے اور گریہ و بکاء کرےتو انسان کی جہاں سعادت و عظمت کا باعث ہے وہاں ہدفِ حسینی کی تکمیل کا ذریعہ بنتا ہے۔ ذیل میں چند احادیث بیان کی جاتی ہیں:

حدیث: ۱

الکافی‘‘ میں معتبر سند سے حدیثِ موثق میں یونس بن یعقوب امام صادق ؑ  سے نقل کرتے ہیں :

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا ، عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحَکَمِ ، عَنْ یُونُسَ بْنِ یَعْقُوبَ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ؑ  قَالَ: قَالَ لِی أَبِی یَا جَعْفَرُ أَوْقِفْ لِی مِنْ مَالِی کَذَا وَکَذَا لِنَوَادِبَ  تَنْدُبُنِی عَشْرَ سِنِینَ بِمِنًی أَیَّامَ مِنًی. 

ترجمہ: امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے سے فرمایا : اے جعفر ؑ  ! میری خاطر تم میرے مال میں سے اتنی  رقم ان نوحہ و ندبہ کرنے والے کے لیے وقف کر دو جو ’’ مِنَی کے دنوں ‘‘ میں دس سال تک ’’ مِنَی ‘‘ کے مقام پر مجھ پر نوحہ و ندبہ پڑھتے رہیں۔(۳)

حدیث: ۲

من لا یحضره الفقیہ  میں امام باقرؑ  وصیت کرتے ہیں:

أَنْ یُنْدَبَ فِی الْمَوَاسِمِ عَشْرَ سِنِین.  

ترجمہ: دس سال تک موسم حج میں ان پر ندبہ و گریہ و بکاء کیا جائے۔(۴)

حدیث: ۳

’’الکافی‘‘ میں عیسی بن حریز نقل کرتے ہیں :

‏أَوْصَی أَبُو جَعْفَرٍ ؑ  بِثَمَانِمِائَةِ دِرْهَمٍ لِمَأْتَمِهِ وَکَانَ یَرَی ذَلِکَ مِنَ السُّنَّةِ ؛ لِأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ’ قَالَ اتَّخِذُوا لآِلِ جَعْفَرٍ طَعَاماً فَقَدْ شُغِلُوا.

ترجمہ:  امام باقر ؑ  نے وصیت فرمائی :  آٹھ سو  (800)  درہم امامؑ  کے غم میں ماتم پر خرچ کیے جائیں ،  امام باقرؑ  اس عمل کو سنتِ رسول ﷺ قرار دیتے تھے ،  کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  آل جعفر کے لیے خوراک وغذا کا اہتمام کرو ، پس وہ لوگ اس میں مشغول کر دیئے گئے۔(۵)

مختلف معتبر اسانید سے وارد ہونے والی یہ روایات بیان کرتی ہیں کہ غم و اندوہ اور مجالس و نوحہ و بکاء کا اہتمام چہاردہ معصومین ؑ کے لیے کرنا چاہیے۔ لیکن ان روایات میں ’’چہلم‘‘ کے انعقاد کا کہیں حکم وارد نہیں ہوا۔ اس لیے علماء کرام بیان کرتے ہیں کہ چہلم کا اہتمام صر ف امام حسین ؑ  کے ساتھ مختص ہے۔

  امام حسین ؑ  کے چہلم و چالیسواں پر احادیث 

مکتبِ تشیع میں امام حسین ؑ   کے غم میں چالیسواں یا چہلم کے اہتمام کے بارے روایت وارد  ہوئی ہے جو کہ امام حسن عسکری ؑ سے منقول ہے۔ شیخ طوسی & نے اپنی کتاب ’’ تہذیب الاحکام ‘‘ میں امام حسن عسکریؑ سے اس روایت کو نقل کیا ہے۔ امام حسن عسکری ؑ فرماتے ہیں :

عَلَامَاتُ الْمُؤْمِنِ خَمْسٌ صَلَاةُ الْخَمْسِینَ وَزِیَارَةُ الْأَرْبَعِینَ وَالتَّخَتُّمُ فِی الْیَمِینِ وَتَعْفِیرُ الْجَبِینِ وَالْجَهْرُ بـ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ.

ترجمہ: مومن کی علامات پانچ ہیں: پچاس نمازیں، اربعین(چہلم یا چالیسواں) کی زیارت ، دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا، پیشانی کو مٹی سے ملنا،دورانِ نماز اونچی آواز میں ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنا۔(۶)

اکابر علماء و محدثین نے اس روایت سے استدلال کرتے ہوئے امام حسینؑ  کی شہادت کے چالیسویں یعنی چہلم کا اہتمام کرنے کو ’’ مستحب ‘‘ قرار دیا ہے۔ زمانہ قدیم سے مراجع عظام اور علماءِ اعلام بڑے پیمانے پر ’’اربعین‘‘  کا اہتمام کرتے آ رہے ہیں اورآج بھی نجف اشرف سے کربلا تک پا پیادہ سفر کرتے ہیں جس کا مشاہدہ  ہر سال ’’20 صفر ‘‘ کوکیا جاتا ہے کہ دنیا کے کونے کونے سے عاشقانِ امام حسین ؑ  ’’ امام حسن عسکری ؑ ‘‘ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کربلا جمع ہوتے ہیں اور اپنے مومن ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔

2.زیارتِ اربعین 

’’تہذیب الاحکام‘‘ میں امام جعفر صادقؑ  سے ’’چہلمِ امام حسینؑ  ‘‘ کے دن کی زیارت نقل کی گئی ہے جسے بعض علماء نے صحیح السند بھی قرار دیا ہے۔ صفوان بن مہرانِ جمال بیان کرتے ہیں کہ میرے مولا و آقا امام صادق ؑ نے اربعین کی زیارت کےحوالے سے مجھ کومخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

 تَزُورُ عِنْدَ ارْتِفَاعِ النَّهَارِ ، وَتَقُولُ : السَّلَامُ عَلَی وَلِیِّ اللَّهِ، وَحَبِیبِهِ السَّلَامُ عَلَی خَلِیلِ اللَّه ‏ … .

ترجمہ: جب دن چڑھ جائے تو تم زیارت کرو اور کہو: اللہ کے ولی اور اس کے حبیب پر سلام ہو ، خلیلِ الہٰی اور نجیبِ خدا پر سلام ہو ، صفی خدا اور فرزندِ صفی الہٰی پر سلام ہو ..۔(۷)

 جابر بن عبد اللہ انصاری اور تابعی عطیہ عوفی کا واقعہ

بعض دعاؤں اور تاریخی کتب کے مطابق سانحہ کربلا کے بعد امام حسین ؑ کے پہلے زائر ’’صحابی رسول جناب جابر بن عبد اللہ انصاری‘‘  اور معروف تابعی جناب عطیہ عوفی تھے جنہوں نے شہادتِ ’’امام حسین ؑ  ‘‘ کی زیارت کی غرض سے حجاز سے کربلا تک کا سفر کیا اور’’20 صفر‘‘  روزِ اربعین یعنی چہلم کو کربلا پہنچے اور امام حسینؑ  کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔ جنابِ جابر بن عبد اللہ انصاری بڑھاپے اور کبیر السن ہونے کے باوجود سفر کی زحمتوں و صعوبتوں کو برداشت کرتے ہوئے چہلم کے لیے کربلا میں وارد ہوئے اور امام حسینؑ  کی زیارت کی اور گریہ  آہ و بکاء کیا۔چھٹی صدی کے معروف محدث عماد الدین طبری متوفی ۵۵۳ ھ اپنی کتاب بشارۃ المصطفی ﷺمیں ان الفاظ کے ساتھ اس واقعہ کو نقل کیا ہے:

حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ الْمُقْرِی ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْأَیَادِی ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مُدْرِکٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ زِیَادٍ الْمَلَکِیُّ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ عَطِیَّةَ الْعَوْفِیِّ ، قَالَ: خَرَجْتُ‏ مَعَ‏ جَابِرِ بْنِ‏ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِیِّ زَائِرَیْنِ قَبْرَ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ع فَلَمَّا وَرَدْنَا کَرْبَلَاءَ دَنَا جَابِرٌ مِنْ شَاطِئِ الْفُرَاتِ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ اتَّزَرَ بِإِزَارٍ وَارْتَدَی بِآخَرَ ثُمَّ فَتَحَ صُرَّةً فِیهَا سُعْدٌ فَنَثَرَهَا عَلَی بَدَنِهِ ثُمَّ لَمْ یَخْطُ خُطْوَةً إِلَّا ذَکَرَ اللَّهَ تَعَالَی حَتَّی إِذَا دَنَا مِنَ الْقَبْرِ قَالَ أَلْمِسْنِیهِ فَأَلْمَسْتُهُ فَخَرَّ عَلَی الْقَبْرِ مَغْشِیّاً عَلَیْهِ فَرَشَشْتُ عَلَیْهِ شَیْئاً مِنَ الْمَاءِ فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ یَا حُسَیْنُ ثَلَاثاً ثُمَّ قَالَ حَبِیبٌ لَا یُجِیبُ حَبِیبَه‏،ُ ثُمَّ قَالَ: وَأَنَّی لَکَ بِالْجَوَابِ وَقَدْ شُحِطَتْ أَوْدَاجُکَ عَلَی أَثْبَاجِکَ، وَفُرِّقَ بَیْنَ بَدَنِکَ وَرَأْسِکَ.

ترجمہ: عطیہ عوفی  کہتے ہیں کہ میں جابر بن عبد اللہ انصاری کے ساتھ حسین بن علی بن ابی طالبؑ  کی زیارت کےلیے نکلا، ہم جب کربلا میں وارد ہوئے تو جابرفرات کے کنارے گئے اور وہاں غسل کیا، پھر انہوں نے تہبند باندھا اور دوسرا لباس پہنا ، پھر ایک ڈبیا نکالی جس میں ایک جڑی بوٹی سے آمادہ خوشبو تھی جسے سُعد کہا جاتا ہے، اس کو آپ نے اپنے بدن پر بکھیر دیا ، پھر امام حسینؑ  کی قبر کی طرف چل دیئے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتے تھے، جب وہ قبرِ امام حسینؑ  کے قریب پہنچے تو مجھ کہا : (اے عطیہ) مجھے پکڑو، میں نے انہیں تھاما ، پھر وہ قبر پر منہ کے بل گر گے اور ان پر غشی و بے ہوشی طاری ہو گی ، میں نے تھوڑا سا پانی ان پر چھڑکا، جب انہیں افاقہ ہوا تو انہوں نے تین مرتبہ یا حسین ؑ  کہا، پھر کہا: حبیب اپنے حبیب کو کیوں جواب نہیں دے رہے؟!  پھر کہا: آخر کیسے جواب دے سکتا ہے جبکہ حبیب کی پشتِ گردن سے اس کی رگوں کو کاٹ کر خون خون کر دیا گیا ہے اور اس کے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے ہیں اور سر کو جدا کر دیا گیا ہے۔

اس کے بعد جناب جابر بن عبد اللہ  نے امام حسین ؑ کی زیارت کے جملات اس طرح ادا کیے: 

فَأَشْهَدُ أَنَّکَ ابْنُ خَاتِمِ النَّبِیِّینَ وَ ابْنُ سَیِّدِ الْمُؤْمِنِینَ وَ ابْنُ حَلِیفِ التَّقْوَی وَ سَلِیلُ الْهُدَی وَ خَامِسُ أَصْحَابِ الْکِسَاءِ وَ ابْنُ سَیِّدِ النُّقَبَاءِ وَ ابْنُ فَاطِمَةَ سَیِّدَةِ النِّسَاء

ترجمہ:میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خاتم النبین ﷺ کے فرزند ہیں اور سید المؤمنین کے بیٹے ہیں، آپ اہل تقوی اور ہدایت نشر کرنے والے کے فرزند ہیں، آپ اصحابِ کساءکے پانچویں فرد ہیں اور سید النقباء (امام علیؑ ) کے فرزند ہیں اور فاطمہ ÷جو سید النساء ہیں کے فرزند ہیں… ۔(۸)

روزِ چہلم کے انعقاد کی وجہ

روایات میں چہلم کے دن کا اہتمام کرنے کی وجہ و سبب بیان نہیں کیا گیا ۔ لیکن تاریخی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ساتویں صدی ہجری کے بزرگ محدث سید بن ابی طاووس ، کفعمی اور علامہ مجلسی }اور دیگر علماءِ اعلام نے تین احتمالات بیان کیے ہیں جن کی بناء پر چہلمِ امام ؑ  کا اہتمام کیا جاتا ہے:

  1. روزِ چہلم 20 صفر کو امام سجاد ؑ قافلے سمیت دوبارہ کربلا وارد ہوئے اور تمام شہداء کے سر مبارک کو ان کے اجسادِ کریمہ کے ساتھ ملحق فرمایا۔
  2. 20 صفر کو قافلہ حسینی ’’ امام سجاد اور بنت علی ؑ ‘‘ کے ہمراہ شہرِ رسول ﷺ ’’مدینہ منورہ ‘‘ میں وارد ہوا ۔
  3. بزرگ صحابی رسول ’’ جناب جابر بن عبد اللہ الانصاری‘‘ 20 صفر کربلا پہنچے اور چہلم کی بنیاد رکھی۔(۹)

علامہ مجلسیؒ ان اقوال کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ پہلے دو احتمال ٹھیک نہیں ہیں کیونکہ قافلہ حسینی شام سے لوٹ کر کربلاء نہیں آیا۔ نہ ہی ایسا ہوا ہے کہ اس قدر مختصر دنوں میں قافلہ حسینی ’’شام سے مدینہ منورہ‘‘ پہنچ گیا ہو کیونکہ ابن زیاد لعین اور یزیدی لشکر نے اتنے مختصر دنوں میں ’’قافلہ حسینی‘‘ کو رہا نہیں کیا بلکہ وہ ایک مہینہ تک قیدو بند کی صعوبتوں کو برداشت کرنے کے بعد شام سے رہا ہوئے ۔ اس لیے ممکن نہیں ہے کہ اتنے قلیل مدت میں قافلہ حسینی مدینہ منورہ پہنچ گیا ہو۔ پس تیسرا قول زیادہ ترجیح رکھتا ہے کہ صحابی رسول جناب جابر بن عبد اللہ انصاریامام حسین ؑ  کی زیارت غرض سے کربلا تشریف لے گئے اور چہلم کے دن وہاں پہنچے۔(۱۰)

نتیجہ 

        امام حسین ؑ کے چہلم  کا اہتمام کرنا روایاتِ اہل بیت   ؑ  اور صحابی رسول جابر بن عبد اللہ انصاری ؓکے طریق کی پیروی کی بناء پر ہے۔ اگر مکتبِ تشیع میں اہل بیت  ؑ  کے طریق سے روایت وارد نہ ہوتی اور صحابہ کرام کی سیرت ثابت نہ ہوتی تو کسی صورت اس قدر جم غفیر دکھائی نہ دیتا ۔ کیونکہ ’’شیعہ‘‘ کا ہم و غم اور حقیقی لگاؤ صرف اور صرف قرآنِ کریم کی اس آیت مبارکہ کے ساتھ ہے: {یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا أَطیعُوا اللَّهَ وَأَطیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ ؛اے ایمان لانے والوں اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اورتم میں سے جو اولی الامر ہیں ان کی اطاعت کرو}، (۱۱)

 لہٰذا چہلم ’’شیعوں‘‘ کی من گھڑت رسم نہیں ہے بلکہ اطاعتِ امام ؑاور سیرتِ صحابہ کرام ہے۔

 

 


منابع:

شاہرودی، سید محمود ہاشمی، موسوعۃ الفقہ الإسلامی المقارن، ج 4، ص 35، ناشر: مؤسسۃ دائرة المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت ع، قم، 1432ھ۔

نراقی، احمد، عوائد الأیام، ص۱۱۱۔

کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۹، ص ۶۵۳۔

شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۱، ص ۱۸۲۔

کلینی ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۵، ص ۵۴۴۔

طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، ج ۶، ص ۵۲۔

طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، ج ۶، ص ۱۱۳۔

طبری آملی، محمد بن ابی القاسم، ص ۱۲۵۔

علامہ مجلسی، محمد باقر، ملاذ الاخیار فی فہم تہذیب الاخبار، ج ۹، ص ۳۰۲۔

10۔

علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۹۸، ص ۳۳۵۔

11۔

سورہ نساء: آیت ۵۹۔

source: albirr.net

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 24 September 21 ، 15:21
عون نقوی

Topic: Seeking pleasure in everything turns a community barren

We are all living our lives as per certain laws and customs. We should question from where these laws, rituals in my life are coming from? It is from ancestral life we have the manifesto of life coming from whereas there is religion which has ordained laws for every aspect of life which we should know and should live our lives in accordance with that.

We have to ask religion on daily affairs like eating, sleeping, dealing, economy politics for all these religions has come . This is the constitution made by Allah just like we make constitution for state . To accept this religion as constitution has not yet been done . We have two forms of life one under state constitution and second is ancestral laws life.

If we take admission in education it is as per state laws and constitution. But when you are at home and eat that is not from state . That is decided by ancestors like dressing , sleeping . State has not permitted or stopped on how girls and boys live together. We live by ancestral religion and state constitution. Allah’s manifestos are kept only for special occasions or places like mosques. This is a mistake and non-religiousness . How to live life at home , whom to speak and not to speak, when we should remain silent all these should be asked from Allah . Allah has made one constitution for all affairs and when follows that in every affair of life then only man would be considered religious and believer. Those who do not accept religion as manifesto their religiousness is incomplete.

There is only one right path that is Sirat-e-Mustaqim and against this right path there are Subul made. If you do not tread on Sirat e Mustaqim then you would be misguided. One such deviant path is Zalalat which is confusion , lack of decision and selection of right path. This Zalalat is present in both good and bad persons and this is a state which can exist for everyone . Zalalat is against guidance and for everyone. The question is how man falls into Zalalat?

Quran says one means of Zalalat are elders, chieftains and elites who are the big source of getting community into Zalalat. We have read this verse before. These whom community expects respects they misguide the community.

In Surah Furqan Allah says we will muster the communities who lived in Zalalat (were misguided) on the day of judgement along with those whom they considered as Ma’bud. Mabud is one who is obeyed and not worshipped. Within human beings there are many such Ma’bud and some are esteemed saints of Allah whom ignorant have made Ma’bud like Christian who made Jesus as God . Ignorant make means given by Allah as Ma’bud. Like Gaali today consider Ahlulbayt (A.S) at the status of God . They were made as means of guidance and ignorant have turned them into gods. The verse says Allah will muster these ignorant and those whom they made Gods would be questioned . Whether you asked them to make you as Ma’bud? Have you taught them to make you as Gods? Have you shown them this path of Zalalat or have they adopted themselves ? They will answer it is impossible for us to present them a Wali other than you ? So how they got misguided ? These Saints of Allah will present the secret of misguidance.

وَلَٰکِنْ مَتَّعْتَهُمْ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ نَسُوا الذِّکْرَ وَکَانُوا قَوْمًا بُورًا

The cause of their Zalalat is that you have given them pleasurable assets (Mata) and to their ancestors which has misguided them . How ? They have got pleasurable wealth, assets and they have forgotten Allah their creator , Lord , Owner. And they have become misguided and turned into a barren community (قَوْمًا بُورًا)

One point is they got misguided due to these assets . Mata means those means of life which consuming gives pleasure as well to man. Certain needs of life don’t have pleasure like breathing has no pleasure . In water as well there is not much pleasure . But there are many other things which man uses and enjoys as well. Pleasure is the feeling of happiness inside man . Many things develop this feeling of pleasure which we use this daily but many other things we use do not carry any pleasure.

In food man enjoys most pleasure. Food is need of body where man continuously needs food for survival and growth . The body continuously is breaking down in its components . The cells are made by the food and they have limited life and after this they expire and in their place new cells are made . Due to this we feel hungry regularly so that the bodily needs are fulfilled . The things which are necessities of life in them majority have pleasure. Like when you take fruits body also gets it’s need and also pleasure. But for medicines same needs are fulfilled but there is no pleasure . Like vitamin pills are need for body but has no taste. Allah has made everything with taste and pleasures because man will ignore need but will not ignore pleasure . All necessary things are packaged in pleasure. For acquiring pleasure man takes many things . All such things from which man acquires pleasure is Mata. Like dress is to cover body but we wear dresses which gives pleasure . Like these tight pants are uncomfortable but still man wears it for pleasure. Man takes pains as well for the sake of pleasure like wearing ties. He wears dresses tight which others see enjoy lust and he also take pleasure from them. Both man and woman demonstrate their bodies with tight dresses . Others will take pleasure and look with lustful eyes at me. When they look at me I also get pleasure. Allah has placed all needs of man in pleasure.

Those who are intellectual they look at needs and will eat healthy food but non-intellectual persons only look at pleasure. In every home 60% things are not used . They will not use things for generations which are only for pleasure. Mata is that thing from which man takes pleasures. Pleasure is there in everything but if you do things only for need then pleasure is coming as bonus. The pleasure-oriented persons are affluent (Ayyash) group . This going after pleasure is known as Tamattu. They will make friends for pleasure. 99% relationships are for pleasure . This is all inherited and some people have made pleasure gaining as culture and this goes down their generation. The new generations when getting married also it is everything for pleasure.

When man become pleasure oriented he forgets his purpose, status, religion and even Allah . Affluent (Ayyash) forgets everything. The religious people like Eulogy, Naat’s and non-religious likes songs both with beautiful voice and tunes because all these give pleasure . When someone just reads Quran we don’t get pleasure but when recited in beautiful voice we enjoy because we are enjoying the tune and not the message . All this is for pleasure.
In religion as well this pleasure has made us forget Allah as well . In Majalis the orators want to give utmost pleasure to people and his own pleasure is in money which he gets . Everyone has a Means of pleasure. All these who give priority to pleasure in everything they are affluent (Ayyash) people and Quran terms them as Mu’tarifeen.

These whom they made the Ma’bud they are answer tot Allah as we have not asked them to make us their God, in fact you are immaculate and these were misguided by inherited pleasurable acts which they follow, worship and desire. The tragedy with them is that you have given means of pleasure to them (Mata) and their ancestors; they are drowned in this pleasure that they forgot the remembrance and attention towards Allah that we have been given a life which has a purpose.

They are a barren community((قَوْمًا بُورًا). Burr means something barren where nothing cannot be cultivated. Land is classified as fertile or barren . The barren land is which cannot grow anything . There is nothing that grows on this land. Saints of Allah are saying they are drowned in pleasure and they have forgotten Allah and purpose of life . We should not accept any guidance and growth for them.

How many scholars, Mujtahid, intellectuals of A category have we produced in 74 years in Pakistan. We won’t find them because of pleasure orientation. Some might say that we don’t have money for pleasure. Everyone is pleasure oriented and they are all taking some form of pleasures and habituated to pleasure.

These princesses are useless who waste all their inherited wealth and if he is little worth he won’t waste wealth but wont grow or do anything beyond. Why this Mobile is in the pocket of every child ? Is this a need ? Now all students of matric have passed during pandemic those who have not studied at all and on other hand they are on mobiles . What will come out of this community ? And this is barren community due to which they will get destroyed. Do not make pleasure orientation as objective of life and just come out of it. The pleasure you are getting is bonus . But if you become pleasure oriented then this is Zalalat and destruction.
Today religion is also pleasure . Azadari is only for pleasure . Some group once said why you eat this much meat in Moharram . It is grief so why you eat such pleasurable food in grief and mourning . They made noise and I said I cannot reject your claims . In grief Majalis all these tunes’ rhythms are for pleasure.

source: islamimarkaz.com

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 24 September 21 ، 15:06
عون نقوی

گرینلینڈ میں بڑھتے ہوئے سماجی جرائم کی شرح میں اضافہ کو دیکھ کر مقامی حکومت نے معین مدت کے لئے شراب کی خرید و فروخت پر پابندی لگا دی۔

یہی پابندی اسلام نے آج سے 1400 سال پہلے لگائی تھی جس کی حکمت آج ان کو سمجھ آئی ہے! 
اب بھی کہو اسلام دقیانوسی مذہب ہے۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 September 21 ، 23:26
عون نقوی