بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

عِبَادَ اللّہِ اُوصِیکُم وَ نَفسِی بِتَقوَی اللّہِ فَاِنَّ خَیرَ الزَّادِ التَّقوَی

تقویٰ محفوظ طرز زندگی

بندگان خداآپ سب کو اور اپنے نفس کوتقویٰ الٰہی کی وصیت کرتا ہوں کہ اپنی زندگی کے تمام امورمیں تقویٰ اختیار کریں ، فردی زندگی ،عائلی و خاندانی زندگی ،تعلیمی زندگی،سماجی زندگی ،تجارتی و کاروباری زندگی اور معاشرتی زندگی میں تقویٰ کو بنیاد قرار دیں ۔ تقویٰ محفوظ انداز زندگی کا نام ہے جو اللہ نے انسان کے لئے مقرر فرمایا ہے ،جس زندگی میں انسان ہر طرح کی بلا اور آفت دنیوی و اخروی سے محفوظ رہتا ہے۔

 اس وقت تمام انسانیت اور بالخصوص مسلمین کو جو مصائب اور خطرات درپیش ہیں وہ سب تقویٰ نہ ہونے کی وجہ سے ہیں ،جو لوگ سیاست اور تعلیم میں ہیں یا جولوگ ملکی اور عالمی امور کو چلا رہے ہیں سب بے تقویٰ افراد ہیں ۔ہر طرف سے بے تقوائیت نے انسانی زندگی کوخطرے میں ڈال دیا ہے ، کسی کو کوئی تحفظ نہیں ہے اور تحفظ کے لئے جو چارہ جوئی کرتے ہیں وہ مزید خطرات کو جنم دیتی ہے ،ابھی تک جتنے بھی لوگوں نے تحفظ کے لئے چارہ جوئی کی ہے اس نے مزید خطرات کو جنم دیا ہے۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 25 September 21 ، 15:35
عون نقوی

آیت اللہ علامہ سید جواد نقوی دام ظلہ العالی

تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ نے جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کا کہا: متعلق مشکل کام یہی ہے کہ موجودہ دین کے پرزے، پرزے پڑھنا اور انکا مطالعہ اور اس دین کا پیروکار بننا یہ مشکل ہے, البتہ دین کے متعلق نئی شناخت، شناخت از سر نو یہ آسان ہے۔

تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے کہا ہے قرآن حکیم اور بعض روایات کے مطابق اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰة اور ولایت۔ روایات میں یہ بھی ہے کہ باقی چار اراکین تب قائم ہوں گے کہ جب رکن اصلی ولایت یعنی اسلامی حکومت قائم ہوگی۔ اگر ولایت قائم ہو جائے تو دین مکمل نافذ ہوسکتا ہے۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال اصرار کرتے ہیں کہ دین ِ متحرک و دین خالص کو احیاء کی ضرورت ہے، تاکہ دین نافذ ہو۔

مسجد بیت العتیق جامعہ عروة الوثقیٰ میں خطبہ جمعہ میں انہوں نے کہا کہ دین کے متعلق مشکل کام یہی ہے کہ موجودہ دین کے پرزے، پرزے پڑھنا اور ان کا مطالعہ اور اس دین کا پیروکار بننا یہ مشکل ہے، البتہ دین کے متعلق نئی شناخت، شناخت از سر نو یہ آسان ہے۔ آئین نو کرنے کی ضرورت ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ آئین ِ نو اور احیائے دین کیلئے پہلے امامت و ولایت کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال کی طرح باقی الٰہی شخصیات کہ جن میں بلھے شاہ اور دیگر بھی اس بابت بیان کرتی ہیں کہ دردِ دین کیا ہے؟ حیاتِ انسانیت کی وسعت تک تقویٰ و دین وسیع ہے۔ احیائے دین کیلئے سب سے پہلے مضبوط سرپرست کو قائم کرنے کی ضرورت ہے کہ جس بابت قرآن و روایات بیان کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خداوند متعال نے تقویٰ کو حفاظتی تدبیر مقرر فرمایا اور اسے عملی انسان نے خود کرنا ہے۔ آج دین کے متعلق موجودہ شناخت ناکافی ہے، چونکہ محض انفرادی شعبہ کے متعلق تاکید کی گئی ہے۔علامہ اقبال نے اپنے مقالہ میں لکھا کہ موجودہ شناخت دین ناکافی ہے بلکہ از سر نو دین کی شناخت کی ضرورت ہے کہ جس میں دین کے تمام پہلووں کے ساتھ شناخت کی جائے بالخصوص نظام دین کو ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔

علامہ جواد نقوی نے کہا کہ آج شناخت دین میں سستی کے باعث باقی تمام شعبہ جات کو دوسروں کے سپرد کر دیا گیا اور انھوں نے اس درزی کی طرح کہ مکمل کپڑے کو کاٹ کاٹ کر اس کی لیریں بنا کر ضائع کر دیا اور اس کے نتیجے میں فاسد عناصر کے سپرد کر دیا کہ کسی نے عدالت سنبھالی اور اس قسم کے کرپٹ عناصر نے پارلیمان سنبھال لی کہ جن کا کام آئین بنانا بن گیا اور جمہوریت بھی اسی کا نتیجہ ہے۔

علامہ اقبال اسی بابت وضاحت و توجہ مبذول کرواتے ہیں کہ دین کو ہمہ پہلو شناخت کی ضرورت ہے، حاشیوں سے نکلنے کی ضرورت ہے۔

source: rasanews.ir

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 25 September 21 ، 14:37
عون نقوی

سوال:

میرا سوال یہ ہے کہ ولی فقیہ کی حکومت تو صرف ایران پر ہے تو وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے رہبر کیسے ہو سکتے ہیں کیا بقیہ ممالک کے مسلمانوں پر ان کا حکم ماننا ضروری ہے جبکہ حکومت صرف ایران میں ہے۔ بقیہ افراد تو اپنے مراجع کی طرف رجوع کریں گے یا اگر کوئی رہبر معظم کا مقلد ہو تو فقط اس پر رہبر معظم کے فتوی پر عمل کرنا ضروری ہوگا؟

جواب:

ولایت فقیہ سلسلہ امامت کا تسلسل ہے۔ جس طرح سے نبیﷺ یا آئمہ معصومینؑ کسی ایک خطے کے ساتھ مخصوص نہیں اسی طرح ولی فقیہ کا حکم بھی کسی ایک ملک کے لوگوں کے لیے نہیں بلکہ پوری امت کے لیے ہے۔ یعنی جس طرح سے ایک ملک کے لوگ یہ نہیں کہہ سکتے کہ محمد رسول اللہﷺ تو عرب ہیں اور ان کی حکومت مدینہ میں تھی تو ہم ان کی پیروی کیوں کریں؟ یا بقیہ آئمہ معصومینؑ مثلا امام علیؑ نے جب ظاہری خلافت سنبھالی تو کوفہ کو دارالخلافہ قرار دیا۔ ظاہری طور پر شام کا علاقہ ان کے تسلط سے نکل کر امیر شام کی حکومت میں تھا لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ شام کے لوگوں پر چونکہ امیرالمومنینؑ کی حکومت نہیں لذا ان پر امیرالمومنینؑ کی اطاعت بھی واجب نہیں۔ جس طرح سے کوفہ، بصرہ مکہ اور مدینہ کے مسلمانوں پر امیرالمومنینؑ کی اطاعت ضروری ہے اسی طرح شام کے لوگوں پر بھی اطاعت ضروری ہے۔ اسلام بارڈرز کا قائل نہیں یہ ملکوں کی حدبندی بعد میں کی گئی اسلام اور اس کی تعلیمات اور اس کے رہبران اس سے آفاقی تر ہیں۔ جس طرح سے آپ کے بقول ایک مجتہد کا فتوی بارڈر سے پار جا کر ایک مجتہد کے مقلد پر واجب ہو سکتا ہے عین اسی طرح سے ولی فقیہ کا حکم بھی صرف ایک خطے کے لوگوں پر نہیں بلکہ دنیا کے ہر خطے پر ہر مسلمان پر واجب ہو سکتا ہے۔ اور جب ولی فقیہ بطور ولی امر حکم جاری کرے تو اس کو صرف مقلدین پر ہی نہیں بلکہ مجتہدین کو بھی ماننا ضروری ہے۔

یہ اور بات ہے کہ اس وقت عملی طور پر ولی فقیہ کا حکم دوسرے ممالک میں اطاعت پذیر نہیں کیونکہ دوسرے ممالک کے مسؤولین اس کو اپنے ملک میں دخالت سمجھتے ہیں اور اس طرح کے کسی بھی امر کی شدید طور پر مخالفت کرتے ہیں لیکن یہ بات اس امر کا باعث نہیں بن سکتی کہ ولی فقیہ دوسرے ممالک کے لیے واجب الاطاعہ نہ ہو۔ کیونکہ امیرالمومنینؑ کی حکومت میں بھی امام خود پوری امت کے لیے واجب الاطاعت تھے لیکن اہل شام، امیر شام کی حکومت کی وجہ سے امیرالمومنینؑ کی اطاعت نہ کر سکے۔ یا یہ کہیں کہ امیر شام کے پروپیگنڈے میں آ کر امام کی اطاعت نہیں کرنا چاہتے تھے۔

تاہم یہاں پر کوئی یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ نظام ولایت فقیہ بہرحال ایران کا نظام ہے ہمارا اس سے کیا واسطہ؟ اس کا جواب اس طرح سے دیا جاۓ گا کہ ولایت فقیہ کو دو جہت سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک جہت اس کی یہ ہے کہ ہر ملک کا آئین صرف اسی ملک کے لیے قابل اجراء ہوتا ہے اور اس کا دوسرے ممالک کے لیے کسی قسم کا اجراء نہیں ہوتا۔ اب یہ آئین و قانون اساسی چاہے ولایت فقیہ کی اساس پر ہو یا کسی اور نظام کی بنیاد پر۔ اگر اس جہت سے دیکھیں تو ولایت فقیہ فقط ایران کے لیے قابل اجراء ہے اور دوسرے کسی ملک میں اس کا اجراء نہیں ہے عملی طور پر۔ لیکن اگر ولایت فقیہ کو مذہبی و نظریاتی طور پر لیں تو یہ امر کسی ایک ملک یا کسی ایک سرزمین سے مختص نہیں۔ مختلف سرزمینوں کی مختلف اقوام کسی ایک سسٹم اور ایک رہبریت کو کسی نظریے کی بنیاد پر قبول کر سکتی ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے پوری دنیا کے مسلمان ایک نظامِ فکری، عملی و سیاسی کے پیرو ہیں، ان سب کا ایک ہدف ہے اور سب کا مشترکہ دشمن ہے یہ سب چیزیں تقاضا کرتی ہیں کہ ان کا رہبر بھی ایک ہو تاکہ یکپارچگی کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرتے ہوۓ مہدویت کی جانب قدم بڑھا سکیں۔ آخر میں اس نکتے کی طرف بھی توجہ رہے کہ دینی رہبروں اور سیاسی حکام میں فرق ہوتا ہے مثلا جب ویٹیکن سٹی (vatican city) میں عیسائیوں کا پاپ انتخاب کیا جاتا ہے تو اس کی اطاعت صرف ویٹیکن سٹی کے شہریوں پر ضروری نہیں قرار پاتی بلکہ پوری دنیا کے کلیسا اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ ولی فقیہ نا صرف امت کا سیاسی رہبر ہوتا ہے بلکہ مذہبی رہنما بھی ہوتا ہے اس لیے بعض مفکرین اسلام کے مطابق ولی فقیہ کو ’’امام‘‘ کہا جاۓ۔ یہاں پر امام سے مراد یہ نہیں کہ ولی فقیہ ۱۳واں امام بن گیا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ دین اور دنیا کے ہر معاملے میں مومنین اور مسلمین کی رہبری و مدیریت ولی فقیہ نے کرنی ہے۔

 

 


منابع:

۱۔ ولایت فقیہ آیت اللہ جوادی آملی۔

۲۔ سائٹ حوزہ نیٹ۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 24 September 21 ، 21:30
عون نقوی

آیت اللہ سید جواد نقوی حفظہ اللہ تعالی

ہماری کیفیت بھی ’’ سہل خراسانی‘‘ سے کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہے جو امام صادقؑ کو خروج کی دعوت دیتا تھا لیکن آپ کے حکم پر تندور کی آگ میں کود نہیں سکتا تھا۔

علامہ سید جواد نقوی allama syed jawad naqvi

کہنے کو تو ہم اپنی جان مال و عزت قربان  کرنے کے لئے تیار و آمادہ ہیں لیکن جب امامت کو آزمائشوں اور تکالیف کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو کیفیات تبدیل ہوجاتی ہیں ۔ سہل خراسانی کی طرح ہمیں بھی ایسا امام و رہبر چاہئے جو لوگوں کو آگ میں نہ جھونکے بلکہ لوگوں کو تھانے سے نکالے ، کیسز حل کرے، کچہریوں کے مسائل ایک آن میں حل کردے ، پاسپورٹ ویزا لگوا کر بیرون ملک کی زندگی عطل کردے ،ملازمتیں دے کر مشکلات سے نجات دے ، ہمارے داخلے کروادے ۔۔۔۔ہمارا تقاضا ایسا ’’امام و رہبر‘‘ ہے جو ہمیں ’’لبیک ‘‘ کہے اور ہم’’ہل من ناصر‘‘ کی صدل لگانا اپنا دین و ایمان قرار دیتے رہیں ۔ سہل خراسانی کی طرج ہم بھی اس امامؑ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافیاں مانگیں گے جو ہمیں ’’آگ‘‘ میں کود جانے کا درس دیتا ہو، قید خانوں کی صعوبتیں جھیل لے جانے کی دعوت دیتا ہو ، کٹ مرنے کے لئے آمادہ کرتاہو، گھر بار، آل اولاد کو اپنے سے جدا کرکے ان کی پکارتی صداؤں پر کان بند کر کے اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہونے کا پیغام حق سناتا ہو۔۔۔۔’’ہارون  مکی ‘‘ کی طرح کا شیعہ کہاں ہے؟ جس نے امام ؑ سے پوچھا بھی نہیں اور امامؑ کے ایک اشارے میں اپنے آپ کو دہکتے انگاروں اور تپتے تنور کی بھڑکتے شعلوں کے حوالے کردیا۔ امام ؑ ’’ ہارون مکی‘‘ جیسے شیعہ دیکھنا چاہتے تھے۔(۱)

 

 


حوالہ:

ماخوذ ازکتاب کربلا حق و باطل میں جدائی کا راستہ، آیت اللہ علامہ سید جواد نقوی۔
 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 24 September 21 ، 17:14
عون نقوی

استاد محترم علامہ سید جواد نقوی حفظہ اللہ تعالی

امام علیؑ کو ان لوگوں نے سب سے زیادہ اذیت اور تکلیف دی جو خبیث اور طیب کو ایک پلڑے میں رکھتے تھے اور دونوں میں کسی تفریق و تقسیم کے قائل نہ تھے۔ آپؑ کے پر آشوب دور میں لوگوں نے خبیث اور طیب کو ایک دوسرے سے مخلوط کرکے باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا تھا جس کے نتیجے میں انہیں طیب، خبیث سے جدا نظر نہیں آتا تھا۔

علامہ سید جواد نقوی allama syed jawad naqvi

لہذہ لوگ امام علیؑ جوکہ مجموعہ جمیع کمالات و خصائل تھے کومعاویہ جیسے انسان سے موازنہ کرنے لگے۔ لوگوں کے اس سلوک نے امام علیؑ کو اس قدر رنج و غم میں مبتلاء کیا کہ آپؑ کوکہنا پڑا:
الدَّهْر أنْزَلَنِی ، أنْزَلَنِی حَتَّی یُقَالُ عَلِیّ وَ مُعَاوِیَةُ.
زمانے نے مجھ پر اس قدر ستم کیا کہ وہ مجھے اس مقام پر لے آیاحتی کہا جانے لگا : علیؑ اور معاویہ۔(۱)

 

 


حوالہ:

ماخوذ از کربلا حق و باطل میں جدائی کا راستہ، استاد محترم علامہ سید جواد نقوی۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 24 September 21 ، 17:01
عون نقوی