بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

امیرالمومنین امام علیؑ فرماتے ہیں

متن عربی:

الْوِلَایَاتُ مَضَامِیرُ الرِّجَالِ. 

ترجمہ:

حکومتیں لوگوں کیلئے آزمائش کا میدان ہے۔

قابل توجہ نکات:

زندگی کا کوئی ایک شعبہ بھی حکومت اور حاکمیت سے غیر مربوط نہیں، بہرصورت حکام اور حکومتیں آپ کی زندگی سے مربوط ہونگیں اور آپ کی انفرادی و اجتماعی زندگی کو متاثر کریں گی۔ اگر آپ غیر سرکاری ملازمت کرتے ہیں، عام مزدور ہیں یا سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے، آپ کی زندگی کو حکومت اور حکام متاثر کریں گے۔
کرہ ارض پر کوئی بھی انسان یہ بات نہیں کر سکتا کہ اس کا حکومتوں سے کوئی لین دین نہیں اور نا ہی سیاست سے کوئی دلچسپی ہے، اگر آپ خود کو نابینا کر لیں یہ اور بات ہے لیکن حکومتیں آپکی زندگی کو متاثر کر کے رہیں گی، خود آپ کا یہ کہنا کہ مجھے حکومتی امور یا سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں، یہی کہنا حکومت سے مربوط ہو جاتا ہے اور جب کوئی چیز باواسطہ یا بلا واسطہ حکومت سے مربوط ہو جائے آپ سے بھی مربوط ہو جائے گی۔ 
بعض افراد ایسی بات کہہ تو دیتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ جس سسٹم اور نظام میں آپ رہ رہے ہیں ان کو حکومتیں چلاتی ہیں، مثلا آپ کا جو اقتصاد و گھر کا خرچہ چل رہا ہے اس کا تمام دارومدار حکومتوں پر ہے، اگر حکومتیں کرپٹ ہوئیں تو آپ جتنا بھی کمائیں گے بھوک افلاس سے نہیں بچ سکتے، آپ کا سانس لینا اور صحتمند ہونا بھی حکومتوں سے مربوط ہے کیونکہ اگر حکومتوں نے صحت و تندرستی کے ادارے نا بناۓ یا وہاں پر نالایق افراد بھیج دیے آپ زندہ نہیں رہ سکیں گے یا اگر ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول نہ کیا تو آپ کا سانس لینا بھی دشوار ہو جاۓ گا۔
آپ کا امن و امان میں رہنا ہر روز باہر جانا، بازار سے روز و مرہ کی اشیاء خریدنا بھی حکومتوں سے مربوط ہے اگر حکومت نااہل و غدار آ گئی تو ملک دشمن عناصر آپ پر مسلط ہو جائیں گے و عین ممکن ہے ملک اور عوام کو چند داموں کے عوض بیچ کر خود فرار ہو جائیں اور آپ کو ابدی غلامی میں دھکیل دیں۔
آپ کی ازدواجی زندگی حتی بچوں کا پیدا ہونا بھی حکومتوں سے مربوط ہے یعنی اگر آج ہی حکومت اعلان کر دے کہ کوئی بھی شخص شادی نہیں کر سکے گا یا اسکا نکاح درج نہیں ہوگا جب تک اتنا پیسہ ٹیکس نہ دے دے، یا فقط اتنے بچے پیدا کر سکتے ہیں اس سے زیادہ نہیں کیونکہ حکومت کے پاس آبادی کے لیے وسائل نہیں ہیں تو آپ مجبور ہیں اپنی ازدواجی و انفرادی زندگی کو بھی محدود کریں۔
آپ کس انداز اور کس سوچ سے زندگی کرتے ہیں ہیں یہ بھی حکومتوں سے مربوط ہے، آپ کا رہن سہن، آپ کا دین اور اپکا کلچر حکومتوں کے مزاج پر منحصر ہے اگر آپ زندگی کے ہر شعبے سے منسلک کام کو حکومتوں سے مربوط کرنے لگ جائیں خود آپ اس ربط کو سمجھنے لگیں گے اور اسی وقت یہ بھی ضرور سوچیں کہ اگر اس حکومت کی جگہ پر کوئی اللہ کا نیک نمائندہ حاکمیت پر ہوتا تو اس وقت کیا ہوتا؟ 
امیرالمومنینؑ کے اس قول پر ایمان لانا ضروری ہے چاہے آپ ایمان نہ بھی لائیں عملی طور پر بہرحال حکومتیں آپ کے لیے آزمائش کا میدان ہیں، اگر رفاہ لے آئیں تو تب بھی اپکو رفاہ دے کر آزمائش میں ڈال دیں گی، اگر غربت میں دھکیل دیا تو یہ خود بہت بڑی آزمائش ہوگی حتی اگر الہی و اسلام کی حقیقی حکومت بھی قائم ہو جاۓ تب بھی آپ آزمائش سے نہیں چھٹکار حاصل کر سکتے خود امیرالمومنینؑ کی حکومت کا دورانیہ لے لیں اور اس وقت کے حالات پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ امیرالمومنینؑ کی حکومت میں بھی لوگ ازماۓ گئے اور بہت سخت طریقے سے آزماۓ گئے لیکن اس میں فرق یہ تھا کہ جو اس آزمائش سے سرخرو ہو کر نکلے وہ زمانے کے بہترین و سچے شیعہ بنے اور جو ناکام ہوۓ ابدی رسوائی ان کا نصیب بنی۔
امام خمینیؒ فرمایا کرتے تھے کہ آپ لوگ خود سوچ کر بتائیں حکومت کو حسینؑ جیسے اہل ترین، پاک ترین و عادل ترین انسان کے ہاتھ میں ہونا چاہیے یا یزید جیسے ناہل ترین، نجس ترین و فاسق ترین شخص کے ہاتھ میں؟ اگر آپ اس سوال کا جواب دینا چاہتے ہیں تو آپ کو حسینؑ کا ساتھ دینا ہوگا آپ حسینؑ سے غیرجانبدار نہیں ہو سکتے، اگر آپ یزید کے لشکر میں ہیں تو ویسے ہی ابدی ذلت ہے اور اگر دونوں سے خود کو جدا کر لیں تو تب بھی بچ نہیں سکتے کیونکہ یزید صرف دین کا اور امام کا ہی دشمن نہیں بلکہ عام گلی محلوں دفات میں کام کرنے والوں کا بھی دشمن ہے اور ایسا ہی ہوا، کربلا کے بعد ایسے افراد بھی قتل عام ہوۓ جو سمجھتے تھے کہ یزید کو ہم سے کیا کام؟ ہم تو غیر جانبدار ہی۔ اگر آپ نے خود کو اس سب سے جدا کر کیا اور کہا کہ میں غیر جانبدار ہوں مجھے کسی بھی حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں تو آۓ گا کوئی یزید جیسا حاکم اور آپ کو اس گروہ میں شامل کردے گا جس پر زیارت عاشورہ میں لعنت کی گئی ہے۔ کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ زیارت عاشورہ میں فقط قاتلین پر لعنت نہیں ہوئی بلکہ اس خاموش امت پر بھی لعنت کی گئی ہے جو یزید کے لشکر میں تو شامل نہ تھی لیکن امام حسینؑ کا بھی ساتھ نہ دیا۔
دین کے اندر غیرجانبداری اس معنی میں ہرگز نہیں پائی جاتی کہ آپ یہ کہنے لگ جائیں کہ اجتماعی امور میں، میں الگ تھلگ رہ لونگا اور کسی کو کچھ کہنوگا اور نا سنونگا۔ آپ خود آزما لیں، جنگلوں اور بیابانوں میں رہنا شروع کر دیں بالآخر ایک نا ایک دن یہی جنگل حکومتی اہلکاروں کے ہاتھوں کٹ جائیں گے اور جنگل کا ستیاناس کرنے کے بعد وہیں کوئی ٹاؤن یا سوسائٹی بنا دی جاۓ گی۔ بالآخر آپ حکومتوں کے ہاتھوں آزماۓ جائیں گے اس لیے دین نے واجب قرار دیا ہے کہ حکومت صرف الہی نمائندے کے ہاتھ میں ہونی چاہیے جو آپ کو آزماۓ تو کم از کم ابدی سعادت تک پہنچا دے، لیکن اگر اس کے برعکس کسی غیر الہی حکومت کے ہاتھوں آپ آزماۓ گئے تو سعادت کے چانس کم ہیں اور امت ساری اجتماعی ہلاکت میں جا گرے گی۔

 

 


حوالہ:

۱۔ نہج البلاغہ، حکمت ۴۴۰۔

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 10 October 21 ، 10:40
عون نقوی

رہبر معظم امام خامنہ ای:

آج آپ سوشل میڈیا پر درست اور صحیح افکار منتشر کر سکتے ہیں اور اپکو ان مسائل کا جواب دینا چاہیے اس طرح سے آپ واقعی طور پر جہاد کا فریضہ ادا کر سکتے ہیں۔ البتہ اس میں اصل قطعی یہ ہے کہ اخلاقی شیوہ کو اختیار کیا جاۓ، آج ہم سب کو اس میدان میں متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 September 21 ، 20:57
عون نقوی

اس بار آل سعود نے ملک میں لبرلزم کی ترویج کے لیے بدترین قسم کا کام انجام دیا ہے، 23 ستمبر سعودی عرب کے قومی دن کے موقع پر دیکھا گیا کہ فحاش رقاصہ کے گلے میں مقدس کلمات والا پرچم موجود ہے۔ 

یاد رہے کہ آج سے کچھ سال پہلے سعودی عرب میں اس پرچم کی بے حد تک تقدیس و تکریم کی جاتی تھی اور ہونی بھی چاہیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ مقدس کلمات کا احترام کرے اور انکی بے احترامی سے اجتناب کرے، خود سعودی عرب کا پرچم بھی اس طور پر مقدس ہو جاتا ہے اس لیے نہیں کہ یہ سعودی عرب کا پرچم ہے بلکہ ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ اگر کسی بھی کاغذ یا لباس پر مقدس کلمات خصوصا اسم باری تعالی لکھا ہو اس کا احترام کرے۔ لیکن جیسا کہ دیکھا جا رہا ہے کہ چند سالوں سے سعودی عرب میں بہت سے مقدسات کی حرمت کو بہت آسانی سے پائمال کیا جا رہا ہے وہیں پر چند دن پہلے یہ ویڈیو اور تصاویر نشر ہوئیں جس میں ایک رقاصہ نیم برہنگی کی حالت میں کلمہ طیبہ والا پرچم گلے میں لٹکاۓ ہوۓ رقص کر رہی ہے۔ تمام مسلمانوں کو بغیر کسی استثناء کے اس قبیح حرکت کی مذمت کرنی چاہیے۔ یہاں پر سعودی عرب یہ ہرگز نہیں کہہ سکتا کہ یہ ہمارے ملک کا پرچم ہے ہم جو چاہیں کریں! یقینا یہ ایک احمقانہ استدلال ہوگا اگر آپکے ملک کا پرچم ہے تو یا تو اس پر موجود کلمات کے تقدس کا خیال رکھیں اور اگر حرمت کا پاس نہیں رکھ سکتے تو پھر ان الفاظ کو وہاں سے حذف کر دیں۔ لیکن اس طرح سے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح نہیں کر سکتے۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 September 21 ، 20:53
عون نقوی

تہران یونیورسٹی کے شعبہ ریاضیات کے مدیر کہتے ہیں کہ ایک بین الاقوامی ریاضی کی کانفرنس میں ایران کے ریاضیدانوں کو دعوت تھی۔ جس میں ایران کے اہم اور بڑے مشہاہیر ریاضی دان شریک ہونے کے لیے جا رہے تھے۔

یہ استاد کہتے ہیں کہ مجھے بھی اس کنفرانس میں شرکت کی دعوت تھی جب ہم اس کنفرانس میں شرکت کے لیے روانہ ہوۓ تو ہوائی جہاز میں جہاں بڑے بڑے اساتید بیٹھے ہوۓ دکھائی دیے وہیں پر میں نے ایک عبا عمامہ میں ملبوس مولانا صاحب دیکھا۔ میں نے دل ہی دل میں کہا کہ یہ مولانا لوگ کہیں بھی ہماری جان نہیں چھوڑنے والے۔ میں قریب گیا اور کہا: مولانا صاحب یہ زیارتی قافلہ نہیں ہے! مولانا نے خندہ پیشانی سے جواب دیا کہ مجھے معلوم ہے۔ میں نے کہا یہ جہاز مکہ یا نجف کربلا نہیں جا رہا۔ مولانا نے ہنس کر کہا کہ یہ بھی مجھے علم ہے۔ تو میں نے کہا کہ ہم ایک انٹرنیشنل علمی کنفرانس میں شرکت کے لیے جا رہے ہیں اور یہ علمی کانفرنس فقہ و اصول کے موضوع پر نہیں بلکہ ریاضی کے موضوع پر ہے۔ مولانا نے کہا یہ بھی میرے علم میں ہے۔ اور مجھے اس کی دعوت تھی تو حاضر خدمت ہوا ہوں۔ ریاضی کے یہ برجستہ استاد کہتے ہیں کہ میں نے ریاضی کا ایک جدید اور پیچیدہ مسئلہ ایک کاغذ پر لکھا اور ان کے سامنے رکھ دیا۔ استاد کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ میں کنفرانس میں پیش کرنے جا رہا تھا۔ کاغذ پر مسئلہ لکھ کر مولانا کے آگے رکھا اور کہا کہ اس پر غور کریں اور اگر کچھ سمجھ آ جاۓ تو بتائیں۔ 

تہران یونیورسٹی کے یہ استاد کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں جا کر اپنی نشست پر لیٹ گیا۔ کچھ دیر بعد دیکھا تو مولانا صاحب بہت انہماک سے کاغذ پر کچھ لکھنے میں مصروف ہیں میں ان کے قریب گیا اور کہا کہ مولانا صاحب اگر سمجھ نہیں آ رہی تو کوئی بات نہیں بعد میں حل کر لیجیے گا، اور اگر حل ہو جاۓ تو مجھے فلاں جگہ ایران میں پہنچا دیں۔ میں بعد میں دوبارہ جا کر اپنی سیٹ پر سو گیا۔ کچھ دیر بعد بیدار ہوا تو دیکھتا ہوں کہ مولانا صاحب کے آگے چند صفحے موجود ہیں اور خود مولانا صاحب آرام سے مطمئن بیٹھے ہیں۔ میں مولانا کے قریب گیا اس سے پہلے کہ کچھ کہتا انہوں نے کہا کہ آپ کے مسئلہ کے چار راہ حل تھے تین کو یہاں پر لکھ دیا ہے اور چوتھا نہیں لکھا چونکہ سوال کی ساخت سے پتہ لگ رہا ہے کہ اس چوتھے جواب کا خود آپ کو علم ہے۔ تہران یونیورسٹی کے یہ سینئر استاد کہتے ہیں کہ میں مبہوت ہو کر رہ گیا۔ پھر مولانا نے کہا کہ ایک مسئلہ میں نے بھی لکھا ہے آپ کی خدمت میں اگر حل کر سکیں تو بتائیں میں حسن زادہ آملی ہوں قم میں رہتا ہوں۔ یہ استاد کہتے ہیں کہ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ یہ تو مشہور و معروف نابغہ شخصیت ہیں جن کو ذوالفنون کا لقب دیا گیا ہے، علوم جدیدہ اور غریبہ کے ماہر ہیں اور تقریبا تمام علوم میں صاحب نظر ہیں۔(۱)

 


منبع:

۱۔ سائٹ روشنگری۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 September 21 ، 21:04
عون نقوی

راوی خاطراتی که درپی می آید،از فضلای صاحب نام پاکستانی حوزه علمیه قم ویاران شهید علامه سید عارف حسین الحسینی است. حجت الاسلام والمسلمین سید جواد نقوی از تعاملات رهبر شهید شیعیان پاکستان با نظام اسلامی وبنیانگذار کبیر آن، خاطراتی فراوان وشنیدنی دارد که شمه ای از آن را در این گفت وشنود بازگفته است.امید آنکه مقبول افتد.

جنابعالی از چه مقطعی وچگونه با شهید علامه سید عارف حسین الحسینی آشنا شدید وچه خصالی را در ایشان برجسته دیدید؟

بسم الله الرحمن الرحیم. در اوایل پیروزی انقلاب اسلامی ایران، در مدرسه علمیه اسلام‌آباد ایشان را دیدم. در آن موقع ایشان هنوز چندان شناخته شده نبودند، اما آشنایی بیشترم با ایشان در سال 1981، در گردهمایی بزرگ شیعیان در اسلام‌آباد بود. در آن موقع رهبر شیعیان پاکستان، مرحوم مفتی جعفر حسین بود. شهید عارف الحسینی هم همراه با عده‌ای از مردم ایالت سرحد در آنجا بودند. گردهمایی بسیار باشکوهی بود و چند روزی هم ادامه پیدا کرد و نهایتاً هم علیه ضیاء الحق تظاهرات شد! او به‌تازگی شعار «نفاذ نظام اسلامی» را مطرح کرده بود و می‌خواست با این شعار یک تفکر منفی را رواج بدهد. مفتی جعفر حسین مخالفت خود را با این شعار مطرح کردند و قرار شد شیعیان به رهبری علمای شیعه، به مراکز دولتی بروند و در اعتراض به این شعار تحصن کنند! علمای بزرگ پاکستان که در این گردهمایی حضور داشتند، با این موضوع مخالفت کردند و گفتند: به این تربیت بین مردم و نیروهای نظامی و انتظامی درگیری و عده‌ای کشته می‌شوند. شهید عارف الحسینی در آن مقطع بیش از 40 سال نداشتند و از همه علمای حاضر در جمع جوان‌تر بودند. ایشان گفتند: «این چه حرفی است؟ اگر این‌طور باشد، خون شهدای کربلا به عهده کیست؟ همان کسانی که آن خونها به عهده‌شان بود، این خونها هم خواهد بود! مگر شما شک دارید در راه دین خدا مجاهدت می‌کنید؟ اصلا مسئولیت این خونها به عهده من است!» این حرکت باعث شد به‌رغم مخالفت‌ علمای حاضردر آن جلسه، تظاهرات صورت بگیرد و به نتیجه هم برسد. 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 25 September 21 ، 15:50
عون نقوی