بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ

اگر لوگ ظالم حکومتوں سے پرہیز کرنے لگیں تو آئمہ طاہرینؑ اور ان کى طرف سے معین کئے گئے فقہاء و مجتہدین عظام کے لیے خود بخود راہ کھل جائے گى۔ امام مہدىؑ کى توقیع مبارک کا اصل مقصد یہى تھا کہ لوگ ظالم بادشاہوں اور قاضیوں کے پاس نہ جائیں۔ امام مہدىؑ  نے اپنى توقیع سے ملتِ اسلام کو یہ بتا دیا کہ یہ لوگ تمہارے مرجع نہیں ہیں۔ خدا وندِ عالم نے ان حکمرانوں سے بچنے کا حکم دیا ہے کیونکہ اگر تم لوگ ان کے منکر ہو اور ان کو نالائق و ظالم سمجھتے ہو تو پھر ان کى طرف رجوع نہیں کرنا چاہیے۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ خمینیؒ، روح اللہ موسوی، حکومت اسلامى، ج۲، ص۱۸۔ 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 October 21 ، 10:16
عون نقوی

امام محمد باقر علیہ السلام

متن عربی:

أَنْتُمُ اَلَّذِینَ اِجْتَنَبُوا اَلطّٰاغُوتَ أَنْ یَعْبُدُوهٰا  وَمَنْ أَطَاعَ جَبَّاراً فَقَدْ عَبَدَهُ.

اردو ترجمہ:

تم وہ لوگ ہو جنہوں نے طاغوت کی پرستش و عبادت سے اجتناب کیا۔ جس شخص نے ظالم جابر کی اطاعت و فرمانبرداری کی اس نے اس کی عبادت و بندگی کی۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار علیہم السلام، ج۲۳، ص۳۶۱۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 October 21 ، 10:11
عون نقوی

امام خمینى رضوان اللہ تعالی علیہ

جب کہاجاتاہے کہ جو ولایت رسول اکرمﷺاور آئمہ طاہرینؑ کو حاصل تھى وہ ولایت زمانہ غیبت میں ایک عادل فقیہ کو بھى حاصل ہے تو اس سے کسى کو بھى یہ گمان پیدا نہیں ہونا چاہئے کہ جو مقام و مرتبہ اور فضیلت رسول اللہﷺ اور آئمہ اطہارؑ کو حاصل تھا وہى رتبہ فقیہ کو بھى حاصل ہے۔

(نہیں، ایسا ہر گز نہیں ہے) کیونکہ یہاں بات مقام و مرتبہ کى نہیں ہو رہى بلکہ بات وظیفہ کى ہورہى ہے۔ ولایت فقیہ میں ولایت سے مراد (آئمہ اطہارؑ کے مقام و مرتبہ والی ولایت مراد نہیں ہے) یعنى حکومت، ایک مملکت کی مدیریت اور شریعت مقدس کے قوانین کو جاری کرنا ہے۔

پس حکومت کو اسلامی قوانین کے مطابق چلانا، اس کی مدیریت کرنا اور شریعت مقدس کے قوانین کا اجرا ایک فقیہ کا اسی طرح وظیفہ ہے جس طرح سے کہ رسول اللہﷺ اور آئمہ طاہرینؑ کا وظیفہ ہے۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ حکومت اسلامى و ولایت فقیہ در اندیشہ امام خمینىؒ، ص:۱۲۴۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 October 21 ، 10:00
عون نقوی

امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ

انبیاء علیہ السلام کا ہدف و ذمہ دارى فقط فقہى احکام بیان کرنا نہیں ، ایسی بات نہیں کہ مسائل اور فقہى احکام وحى کے ذریعے  رسول اکرمﷺ پرنازل ہوۓ ہیں انہوں نے اور آئمہ اطہارؑ نے ان مسائل کو بیان کرنا ہے۔ یعنى خداوند متعال نے ان کو بس اس لئے مبعوث کیا ہے کہ مسائل و فقہى احکام کو بغیر کسى سستى کے عوام تک پہنچا دیں۔ اور اہل بیت ؑ نے اس ذمہ دارى کو علماءکرام کے سپرد کر دیا کہ وہ بھى اس امانت کو عوام الناس تک بغیر کسى خیانت کے پہنچائیں۔ ’’الفقھاء امنا الرسل‘‘ کا مطلب فقط یہ نہیں کہ فقہاء کرام و علماء کرام مسائل و احکام پہنچانے میں انبیاء کے امین ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ علماء و فقہاء کرام اساسى ترین وظیفہ پیامبران یعنى ایک ایسا اجتماعى نظام جو عدل کى بنیادوں پر قائم ہے اس کو معاشروں میں برقرار کرنے میں امین ہیں۔اسى مطلب کى طرف قرآن کریم میں بھى اشارہ موجود ہے۔ 

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ.
(الحدید : ۲۵)

ترجمہ:

بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔  حکومت اسلامى و ولایت فقیہ در اندیشہ امام خمینىؒ، ص:۸۷۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 October 21 ، 09:47
عون نقوی

امام جعفر صادق علیہ السلام

متن عربی:

مَرَّ عیسَى بنُ مریمَ علیه السلام على قَریَةٍ قد ماتَ أهلُها . . .فَقالَ : یا أهلَ هَذهِ القَریَةِ !فَأجابَهُ مِنهُم مُجیبٌ : لَبَّیکَ یا رُوحَ اللّه ِ و کَلِمَتَهُ ، فَقالَ : وَیحَکُم! ما کانَت أعمالُکُم ؟ قالَ : عِبادَةُ الطاغوتِ و حُبَّ الدنیا ··· قالَ : کیفَ کانَت عِبادَتُکُم لِلطاغوتِ ؟ قالَ : الطاعةُ لأِهلِ المَعاصِی.

اردو ترجمہ:

عیسی بن مریم علیہ السلام ایک آبادی سے گزرے کہ جہاں سب لوگ مرے ہوۓ تھے ، آپ نے فرمایا! اے اس آبادی والو !! یہ سن کر ان میں سے ایک نے جواب دیا:
لبیک اے روح خدا !! اے کلمہ خدا !!
آپ ع نے فرمایا: تم لوگوں پر واۓ ہو تم لوگوں کے کیا اعمال تھے تو اس نے عرض کی: ہم لوگ طاغوت کی بندگی اور دنیا کی دوستی اختیار کرتے تھے۔
آپ ع نے پھر پوچھا کہ طاغوت کی بندگی کیسے کرتے تھے ؟؟
اس نے جواب دیا: ہم لوگ گنھکار لوگوں کی فرمانبرداری کرتے تھے۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۲، ص۳۱۹، باب حب الدنیا و الحرص ، حدیث: ۱۱۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 October 21 ، 09:40
عون نقوی