بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

رہبر معظم سید علی خامنہ ای دام ظلہ العالی

اردو ترجمہ

فرعون حضرت موسیؑ کے مقابلے میں ظاہری طور پر زیادہ قدرت رکھتا تھا، اس کے پاس اسبابِ زینت، اموال، استعداد، اسلحہ، پیسہ، اور بہت سے وسائل تھے جبکہ حضرت موسیؑ کے پاس ظاہرا ان میں سے کچھ بھی نہ تھا، لیکن حضرت موسیؑ نے خدا سے درخواست کی استغاثہ بلند کیا تو خداوند متعال نے جواب دیا: قالَ قَد اُجیبَت دَعوَتُکُما؛ تم دو نفر کی دعا قبول ہوئی لیکن ایک شرط پر، اور وہ شرط یہ ہے: فَاستَقیما وَ لَا تَتَّبِعانِ سَبیلَ الّذین لا یعلمون؛ استقامت دکھاؤ۔
استقامت جنگ کے میدان میں اور طریقہ سے ہے، سیاسی میدان میں استقامت کا محور کچھ اور ہے، اور ارادوں کے میدان میں استقامت کسی اور معنی میں ہے ان سب امور میں استقامت کی ضرورت ہے۔ اگر قومیں، ان کے سربراہان اور ان قوموں کے قابل افراد استقامت کو ترک نہ کریں ان ضعیف کر دی گئی قوموں کو بھی فتح و کامرانی نصیب ہو سکتی ہے۔ جی ہاں! آج امت اسلامی کے آگے دشمن نے جنگی صف بندی آمادہ  کر لی ہوئی ہے، امریکا، عالمی استکبار، اور ان کے پیروکار، صیہونیت اور ان کا نظام، مرتجعین، عالمی سرمایہ دار طبقہ، اور شہوت ران طبقوں نے اسلام اور رسول اللہ ﷺ کے راستے کے برخلاف صف بندی کر لی ہے اِنَّکَ ءاتَیتَ فِرعَونَ وَ مَلَاہُ زِینَةً وَ اَموَالاً فِی الحَیوة الدُنیَا؛ آج کے فرعون یہی ہیں، آج کا فرعون امریکا ہے، آج کا فرعون صیہونیت ہے، آج کا فرعون ان کے پیروکار ہیں جنہوں نے اسلامی مناطق میں جنگ ایجاد کر رکھی ہے اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بنا دیں۔
آج امریکا کا منصوبہ یہ ہے، اس کی طرف سب کو متوجہ رہنا ہوگا اور جاننا ہوگا، خود امریکی سیاستدان اس بات کا چاہتے اور نا چاہتے ہوئے اپنے اعترافات کی اظہار کر چکے ہیں کہ ہمیں چاہیے کہ مغربی ایشیاء میں جنگ ایجاد کرنی چاہئے، ان علاقوں میں اختلاف اور دشمنی ایجاد کر کے ان کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بنانا ہوگا، تاکہ یہ ایک دوسرے کو مارتے رہیں اور صیہونی ریاست امن میں رہے۔ ان کو پسماندہ رکھا جائے کبھی ترقی حاصل نہ کر سکیں اور اس قدر ایک دوسرے کو ماریں کہ بے حال ہو کر رہ جائیں، ضعیف ہو جائیں قدرت و استقامت نہ دکھا سکیں۔

متن اصلی

فرعون در مقابل حضرت موسیٰ یک قدرت فائقه‌ای(۷) بود؛ زینت، اموال، استعداد، سلاح، پول، همه چیز در اختیار او بود؛ موسیٰ دست‌تنها بود؛ از خدای متعال درخواست کرد، استغاثه کرد؛ خداوند متعال در جواب فرمود: قالَ قَد اُجیبَت دَعوَتُکُما؛(۸) دعای شما دو نفر را -موسیٰ و هارون را- ما قبول کردیم، مستجاب کردیم، امّا شرط دارد: فَاستَقیما وَ لا تَتَّبِعآنِّ سَبیلَ الَّذینَ لا یَعلَمون؛(۹) بِایستید، استقامت کنید. استقامت در میدان جنگ نظامی یک‌جور است، در میدان جنگ سیاسی یک‌جور است، در میدان جنگ اراده‌ها یک‌جور است؛ در همه‌ی اینها استقامت لازم است. اگر ملّتها و زبدگان و نخبگان استقامت را فراموش نکنند، قطعاً پیروزی نصیب خواهد شد. بله، امروز در مقابل امّت اسلامی صف کشیده‌اند؛ آمریکا، استکبار جهانی و دنباله‌هایشان، صهیونیسم، رژیم صهیونیستی، مرتجعین، پول‌پرستان عالم، شهوت‌رانانِ میان مسلمانان که وابسته‌ی به آن قدرتها هستند، اینها همه در مقابل اسلام، در مقابل راه پیغمبر صف کشیده‌اند؛ اِنَّکَ ءاتَیتَ فِرعَونَ وَ مَلَاَهُ زینَةً وَ اَموالًا فِی الحَیوٰةِ الدُّنیا؛ بله، امروز فرعون اینها هستند؛ فرعون، امروز آمریکا است؛ فرعون، امروز رژیم صهیونیست است؛ فرعون، همین دنباله‌روهای اینها هستند در منطقه که بتدریج میخواهند مسلمانها را به جان هم بیندازند و در منطقه جنگ ایجاد کنند که امروز این نقشه‌ی آمریکا است؛ این را همه توجّه داشته باشند، همه بدانند. خود سیاستمداران آمریکایی در تحلیل‌هایشان، در حرفهایشان، خواسته یا ناخواسته اعتراف کردند که باید در منطقه‌ی غرب آسیا جنگ ایجاد کنیم، اختلاف ایجاد کنیم، اینها را به جان هم بیندازیم؛ برای اینکه رژیم صهیونیستی در حاشیه‌ی امن قرار بگیرد، راحت باشد؛ برای اینکه اینها نتوانند پیشرفت کنند؛ برای اینکه از جسم امّت اسلامی آن‌قدر خون برود که بی‌حال بشود، ضعیف بشود، قدرت ایستادگی نداشته باشد.(۱)

 


حوالہ:

آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 October 21 ، 19:23
عون نقوی

امریکی و اسرائیلی اخراجات اور اسلحہ کی پشت پناہی، بن سلمان کی اسلامی فوج کے مقابلے میں نامساوی جنگ، فقر و فلاکت کے باجود یمنی عوام کے ان سخت حالات میں جشن ولادت رسول اللہ اعظم کے موقع پر با شکوہ مراسم، ان لاکھوں لوگوں نے رسول اللہ ص کی محبت میں نکل کر پوری دنیا کے لئے ثابت کردیا کہ اس امت کی رسول اللہ ص سے محبت کس حد تک پائیدار و مستحکم ہے، اور اسی محبت کا نتیجہ ہے کہ جس نے سالوں سے ظالم و فاسق طاغوتوں کے سامنے ان کے اندر استقامت پیدا کی۔

ان لوگوں کے پاس بن سلمان کی طرح نا تو مال دنیا ہے، نا امریکی و اسرائیلی اسلحہ اور نا ہی کسی نام نہاد سپر پاور سے ان کے تعلقات ہیں لیکن ان کے پاس دین ہے، عزت ہے، استقلال اور آزاد لوگ ہیں کسی کو جرات نہیں ان کو دودھ دینے والی گاۓ قرار دے اور ان کا تمسخر اڑاۓ۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 October 21 ، 19:14
عون نقوی

رہبر معظم سید علی خامنہ ای دام ظلہ العالی

اردو ترجمہ

ہفتہ وحدت کے متعلق میری راۓ یہ ہے کہ امام راحل کے اس عظیم ابتکار کی اہمیت اب پہلے سے زیادہ کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ جن ایام میں ہمارے بزرگوار امام نے ہفتہ وحدت کا اعلان فرمایا تھا اور وحدت مذاہب اسلامی و فِرق اسلامی کو مختلف جہات عمومی و سیاسی اور اسی طرح سے اجتماعی کی بنا پر ضروری قرار دیا، ان دنوں بہت سے مخاطبین نے اس پیغام کی اہمیت کو درک نہ کیا۔ بلکہ بہت سے اسلامی ممالک کے مسؤولین و سربراہان نے اس کو اصلا نہیں سمجھا تھا کہ یہ پیغام کس مقدار اہمیت کا حامل ہے۔ بہت سے نہیں سمجھ سکے اور بعض ضد پر اتر آۓ، البتہ انہوں نے ذاتی اغراض کی بنا پر اس پیغام کی اہمیت کا انکار کیا۔ آج ہم اس پیغام کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں کیونکہ آج جو حوادث پیش آ رہے ہیں اور اسلامی ممالک میں جو اختلافات سامنے آ رہے ہیں، اور اسی طرح سے جو شام، عراق، لبیبا، یمن اور افغانستان میں ہو رہا ہے ان سب ممالک کے حوادث سے انسان سمجھ سکتا ہے کہ اسلامی ممالک میں وحدت کی کتنی ضرورت ہے۔ اس امت اسلامی کی یکپارچگی عنصر ذی قیمت ہے کہ جس کو امام نے لازمی قرار دیا اور تمام ممالک کے مسلمانوں سے درخواست کی، اور اگر اس درخواست پر عملی طور پر اقدامات ہوتے تو بہت سے ناگوار واقعات پیش نہ آتے۔

متن اصلی

راجع به هفته‌ی وحدت. بنده گمان میکنم امروز بیش از همیشه اهمّیّت این ابتکار بزرگ امام راحل آشکار شده است. آن روزی که امام بزرگوار هفته‌ی وحدت را اعلام کردند و وحدت مذاهب اسلامی و فِرَق اسلامی را در جهت‌گیری‌ها و در گرایشهای عمومی، سیاسی و اجتماعیِ خودشان اعلام کردند، آن روز خیلی از مخاطبین واقعی این پیام نتوانستند اهمّیّت این پیام را درک کنند؛ از جمله مسئولین خیلی از کشورهای اسلامی که اصلاً نفهمیدند چقدر این پیام حائز اهمّیّت است. خیلی‌ها هم نفهمیدند، خیلی‌ها هم لج کردند؛ یعنی به دنبال اغراض گوناگونی که داشتند، این پیام را ندیده گرفتند. امروز ما میفهمیم که این پیام چقدر مهم بوده. حوادثی که امروز اتّفاق افتاده، این اختلافات گوناگونی که میان کشورهای اسلامی اتّفاق افتاده، این حوادث هولناکی که در بعضی از کشورهای منطقه، در سوریه، در عراق، در یک برهه‌ای در لیبی، در یمن، و در افغانستان، از این اتّفاقاتی که در اینجاها افتاد انسان میفهمد که چقدر اتّحاد دنیای اسلام مهم بود و چقدر یکپارچگی امّت اسلامی عنصر ذی‌قیمتی بود که امام آن را اعلام کردند، آن را درخواست کردند، آن را مطرح کردند که اگر بود، بسیاری از این قضایا اتّفاق نمی‌افتاد.(۱)

 

 


حوالہ:

آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 October 21 ، 19:51
عون نقوی

بعض افراد کا اصرار ہے کہ ۹ ربیع الاول روز وفات خلیفہ دوم ہے اور اس کی مناسبت سے بعض نامتعارف مراسم برپا کرتے ہیں جو نا صرف علماء امامیہ کے فتاوی کے برخلاف ہے بلکہ تعلیمات آئمہ معصومینؑ کے بھی برخلاف ہے۔ اگرچہ دشمنان اہلبیت علیہم السلام سے برائت اور ان پر تبرا کرنا عین دین ہے اور قرآن و سنت کے مطابق ہے لیکن لعن کے مراسم برپا کرنا اور کسی بھی اسلامی فرقہ کے مقدسات کی توہین کرنا نا صرف مصلحت عمومی کے برخلاف ہے بلکہ اسلامی معاشروں کے امن و امان کے لیے بھی خطرناک ہے۔ 

خود اس امر کی تحقیق بھی ضروری ہے کہ آیا خلیفہ دوم ۹ ربیع الاول کو قتل ہوۓ؟ یا تاریخی منابع اہلسنت اور علماء امامیہ کا نظریہ کچھ اور ہے؟ کیونکہ مشہور قول کی بنا پر حضرت عمر ماہ ذی الحجہ میں قتل ہوۓ۔ اس تحریر میں چند شیعہ علماء کی اس بارے میں نظر اور اہلسنت منابع کی طرف مختصر اشارہ کیا گیا ہے۔

تاریخی منابع کے مطابق خلیفہ دوم سال ۲۳ ہجری ۲۳ ذی الحجہ کو مغیرہ بن شعبہ کے غلام ابو لؤلؤ کے خنجر سے مجروح ہوۓ۔ اور تین دن بعد یا ۲۹، اور ایک قول دیگر کے مطابق ۳۰ ذی الحجہ کو وفات پا گئے۔

شیخ مفیدؒ کا بیان

شیخ نے کتاب مسار الشیعہ میں نقل کیا ہے: 

فی الیوم السادس و العشرین سنة 23 ثلاث و عشرین من الهجرة طعن عمر بن الخطاب.... و فی التاسع و العشرین منه قبض.

عمر بن خطاب 26 ذی الحجہ سال ۲۳ ہجری کو زخمی ہوۓ اور اسی ماہ کے ۲۹ کو فوت ہوگئے۔ (۱)

سید بن طاؤوسؒ کا بیان

سید بن طاؤوس کتاب الاعمال مین ماہ ذی الحجہ کے اعمال کا تذکرہ کرتے ہوۓ بیان فرماتے ہیں کہ شیعہ کے بعض گروہ ۹ ربیع الاول کو خلیفہ دوم کی وفات کا دن سمجھتے ہیں جبکہ اس مطلب پر ان کے نزدیک کوئی تاریخی شواہد اس بات پر موجود نہیں۔(۲)

ابن ادریس حلیؒ کا بیان

ابن ادریس حلیؒ نے کتاب السرائر میں خلیفہ دوم کے ۹ ربیع الاول کو قتل کیے جانے کے قول کو سختی سے رد کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں: فی الیوم السادس و العشرین منه سنة ثلاث و عشرین من الهجرة طعن عمربن الخطاب و فی التاسع و العشرین منه قبض عمر بن الخطاب... و قد یلتبس علی بعض اصحابنا یوم قبض عمربن الخطاب فیظن انه یوم التاسع من ربیع الاول و هذا خطأ باجماع اهل التاریخ و السیر.

عمر بن خطاب 26 ذی الحجہ کو سال ۲۳ ہجری میں زخمی ہوۓ اور اسی ماہ کی ۲۹ کو ان کی وفات ہوئی۔ لیکن اس امر کو بعض ہمارے علماء نے مشتبہ کردیا اور انہوں نے سمجھا کہ عمر بن خطاب کی وفات ۹ ربیع الاول کو ہوئی، جبکہ یہ بات اہل تاریخ و سیرت کے اجماع کے مطابق خطا ہے۔(۳)

شیخ ابراہیم کفعمیؒ کا بیان

شیخ نے کتاب مصباح میں لکھا:

جمهور الشیعة یزعمون ان فیه قتل عمربن الخطاب و لیس بصحیح. من زعم ان عمر قتل فیه فقد اخطأ. و انما قتل عمر یوم الاثنین لاربع لیال بفین من ذی الحجة.

شیخ نے اس بات کو خطا قرار دیا ہے کہ عمر بن خطاب کا یوم وفات ۹ ربیع الاول ہے۔ (۴)

علامہ حلیؒ کا بیان

علامہ نے کتاب منتہی المطلب میں اسی مطلب کو درج کیا ہے:

طعن عمر بن الخطاب  سنته ثلث و عشرین من الهجرة و فی التاسع و العشرین منه قبض عمر بن الخطاب.

عمر بن الخطاب ۲۳ ہجری ذی الحجہ کے ۲۹ تاریخ کو فوت ہوۓ۔(۵)

 

اس کے علاوہ علماء اہلسنت کی اکثریت نے بھی اسی قول پر اجماع کیا ہے۔ بعض منابع کا یہاں پر ذکر کیا جا رہا ہے۔

امام بخاری کا بیان

بخاری نے کتاب التاریخ الکبیر میں لکھا ہے:

اصیب عمر رضی اللہ عنه یوم الاربعاء لاربع لیال بقین من ذی الحجة.

حضرت عمر نے 26 ذی الحجہ کو وفات پائی۔(۶)

طبری کا بیان

تاریخ طبری میں واضح طور پر بیان آیا ہے:

ثم توفی لیلة الاربعاء لثلاث لیال بقین من ذی الحجة سنة 23.

حضرت عمر نے بدھ کی رات ۲۷ ذی الحجہ ۲۳ ہجری کو وفات پائی۔(۷)

یعقوبی کا بیان

تاریخ یعقوبی میں وارد ہوا ہے:

فطعن عمر یوم الاربعاء لاربع لیال بقین من ذی الحجة سنة23.

حضرت عمر کو 26 ذی الحجہ ۲۳ ہجری کو بروز بدھ ضرب لگائی گئی۔(۸)

عمر بن شبہ النمیری البصری کا بیان

عمر بن شبہ تاریخ مدینہ میں لکھتے ہیں:

و مات یوم الاربعاء لاربع بقین من ذی الحجة.

حضرت عمر 26 ذی الحجہ کو فوت ہوۓ۔(۹)

ابن عساکر کا بیان

ابن عساکر نے تاریخ مدینہ دمشق میں حضرت عمر کی وفات ہجرت کے تئیسویں سال ماہ ذی الحجہ میں قرار دی۔(۱۰)

بلاذری کا بیان

بلاذری نے کتاب انساب الاشراف میں واقدی سے نقل کرتے ہوۓ لکھا:

طعن عمر بن الخطاب یوم الاربعاء لاربع لیال بقین من ذی الحجة سنة ثلاث و عشرین.

عمر بن خطاب ۲۶ ذی الحجہ سال ۲۳ ہجری کو فوت ہوۓ۔(۱۱)

اس کے علاوہ اہلسنت کے نامی گرامی بزرگ علماء نے جن میں

حسین مسعودی نے کتاب مروج الذہب ج۲ ص۱۳۵۲،

خلیفہ بن خیاط عصفری نے کتاب تاریخ خلیفہ بن خیاط ص۱۰۹،

ابو حنیفہ دینوری نے کتاب اخبار الطوال ص۱۳۹،

ابن شیبہ کوفی نے کتاب المصنف ج۸، ص۴۱،

ابن قتیبہ دینوری نے کتاب المعارف ص۱۸۳،

ابن اعثم کوفی نے کتاب فتوح ج۲، ص۲۳۲۹، 

طبرانی نے کتاب المعجم الکبیر ج۱، ص۷۰،

اور حاکم نیشاپوری نے کتاب المستدرک ج۳، ص۹۲ پر واضح طور پر لکھا ہے کہ خلیفہ دوم کی وفات ۲۳ ہجری ماہ ذی الحجہ کے آخری عشرے میں ہوئی۔

کثیر شیعہ سنی منابع کا اس بات پر جمع ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ۹ ربیع الاول کو خلیفہ دوم کی وفات کے دن سے مربوط کرنا کسی بھی طور پر ثابت نہیں۔

۹ ربیع الاول کا دن تشیع کے لیے شروع سے ہی اہمیت کا حامل دن تھا، اس دن کو اہل تشیع کے ہاں عید بیعت کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ بعض مفکرین کے مطابق یہ دن کسی بھی طور پر عید غدیر سے کم نہیں جس طرح سے ۱۸ ذی الحجہ کو امیرالمومنینؑ کی امامت کا رسمی اعلان ہوا اسی طرح سے ۹ ربیع الاول کو امام زمان عجل اللہ تعالی کی امامت کا رسمی آغاز ہوا۔ پس اس دن کو کسی بھی دوسری مناسبت سے مربوط کر کے بے رنگ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ دن امت کے لیے باعث وحدت و قوت ہونا چاہیے۔ بجاۓ یہ کہ اس دن ایسے مراسم کا انعقاد کیا جاۓ جو نا صرف تاریخ سے ثابت نہیں بلکہ امت اسلامی کے اندر تفرقے کا باعث ہیں۔ 

ذیل میں عصر حاضر کے چند شیعہ مراجع کے فتاوی کو ذکر کیا جا رہا ہے کہ جس میں واضح طور پر بیان ہوا ہے کہ مکتب تشیع میں کسی بھی ایسے مراسم کا انعقاد کرنا جائز نہیں جس میں اہلسنت برادران کے مقدسات کی توہین کی جاتی ہو۔

رہبر مسلمین جہان امام خامنہ ای کا بیان

کسی بھی مذہب کے مقدسات کی توہین نہیں کی جا سکتی۔ فرق نہیں پڑتا کوئی عمومی مجلس میں مقدسات کی توہین کرے یا خصوصی محافل میں۔ تمام اسلامی فرقوں کے مقدسات کی توہین و لعن طعن کے مراسم کا انعقاد کرنا درست نہیں۔(۱۲)

آیت اللہ العظمی سید علی حسینی سیستانی کا بیان

آپ نے ایک فقہی مسئلہ پوچھے جانے پر عمر بن خطاب، حضرت عائشہ پر دشنام کرنے کی شدت سے مخالفت کی اور فرمایا کہ یہ امر اخلاق و سیرت اہلبیتؑ کے برخلاف ہے۔(۱۳)

آیت اللہ العظمی آقای بہجت رحمۃ اللہ علیہ کا بیان

آیت اللہ بہجت نے ۹ ربیع الاول کو عیدالزہرا کے نام سے بعض مراسم اور ان کی انجام دہی پر فرمایا کہ اگر کوئی ایسا امر انجام پاۓ جس سے مقدسات اہلسنت کی توہین ہو اور یہ امر باعث بنے دوسرے ممالک میں رہنے والے اقلیتی شیعہ مصیبت میں پڑ جائیں یا ان کا خون بہایا جاۓ تو اس خون میں ہم بھی برابر کے شریک ہونگے۔ سب و شتم اور لعن طعن کے مراسم کی کوئی ضرورت نہیں۔(۱۴)

آیت اللہ العظمی آقای وحید خراسانی کا بیان

دین اسلام، دین رحمت و رسول اسلام، رسول رحمت ہیں۔ اس دین میں اور پیغمبر اکرمﷺ کی رفتار و سیرت میں حتی امیرالمومنینؑ کی زندگانی میں ہمیں ایسا کوئی مورد نہیں ملتا کہ جس طرح سے آج کل کے تکفیری تندرو انجام دیتے ہیں۔ سب شتم و لعن علنی جائز نہیں ہے اور آئمہ معصومینؑ کے دستور کے بھی خلاف ہے۔(۱۵)

در نتیجہ ۹ ربیع الاول کا دن خوشی اور عید کا دن ہے۔ یہ دن امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے عہد باندھنے اور ان سے تجدید بیعت کرنے کا دن ہے۔ اس دن کوئی بھی ایسا امر جو امت اسلامی کے اجتماعی مفاد کے برخلاف ہو انجام دینا خود امام زمانؑ کو غم و اندوہ میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے۔

 

 


حوالہ جات:

۱۔ شیخ مفید، محمد بن نعمان، مسارالشیعۃ، ج۱، ص۲۳۔

۲۔ سید بن طاؤوس، علی بن موسی، الاقبال بالاغمال الحسنۃ، ج۲، ص۳۷۹۔

۳۔ ابن ادریس حلی، محمد بن منصور، کتاب السرائر، ج۱، ص۳۱۹۔

۴۔ الکفعمی، شیخ ابراہیم، المصباح، ج۱، ص۵۱۱۔

۵۔ حلیؒ، ابو منصور جمال الدین حسن بن یوسف، منتہی المطلب، ج۲، ص۶۱۲۔

۶۔ بخاری، محمد بن اسماعیل، التاریخ الکبیر، ج۶، ص۱۳۸۔

۷۔ طبری، ابن جریر، تاریخ الطبری، ج۳، ص۲۶۵۔

۸۔ یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۱۵۹۔

۹۔ نمیری، عمر بن شبہ، تاریخ مدینہ، ج۳، ص۸۹۵۔

۱۰۔ ابن عساکر، ابوالقاسم علی بن حسن، تاریخ مدینہ دمشق، ج۴۴، ص۱۴۔

۱۱۔ بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف للبلاذری، ج۱۰، ص۴۳۹۔

۱۲۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۱۳۔ سائٹ ادیان نیٹ۔

۱۴۔ آفیشل ویب سائٹ آیت اللہ بہجت۔

۱۵۔ سائٹ تسنیم نیوز۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 October 21 ، 13:07
عون نقوی

بنو امیہ کا بدترین سفاک آمرانہ دوارن حکومت ختم ہوا تو بنو عباس بر سر اقتدار آگئے۔ بنو عباس نے انتقام خون اہلبیتؑ کا نعرہ لگایا اور اس وقت کے مسلمانوں اور بالخصوص شیعوں کو ورغلا کر اپنی طاغوتی حکومت کی بنیاد ڈالی۔ بنو عباس کی حکومت اگرچہ رفاہی طور پر ایک کامیاب حکومت تھی اور اس دور میں امت اسلامی نے مختلف شعبوں میں ترقی کی لیکن مکتب تشیع کی فکر کے مطابق ایک طاغوتی و غاصب حکومت تھی، دین دشمن، الحاد اور سیکولرزم کی حامی حکومت تھی۔ اور اسی حکومت نے گھرانہ اہلبیتؑ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ اس خاندان نے چھ آئمہ معصومینؑ کو شہید کیا۔ مکتب تشیع کے پیروان و شیعیان علی ابن ابی طالبؑ کو ہمیشہ دباؤ میں رکھا اور ان کو سرکوب کیا۔ بنو عباس نے تین امام ابتدائی جوانی کی عمر میں ہی شہید کر دیے، امام جوادؑ ۲۵ سال، امام ہادیؑ ۴۱ سال اور امام حسن عسکریؑ کو ۲۸ سال کی عمر میں ہی شہید کر دیا گیا۔ یعنی ۹۲ سال کے مختصر عرصہ میں تین آئمہ معصومینؑ اس سفاک خاندان کے ہاتھوں شہید ہوۓ۔

امام حسن عسکریؑ نے جس زمانے میں منصب امامت کو سنبھالا مکتب تشیع اور پیروان علی ابن ابی طالبؑ کے لیے سخت ترین دور تھا۔ بعض محققین کے بقول بقیہ آئمہ معصومینؑ کی نسبت امام عسکریؑ کا دور دو وجوہات کی بنا پر زیادہ سخت تھا۔ اولا اس بنا پر کہ آپؑ کے دور میں شیعہ عراق میں ایک عظیم قدرت بن کر ابھرے اور وقت کی حکومتوں کو نامشروع سمجھتے تھے۔ وہ معتقد تھے کہ اللہ تعالی کی جانب سے حقیقی الہی حاکم فرزندان امام علیؑ ہیں۔ صرف ان کو امت پر حاکمیت و امامت کا حق ہے اس کے علاوہ بقیہ سب حاکم غاصب ہیں اور ان کو امت پر حاکمیت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ مکتب تشیع کا ہر دور میں یہی نظریہ رہا ہے۔ دنیا میں شیعہ فرقہ وہ واحد فرقہ ہے جو سیاسی سوچ کی بنا پر دوسرے فرقوں سے جدا ہو جاتا ہے۔ اسی سوچ نے ۱۱ ہجری کو بھی امت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ جو لوگ خلیفہ اول حضرت ابوبکر کی بجاۓ امام علیؑ کو خلیفہ حق و منصوص من اللہ امام سمجھتے تھے وہ حقیقی معنی میں شیعہ قرار پاۓ اور جنہوں نے دوسرے خلفاء کو اپنا خلیفہ مان لیا وہ اہلسنت قرار پاۓ۔ یہ سوچ فقط امام علیؑ کے دور تک ہی محدود نہ تھی بلکہ ہر دور میں ہی شیعہ نے اپنے وقت کے حاکم کو تسلیم نہیں کیا بلکہ فقط اسی شخص کو اپنا حاکم، رہبر، رہنما و امام مانا جسے اللہ تعالی کی جانب سے حق حاکمیت حاصل تھا۔ یہی سوچ اور تفکر آج کے دور میں بھی ہے یعنی جو آج بھی امام برحق کے ہوتے ہوۓ کسی غیر الہی حاکم کو اپنا حاکم مان لے وہ حقیقی معنی میں وہی ۱۱ ہجری کے سنی کی طرح ہے اگرچہ خود کو شیعہ کہتا ہے اگر الہی حاکم کو اپنا حاکم مانتا ہے تو وہ شیعہ ہے۔ امام حسن عسکریؑ کے دور میں بھی اسی سوچ کی بنا پر شیعوں نے عراق میں اپنا زور پکڑا اور حکومت وقت کے خلاف مبارزہ شروع کیا۔ اور دوسری وجہ جس کی وجہ سے وقت کی ظالم و سفاک حکومت نے امام حسن عسکریؑ پر شدید دباؤ تھا وہ یہ تھی کہ امامؑ منجی عالم بشریت کے والد تھے۔ عباسی خلفاء نے متواتر روایات سن رکھی تھیں جن میں واضح الفاظ میں بیان ہوا تھا کہ مکتب تشیع کے بارہویں امام دنیا بھر کی ظالم و غاصب حکومتوں پر غلبہ پا جائیں گے۔ یہ خوف تھا اس وقت کی ظالم حکومت کو کہ کہیں وہ بارہواں نہ آ جاۓ اور اس حکومت کو گرا کر عدل و انصاف کی عالمی حکومت قائم کر دے۔ 

امام عسکریؑ نے تین عباسی خلفاء کا دور دیکھا۔ معتز، مہتدی، اور معتمد۔ ان تینوں نے بالترتیب امامؑ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن پہلے دو ناکام رہے اور معتمد کے دور میں امامؑ کو مسموم کر کے شہید کر دیا گیا۔ یہاں پر بعض افراد اعتراض کرتے ہیں کہ آپ کا یہ دعوی کرنا کہ مکتب تشیع کے رہبروں اور شیعوں نے ہمیشہ قیام کب کیا؟ فقط امام حسینؑ نے قیام کیا بعد میں آنے والے تو کسی بھی امام نے قیام نہیں کیا اور امت اسلامی کو طاغوتوں کے حوالے کر دیا۔ ایسا اعتراض کرنا فقط جاہلیت کی بنا پر ہے۔ اگر ہم کسی بھی امام کی زندگی کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں ہر امام کی زندگی میں اجتماعی و سیاسی فعالیتیں روشن طور پر نظر آتی ہیں۔ ان کا امام برحق ہونا اور امت کا ہادی و رہنما ہونا، صرف ان کا حق ہی نہیں بلکہ امت کی رہبری، رہنمائی اور ان کی امامت کرنا آئمہ معصومینؑ کا فریضہ تھا۔ اس لیے سب امام نے اپنے تئیں اور حالات کی مناسبت سے قیام کیا۔ بعض آئمہ معصومینؑ نے مسلحانہ قیام فرمایا اور بعض نے غیر مسلحانہ۔ لیکن یہ بات مسلم ہے کہ ہر امام حالت قیام میں ہی شہید ہوا ہے اور ایک لحظے کے لیے ظالم نظام کا حصہ نہیں بنے بلکہ اس کے خلاف مبارزہ کرتے ہوۓ شہید ہوۓ۔ امام عسکریؑ کو شہید کیا جانا اور حکومت وقت کی جانب سے ان پر شدید دباؤ اور ان کا تحت نظر رکھا جانا اس سب پر شاہد ہے۔

امام حسن عسکریؑ کو ان کے والد امام ہادیؑ کی موجودگی میں ہی حکومت وقت نے سامراء طلب کر لیا۔ مدینہ سے عراق کی طرف جبری طور پر حکومت کا ان اماموں کو منتقل کرنا حکمت سے خالی نہیں تھا۔ اس طرح سے وہ ایک طرح سے امام کو ان کی اجتماعی و سیاسی فعالیتوں سے محروم رکھنا چاہتے تھے اور دوسرا کام یہ مد نظر تھا کہ ان کو تحت نظر رکھا جاۓ۔ صرف تحت نظر رکھنا ہی کافی نہ تھا بلکہ امامؑ کو اسیر کر لیا گیا۔ تاریخ میں وارد ہوا ہے کہ خلیفہ معتز نے امامؑ کو احضار کیا اور انہیں اسیر کر لیا۔ امامؑ کو شہید کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اسی بنا پر اپنے مامور سعید حاجب کو حکم دیا کہ امام کو کوفہ کی طرف لے جاتے ہوۓ راستے میں قتل کر دے لیکن خود تین روز بعد ترکوں کے ہاتھوں ہلاک ہو گیا۔(۱)

 اس کے بعد مہتدی نے امامؑ کو اسیر کیا اور ان کے قتل کا حکم دیا، لیکن وہ بھی اس امر میں کامیاب نہ ہو سکا اور یہ بھی ترکوں کے ہاتھوں ہلاک ہو گیا۔(۲)  امامؑ کو دوران اسیری میں بھی آسودہ خاطر نہیں رہنے دیتے تھے۔ یعنی زندان میں بھی امامؑ پر جاسوس مقرر کیے ہوۓ تھے۔ تاکہ امام اگر کوئی خفیہ طور پر اجتماعی فعالیتیں انجام دیتے ہیں تو ان کا سدباب کیا جاسکے۔

ابو ہاشم داوود بن قاسم کہتے ہیں کہ ہم چند لوگ زندان میں اسیر تھے۔ امام عسکریؑ کو بھی اسی زندان میں اسیر کر کے لایا گیا۔ ہم لوگ عرض ادب و سلام کرنے امام کی خدمت میں حاضر ہوۓ۔ اسی زندان میں ایک جمحی نامی شخص بھی اسیر تھا جو دعوی کرتا تھا کہ علویوں میں سے ہے۔ امام نے اس کے بارے میں ہمیں متنبہ کیا کہ وہ شخص تم میں سے نہیں ہے بلکہ اس سے بچ کر رہو کیونکہ وہ جاسوس ہے اور یہاں پر ہماری جاسوسی پر مامور ہے۔ بعد میں ہم میں سے ایک شخص نے اس کی تفتیش کی تو اس کے لباس میں ایک نوشتہ چھپا ہوا ملا جس میں اہم ترین و خطرناک مطالب لکھے ہوۓ تھے۔(۳)  اس طرح کے واقعات بتاتے ہیں کہ حتی امامؑ کو زندان میں بھی تحت نظر رکھا ہوا تھا۔ 

احمد بن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ ایک دن امامؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ کچھ ایسا لکھ کر دیں جس سے مجھے علم ہو جاۓ کہ آپ کا خط کیسا ہے تاکہ بعد میں اگر آپ کی طرح سے کوئی نوشتہ ملے تو یقین ہو جاۓ کہ آپ کی طرف سے ہی ہے اور کسی نے جعلی نوشتہ نہیں بنایا۔ امامؑ نے فرمایا کہ میرا خط کبھی باریک قلم سے لکھا ہوگا اور بعض جگہ موٹے خط میں اگر اس طرح کا کوئی خط پاؤ تو سمجھ جانا۔ (۴)

یقینا اس طرح کا خوف اور ڈر کسی عام انسان سے نہیں ہو سکتا۔ یعنی جس کے والد کو بھی شہید کیا گیا اور خود بھی عین جوانی کی عمر میں تحت نظر ہے اور اسے کسی بھی اجتماعی اور سیاسی فعالیت کرنے سے محدود رکھا گیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ واقعی طور پر حکومت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ عباسی خلفاء اس ڈر میں اپنی ناجائز حکومت کو بچانے کے لیے ایک جہت سے حق بجانب تھے۔ چند اہم ترین وجوہات تھیں جن کی بنا پر حکومت وقت امام عسکریؑ سے شدید خوف کا شکار تھی۔
پہلی وجہ مکتب تشیع کا پھیلاؤ تھا۔ علویوں کے پے در پے قیام عباسی حکومت کے لیے بہت بڑا خطرہ بنتے جا رہے تھے۔ اور عباسی خلفاء اس بات سے ڈرتے تھے کہ اگر ان قیاموں کی رہبری اگر علویوں کے حقیقی رہبر کے ہاتھ میں آ گئی تو کام تمام ہے۔ امام عسکریؑ کے دور میں علویوں کے جانب سے چند قیام ہوۓ۔

۱۔ علی بن زید و عیسی بن جعفر کا قیام

یہ دونوں بزرگوار امام حسن مجتبیؑ کی اولاد میں سے تھے۔ ۲۵۵ ہجری میں کوفہ میں قیام کیا۔(۵)

۲۔ علی بن زید بن حسین کا قیام

آپ امام حسینؑ کی اولاد میں سے ہیں۔ مہتدی عباسی کے دور میں کوفہ میں قیام کیا۔(۶)

۳۔ احمد بن محمد بن عبداللہ کا قیام

آپ نے معتمد عباسی کے دور میں مصر میں برقہ و اسکندریہ کے درمیان قیام کیا۔(۷) اس کے علاوہ دیگر قیام بھی علویوں کی جانب سے یا علویوں کے نام پر اس دوران ہوۓ۔ ان میں سے ایک صاحب زنج کا قیام ہے جس کی رہبری علی بن محمد نے کی۔ امام حسن عسکریؑ نے واضح طور پر اس کے قیام سے اظہار بیزاری فرمایا۔(۸)

دوسری وجہ کہ جس کی وجہ سے عباسی خلفاء امامؑ سے شدید خوف میں تھے وہ امت کا امام کی طرف میلان تھا۔ امت مسلمہ اپنا حقیقی رہبر امام کو ہی مانتی تھی اور اسی بنا پر اپنے انفرادی و اجتماعی مسائل کے حل کے لیے امام کی طرف رجوع کرتی تھی۔ بھاری مقدار میں شرعی اموال امام کی خدمت میں پیش کیا جاتا تھا بعنوان مثال آپؑ نے ایک دفعہ ایک لاکھ دینار ( ایک لاکھ مثقال سونا) اپنے مورد اعتماد صحابی علی بن جعفر ہمدانی کو دیا اور فرمایا کہ اس سب مال کو حج کے موقع پر مستمندوں اور شیعوں میں تقسیم کر دو۔(۹)  شرعی اموال کا امام تک پہنچنا اور امام کا اقتصادی طور پر شیعوں کو قوی کرنا بھی ایک خطرہ تھا جس سے عباسی بہت ڈرتے تھے۔ اور جانتے تھے کہ اگر پیروان حسن عسکریؑ اقتصادی طور پر قوی ہو گئے اور امام کے پاس اتنے اموال موجود ہوں تو حکومت کے لیے خطرہ کا باعث بن سکتے ہیں۔

در نتیجہ کہا جا سکتا ہے کہ امام حسن عسکریؑ نے اپنی قلیل مگر بابرکت زندگی میں ایک لحظے کے لیے بھی امت اسلامی کی امامت و رہبری سے ہاتھ نہیں کھینچا۔ امت کی حقیقی معنی میں رہبری کی اور انہیں اسلام کے حقیقی معارف سے آگاہ کیا، ظالم حکومتوں کے خلاف بر سرپیکار رہے اور اسی حالت میں ۸ ربیع الاول ۲۶۰ ہجری کو شہید ہوۓ۔ والد گرامی امام ہادیؑ کے جوار میں سامراء میں مدفون ہوۓ۔ 

 

 


حوالہ جات:

۱۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۵۰، ص۳۱۳۔

۲۔ طوسی، محمد بن حسین، الغیبۃ،ص۱۳۴۔

۳۔ شیخ طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ص۳۷۳۔

۴۔ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج۴، ص۴۳۳۔

۵۔ مسعودی، مروج الذہب، ج۴، ۹۴۔

۶۔ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۷، ص۲۳۹۔

۷۔ مسعودی، مروج الذہب، ج۴، ص۱۰۸۔

۸۔ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج۳، ص۵۲۹۔

۹۔ شیخ طوسی، محمد بن حسن، الغیبۃ، ج۱، ص۳۱۸۔

۱ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 October 21 ، 11:08
عون نقوی