رہبر مسلمین جہان امام خامنہ ای کے ہفتہ وحدت کی مناسبت سے فرامین (۲)
رہبر معظم سید علی خامنہ ای دام ظلہ العالی
اردو ترجمہ
فرعون حضرت موسیؑ کے مقابلے میں ظاہری طور پر زیادہ قدرت رکھتا تھا، اس کے پاس اسبابِ زینت، اموال، استعداد، اسلحہ، پیسہ، اور بہت سے وسائل تھے جبکہ حضرت موسیؑ کے پاس ظاہرا ان میں سے کچھ بھی نہ تھا، لیکن حضرت موسیؑ نے خدا سے درخواست کی استغاثہ بلند کیا تو خداوند متعال نے جواب دیا: قالَ قَد اُجیبَت دَعوَتُکُما؛ تم دو نفر کی دعا قبول ہوئی لیکن ایک شرط پر، اور وہ شرط یہ ہے: فَاستَقیما وَ لَا تَتَّبِعانِ سَبیلَ الّذین لا یعلمون؛ استقامت دکھاؤ۔
استقامت جنگ کے میدان میں اور طریقہ سے ہے، سیاسی میدان میں استقامت کا محور کچھ اور ہے، اور ارادوں کے میدان میں استقامت کسی اور معنی میں ہے ان سب امور میں استقامت کی ضرورت ہے۔ اگر قومیں، ان کے سربراہان اور ان قوموں کے قابل افراد استقامت کو ترک نہ کریں ان ضعیف کر دی گئی قوموں کو بھی فتح و کامرانی نصیب ہو سکتی ہے۔ جی ہاں! آج امت اسلامی کے آگے دشمن نے جنگی صف بندی آمادہ کر لی ہوئی ہے، امریکا، عالمی استکبار، اور ان کے پیروکار، صیہونیت اور ان کا نظام، مرتجعین، عالمی سرمایہ دار طبقہ، اور شہوت ران طبقوں نے اسلام اور رسول اللہ ﷺ کے راستے کے برخلاف صف بندی کر لی ہے اِنَّکَ ءاتَیتَ فِرعَونَ وَ مَلَاہُ زِینَةً وَ اَموَالاً فِی الحَیوة الدُنیَا؛ آج کے فرعون یہی ہیں، آج کا فرعون امریکا ہے، آج کا فرعون صیہونیت ہے، آج کا فرعون ان کے پیروکار ہیں جنہوں نے اسلامی مناطق میں جنگ ایجاد کر رکھی ہے اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بنا دیں۔
آج امریکا کا منصوبہ یہ ہے، اس کی طرف سب کو متوجہ رہنا ہوگا اور جاننا ہوگا، خود امریکی سیاستدان اس بات کا چاہتے اور نا چاہتے ہوئے اپنے اعترافات کی اظہار کر چکے ہیں کہ ہمیں چاہیے کہ مغربی ایشیاء میں جنگ ایجاد کرنی چاہئے، ان علاقوں میں اختلاف اور دشمنی ایجاد کر کے ان کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بنانا ہوگا، تاکہ یہ ایک دوسرے کو مارتے رہیں اور صیہونی ریاست امن میں رہے۔ ان کو پسماندہ رکھا جائے کبھی ترقی حاصل نہ کر سکیں اور اس قدر ایک دوسرے کو ماریں کہ بے حال ہو کر رہ جائیں، ضعیف ہو جائیں قدرت و استقامت نہ دکھا سکیں۔
متن اصلی
فرعون در مقابل حضرت موسیٰ یک قدرت فائقهای(۷) بود؛ زینت، اموال، استعداد، سلاح، پول، همه چیز در اختیار او بود؛ موسیٰ دستتنها بود؛ از خدای متعال درخواست کرد، استغاثه کرد؛ خداوند متعال در جواب فرمود: قالَ قَد اُجیبَت دَعوَتُکُما؛(۸) دعای شما دو نفر را -موسیٰ و هارون را- ما قبول کردیم، مستجاب کردیم، امّا شرط دارد: فَاستَقیما وَ لا تَتَّبِعآنِّ سَبیلَ الَّذینَ لا یَعلَمون؛(۹) بِایستید، استقامت کنید. استقامت در میدان جنگ نظامی یکجور است، در میدان جنگ سیاسی یکجور است، در میدان جنگ ارادهها یکجور است؛ در همهی اینها استقامت لازم است. اگر ملّتها و زبدگان و نخبگان استقامت را فراموش نکنند، قطعاً پیروزی نصیب خواهد شد. بله، امروز در مقابل امّت اسلامی صف کشیدهاند؛ آمریکا، استکبار جهانی و دنبالههایشان، صهیونیسم، رژیم صهیونیستی، مرتجعین، پولپرستان عالم، شهوترانانِ میان مسلمانان که وابستهی به آن قدرتها هستند، اینها همه در مقابل اسلام، در مقابل راه پیغمبر صف کشیدهاند؛ اِنَّکَ ءاتَیتَ فِرعَونَ وَ مَلَاَهُ زینَةً وَ اَموالًا فِی الحَیوٰةِ الدُّنیا؛ بله، امروز فرعون اینها هستند؛ فرعون، امروز آمریکا است؛ فرعون، امروز رژیم صهیونیست است؛ فرعون، همین دنبالهروهای اینها هستند در منطقه که بتدریج میخواهند مسلمانها را به جان هم بیندازند و در منطقه جنگ ایجاد کنند که امروز این نقشهی آمریکا است؛ این را همه توجّه داشته باشند، همه بدانند. خود سیاستمداران آمریکایی در تحلیلهایشان، در حرفهایشان، خواسته یا ناخواسته اعتراف کردند که باید در منطقهی غرب آسیا جنگ ایجاد کنیم، اختلاف ایجاد کنیم، اینها را به جان هم بیندازیم؛ برای اینکه رژیم صهیونیستی در حاشیهی امن قرار بگیرد، راحت باشد؛ برای اینکه اینها نتوانند پیشرفت کنند؛ برای اینکه از جسم امّت اسلامی آنقدر خون برود که بیحال بشود، ضعیف بشود، قدرت ایستادگی نداشته باشد.(۱)
حوالہ: