بصیرت اخبار

۵ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «امریکہ» ثبت شده است

آزادی کا ڈھونگ رچانے والے

اب تک ہم نے اسلام کے انسان کی اندرونی، بیرونی، انفرادی اور اجتماعی آزادی کے بارے نظریات کو جانا۔ اب دیکھتے ہیں ان افراد کی تاریخ اور وہ سیاہ کارنامے کہ جو اب دعوے دار ہیں کہ اسلام، آزادی اور حقوقِ بشر کے متضاد نظریات رکھتا ہے، جبکہ ہم آزادی اور حقوق بشر کے علمبردار ہیں۔ عملی طور پر ہم دیکھتے ہیں وہ لوگ جو اسلام کو آزادی کے متضاد سمجھتے ہیں، انہوں نے ’’ماڈرن غلامی‘‘ کو اجراء کیا ہے۔ ماڈرن غلامی کیسے بھلا؟ یعنی ماضی کی طرح لوگوں کو غلام بنانا لیکن اور طریقے سے، جنگ عظیم دوم میں جب یورپ بھرپور ترقی کر چکا تھا اور غلامی کو لغو کرنے کا دعوے دار تھا، اسی یورپ نے کئی ملین افراد کو آوارہ کیا، لاکھوں لوگوں کو اسیر کیا، غلامی سے بدتر افراد کو برباد اور آوارہ کیا۔ نمونے کے طور پر ’’الجزائر‘‘ کا نام پیش کیا جا سکتا ہے کہ جس کو فرانس نے بدترین شکل میں تباہ و برباد کیا اور اس ملک کو اپںا مستعمرہ قرار دیتے ہوۓ ظلم ڈھاۓ۔ کیا یہ غلامی نہیں؟ کیا لوگوں کو قتل و غارت کی بھینٹ چڑھانا، اسارت میں لینا، ان کے اموال کو غارت کرنا اور ان کے غنائم کو چرا کر لے جانا آزادی ہے؟ یہ کسی کو غلام بنانا نہیں تو اور کیا ہے؟ جنگ عظیم میں بہت سے ملکوں کو لوٹا اور حقیقت میں ان کو اپںا غلام بنایا گیا۔ ممالک سے ان کا استقلال چھینا ان کی آزادی چھینی اور بری طرح سے استعمار کیا۔

ایران میں استعماریت

خود ایران میں جنگ عظیم ثانی کے بعد شاہِ ایران رضا خان کو انہوں نے ہٹا کر اس کے بیٹے کو بٹھایا، اور اس کے ذریعے بدترین طریقے سے ایرانی قوم کو لوٹا اور ان کے مال و متاع پر شب خون مارا۔ یہ شاہ ایک کٹھ پتلی کی طرح ان کے انگلیوں کے اشاروں پر ناچتا۔ یہ استعماری طاقتیں ایران میں دلسوزی کے عنوان سے آئیں، شمالِ ایران پر سوویت یونین قابض ہو گئی اور مغرب اور جنوب میں امریکی اور برطانوی۔ دوستی اور صلح کے عنوان سے ملک میں داخل ہوۓ اور کہا کہ شاہ کے جانے کے بعد ملک میں امنیت کو بحال کرنے کے لیے ہم آپ کی مدد کرنے کے لیے آۓ ہیں لیکن بدترین طریقے سے ایران کو غارت کیا۔ ایرانی عوام کے اندر اسلامی فرہنگ، اسلامی آداب و رسوم، کو تبدیل کر کے رکھ دیا اور معدنیات کو بھی بری طرح سے لوٹا۔ ایران کا شمال کہ جہاں پر سوویت یونین کے کمانڈوز مستقر تھے، کسی تہران کے باشندے کا اس علاقے میں جانا اتنا سخت کر دیا گیا کہ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کسی اور ملک میں داخل ہو رہے ہوں، یہاں تک کہ اس نالائق اور کٹھ پتلی شاہ کو ایک دن انہوں نے کہا کہ ایران کے سترہ شہروں کو ہمارے حوالے کر دیں اور اس نالائق نے یہ سترہ شہر پلیٹ میں ڈال کر ان کے آگے رکھ دیے۔ کیا یہ غلامی نہیں تھی تو اور کیا تھی؟ آپ لوگ جو آزادی اور حقوق بشر کا شعار دے کر قوموں کو لوٹتے ہو کیا یہ بھی آزادی کا حصہ ہے یا غلامی ہے جس کا اسلام کو طعنہ دیا جاتا ہے؟

ممالک کی خودمختاری 

ایران کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والے ممالک کی بازخواست کیوں کی جاتی ہے؟ اگر ایران کے ساتھ کوئی ملک قراداد باندھتا ہے تو اس کو کیوں مجبور کیا جاتا ہے کہ اس قرارداد کو ختم کیا جاۓ؟ کیا کوئی ملک کسی دوسرے ملک سے قرار داد باندھنے میں بھی آپ کا پابند ہے؟ اس کو آزادی کیوں نہیں دی جاتی کہ جس سے تعلق رکھے اور جس سے تعلق نہ رکھے اس سب میں وہ آزاد ہو؟ کیا امریکا کے سب غلام ہیں کہ اس کی بات مانیں؟ کیا یہ دوسروں کو اپنا غلام سمجھنے کے مترادف نہیں؟ بے شک اس کو آپ کوئی دوسرا نام دے دو اور اپنے کام کی جس طرح سے بھی دلیل لے آؤ بہرحال یہ کسی بھی ملک کی آزادی اور استقلال کے متضاد ہے۔ اسی بیسویں صدی میں جب مغرب حقوقِ بشر کا جھنڈا اٹھا کر پوری دنیا کے لوگوں کو آزادی اور ان کے حقوق کی بات کر رہا ہے مسلمانوں کی سرزمین فسلطین پر غاصب اور صیہونی ریاست اسرائیل نے قبضہ کر لیا اور پوری دنیا اور آزادی کے ٹھیکیدار خاموش تماشائی بنے رہے۔ نا صرف فلسطینیوں کے قتل عام اور ان کے استحصال پر خاموش اور تماشائی بنے رہے بلکہ خود آزادی کے دعوے دار امریکا نے اسرائیل کی پشت پناہی کی اور اب تک کر رہا ہے۔ ایک ملت کو ان کے گھروں سے آوارہ کر کے نکال دیا گیا اور ان کی جگہ بے گانوں کو مقیم کر دیا گیا۔ کیا یہ بھی آزادی ہے؟(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۴۷،۴۶۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 January 22 ، 16:45
عون نقوی

بیسویں صدی، امریکی خوابوں کی صدی ہے، وہ امریکہ جو ہمیشہ دعوی کرتا تھا کہ دنیا، اس کے اشاروں پر چلتی ہے۔ سن 1991 میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھر جانے اور دنیا کے یک قطبی ہو جانے کے بعد بش سینیر نے اسی دعوے کے تسلسل میں پچھلے عالمی نظام کے خاتمے کی بات کہی جبکہ سیاسی مفکرین اور تجزیہ نگاروں نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے دنیا پر امریکا کے بلا شرکت غیرے راج کرنے کے عہد کی شروعات اور امریکی صدی کے آغاز کی نوید دی اور کہا کہ اب آئندہ امریکی طرز زندگی، اقدار اور ثقافت ساری دنیا میں رائج ہوگی۔

طے یہ تھا کہ امریکا، سرمایہ داری، جمہوریت اور انسانی حقوق جیسے اپنے نام نہاد کارناموں کو دنیا کے دوسرے ممالک کے سامنے پیش کرے گا اور خودمختار، جمہوری اور آزاد اقوام کی تخلیق کرے گا لیکن اکیسویں صدی میں رونما ہونے والے عالمی حالات نے دکھا دیا کہ یہ دعوی کس حد تک بے بنیاد ہے اور اسی وجہ سے بہت سے لوگ اس دعوے پر شک کرنے لگے اگرچہ بش سینیر نے بھی فوکویاما کے تاریخ کے خاتمے اور ہینٹنگٹن کے تمدنوں کے ٹکراؤ کے نظریے کا ساتھ دیا اور امریکا کی چیمپیئن والی شبیہ کو باقی رکھنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن بہت سے دوسرے لوگوں نے اسی وقت امریکا کے زوال کی علامتوں کو محسوس کر لیا تھا۔ نوآم چامسکی ان پہلے افراد میں تھے جنھوں نے ان علامتوں کا اعلان کیا اور دنیا پر امریکا کی برتری کے تصور کو خوش فہمی قرار دیا۔ کیٹو انسٹی ٹیوٹ کے رکن پروفیسر ٹیڈ گیلن کارپینٹر نے پہلی بار "دیمکوں والے زوال" کی اصطلاح استعمال کر کے متعدد جنگیں بھڑکانے اور اپنے حریفوں سے پچھڑ جانے کے سبب امریکی طاقت کے تدریجی زوال کی طرف اشارہ کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ خود ٹرمپ نے اس زوال کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا اور امریکی عظمت کی بحالی کو اپنا انتخابی نعرہ قرار دیا۔ اگرچہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ امریکی اقتدار میں خود ان کی موجودگی، امریکا کے زوال کی واضح نشانیوں میں سے ایک ہے۔

ایک طرف زوال شروع ہو گیا لیکن دوسری طرف امریکا نے دنیا میں اپنی طاقتور امیج بچانے کے لیے ہالی ووڈ کا سہارا لیا جو خواب فروخت کرنے میں ماہر ہے۔ امریکی اپنی خیالی امیج، فلم کی صورت میں پیش کرتے تھے اور دنیا سے تعاون حاصل کرتے تھے۔ البتہ حقیقی دنیا میں مغربی ایشیا میں امریکا کی خونریز جنگوں کا نتیجہ، سیاسی و سماجی حتی معاشی بحرانوں، ٹرمپ جیسے صدر کے سامنے آنے اور کورونا کے زمانے میں مختلف طرح کی سماجی مشکلات کی شکل میں سامنے آیا اور امریکا کی اس تصوراتی امیج پر متعدد سوالیہ نشان لگ گئے۔ 

امریکی جاسوسی کے اڈے پر طلبہ کے قبضے نے امریکی ساکھ مٹی میں ملا دی

حالانکہ آج دنیا امریکا کے زوال کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر رہی ہے اور اس کے تسلط کی شکست کا مشاہدہ کر رہی ہے لیکن اس سے پہلے کے برسوں حتی سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے سے بھی پہلے دنیا کے اس حصے میں، اسلامی انقلاب کے ذریعے امریکا کی آمریت کو ایک نیا چیلنج پیش کر دیا گیا تھا اور اس میں اصل کردار صرف ایران کا تھا۔ اگرچہ امریکا نے بظاہر یہ طے کر رکھا تھا کہ وہ ایران کے انقلابیوں اور پہلوی حکومت کے تنازعے میں شامل نہیں ہوگا اور ایران کے شاہ کو پناہ دینے جیسے مسئلے کو وہ انسانی حقوق کی آڑ میں چھپانے کی کوشش کرتا تھا لیکن تہران میں اس کے جاسوسی کے اڈے پر قبضے اور اسلامی انقلاب کے خلاف اس کے معاندانہ اقدامات کے دستاویز سامنے آنے کے بعد سبھی پر یہ بات واضح ہو گئی کہ ایران کا زیادہ بڑا دشمن کون ہے اور کس طرح  ایرانی قوم کے حقوق پر ڈاکا ڈال رہا ہے؟ یہ چیز اس سے پہلے انیس اگست 1953 کی بغاوت میں بھی دیکھی جا چکی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اسلام جمہوریہ ایران کے بانی اور اسلامی انقلاب کے پہلے قائد، حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس واقعے کو دوسرے انقلاب کا نام دیا اور کہا کہ یہ انقلاب، پہلے انقلاب سے بھی بڑا ہے کیونکہ اس نے زیادہ بڑے دشمن سے جنگ کی ہے۔ 

امریکا کے سفارتخانے یا جاسوسی کے اڈے پر قبضے کے بہت سے سیاسی، سیکورٹی حتی معاشی پہلو ہیں اور مختلف زاویوں سے اس واقعے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اس واقعے کا ایک انتہائی اہم پہلو، دنیا میں امریکی تمدن پر سوالیہ نشان لگنا ہے۔ آپ سوچیے کہ وہ ملک جو یہ دعوی کرتا ہے کہ عالمی برادری کا نظام چلانے والا ہے اور پوری دنیا پر اس کا تسلط ہے، اسی ملک کو نوجوان طلباء کی جانب سے، جو کسی بھی طاقت سے وابستہ نہیں تھے، چیلنج کر دیا جائے، وہ بھی اس ملک میں جہاں ابھی ابھی انقلاب آیا ہو اور وہ بڑا متزلزل دکھائی دے رہا ہو، وہ بھی مغربی ایشیا کے علاقے میں، جسے امریکی ہمیشہ کمزور اور مغربی مینیجمنٹ کا محتاج بتاتے رہے ہوں! ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح کا واقعہ امریکی عظمت کی عکاسی کرنے والی اس تصوراتی امیج کے لیے کتنا خطرناک سمجھا گیا ہوگا؟! ایک طرف اپنے یرغمالوں کو چھڑانے کے لیے امریکا کی متعدد اور لگاتار کوششیں اور دوسری طرف دنیا کے دیگر ملکوں میں سفارتخانے میں طلباء کے داخل ہونے کی تصویروں پر زبردست سینسر وہ اقدامات تھے جو امریکا نے اپنی اس عالمی فضیحت کو روکنے کے لیے انجام دیے۔ امریکیوں نے شروع سے ہی یہ پروپیگنڈا کیا کہ معاملہ "ایران میں سفارت کاروں کو یرغمال بنائے جانے" کا ہے، تاکہ ایران کے انقلابیوں کو دنیا کے سامنے یہ حقیقت بے نقاب کرنے کا موقع نہ ملے کہ یہ امریکی"جاسوسی کے اڈے پر قبضہ" کئے جانے کا معاملہ ہے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ سفارتخانے کے کارکنوں کی گرفتاری پر ہنگامہ مچا کر، جن میں سے زیادہ تر سی آئی اے کے ایجنٹ تھے، جاسوسی اور ایک قوم کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے معاملے کو انسانی حقوق کے نعروں کی آڑ میں چھپا دیں۔ امریکیوں نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ یرغمالوں کو چھڑانے کے لیے انھوں نے جو آپریشن شروع کیا تھا، وہ طبس میں کیسے ذلت آمیز طریقے سے ناکام ہوا بلکہ انھوں نے کوشش کی کہ فریبکاری سے کام لے کر اور ہالی ووڈ کی طرز پر حقیقت کو برعکس دکھا کر دنیا میں اپنی برتری اور ہیرو والی  امیج کو باقی رکھیں۔ اس کے باوجود تاریخ جانتی ہے کہ عالمی رائے عامہ کے، امریکی حقیقت کو سمجھنے سے برسوں پہلے ایران کے انقلاب نے دنیا میں امریکا کی جھوٹی امیج کو تار تار کرنے کی راہ ہموار کر دی تھی۔

امریکی تسلط کی شکست کیوں اہم ہے؟

امریکا نے اپنا تشخص، دنیا پر برتری سے جوڑ رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ یہ چاہتا ہے کہ دوسروں کو کچھ بھی امتیاز دیے بغیر اسے پوائنٹس ملیں تاکہ وہ دنیا پر حکمرانی کرتا رہے۔ قرآن مجید اس خصلت کو استکبار کا نام دیتا ہے جسے آج کی زبان میں سامراج یا استعمار کہا جاتا ہے۔ استکبار کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور اور اپنی اس بڑائی کو بچانے کے لیے دوسروں کو چھوٹا یا حقیر سمجھتا ہے۔ اسی لیے وہ کوشش کرتا ہے کہ دیگر اقوام کے مضبوط پہلوؤ‎ں کو تباہ کر دے۔ سامراج اپنی وسیع پروپیگنڈہ مشینری کے سہارے ایسے کام کرتا ہے کہ بڑی اقوام، اس کی بڑائی کو تسلیم کر لیں اور خود کو اس کے مقابلے میں ہیچ سمجھیں اور اپنا سب کچھ اس کے حوالے کر دیں۔ استکبار سے مقابلے کا پہلا قدم، اس کی اسی تسلط پسندی پر وار کرنا ہے۔ پہلے کوئی ایسا کام ہونا چاہیے کہ اس کی یہ کھوکھلی عظمت زمیں بوس ہو جائے اور پھر اس کے بعد دھیرے دھیرے اس کی حقیقت سامنے آتی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی انقلاب نے شروع سے ہی اپنا مقابل نہ صرف پہلوی حکومت کو بلکہ اس سے بڑے یعنی عالمی سامراج کو سمجھا اور شروع سے ہی اس سے مقابلے کی کوشش کی۔ اس نے دنیا کو تسلط پسندوں اور تسلط کا نشانہ بننے والوں میں تقسیم کرنے کے تسلیم شدہ اصول کو توڑ دیا۔ اگرچہ فروری 1979 میں اسلامی انقلاب کی کامیابی، اس مقابلے کا پہلا قدم تھا لیکن اسلام اور سامراج کے درمیان زیادہ کھل کر لڑائی، امریکا کے جاسوسی کے اڈے پر قبضے کے ساتھ شروع ہوئی اور اس بار وہ لوگ، جنھیں ہمیشہ چھوٹا سمجھا گیا تھا، امریکا کے مقابلے میں ڈٹ گئے جو ہمیشہ اپنے کو بڑا ظاہر کرتا رہا تھا اور ان لوگوں نے کھیل کا میدان بدل دیا۔ اس اقدام کا پہلا اثر یہ تھا کہ دنیا کی دیگر مظلوم اقوام کو یہ پیغام ملا کہ وہ اپنے آپ کو سامراجی طاقتوں کے سامنے چھوٹا نہ سمجھیں بلکہ وہ اپنی توانائیوں پر بھروسہ کر کے اپنی خودمختاری کی حفاظت کر سکتی ہیں۔ سامراج کے مقابلے میں 

 اپنی توانائیوں پر یہی یقین ہے جس نے استقامت کے محاذ کو مضبوط بنا دیا ہے اور اس کے اراکین کو دنیا میں حق کے حصول کی خود اعتمادی عطا کی ہے۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 04 November 21 ، 17:42
عون نقوی

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

اردو ترجمہ

امریکہ ڈپلومیسی کے پردے کے پیچھے حقیقت میں ایک شکاری بھیڑیا ہے۔ ظاہری شکل ڈپلومیسی کی، خندہ رو، و بات چیت مفاہمت والا لیکن باطن میں ایک خوفناک جنگلی بھیڑیے کی مانند۔ اس حقیقت کا ایک مظہر اور گواہ آج کا افغانستان اور اس کی صورتحال ہے۔

اصلی متن

آمریکا در پشت صحنه‌ی دیپلماسی، یک گرگ درنده است؛ ظاهر، دیپلماسی است و لبخند و حرف زدن، امّا باطن قضیّه‌ یک گرگ وحشیِ درنده؛ یک مظهرش امروز وضعیّت افغانستان است.(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 October 21 ، 19:19
عون نقوی

رہبر معظم سید علی خامنہ ای دام ظلہ العالی

اردو ترجمہ

فرعون حضرت موسیؑ کے مقابلے میں ظاہری طور پر زیادہ قدرت رکھتا تھا، اس کے پاس اسبابِ زینت، اموال، استعداد، اسلحہ، پیسہ، اور بہت سے وسائل تھے جبکہ حضرت موسیؑ کے پاس ظاہرا ان میں سے کچھ بھی نہ تھا، لیکن حضرت موسیؑ نے خدا سے درخواست کی استغاثہ بلند کیا تو خداوند متعال نے جواب دیا: قالَ قَد اُجیبَت دَعوَتُکُما؛ تم دو نفر کی دعا قبول ہوئی لیکن ایک شرط پر، اور وہ شرط یہ ہے: فَاستَقیما وَ لَا تَتَّبِعانِ سَبیلَ الّذین لا یعلمون؛ استقامت دکھاؤ۔
استقامت جنگ کے میدان میں اور طریقہ سے ہے، سیاسی میدان میں استقامت کا محور کچھ اور ہے، اور ارادوں کے میدان میں استقامت کسی اور معنی میں ہے ان سب امور میں استقامت کی ضرورت ہے۔ اگر قومیں، ان کے سربراہان اور ان قوموں کے قابل افراد استقامت کو ترک نہ کریں ان ضعیف کر دی گئی قوموں کو بھی فتح و کامرانی نصیب ہو سکتی ہے۔ جی ہاں! آج امت اسلامی کے آگے دشمن نے جنگی صف بندی آمادہ  کر لی ہوئی ہے، امریکا، عالمی استکبار، اور ان کے پیروکار، صیہونیت اور ان کا نظام، مرتجعین، عالمی سرمایہ دار طبقہ، اور شہوت ران طبقوں نے اسلام اور رسول اللہ ﷺ کے راستے کے برخلاف صف بندی کر لی ہے اِنَّکَ ءاتَیتَ فِرعَونَ وَ مَلَاہُ زِینَةً وَ اَموَالاً فِی الحَیوة الدُنیَا؛ آج کے فرعون یہی ہیں، آج کا فرعون امریکا ہے، آج کا فرعون صیہونیت ہے، آج کا فرعون ان کے پیروکار ہیں جنہوں نے اسلامی مناطق میں جنگ ایجاد کر رکھی ہے اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بنا دیں۔
آج امریکا کا منصوبہ یہ ہے، اس کی طرف سب کو متوجہ رہنا ہوگا اور جاننا ہوگا، خود امریکی سیاستدان اس بات کا چاہتے اور نا چاہتے ہوئے اپنے اعترافات کی اظہار کر چکے ہیں کہ ہمیں چاہیے کہ مغربی ایشیاء میں جنگ ایجاد کرنی چاہئے، ان علاقوں میں اختلاف اور دشمنی ایجاد کر کے ان کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بنانا ہوگا، تاکہ یہ ایک دوسرے کو مارتے رہیں اور صیہونی ریاست امن میں رہے۔ ان کو پسماندہ رکھا جائے کبھی ترقی حاصل نہ کر سکیں اور اس قدر ایک دوسرے کو ماریں کہ بے حال ہو کر رہ جائیں، ضعیف ہو جائیں قدرت و استقامت نہ دکھا سکیں۔

متن اصلی

فرعون در مقابل حضرت موسیٰ یک قدرت فائقه‌ای(۷) بود؛ زینت، اموال، استعداد، سلاح، پول، همه چیز در اختیار او بود؛ موسیٰ دست‌تنها بود؛ از خدای متعال درخواست کرد، استغاثه کرد؛ خداوند متعال در جواب فرمود: قالَ قَد اُجیبَت دَعوَتُکُما؛(۸) دعای شما دو نفر را -موسیٰ و هارون را- ما قبول کردیم، مستجاب کردیم، امّا شرط دارد: فَاستَقیما وَ لا تَتَّبِعآنِّ سَبیلَ الَّذینَ لا یَعلَمون؛(۹) بِایستید، استقامت کنید. استقامت در میدان جنگ نظامی یک‌جور است، در میدان جنگ سیاسی یک‌جور است، در میدان جنگ اراده‌ها یک‌جور است؛ در همه‌ی اینها استقامت لازم است. اگر ملّتها و زبدگان و نخبگان استقامت را فراموش نکنند، قطعاً پیروزی نصیب خواهد شد. بله، امروز در مقابل امّت اسلامی صف کشیده‌اند؛ آمریکا، استکبار جهانی و دنباله‌هایشان، صهیونیسم، رژیم صهیونیستی، مرتجعین، پول‌پرستان عالم، شهوت‌رانانِ میان مسلمانان که وابسته‌ی به آن قدرتها هستند، اینها همه در مقابل اسلام، در مقابل راه پیغمبر صف کشیده‌اند؛ اِنَّکَ ءاتَیتَ فِرعَونَ وَ مَلَاَهُ زینَةً وَ اَموالًا فِی الحَیوٰةِ الدُّنیا؛ بله، امروز فرعون اینها هستند؛ فرعون، امروز آمریکا است؛ فرعون، امروز رژیم صهیونیست است؛ فرعون، همین دنباله‌روهای اینها هستند در منطقه که بتدریج میخواهند مسلمانها را به جان هم بیندازند و در منطقه جنگ ایجاد کنند که امروز این نقشه‌ی آمریکا است؛ این را همه توجّه داشته باشند، همه بدانند. خود سیاستمداران آمریکایی در تحلیل‌هایشان، در حرفهایشان، خواسته یا ناخواسته اعتراف کردند که باید در منطقه‌ی غرب آسیا جنگ ایجاد کنیم، اختلاف ایجاد کنیم، اینها را به جان هم بیندازیم؛ برای اینکه رژیم صهیونیستی در حاشیه‌ی امن قرار بگیرد، راحت باشد؛ برای اینکه اینها نتوانند پیشرفت کنند؛ برای اینکه از جسم امّت اسلامی آن‌قدر خون برود که بی‌حال بشود، ضعیف بشود، قدرت ایستادگی نداشته باشد.(۱)

 


حوالہ:

آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 October 21 ، 19:23
عون نقوی

20 سال افغانستان کو تباہ و برباد خاک میں یکسان کر کے امریکیوں کے اپنے حالات جب خراب ہوۓ اور کابل ائرپورٹ پر چند امریکی جہنم واصل ہوئے تو ایک مشہور و معروف امریکی کالم نگار، تجزیہ نگار و مصنف نے ٹویٹ کیا:

"ہر ایک امریکی جو افغانستان میں قتل ہوا ہے اس کے بدلے میں افغانستان کا ایک شہر اس کرہ ارض سے محو ہونا چاہیے" 

۱ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 29 August 21 ، 12:14
عون نقوی