بصیرت اخبار

۳ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «وحدت اسلامی» ثبت شده است

رہبر معظم امام خامنہ ای کا آج صبح عید بزرگ میلاد با سعادت پیغمبر اعظم ﷺ و امام صادقؑؑ کے مناسبت سے ۳۵ویں بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس سے خطاب جس میں آپ نے مسؤولین نظام، و غیر ملکی مدعو مہمانوں سے ملاقات بھی کی۔

https://idc0-cdn0.khamenei.ir/ndata/news/48889/C/14000802_0248889.jpg 

اس اہم خطاب میں رہبر معظم نے فرمایا کہ ولادت پیغمبر کا حادثہ اتنا ہی بڑا اور اہم ہے جتنی خود رسول اللہﷺ کی شخصیت اہم و بزرگ و برتر ہے۔ جس طرح سے ان کا رتبہ و مقام عظیم جو عالم خلقت کی ابتدا سے آخر تک بے مثل و بے نظیر تھا اسی طرح ان پر قیامت تک کی آنے والی نسلوں کی رسالت کی بھی عظیم ذمہ داری تھی۔ خداوند متعال نے کتاب مکنون پیغمبر کے قلب مقدس پر نازل فرمائی اور وہ کلام ان کی زبان مطہر و پاک سے جاری ہوا۔ سعادت بشری کا مکمل و منظم نظام ان کے سپرد ہوا اور انہیں مامور کیا گیا کہ اس نظام کو عملی کریں۔ اس کو ابلاغ کریں اور اپنے پیروکاروں سے بھی اس کو عملی کرنے کا مطالبہ کریں۔

رسول اللہ ﷺ کی ولادت سے بشر کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ ان کی ولادت در اصل بشریت کے لیے ایک بشارت تھی اور ارادہ الہی یہ تھا کہ بشر کے لیے تفضلات الہی کا یک نیا دور شروع کیا جاۓ۔ 

 

رہبر معظم نے اختتامی پیغام میں فرمایا کہ مسلمانوں کے درمیان وحدت و اتحاد کی بات کرنا کسی سیاسی چال کی بنا پر نہیں۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ چونکہ وقت کا تقاضا ہے اور مسلمانوں کے ایک خاص قسم کے حالات بن گئے ہیں اس لیے ابھی وحدت کی ضرورت پڑ گئی ہے۔  جی نہیں! یہ ہمارے لیے ایک اصولی امر ہے۔ مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا اور متحد ہونا لازمی (عقیدتی) امر ہے۔ وحدت اور اتحاد مسلمانوں کے درمیان ان کے طاقتور ہونے کا باعث بن سکتی ہے اور یہ قطعی طور پر قرآنی حکم ہے۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 24 October 21 ، 13:27
عون نقوی

رہبر معظم سید علی خامنہ ای دام ظلہ العالی

اردو ترجمہ

فرعون حضرت موسیؑ کے مقابلے میں ظاہری طور پر زیادہ قدرت رکھتا تھا، اس کے پاس اسبابِ زینت، اموال، استعداد، اسلحہ، پیسہ، اور بہت سے وسائل تھے جبکہ حضرت موسیؑ کے پاس ظاہرا ان میں سے کچھ بھی نہ تھا، لیکن حضرت موسیؑ نے خدا سے درخواست کی استغاثہ بلند کیا تو خداوند متعال نے جواب دیا: قالَ قَد اُجیبَت دَعوَتُکُما؛ تم دو نفر کی دعا قبول ہوئی لیکن ایک شرط پر، اور وہ شرط یہ ہے: فَاستَقیما وَ لَا تَتَّبِعانِ سَبیلَ الّذین لا یعلمون؛ استقامت دکھاؤ۔
استقامت جنگ کے میدان میں اور طریقہ سے ہے، سیاسی میدان میں استقامت کا محور کچھ اور ہے، اور ارادوں کے میدان میں استقامت کسی اور معنی میں ہے ان سب امور میں استقامت کی ضرورت ہے۔ اگر قومیں، ان کے سربراہان اور ان قوموں کے قابل افراد استقامت کو ترک نہ کریں ان ضعیف کر دی گئی قوموں کو بھی فتح و کامرانی نصیب ہو سکتی ہے۔ جی ہاں! آج امت اسلامی کے آگے دشمن نے جنگی صف بندی آمادہ  کر لی ہوئی ہے، امریکا، عالمی استکبار، اور ان کے پیروکار، صیہونیت اور ان کا نظام، مرتجعین، عالمی سرمایہ دار طبقہ، اور شہوت ران طبقوں نے اسلام اور رسول اللہ ﷺ کے راستے کے برخلاف صف بندی کر لی ہے اِنَّکَ ءاتَیتَ فِرعَونَ وَ مَلَاہُ زِینَةً وَ اَموَالاً فِی الحَیوة الدُنیَا؛ آج کے فرعون یہی ہیں، آج کا فرعون امریکا ہے، آج کا فرعون صیہونیت ہے، آج کا فرعون ان کے پیروکار ہیں جنہوں نے اسلامی مناطق میں جنگ ایجاد کر رکھی ہے اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بنا دیں۔
آج امریکا کا منصوبہ یہ ہے، اس کی طرف سب کو متوجہ رہنا ہوگا اور جاننا ہوگا، خود امریکی سیاستدان اس بات کا چاہتے اور نا چاہتے ہوئے اپنے اعترافات کی اظہار کر چکے ہیں کہ ہمیں چاہیے کہ مغربی ایشیاء میں جنگ ایجاد کرنی چاہئے، ان علاقوں میں اختلاف اور دشمنی ایجاد کر کے ان کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بنانا ہوگا، تاکہ یہ ایک دوسرے کو مارتے رہیں اور صیہونی ریاست امن میں رہے۔ ان کو پسماندہ رکھا جائے کبھی ترقی حاصل نہ کر سکیں اور اس قدر ایک دوسرے کو ماریں کہ بے حال ہو کر رہ جائیں، ضعیف ہو جائیں قدرت و استقامت نہ دکھا سکیں۔

متن اصلی

فرعون در مقابل حضرت موسیٰ یک قدرت فائقه‌ای(۷) بود؛ زینت، اموال، استعداد، سلاح، پول، همه چیز در اختیار او بود؛ موسیٰ دست‌تنها بود؛ از خدای متعال درخواست کرد، استغاثه کرد؛ خداوند متعال در جواب فرمود: قالَ قَد اُجیبَت دَعوَتُکُما؛(۸) دعای شما دو نفر را -موسیٰ و هارون را- ما قبول کردیم، مستجاب کردیم، امّا شرط دارد: فَاستَقیما وَ لا تَتَّبِعآنِّ سَبیلَ الَّذینَ لا یَعلَمون؛(۹) بِایستید، استقامت کنید. استقامت در میدان جنگ نظامی یک‌جور است، در میدان جنگ سیاسی یک‌جور است، در میدان جنگ اراده‌ها یک‌جور است؛ در همه‌ی اینها استقامت لازم است. اگر ملّتها و زبدگان و نخبگان استقامت را فراموش نکنند، قطعاً پیروزی نصیب خواهد شد. بله، امروز در مقابل امّت اسلامی صف کشیده‌اند؛ آمریکا، استکبار جهانی و دنباله‌هایشان، صهیونیسم، رژیم صهیونیستی، مرتجعین، پول‌پرستان عالم، شهوت‌رانانِ میان مسلمانان که وابسته‌ی به آن قدرتها هستند، اینها همه در مقابل اسلام، در مقابل راه پیغمبر صف کشیده‌اند؛ اِنَّکَ ءاتَیتَ فِرعَونَ وَ مَلَاَهُ زینَةً وَ اَموالًا فِی الحَیوٰةِ الدُّنیا؛ بله، امروز فرعون اینها هستند؛ فرعون، امروز آمریکا است؛ فرعون، امروز رژیم صهیونیست است؛ فرعون، همین دنباله‌روهای اینها هستند در منطقه که بتدریج میخواهند مسلمانها را به جان هم بیندازند و در منطقه جنگ ایجاد کنند که امروز این نقشه‌ی آمریکا است؛ این را همه توجّه داشته باشند، همه بدانند. خود سیاستمداران آمریکایی در تحلیل‌هایشان، در حرفهایشان، خواسته یا ناخواسته اعتراف کردند که باید در منطقه‌ی غرب آسیا جنگ ایجاد کنیم، اختلاف ایجاد کنیم، اینها را به جان هم بیندازیم؛ برای اینکه رژیم صهیونیستی در حاشیه‌ی امن قرار بگیرد، راحت باشد؛ برای اینکه اینها نتوانند پیشرفت کنند؛ برای اینکه از جسم امّت اسلامی آن‌قدر خون برود که بی‌حال بشود، ضعیف بشود، قدرت ایستادگی نداشته باشد.(۱)

 


حوالہ:

آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 October 21 ، 19:23
عون نقوی

رہبر معظم سید علی خامنہ ای دام ظلہ العالی

اردو ترجمہ

ہفتہ وحدت کے متعلق میری راۓ یہ ہے کہ امام راحل کے اس عظیم ابتکار کی اہمیت اب پہلے سے زیادہ کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ جن ایام میں ہمارے بزرگوار امام نے ہفتہ وحدت کا اعلان فرمایا تھا اور وحدت مذاہب اسلامی و فِرق اسلامی کو مختلف جہات عمومی و سیاسی اور اسی طرح سے اجتماعی کی بنا پر ضروری قرار دیا، ان دنوں بہت سے مخاطبین نے اس پیغام کی اہمیت کو درک نہ کیا۔ بلکہ بہت سے اسلامی ممالک کے مسؤولین و سربراہان نے اس کو اصلا نہیں سمجھا تھا کہ یہ پیغام کس مقدار اہمیت کا حامل ہے۔ بہت سے نہیں سمجھ سکے اور بعض ضد پر اتر آۓ، البتہ انہوں نے ذاتی اغراض کی بنا پر اس پیغام کی اہمیت کا انکار کیا۔ آج ہم اس پیغام کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں کیونکہ آج جو حوادث پیش آ رہے ہیں اور اسلامی ممالک میں جو اختلافات سامنے آ رہے ہیں، اور اسی طرح سے جو شام، عراق، لبیبا، یمن اور افغانستان میں ہو رہا ہے ان سب ممالک کے حوادث سے انسان سمجھ سکتا ہے کہ اسلامی ممالک میں وحدت کی کتنی ضرورت ہے۔ اس امت اسلامی کی یکپارچگی عنصر ذی قیمت ہے کہ جس کو امام نے لازمی قرار دیا اور تمام ممالک کے مسلمانوں سے درخواست کی، اور اگر اس درخواست پر عملی طور پر اقدامات ہوتے تو بہت سے ناگوار واقعات پیش نہ آتے۔

متن اصلی

راجع به هفته‌ی وحدت. بنده گمان میکنم امروز بیش از همیشه اهمّیّت این ابتکار بزرگ امام راحل آشکار شده است. آن روزی که امام بزرگوار هفته‌ی وحدت را اعلام کردند و وحدت مذاهب اسلامی و فِرَق اسلامی را در جهت‌گیری‌ها و در گرایشهای عمومی، سیاسی و اجتماعیِ خودشان اعلام کردند، آن روز خیلی از مخاطبین واقعی این پیام نتوانستند اهمّیّت این پیام را درک کنند؛ از جمله مسئولین خیلی از کشورهای اسلامی که اصلاً نفهمیدند چقدر این پیام حائز اهمّیّت است. خیلی‌ها هم نفهمیدند، خیلی‌ها هم لج کردند؛ یعنی به دنبال اغراض گوناگونی که داشتند، این پیام را ندیده گرفتند. امروز ما میفهمیم که این پیام چقدر مهم بوده. حوادثی که امروز اتّفاق افتاده، این اختلافات گوناگونی که میان کشورهای اسلامی اتّفاق افتاده، این حوادث هولناکی که در بعضی از کشورهای منطقه، در سوریه، در عراق، در یک برهه‌ای در لیبی، در یمن، و در افغانستان، از این اتّفاقاتی که در اینجاها افتاد انسان میفهمد که چقدر اتّحاد دنیای اسلام مهم بود و چقدر یکپارچگی امّت اسلامی عنصر ذی‌قیمتی بود که امام آن را اعلام کردند، آن را درخواست کردند، آن را مطرح کردند که اگر بود، بسیاری از این قضایا اتّفاق نمی‌افتاد.(۱)

 

 


حوالہ:

آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 October 21 ، 19:51
عون نقوی