رہبر معظم امام خامنہ ای کا آج صبح عید بزرگ میلاد با سعادت پیغمبر اعظم ﷺ و امام صادقؑؑ کے مناسبت سے ۳۵ویں بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس سے خطاب جس میں آپ نے مسؤولین نظام، و غیر ملکی مدعو مہمانوں سے ملاقات بھی کی۔
اس اہم خطاب میں رہبر معظم نے فرمایا کہ ولادت پیغمبر کا حادثہ اتنا ہی بڑا اور اہم ہے جتنی خود رسول اللہﷺ کی شخصیت اہم و بزرگ و برتر ہے۔ جس طرح سے ان کا رتبہ و مقام عظیم جو عالم خلقت کی ابتدا سے آخر تک بے مثل و بے نظیر تھا اسی طرح ان پر قیامت تک کی آنے والی نسلوں کی رسالت کی بھی عظیم ذمہ داری تھی۔ خداوند متعال نے کتاب مکنون پیغمبر کے قلب مقدس پر نازل فرمائی اور وہ کلام ان کی زبان مطہر و پاک سے جاری ہوا۔ سعادت بشری کا مکمل و منظم نظام ان کے سپرد ہوا اور انہیں مامور کیا گیا کہ اس نظام کو عملی کریں۔ اس کو ابلاغ کریں اور اپنے پیروکاروں سے بھی اس کو عملی کرنے کا مطالبہ کریں۔
رسول اللہ ﷺ کی ولادت سے بشر کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ ان کی ولادت در اصل بشریت کے لیے ایک بشارت تھی اور ارادہ الہی یہ تھا کہ بشر کے لیے تفضلات الہی کا یک نیا دور شروع کیا جاۓ۔
رہبر معظم نے اختتامی پیغام میں فرمایا کہ مسلمانوں کے درمیان وحدت و اتحاد کی بات کرنا کسی سیاسی چال کی بنا پر نہیں۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ چونکہ وقت کا تقاضا ہے اور مسلمانوں کے ایک خاص قسم کے حالات بن گئے ہیں اس لیے ابھی وحدت کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ جی نہیں! یہ ہمارے لیے ایک اصولی امر ہے۔ مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا اور متحد ہونا لازمی (عقیدتی) امر ہے۔ وحدت اور اتحاد مسلمانوں کے درمیان ان کے طاقتور ہونے کا باعث بن سکتی ہے اور یہ قطعی طور پر قرآنی حکم ہے۔(۱)