مجھے سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں
امیرالمومنین امام علیؑ فرماتے ہیں
متن عربی:
الْوِلَایَاتُ مَضَامِیرُ الرِّجَالِ.
ترجمہ:
حکومتیں لوگوں کیلئے آزمائش کا میدان ہے۔
قابل توجہ نکات:
زندگی کا کوئی ایک شعبہ بھی حکومت اور حاکمیت سے غیر مربوط نہیں، بہرصورت حکام اور حکومتیں آپ کی زندگی سے مربوط ہونگیں اور آپ کی انفرادی و اجتماعی زندگی کو متاثر کریں گی۔ اگر آپ غیر سرکاری ملازمت کرتے ہیں، عام مزدور ہیں یا سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے، آپ کی زندگی کو حکومت اور حکام متاثر کریں گے۔
کرہ ارض پر کوئی بھی انسان یہ بات نہیں کر سکتا کہ اس کا حکومتوں سے کوئی لین دین نہیں اور نا ہی سیاست سے کوئی دلچسپی ہے، اگر آپ خود کو نابینا کر لیں یہ اور بات ہے لیکن حکومتیں آپکی زندگی کو متاثر کر کے رہیں گی، خود آپ کا یہ کہنا کہ مجھے حکومتی امور یا سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں، یہی کہنا حکومت سے مربوط ہو جاتا ہے اور جب کوئی چیز باواسطہ یا بلا واسطہ حکومت سے مربوط ہو جائے آپ سے بھی مربوط ہو جائے گی۔
بعض افراد ایسی بات کہہ تو دیتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ جس سسٹم اور نظام میں آپ رہ رہے ہیں ان کو حکومتیں چلاتی ہیں، مثلا آپ کا جو اقتصاد و گھر کا خرچہ چل رہا ہے اس کا تمام دارومدار حکومتوں پر ہے، اگر حکومتیں کرپٹ ہوئیں تو آپ جتنا بھی کمائیں گے بھوک افلاس سے نہیں بچ سکتے، آپ کا سانس لینا اور صحتمند ہونا بھی حکومتوں سے مربوط ہے کیونکہ اگر حکومتوں نے صحت و تندرستی کے ادارے نا بناۓ یا وہاں پر نالایق افراد بھیج دیے آپ زندہ نہیں رہ سکیں گے یا اگر ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول نہ کیا تو آپ کا سانس لینا بھی دشوار ہو جاۓ گا۔
آپ کا امن و امان میں رہنا ہر روز باہر جانا، بازار سے روز و مرہ کی اشیاء خریدنا بھی حکومتوں سے مربوط ہے اگر حکومت نااہل و غدار آ گئی تو ملک دشمن عناصر آپ پر مسلط ہو جائیں گے و عین ممکن ہے ملک اور عوام کو چند داموں کے عوض بیچ کر خود فرار ہو جائیں اور آپ کو ابدی غلامی میں دھکیل دیں۔
آپ کی ازدواجی زندگی حتی بچوں کا پیدا ہونا بھی حکومتوں سے مربوط ہے یعنی اگر آج ہی حکومت اعلان کر دے کہ کوئی بھی شخص شادی نہیں کر سکے گا یا اسکا نکاح درج نہیں ہوگا جب تک اتنا پیسہ ٹیکس نہ دے دے، یا فقط اتنے بچے پیدا کر سکتے ہیں اس سے زیادہ نہیں کیونکہ حکومت کے پاس آبادی کے لیے وسائل نہیں ہیں تو آپ مجبور ہیں اپنی ازدواجی و انفرادی زندگی کو بھی محدود کریں۔
آپ کس انداز اور کس سوچ سے زندگی کرتے ہیں ہیں یہ بھی حکومتوں سے مربوط ہے، آپ کا رہن سہن، آپ کا دین اور اپکا کلچر حکومتوں کے مزاج پر منحصر ہے اگر آپ زندگی کے ہر شعبے سے منسلک کام کو حکومتوں سے مربوط کرنے لگ جائیں خود آپ اس ربط کو سمجھنے لگیں گے اور اسی وقت یہ بھی ضرور سوچیں کہ اگر اس حکومت کی جگہ پر کوئی اللہ کا نیک نمائندہ حاکمیت پر ہوتا تو اس وقت کیا ہوتا؟
امیرالمومنینؑ کے اس قول پر ایمان لانا ضروری ہے چاہے آپ ایمان نہ بھی لائیں عملی طور پر بہرحال حکومتیں آپ کے لیے آزمائش کا میدان ہیں، اگر رفاہ لے آئیں تو تب بھی اپکو رفاہ دے کر آزمائش میں ڈال دیں گی، اگر غربت میں دھکیل دیا تو یہ خود بہت بڑی آزمائش ہوگی حتی اگر الہی و اسلام کی حقیقی حکومت بھی قائم ہو جاۓ تب بھی آپ آزمائش سے نہیں چھٹکار حاصل کر سکتے خود امیرالمومنینؑ کی حکومت کا دورانیہ لے لیں اور اس وقت کے حالات پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ امیرالمومنینؑ کی حکومت میں بھی لوگ ازماۓ گئے اور بہت سخت طریقے سے آزماۓ گئے لیکن اس میں فرق یہ تھا کہ جو اس آزمائش سے سرخرو ہو کر نکلے وہ زمانے کے بہترین و سچے شیعہ بنے اور جو ناکام ہوۓ ابدی رسوائی ان کا نصیب بنی۔
امام خمینیؒ فرمایا کرتے تھے کہ آپ لوگ خود سوچ کر بتائیں حکومت کو حسینؑ جیسے اہل ترین، پاک ترین و عادل ترین انسان کے ہاتھ میں ہونا چاہیے یا یزید جیسے ناہل ترین، نجس ترین و فاسق ترین شخص کے ہاتھ میں؟ اگر آپ اس سوال کا جواب دینا چاہتے ہیں تو آپ کو حسینؑ کا ساتھ دینا ہوگا آپ حسینؑ سے غیرجانبدار نہیں ہو سکتے، اگر آپ یزید کے لشکر میں ہیں تو ویسے ہی ابدی ذلت ہے اور اگر دونوں سے خود کو جدا کر لیں تو تب بھی بچ نہیں سکتے کیونکہ یزید صرف دین کا اور امام کا ہی دشمن نہیں بلکہ عام گلی محلوں دفات میں کام کرنے والوں کا بھی دشمن ہے اور ایسا ہی ہوا، کربلا کے بعد ایسے افراد بھی قتل عام ہوۓ جو سمجھتے تھے کہ یزید کو ہم سے کیا کام؟ ہم تو غیر جانبدار ہی۔ اگر آپ نے خود کو اس سب سے جدا کر کیا اور کہا کہ میں غیر جانبدار ہوں مجھے کسی بھی حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں تو آۓ گا کوئی یزید جیسا حاکم اور آپ کو اس گروہ میں شامل کردے گا جس پر زیارت عاشورہ میں لعنت کی گئی ہے۔ کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ زیارت عاشورہ میں فقط قاتلین پر لعنت نہیں ہوئی بلکہ اس خاموش امت پر بھی لعنت کی گئی ہے جو یزید کے لشکر میں تو شامل نہ تھی لیکن امام حسینؑ کا بھی ساتھ نہ دیا۔
دین کے اندر غیرجانبداری اس معنی میں ہرگز نہیں پائی جاتی کہ آپ یہ کہنے لگ جائیں کہ اجتماعی امور میں، میں الگ تھلگ رہ لونگا اور کسی کو کچھ کہنوگا اور نا سنونگا۔ آپ خود آزما لیں، جنگلوں اور بیابانوں میں رہنا شروع کر دیں بالآخر ایک نا ایک دن یہی جنگل حکومتی اہلکاروں کے ہاتھوں کٹ جائیں گے اور جنگل کا ستیاناس کرنے کے بعد وہیں کوئی ٹاؤن یا سوسائٹی بنا دی جاۓ گی۔ بالآخر آپ حکومتوں کے ہاتھوں آزماۓ جائیں گے اس لیے دین نے واجب قرار دیا ہے کہ حکومت صرف الہی نمائندے کے ہاتھ میں ہونی چاہیے جو آپ کو آزماۓ تو کم از کم ابدی سعادت تک پہنچا دے، لیکن اگر اس کے برعکس کسی غیر الہی حکومت کے ہاتھوں آپ آزماۓ گئے تو سعادت کے چانس کم ہیں اور امت ساری اجتماعی ہلاکت میں جا گرے گی۔
حوالہ:
۱۔ نہج البلاغہ، حکمت ۴۴۰۔