بصیرت اخبار

۵ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «نظام» ثبت شده است

رہبر مسلمین جہان امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے کہ ایک ملت بے شک اسلامی احکام پر عمل نہ کرتی ہو لیکن پھر بھی مسلمان ہو۔ دین کا سیاست سے جدائی کا مطلب در اصل یہی بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ ہیں مسلمان، لیکن اسلام کے احکام پر عمل نہیں کرتے، یعنی آپ کے ملک کا بینکنگ سسٹم، معیشت کا نظام، تعلیمی نظام، حکومت کی شکل و صورت اور آپ کے فرد و معاشرہ کے تعلقات اسلام کے خلاف ہیں اور غیر اسلامی ہیں لیکن آپ پھر بھی مسلمان ہی ہیں، حتیٰ اسلام مخالف قوانین بھی ملک میں نافذ ہیں۔ البتہ یہ ان ممالک کی بات ہے جن کے ہاں قانون موجود ہے چاہے وہ ایک ناقص اور قاصر ایک آمر انسان کے مطابق ہی کیوں نہ ہو۔ آج بعض اسلامی ممالک میں حتی قانون بھی نہیں ہے۔ کوئی غیر اسلامی قانون بھی نہیں ہے وہاں صرف بعض افراد کی مرضی کے مطابق قانون چلتا ہے مثلا اقتدار پر ایک شخص بیٹھا ہے اور حکم دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ ایسا ہونے دو، ویسا نہ ہونے دو وغیرہ۔ ہمارے لیے یہ گمان کرنا ممکن نہیں کہ کچھ لوگ مسلمان ہیں، لیکن اسلام سے انہوں نے فقط نماز، روزہ، طہارت اور نجاست کے مسائل لیے ہیں بس۔ جس معاشرے میں مسلمان ہوں وہاں پر اسلام کو حاکم ہونا چاہیے۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 December 21 ، 20:56
عون نقوی

امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ

دین اسلام اپنے ظہور کے بعد سے ہی معاشرے میں حاکم تمام نظاموں سے آشکار طور پر حالت جنگ میں تھا اسلام خود ایک خاص سماجی، اقتصادی اور ثقافتی نظام رکھتا ہے جس میں انفرادی اور معاشرتی زندگی کے تمام پہلوؤں کے لیے خصوصی قوانین ہیں اور اس کے علاوہ کسی بھی نظام کو بشر کی سعادت کے لیے قبول نہیں کرتا۔(۱)


حوالہ:

۱۔ خمینی، روح اللہ موسوی، صحیفہ امام، ج۵، ص۳۸۹۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 November 21 ، 18:15
عون نقوی

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

اردو ترجمہ

[دوسری طرف] چونکہ اسلام میں سماجی مسائل اور معاشرہ سازی و تمدن سازی کے اہم ترین امور ذکر ہوۓ ہیں، اس لیے اسلام نے معاشرے کی حاکمیت کے متعلق بھی اہتمام کیا ہے۔  یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام اسی طرح سماجی نظم کا مطالبہ کرتا ہے، لیکن وہاں دین اور دنیا کی حکمرانی اور بالادستی کے مسئلے کی نشاندہی موجود نہیں۔ جب مذہب ایک نظام بن گیا، ایک ایسا نظام جس کا تعلق فرد اور معاشرے سے ہے، اور ایک ایسا نظام بن گیا جس میں تمام انفرادی اور معاشرتی مسائل پر آراء، مطالبات ہوں، تو پھر اس دین میں یہ بھی بتایا جانا ضروری ہے کہ اس معاشرے کا رہبر کون ہو؟ اور خود رہبر و رہنما کو مقرر کرے۔ اس لیے اگر آپ قرآن میں دیکھیں تو کم از کم دو جگہوں پر انبیاء کو بطور امام ذکر کیا گیا ہے: «وَجَـعَلنٰهُم اَئِمَّةً یَهدونَ بِاَمرِنا وَ اَوحَینا اِلَیهِم فِعلَ الخَیرٰتِ وَ اِقامَ الصَّلوٰة»، ایک اور جگہ پر وارد ہوا ہے: «وَجَعَلنا مِنهُم اَئِمَّةً یَهدونَ بِاَمرِنا  لَمّـا صَبَروا»؛ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر امام ہے۔ پیغمبر معاشرے کا رہبر و لیڈر اور رہنما ہے۔ چنانچہ امام صادق علیہ السلام نے منیٰ میں مجمع میں کھڑے ہو کر پکارا: اِنّ رَسولَ ‌اللهِ کانَ هُوَ الاِمام. اے لوگو! یہ خدا کے رسول ہیں جو امام ہیں۔ درست۔ یہ ایک اہم مطلب تھا اب عالم اسلام کی سطح پر مذہبی دانشوروں کا فرض ہے، علماء کا فرض ہے، مصنفین کا فرض ہے، محققین کا فرض ہے، یونیورسٹی کے پروفیسروں کا فرض ہے کہ وہ اس کی وضاحت کریں۔ دشمن اس امر میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور وہ معاشروں میں اس سب کا الٹ اور اس کا منافی مطلب ترویج کر رہے ہیں۔

اصلی متن

[از سویی هم] چون مسائل اجتماعی و وظایف مهمّ جامعه‌سازی و تمدّن‌سازی در اسلام وجود دارد، لذا اسلام به مسئله‌ی حاکمیّت هم اهتمام دارد. نمیتوان فرض کرد که اسلام نظم اجتماعی را به یک شکلی مطالبه کند امّا مسئله‌ی حاکمیّت و ریاست دین و دنیا را در آنجا مشخّص نکند. وقتی دین، نظام شد، نظامی که به فرد و جامعه ارتباط دارد، و یک منظومه‌ای شد که در مورد همه‌ی مسائل فردی و اجتماعی نظر دارد، رأی دارد، مطالبه دارد، پس بنابراین لازم است که مشخّص کند در رأس این جامعه چه کسی باشد، چه باشد، و امام را معیّن کند. لذا [اگر] در قرآن ملاحظه کنید، حدّاقل در دو جا از پیامبران به عنوان امام نام آورده شده: یک جا «وَجَـعَلنٰهُم اَئِمَّةً یَهدونَ بِاَمرِنا وَ اَوحَینا اِلَیهِم فِعلَ الخَیرٰتِ وَ اِقامَ الصَّلوٰة»، یک جا هم «وَجَعَلنا مِنهُم اَئِمَّةً یَهدونَ بِاَمرِنا  لَمّـا صَبَروا»؛ یعنی پیغمبر، امام است، امام جامعه است، رهبر جامعه است، فرمانده جامعه است؛ لذا امام صادق (علیه‌ الصّلاة و السّلام) در منیٰ در بین جمعیّت ایستاد و فریاد زد: اَیُّهَا النّاسُ! اِنّ رَسولَ‌ اللهِ کانَ هُوَ الاِمام. برای اینکه بفهماند که حرکت دینیِ صحیحِ پیغمبر چیست، امام صادق در منیٰ در بین جمعیّت منیٰ فریاد زد: اِنّ رَسولَ ‌اللهِ کانَ هُوَ الاِمام. خب، این یک مطلب است. در سطح دنیای اسلام، روشنفکران دینی وظیفه دارند، علما وظیفه دارند، نویسندگان وظیفه دارند، محقّقین وظیفه دارند، اساتید دانشگاه وظیفه دارند این را تبیین کنند؛ این را باید بگویند، دشمن در این زمینه سرمایه‌گذاری میکند که عکس این را، نفی این را ترویج کند.

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 November 21 ، 14:55
عون نقوی

امیرالمومنین امام علیؑ فرماتے ہیں

متن عربی:

الْوِلَایَاتُ مَضَامِیرُ الرِّجَالِ. 

ترجمہ:

حکومتیں لوگوں کیلئے آزمائش کا میدان ہے۔

قابل توجہ نکات:

زندگی کا کوئی ایک شعبہ بھی حکومت اور حاکمیت سے غیر مربوط نہیں، بہرصورت حکام اور حکومتیں آپ کی زندگی سے مربوط ہونگیں اور آپ کی انفرادی و اجتماعی زندگی کو متاثر کریں گی۔ اگر آپ غیر سرکاری ملازمت کرتے ہیں، عام مزدور ہیں یا سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے، آپ کی زندگی کو حکومت اور حکام متاثر کریں گے۔
کرہ ارض پر کوئی بھی انسان یہ بات نہیں کر سکتا کہ اس کا حکومتوں سے کوئی لین دین نہیں اور نا ہی سیاست سے کوئی دلچسپی ہے، اگر آپ خود کو نابینا کر لیں یہ اور بات ہے لیکن حکومتیں آپکی زندگی کو متاثر کر کے رہیں گی، خود آپ کا یہ کہنا کہ مجھے حکومتی امور یا سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں، یہی کہنا حکومت سے مربوط ہو جاتا ہے اور جب کوئی چیز باواسطہ یا بلا واسطہ حکومت سے مربوط ہو جائے آپ سے بھی مربوط ہو جائے گی۔ 
بعض افراد ایسی بات کہہ تو دیتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ جس سسٹم اور نظام میں آپ رہ رہے ہیں ان کو حکومتیں چلاتی ہیں، مثلا آپ کا جو اقتصاد و گھر کا خرچہ چل رہا ہے اس کا تمام دارومدار حکومتوں پر ہے، اگر حکومتیں کرپٹ ہوئیں تو آپ جتنا بھی کمائیں گے بھوک افلاس سے نہیں بچ سکتے، آپ کا سانس لینا اور صحتمند ہونا بھی حکومتوں سے مربوط ہے کیونکہ اگر حکومتوں نے صحت و تندرستی کے ادارے نا بناۓ یا وہاں پر نالایق افراد بھیج دیے آپ زندہ نہیں رہ سکیں گے یا اگر ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول نہ کیا تو آپ کا سانس لینا بھی دشوار ہو جاۓ گا۔
آپ کا امن و امان میں رہنا ہر روز باہر جانا، بازار سے روز و مرہ کی اشیاء خریدنا بھی حکومتوں سے مربوط ہے اگر حکومت نااہل و غدار آ گئی تو ملک دشمن عناصر آپ پر مسلط ہو جائیں گے و عین ممکن ہے ملک اور عوام کو چند داموں کے عوض بیچ کر خود فرار ہو جائیں اور آپ کو ابدی غلامی میں دھکیل دیں۔
آپ کی ازدواجی زندگی حتی بچوں کا پیدا ہونا بھی حکومتوں سے مربوط ہے یعنی اگر آج ہی حکومت اعلان کر دے کہ کوئی بھی شخص شادی نہیں کر سکے گا یا اسکا نکاح درج نہیں ہوگا جب تک اتنا پیسہ ٹیکس نہ دے دے، یا فقط اتنے بچے پیدا کر سکتے ہیں اس سے زیادہ نہیں کیونکہ حکومت کے پاس آبادی کے لیے وسائل نہیں ہیں تو آپ مجبور ہیں اپنی ازدواجی و انفرادی زندگی کو بھی محدود کریں۔
آپ کس انداز اور کس سوچ سے زندگی کرتے ہیں ہیں یہ بھی حکومتوں سے مربوط ہے، آپ کا رہن سہن، آپ کا دین اور اپکا کلچر حکومتوں کے مزاج پر منحصر ہے اگر آپ زندگی کے ہر شعبے سے منسلک کام کو حکومتوں سے مربوط کرنے لگ جائیں خود آپ اس ربط کو سمجھنے لگیں گے اور اسی وقت یہ بھی ضرور سوچیں کہ اگر اس حکومت کی جگہ پر کوئی اللہ کا نیک نمائندہ حاکمیت پر ہوتا تو اس وقت کیا ہوتا؟ 
امیرالمومنینؑ کے اس قول پر ایمان لانا ضروری ہے چاہے آپ ایمان نہ بھی لائیں عملی طور پر بہرحال حکومتیں آپ کے لیے آزمائش کا میدان ہیں، اگر رفاہ لے آئیں تو تب بھی اپکو رفاہ دے کر آزمائش میں ڈال دیں گی، اگر غربت میں دھکیل دیا تو یہ خود بہت بڑی آزمائش ہوگی حتی اگر الہی و اسلام کی حقیقی حکومت بھی قائم ہو جاۓ تب بھی آپ آزمائش سے نہیں چھٹکار حاصل کر سکتے خود امیرالمومنینؑ کی حکومت کا دورانیہ لے لیں اور اس وقت کے حالات پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ امیرالمومنینؑ کی حکومت میں بھی لوگ ازماۓ گئے اور بہت سخت طریقے سے آزماۓ گئے لیکن اس میں فرق یہ تھا کہ جو اس آزمائش سے سرخرو ہو کر نکلے وہ زمانے کے بہترین و سچے شیعہ بنے اور جو ناکام ہوۓ ابدی رسوائی ان کا نصیب بنی۔
امام خمینیؒ فرمایا کرتے تھے کہ آپ لوگ خود سوچ کر بتائیں حکومت کو حسینؑ جیسے اہل ترین، پاک ترین و عادل ترین انسان کے ہاتھ میں ہونا چاہیے یا یزید جیسے ناہل ترین، نجس ترین و فاسق ترین شخص کے ہاتھ میں؟ اگر آپ اس سوال کا جواب دینا چاہتے ہیں تو آپ کو حسینؑ کا ساتھ دینا ہوگا آپ حسینؑ سے غیرجانبدار نہیں ہو سکتے، اگر آپ یزید کے لشکر میں ہیں تو ویسے ہی ابدی ذلت ہے اور اگر دونوں سے خود کو جدا کر لیں تو تب بھی بچ نہیں سکتے کیونکہ یزید صرف دین کا اور امام کا ہی دشمن نہیں بلکہ عام گلی محلوں دفات میں کام کرنے والوں کا بھی دشمن ہے اور ایسا ہی ہوا، کربلا کے بعد ایسے افراد بھی قتل عام ہوۓ جو سمجھتے تھے کہ یزید کو ہم سے کیا کام؟ ہم تو غیر جانبدار ہی۔ اگر آپ نے خود کو اس سب سے جدا کر کیا اور کہا کہ میں غیر جانبدار ہوں مجھے کسی بھی حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں تو آۓ گا کوئی یزید جیسا حاکم اور آپ کو اس گروہ میں شامل کردے گا جس پر زیارت عاشورہ میں لعنت کی گئی ہے۔ کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ زیارت عاشورہ میں فقط قاتلین پر لعنت نہیں ہوئی بلکہ اس خاموش امت پر بھی لعنت کی گئی ہے جو یزید کے لشکر میں تو شامل نہ تھی لیکن امام حسینؑ کا بھی ساتھ نہ دیا۔
دین کے اندر غیرجانبداری اس معنی میں ہرگز نہیں پائی جاتی کہ آپ یہ کہنے لگ جائیں کہ اجتماعی امور میں، میں الگ تھلگ رہ لونگا اور کسی کو کچھ کہنوگا اور نا سنونگا۔ آپ خود آزما لیں، جنگلوں اور بیابانوں میں رہنا شروع کر دیں بالآخر ایک نا ایک دن یہی جنگل حکومتی اہلکاروں کے ہاتھوں کٹ جائیں گے اور جنگل کا ستیاناس کرنے کے بعد وہیں کوئی ٹاؤن یا سوسائٹی بنا دی جاۓ گی۔ بالآخر آپ حکومتوں کے ہاتھوں آزماۓ جائیں گے اس لیے دین نے واجب قرار دیا ہے کہ حکومت صرف الہی نمائندے کے ہاتھ میں ہونی چاہیے جو آپ کو آزماۓ تو کم از کم ابدی سعادت تک پہنچا دے، لیکن اگر اس کے برعکس کسی غیر الہی حکومت کے ہاتھوں آپ آزماۓ گئے تو سعادت کے چانس کم ہیں اور امت ساری اجتماعی ہلاکت میں جا گرے گی۔

 

 


حوالہ:

۱۔ نہج البلاغہ، حکمت ۴۴۰۔

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 10 October 21 ، 10:40
عون نقوی

امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ:

ہماری حکومتی نظام کا ڈھانچہ جمہوری اسلامی ہے۔ جمہوری اس معنی ہے کہ لوگوں کی اکثریت اس کو قبول کرتی ہے اور اسلامی اس معنی میں کہ اس کو اسلامی قوانین کے مطابق چلایا جاۓ گا۔

حوالہ:

حکومت اسلامى و ولایت فقیہ در اندیشہ امام خمینى رح ، ص: ۵۷۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 August 21 ، 13:23
عون نقوی