بصیرت اخبار

۲۵ مطلب با موضوع «اسلامی داستانیں» ثبت شده است

{اسلامی داستانیں: داستان نمبر ۱۴۶}

ترجمہ: عون نقوی

 

شیخ محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی سند سے نقل کیا ہے:

امام رضاؑ کے صحابی بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں بہت سے اموال کے ساتھ امام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے دل ہی دل میں سمجھا ہوا تھا کہ امام ان ڈھیر سارے اموال کو دیکھ کر بہت خوش ہونگے۔ لیکن میرے تصور کے برخلاف وہ خوش نہ ہوۓ۔ یہ دیکھ کر خود میں غمگین ہو گیا۔ امام رضاؑ میری کیفیت سے واقف ہو گئے اور اپنے ایک غلام سے فرمایا کہ وہ ایک آفتابہ اور لگن لے آۓ۔ امام اپنی نشست پر موجود تھے اور غلام کو فرمایا میرے ہاتھوں پر پانی ڈالو۔ میں جو اس ماجرہ کو بہت دقت سے دیکھ رہا تھا متوجہ ہوا کہ جب غلام نے امام کے ہاتھوں پر پانی ڈالا ان کے انگلیوں کے درمیان سے سونے کے ٹکڑے لگن میں گر رہے تھے۔ امام نے میری طرف رخ کر کے فرمایا: «من کان هکذا لا یبالی بالدی حملته الیه». جو اس طرح سے ہو (جس کے انگلیوں سے سونا نکلتا ہو) اسے تمہارے اموال کی کیا ضرورت؟ اور اسے ان اموال سے بھلا کیا خوشی حاصل ہوگی۔[1][2]

منابع:

 

↑1 محمدى اشتہاردى،محمد،داستان ہاى اصول کافى، ص۳۳۲۔
↑2 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱،ص۴۹۱،ح۱۰۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 April 22 ، 21:24
عون نقوی

{قصص علماء}

کہتے ہیں کہ مرحوم آقا نجفى اصفہانى کے دور مرجعیت میں ایک روز کچھ افراد جو بظاہر «طالب علم» تھے حالانکہ وہ طالب علم نہیں تھے کیونکہ حقیقى طالب علم ایسى سرگرمیوں سے ہمیشہ دور رہتے ہیں۔ آقاۓ نجفى کے گھر پہنچے ان کى سانسیں پھولى ہوئى تھیں اور وہ ایک ٹوٹى ہوئى دف اور ایک ٹوٹى ہوئى ڈھولک اٹھاۓ ہوۓ تھے۔ آقاۓ نجفى نے ان سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ تم لوگ کہاں سے آۓ ہو اور یہ کیا چیزیں ہیں؟ انہوں نےجواب دیا:

ہم مدرسہ میں تھے کہ ہمیں اطلاع ملى کہ مدرسہ سے کچھ دور ایک گھر میں شادى کى تقریب ہے۔ وہاں دف اور ڈھولک بجائى جارہى ہے۔ ہم مدرسے کى چھت پر سے ہو کر اس سے ملے ہوۓ گھروں کى چھتوں پر سے گزرتے ہوۓ اس گھر میں پہنچے اور اندر داخل ہوکر لوگوں کو مارا پیٹا اور ان کى دف اور ڈھولک توڑ پھوڑ دیں۔ ان طالب علموں میں سے ایک نے بڑھ کر کہا: میں خود دلہن کے پاس پہنچا اور اسے ایک زور دار تھپڑ مارا۔ مرحوم آقا نجفى نے خفا ہو کر فرمایا: کیا نہى عن المنکر وہى کچھ ہے جو تم نے انجام دیا؟ نہیں! بلکہ تم نے کئى گناہوں کا ارتکاب کیا ہے۔ پہلى بات تو یہ کہ وہ شادى کى تقریب تھى۔ دوسرى یہ کہ تمہیں جاسوسى کا کوئى حق نہیں۔ تیسرى یہ کہ لوگوں کے گھروں کى چھتوں پر سے جانے کا کیا حق تھا؟ اور چوتھى یہ کہ تمہیں جاکر مار پیٹ کرنے کى اجازت کس نے دى؟[1]

منابع:

 
↑1 اسلامى داستانیں، شہید مرتضى مطہرىؒ، ص: ۱۷۴۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 April 22 ، 15:56
عون نقوی

{قصص آئمہ اطہارؑ}

اسلامی کہانی: ۱۳۲

ترجمہ: عون نقوی

 

زمانہ غیبت میں اہل عراق میں سے ایک شخص نے خمس نکالا اور سہم امام کا حصہ امام زمانؑ کى خدمت میں بھیجا۔ امامؑ نے سہم امام کا حصہ قبول نہ فرمایا اور اسے واپس بھیج دیا۔ اسے کہا گیا کہ تمہارا مال اس لیے قبول نہیں ہوا کہ اس مال میں سے ۴۰۰ درہم غصبی مال ہے۔ جب تک وہ مال صاحب مال کے پاس پہنچ نہیں جاتا تمہارا مال قبول نہیں۔ جب اس شخص کى تحقیق کى گئى تو پتہ چلا کہ وہ ایک زمین میں اپنے چچا زاد کے ساتھ شریک تھا اور اس کا حق اس نے ادا نہیں کیا تھا۔ اس شخص سے ۴۰۰ درہم نکلوا کر اس کے چچا زاد تک پہنچاۓ گئے اور پھر اس کا مال امام کى خدمت میں پیش کیا گیا تو اس بار اس کے مال کو قبول کرلیا گیا۔[1][2]

منابع:

 
↑1 محمدی اشتہاردی، مجمد، داستان ہای اصول کافی، ص۴۱۶۔
↑2 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۵۱۹،ح۸۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 April 22 ، 15:55
عون نقوی

{قصص آئمہ اطہارؑ}

اسلامی کہانی: ۱۳۱

ترجمہ: عون نقوی

حسن بن خفیف کہتے ہیں کہ ایک دن میرے والدنے مجھے بتایا کہ امام مہدىؑ نے اپنے ایک غلام کو کسى کام سے مکہ بھیجا اس کے ساتھ امام کے دو اور خدمت گذار بھى تھے ۔امام ؑنے مجھے حکم دیا کہ میں بھى ان کے ہمراہ ہو جاؤں۔ ہم سب مکہ کى طرف روانہ ہوۓ جب واپس آتے ہوۓ کوفہ پہنچے تو ان دو خدمتگذاروں میں سے ایک نے شراب پى۔ ابھى ہم کوفہ سے باہر نہیں نکلے تھے کہ سامرہ کى جانب سے مجھے امام ؑکى جانب سے ایک خط موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ جس خادم نے شراب پى ہے اس کو کام سے نکال دو وہ معزول ہے۔[1][2]

منابع:

 
↑1 محمد اشتہادری، محمد، داستان ہای اصول کافی، ص۴۱۱۔
↑2 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۵۲۳،ح۲۱۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 April 22 ، 15:54
عون نقوی

{قصص آئمه اطهارؑ}

اسلامی کہانی: ۱۳۰

ترجمہ: عون نقوی

 

داود بن حصین کہتے ہیں  کہ ہم چودہ افراد امام جعفر صادق ؑکى بارگاہ میں حاضر تھے۔ اس دوران امام ؑنے چھینک مارى۔ ہم سب نے ’’ یرحمک اللہ ‘‘ کہا ۔ایک شخص نے چھینک کا جواب نہ دیااور خاموش رہا۔ امام ؑنے اس شخص کى طرف رخ کیا اور فرمایا کہ کیا چھینک  کا جواب نہیں دوگے (یعنی کیا ’’ یرحمک اللہ ‘‘ نہیں کہوگے؟) اس کے بعد امام ؑنے فرمایا کہ ایک مومن کے دوسرے مومن پر چار حق ہیں:
۱۔ جب بیمار ہو تو اس کى عیادت کو جاۓ۔
۲۔ جب فوت ہو جاۓ تو اس کى تشییع جنازہ کے لئے جاۓ۔
۳۔ جب چھینک مارے تو ’’یرحمک اللہ ‘‘ کہہ کر چھینک کا جواب دے۔
۴۔ اور جب دعوت کرے تو اسکى دعوت کو قبول کرے۔[1][2]

منابع:

 
↑1 محمدی اشتہادی، محمد، داستان ہای اصول کافی، ص۴۳۰۔
↑2 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۲، ص۶۵۴، ح۷۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 April 22 ، 15:52
عون نقوی