داعشى طرز کا نہى عن المنکر
{قصص علماء}
کہتے ہیں کہ مرحوم آقا نجفى اصفہانى کے دور مرجعیت میں ایک روز کچھ افراد جو بظاہر «طالب علم» تھے حالانکہ وہ طالب علم نہیں تھے کیونکہ حقیقى طالب علم ایسى سرگرمیوں سے ہمیشہ دور رہتے ہیں۔ آقاۓ نجفى کے گھر پہنچے ان کى سانسیں پھولى ہوئى تھیں اور وہ ایک ٹوٹى ہوئى دف اور ایک ٹوٹى ہوئى ڈھولک اٹھاۓ ہوۓ تھے۔ آقاۓ نجفى نے ان سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ تم لوگ کہاں سے آۓ ہو اور یہ کیا چیزیں ہیں؟ انہوں نےجواب دیا:
ہم مدرسہ میں تھے کہ ہمیں اطلاع ملى کہ مدرسہ سے کچھ دور ایک گھر میں شادى کى تقریب ہے۔ وہاں دف اور ڈھولک بجائى جارہى ہے۔ ہم مدرسے کى چھت پر سے ہو کر اس سے ملے ہوۓ گھروں کى چھتوں پر سے گزرتے ہوۓ اس گھر میں پہنچے اور اندر داخل ہوکر لوگوں کو مارا پیٹا اور ان کى دف اور ڈھولک توڑ پھوڑ دیں۔ ان طالب علموں میں سے ایک نے بڑھ کر کہا: میں خود دلہن کے پاس پہنچا اور اسے ایک زور دار تھپڑ مارا۔ مرحوم آقا نجفى نے خفا ہو کر فرمایا: کیا نہى عن المنکر وہى کچھ ہے جو تم نے انجام دیا؟ نہیں! بلکہ تم نے کئى گناہوں کا ارتکاب کیا ہے۔ پہلى بات تو یہ کہ وہ شادى کى تقریب تھى۔ دوسرى یہ کہ تمہیں جاسوسى کا کوئى حق نہیں۔ تیسرى یہ کہ لوگوں کے گھروں کى چھتوں پر سے جانے کا کیا حق تھا؟ اور چوتھى یہ کہ تمہیں جاکر مار پیٹ کرنے کى اجازت کس نے دى؟[1]
منابع:
↑1 | اسلامى داستانیں، شہید مرتضى مطہرىؒ، ص: ۱۷۴۔ |
---|