بصیرت اخبار

۳۳۸ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «نہج البلاغہ» ثبت شده است

عبداللہ بن زمعہ نے آپ سے مال طلب کیا تو فرمایا

إِنَّ هَذَا الْمَالَ لَیْسَ لِی وَ لاَ لَکَ وَ إِنَّمَا هُوَ فَیْءٌ لِلْمُسْلِمِینَ وَ جَلْبُ أَسْیَافِهِمْ فَإِنْ شَرِکْتَهُمْ فِی حَرْبِهِمْ کَانَ لَکَ مِثْلُ حَظِّهِمْ وَ إِلاَّ فَجَنَاهُ أَیْدِیهِمْ لاَ تَکُونُ لِغَیْرِ أَفْوَاهِهِمْ.

یہ مال نہ میرا ہے نہ تمہارا، بلکہ مسلمانوں کا حق مشترک اور ان کی تلواروں کا جمع کیا ہوا سرمایہ ہے، اگر تم ان کے ساتھ جنگ میں شرکی ہوۓ ہوتے تو تمہارا حصہ بھی ان کے برابر ہوتا، ورنہ ان کے ہاتھوں کی کمائی دوسروں کے منہ کا نوالہ بننے کے لیے نہیں ہے۔(۱)

 

 


ترجمہ:

مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ، نہج البلاغہ اردو، ص۲۷۰۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 September 21 ، 18:19
عون نقوی

اپنے اصحاب کو جنگ کے لیے آمادہ کرنے اور آرام طلبی سے بچنے کے لیے فرمایا

وَ اللَّهُ مُسْتَأْدِیکُمْ شُکْرَهُ وَ مُوَرِّثُکُمْ أَمْرَهُ وَ مُمْهِلُکُمْ فِی مِضْمَارٍ مَحْدُودٍ لِتَتَنَازَعُوا سَبَقَهُ فَشُدُّوا عُقَدَ الْمَآزِرِ وَ اطْوُوا فُضُولَ الْخَوَاصِرِ لاَ تَجْتَمِعُ عَزِیمَهٌ وَ وَلِیمَهٌ. مَا أَنْقَضَ النَّوْمَ لِعَزَائِمِ الْیَوْمِ. وَ أَمْحَی الظُّلَمَ لِتَذَاکِیرِ الْهِمَمِ!.

خداوندِ عالم تم سے اداۓ شکر کا طلبگار ہے اور اس نے تمہیں اپنے اقتدار کا مالک بنایا ہے اور تمہیں اس (زندگی کے) محدود میدان میں مہلت دت رکھی ہے تاکہ سبقت کا انعام حاصل کرنے میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرو۔ کمریں مضبوطی سے کس لو اور دامن گردان لو۔ بلند ہمتی اور دعوتوں کی خواہش ایک ساتھ نہیں چل سکتی۔ رات کی گہری نیند دن کی مہموں میں بڑی کمزوری پیدا کرنے والی ہے اور (اس کی ) اندھاریاں ہمت و جرات کی یاد کو بہت مٹا دینے والی ہے۔(۱)

 

 


ترجمہ:

۱۔ مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ، نہج البلاغہ اردو، ص۲۷۵۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 September 21 ، 17:46
عون نقوی

جنگ کے موقع پر اپنے ساتھیوں سے فرماتے تھے

لاَ تَشْتَدَّنَّ عَلَیْکُمْ فَرَّهٌ بَعْدَهَا کَرَّهٌ وَ لاَ جَوْلَهٌ بَعْدَهَا حَمْلَهٌ وَ أَعْطُوا السُّیُوفَ حُقُوقَهَا وَ وَطِّئُوا لِلْجُنُوبِ مَصَارِعَهَا وَ اذْمُرُوا أَنْفُسَکُمْ عَلَی الطَّعْنِ الدَّعْسِیِّ وَ الضَّرْبِ الطِّلَحْفِیِّ وَ أَمِیتُوا الْأَصْوَاتَ فَإِنَّهُ أَطْرَدُ لِلْفَشَلِ فَوَ الَّذِی فَلَقَ الْحَبَّهَ وَ بَرَأَ النَّسَمَهَ مَا أَسْلَمُوا وَ لَکِنِ اسْتَسْلَمُوا وَ أَسَرُّوا الْکُفْرَ فَلَمَّا وَجَدُوا أَعْوَاناً عَلَیْهِ أَظْهَرُوهُ.

وہ پسپائی کہ جس کے بعد پلٹنا ہو اور وہ اپنی جگہ سے ہٹنا جس کے بعد حملہ مقصود ہو، تمہیں گراں نہ گزرے۔ تلواروں کا حق ادا کرو اور پہلوؤں کے بل گرنے والے(دشمنوں) کے لیے میدان تیار رکھو۔ سخت نیزہ لگانے اور تلواروں کا بھر پور ہاتھ چلانے کے لیے اپنے کو آمادہ کرو۔ آوازوں کو دبا لو کہ اس سے بودا پن قریب نہیں پھٹکتا۔ اس ذات کی قسم! جس نے دانے کو چیرا اور جاندار چیزوں کو پیدا کیا، یہ لوگ اسلام نہیں لاۓ تھے بلکہ اطاعت کر لی تھی اور دلوں میں کفر کو چھپاۓ رکھا تھا۔ اب جبکہ یار و مددگار مل گئے تو اسے ظاہر کر دیا۔(۱)
 

 


حوالہ:

۱۔ مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ، نہج البلاغہ اردو، ص۲۸۵۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 September 21 ، 18:58
عون نقوی

دشمن سے دوبدو ہوتے وقت حضرت کے دعائیہ کلمات

اللَّهُمَّ إِلَیْکَ أَفْضَتِ الْقُلُوبُ وَ مُدَّتِ الْأَعْنَاقُ وَ شَخَصَتِ الْأَبْصَارُ وَ نُقِلَتِ الْأَقْدَامُ وَ أُنْضِیَتِ الْأَبْدَانُ. اللَّهُمَّ قَدْ صَرَّحَ مَکْنُونُ الشَّنَآنِ وَ جَاشَتْ مَرَاجِلُ الْأَضْغَانِ. اللَّهُمَّ إِنَّا نَشْکُو إِلَیْکَ غَیْبَهَ نَبِیِّنَا وَ کَثْرَهَ عَدُوِّنَا وَ تَشَتُّتَ أَهْوَائِنَا - رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنا وَ بَیْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَ أَنْتَ خَیْرُ الْفاتِحِینَ.

بارِ الہا! دل تیری طرف کھینچ رہے ہیں، گردنیں تیری طرف اٹھ رہی ہیں، آنکھیں تجھ پر لگی ہوئی ہیں، قدم حرکت میں آچکے ہیں اور بدن لاغر پڑ چکے ہیں۔ بارِ الہا! چھپی ہوئی عداوتیں ابھر آئی ہیں اور کینہ و عناد کی دیگیں جوش کھانے لگی ہیں۔ خداوندا! ہم تجھ سے اپنے نبیؐ کے نظروں سے اوجھل ہوجانے، اپنے دشمنوں کے بڑھ جانے اور اپنی خواہشوں میں تفرقہ پڑ جانے کا شکوہ کرتے ہیں۔ پروردگار! تو ہی ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان سچائی کے ساتھ فیصلہ کر اور تو سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔(۱)

 

 


حوالہ:

مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ، نہج البلاغہ اردو، ص۲۸۵۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 September 21 ، 18:50
عون نقوی

معاویہ ابن ابی سفیان کے نام

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ أَتَتْنِی مِنْکَ مَوْعِظَهٌ مُوَصَّلَهٌ وَ رِسَالَهٌ مُحَبَّرَهٌ نَمَّقْتَهَا بِضَلاَلِکَ وَ أَمْضَیْتَهَا بِسُوءِ رَأْیِکَ وَ کِتَابُ امْرِئٍ لَیْسَ لَهُ بَصَرٌ یَهْدِیهِ وَ لاَ قَائِدٌ یُرْشِدُهُ قَدْ دَعَاهُ الْهَوَی فَأَجَابَهُ وَ قَادَهُ الضَّلاَلُ فَاتَّبَعَهُ فَهَجَرَ لاَغِطاً وَ ضَلَّ خَابِطاً.

وَ مِنْهُ:

لِأَنَّهَا بَیْعَهٌ وَاحِدَهٌ لاَ یُثَنَّی فِیهَا النَّظَرُ، وَ لاَ یُسْتَأْنَفُ فِیهَا الْخِیَارُ. الْخَارِجُ مِنْهَا طَاعِنٌ، وَ الْمُرَوِّی فِیهَا مُدَاهِنٌ.

تمہارا بے جوڑ نصیحتوں کا پلندہ اور بنایا سنوارا ہوا خط میرے پاس آیا، جسے اپنی گمراہی کی بناء پر تم نے لکھا اور اپنی بے عقلی کی وجہ سے بھیجا۔ یہ ایک ایسے شخص کا خط ہے کہ جسے نہ روشنی نصیب ہے کہ اسے سیدھی راہ دکھاۓ اور نہ کوئی رہبر ہے کہ اسے صحیح راستے پر ڈالے۔ جسے نفسانی خواہش نے پکارا تو وہ لبیک کہہ کر اٹھا اور گمراہی نے اس کی رہبری کی تو وہ اس کے پیچھے ہو لیا اور یاوہ گوئی کرتے ہوۓ اول فول بکنے لگا اور بے راہ ہوتے ہوۓ بھٹک گیا۔

اس مکتوب کا ایک حصہ یہ ہے

کیونکہ یہ بیعت ایک ہی دفعہ ہوتی ہے، نہ پھر اس میں نظر ثانی کی گنجائش ہوتی ہے اور نہ پھر سے چناؤ ہو سکتا ہے۔ اس سے منحرف ہونے والا نظام اسلامی پر معترض قرار پاتا ہے اور غور و تامل سے کام لینے والا منافق سمجھا جاتا ہے۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ، نہج البلاغہ اردو، ص۲۸۰۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 September 21 ، 18:39
عون نقوی