نہج البلاغہ مکتوب ۷
معاویہ ابن ابی سفیان کے نام
أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ أَتَتْنِی مِنْکَ مَوْعِظَهٌ مُوَصَّلَهٌ وَ رِسَالَهٌ مُحَبَّرَهٌ نَمَّقْتَهَا بِضَلاَلِکَ وَ أَمْضَیْتَهَا بِسُوءِ رَأْیِکَ وَ کِتَابُ امْرِئٍ لَیْسَ لَهُ بَصَرٌ یَهْدِیهِ وَ لاَ قَائِدٌ یُرْشِدُهُ قَدْ دَعَاهُ الْهَوَی فَأَجَابَهُ وَ قَادَهُ الضَّلاَلُ فَاتَّبَعَهُ فَهَجَرَ لاَغِطاً وَ ضَلَّ خَابِطاً.
وَ مِنْهُ:
لِأَنَّهَا بَیْعَهٌ وَاحِدَهٌ لاَ یُثَنَّی فِیهَا النَّظَرُ، وَ لاَ یُسْتَأْنَفُ فِیهَا الْخِیَارُ. الْخَارِجُ مِنْهَا طَاعِنٌ، وَ الْمُرَوِّی فِیهَا مُدَاهِنٌ.
تمہارا بے جوڑ نصیحتوں کا پلندہ اور بنایا سنوارا ہوا خط میرے پاس آیا، جسے اپنی گمراہی کی بناء پر تم نے لکھا اور اپنی بے عقلی کی وجہ سے بھیجا۔ یہ ایک ایسے شخص کا خط ہے کہ جسے نہ روشنی نصیب ہے کہ اسے سیدھی راہ دکھاۓ اور نہ کوئی رہبر ہے کہ اسے صحیح راستے پر ڈالے۔ جسے نفسانی خواہش نے پکارا تو وہ لبیک کہہ کر اٹھا اور گمراہی نے اس کی رہبری کی تو وہ اس کے پیچھے ہو لیا اور یاوہ گوئی کرتے ہوۓ اول فول بکنے لگا اور بے راہ ہوتے ہوۓ بھٹک گیا۔
اس مکتوب کا ایک حصہ یہ ہے
کیونکہ یہ بیعت ایک ہی دفعہ ہوتی ہے، نہ پھر اس میں نظر ثانی کی گنجائش ہوتی ہے اور نہ پھر سے چناؤ ہو سکتا ہے۔ اس سے منحرف ہونے والا نظام اسلامی پر معترض قرار پاتا ہے اور غور و تامل سے کام لینے والا منافق سمجھا جاتا ہے۔(۱)
حوالہ:
۱۔ مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ، نہج البلاغہ اردو، ص۲۸۰۔