بصیرت اخبار

۳۲۸ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «نہج البلاغہ کلمات قصار» ثبت شده است

کَتَبَهٗ لِشُرَیْحِ بْنِ الْحَارِثِ قَاضِیْهِ

جو آپؑ نے شریح ابن حارث قاضی (کوفہ) کیلئے تحریر فرمائی:

رُوِیَ اَنَّ شُرَیْحَ بْنَ الْحَارِثِ قَاضِیَ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ؑ‏ اشْتَرٰى عَلٰى عَهْدِهٖ دَارًا بِثَمَانِیْنَ دِیْنَارًا فَبَلَغَهٗ ذٰلِکَ فَاسْتَدْعَاهُ وَ قَالَ لَهٗ:

روایت ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام کے قاضی شریح ابن حارث نے آپؑ کے دورِ خلافت میں ایک مکان اَسّی (۸۰) دینار کو خرید کیا۔ حضرت کو اس کی خبر ہوئی تو انہیں بلوا بھیجا اور فرمایا:

بَلَغَنِیْۤ اَنَّکَ ابْتَعْتَ دَارًۢا بِثَمَانِیْنَ دِیْنَارًا، وَ کَتَبْتَ کِتَابًا، وَ اَشْهَدْتَّ فِیْهِ شُهُوْدًا؟

مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم نے ایک مکان اَسّی (۸۰) دینار کو خرید کیا ہے اور دستاویز بھی تحریر کی ہے اور اس پر گواہوں کی گواہی بھی ڈلوائی ہے؟

فَقَالَ شُرَیْحٌ: قَدْ کَانَ ذٰلِکَ یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ. قَالَ: فَنَظَرَ اِلَیْهِ نَظَرَ مُغْضَبٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ:

شریح نے کہا کہ جی ہاں یا امیر المومنینؑ ایسا ہوا تو ہے۔ (راوی کہتا ہے) اس پر حضرتؑ نے انہیں غصہ کی نظر سے دیکھا اور فرمایا:

یَا شُرَیْحُ! اَمَاۤ اِنَّهٗ سَیَاْتِیْکَ مَنْ لَّا یَنْظُرُ فِیْ کِتَابِکَ، وَ لَا یَسْئَلُکَ عَنْۢ بَیِّنَتِکَ، حَتّٰی یُخْرِجَکَ مِنْهَا شَاخِصًا، وَ یُسْلِمَکَ اِلٰی قَبْرِکَ خَالِصًا.

دیکھو!بہت جلد ہی وہ (ملک الموت) تمہارے پاس آجائے گا، جو نہ تمہاری دستاویز دیکھے گا اور نہ تم سے گواہوں کو پوچھے گا، اور وہ تمہارا بوریا بستر بندھوا کر یہاں سے نکال باہر کرے گا اور قبر میں اکیلا چھوڑ دے گا۔

فَانْظُرْ یَا شُرَیْحُ! لَا تَکُوْنُ ابْتَعْتَ هٰذِهِ الدَّارَ مِنْ غَیْرِ مَالِکَ، اَوْ نَقَدْتَّ الثَّمَنَ مِنْ غَیْرِ حَلَالِکَ! فَاِذًا اَنْتَ قَدْ خَسِرْتَ دَارَ الدُّنْیَا وَ دَارَ الْاٰخِرَةِ!. اَمَاۤ اِنَّکَ لَوْ کُنْتَ اَتَیْتَنِیْ عِنْدَ شِرَآئِکَ مَا اشْتَرَیْتَ لَکَتَبْتُ لَکَ کِتابًا عَلٰی هٰذِهِ النُّسْخَةِ، فَلَمْ تَرْغَبْ فِیْ شِرَآءِ هٰذِهِ الدَّارِ بِدِرْهَمٍ فَمَا فَوْقُ.

اے شریح! دیکھو، ایسا تو نہیں کہ تم نے اس گھر کو دوسرے کے مال سے خریدا ہو، یا حرام کی کمائی سے قیمت ادا کی ہو۔ اگر ایسا ہوا تو سمجھ لو کہ تم نے دنیا بھی کھوئی اور آخرت بھی۔ دیکھو! اس کی خریداری کے وقت تم میرے پاس آئے ہوتے تو میں اسی وقت تمہارے لئے ایک ایسی دستاویز لکھ دیتا کہ تم ایک درہم بلکہ اس سے کم کو بھی اس گھر کے خریدنے کو تیار نہ ہوتے۔

وَ النُّسْخَةُ هٰذِہٖ:

وہ دستاویز یہ ہے:

هٰذَا مَا اشْتَرٰی عَبْدٌ ذَلِیْلٌ، مِنْ عَبْدٍ قَدْ اُزْعِجَ لِلرَّحِیْلِ، اشْتَرٰی مِنْهُ دَارًا مِّنْ دَارِ الْغُرُوْرِ، مِنْ جَانِبِ الْفَانِیْنَ، وَ خِطَّةِ الْهَالِکِیْنَ، وَ یَجْمَعُ هٰذِهِ الدَّارَ حُدُوْدٌ اَرْبَعَةٌ:

یہ وہ ہے جو ایک ذلیل بندے نے ایک ایسے بندے سے کہ جو سفر آخرت کیلئے پا در رِکاب ہے خرید کیا ہے۔ایک ایسا گھر کہ جو دنیائے پر فریب میں مرنے والوں کے محلّے اور ہلاک ہونے والوں کے خطّہ میں واقع ہے، جس کے حدود اربعہ یہ ہیں:

اَلْحَدُّ الْاَوَّلُ یَنْتَهِیْۤ اِلٰی دَوَاعِی الْاٰفَاتِ، وَ الْحَدُّ الثَّانِیْ یَنْتَهِیْ اِلٰی دَوَاعِی الْمُصِیْبَاتِ، وَ الْحَدُّ الثَّالِثُ یَنْتَهِیْ اِلَی الْهَوَی الْمُرْدِیْ، وَ الْحَدُّ الرَّابِـعُ یَنْتَهِیْ اِلَی الشَّیْطٰنِ الْمُغْوِیْ، وَ فِیْهِ یُشْرَعُ بَابُ هٰذِهِ الدَّارِ.

پہلی حد آفتوں کے اسباب سے متصل ہے، دوسری حد مصیبتوں کے اسباب سے ملی ہوئی ہے اور تیسری حد ہلاک کرنے والی نفسانی خواہشوں تک پہنچتی ہے اور چوتھی حد گمراہ کرنے والے شیطان سے تعلق رکھتی ہے۔ اور اسی حد میں اس کا دروازہ کھلتا ہے۔

اِشْتَرٰی هٰذَا الْمُغْتَرُّ بِالْاَمَلِ، مِنْ هٰذَا الْمُزْعَجِ بِالْاَجَلِ، هٰذِهِ الدَّارَ بِالْخُرُوْجِ مِنْ عِزِّ الْقَنَاعَةِ، وَ الدُّخُوْلِ فِیْ ذُلِّ الطَّلَبِ وَ الضَّرَاعَةِ، فَمَاۤ اَدْرَکَ هٰذَا الْمُشْتَرِیْ فِیْمَا اشْتَرٰی مِنْ دَرَکٍ، فَعَلٰی مُبَلْبِلِ اَجْسَامِ الْمُلُوْکِ، وَ سَالِبِ نُفُوْسِ الْجَبَابِرَةِ، وَ مُزِیْلِ مُلْکِ الْفَراعِنَةِ، مِثْلِ کِسْرٰی وَ قَیْصَرَ، وَ تُبَّعٍ وَ حِمْیَرَ، وَ مَنْ جَمَعَ الْمَالَ عَلَی الْمَالِ فَاَکْثَرَ، وَ مَنْۢ بَنٰی وَ شَیَّدَ، وَ زَخْرَفَ وَ نَجَّدَ وَ ادَّخَرَ وَ اعْتَقَدَ، وَ نَظَرَ بِزَعْمِهٖ لِلْوَلَدِ، اِشْخَاصُهُمْ جَمِیْعًا اِلٰی مَوْقِفِ الْعَرْضِ وَ الْحِسَابِ، وَ مَوْضِعِ الثَّوَابِ وَ الْعِقَابِ: اِذَا وَقَعَ الْاَمْرُ بِفَصْلِ الْقَضَآءِ ﴿وَ خَسِرَ هُنَالِکَ الْمُبْطِلُوْنَ۠.

اس فریب خوردۂ امید و آرزو نے اس شخص سے کہ جسے موت دھکیل رہی ہے اس گھر کو خریدا ہے، اس قیمت پر کہ اس نے قناعت کی عزت سے ہاتھ اٹھایا اور طلب و خواہش کی ذلت میں جا پڑا۔ اب اگر اس سودے میں خریدار کو کوئی نقصان پہنچے تو بادشاہوں کے جسم کو تہ و بالا کرنے والے، گردن کشوں کی جان لینے والے، اور کسریٰ، قیصر اور تبع و حمیر ایسے فرمانرواؤں کی سلطنتیں الٹ دینے والے اور مال سمیٹ سمیٹ کر اسے بڑھانے، اونچے اونچے محل بنانے سنوارنے، انہیں فرش فروش سے سجانے اور اولاد کے خیال سے ذخیرے فراہم کرنے اور جاگیریں بنانے والوں سے سب کچھ چھین لینے والے کے ذمہ ہے کہ وہ ان سب کو لے جا کر حساب و کتاب کے موقف اور عذاب و ثواب کے محل میں کھڑا کرے۔ ’’اس وقت کہ جب حق و باطل والے وہاں خسارے میں رہیں گے‘‘ ۔

شَهِدَ عَلٰی ذٰلِکَ الْعَقْلُ اِذَا خَرَجَ مِنْ اَسْرِ الْهَوٰی، وَ سَلِمَ مِنْ عَلاۗئِقِ الدُّنْیَا.

گواہ شد بر ایں عقل، جب خواہشوں کے بندھن سے الگ اور دنیا کی وابستگیوں سے آزاد ہو۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 December 22 ، 18:21
عون نقوی

اِلٰى اَهْلِ الْکُوْفَةِ عِنْدَ مَسِیْرِهٖ مِنَ الْمَدِیْنَةِ اِلَی الْبَصْرَةِ:

جو مدینہ سے بصرہ کی جانب روانہ ہوتے ہوئے اہل کوفہ کے نام تحریر فرمایا

مِنْ عَبْدِ اللهِ عَلِیٍّ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِلٰۤی اَهْلِ الْکُوْفَةِ جَبْهَةِ الْاَنْصَارِ وَسَنَامِ الْعَرَبِ.

خدا کے بندے علی امیر المومنین علیہ السلام کی طرف سے اہل کوفہ کے نام جو مددگاروں میں سر بر آوردہ اور قومِ عرب میں بلند نام ہیں۔

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنِّیْۤ اُخْبِرُکُمْ عَنْ اَمْرِ عُثْمَانَ حَتّٰی یَکُوْنَ سَمْعُهٗ کَعِیَانِهٖ: اِنَّ النَّاسَ طَعَنُوْا عَلَیْهِ، فَکُنْتُ رَجُلًا مِّنَ الْمُهَاجِرِیْنَ اُکْثِرُ اسْتِعْتَابَهٗ، وَ اُقِلُّ عِتَابَهٗ، وَ کَانَ طَلْحَةُ وَ الزُّبَیْرُ اَهْوَنُ سَیْرِهِمَا فِیْهِ الْوَجِیْفُ، وَ اَرْفَقُ حِدَآئِهِمَا الْعَنِیْفُ، وَ کَانَ مِنْ عَآئِشَةَ فِیْهِ فَلْتَةُ غَضَبٍ، فَاُتِیْحَ لَهٗ قَوْمٌ فَقَتَلُوْهُ، وَ بَایَعَنِی النَّاسُ غَیْرَ مُسْتَکْرَهِیْنَ وَ لَا مُجْبَرِیْنَ، بَلْ طَآئِعِیْنَ مُخَیَّرِیْنَ.

میں عثمان کے معاملہ سے تمہیں اس طرح آگاہ کئے دیتا ہوں کہ سننے اور دیکھنے میں کوئی فرق نہ رہے۔ لوگوں نے ان پر اعتراضات کئے تو مہاجرین میں سے ایک میں ایسا تھا جو زیادہ سے زیادہ کوشش کرتا تھا کہ ان کی مرضی کے خلاف کوئی بات نہ ہو اور شکوہ شکایت بہت کم کرتا تھا۔ البتہ ان کے بارے میں طلحہ و زبیر کی ہلکی سے ہلکی رفتار بھی تند و تیز تھی اور نرم سے نرم آواز بھی سختی و درشتی لئے ہوئے تھی اور ان پر عائشہ کو بھی بےتحاشہ غصہ تھا۔ چنانچہ ایک گروہ آمادہ ہو گیا اور اس نے انہیں قتل کر دیا اور لوگوں نے میری بیعت کر لی۔ اس طرح کہ نہ ان پر کوئی زبردستی تھی اور نہ انہیں مجبور کیا گیا تھا، بلکہ انہوں نے رغبت و اختیار سے ایسا کیا۔

وَ اعْلَمُوا اَنَّ دَارَ الْهِجْرَةِ قَدْ قَلَعَتْ بِاَهْلِهَا وَ قَلَعُوْا بِهَا، وَ جَاشَتْ جَیْشَ الْمِرْجَلِ، وَ قَامَتِ الْفِتْنَةُ عَلَی الْقُطْبِ، فَاَسْرِعُوْا اِلٰۤی اَمِیْرِکُمْ، وَ بَادِرُوْا جِهَادَ عَدُوِّکُمْ، اِنْ شَآءَ اللهُ!.

اور تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دار الہجرت (مدینہ) اپنے رہنے والوں سے خالی ہو گیا ہے اور اس کے باشندوں کے قدم وہاں سے اکھڑ چکے ہیں اور وہ دیگ کی طرح ابل رہا ہے اور فتنہ کی چکی چلنے لگی ہے۔ لہٰذا اپنے امیر کی طرف تیزی سے بڑھو اور اپنے دشمنوں سے جہاد کرنے کیلئے جلدی سے نکل کھڑے ہو۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 December 22 ، 17:51
عون نقوی

اِلٰى عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْعَبَّاسِ،

عبداللہ ابن عباس کے نام

وَ قَدْ تَقَدَّمَ ذِکْرُهٗ بِخِلَافِ هٰذِهِ الرِّوَایَةِ

یہ خط اس سے پہلے دوسری عبارت میں درج کیا جا چکا ہے۔

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ الْمَرْءَ لَیَفْرَحُ بِالشَّیْ‏ءِ الَّذِیْ لَمْ یَکُنْ لِّیَفُوْتَهٗ، وَ یَحْزَنُ عَلَى الشَّیْ‏ءِ الَّذِیْ لَمْ یَکُنْ لِّیُصِیْبَهٗ، فَلَا یَکُنْ اَفْضَلُ مَا نِلْتَ فِیْ نَفْسِکَ، مِنْ دُنْیَاکَ بُلُوْغَ لَذَّةٍ، اَوْ شِفَآءَ غَیْظٍ، وَ لٰکِنْ اِطْفَآءَ بَاطِلٍ، اَوْ اِحْیَآءَ حَقٍّ، وَ لْیَکُنْ سُرُوْرُکَ بِمَا قَدَّمْتَ، وَ اَسَفُکَ عَلٰى مَا خَلَّفْتَ، وَ هَمُّکَ فِیْمَا بَعْدَ الْمَوْتِ.

بندہ کبھی اس شے کو پا کر خوش ہونے لگتا ہے جو اس کے ہاتھ سے جانے والی تھی ہی نہیں اور ایسی چیز کی وجہ سے رنجیدہ ہوتا ہے جو اسے ملنے والی ہی نہ تھی۔ لہٰذا لذت کا حصول اور جذبۂ انتقام کو فرو کرنا ہی تمہاری نظروں میں دنیا کی بہترین نعمت نہ ہو، بلکہ باطل کو مٹانا اور حق کو زندہ کرنا ہو۔ اور تمہاری خوشی اس ذخیرہ پر ہونا چاہیے جو تم نے آخرت کیلئے فراہم کیا ہے اور تمہارا رنج اس سرمایہ پر ہو نا چاہیے جسے صحیح مصرف میں صرف کئے بغیر چھوڑ رہے ہو اور تمہیں فکر صرف موت کے بعد کی ہونی چاہیے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 December 22 ، 17:20
عون نقوی

اِلٰى قُثَمِ بْنِ الْعَبَّاسِ، وَ هُوَ عَامِلُهٗ عَلٰى مَکَّةَ

والی مکہ قثم ابن عباس کے نام

اَمَّا بَعْدُ! فَاَقِمْ لِلنَّاسِ الْحَجَّ، ﴿وَ ذَکِّرْهُمْ بِاَیّٰىمِ اللّٰهِ ؕ ﴾، ‏وَ اجْلِسْ لَهُمُ الْعَصْرَیْنِ، فَاَفْتِ الْمُسْتَفْتِیَ، وَ عَلِّمِ الْجَاهِلَ، وَ ذَاکِرِ الْعَالِمَ، وَ لَا یَکُنْ لَّکَ اِلَى النَّاسِ سَفِیْرٌ اِلَّا لِسَانَکَ، وَ لَا حَاجِبٌ اِلَّا وَجْهَکَ، وَ لَا تَحْجُبَنَّ‏ ذَا حَاجَةٍ عَنْ لِقَآئِکَ بِهَا، فَاِنَّهَا اِنْ ذِیْدَتْ عَنْ اَبْوَابِکَ فِیْۤ اَوَّلِ وِرْدِهَا، لَمْ تُحْمَدْ فِیْمَا بَعْدُ عَلٰى قَضَآئِهَا.

لوگوں کیلئے حج کے قیام کا سر و سامان کرو، اور اللہ کے یاد گار دنوں کی یاد دلاؤ، اورلوگوں کیلئے صبح و شام اپنی نشست قرار دو۔ مسئلہ پوچھنے والے کو مسئلہ بتاؤ، جاہل کو تعلیم دو اور عالم سے تبادلہ خیالات کرو۔ اور دیکھو لوگوں تک پیغام پہنچانے کیلئے تمہاری زبان کے سوا کوئی سفیر نہ ہونا چاہیے، اور تمہارے چہرے کے سوا کوئی تمہارا دربان نہ ہونا چاہیے، اور کسی ضرورت مند کو اپنی ملاقات سے محروم نہ کرنا۔ اس لئے کہ پہلی دفعہ اگر حاجت تمہارے دروازوں سے ناکام واپس کر دی گئی تو بعد میں اسے پورا کر دینے سے بھی تمہاری تعریف نہ ہو گی۔

وَ انْظُرْ اِلٰى مَا اجْتَمَعَ عِنْدَکَ مِنْ مَالِ اللّٰهِ فَاصْرِفْهُ اِلٰى مَنْ قِبَلَکَ، مِنْ ذَوِی الْعِیَالِ وَ الْمَجَاعَةِ، مُصِیْبًۢا بِهٖ مَوَاضِعَ الْفَاقَةِ وَ الْخَلَّاتِ، وَ مَا فَضَلَ عَنْ ذٰلِکَ فَاحْمِلْهُ اِلَیْنَا، لِنَقْسِمَهٗ فِیْمَنْ قِبَلَنَا.

اور دیکھو تمہارے پاس جو اللہ کا مال جمع ہو اُسے اپنی طرف کے عیال داروں اور بھوکے ننگوں تک پہنچاؤ۔ اس لحاظ کے ساتھ کہ وہ استحقاق اور احتیاج کے صحیح مرکزوں تک پہنچے اور جو اس سے بچ رہے اسے ہماری طرف بھیج دو، تاکہ ہم اسے ان لوگوں میں بانٹیں جو ہمارے گرد جمع ہیں۔

وَ مُرْ اَهْلَ مَکَّةَ اَنْ لَّا یَاْخُذُوْا مِنْ سَاکِنٍ اَجْرًا، فَاِنَّ اللّٰهَ سُبْحَانَهٗ یَقُوْلُ: ﴿سَوَآءَ ِ۟الْعَاکِفُ فِیْهِ وَ الْبَادِ ؕ ﴾، فَالْعَاکِفُ الْمُقِیْمُ بِهٖ، وَ الْبَادِی الَّذِیْ یَحُجُّ اِلَیْهِ مِنْ غَیْرِ اَهْلِهٖ، وَفَّقَنَا اللّٰهُ وَ اِیَّاکُمْ لِمَحَابِّهٖ، وَ السَّلَامُ.

اور مکہ والوں کو حکم دو کہ وہ باہر سے آ کر ٹھہرنے والوں سے کرایہ نہ لیں، کیونکہ اللہ سبحانہ فرماتا ہے کہ: ’’اس میں عاکف اور بادی یکساں ہیں‘‘ ۔ ’’عاکف ‘‘ وہ ہے جو اس میں مقیم ہو اور ’’بادی ‘‘ وہ ہے جو باہر سے حج کیلئے آیا ہو۔ خداوند عالم ہمیں اور تمہیں پسندیدہ کاموں کی توفیق دے۔والسلام۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 December 22 ، 17:18
عون نقوی

اِلٰى سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ رَحِمَهُ اللّٰهُ قَبْلَ اَیَّامِ خِلَافَتِهٖ:

اپنے زمانۂ خلافت سے قبل سلمان فارسی رحمہ اللہ کے نام سے تحریر فرمایا تھا:

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّمَا مَثَلُ الدُّنْیَا مَثَلُ الْحَیَّةِ، لَیِّنٌ مَّسُّهَا، قَاتِلٌ سَمُّهَا، فَاَعْرِضْ عَمَّا یُعْجِبُکَ فِیْهَا، لِقِلَّةِ مَا یَصْحَبُکَ مِنْهَا، وَ ضَعْ عَنْکَ هُمُوْمَهَا، لِمَا اَیْقَنْتَ مِنْ فِرَاقِهَا وَ تَصَرُّفِ حَالَاتِهَا. وَ کُنْ اٰنَسَ مَا تَکُوْنُ بِهَاۤ اَحْذَرَ مَا تَکُوْنُ مِنْهَا، فَاِنَّ صَاحِبَهَا کُلَّمَا اطْمَاَنَّ فِیْهَا اِلٰى سُرُوْرٍ، اَشْخَصَتْهُ عَنْهُ اِلٰى مَحْذُوْرٍ، اَوْ اِلٰۤى اِیْنَاسٍ اَزَالَتْهُ عَنْهُ اِلٰۤى اِیْحَاشٍ، وَ السَّلَامُ.

دنیا کی مثال سانپ کی سی ہے جو چھونے میں نرم معلوم ہوتا ہے مگر اس کا زہر مہلک ہوتا ہے۔ لہٰذا دنیا میں جو چیزیں تمہیں اچھی معلوم ہوں ان سے منہ موڑے رہنا، کیونکہ ان میں سے تمہارے ساتھ جانے والی چیزیں بہت کم ہیں۔ اس کی فکروں کو اپنے سے دور رکھو، کیو نکہ تمہیں اس کے جدا ہو جانے اور اس کے حالات کے پلٹا کھانے کا یقین ہے۔ اور جس وقت اس سے بہت زیادہ وابستگی محسوس کرو اسی وقت اس سے زیادہ پریشان ہو، کیونکہ جب بھی دنیا دار اس کی مسرت پر مطمئن ہو جاتا ہے تو وہ اسے سختیوں میں جھونک دیتی ہے، یا اس کے انس پر بھروسا کر لیتا ہے تو وہ اس کے انس کو وحشت و ہراس سے بدل دیتی ہے۔

https://balagha.org/

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 December 22 ، 17:17
عون نقوی