بصیرت اخبار

۳۲۸ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «نہج البلاغہ کلمات قصار» ثبت شده است

لِمَعْقِلِ بْنِ قَیْسٍ الرِّیَاحِىِّ حِیْنَ اَنْفَذَهٗۤ اِلَی الشَّامِ فِیْ ثَلَاثَةِ اٰلَافٍ مُّقَدِّمَةً لَّهٗ:

جب معقل ابن قیس ریاحی کو تین ہزار کے ہر اول دستہ کے ساتھ شام روانہ کیا تو یہ ہدایت فرمائی:

اِتَّقِ اللهَ الَّذِیْ لَابُدَّ لَکَ مِنْ لِّقَآئِهٖ، وَ لَا مُنْتَهٰی لَکَ دُوْنَهٗ، وَ لَا تُقَاتِلَنَّ اِلَّا مَنْ قَاتَلَکَ، وَ سِرِ الْبَرْدَیْنِ، وَ غَوِّرْ بِالنَّاسِ، وَ رَفِّهْ بِالسَّیْرِ، وَ لَا تَسِرْ اَوَّلَ اللَّیْلِ، فَاِنَّ اللهَ جَعَلَهٗ سَکَنًا، وَ قَدَّرَهٗ مُقَامًا لَّا ظَعْنًا، فَاَرِحْ فِیْهِ بَدَنَکَ، وَ رَوِّحْ ظَهْرَکَ، فَاِذَا وَقَفْتَ حِیْنَ یَنْۢبَطِحُ السَّحَرُ، اَوْ حِیْنَ یَنْفَجِرُ الْفَجْرُ، فَسِرْ عَلٰی بَرَکَةِ اللهِ.

اس اللہ سے ڈرتے رہنا جس کے روبرو پیش ہونا لازمی ہے اور جس کے علاوہ تمہارے لئے کوئی اور آخری منزل نہیں۔ جو تم سے جنگ کرے اس کے سوا کسی سے جنگ نہ کرنا، اور صبح وشام کے ٹھنڈے وقت سفر کرنا اور دوپہر کے وقت لوگوں کو سستانے اور آرام کر نے کا موقع دینا۔ آہستہ چلنا اور شروع رات میں سفر نہ کرنا، کیونکہ اللہ نے رات سکون کیلئے بنائی ہے اور اسے قیام کرنے کیلئے رکھا ہے، نہ سفر و راہ پیمائی کیلئے۔ اس میں اپنے بدن اور اپنی سواری کو آرام پہنچاؤ۔ اور جب جان لو کہ سپیدہ سحر پھیلنے اور پو پھوٹنے لگی ہے تو اللہ کی برکت پر چل کھڑے ہونا۔

فَاِذَا لَقِیْتَ الْعَدُوَّ فَقِفْ مِنْ اَصْحَابِکَ وَسَطًا، وَ لَا تَدْنُ مِنَ الْقَوْمِ دُنُوَّ مَنْ یُّرِیْدُ اَنْ یُّنْشِبَ الْحَرْبَ، وَ لَا تَبَاعَدْ عَنْهُمْ تَبَاعُدَ مَنْ یَّهَابُ الْبَاْسَ، حَتّٰی یَاْتِیَکَ اَمْرِیْ، وَ لَا یَحْمِلَنَّکُمْ شَنَاٰنُهُمْ عَلٰی قِتَالِهِمْ قَبْلَ دُعَآئِهِمْ وَالْاِعْذَارِ اِلَیْهِمْ.

جب دشمن کا سامنا ہو تو اپنے ساتھیوں کے درمیان ٹھہرو۔ اور دیکھو!دشمن کے اتنے قریب نہ پہنچ جاؤ کہ جیسے کوئی جنگ چھیڑ نا ہی چاہتا ہے اور نہ اتنے دور ہٹ کر رہو جیسے کوئی لڑائی سے خوفزدہ ہو، اس وقت تک کہ جب تک میرا حکم تم تک پہنچے۔ اور دیکھو! ایسا نہ ہو کہ ان کی عداوت تمہیں اس پر آمادہ کردے کہ تم حق کی دعوت دینے اور ان پر حجت تمام کرنے سے پہلے ان سے جنگ کرنے لگو۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 December 22 ، 18:35
عون نقوی

وَصّٰى بِهَا جَیْشًۢا بَعَثَهٗۤ اِلَی الْعَدُوِّ

دشمن کی طرف بھیجے ہوئے ایک لشکر کو یہ ہدایتیں فرمائیں

فَاِذَا نَزَلْتُمْ بِعَدُوٍّ اَوْ نَزَلَ بِکُمْ، فَلْیَکُنْ مُّعَسْکَرُکُمْ فِیْ قُبُلِ الْاَشْرَافِ، اَوْ سِفَاحِ الْجِبَالِ، اَوْ اَثْنَآءِ الْاَنْهَارِ، کَیْمَا یَکُوْنَ لَکُمْ رِدْءًا، وَ دُوْنَکُمْ مَرَدًّا، وَ لْتَکُنْ مُّقَاتَلَتُکُمْ مِنْ وَّجْهٍ وَّاحِدٍ اَوِ اثْنَیْنِ.

جب تم دشمن کی طرف بڑھو یا دشمن تمہاری طرف بڑھے تو تمہارا پڑاؤ ٹیلوں کے آگے یا پہاڑ کے دامن میں یا نہروں کے موڑ میں ہونا چاہیے، تاکہ یہ چیز تمہارے لئے پشت پناہی اور روک کا کام دے، اور جنگ بس ایک طرف یا (زائد سے زائد) دو طرف سے ہو۔

وَ اجْعَلُوْا لَکُمْ رُقَبَآءَ فِیْ صَیَاصِی الْجِبَالِ، وَ مَنَاکِبِ الْهِضَابِ، لِئَلَّا یَاْتِیَکُمُ الْعَدُوُّ مِنْ مَّکَانِ مَخَافَةٍ اَوْ اَمْنٍ.

اور پہاڑوں کی چوٹیوں اور ٹیلوں کی بلند سطحوں پر دید بانوں کو بٹھا دو، تاکہ دشمن کسی کھٹکے کی جگہ سے یا اطمینان والی جگہ سے (اچانک) نہ آ پڑے۔

وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ مُقَدِّمَةَ الْقَوْمِ عُیُوْنُهُمْ، وَ عُیُوْنَ الْمُقَدِّمَةِ طَلَآئِعُهُمْ.

اور اس بات کو جانے رہو کہ فوج کا ہر اول دستہ فوج کا خبر رساں ہوتا ہے۔ اور ہر اول دستے کو اطلاعات ان مخبروں سے حاصل ہوتی ہیں (جو آگے بڑھ کر سراغ لگاتے ہیں)۔

وَ اِیَّاکُمْ وَ التَّفَرُّقَ، فَاِذَا نَزَلْتُمْ فَانْزِلُوْا جَمِیْعًا، وَ اِذَا ارْتَحَلْتُمْ فَارْتَحِلُوْا جَمِیْعًا، وَ اِذَا غَشِیَکُمُ اللَّیْلُ فَاجْعَلُوا الرِّمَاحَ کِفَّةً، وَ لَا تَذُوْقُوا النَّوْمَ اِلَّا غِرَارًا اَوْ مَضْمَضَةً.

دیکھو! تتر بتر ہونے سے بچے رہو، اترو تو ایک ساتھ اترو، اور کوچ کرو تو ایک ساتھ کرو۔ اور جب رات تم پر چھا جائے تو نیزوں کو(اپنے گرد) گاڑ کر ایک دائرہ سا بنا لو۔ صرف اونگھ لینے اور ایک آدھ جھپکی لے لینے کے سوا نیند کا مزہ نہ چکھو۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 December 22 ، 18:33
عون نقوی

معاویہ کی طرف

وَ کَیْفَ اَنْتَ صَانِعٌ اِذَا تَکَشَّفَتْ عَنْکَ جَلَابِیْبُ مَاۤ اَنْتَ فِیْهِ مِنْ دُنْیَا، قَدْ تَبَهَّجَتْ بِزِیْنَتِهَا، وَ خَدَعَتْ بِلَذَّتِهَا، دَعَتْکَ فَاَجَبْتَهَا، وَ قَادَتْکَ فَاتَّبَعْتَهَا، وَ اَمَرَتْکَ فَاَطَعْتَهَا، وَ اِنَّهٗ یُوْشِکُ اَنْ یَّقِفَکَ وَاقِفٌ عَلٰی مَا لَا یُنْجِیْکَ مِنْهُ مِجَنٌّ.

تم اس وقت کیا کرو گے جب دنیا کے یہ لباس جن میں لپٹے ہوئے ہو تم سے اتر جائیں گے۔ یہ دنیا جو اپنی سج دھج کی جھلک دکھاتی اور اپنے حظ و کیف سے ورغلاتی ہے، جس نے تمہیں پکارا تو تم نے لبیک کہی، اس نے تمہیں کھینچا تو تم اس کے پیچھے ہو لئے اور اس نے تمہیں حکم دیا تو تم نے اس کی پیروی کی۔ وہ وقت دور نہیں کہ بتانے والا تمہیں ان چیزوں سے آگاہ کرے کہ جن سے کوئی سپر تمہیں بچانہ سکے گی۔

فَاقْعَسْ عَنْ هٰذَا الْاَمْرِ، وَ خُذْ اُهْبَةَ الْحِسَابِ، وَ شَمِّرْ لِمَا قَدْ نَزَلَ بِکَ، وَ لَا تُمَکِّنِ الْغُوَاةَ مِنْ سَمْعِکَ، وَ اِلَّا تَفْعَلْ اُعْلِمْکَ ماۤ اَغْفَلْتَ مِنْ نَّفْسِکَ، فَاِنَّکَ مُتْرَفٌ قَدْ اَخَذَ الشَّیْطٰنُ مِنْکَ مَاْخَذَهٗ، وَ بَلَغَ فِیْکَ اَمَلَهٗ، وَ جَرٰی مِنْکَ مَجْرَی الرُّوْحِ وَ الدَّمِ.

لہٰذا اس دعویٰ سے باز آ جاؤ، حساب و کتاب کا سر و سامان کرو اور آنے والی موت کیلئے دامن گردان کر تیار ہو جاؤ، اور گمراہوں کی باتوں پر کان نہ دھرو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو پھر میں تمہاری غفلتوں پر (جھنجھوڑ کر) تمہیں متنبہ کروں گا۔ تم عیش و عشرت میں پڑے ہو، شیطان نے تم میں اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے، وہ تمہارے بارے میں اپنی آرزوئیں پوری کر چکا ہے اور تمہارے اندر روح کی طرح سرایت کر گیا اور خون کی طرح (رگ و پے میں) دوڑ رہا ہے۔

وَ مَتٰی کُنْتُمْ یَا مُعَاوِیَةُ سَاسَةَ الرَّعِیَّةِ، وَ وُلَاةَ اَمْرِ الْاُمَّةِ؟ بِغَیْرِ قَدَمٍ سَابِقٍ، وَ لَا شَرَفٍۭ بَاسِقٍ، وَ نَعُوْذُ بِاللهِ مِنْ لُزوْمِ سَوَابِقِ الشَّقَآءِ، وَ اُحَذِّرُکَ اَنْ تَکُوْنَ مُتَمَادِیًا فِیْ غِرَّةِ الْاُمْنِیَّةِ، مُخْتَلِفَ الْعَلَانِیَةِ وَ السَّرِیْرَةِ.

اے معاویہ! بھلا تم لوگ (اُمیہ کی اولاد) کب رعیت پر حکمرانی کی صلاحیت رکھتے تھے؟ اور کب اُمت کے امور کے والی و سرپرست تھے؟ بغیر کسی پیش قدمی اور بغیر کسی بلند عزت و منزلت کے۔ ہم دیرینہ بدبختیوں کے گھر کر لینے سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ میں اس چیز پر تمہیں متنبہ کئے دیتا ہوں کہ تم ہمیشہ آرزوؤں کے فریب پر فریب کھاتے ہو اور تمہارا ظاہر باطن سے جدا رہتا ہے۔

وَقَدْ دَعَوْتَ اِلَی الْحَرْبِ، فَدَعِ النَّاسَ جَانِبًا وَ اخْرُجْ اِلَیَّ، وَ اَعْفِ الْفَرِیْقَیْنِ مِنَ الْقِتَالِ، لِیُعْلَمَ اَیُّنَا الْمَرِیْنُ عَلٰی قَلْبِهٖ، وَ الْمُغَطّٰی عَلٰی بَصَرِهٖ!

تم نے مجھے جنگ کیلئے للکارا ہے تو ایسا کرو کہ لوگوں کو ایک طرف کر دو اور خود (میرے مقابلے میں) باہر نکل آؤ۔ دونوں فریق کو کشت و خون سے معاف کرو، تاکہ پتہ چل جائے کہ کس کے دل پر زنگ کی تہیں چڑھی ہوئی اور آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔

فَاَنَاۤ اَبُوْ حَسَنٍ قَاتِلُ جَدِّکَ وَ خَالِکَ وَ اَخِیْکَ شَدْخًا یَّوْمَ بَدْرٍ،وَ ذٰلِکَ السَّیْفُ مَعِیْ، وَ بِذٰلِکَ الْقَلْبِ اَلْقٰی عَدُوِّیْ، مَا اسْتَبْدَلْتُ دِیْنًا، وَ لَا اسْتَحْدَثْتُ نَبِیًّا، وَ اِنِّیْ لَعَلَی الْمِنْهَاجِ الَّذِیْ تَرَکْتُمُوْهُ طَآئِعِیْنَ، وَ َدَخَلْتُمْ فِیْهِ مُکْرَهِیْنَ.

میں (کوئی اور نہیں) وہی ابو الحسنؑ ہوں کہ جس نے تمہارے نانا (عتبہ بن ربیعہ)، تمہارے ماموں (ولید بن عتبہ) اور تمہارے بھائی (حنظلہ بن ابی سفیان) کے پرخچے اڑا کر بدر کے دن مارا تھا۔ وہی تلوار اب بھی میرے پاس ہے اور اسی دل گردے کے ساتھ اب بھی دشمن سے مقابلہ کرتا ہوں۔ نہ میں نے کوئی دین بدلا ہے، نہ کوئی نیا نبی کھڑا کیا ہے۔ اور میں بلاشبہ اسی شاہراہ پر ہوں جسے تم نے اپنے اختیار سے چھوڑ رکھا تھا اور پھر مجبوری سے اس میں داخل ہوئے۔

وَ زَعَمْتَ اَنَّکَ جِئْتَ ثَآئِرًۢا بِدَمِ عُثْمَانَ، وَ لَقَدْ عَلِمْتَ حَیْثُ وَقَعَ دَمُ عُثْمَانَ فَاطْلُبْهٗ مِنْ هُنَاکَ اِنْ کُنْتَ طَالِبًا، فَکَاَنِّیْ قدْ رَاَیْتُکَ تَضِجُّ مِنَ الْحَرْبِ اِذَا عَضَّتْکَ ضَجِیْجَ الْجِمَالِ بِالْاَثْقَالِ، وَ کَاَنِّیْ بِجَمَاعَتِکَ تَدْعُوْنِیْ جَزَعًا مِّنَ الضَّرْبِ الْمُتَتَابِعِ، وَ الْقَضَآءِ الْوَاقِعِ، وَ مَصَارِعَ بَعْدَ مَصَارِعَ، اِلٰی کِتَابِ اللهِ، وَ هِیَ کَافِرَةٌ جَاحِدَۃٌ، اَوْ مُبَایِعَةٌ حَآئِدَةٌ.

اور تم ایسا ظاہر کرتے ہو کہ تم خونِ عثمان کا بدلہ لینے کو اٹھے ہو، حالانکہ تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کا خون کس کے سر ہے۔ اگر واقعی بدلہ ہی لینا منظور ہے تو انہی سے لو۔ اب تو وہ (آنے والا) منظر میری آنکھوں میں پھر رہا ہے کہ جب جنگ تمہیں دانتوں سے کاٹ رہی ہو گی اور تم اس طرح بلبلاتے ہو گے جس طرح بھاری بوجھ سے اونٹ بلبلاتے ہیں، اور تمہاری جماعت تلواروں کی تابڑ توڑ مار، سر پر منڈلانے والی قضا اور کشتوں کے پشتے لگ جانے سے گھبرا کر مجھے کتاب خدا کی طرف دعوت دے رہی ہو گی۔ حالانکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو کافر اور حق کے منکر ہیں یا بیعت کے بعد اسے توڑ دینے والے ہیں۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 December 22 ، 18:26
عون نقوی

اِلٰى مُعَاوِیَةَ

معاویہ کے نام

فَاَرَادَ قَوْمُنَا قَتْلَ نَبِیِّنَا وَ اجْتِیَاحَ اَصْلِنَا، وَهَمُّوْا بِنَا الْهُمُوْمَ، وَ فَعَلُوْا بِنَا الْاَفَاعِیْلَ، وَ مَنَعُوْنَا الْعَذْبَ، وَ اَحْلَسُوْنَا الْخَوْفَ، وَ اضْطَرُّوْنَاۤ اِلٰی جَبَلٍ وَّعْرٍ، وَ اَوْقَدُوْا لَنَا نَارَ الْحَرْبِ، فَعَزَمَ اللهُ لَنَا عَلَی الذَّبِّ عَنْ حَوْزَتِهِ، وَ الرَّمْیِ مِنْ وَّرَآءِ حُرْمَتِهٖ.

ہماری قوم(قریش) نے ہمارے نبی ﷺ کو قتل کرنے اور ہماری جڑ اکھاڑ پھینکنے کا ارادہ کیا، اور ہمارے لئے غم و اندوہ کے سر و سامان کئے، اور برے سے برے برتاؤ ہمارے ساتھ روا رکھے، ہمیں آرام و راحت سے روک دیا، اور مستقل طور پر خوف و دہشت سے دو چار کر دیا، اور ایک سنگلاخ و ناہموار پہاڑ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا اور ہمارے لئے جنگ کی آگ بھڑکا دی۔ مگر اللہ نے ہماری ہمت باندھی کہ ہم پیغمبر ﷺ کے دین کی حفاظت کریں اور ان کے دامن حرمت پر آنچ نہ آنے دیں۔

مُؤْمِنُنَا یَبْغِیْ بِذٰلِکَ الْاَجْرَ، وَ کَافِرُنَا یُحَامِیْ عَنِ الْاَصْلِ، وَ مَنْ اَسْلَمَ مِنْ قُرَیشٍ خِلْوٌ مِّمَّا نَحْنُ فِیْهِ بِحِلْفٍ یَّمْنَعُهٗ، اَوْ عَشِیْرَةٍ تَقُوْمُ دُوْنَهٗ، فَهُوَ مِنَ الْقَتْلِ بِمَکَانِ اَمْنٍ.

ہمارے مومن ان سختیوں کی وجہ سے ثواب کے امید وار تھے اور ہمارے کافر قرابت کی بنا پر حمایت ضروری سمجھتے تھے اور قریش میں سے جو لوگ ایمان لائے تھے وہ ہم پر آنے والی مصیبتوں سے کوسوں دور تھے۔ اس عہد و پیمان کی وجہ سے کہ جو ان کی حفاظت کرتا تھا، یا اس قبیلے کی وجہ سے کہ ان کی حفاظت کو اٹھ کھڑا ہوتا تھا۔ لہٰذا وہ قتل سے محفوظ تھے۔

وَ کَانَ رَسُوْلُ اللهِ- ﷺ اِذَا احْمَرَّ الْبَاْسُ وَ اَحْجَمَ النَّاسُ قَدَّمَ اَهْلَ بَیْتِهٖ، فَوَقٰی بِهِمْ اَصَحَابَهٗ حَرَّ السُّیُوْفِ وَ الْاَسِنَّةِ، فَقُتِلَ عُبَیْدَةُ بْنُ الْحَارِثِ یَوْمَ بَدْرٍ، وَ قُتِلَ حَمْزَةُ یَوْمَ اُحُدٍ، وَ قُتِلَ جَعْفَرُ یَوْمَ مُؤْتَةَ، وَ اَرَادَ مَنْ لَّوْ شِئْتُ ذَکَرْتُ اسْمَهٗ مِثْلَ الَّذِیْ اَرَادُوْا مِنَ الشَّهَادَةِ، وَ لٰکِنَّ اٰجَالَهُمْ عُجِّلَتْ وَ مَنِیَّتَهٗ اُجِّلَتْ.

اور رسالت مآب ﷺ کا یہ طریقہ تھا کہ جب جنگ کے شعلے بھڑکتے تھے اور لوگوں کے قدم پیچھے ہٹنے لگتے تھے تو پیغمبر ﷺ اپنے اہل بیت علیہم السلام کو آگے بڑھا دیتے تھے اور یوں انہیں سینہ سپر بنا کر اصحاب کو نیزہ و شمشیر کی مار سے بچا لے جاتے تھے۔ چنانچہ عبیدہ ابن حارث بدر میں، حمزہ اُحد میں اور جعفر جنگ موتہ میں شہید ہو گئے۔ ایک اور شخص نے بھی کہ اگر میں چاہوں تو اس کا نام لے سکتا ہوں، انہی لوگوں کی طرح شہید ہو نا چاہا، لیکن ان کی عمریں جلد پوری ہو گئیں اور اس کی موت پیچھے جا پڑی۔

فَیَاعَجَبًا لِّلدَّهْرِ! اِذْ صِرْتُ یُقْرَنُ بِیْ مَنْ لَّمْ یَسْعَ بِقَدَمِیْ، وَ لَمْ تَکُنْ لَّهٗ کَسَابِقَتِی الَّتِیْ لَا یُدْلِیْۤ اَحَدٌۢ بِمِثْلِهَا، اِلَّا اَنْ یَّدَّعِیَ مُدَّعٍ مَّا لَاۤ اَعْرِفُهٗ، وَ لَاۤ اَظُنُّ اللهَ یَعْرِفُهٗ، وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ.

اس زمانہ (کج رفتار) پر حیرت ہوتی ہے کہ میرے ساتھ ایسوں کا نام لیا جاتا ہے جنہوں نے میدانِ سعی میں میری سی تیز گامی کبھی نہیں دکھائی اور نہ ان کیلئے میرے ایسے دیرینہ اسلامی خدمات ہیں۔ ایسی خدمات کہ جن کے مانند کوئی مثال پیش نہیں کر سکتا، مگر یہ کہ کوئی مدعی ایسی چیز کا دعویٰ کر بیٹھے کہ جسے میں نہیں جانتا ہوں، اور میں نہیں سمجھتا کہ اللہ اسے جانتا ہو گا (یعنی کچھ ہو تو وہ جانے)۔ بہر حال اللہ کا شکر ہے۔

وَ اَمَّا مَا سَئَلْتَ مِنْ دَفْعِ قَتَلَةِ عُثْمَانَ اِلَیْکَ، فَاِنِّیْ نَظَرْتُ فِیْ هٰذَا الْاَمْرِ، فَلَمْ اَرَهُ یَسَعُنِیْ دَفْعُهُمْ اِلَیْکَ وَ لَاۤ اِلٰی غَیْرِکَ، وَ لَعَمْرِیْ لَئِنْ لَّمْ تَنْزِعْ عَنْ غَیِّکَ وَ شِقَاقِکَ لَتَعْرِفَنَّهُمْ عَنْ قَلِیْلٍ یَّطْلُبُوْنَکَ، لَا یُکَلِّفُوْنَکَ طَلَبَهُمْ فِیْ بَرٍّ وَّ لَا بَحْرٍ، وَ لَا جَبَلٍ وَّ لَا سَهْلٍ، اِلَّاۤ اَنَّهٗ طَلَبٌ یَّسُوْٓءُکَ وِجْدَانُهٗ، وَ زَوْرٌ لَّا یَسُرُّکَ لُقْیَانُهٗ، وَالسَّلَامُ لِاَهْلِهٖ.

اے معاویہ! تمہارا یہ مطالبہ جو ہے کہ میں عثمان کے قاتلوں کو تمہارے حوالے کر دوں تو میں نے اس کے ہر پہلو پر غور و فکر کیا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ انہیں تمہارے یا تمہارے علاوہ کسی اور کے حوالے کرنا میرے اختیار سے باہر ہے۔ اور میری جان کی قسم! اگر تم اپنی گمراہی اور انتشار پسندی سے باز نہ آئے تو بہت جلد ہی انہیں پہچان لو گے اور وہ خود تمہیں ڈھونڈتے ہوئے آئیں گے اور تمہیں جنگلوں، دریاؤں، پہاڑوں اور میدانوں میں ان کے ڈھونڈنے کی زحمت نہ دیں گے۔ مگر یہ ایک ایسا مطلوب ہو گا جس کا حصول تمہارے لئے ناگواری کا باعث ہو گا اور وہ آنے والے ایسے ہوں گے جن کی ملاقات تمہیں خوش نہ کر سکے گی۔ سلام اس پر جو سلام کے لائق ہو۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 December 22 ، 18:24
عون نقوی

اِلٰى مُعَاوِیَةَ

معاویہ ابن ابی سفیان کے نام

اِنَّهٗ بَایَعَنِی الْقَوْمُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا اَبَا بَکْرٍ وَّ عُمَرَ وَ عُثْمَانَ عَلٰی مَا بَایَعُوْهُمْ عَلَیْهِ، فَلَمْ یَکُنْ لِّلشَّاهِدِ اَنْ یَخْتَارَ، وَ لَا لِلْغَآئِبِ اَنْ یَّرُدَّ، وَاِنَّمَا الشُّوْرٰی لِلْمُهَاجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ، فَاِنِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی رَجُلٍ وَّ سَمَّوْهُ اِمَامًا کَانَ ذٰلِکَ لِلّٰهِ رِضًی، فَاِنْ خَرَجَ عَنْ اَمْرِهِمْ خَارِجٌۢ بِطَعْنٍ اَوْ بِدْعَةٍ رَدُّوْهُ اِلٰی مَاخَرَجَ مِنْهُ، فَاِنْ اَبٰی قَاتَلُوْهُ عَلَی اتِّبَاعِهٖ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ، وَ وَلَّاهُ اللهُ مَا تَوَلّٰی.

جن لوگوں نے ابو بکر، عمر اور عثمان کی بیعت کی تھی، انہوں نے میرے ہاتھ پر اسی اصول کے مطابق بیعت کی جس اصول پر وہ ان کی بیعت کر چکے تھے، اور اس کی بنا پر جو حاضر ہے اسے پھر نظر ثانی کا حق نہیں اور جو بروقت موجود نہ ہو،اسے ردّ کرنے کا اختیار نہیں، اور شوریٰ کا حق صرف مہاجرین و انصار کو ہے۔ وہ اگر کسی پر ایکا کر لیں اور اسے خلیفہ سمجھ لیں تو اسی میں اللہ کی رضا و خوشنودی سمجھی جائے گی۔ اب جو کوئی اس کی شخصیت پر اعتراض یا نیا نظریہ اختیار کرتا ہوا الگ ہو جائے تو اسے وہ سب اسی طرف واپس لائیں گے جدھر سے وہ منحرف ہوا ہے۔ اور اگر انکار کرے تو اس سے لڑیں، کیونکہ وہ مومنوں کے طریقے سے ہٹ کر دوسری راہ پر ہو لیا ہے۔ اور جدھر وہ پھر گیا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسے ادھر ہی پھیر دے گا۔

وَ لَعَمْرِیْ، یَا مُعَاوِیَةُ! لَئِنْ نَظَرْتَ بِعَقْلِکَ دُوْنَ هَوَاکَ لَـتَجِدَنِّیْۤ اَبْرَاَ النَّاسِ مِنْ دَمِ عُثْمَانَ، وَ لَـتَعْلَمَنَّ اَنِّیْ کُنْتُ فِیْ عُزْلَةٍ عَنْهُ، اِلَّاۤ اَنْ تَتَجَنّٰی فَتُجِنَّ مَا بَدَا لَکَ! وَ السَّلَامُ.

اے معاویہ! میری جان کی قسم! اگر تم اپنی نفسانی خواہشوں سے دور ہو کر عقل سے دیکھو تو سب لوگوں سے زیادہ مجھے عثمان کے خون سے بری پاؤ گے، مگر یہ کہ تم بہتان باندھ کر کھلی ہوئی چیزوں پر پردہ ڈالنے لگو۔ والسلام۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 December 22 ، 18:22
عون نقوی