بصیرت اخبار

۳۲۸ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «نہج البلاغہ کلمات قصار» ثبت شده است

اِلٰى مُعَاوِیَةَ جَوَابًا

بجواب معاویہ

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّا کُنَّا نَحْنُ وَ اَنْتُمْ عَلٰى مَا ذَکَرْتَ مِنَ الْاُلْفَةِ وَ الْجَمَاعَةِ، فَفَرَّقَ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ، اَمْسِ اَنَّاۤ اٰمَنَّا وَ کَفَرْتُمْ، وَ الْیَوْمَ اَنَّا اسْتَقَمْنَا وَ فُتِنْتُمْ، وَ مَاۤ اَسْلَمَ مُسْلِمُکُمْ اِلَّا کُرْهًا، وَ بَعْدَ اَنْ کَانَ اَنْفُ الْاِسْلَامِ کُلُّهٗ لِرَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ حِزْبًا.

جیسا کہ تم نے لکھا ہے (اسلام سے پہلے) ہمارے اور تمہارے درمیان اتفاق و اتحاد تھا، لیکن کل ہم اور تم میں تفرقہ یہ پڑا کہ ہم ایمان لائے اور تم نے کفر اختیار کیا اور آج یہ ہے کہ ہم حق پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں اور تم فتنوں میں پڑ گئے ہو۔ اور تم میں سے جو بھی اسلام لایا تھا وہ مجبوری سے، اور وہ اس وقت کہ جب تمام (اشراف عرب)اسلام لا کر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہو چکے تھے۔

وَ ذَکَرْتَ اَنِّیْ قَتَلْتُ طَلْحَةَ وَ الزُّبَیْرَ، وَ شَرَّدْتُّ بِعَآئِشَةَ، وَ نَزَلْتُ بَیْنَ الْمِصْرَیْنِ، وَ ذٰلِکَ اَمْرٌ غِبْتَ عَنْهُ، فَلَا عَلَیْکَ وَ لَا الْعُذْرُ فِیْهِ اِلَیْکَ.

تم نے (اپنے خط میں) ذکر کیاہے کہ میں نے طلحہ و زبیر کو قتل کیا اور عائشہ کو گھر سے نکالا اور (مدینہ چھوڑ کر) کوفہ و بصرہ میں قیام کیا، مگر یہ وہ باتیں ہیں جن کا تم سے کوئی واسطہ نہیں، نہ یہ تم پر کوئی زیادتی ہے، نہ تم سے عذر خواہی کی اس میں ضرورت ہے۔

وَ ذَکَرْتَ اَنَّکَ زَآئِرِیْ فِی الْمُهَاجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ، وَ قَدِ انْقَطَعَتِ الْهِجْرَةُ یَوْمَ اُسِرَ اَخُوْکَ، فَاِنْ کَانَ فِیْکَ عَجَلٌ فَاسْتَرْفِهْ، فَاِنِّیْۤ اِنْ اَزُرْکَ فَذٰلِکَ جَدِیْرٌ اَنْ یَّکُوْنَ اللّٰهُ اِنَّمَا بَعَثَنِیْۤ اِلَیْکَ لِلنِّقْمَةِ مِنْکَ، وَ اِنْ تَزُرْنِیْ فَکَمَا قَالَ اَخُوْ بَنِیْۤ اَسَدٍ:

اور تم نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ تم مہاجرین و انصار کے جتھے کے ساتھ مجھ سے ملنے (مقابلہ) کو نکلنے والے ہو، لیکن ہجرت کا دروازہ تو اسی دن بند ہو گیا تھا جس دن تمہارا بھائی گرفتار کرلیا گیا تھا۔ اگر جنگ کی تمہیں اتنی ہی جلدی ہے تو ذرا دم لو۔ ہو سکتا ہے کہ میں خود تم سے ملنے آ جاؤں اور یہ ٹھیک ہو گا اس اعتبار سے کہ اللہ نے تمہیں سزا دینے کیلئے مجھے مقرر کیا ہو گا۔ اور اگر تم مجھ سے ملنے کو آئے تو وہ ہو گا جو شاعر بنی اسد نے کہا ہے:

مُسْتَقْبِلِیْنَ رِیَاحَ الصَّیْفِ تَضْرِبُهُمْ

’’وہ موسم گرما کی ایسی ہواؤں کا سامنا کر رہے ہیں

بِحَاصِبٍ بَیْنَ اَغْوَارٍ وَ جُلْمُوْدِ

جو نشیبوں اور چٹانوں میں ان پر سنگریزوں کی بارش کر رہی ہیں‘‘۔

وَ عِنْدِی السَّیْفُ الَّذِیْۤ اَعْضَضْتُهٗ بِجَدِّکَ وَ خَالِکَ وَ اَخِیْکَ فِیْ مَقَامٍ وَّاحِدٍ، وَ اِنَّکَ وَ اللّٰه!ِ مَا عَلِمْتُ الْاَغْلَفُ الْقَلْبِ، الْمُقَارِبُ الْعَقْلِ، وَ الْاَوْلٰى اَنْ یُّقَالَ لَکَ: اِنَّکَ رَقِیْتَ سُلَّمًا اَطْلَعَکَ مَطْلَعَ سُوْٓءٍ عَلَیْکَ لَا لَکَ،‏ لِاَنَّکَ نَشَدْتَّ غَیْرَ ضَالَّتِکَ، وَ رَعَیْتَ غَیْرَ سَآئِمَتِکَ، وَ طَلَبْتَ اَمْرًا لَّسْتَ مِنْ اَهْلِهٖ، وَ لَا فِیْ مَعْدِنِهٖ.

میرے ہاتھ میں وہی تلوار ہے جس کی گزند سے تمہارے نانا، تمہارے ماموں اور تمہارے بھائی کو ایک ہی جگہ پہنچا چکا ہوں۔ خدا کی قسم! تم جیسا میں جانتا ہوں ایسے ہو جس کے دل پر تہیں چڑھی ہوئی ہیں اور جس کی عقل بہت محدود ہے۔ تمہارے بارے میں یہی کہنا زیادہ مناسب ہے کہ تم ایک ایسی سیڑھی پر چڑھ گئے ہو جہاں پر سے تمہارے لئے برا منظر پیش نظر ہو سکتا ہے، جس میں تمہارا برا ہی ہو گا، بھلا نہیں ہو گا۔ کیونکہ غیر کی کھوئی ہوئی چیز کی جستجو میں ہو اور دوسرے کے چوپائے چرانے لگے ہو، اور ایسی چیز کیلئے ہاتھ پیر مار رہے ہو جس کے نہ تم اہل ہو اور نہ تمہارا اس سے کوئی بنیادی لگاؤ ہے۔

فَمَاۤ اَبْعَدَ قَوْلَکَ مِنْ فِعْلِکَ، وَ قَرِیْبٌ مَاۤ اَشْبَهْتَ مِنْ اَعْمَامٍ وَ اَخْوَالٍ، حَمَلَتْهُمُ الشَّقَاوَةُ، وَ تَمَنِّی الْبَاطِلِ عَلَى الْجُحُوْدِ بِمُحَمَّدٍ ﷺ، فَصُرِعُوْا مَصَارِعَهُمْ حَیْثُ عَلِمْتَ، لَمْ یَدْفَعُوْا عَظِیْمًا، وَ لَمْ یَمْنَعُوْا حَرِیْمًۢا بِوَقْعِ سُیُوْفٍ، مَا خَلَا مِنْهَا الْوَغٰى، وَ لَمْ تُمَاشِهَا الْهُوَیْنٰى.

تمہارے قول و فعل میں کتنا فرق ہے اور تمہیں اپنے ان چچاؤں اور ماموؤں سے کتنی قریبی شباہت ہے جنہیں بدبختی و آرزوئے باطل نے محمد ﷺ کے انکار پر ابھارا تھا، جس کے انجام میں وہ قتل ہو ہو کر گرے۔ اور جیسا تمہیں معلوم ہے کہ نہ کسی بلا کو وہ ٹال سکے اور نہ اپنے محفوظ احاطہ کی حفاظت کر سکے، ان تلواروں کی مار سے جن سے میدان وَغا خالی نہیں ہوتا اور جن میں سستی کا گزر نہیں۔

وَ قَدْ اَکْثَرْتَ فِیْ قَتَلَةِ عُثْمَانَ، فَادْخُلْ فِیْمَا دَخَلَ فِیْهِ النَّاسُ، ثُمَّ حَاکِمِ الْقَوْمَ اِلَیَّ، اَحْمِلْکَ وَ اِیَّاهُمْ عَلٰى کِتَابِ اللّٰهِ تَعَالٰى، وَ اَمَّا تِلْکَ الَّتِیْ تُرِیْدُ، فَاِنَّهَا خُدْعَةُ الصَّبِیِّ عَنِ اللَّبَنِ فِیْۤ اَوَّلِ الْفِصَالِ، وَ السَّلَامُ لِاَهْلِهٖ.

اور تم نے عثمان کے قاتلوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے تو پہلے میری بیعت میں داخل ہو جاؤ جس میں سب داخل ہو چکے ہیں۔ پھر میری عدالت میں ان لوگوں پر مقدمہ دائر کرنا، تو میں کتاب خدا کی رو سے تمہارا اور ان کا فیصلہ کر دوں گا۔ لیکن یہ جو تم چاہ رہے ہو تو یہ وہ دھوکا ہے جو بچہ کو دودھ سے روکنے کیلئے دیا جاتا ہے۔ سلام اس پر جو اس کا اہل ہو!۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 December 22 ، 17:24
عون نقوی

معاویہ کے نام

اَمَّا بَعْدُ! فَقَدْ اٰنَ لَکَ اَنْ تَنْتَفِعَ بِاللَّمْحِ الْبَاصِرِ مِنْ عِیَانِ الْاُمُوْرِ، فَقَدْ سَلَکْتَ مَدَارِجَ اَسْلَافِکَ، بِادِّعَآئِکَ الْاَبَاطِیْلَ، وَ اقْتِحَامِکَ غُرُوْرَ الْمَیْنِ وَ الْاَکَاذِیْبِ، وَ بِانْتِحَالِکَ مَا قَدْ عَلَا عَنْکَ، وَ ابْتِزَازِکَ لِمَا اخْتُزِنَ دُوْنَکَ، فِرَارًا مِّنَ الْحَقِّ، وَ جُحُوْدًا لِّمَا هُوَ اَلْزَمُ لَکَ، مِنْ لَحْمِکَ وَ دَمِکَ، مِمَّا قَدْ وَعَاهُ سَمْعُکَ، وَ مُلِئَ بِهٖ صَدْرُکَ، ﴿فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ ۖۚ ﴾ الْمُبِینُ؟! وَ بَعْدَ الْبَیَانِ اِلَّا اللَّبْسُ؟! فَاحْذَرِ الشُّبْهَةَ وَ اشْتِمَالَهَا عَلٰى لُبْسَتِهَا، فَاِنَّ الْفِتْنَةَ طَالَمَا اَغْدَفَتْ جَلَابِیْبَهَا، وَ اَغْشَتِ الْاَبْصَارَ ظُلْمَتُهَا.

اب اس کا وقت ہے کہ روشن حقیقتوں کو دیکھ کر ان سے فائدہ اٹھا لو۔ مگر تم تو باطل دعویٰ کرنے، کذب و فریب میں لوگوں کو جھونکنے، اپنی حیثیت سے بلند چیز کا ادّعا کرنے اور ممنوعہ چیزوں کو ہتھیا لینے میں اپنے بزرگوں کے مسلک پر چل رہے ہو۔ یہ اس لئے کہ حق سے بھاگنا چاہتے ہو اور ان چیزوں سے کہ جو گوشت و خون سے بھی زیادہ تم سے چمٹی ہوئی ہیں اور تمہارے کانوں میں محفوظ اور سینے میں بھری ہوئی ہیں، انکار کرنا چاہتے ہو۔ تو حق کو چھوڑنے کے بعد کھلی ہوئی گمراہی اور بیانِ حقیقت کے نظر انداز کئے جانے کے بعد سراسر فریب کاری کے سوا اور ہے ہی کیا۔ ?لہٰذا شبہات اور ان کی تلبیس کا ریوں سے بچو۔ کیونکہ فتنے مدت سے دامن لٹکائے ہوئے ہیں اور ان کے اندھیروں نے آنکھوں کو چندھیا رکھا ہے۔

وَ قَدْ اَتَانِیْ کِتَابٌ مِّنْکَ ذُوْ اَفَانِیْنَ مِنَ الْقَوْلِ، ضَعُفَتْ قُوَاهَا عَنِ السِّلْمِ، وَ اَسَاطِیْرَ لَمْ یَحِکْهَا مِنْکَ عِلْمٌ وَّ لَا حِلْمٌ، اَصْبَحْتَ مِنْهَا کَالْخَآئِضِ‏ فِی الدَّهَاسِ، وَ الْخَابِطِ فِی الدَّیْمَاسِ، وَ تَرَقَّیْتَ اِلٰى مَرْقَبَةٍۭ بَعِیْدَةِ الْمَرَامِ، نَازِحَةِ الْاَعْلَامِ، تَقْصُرُ دُوْنَهَا الْاَنُوْقُ، وَ یُحَاذٰى بِهَا الْعَیُّوْقُ.

تمہارا خط مجھے ملا ہے، ایسا کہ جس میں قسم قسم کی بے جوڑ باتیں ہیں، جن سے صلح و امن کے مقصد کو کوئی تقویت نہیں پہنچ سکتی اور اس میں ایسے خرافات ہیں کہ جن کے تانے بانے کو علم و دانائی سے نہیں بنا۔ تم تو ان باتوں کی وجہ سے ایسے ہو گئے ہو جیسے کوئی دلدل میں دھنستا جا رہا ہو اور اندھے کنویں میں ہاتھ پیر مار رہا ہو۔ تم اپنے کو اونچا کر کے ایسی بلند بام اور گم کردہ نشان چوٹی تک لے گئے ہو کہ عقاب بھی وہاں پَر نہیں مار سکتا اور ستارہ عیوق کی بلندی سے ٹکر لے رہی ہے۔

وَ حَاشَ لِلّٰهِ اَنْ تَلِیَ لِلْمُسْلِمِیْنَ بَعْدِیْ صَدَرًا، اَوْ وِرْدًا، اَوْ اُجْرِیَ لَکَ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ عَقْدًا اَوْ عَهْدًا.

حاشا و کلا! یہ کہاں ہو سکتا ہے کہ تم میرے با اقتدار ہونے کے بعد مسلمانوں کے حل و عقد کے مالک بنو، یا میں تمہیں کسی ایک شخص پر بھی حکومت کا کوئی پروانہ یا دستاویز لکھ دوں۔

فَمِنَ الْاٰنَ فَتَدَارَکْ نَفْسَکَ، وَ انْظُرْ لَهَا، فَاِنَّکَ اِنْ فَرَّطْتَّ حَتّٰى یَنْهَدَ اِلَیْکَ عِبَادُ اللّٰهِ، اُرْتِجَتْ عَلَیْکَ الْاُمُوْرُ، وَ مُنِعْتَ اَمْرًا هُوَ مِنْکَ الْیَوْمَ مَقْبُوْلٌ، وَ السَّلَامُ.

خیر! اب کے سہی، اپنے نفس کو بچاؤ اور اس کی دیکھ بھال کر و۔ کیونکہ اگر تم نے اس وقت تک کوتاہی کی کہ جب خدا کے بندے تمہارے مقابلہ کو اٹھ کھڑے ہوئے پھر تمہاری ساری راہیں بند ہو جائیں گی اور جو صورت تم سے آج قبول کی جاسکتی ہے اس وقت قبول نہ کی جائے گی۔ والسلام۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 December 22 ، 17:21
عون نقوی

اِلٰى عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَبَّاسٍ وَّ هُوَ عَامِلُهٗ عَلَى الْبَصْرَةِ

والی بصرہ عبد اللہ ابن عباس کے نام

وَاعْلَمْ اَنَّ الْبَصْرَةَ مَهْبِطُ اِبْلِیْسَ وَ مَغْرِسُ الْفِتَنِ، فَحَادِثْ اَهْلَهَا بِالْاِحْسَانِ اِلَیْهِمْ، وَاحْلُلْ عُقْدَةَ الْخَوْفِ عَنْ قُلُوْبِهِمْ.

تمہیں معلوم ہو نا چاہیے کہ بصرہ وہ جگہ ہے جہاں شیطان اترتا ہے اور فتنے سر اٹھاتے ہیں۔ یہاں کے باشندوں کو حسن سلوک سے خوش رکھو اور ان کے دلوں سے خوف کی گرہیں کھول دو۔

وَ قَدْ بَلَغَنِیْ تَنَمُّرُکَ لِبَنِیْ تَمِیْمٍ وَّ غِلْظَتُکَ عَلَیْهِمْ، وَ اِنَّ بَنِیْ تَمِیْمٍ لَّمْ یَغِبْ لَهُمْ نَجْمٌ اِلَّا طَلَعَ لَهُمْ اٰخَرُ، وَ اِنَّهُمْ لَمْ یُسْبَقُوْا بِوَغْمٍ فِیْ جَاهِلِیَّةٍ وَّ لَاۤ اِسْلَامٍ، وَ اِنَّ لَهُمْ بِنَا رَحِمًا مَاسَّةً، وَ قَرَابَةً خَاصَّةً، نَحْنُ مَاْجُوْرُوْنَ عَلٰی صِلَتِهَا، وَ مَاْزُوْرُوْنَ عَلٰی قَطِیْعَتِهَا.

مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ تم بنی تمیم سے درشتی کے ساتھ پیش آتے ہو اور ان پر سختی روا رکھتے ہو۔ بنی تمیم تو وہ ہیں کہ جب بھی ان کا کوئی ستارہ ڈوبتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا ابھر آتا ہے، اور جاہلیت اور اسلام میں کوئی ان سے جنگ جوئی میں بڑھ نہ سکا۔ اور پھر انہیں ہم سے قرابت کا لگاؤ اور عزیز داری کا تعلق بھی ہے کہ اگر ہم اس کا خیال رکھیں گے تو اجر پائیں گے اور اس کا لحاظ نہ کریں گے تو گنہگار ہوں گے۔

فَارْبَعْ اَبَا الْعَبَّاسِ، رَحِمَکَ اللهُ! فِیْمَا جَرٰی عَلٰی لِسَانِکَ وَ یَدِکَ مِنْ خَیْرٍ وَّ شَرٍّ! فَاِنَّا شَرِیْکَانِ فِیْ ذٰلِکَ، وَ کُنْ عِنْدَ صَالِحِ ظَنِّیْ بِکَ، وَ لَا یَفِیْلَنَّ رَاْیِیْ فِیْکَ، وَ السَّلَامُ.

دیکھو ابن عباس! خدا تم پر رحم کرے! (رعیت کے بارے میں) تمہارے ہاتھ اور زبان سے جو اچھائی اور برائی ہونے والی ہو، اس میں جلدبازی نہ کیا کرو، کیونکہ ہم دونوں اس (ذمہ داری) میں برابر کے شریک ہیں۔ تمہیں اس حسن ظن کے مطابق ثابت ہونا چاہیے جو مجھے تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے بارے میں میری رائے غلط ثابت نہ ہونا چاہیے۔ والسلام۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 December 22 ، 18:44
عون نقوی

اِلٰى مُعَاوِیَةَ جَوَابًا عَنْ کِتَابٍ مِّنْهُ اِلَیْهِ

معاویہ کے خط کے جواب میں

وَ اَمَّا طَلَبُکَ اِلَیَّ الشَّامَ، فَاِنِّیْ لَمْ اَکُنْ لِّاُعْطِیَکَ الْیَوْمَ مَا مَنَعْتُکَ اَمْسِ.

تمہارا یہ مطالبہ کہ میں شام کا علاقہ تمہارے حوالے کردوں، تو میں آج وہ چیز تمہیں دینے سے رہا کہ جس سے کل انکار کر چکا ہوں۔

وَ اَمَّا قَوْلُکَ: اِنَّ الْحَرْبَ قَدْ اَکَلَتِ الْعَرَبَ اِلَّا حُشَاشَاتِ اَنْفُسٍۭ بَقِیَتْ، اَلَا وَ مَنْ اَکَلَهُ الْحَقُّ فَاِلَی الْجَنَّةِ، وَ مَنْ اَکَلَهُ الْبَاطِلُ فَاِلَی النَّارِ.

اور تمہارا یہ کہنا کہ جنگ نے عرب کو کھا ڈالا ہے اور آخری سانسوں کے علاوہ اس میں کچھ نہیں رہا، تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جسے حق نے کھایا ہے وہ جنت کو سدھارا ہے اور جسے باطل نے لقمہ بنایا ہے وہ دوزخ میں جا پڑا ہے۔

وَ اَمَّا اسْتِوَاۗؤُنَا فِی الْحَرْبِ وَ الرِّجَالِ، فَلَسْتَ بِاَمْضٰی عَلَی الشَّکِّ مِنِّیْ عَلَی الْیَقِیْنِ، وَ لَیْسَ اَهْلُ الشَّامِ بِاَحْرَصَ عَلَی الدُّنْیَا مِنْ اَهْلِ الْعِرَاقِ عَلَی الْاٰخِرَةِ.

رہا یہ دعویٰ کے ہم فن جنگ اور کثرت تعداد میں برابر سرابر کے ہیں، تو یاد رکھو کہ تم شک میں اتنے سرگرم عمل نہیں ہو سکتے جتنا میں یقین پر قائم رہ سکتا ہوں اور اہل شام دنیا پر اتنے مر مٹے ہوئے نہیں جتنا اہل عراق آخرت پر جان دینے والے ہیں۔

وَ اَمَّا قَوْلُکَ: اِنَّا بَنُوْ عَبْدِ مَنَافٍ، فَکَذلِکَ نَحْنُ، وَ لٰکِنْ لَّیْسَ اُمَیَّةُ کَهَاشِمٍ، وَ لَا حَرْبٌ کَعَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَ لَا اَبُوْسُفْیَانَ کَاَبِیْ طَالِبٍ، وَ لَا الْمُهَاجِرُ کَالطَّلِیْقِ، وَ لَا الصَّرِیْحُ کَاللَّصِیْقِ، وَ لَا الْمُحِقُّ کَالْمُبطِلِ، وَ لَا الْمُؤْمِنُ کَالْمُدْغِلِ. وَ لَبِئْسَ الْخَلَفُ خَلَفٌ یَّتْبَعُ سَلَفًا هَوٰی فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ.

اور تمہارا یہ کہنا کہ ہم عبد مناف کی اولاد ہیں تو ہم بھی ایسے ہی ہیں۔ مگر اُمیہ ہاشم کے، حرب عبدالمطلب کے اور ابو سفیان ابو طالب کے برابر نہیں ہیں، (فتح مکہ کے بعد) چھوڑ دیا جانے والا مہاجر کا ہم مرتبہ نہیں، اور الگ سے نتھی کیا ہو اروشن و پاکیزہ نسب والے کے مانند نہیں، اور غلط کار حق کے پرستار کا ہم پلہ نہیں، اور منافق مومن کا ہم درجہ نہیں ہے۔ کتنی بری نسل وہ نسل ہے جو جہنم میں گر چکنے والے اسلاف کی ہی پیروی کر رہی ہے۔

وَ فِیْۤ اَیْدِیْنَا بَعْدُ فَضْلُ النُّبُوَّةِ الَّتِیْۤ اَذْلَلْنَا بِهَا الْعَزِیْزَ، وَ نَعَشْنَا بِهَا الذَّلِیْلَ. وَ لَمَّاۤ اَدْخَلَ اللهُ الْعَرَبَ فِیْ دِیْنِهٖ اَفْوَاجًا، وَ اَسْلَمَتْ لَهٗ هٰذِهِ الْاُمَّةُ طَوْعًا وَّ کَرْهًا، کُنْتُمْ مِمَّنْ دَخَلَ فِی الدِّیْنِ: اِمَّا رَغْبَةً وَّ اِمَّا رَهْبَةً، عَلٰی حِیْنَ فَازَ اَهْلُ السَّبْقِ بِسَبْقِهِمْ، وَ ذَهَبَ الْمُهَاجِرُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ بِفَضْلِهِمْ.

پھر اس کے بعد ہمیں نبوت کا بھی شرف حاصل ہے کہ جس کے ذریعے ہم نے طاقتور کو کمزور اور پست کو بلند و بالا کر دیا، اور جب اللہ نے عرب کو اپنے دین میں جوق در جوق داخل کیا اور اُمت اپنی خوشی سے یا ناخوشی سے اسلام لے آئی، تو تم وہ لوگ تھے کہ جو لالچ یا ڈر سے اسلام لائے، اس وقت کہ جب سبقت کرنے والے سبقت حاصل کر چکے تھے اور مہاجرین اوّلین فضل و شرف کو لے جا چکے تھے۔

فَلَا تَجْعَلَنَّ لِلشَّیْطٰنِ فِیْکَ نَصِیْبًا، وَ لَا عَلٰی نَفْسِکَ سَبِیْلًا.

(سنو!) شیطان کا اپنے میں ساجھا نہ رکھو اور نہ اسے اپنے اوپر چھا جانے دو۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 December 22 ، 18:41
عون نقوی

لِعَسْکَرِهٖ قَبْلَ لِقَآءِ الْعَدُوِّ بِصِفِّیْنَ

صفین میں دشمن کا سامنا کرنے سے پہلے اپنے لشکر کو ہدایت فرمائی:

لَا تُقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰی یَبْدَؤٗکُمْ، فَاِنَّکُمْ بِحَمْدِ اللهِ عَلٰی حُجَّةٍ، وَ تَرْکُکُمْ اِیَّاهُمْ حَتّٰی یَبْدَؤٗکُمْ حُجَّةٌ اُخْرٰی لَکُمْ عَلَیْهِمْ.

جب تک وہ پہل نہ کریں تم ان سے جنگ نہ کرنا، کیونکہ تم بحمد اللہ دلیل و حجت رکھتے ہو اور تمہارا انہیں چھوڑ دینا کہ وہی پہل کریں، یہ ان پر دوسری حجت ہو گی۔

فَاِذَا کَانَتِ الْهَزِیْمَةُ بِاِذْنِ اللهِ فَلَا تَقْتُلُوْا مُدْبِرًا، وَ لَا تُصِیْبُوْا مُعْوِرًا، وَ لَا تُجْهِزُوْا عَلٰی جَرِیْحٍ، وَ لَا تَهِیْجُوا النِّسَآءَ بِاَذًی، وَ اِنْ شَتَمْنَ اَعْرَاضَکُمْ وَ سَبَبْنَ اُمَرَآءَکُمْ، فَاِنَّهُنَّ ضَعِیْفَاتُ الْقُوٰی وَ الْاَنْفُسِ وَ الْعُقُوْلِ، اِنْ کُنَّا لَنُؤْمَرُ بِالْکَفِّ عَنْهُنَّ وَ اِنَّهُنَّ لَمُشْرِکَاتٌ، وَ اِنْ کَانَ الرَّجُلُ لَیَتَنَاوَلُ الْمَرْاَةَ فِی الْجَاهِلِیَّةِ بِالْفِهْرِ اَوِ الْهِرَاوَةِ فَیُعَیَّرُ بِهَا وَ عَقِبُهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ.

خبردار! جب دشمن (منہ کی کھا کر) میدان چھوڑ بھاگے تو کسی پیٹھ پھیرانے والے کو قتل نہ کرنا، کسی بے دست و پا پر ہاتھ نہ اٹھا نا، کسی زخمی کی جان نہ لینا اور عورتوں کو اذیت پہنچا کر نہ ستانا، چاہے وہ تمہاری عزت و آبرو پر گالیوں کے ساتھ حملہ کریں اور تمہارے افسروں کو گالیاں دیں۔ کیونکہ ان کی قوتیں، ان کی جانیں اور ان کی عقلیں کمزور و ضعیف ہوتی ہیں۔ ہم (پیغمبر ﷺ کے زمانہ میں بھی) مامور تھے کہ ان سے کوئی تعرض نہ کریں، حالانکہ وہ مشرک ہوتی تھیں۔ اگر جاہلیت میں بھی کوئی شخص کسی عورت کو پتھر یا لاٹھی سے گزند پہنچاتا تھا تو اس کو اور اس کے بعد کی پشتوں کو مطعون کیا جاتا تھا۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 December 22 ، 18:37
عون نقوی