بصیرت اخبار

۳۲۸ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «نہج البلاغہ کلمات قصار» ثبت شده است

اِنَّ اللهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا ﷺ نَذِیْرًا لِّلْعٰلَمِیْنَ، وَ اَمِیْنًا عَلَى التَّنْزِیْلِ، وَ اَنْتُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ عَلٰى شَرِّ دِیْنٍ، وَ فِیْ شَرِّ دَارٍ، مُنِیْخُوْنَ بَیْنَ حِجَارَةٍ خُشْنٍ وَّ حَیَّاتٍ صُمٍّ، تَشْرَبُوْنَ الْکَدِرَ، وَ تَاْکُلُوْنَ الْجَشِبَ، وَ تَسْفِکُوْنَ دِمَآءَکُمْ، وَتَقْطَعُوْنَ اَرْحَامَکُمْ، اَلْاَصْنَامُ فِیْکُمْ مَنْصُوْبَةٌ، وَ الْاٰثَامُ بِکُمْ مَعْصُوْبَةٌ.

اللہ تبارک و تعالیٰ نے محمد ﷺ کو تمام جہانوں کو (ان کی بد اعمالیوں سے) متنبہ کرنے والا اور اپنی وحی کا امین بنا کر بھیجا۔ اے گروہ عرب! اس وقت تم بد ترین دین پر اور بد ترین گھروں میں تھے، کھردرے پتھروں اور زہریلے سانپوں میں تم بود و باش رکھتے تھے، تم گدلا پانی پیتے اور موٹا جھوٹا کھاتے تھے، ایک دوسرے کا خون بہاتے اور رشتہ قرابت قطع کیا کرتے تھے۔ بت تمہارے درمیان گڑے ہوئے تھے اور گناہ تم سے چمٹے ہوئے تھے۔

[وَ مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک حصہ یہ ہے]

فَنَظَرْتُ فَاِذَا لَیْسَ لِیْ مُعِیْنٌ اِلَّاۤ اَهْلُ بَیْتِیْ، فَضَنِنْتُ بِهِمْ عَنِ الْمَوْتِ، وَ اَغْضَیْتُ عَلَى الْقَذٰى، وَ شَرِبْتُ عَلَى الشَّجَا، وَ صَبَرْتُ عَلٰۤى اَخْذِ الْکَظَمِ،وَ عَلٰۤى اَمَرَّ مِنْ طَعْمِ الْعَلْقَمِ.

میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو مجھے اپنے اہل بیتؑ کے علاوہ کوئی اپنا معین و مدد گار نظر نہ آیا۔ میں نے انہیں موت کے منہ میں دینے سے بخل کیا۔ آنکھوں میں خس و خاشاک تھا مگر میں نے چشم پوشی کی، حلق میں پھندے تھے مگر میں نے غم و غصہ کے گھونٹ پی لئے اور گلو گرفتگی کے باوجود حنظل سے زیادہ تلخ حالات پر صبر کیا۔

[وَ مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جُز یہ ہے]

وَلَمْ یُبَایِـعْ حَتّٰى شَرَطَ اَنْ یُّؤْتِیَهٗ عَلَى الْبَیْعَةِ ثَمَنًا، فَلَا ظَفِرَتْ یَدُ الْبَآئِعِ، وَ خَزِیَتْ اَمَانَةُ الْمُبْتَاعِ! فَخُذُوْا لِلْحَرْبِ اُهْبَتَهَا، وَ اَعِدُّوْا لَهَا عُدَّتَهَا، فَقَدْ شَبَّ لَـظَاهَا، وَ عَلَا سَنَاهَا، وَ اسْتَشْعِرُوا الصَّبْرَ، فَاِنَّهٗۤ اَدْعٰۤى اِلَى النَّصْرِ.

اس نے اس وقت تک معاویہ کی بیعت نہیں کی جب تک یہ شرط اس سے منوانہ لی کہ وہ اس بیعت کی قیمت ادا کرے۔ اس بیعت کرنے والے کے ہاتھوں کو فتح و فیروز مندی نصیب نہ ہو اور خریدنے والے کے معاہدے کو ذلت و رسوائی حاصل ہو۔ (لو اب وقت آ گیا کہ) تم جنگ کیلئے تیار ہو جاؤ اور اس کیلئے ساز و سامان مہیا کرلو۔ اس کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں اور لپٹیں بلند ہو رہی ہیں اور جامۂ صبر پہن لو کہ اس سے نصرت و کامرانی حاصل ہونے کا زیادہ امکان ہے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 January 23 ، 15:42
عون نقوی

وَ قَدْ تَوَاتَرَتْ عَلَیْهِ الْاَخْبَارُ بِاِسْتِیْلَآءِ اَصْحَابِ مُعَاوِیَۃَ عَلَی الْبِلَادِ وَ قَدِمَ عَلَیْهِ عَامِلَاهُ عَلَى الْیَمَنِ وَ هُمَا عُبَیْدُ اللّٰهِ بْنُ عَباسٍ وَّ سَعِیْدُ بْنُ نُمْرَانَ لَمَّا غَلَبَ عَلَیْهِمَا بُسْرُ بْنُ اَبِیْۤ اَرْطَاةَ، فَقَامَ ؑ عَلَى الْمِنْۢبَرِ ضَجِرًۢا بِتَثَاقُلِ اَصْحَابِهٖ عَنِ الْجِهَادِ وَ مُخَالَفَتِهِمْ لَهٗ فِی الرَّاْیِ، فَقَالَ:

 

جب امیر المومنین علیہ السلام کو پے درپے یہ اطلاعات ملیں کہ معاویہ کے اصحاب (آپؑ کے مقبوضہ) شہروں پر تسلط جما رہے ہیں اور یمن کے عامل عبید اللہ ابنِ عباس اور سپہ سالارِ لشکر سعید ابن نُمران، بسر ابن ابی ارطات سے مغلوب ہو کر حضرتؑ کے پاس پلٹ آئے تو آپؑ اپنے اصحاب کی جہاد میں سستی اور رائے کی خلاف ورزی سے بد دل ہو کر منبر کی طرف بڑھے اور فرمایا: 

مَا هِیَ اِلَّا الْکُوْفَةُ، اَقْبِضُهَا وَ اَبْسُطُهَا اِنْ لَّمْ تَکُوْنِیْۤ اِلَّاۤ اَنْتِ، تَهُبُّ اَعَاصِیْرُکِ، فَقَبَّحَکِ اللهُ!.

یہ عالم ہے اس کوفہ کا جس کا بندوبست میرے ہاتھ میں ہے۔ (اے شہر کوفہ!) اگر تیرا یہی عالم رہا کہ تجھ میں آندھیاں چلتی رہیں تو خدا تجھے غارت کرے!۔

[وَ تَمَثَّلَ بِقَوْلِ الشَّاعِرِ]

[پھر آپؑ نے شاعر کا یہ شعر بطورِ تمثیل پڑھا]

لَعَمْرُ اَبِیْکَ الْخَیْرِ یَا عَمْرُو اِنَّنِیْ

’’اے عمرو! تیرے اچھے باپ کی قسم! مجھے تو اس برتن سے تھوڑی سی چکناہٹ ہی ملی ہے (جو برتن کے خالی ہونے کے بعد اس میں لگی رہ جاتی ہے)‘‘۔

عَلٰى وَضَرٍ مِّنْ ذَا الْاِنَآءِ قَلِیْلِ

[ثُمَّ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ]

[پھر آپؑ نے فرمایا]

اُنْۢبِئْتُ بُسْرًا قَدِ اطَّلَعَ الْیَمَنَ وَ اِنِّیْ وَاللهِ! لَاَظُنُّ اَنَّ هٰٓؤُلَآءِ الْقَوْمَ سَیُدَالُوْنَ مِنْکُمْ بِاجْتِمَاعِهِمْ عَلٰى بَاطِلِهِمْ، وَ تَفَرُّقِکُمْ عَنْ حَقِّکُمْ، وَ بِمَعْصِیَتِکُمْ اِمَامَکُمْ فِی الْحَقِّ، وَ طَاعَتِهِمْ اِمَامَهُمْ فِی الْبَاطِلِ، وَ بِاَدَآئِهِمُ الْاَمَانَةَ اِلٰى صَاحِبِهِمْ وَ خِیَانَتِکُمْ، وَ بِصَلَاحِهِمْ فِیْ بِلَادِهِمْ وَ فَسَادِکُمْ، فَلَوِ ائْتَمَنْتُ اَحَدَکُمْ عَلٰى قَعْبٍ لَّخَشِیْتُ اَنْ یَّذْهَبَ بِعِلَاقَتِهٖ.

مجھے یہ خبر دی گئی ہے کہ بسر یمن پر چھا گیا ہے۔ بخدا! میں تو اب ان لوگوں کے متعلق یہ خیال کرنے لگا ہوں کہ وہ عنقریب سلطنت و دولت کو تم سے ہتھیا لیں گے، اس لئے کہ وہ (مرکز) باطل پر متحد و یکجا ہیں اور تم اپنے (مرکز) حق سے پراگندہ و منتشر۔ تم امرِ حق میں اپنے امام کے نافرمان اور وہ باطل میں بھی اپنے امام کے مطیع و فرمانبردار ہیں۔ وہ اپنے ساتھی (معاویہ) کے ساتھ امانت داری کے فرض کو پورا کرتے ہیں اور تم خیانت کرنے سے نہیں چوکتے۔ وہ اپنے شہروں میں امن بحال رکھتے ہیں اور تم شورشیں برپا کرتے ہو۔ میں اگر تم میں سے کسی کو لکڑی کے ایک پیالے کا بھی امین بناؤں تو یہ ڈر رہتا ہے کہ وہ اس کے کنڈے کو توڑ کر لے جائے گا۔

اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ قَدْ مَلِلْتُهُمْ وَ مَلُّوْنِیْ، وَ سَئِمْتُهُمْ وَ سَئِمُوْنِیْ، فَاَبْدِلْنِیْ بِهِمْ خَیْرًا مِّنْهُمْ، وَ اَبْدِلْهُمْ بِیْ شَرًّا مِّنِّىْ، اَللّٰهُمَّ مِثْ قُلُوْبَهُمْ کَمَا یُمَاثُ الْمِلْحُ فِی الْمَآءِ، اَمَا وَاللهِ! لَوَدِدْتُّ اَنَّ لِیْ بِکُمْ اَلْفَ فَارِسٍ مِّنْۢ بَنِیْ فِرَاسِ بْنِ غَنْمٍ:

اے اللہ! وہ مجھ سے تنگ دل ہو چکے ہیں اور میں ان سے، وہ مجھ سے اُکتا چکے ہیں اور میں ان سے، مجھے ان کے بدلے میں اچھے لوگ عطا کر اور میرے بدلے میں انہیں کوئی اور بُرا حاکم دے۔ خدایا! ان کے دلوں کو اس طرح (اپنے غضب سے) پگھلا دے جس طرح نمک پانی میں گھول دیا جاتا ہے۔ خدا کی قسم! میں اس چیز کو دوست رکھتا ہوں کہ تمہارے بجائے میرے پاس بنی فراس ابن غنم کے ایک ہی ہزار سوار ہوتے ایسے (جن کا وصف شاعر نے یہ بیان کیا ہے کہ:)

هُنَالِکَ، لَوْ دَعَوْتَ، اَتَاکَ مِنْهُمْ فَوَارِسُ مِثْلُ اَرْمِیَةِ الْحَمِیْمِ

’’اگر تم کسی موقعہ پر انھیں پکارو تو تمہارے پاس ایسے سوار پہنچیں جو تیز روی میں گرمیوں کے ابر کے مانند ہیں‘‘۔

ثُمَّ نَزَلَ ؑ مِنَ الْمِنْۢبَرِ۔

اس کے بعد حضرتؑ منبر سے نیچے آتر آئے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 January 23 ، 15:37
عون نقوی

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ الْاَمْرَ یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآءِ اِلَى الْاَرْضِ کَقَطَرَاتِ الْمَطَرِ اِلٰى کُلِّ نَفْسٍۭ بِمَا قُسِمَ لَهَا مِنْ زِیَادَةٍ اَوْ نُقْصَانٍ، فَاِذَا رَاٰى اَحَدُکُمْ لِاَخِیْهِ غَفِیْرَةً فِیْۤ اَهْلٍ اَوْ مَالٍ اَوْ نَفْسٍ فَلَا تَکُوْنَنَّ لَهٗ فِتْنَةً، فَاِنَّ الْمَرْءَ الْمُسْلِمَ مَا لَمْ یَغْشَ دَنَآءَةً تَظْهَرُ فَیَخْشَعُ لَهَاۤ اِذَا ذُکِرَتْ، وَ تُغْرٰى بِهَا لِئَامُ النَّاسِ، کَانَ کَالْفَالِجِ الْیَاسِرِ الَّذِیْ یَنْتَظِرُ اَوَّلَ فَوْزَةٍ مِّنْ قِدَاحِهٖ تُوْجِبُ لَهُ الْمَغْنَمَ، وَ یُرْفَعُ بِهَا عَنْهُ الْمَغْرَمُ.

ہر شخص کے مقسوم میں جو کم یا زیادہ ہوتا ہے، اسے لے کر فرمان قضا آسمان سے زمین پر اس طرح اترتے ہیں جس طرح بارش کے قطرات، لہٰذا اگر کوئی شخص اپنے کسی بھائی کے اہل و مال و نفس میں فراوانی و وسعت پائے تو یہ چیز اس کیلئے کبیدگی خاطر کا سبب نہ بنے۔ جب تک کوئی مرد مسلمان کسی ایسی ذلیل حرکت کا مرتکب نہیں ہوتا کہ جو ظاہر ہو جائے تو اس کے تذکرہ سے اسے آنکھیں نیچی کرنا پڑیں اور جس سے ذلیل آدمیوں کی جرأت بڑھے، وہ اس کامیاب جواری کے مانند ہے جو جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینک کر پہلے مرحلے پر ہی ایسی جیت کا متوقع ہوتا ہے جس سے اسے فائدہ حاصل ہو اور پہلے نقصان ہو بھی چکا ہے تو وہ دور ہو جائے۔

وَ کَذٰلِکَ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ الْبَرِیْٓءُ مِنَ الْخِیَانَةِ یَنْتَظِرُ مِنَ اللهِ ﴿اِحْدَى الْحُسْنَیَیْنِ﴾: اِمَّا دَاعِیَ اللهِ فَمَا عِنْدَ اللهِ خَیْرٌ لَّهٗ، وَ اِمَّا رِزْقَ اللهِ فَاِذَا هُوَ ذُوْ اَهْلٍ وَّ مَالٍ، وَ مَعَهٗ دِیْنُهٗ وَ حَسَبُهٗ.

اسی طرح وہ مسلمان جو بد دیانتی سے پاک دامن ہو، وہ دو اچھائیوں میں سے ایک کا منتظر رہتا ہے: یا اللہ کی طرف سے بلاوا آئے تو اس شکل میں اللہ کے یہاں کی نعمتیں ہی اس کیلئے بہتر ہیں اور یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے (دنیا کی) نعمتیں حاصل ہوں تو اس صورت میں اس کے مال بھی ہے اور اولاد بھی اور پھر اس کا دین اور عزتِ نفس بھی برقرار رہے۔

اِنَّ الْمَالَ وَ الْبَنِیْنَ حَرْثُ الدُّنْیَا، وَ الْعَمَلَ الصَّالِحَ حَرْثُ الْاٰخِرَةِ، وَ قَدْ یَجْمَعُهُمَا اللهُ لِاَقْوَامٍ، فَاحْذَرُوْا مِنَ اللهِ مَا حَذَّرَکُمْ مِّنْ نَّفْسِهٖ، وَ اخْشَوْهُ خَشْیَةً لَّیْسَتْ بِتَعْذِیْرٍ وَ اعْمَلُوْا فِیْ غَیْرِ رِیَآءٍ وَّ لَا سُمْعَةٍ، فَاِنَّهٗ مَنْ یَّعْمَلْ لِغَیْرِ اللهِ یَکِلْهُ اللهُ اِلٰى مَنْ عَمِلَ لَهٗ. نَسْئَلُ اللهَ مَنَازِلَ الشُّهَدَآءِ، وَ مُعَایَشَةَ السُّعَدَآءِ، وَ مُرَافَقَةَ الْاَنْۢبِیَآءِ.

بیشک مال و اولاد دنیا کی کھیتی اور عمل صالح آخرت کی کشتِ زار ہے اور بعض لوگوں کیلئے اللہ ان دونوں چیزوں کو یکجا کر دیتا ہے۔ جتنا اللہ نے ڈرایا ہے اتنا اس سے ڈرتے رہو اور اتنا اس سے خوف کھاؤ کہ تمہیں عذر نہ کرنا پڑے۔ عمل بے ریا کرو اس لئے کہ جو شخص کسی اور کیلئے عمل کرتا ہے، اللہ اس کو اسی کے حوالہ کر دیتا ہے۔ ہم اللہ سے شہیدوں کی منزلت، نیکوں کی ہمدمی اور انبیاءؑ کی رفاقت کا سوال کرتے ہیں۔

اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّهٗ لَا یَسْتَغْنِی الرَّجُلُ وَ اِنْ کَانَ ذَا مَالٍ عَنْ عَشِیْرَتِهٖ، وَ دِفَاعِهِمْ عَنْهُ بِاَیْدِیْهِمْ وَ اَلْسِنَتِهِمْ، وَ هُمْ اَعْظَمُ النَّاسِ حِیْطَةً مِّنْ وَّرَآئِهٖ وَ اَلَمُّهُمْ لِشَعَثِهٖ، وَ اَعْطَفُهُمْ عَلَیْهِ عِنْدَ نَازِلَةٍ اِذَا نَزَلَتْ بِهٖ. وَ لِسَانُ الصِّدْقِ یَجْعَلُهُ اللهُ لِلْمَرْءِ فِی النَّاسِ خَیْرٌ لَهٗ مِنَ الْمَالِ یُوَرِّثُهٗ غَیْرَهٗ.

اے لوگو! کوئی شخص بھی اگرچہ وہ مالدار ہو اپنے قبیلہ والوں اور اس امر سے کہ وہ اپنے ہاتھوں اور زبانوں سے اس کی حمایت کریں بے نیاز نہیں ہو سکتا اور وہی لوگ سب سے زیادہ اس کے پشت پناہ اور اس کی پریشانیوں کو دور کرنے والے اور مصیبت پڑنے کی صورت میں اس پر شفیق و مہربان ہوتے ہیں۔ اللہ جس شخص کا سچا ذکرِ خیر لوگوں میں برقرار رکھتا ہے تو یہ اس مال سے کہیں بہتر ہے جس کا وہ دوسروں کو وارث بنا جاتا ہے۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

اَلَا لَا یَعْدِلَنَّ اَحَدُکُمْ عَنِ الْقَرَابَةِ یَرٰى بِهَا الْخَصَاصَةَ اَنْ یَّسُدَّهَا بِالَّذِیْ لَا یَزِیْدُهٗ اِنْ اَمْسَکَهٗ وَ لَا یَنْقُصُهٗ اِنْ اَهْلَکَهٗ، وَ مَنْ یَّقْبِضْ یَدَهٗ عَنْ عَشِیْرَتِهٖ، فَاِنَّمَا تُقْبَضُ مِنْهُ عَنْهُمْ یَدٌ وَّاحِدَةٌ، وَ تُقْبَضُ مِنْهُمْ عَنْهُ اَیْدٍ کَثِیْرَةٌ، وَ مَنْ تَلِنْ حَاشِیَتُهٗ یَسْتَدِمْ مِنْ قَوْمِهِ الْمَوَدَّةَ.

دیکھو تم میں سے اگر کوئی شخص اپنے قریبیوں کو فقر و فاقہ میں پائے تو ان کی احتیاج کو اس امداد سے دور کرنے میں پہلو تہی نہ کرے جس کے روکنے سے یہ کچھ بڑھ نہ جائے گا اور صرف کرنے سے اس میں کچھ کمی نہ ہو گی۔ جو شخص اپنے قبیلے کی اعانت سے ہاتھ روک لیتا ہے تو اس کا تو ایک ہاتھ رکتا ہے لیکن وقت پڑنے پر بہت سے ہاتھ اس کی مدد سے رُک جاتے ہیں۔ جو شخص نرم خو ہو وہ اپنی قوم کی محبت ہمیشہ باقی رکھ سکتا ہے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 January 23 ، 15:32
عون نقوی

اَلَا وَ اِنَّ الشَّیْطٰنَ قَدْ ذَمَرَ حِزْبَهٗ، وَ اسْتَجْلَبَ جَلَبَهٗ، لِیَعُوْدَ الْجَوْرُ اِلٰۤى اَوْطَانِهٖ، وَ یَرْجِـعَ الْبَاطِلُ اِلٰى نِصَابِهٖ، وَاللهِ مَاۤ اَنْکَرُوْا عَلَیَّ مُنْکَرًا، وَ لَا جَعَلُوْا بَیْنِیْ وَ بَیْنَهُمْ نَصِفًا. وَ اِنَّهُمْ لَیَطْلُبُوْنَ حَقًّا هُمْ تَرَکُوْهُ، وَ دَمًا هُمْ سَفَکُوْهُ، فَلَئِنْ کُنْتُ شَرِیْکَهُمْ فِیْهِ فَاِنَّ لَهُمْ لَنَصِیْبَهُمْ مِنْهُ، وَ لَئِنْ کَانُوْا وَلُوْهُ دُوْنِیْ، فَمَا التَّبِعَةُ اِلَّا عِنْدَهُمْ، وَ اِنَّ اَعْظَمَ حُجَّتِهِمْ لَعَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ، یَرْتَضِعُوْنَ اُمًّا قَدْ فَطَمَتْ، وَ یُحْیُوْنَ بِدْعَةً قَدْ اُمِیْتَتْ.

معلوم ہونا چاہیے کہ شیطان نے اپنے گروہ کو بھڑکانا شروع کر دیا اور اپنی فوجیں فراہم کر لی ہیں تاکہ ظلم اپنی انتہا کی حد تک اور باطل اپنے مقام پر پلٹ آئے۔ خدا کی قسم! انہوں نے مجھ پر کوئی سچا الزام نہیں لگایا اور نہ انہوں نے میرے اور اپنے درمیان انصاف برتا۔ وہ مجھ سے اس حق کا مطالبہ کرتے ہیں جسے خود ہی انہوں نے چھوڑ دیا اور اس خون کا عوض چاہتے ہیں جسے انہوں نے خود بہایا ہے۔ اب اگر اس میں مَیں ان کا شریک تھا تو پھر اس میں ان کا بھی تو حصہ نکلتا ہے اور اگر وہی اس کے مرتکب ہوئے ہیں، مَیں نہیں تو پھر اس کی سزا بھی صرف انہی کو بھگتنا چاہیے۔ جو سب سے بڑی دلیل وہ میرے خلاف پیش کریں گے وہ انہی کے خلاف پڑے گی۔ وہ اس ماں کا دودھ پینا چاہتے ہیں جس کا دودھ منقطع ہو چکا ہے اور مری ہوئی بدعت کو پھر سے زندہ کرنا چاہتے ہیں۔

یَا خَیْبَةَ الدَّاعِیْ! مَنْ دَعَا وَ اِلَامَ اُجِیْبَ! وَ اِنِّیْ لَرَاضٍۭ بِحُجَّةِ اللهِ عَلَیْهِمْ وَ عِلْمِهٖ فِیْهِمْ. فَاِنْ اَبَوْا اَعْطَیْتُهُمْ حَدَّ السَّیْفِ، وَ کَفٰى بِهٖ شَافِیًا مِّنَ الْبَاطِلِ، وَ نَاصِرًا لِّلْحَقِّ وَ مِنَ الْعَجَبِ بَعْثُهُمْ اِلَیَّ اَنْ اَبْرُزَ لِلطِّعَانِ! وَ اَنْ اَصْبِرَ لِلْجِلَادِ! هَبِلَتْهُمُ الْهَبُوْلُ، لَقَدْ کُنْتُ وَ مَاۤ اُهَدَّدُ بِالْحَرْبِ، وَ لَاۤ اُرَهَّبُ بِالضَّرْبِ، وَ اِنِّیْ لَعَلٰى یَقِیْنٍ مِّنْ رَّبِّیْ، وَ غَیْرِ شُبْهَةٍ مِّنْ دِیْنِیْ.

اُف کتنا نامراد یہ (جنگ کیلئے) پکارنے والا ہے۔ یہ ہے کون جو للکارنے والا ہے اور کس مقصد کیلئے اس کی بات کو سنا جا رہا ہے اور میں تو اس سے خوش ہوں کہ ان پر اللہ کی حجت تمام ہو چکی ہے اور ہر چیز اس کے علم میں ہے۔ اگر ان لوگوں نے اطاعت سے انکار کیا تو میں تلوار کی باڑ ان کے سامنے رکھ دوں گا جو باطل سے شفا دینے اور حق کی نصرت کیلئے کافی ہے۔ حیرت ہے کہ وہ مجھے یہ پیغام بھیجتے ہیں کہ میں نیزہ زنی کیلئے میدان میں اتر آؤں اور تلواروں کی جنگ کیلئے جمنے پر تیار رہوں۔ رونے والیاں ان کے غم میں روئیں! مَیں تو ہمیشہ ایسا رہا کہ جنگ سے مجھے دھمکایا نہیں جا سکا اور شمشیر زنی سے خوفزدہ نہیں کیا جا سکا اور میں اپنے پروردگار کی طرف سے یقین کے درجہ پر فائز ہوں اور اپنے دین کی حقانیت میں مجھے کوئی شک نہیں ہے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 January 23 ، 15:27
عون نقوی

فَاِنَّ الْغَایَةَ اَمَامَکُمْ، وَ اِنَّ وَرَآءَکُمُ السَّاعَةَ تَحْدُوْکُمْ، تَخَفَّفُوْا تَلْحَقُوْا، فَاِنَّمَا یُنْتَظَرُ بِاَوَّلِکُمْ اٰخِرُکُمْ.

تمہاری منزل مقصود تمہارے سامنے ہے۔ موت کی ساعت تمہارے عقب میں ہے جو تمہیں آگے کی طرف لے چل رہی ہے۔ ہلکے پھلکے رہو تاکہ آگے بڑھنے والوں کو پا سکو۔ تمہارے اگلوں کو پچھلوں کا انتظار کرایا جا رہا ہے (کہ یہ بھی ان تک پہنچ جائیں)۔

اَقُوْلُ: اِنَّ هٰذَا الْکَلَامَ لَوْ وُزِنَ بَعْدَ کَلَامِ اللّٰهِ سُبْحَانَهٗ، وَ بَعْدَ کَلَامِ رَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ بِکُلِّ کَلَامٍ لَّمَالَ بِهٖ رَاجِحًا وَ بَرَّزَ عَلَیْهِ سَابِقًا. فَاَمَّا قَوْلُهٗ ؑ: «تَخَفَّفُوْاتَلْحَقُوْا»، فَمَا سُمِعَ کَلَامٌ اَقَلُّ مِنْهُ مَسْمُوْعًا وَ لَا اَکْثَرُ مَحْصُوْلًا، وَ مَاۤ اَبْعَدَ غَوْرَهَا مِنْ کَلِمَةٍ، وَ اَنْقَعَ نُطْفَتَهَا مِنْ حِکْمَةٍ، وَ قَدْ نَبَّهْنَا فِیْ کِتَابِ الْخَصَآئِصِ عَلٰى عِظَمِ قَدْرِهَا وَ شَرَفِ جَوْهَرِهَا.

سیّد رضی فرماتے ہیں کہ: کلامِ خدا و رسولؐ کے بعد جس کلام سے بھی ان کلمات کا موازنہ کیا جائے تو حسن و خوبی میں ان کا پلہ بھاری رہے گا اور ہر حیثیت سے بڑھے چڑھے رہیں گے اور آپؑ کا یہ ارشاد کہ: «تَخَفَّفُوْاتَلْحَقُوْا» اس سے بڑھ کر تو کوئی جملہ سننے ہی میں نہیں آیا جس کے الفاظ کم ہوں اور معنی بہت ہوں۔ اللہ اکبر! کتنے اس کلمہ کے معنی بلند اور اس حکمت کا چشمہ صاف و شفاف ہے اور ہم نے اپنی کتاب خصائص میں اس فقرے کی عظمت اور اس کے معنی کی بلندی پر روشنی ڈالی ہے۔

https://balagha.org/

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 January 23 ، 15:24
عون نقوی