بصیرت اخبار

۳۲۸ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «نہج البلاغہ کلمات قصار» ثبت شده است

اِلٰى مُعَاوِیَةَ

معاویہ کے نام

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ اللّٰهَ سُبْحَانَهٗ قَدْ جَعَلَ الدُّنْیَا لِمَا بَعْدَهَا، وَ ابْتَلٰى فِیْهَا اَهْلَهَا، لِیَعْلَمَ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا، وَ لَسْنَا لِلدُّنْیَا خُلِقْنَا، وَ لَا بِالسَّعْیِ فِیْهَاۤ اُمِرْنَا، وَ اِنَّمَا وُضِعْنَا فِیْهَا لِنُبْتَلٰی بِهَا، وَ قَدِ ابْتَلَانِی اللّٰهُ بِکَ وَ ابْتَلَاکَ بِیْ، فَجَعَلَ اَحَدَنَا حُجَّةً عَلَى الْاٰخَرِ، فَعَدَوْتَ عَلٰى طَلَبِ الدُّنْیَا بِتَاْوِیْلِ الْقُرْاٰنِ، فَطَلَبْتَنِیْ بِمَا لَمْ تَجْنِ یَدِیْ وَ لَا لِسَانِیْ، وَ عَصَبْتَهٗ اَنْتَ وَ اَهْلُ الشَّامِ بِیْ، وَ اَلَّبَ عَالِمُکُمْ جَاهِلَکُمْ، وَ قَآئِمُکُمْ قَاعِدَکُمْ.

بعد حمد و صلوٰۃ! معلوم ہونا چاہیے کہ خداوند عالم نے دنیا اس کے بعد کی منزل کیلئے بنائی ہے اور اس میں لوگوں کو آزمائش میں ڈالا ہے، تاکہ یہ معلوم ہو کہ ان میں کس کے اعمال بہتر ہیں۔ اور ہم دنیا کیلئے پیدا نہیں کئے گئے اور نہ اس میں تگ و دَو کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ ہم تو یہاں اس لئے لائے گئے ہیں تاکہ اس کے ذریعے ہماری آزمائش ہو۔ چنانچہ اللہ نے تمہارے ذریعہ سے مجھے اور میرے ذریعہ سے تمہیں آزمائش میں ڈالا ہے اور ایک کو دوسرے پر حجت ٹھہرایا ہے، مگر تم قرآن کی (غلط سلط) تاویلیں کر کے دنیا پر چھاپہ مارنے لگے اور مجھ سے اس چیز کا مواخذہ کرنے لگے جس میں میرا ہاتھ اور زبان دونوں بے گناہ تھے، مگر تم نے اور شامیوں نے مل کر اسے میرے سر منڈھ دیا۔ تم میں کے واقف کاروں نے ناواقفوں کو اور کھڑے ہوؤں نے بیٹھے ہوؤں کو آمادۂ پیکار کر دیا۔

فَاتَّقِ اللّٰهَ فِیْ نَفْسِکَ،‏ وَ نَازِعِ الشَّیْطٰنَ قِیَادَکَ، وَ اصْرِفْ اِلَى الْاٰخِرَةِ وَجْهَکَ، فَهِیَ طَرِیْقُنَا وَ طَرِیْقُکَ، وَ احْذَرْ اَنْ یُّصِیْبَکَ اللّٰهُ مِنْهُ بِعَاجِلِ قَارِعَةٍ تَمَسُّ الْاَصْلَ، وَ تَقْطَعُ الدَّابِرَ، فَاِنِّیْۤ اُوْلِیْ لَکَ بِاللّٰهِ اَلِیَّةً غَیْرَ فَاجِرَةٍ، لَئِنْ جَمَعَتْنِیْ وَ اِیَّاکَ جَوَامِعُ الْاَقْدَارِ، لَاۤ اَزَالُ بِبَاحَتِکَ، ﴿حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰهُ بَیْنَنَا ۚ وَ هُوَ خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ۝﴾.

اپنے دل میں کچھ اللہ کا خوف کر و۔ شیطان سے اپنی باگ چھڑانے کی کوشش کرو، اور آخرت کی طرف اپنا رخ موڑ و۔ کیونکہ ہمارا اور تمہارا راستہ وہی ہے، اور اس بات سے ڈرو کہ اللہ تمہیں کسی ایسی ناگہانی مصیبت میں نہ جکڑ لے کہ جس سے نہ تمہاری جڑ رہے نہ شاخ۔ میں تم سے قسم کھاتا ہوں! ایسی قسم کہ جس کے ٹوٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اگر اسبابِ تقدیر نے مجھے اور تمہیں ایک جگہ جمع کر دیا تو اس وقت تک تمہارے مقابلہ میں میدان نہیں چھوڑوں گا، جب تک کہ خدا ہمارے درمیان فیصلہ نہ کردے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

https://balagha.org

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 January 23 ، 16:42
عون نقوی

وَصّٰى بِهٖ شُرَیْحَ بْنَ هَانِئٍ لَّمَّا جَعَلَهٗ عَلٰى مُقَدِّمَتِهٖ اِلَی الشَّامِ:

جب شریح ابن ہانی کو شام جانے والے لشکر کے آگے کے دستہ (مقدمۃ الجیش) کا سردار مقرر کیا تو انہیں یہ ہدایت فرمائی:

اِتَّقِ اللّٰهَ فِیْ کُلِّ صَبَاحٍ وَّ مَسَآءٍ، وَ خَفْ عَلٰى نَفْسِکَ الدُّنْیَا الْغَرُوْرَ، وَ لَا تَاْمَنْهَا عَلٰى حَالٍ، وَ اعْلَمْ اَنَّکَ اِنْ لَّمْ تَرْدَعْ نَفْسَکَ عَنْ کَثِیْرٍ مِّمَّا تُحِبُّ مَخَافَةَ مَکْرُوْهِهٖ، سَمَتْ بِکَ الْاَهْوَآءُ اِلٰى کَثِیْرٍ مِّنَ الضَّرَرِ، فَکُنْ لِّنَفْسِکَ مَانِعًا رَّادِعًا، وَ لِنَزْوَتِکَ عِنْدَ الْحَفِیْظَةِ وَاقِمًا قَامِعًا.

صبح و شام برابر اللہ کا خوف رکھنا اور اس فریب کار دنیا سے ڈرتے رہنا اور کسی حالت میں اس سے مطمئن نہ ہونا۔ اگر تم نے کسی ناگواری کے خوف سے اپنے نفس کو بہت دل پسند باتوں سے نہ روکا تو تمہاری نفسانی خواہشیں تمہیں بہت سے نقصانات میں ڈال دیں گی۔ لہٰذا اپنے نفس کو روکتے ٹوکتے اور غصہ کے وقت اپنی جست و خیز کو دباتے کچلتے رہنا۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 January 23 ، 16:39
عون نقوی

اِلٰۤی اَهْلِ الْکُوْفَةِ عِنْدَ مَسِیْرِهٖ مِنَ الْمَدِیْنَةِ اِلَی الْبَصْرَةِ

مدینہ سے بصرہ کی طرف روانہ ہوتے وقت اہل کوفہ کے نام

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنِّیْ خَرَجْتُ مِنْ حَیِّیْ هٰذَا: اِمَّا ظَالِمًا وَّ اِمَّا مَظْلُوْمًا، وَ اِمَّا بَاغِیًا وَّ اِمَّا مَبْغِیًّا عَلَیْهِ.

بعد حمد و صلوٰۃ! واضح ہو کہ دو ہی صورتیں ہیں: یا تو میں اپنے قوم قبیلے کے شہر سے نکلا ہوں ظالمانہ حیثیت سے، یا مظلوم کی حیثیت سے۔ میں باغی ہوں، یا دوسروں نے میرے خلاف بغاوت کی ہے۔

وَ اِنِّیْۤ اُذَکِّرُ اللّٰهَ مَنْۢ بَلَغَهٗ کِتَابِیْ هٰذَا لَمَّا نَفَرَ اِلَیَّ، فَاِنْ کُنْتُ مُحْسِنًا اَعَانَنِیْ، وَ اِنْ کُنْتُ مُسِیْٓـئًا اسْتَعْتَبَنِیْ.

بہرصورت جن جن کے پاس میرا یہ خط پہنچے انہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ وہ آئیں اور اگر میں صحیح راہ پر ہوں تو میری مدد کریں اور اگر میں غلط راستہ پر جا رہا ہوں تو مجھے اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کریں۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 January 23 ، 16:37
عون نقوی

کَتَبَهٗ اِلٰۤى اَهْلِ الْاَمْصَارِ یَقْتَصُّ فِیْهِ مَا جَرٰى بَیْنَهٗ وَ بَیْنَ اَهْلِ صِفِّیْنَ:

جو مختلف علاقوں کے باشندوں کو صفین کی روئداد سے مطلع کرنے کیلئے تحریر فرمایا:

وَ کَانَ بَدْءُ اَمْرِنَاۤ اَنَّا الْتَقَیْنَا وَ الْقَوْمُ مِنْ اَهْلِ الشَّامِ، وَ الظَّاهِرُ اَنَّ رَبَّنَا وَاحِدٌ، وَ نَبِیَّنَا وَاحِدٌ، وَ دَعْوَتَنَا فِی الْاِسْلَامِ وَاحِدَةٌ، لَا نَسْتَزِیْدُهُمْ فِی الْاِیْمَانِ بِاللّٰهِ، وَ التَّصْدِیْقِ بِرَسُوْلِهٖ ﷺ،وَ لَا یَسْتَزِیْدُوْنَنَا، الْاَمْرُ وَاحِدٌ، اِلَّا مَا اخْتَلَفْنَا فِیْهِ مِنْ دَمِ عُثْمَانَ، وَ نَحْنُ مِنْهُ بَرَآءٌ.

ابتدائی صورت حال یہ تھی کہ ہم اور شام والے آمنے سامنے آئے اس حالت میں کہ ہمارا اللہ ایک، نبی ایک اور دعوت اسلام ایک تھی، نہ ہم ایمان باللہ اور اس کے رسولؐ کی تصدیق میں ان سے کچھ زیادتی چاہتے تھے اور نہ وہ ہم سے اضافہ کے طالب تھے، بالکل اتحاد تھا، سوا اس اختلاف کے جو ہم میں خونِ عثمان کے بارے میں ہو گیا تھا، اور حقیقت یہ ہے کہ ہم اس سے

فَقُلْنَا تَعَالَوْا نُدَاوِ مَا لَا یُدْرَکُ الْیَوْمَ بِاِطْفَآءِ النَّآئِرَةِ، وَ تَسْکِیْنِ الْعَامَّةِ، حَتّٰى یَشْتَدَّ الْاَمْرُ وَ یَسْتَجْمِـعَ، فَنَقْوٰى عَلٰى وَضْعِ الْحَقِّ

بالکل بری الذمہ تھے۔

مَوَاضِعَهٗ، فَقَالُوْا بَلْ نُدَاوِیْهِ بِالْمُکَابَرَةِ.

تو ہم نے ان سے کہا کہ آؤ فتنہ کی آگ بجھا کر اور لوگوں کا جوش ٹھنڈا کر کے اس مرض کا وقتی مداوا کریں جس کا پورا استیصال ابھی نہیں ہو سکتا، یہاں تک کہ صورتِ حال استوار و ہموار ہو جائے اور سکون و اطمینان حاصل ہو جائے۔ اس وقت ہمیں اس کی قوت ہو گی کہ ہم حق کو اس کی جگہ پر رکھ سکیں، لیکن ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس کا علاج جنگ و جدل سے کریں گے۔

فَاَبَوْا حَتّٰى جَنَحَتِ الْحَرْبُ وَ رَکَدَتْ، وَ وَقَدَتْ نِیْرَانُهَا وَ حَمِسَتْ، فَلَمَّا ضَرَّسَتْنَا وَ اِیَّاهُمْ، وَ وَضَعَتْ مَخَالِبَهَا فِیْنَا وَ فِیْهِمْ، اَجَابُوْا عِنْدَ ذٰلِکَ اِلَى الَّذِیْ دَعَوْنَاهُمْ اِلَیْهِ، فَاَجَبْنَاهُمْ اِلٰى مَا دَعَوْا، وَ سَارَعْنَاهُمْ اِلٰى مَا طَلَبُوْا، حَتَّى اسْتَبَانَتْ عَلَیْهِمُ الْحُجَّةُ، وَ انْقَطَعَتْ مِنْهُمُ الْمَعْذِرَةُ.

اور جب انہوں نے ہماری بات ماننے سے انکار کر دیا تو جنگ نے اپنے پر پھیلا دیئے اور جم کر کھڑی ہو گئی۔ اس کے شعلے بھڑک اٹھے اور شدت بڑھ گئی۔ اب جب اس نے ہمیں اور انہیں دانتوں سے کاٹا اور اپنے پنجوں میں جکڑ لیا تو وہ اس بات پر اتر آئے جس کی طرف ہم خود انہیں بلا چکے تھے۔ چنانچہ ہم نے ان کی پیشکش کو مان لیا اور ان کی خواہش کو جلدی سے قبول کر لیا۔ اس طرح ان پر حجت پورے طور سے واضح ہو گئی اور ان کیلئے کسی عذر کی گنجائش نہ رہی۔

فَمَنْ تَمَّ عَلٰى ذٰلِکَ مِنْهُمْ فَهُوَ الَّذِیْۤ اَنْقَذَهُ اللّٰهُ مِنَ الْهَلَکَةِ، وَ مَنْ لَّجَّ وَ تَمَادٰى فَهُوَ الرَّاکِسُ الَّذِیْ رَانَ اللّٰهُ عَلٰى قَلْبِهٖ، وَ صَارَتْ دَآئِرَةُ السَّوْءِ عَلٰى رَاْسِهٖ.

اب ان میں سے جو اپنے عہد پر جما رہے گا وہ وہ ہو گا جسے اللہ نے ہلاکت سے بچایا ہے اور جو ہٹ دھرمی کرتے ہوئے گمراہی میں دھنستا جائے گا تو وہ عہد شکن ہو گا جس کے دل پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور زمانہ کے حوادث اس کے سرپر منڈلاتے رہیں گے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 January 23 ، 16:35
عون نقوی

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ الْجِهَادَ بَابٌ مِّنْ اَبْوَابِ الْجَنَّةِ، فَتَحَهُ اللهُ لِخَاصَّةِ اَوْلِیَآئِهٖ، وَ هُوَ لِبَاسُ التَّقْوٰى، وَ دِرْعُ اللهِ الْحَصِیْنَةُ، وَ جُنَّتُهُ الْوَثِیْقَةُ، فَمَنْ تَرَکَهٗ رَغْبَةً عَنْهُ اَلْبَسَهُ اللهُ ثَوْبَ الذُّلِّ، وَ شَمْلَۃَ الْبَلَآءِ، وَ دُیِّثَ بِالصَّغَارِ وَ الْقَمَآءِ، وَ ضُرِبَ عَلٰى قَلْبِهٖ بِالْاَسْدَادِ، وَ اُدِیْلَ الْحَقُّ مِنْهُ بِتَضْیِیْعِ الْجِهَادِ، وَ سِیْمَ الْخَسْفَ، وَ مُنِعَ الْنِّصْفَ.

جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جسے اللہ نے اپنے خاص دوستوں کیلئے کھولا ہے۔ یہ پرہیز گاری کا لباس، اللہ کی محکم زرہ اور مضبوط سپر ہے۔ جو اس سے پہلو بچاتے ہوئے اسے چھوڑ دیتا ہے، خدا اسے ذلت و خواری کا لباس پہنا اور مصیبت و ابتلا کی ردا اوڑھا دیتا ہے اور ذلتوں اور خواریوں کے ساتھ ٹھکرا دیا جاتا ہے اور مدہوشی و غفلت کا پردہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے اور جہاد کو ضائع و برباد کرنے سے حق اس کے ہاتھ سے لے لیا جاتا ہے، ذلت اسے سہنا پڑتی ہے اور انصاف اس سے روک لیا جاتا ہے۔

اَلَا وَ اِنِّیْ قَدْ دَعَوْتُکُمْ اِلَى قِتَالِ هٰٓؤُلَآءِ الْقَوْمِ لَیْلًا وََّ نَهَارًا، وَ سِرًّا وَّ اِعْلَانًا، وَ قُلْتُ لَکُمُ: اغْزُوْهُمْ قَبْلَ اَنْ یَّغْزُوْکُمْ، فَوَاللهِ! مَا غُزِیَ قَوْمٌ قَطُّ فِیْ عُقْرِ دَارِهِمْ اِلَّا ذَلُّوْا، فَتَوَاکَلْتُمْ وَ تَخَاذَلْتُمْ حَتّٰى شُنَّتْ عَلَیْکُمُ الْغَارَاتُ، وَ مُلِکَتْ عَلَیْکُمُ الْاَوْطَانُ.

میں نے اس قوم سے لڑنے کیلئے رات بھی اور دن بھی، علانیہ بھی اور پوشیدہ بھی تمہیں پکارا اور للکارا اور تم سے کہا کہ قبل اس کے کہ وہ جنگ کیلئے بڑھیں تم ان پر دھاوا بول دو۔ خدا کی قسم! جن افرادِ قوم پر ان کے گھروں کے حدود کے اندر ہی حملہ ہو جاتا ہے وہ ذلیل و خوار ہوتے ہیں، لیکن تم نے جہاد کو دوسروں پرٹال دیا اور ایک دوسرے کی مدد سے پہلو بچانے لگے۔ یہاں تک کہ تم پر غارت گریاں ہوئیں اور تمہارے شہروں پر زبردستی قبضہ کر لیا گیا۔

وَ هٰذَاۤ اَخُوْ غَامِدٍ قَدْ وَرَدَتْ خَیْلُهُ الْاَنْۢبَارَ وَ قَدْ قَتَلَ حَسَّانَ بْنَ حَسَّانَ الْبَکْرِیَّ، وَ اَزَالَ خَیْلَکُمْ عَنْ مَّسَالِحِهَا وَ لَقَدْ بَلَغَنِیْۤ اَنَّ الرَّجُلَ مِنْهُمْ کَانَ یَدْخُلُ عَلَى الْمَرْاَةِ الْمُسْلِمَةِ، وَ الْاُخْرَى الْمُعَاهِدَةِ، فَیَنْتَزِعُ حِجْلَهَا وَ قُلْبَهَا وَقَلَآئِدَهَا وَ رِعَاثَهَا، ما تَمْتَنِعُ مِنْهُ اِلَّا بِالْاِسْتِرْجَاعِ وَ الْاِسْتِرْحَامِ، ثُمَّ انْصَرَفُوْا وَافِرِیْنَ مَا نَالَ رَجُلًا مِّنْهُمْ کَلْمٌ وَّ لَا اُرِیْقَ لَهُمْ دَمٌ، فَلَوْ اَنَّ امْرَاً مُّسْلِمًا مَّاتَ مِنْۢ بَعْدِ هٰذاۤ اَسَفًا مَّا کَانَ بِهٖ مَلُوْمًا، بَلْ کَانَ بِهٖ عِنْدِیْ جَدِیْرًا. فَیَا عَجَبًا! عَجَبًا وَاللهِ! یُمِیْتُ الْقَلْبَ وَ یَجْلِبُ الْهَمَّ مِنِ اجْتِمَاعِ هٰٓؤُلَآءِ الْقَوْمِ عَلٰى بَاطِلِهِمْ، وَ تَفَرُّقِکُمْ عَنْ حَقِّکُمْ! فَقُبْحًا لَّکُمْ وَ تَرَحًا حِیْنَ صِرْتُمْ غَرَضًا یُرْمٰى: یُغَارُ عَلَیْکُمْ وَ لَا تُغِیْرُوْنَ، وَ تُغْزَوْنَ وَ لَا تَغْزُوْنَ، وَ یُعْصَى اللهُ وَ تَرْضَوْنَ!

اسی بنی غامد کے آدمی (سفیان ابنِ عوف) ہی کو دیکھ لو کہ اس کی فوج کے سوار (شہر) انبار کے اندر پہنچ گئے اور حسان ابن حسان بکری کو قتل کر دیا اور تمہارے محافظ سواروں کو سرحدوں سے ہٹا دیا اور مجھے تو یہ اطلاعات بھی ملی ہیں کہ اس جماعت کا ایک آدمی مسلمان اور ذمی عورتوں کے گھروں میں گھس جاتا تھا اور ان کے (پیروں سے) کڑے، (ہاتھوں سے) کنگن اور گلو بند اور گوشوارے اتار لیتا تھا اور ان کے پاس اس سے حفاظت کا کوئی ذریعہ نظر نہ آتا تھا۔ سوا اس کے کہ ﴿اِنَّا لِلهِ وَ اِنَّآ اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ﴾ کہتے ہوئے صبر سے کام لیں یا خوشامدیں کر کے اس سے رحم کی التجا کریں، پھر وہ لدے پھندے ہوئے پلٹ گئے۔ نہ کسی کے زخم آیا نہ کسی کا خون بہا۔ اب اگر کوئی مسلمان ان سانحات کے بعد رنج و ملال سے مر جائے تو اسے ملامت نہیں کی جا سکتی، بلکہ میرے نزدیک ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اَلْعَجَبُ ثُمَّ الْعَجَبُ خدا کی قسم! ان لوگوں کا باطل پر ایکا کر لینا اور تمہاری جمعیت کا حق سے منتشر ہو جانا دل کو مردہ کر دیتا ہے اور رنج و اندوہ بڑھا دیتا ہے۔ تمہارا بُرا ہو! تم غم و حزن میں مبتلا رہو! تم تو تیروں کا از خود نشانہ بنے ہوئے ہو۔ تمہیں ہلاک و تاراج کیا جا رہا ہے مگر تمہارے قدم حملے کیلئے نہیں اٹھتے۔ وہ تم سے لڑ بھڑ رہے ہیں اور تم جنگ سے جى چراتے ہو۔ اللہ کی نافرمانیاں ہو رہی ہیں اور تم راضی ہو رہے ہو۔

فَاِذَاۤ اَمَرْتُکُمْ بِالسَّیْرِ اِلَیْهِم فِیْۤ اَیَّامِ الْحَرِّ قُلْتُمْ: هٰذِهَٖ حَمَارَّةُ الْقَیْظِ اَمْهِلْنَا یُسَبَّخْ عَنَّا الْحَرُّ، وَ اِذَاۤ اَمَرْتُکُمْ بِالسَّیْرِ اِلَیْهِمْ فِی الشِّتَآءِ قُلْتُمْ: هٰذِهِ صَبَارَّةُ الْقُرِّ اَمْهِلْنَا یَنْسَلِخْ عَنَّا الْبَرْدُ، کُلُّ هٰذَا فِرَارًا مِّنَ الْحَرِّ وَ القُرِّ، فَاِذَا کُنْتُمْ مِنَ الْحَرِّ وَ الْقُرِّ تَفِرُّوْنَ فَاَنْتُمْ وَاللهِ! مِنَ السَّیْفِ اَفَرُّ!

اگر گرمیوں میں تمہیں ان کی طرف بڑھنے کیلئے کہتا ہوں تو تم یہ کہتے ہو کہ یہ انتہائی شدت کی گرمی کا زمانہ ہے، اتنی مہلت دیجئے کہ گرمی کا زور ٹوٹ جائے۔ اور اگر سردیوں میں چلنے کیلئے کہتا ہوں تو تم یہ کہتے ہو کہ کڑا کے کا جاڑا پڑ رہا ہے، اتنا ٹھہر جائیے کہ سردی کا موسم گزر جائے۔ یہ سب سردی اور گرمی سے بچنے کیلئے باتیں ہیں۔ جب تم سردی اور گرمی سے اس طرح بھاگتے ہو تو پھر خدا کی قسم! تم تلواروں کو دیکھ کر اس سے کہیں زیادہ بھاگو گے۔

یَاۤ اَشْبَاهَ الرِّجَالِ وَ لَا رِجَالَ! حُلُوْمُ الْاَطْفَالِ، وَ عُقُولُ رَبَّاتِ الْحِجَالِ، لَوَدِدْتُّ اَنِّیْ لَمْ اَرَکُمْ وَ لَمْ اَعْرِفْکُمْ مَعْرِفَةً ـ وَاللهِ! ـ جَرَّتْ نَدَمًا، وَ اَعقَبَتْ سَدَمًا.

اے مردوں کی شکل و صورت والے نامَردو! تمہاری عقلیں بچوں کی سی اور تمہاری سمجھ حجلہ نشین عورتوں کے مانند ہے۔ میں تو یہی چاہتا تھا کہ نہ تم کو دیکھتا، نہ تم سے جان پہچان ہوتی۔ ایسی شناسائی جو ندامت کا سبب اور رنج و اندوہ کا باعث بنی ہے۔

قَاتَلَکُمُ اللهُ! لَقَدْ مَلَئْتُمْ قَلْبِیْ قَیْحًا، وَ شَحَنْتُمْ صَدْرِیْ غَیْظًا، وَ جَرَّعْتُمُوْنِیْ نُغَبَ التَّهْمَامِ اَنْفَاسًا، وَ اَفْسَدْتُّمْ عَلَیَّ رَاْیِیْ بِالْعِصْیَانِ وَ الْخِذْلَانِ، حَتّٰى لَقَدْ قَالَتْ قُرَیْشٌ: اِنَّ ابْنَ اَبِیْ طَالِبٍ رَجُلٌ شُجَاعٌ، وَ لٰکِنْ لَّا عِلْمَ لَهٗ بِالْحَرْبِ.

اللہ تمہیں مارے! تم نے میرے دل کو پیپ سے بھر دیا ہے اور میرے سینے کو غیظ و غضب سے چھلکا دیا ہے۔ تم نے مجھے غم و حزن کے جرعے پے در پے پلائے، نافرمانی کر کے میری تدبیر و رائے کو تباہ کر دیا، یہاں تک کہ قریش کہنے لگے کہ: علیؑ ہے تو مرد شجاع، لیکن جنگ کے طور طریقوں سے واقف نہیں۔

لِلّٰهِ اَبُوْهُمْ! وَ هَلْ اَحَدٌ مِّنْهُمْ اَشَدُّ لَهَا مِرَاسًا، وَ اَقْدَمُ فِیْهَا مَقَامًا مِّنِّیْ؟! لَقَدْ نَهَضْتُ فِیْهَا وَ مَا بَلَغْتُ الْعِشْرِیْنَ، وَ هَا اَنَا ذَا قَدْ ذَرَّفْتُ عَلَى السِّتِّیْنَ! وَ لٰکِنْ لَّا رَاْیَ لَمِنْ لَّا یُطَاعُ!.

اللہ ان کا بھلا کرے! کیا ان میں سے کوئی ہے جو مجھ سے زیادہ جنگ کی مزاولت رکھنے والا اور میدانِ وغا میں میرے پہلے سے کارِ نمایاں کئے ہوئے ہو۔ میں تو ابھی بیس برس کا بھی نہ تھا کہ حرب و ضرب کیلئے اٹھ کھڑا ہوا اور اب تو ساٹھ سے بھی اوپر ہو گیا ہوں، لیکن اس کی رائے ہی کیا جس کی بات نہ مانی جائے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 January 23 ، 15:49
عون نقوی