بصیرت اخبار

۲۶۶ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «عون نقوی» ثبت شده است

(۸۴)

بَقِیَّةُ السَّیْفِ اَبْقٰى عَدَدًا، وَ اَکْثَرُ وَلَدًا.

تلوار سے بچے کھچے لوگ زیادہ باقی رہتے ہیں اور ان کی نسل زیادہ ہوتی ہے۔

(۸۵)

مَنْ تَرَکَ قَوْلَ: لَاۤ اَدْرِیْ، اُصِیْبَتْ مَقَاتِلُهٗ.

جس کی زبان پر کبھی یہ جملہ نہ آئے کہ: ’’میں نہیں جانتا‘‘ تو وہ چوٹ کھانے کی جگہوں پر چوٹ کھا کر رہتا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 January 23 ، 14:03
عون نقوی

(۸۲)

اُوْصِیْکُمْ بِخَمْسٍ لَّوْ ضَرَبْتُمْ اِلَیْهَاۤ اٰبَاطَ الْاِبِلِ لَکَانَتْ لِذٰلِکَ اَهْلًا: لَا یَرْجُوَنَّ اَحَدٌ مِّنْکُمْ اِلَّا رَبَّهٗ، وَ لَا یَخَافَنَّ اِلَّا ذَنْۢبَهٗ، وَ لَا یَسْتَحِیَنَّ اَحَدٌ مِّنْکُمْ اِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا یَعْلَمُ اَنْ یَّقُوْلَ لَاۤ اَعْلَمُ، وَ لَا یَسْتَحِیَنَّ اَحَدٌ اِذَا لَمْ یَعَلَمِ الشَّیْءَ اَنْ یَّتَعَلَّمَهٗ وَ عَلَیکُمْ بِالصَّبْرِ، فَاِنَّ الصَّبْرَ مِنَ الْاِیْمَانِ کَالرَّاْسِ مِنَ الْجَسَدِ، وَ لَا خَیْرَ فِیْ جَسَدٍ لَّا رَاْسَ مَعَهٗ، وَ لَا فِیْۤ اِیْمَانٍ لَّا صَبْرَ مَعَهٗ.

تمہیں ایسی پانچ باتوں کی ہدایت کی جاتی ہے کہ اگر انہیں حاصل کرنے کیلئے اونٹوں کو ایڑ لگا کر تیز ہنکاؤ تو وہ اسی قابل ہوں گی: تم میں سے کوئی شخص اللہ کے سوا کسی سے آس نہ لگائے اور اس کے گناہ کے علاوہ کسی شے سے خوف نہ کھائے، اور اگر تم میں سے کسی سے کوئی ایسی بات پوچھی جائے کہ جسے وہ نہ جانتا ہو تو یہ کہنے میں نہ شرمائے کہ: ’’میں نہیں جانتا‘‘، اور اگر کوئی شخص کسی بات کو نہیں جانتا تو اس کے سیکھنے میں شرمائے نہیں، اور صبر و شکیبائی اختیار کرو کیونکہ صبر کو ایمان سے وہی نسبت ہے جو سر کو بدن سے ہوتی ہے۔ اگر سر نہ ہو تو بدن بیکار ہے، یونہی ایمان کے ساتھ صبر نہ ہو تو ایمان میں کوئی خوبی نہیں۔

ھر کہ را صبر نیست ایمان نیست

(۸۳)

لِرَجُلٍ اَفْرَطَ فِی الثَّنَآءِ عَلَیْهِ، وَ کَانَ لَهٗ مُتَّهِمًا:

ایک شخص نے آپؑ کی بہت زیادہ تعریف کی، حالانکہ وہ آپؑ سے عقیدت و ارادت نہ رکھتا تھا تو آپؑ نے فرمایا:

اَنَا دُوْنَ مَا تَقُوْلُ، وَ فَوْقَ مَا فِیْ نَفْسِکَ.

جو تمہاری زبان پر ہے میں اس سے کم ہوں اور جو تمہارے دل میں ہے اس سے زیادہ ہوں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 January 23 ، 14:01
عون نقوی

(۸۰)

اَلْحِکْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ، فَخُذِ الْحِکْمَةَ وَ لَوْ مِنْ اَهْلِ النِّفَاقِ.

حکمت مومن ہی کی گمشدہ چیز ہے، اسے حاصل کرو، اگرچہ منافق سے لینا پڑے۔

(۸۱)

قِیْمَةُ کُلِّ امْرِئٍ مَّا یُحْسِنُهٗ.

ہرشخص کی قیمت وہ ہنر ہے جو اس شخص میں ہے۔

قَالَ الرَّضِیُّ: وَ ھِیَ الْکَلِمَةُ الَّتِیْ لَا تُصَابُ لَهَا قِیْمَةٌ، وَ لَا تُوْزَنُ بِهَا حِکْمَةٌ، وَ لَا تُقْرَنُ اِلَیْهَا کَلِمَةٌ.

سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: یہ ایک ایسا انمول جملہ ہے کہ نہ کوئی حکیمانہ بات اس کے ہم وزن ہو سکتی ہے اور نہ کوئی جملہ اس کا ہم پایہ ہو سکتا ہے۔


انسان کی حقیقی قیمت اس کا جوہرِ علم و کمال ہے۔ وہ علم و کمال کی جس بلندی پر فائز ہو گا اسی کے مطابق اس کی قدر و منزلت ہو گی۔ چنانچہ جوہر شناس نگاہیں شکل و صورت، بلندی قد و قامت اور ظاہری جاہ و حشمت کو نہیں دیکھتیں، بلکہ انسان کے ہنر کو دیکھتی ہیں اور اسی ہنر کے لحاظ سے اس کی قیمت ٹھہراتی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ انسان کو اکتساب فضائل و تحصیل علم و دانش میں جدوجہد کرنا چاہیے۔

زانکه هر کس را به قدر دانش او قیمت است۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 January 23 ، 13:57
عون نقوی

(۷۸)

لِلسَّآئِلِ الشّامِیِّ لَمَّا سَئَلَهٗ: اَ کَانَ مَسِیْرُنَا اِلَى الشَّامِ بِقَضَآءٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ قَدَرٍ؟ بَعْدَ کَلامٍ طَوِیْلٍ هٰذَا مُخْتَارُهٗ:

ایک شخص نے امیرالمومنین علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا ہمارا اہل شام سے لڑنے کیلئے جانا قضاء و قدر سے تھا؟ تو آپؑ نے ایک طویل جواب دیا جس کا ایک منتخب حصہ یہ ہے:

وَیْحَکَ! لَعَلَّکَ ظَنَنْتَ قَضَآءً لَّازِمًا، وَ قَدَرًا حَاتِمًا! وَ لَوْ کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ لَبَطَلَ الثَّوَابُ وَ الْعِقَابُ، وَ سَقَطَ الْوَعْدُ وَ الْوَعِیْدُ.

خدا تم پر رحم کرے! شاید تم نے حتمی و لازمی قضاء و قدر سمجھ لیا ہے (کہ جس کے انجام دینے پر ہم مجبور ہیں)۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر نہ ثواب کا کوئی سوال پیدا ہوتا نہ عذاب کا، نہ وعدے کے کچھ معنی رہتے نہ وعید کے۔

اِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ اَمَرَ عِبَادَهٗ تَخْیِیْرًا، وَ نَهَاهُمْ تَحْذِیْرًا، وَ کَلَّفَ یَسِیْرًا، وَ لَمْ یُکَلِّفَ عَسِیْرًا، وَ اَعْطٰى عَلَى الْقَلِیْلِ کَثِیْرًا، وَ لَمْ یُعْصَ مَغْلُوْبًا، وَ لَمْ یُطَعْ مُکْرِهًا، وَ لَمْ یُرْسِلِ الْاَنْۢبِیَآءَ لَعِبًا، وَ لَمْ یُنْزِلِ الْکُتُبَ لِلْعِبَادِ عَبَثًا، وَ لَا خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا بَاطِلًا، ﴿ذٰلِکَ ظَنُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ۚ فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنَ النَّارِؕ۝﴾.

خداوند عالم نے تو بندوں کو خود مختار بنا کر مامور کیا ہے اور (عذاب سے) ڈراتے ہوئے نہی کی ہے۔ اُس نے سہل و آسان تکلیف دی ہے اور دشواریوں سے بچائے رکھا ہے۔ وہ تھوڑے کئے پر زیادہ اجر دیتا ہے۔ اس کی نافرمانی اس لئے نہیں ہوتی کہ وہ دَب گیا ہے اور نہ اس کی اطاعت اس لئے کی جاتی ہے کہ اس نے مجبور کر رکھا ہے۔ اس نے پیغمبروں کو بطور تفریح نہیں بھیجا اور بندوں کیلئے کتابیں بے فائدہ نہیں اتاری ہیں اور نہ آسمان و زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان سب کو بیکار پیدا کیا ہے۔ ’’یہ تو ان لوگوں کا خیال ہے جنہوں نے کفر اختیار کیا تو افسوس ہے ان پر جنہوں نے کفر اختیار کیا، آتش جہنم کے عذاب سے‘‘۔

(۷۹)

خُذِ الْحِکْمَةَ اَنّٰى کَانَتْ، فَاِنَّ الْحِکْمَةَ تَکُوْنُ فِیْ صَدْرِ الْمُنَافِقِ، فَتَلَجْلَجُ فِیْ صَدْرِهٖ حَتّٰى تَخْرُجَ، فَتَسْکُنَ اِلٰى صَوَاحِبِهَا فِیْ صَدْرِ الْمُؤْمِنِ.

حکمت کی بات جہاں کہیں ہو اسے حاصل کرو، کیونکہ حکمت منافق کے سینہ میں بھی ہوتی ہے، لیکن جب تک اس (کی زبان) سے نکل کر مومن کے سینہ میں پہنچ کر دوسری حکمتوں کے ساتھ بہل نہیں جاتی، تڑپتی رہتی ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 January 23 ، 13:54
عون نقوی

(۷۶)

اِنَّ الْاُمُوْرَ اِذَا اشْتَبَهَتْ اُعْتُبِرَ اٰخِرُهَا بِاَوَّلِهَا.

جب کسی کام میں اچھے برے کی پہچان نہ رہے تو آغاز کو دیکھ کر انجام کو پہچان لینا چاہیے۔


ایک بیج کو دیکھ کر کاشتکار یہ حکم لگا سکتا ہے کہ اس سے کون سا درخت پیدا ہوگا، اس کے پھل پھول اور پتے کیسے ہوں گے، اس کا پھیلاؤ اور بڑھاؤ کتنا ہو گا، اسی طرح ایک طالب علم کی سعی و کوشش کو دیکھ کر اس کی کامیابی پر اور دوسرے کی آرام طلبی و غفلت کو دیکھ کر اس کی ناکامی پر حکم لگایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اوائل، اواخر کے اور مقدمات، نتائج کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ لہٰذا کسی چیز کا انجام سجھائی نہ دیتا ہو تو اس کی ابتدا کو دیکھا جائے۔ اگر ابتدا بری ہو گی تو انتہا بھی بری ہو گی اور اگر ابتدا اچھی ہوگی تو انتہا بھی اچھی ہو گی۔

سالے کہ نکو است از بہارش پیدا

(۷۷)

وَ مِنْ خَبَرِ ضِرَارِ بْنِ ضَمُرَةَ الضَّبَآئِیِّ عِنْدَ دُخُوْلِهٖ عَلٰی مُعَاوِیَةَ وَ مَسْئَلَتِهٖ لَهٗ عَنْ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ، وَ قَالَ: فَاَشْهَدُ لَقَدْ رَاَیْتُهٗ فِیْ بَعْضِ مَوَاقِفِهٖ وَ قَدْ اَرْخَى اللَّیْلُ سُدُوْلَهٗ وَ هُوَ قَآئِمٌ فِیْ مِحْرَابِهٖ، قَابِضٌ عَلٰى لِحْیَتِهٖ، یَتَمَلْمَلُ تَمَلْمُلَ السَّلِیْمِ، وَ یَبْکِیْ بُکَآءَ الْحَزِیْنِ، وَ یَقُوْلُ:

جب ضرار ابن ضمرہ ضبائی معاویہ کے پاس گئے اور معاویہ نے امیرالمومنین علیہ السلام کے متعلق ان سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ میں اس امر کی شہادت دیتا ہوں کہ میں نے بعض موقعوں پر آپؑ کو دیکھا جبکہ رات اپنے دامن ظلمت کو پھیلا چکی تھی، تو آپؑ محراب عبادت میں ایستادہ، ریش مبارک کو ہاتھوں میں پکڑے ہوئے، مار گزیدہ کی طرح تڑپ رہے تھے اور غم رسیدہ کی طرح رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے:

یَا دُنْیَا یَا دُنْیَا! اِلَیْکِ عَنِّیْ، اَ بِیْ تَعَرَّضْتِ؟ اَمْ اِلَیَّ تَشَوَّقْتِ؟ لَا حَانَ حِیْنُکِ! هَیْهَاتَ! غُرِّیْ غَیْرِیْ، لَا حَاجَةَ لِیْ فِیْکِ، قَدْ طَلَّقْتُکِ ثَلَاثًا لَّا رَجْعَةَ فِیْهَا! فَعَیْشُکِ قَصِیْرٌ، وَ خَطَرُکِ یَسِیْرٌ، وَ اَمَلُکِ حَقِیْرٌ. اٰهِ مِنْ قِلَّةِ الزَّادِ، وَ طُوْلِ الطَّرِیْقِ، وَ بُعْدِ السَّفَرِ، وَ عَظِیْمِ الْمَوْرِدِ!

اے دنیا! اے دنیا دور ہو مجھ سے۔ کیا میرے سامنے اپنے کو لاتی ہے؟ یا میری دلدادہ و فریفتہ بن کر آئی ہے؟ تیرا وہ وقت نہ آئے (کہ تو مجھے فریب دے سکے)! بھلا یہ کیونکر ہو سکتا ہے؟ جا کسی اور کو جَل دے! مجھے تیری خواہش نہیں ہے۔ میں تو تین بار تجھے طلاق دے چکا ہوں کہ جس کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں۔ تیری زندگی تھوڑی، تیری اہمیت بہت ہی کم اور تیری آرزو ذلیل و پست ہے۔ افسوس! زادِ راہ تھوڑا، راستہ طویل، سفر دور و دراز اور منزل سخت ہے۔


اس روایت کا تتمہ یہ ہے کہ جب معاویہ نے ضرار کی زبان سے یہ واقعہ سنا تو اس کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور کہنے لگا کہ: خدا ابو الحسن پر رحم کرے، وہ واقعاً ایسے ہی تھے۔پھر ضرار سے مخاطب ہو کر کہا کہ اے ضرار! ان کی مفارقت میں تمہارے رنج و اندوہ کی کیا حالت ہے؟ ضرار نے کہا کہ: بس یہ سمجھ لو کہ میرا غم اتنا ہی ہے جتنا اس ماں کا ہوتا ہے کہ جس کی گود میں اس کا اکلوتا بچہ ذبح کر دیا جائے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 January 23 ، 13:51
عون نقوی