بصیرت اخبار

۲۶۶ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «عون نقوی» ثبت شده است

وَ قَدْ جَمَعَ النَّاسَ وَ حَضَّهُمْ عَلَى الْجِهَادِ، فَسَکَتُوْا مَلِیًّا، فَقَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ:

امیر المومنین علیہ السلام نے لوگوں کو جمع کیا اور انہیں جہاد پر آمادہ کرنا چاہا تو وہ لوگ دیر تک چپ رہے، تو آپؑ نے فرمایا:

مَا بَالُکُمْ اَ مُخْرَسُوْنَ اَنْتُمْ؟

تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ کیا تم گونگے ہو گئے ہو؟

فَقَال قَوْمٌ مِّنْهُمْ: یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! اِنْ سِرْتَ سِرْنَا مَعَکَ. فَقَالَ ؑ:

تو ایک گروہ نے کہا کہ اے امیر المومنین علیہ السلام اگر آپؑ چلیں، تو ہم بھی آپؑ کے ہمراہ چلیں گے۔ جس پر حضرتؑ نے فرمایا:

مَا بَالُکُمْ! لَا سُدِّدْتُّمْ لِرُشْدٍ! وَ لَا هُدِیْتُمْ لِقَصْدٍ! اَ فِیْ مِثْلِ هٰذَا یَنْۢبَغِیْ لِیْۤ اَنْ اَخْرُجَ؟ اِنَّمَا یَخْرُجُ فِیْ مِثْلِ هٰذَا رَجُلٌ مِّمَّنْ اَرْضَاهُ مِنْ شُجْعَانِکُمْ وَ ذَوِیْ بَاْسِکُمْ، وَ لَا یَنْۢبَغِیْ لِیْۤ اَنْ اَدَعَ الْجُنْدَ، وَ الْمِصْرَ، وَ بَیْتَ الْمَالِ، وَ جِبَایَةَ الْاَرْضِ، وَ الْقَضَآءَ بَیْنَ الْمُسْلِمِیْنَ، وَ النَّظَرَ فِیْ حُقُوْقِ الْمُطَالِبِیْنَ، ثُمَّ اَخْرُجَ فِیْ کَتِیْبَةٍ اَتْبَعُ اُخْرٰی، اَ تَقَلْقَلُ تَقَلْقُلَ الْقِدْحِ فِی الْجَفِیْرِ الْفَارِغِ، وَ اِنَّمَا اَنَا قُطْبُ الرَّحَا، تَدُوْرُ عَلَیَّ وَ اَنَا بِمَکَانِیْ، فَاِذَا فَارَقْتُهُ اسْتَحَارَ مَدَارُهَا، وَ اضْطَرَبَ ثِفَالُهَا.

تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ تمہیں ہدایت کی توفیق نہ ہو اور نہ سیدھی راہ دیکھنا نصیب ہو! کیا ایسے حالات میں میں ہی نکلوں۔ اس وقت تو تمہارے جواں مردوں اور طاقتوروں میں سے جس شخص کو میں پسند کروں اسے جانا چاہیے، میرے لئے مناسب نہیں کہ میں لشکر، شہر، بیت المال، زمین کے خراج کی فراہمی، مسلمانوں کے مقدمات کا تصفیہ اور مطالبہ کرنے والوں کے حقوق کی دیکھ بھال چھوڑ دوں اور لشکر لئے ہوئے دوسرے لشکر کے پیچھے نکل کھڑا ہوں اور جس طرح خالی ترکش میں بے پیکاں کا تیر ہلتا جلتا ہے جنبش کھاتا رہوں۔ میں چکی کے اندر کا وہ قطب ہوں کہ جس پر وہ گھومتی ہے جب تک میں اپنی جگہ پر ٹھہرا رہوں اور اگر میں نے اپنا مقام چھوڑ دیا تو اس کے گھومنے کا دائرہ متزلزل ہو جائے گا اور اس کا نیچے والا پتھر بھی بے ٹھکانے ہو جائے گا۔

هٰذَا لَعَمْرُ اللهِ! الرَّاْیُ السُّوْٓءُ. وَاللهِ! لَوْلَا رَجَآئِی الشَّهَادَةَ عِنْدَ لِقَآئِی الْعَدُوَّ ـ لَوْ قَدْ حُمَّ لِیْ لِقَاؤُهٗ ـ لَقَرَّبْتُ رِکَابِیْ ثُمَّ شَخَصْتُ عَنْکُمْ، فَلَاۤ اَطْلُبُکُمْ مَا اخْتَلَفَ جَنُوبٌ وَّ شَمَالٌ.

خدا کی قسم! یہ بہت بُرا مشورہ ہے۔ قسم بخدا! اگر دشمن کا مقابلہ کرنے سے مجھے شہادت کی امید نہ ہو جب کہ وہ مقابلہ میرے لئے مقدر ہو چکا ہو تو میں اپنی سواریوں کو(سوار ہونے کیلئے) قریب کر لیتا اور تمہیں چھوڑ چھاڑ کر نکل جاتا اور جب تک جنوبی و شمالی ہوائیں چلتی رہتیں تمہیں کبھی طلب نہ کرتا۔

اِنَّهٗ لَا غَنَآءَ فِیْ کَثْرَةِ عَدَدِکُمْ مَعَ قِلَّةِ اجْتِمَاعِ قُلُوْبِکُمْ. لَقَدْ حَمَلْتُکُمْ عَلَی الطَّرِیْقِ الْوَاضِحِ الَّتِیْ لَا یَهْلِکُ عَلَیْهَا اِلَّا هَالِکٌ، مَنِ اسْتَقَامَ فَاِلَی الْجَنَّةِ، وَ مَنْ زَلَّ فَاِلَی النَّارِ!.

تمہارے شمار میں زیادہ ہونے سے کیا فائدہ جبکہ تم یک دل نہیں ہو پاتے۔ میں نے تمہیں صحیح راستے پر لگایا ہے کہ جس میں ایسا ہی شخص تباہ و برباد ہو گا جو خود اپنے لئے ہلاکت کا سامان کئے بیٹھا ہو اور جو اس راہ پر جما رہے گا وہ جنت کی طرف اور جو پھسل جائے گا وہ دوزخ کی جانب بڑھے گا۔


جنگ صفین کے بعد جب معاویہ کی فوجوں نے آپؑ کے مختلف علاقوں پر حملے شروع کر دیئے تو ان کی روک تھام کیلئے آپؑ نے عراقیوں سے کہا لیکن انہوں نے ٹالنے کیلئے یہ عذر تراشا کہ اگر آپؑ فوج کے ہمراہ چلیں تو ہم بھی چلنے کو تیار ہیں جس پر حضرتؑ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا اور اپنی مجبوریوں کو واضح کیا کہ اگر میں چلوں تو مملکت کا نظم و ضبط برقرار نہیں رہ سکتا اور اس عالم میں کہ دشمن کے حملے چاروں طرف سے شروع ہو چکے ہیں مرکز کو خالی رکھنا مصلحت کے خلاف ہے۔ مگر ان لوگوں سے کیا توقع کی جا سکتی تھی جنہوں نے صفین کی فتح کو شکست سے بدل کر ان حملوں کا دروازہ کھول دیا ہو۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 January 23 ، 15:28
عون نقوی

اَنْتُمُ الْاَنْصَارُ عَلَی الْحَقِّ، وَ الْاِخْوَانُ فِی الدِّیْنِ، وَ الْجُنَنُ یَوْمَ الْبَاْسِ، وَ الْبِطَانَةُ دُوْنَ النَّاسِ، بِکُمْ اَضْرِبُ الْمُدْبِرَ، وَ اَرْجُوْ طَاعَةَ الْمُقْبِلِ، فَاَعِیْنُوْنِیْ بِمُنَاصَحَةٍ خَلِیَّةٍ مِّنَ الْغِشِّ، سَلِیْمَةٍ مِّنَ الرَّیْبِ، فَوَاللهِ! اِنِّیْ لَاَوْلَی النَّاسِ بِالنَّاسِ.

تم حق کے قائم کرنے میں (میرے ) ناصرو مدد گار ہو، اور دین میں (ایک دوسرے کے) بھائی بھائی ہو اور سختیوں میں (میری) سپر ہو، اور تمام لوگوں کو چھوڑ کر تم ہی میرے رازدار ہو، تمہاری مدد سے روگردانی کرنے والے پر میں تلوار چلاتا ہوں اور پیش قدمی کرنے والے کی اطاعت کی توقع رکھتا ہوں۔ ایسی خیر خواہی کے ساتھ میری مدد کرو۔ کہ جس میں دھوکا فریب ذرا نہ ہو، اور شک و بدگمانی کا شائبہ تک نہ ہو۔ اس لیے کہ میں ہی لوگوں (کی امامت) کیلئے سب سے زیادہ اولیٰ و مقدم ہوں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 January 23 ، 15:18
عون نقوی

فَلَاۤ اَمْوَالَ بَذَلْتُمُوْهَا لِلَّذِیْ رَزَقَهَا، وَ لَاۤ اَنْفُسَ خَاطَرْتُمْ بِهَا لِلَّذِیْ خَلَقَهَا، تَکْرُمُوْنَ بِاللهِ عَلٰی عِبَادِهٖ، وَ لَا تُکْرِمُوْنَ اللهَ فِیْ عِبَادِهِ، فَاعْتَبِرُوْا بِنُزُوْلِکُمْ مَنَازِلَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ، وَ انْقِطَاعِکُمْ عَنْ اَوْصَلِ اِخْوَانِکُمْ.

جس نے تم کو مال و متاع بخشا ہے اس کی راہ میں تم اسے صرف نہیں کرتے اور نہ اپنی جانوں کو اس کیلئے خطرہ میں ڈالتے ہو جس نے ان کو پیدا کیا ہے۔ تم نے اللہ کی وجہ سے بندوں میں عزت و آبرو پائی، لیکن اس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کر کے اس کا احترام و اکرام نہیں کرتے۔ جن مکانات میں اگلے لوگ آباد تھے ان میں اب تم مقیم ہوتے ہو اور قریب سے قریب تر بھائی گزر جاتے اور تم رہ جاتے ہو، اس سے عبرت حاصل کرو۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 January 23 ، 15:17
عون نقوی

اَرْسَلَهٗ دَاعِیًا اِلَی الْحَقِّ، وَ شَاهِدًا عَلَی الْخَلْقِ، فَبَلَّغَ رِسَالَاتِ رَبِّهٖ غَیْرَ وَانٍ وَّ لَا مُقَصِّرٍ، وَ جَاهَدَ فِی اللهِ اَعْدَآئَهٗ غَیْرَ وَاهِنٍ وَّ لَا مُعَذِّرٍ، اِمَامُ مَنِ اتَّقٰی، وَ بَصَرُ مَنِ اهْتَدٰی.

اللہ نے آپؐ کو حق کی طرف بلانے والا اور مخلوق کی گواہی دینے والا بنا کر بھیجا۔ چنانچہ آپؐ نے اپنے پروردگار کے پیغاموں کو پہنچایا۔ نہ اس میں کچھ سستی کی، نہ کوتاہی اور اللہ کی راہ میں اس کے دشمنوں سے جہاد کیا، جس میں نہ کمزوری دکھائی، نہ حیلے بہانے کئے۔ وہ پرہیزگاروں کے امام اور ہدایت پانے والوں (کی آنکھوں) کیلئے بصارت ہیں۔

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

وَ لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَاۤ اَعْلَمُ مِمَّا طُوِیَ عَنْکُمْ غَیْبُهٗ، اِذًا لَّخَرَجْتُمْ اِلَی الصُّعُدَاتِ، تَبْکُوْنَ عَلٰۤی اَعْمَالِکُمْ، وَ تَلْتَدِمُوْنَ عَلٰۤی اَنْفُسِکُمْ، وَ لَتَرَکْتُمْ اَمْوَالَکُمْ لَا حَارِسَ لَهَا وَ لَا خَالِفَ عَلَیْهَا، وَ لَهَمَّتْ کُلَّ امْرِئٍ مِّنْکُمْ نَفْسُهٗ، لَا یَلْتَفِتُ اِلٰی غَیْرِهَا وَ لٰکِنَّکُمْ نَسِیْتُمْ مَا ذُکِّرْتُمْ، وَ اَمِنْتُمْ مَا حُذِّرْتُمْ، فَتَاهَ عَنْکُمْ رَاْیُکُمْ، وَ تَشَتَّتَ عَلَیْکُمْ اَمْرُکُمْ.

جو چیزیں تم سے پردۂ غیب میں لپیٹ دی گئی ہیں اگر تم بھی انہیں جان لیتے جس طرح میں جانتا ہوں تو بلا شبہ تم اپنی بداعمالیوں پر روتے ہوئے اور اپنے نفسوں کا ماتم کرتے ہوئے اور اپنے مال و متاع کو بغیر کسی نگہبان اور بغیر کسی نگہداشت کرنے والے کے یونہی چھوڑ چھاڑ کر کھلے میدانوں میں نکل پڑتے اور ہر شخص کو اپنے ہی نفس کی پڑی ہوتی، کسی اور کی طرف متوجہ ہی نہ ہوتا۔ لیکن جو تمہیں یاد دلایا گیا تھا اسے تم بھول گئے اور جن چیزوں سے تمہیں ڈرایا گیا تھا اس سے تم نڈر ہو گئے۔ اس طرح تمہارے خیالات بھٹک گئے اور تمہارے سارے امور درہم و برہم ہو گئے۔

وَ لَوَدِدْتُّ اَنَّ اللهَ فَرَّقَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَکُمْ، وَ اَلْحَقَنِیْ بِمَنْ هُوَ اَحَقُّ بِیْ مِنْکُمْ، قَوْمٌ وَّاللهِ! مَیَامِیْنُ الرَّاْیِ، مَرَاجِیْحُ الْحِلْمِ، مَقَاوِیْلُ بِالْحَقِّ، مَتَارِیْکُ لِلْبَغْیِ. مَضَوْا قُدُمًا عَلَی الطَّرِیْقَةِ، وَ اَوْجَفُوْا عَلَی الْمَحَجَّةِ، فَظَفِرُوْا بِالْعُقْبَی الْدَّآئِمَةِ، وَ الْکَرَامَةِ الْبَارِدَةِ.

میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ میرے اور تمہارے درمیان جدائی ڈال دے اور مجھے ان لوگوں سے ملا دے جو تم سے زیادہ میرے حقدار ہیں۔ خدا کی قسم! وہ ایسے لوگ ہیں جن کے خیالات مبارک اور عقلیں ٹھوس تھیں۔ وہ کھل کر حق بات کہنے والے اور سرکشی و بغاوت کو چھوڑنے والے تھے۔ وہ قدم آگے بڑھا کر اللہ کی راہ پر ہو لئے اور سیدھی راہ پر (بے کھٹکے) دوڑے چلے گئے۔ چنانچہ انہوں نے ہمیشہ رہنے والی آخرت اور عمدہ و پاکیزہ نعمتوں کو پا لیا۔

اَمَا وَاللهِ! لَیُسَلَّطَنَّ عَلَیْکُمْ غُلَامُ ثَقِیْفٍ الذَّیَّالُ الْمَیَّالُ، یَاْکُلُ خَضِرَتَکُمْ، وَ یُذِیْبُ شَحْمَتَکُمْ، اِیْهٍ اَبَا وَذَحَةَ.

تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تم پر بنی ثقیف کا ایک لڑکا تسلط پا لے گا وہ دراز قد ہو گا اور بل کھا کر چلے گا۔ وہ تمہارے تمام سبزہ زاروں کو چر جائے گا اور تمہاری چربی (تک) پگھلا دے گا۔ ہاں اے ابو وذحہ کچھ اور!۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 January 23 ، 15:14
عون نقوی

فِی الْاِسْتِسْقَآءِ

طلبِ باراں کیلئے آپؑ کے دُعائیہ کلمات

اَللّٰهُمَّ قَدِ انْصَاحَتْ جِبَالُنَا، وَ اغْبَرَّتْ اَرْضُنَا، وَ هَامَتْ دَوَابُّنَا، وَ تَحَیَّرَتْ فِیْ مَرَابِضِهَا، وَ عَجَّتْ عَجِیْجَ الثَّکَالٰی عَلٰۤی اَوْلَادِهَا، وَ مَلَّتِ التَّرَدُّدَ فِیْ مَرَاتِعِهَا، وَ الْحَنِیْنَ اِلٰی مَوَارِدِهَا.

بار الٰہا! (خشک سالی سے) ہمارے پہاڑوں کا سبزہ بالکل سوکھ گیا ہے اور زمین پر خاک اُڑ رہی ہے، ہمارے چوپائے پیاسے ہیں اور اپنے چوپالوں میں بوکھلائے ہوئے پھرتے ہیں اور اس طرح چلّا رہے ہیں جس طرح رونے والیاں اپنے بچوں پر بین کرتی ہیں اور اپنی چراگاہوں کے پھیرے کرنے اور تالابوں کی طرف بصد شوق بڑھنے سے عاجز آ گئے ہیں۔

اَللّٰھُمَّ فَارْحَمْ اَنِیْنَ الْاٰنَّةِ، وَ حَنِیْنَ الْحَانَّةِ، اَللّٰهُمَّ فَارْحَمْ حَیْرَتَهَا فِیْ مَذَاهِبِهَا، وَ اَنِیْنَهَا فِیْ مَوَالِجِهَا، اَللّٰهُمَّ خَرَجْنَا اِلَیْکَ حِیْنَ اعْتَکَرَتْ عَلَیْنَا حَدَابِیْرُ السِّنِیْنَ، وَ اَخْلَفَتْنَا مَخَآئِلُ الْجَوْدِ، فَکُنْتَ الرَّجَآءَ لِلْمُبْتَئِسِ، وَ الْبَلَاغَ لِلْمُلْتَمِسِ.

پروردگارا! ان چیخنے والی بکریوں اور ان شوق بھرے لہجے میں پکارنے والے اونٹوں پر رحم کر۔ خدایا! تو راستوں میں ان کی پریشانی اور گھروں میں ان کی چیخ و پکار پر ترس کھا۔ بار خدایا! جب کہ قحط سالی کے لاغر اور نڈھال اونٹ ہماری طرف پلٹ پڑے ہیں اور بظاہر برسنے والی گھٹائیں آ آ کے بِن برسے گزر گئیں تو ہم تیری طرف نکل پڑے ہیں۔ تو ہی دکھ درد کے ماروں کی آس ہے اور تو ہی التجا کرنے والوں کا سہارا ہے۔

نَدْعُوْکَ حِیْنَ قَنَطَ الْاَنَامُ، وَ مُنِعَ الْغَمَامُ، وَ هَلَکَ الْسَّوَامُ، اَنْ لَّا تُؤَاخِذَنَا بِاَعْمَالِنَا، وَ لَا تَاْخُذَنَا بِذُنُوْبِنَا، وَ انْشُرْ عَلَیْنَا رَحْمَتَکَ بِالسَّحَابِ الْمُنْبَعِقِ، وَ الرَّبِیْعِ الْمُغْدِقِ، وَ النَّبَاتِ الْمُوْنِقِ، سَحًّا وَّابِلًا تُحْیِیْ بِهٖ مَا قَدْ مَاتَ،وَ تَرُدُّ بِهٖ مَا قَدْ فَاتَ.

جب کہ لوگ بے آس ہو گئے اور بادلوں کا اٹھنا بند ہو گیا اور مویشی بے جان ہو گئے تو ہم تجھ سے دُعا کرتے ہیں کہ ہمارے اعمال کی وجہ سے ہماری گرفت نہ کر اور ہمارے گناہوں کے سبب سے ہمیں (اپنے عذاب میں) نہ دھر لے۔ اے اللہ! تو دھواں دھار بارشوں والے ابر اور چھاجوں پانی برسانے والی برکھا رُت اور نظروں میں کھب جانے والے ہریاول سے اپنے دامانِ رحمت کو ہم پر پھیلا دے۔ وہ موسلا دھار اور لگاتار اس طرح برسیں کہ ان سے مَری ہوئی چیزوں کو تو زندہ کر دے اور گزری ہوئی بہاروں کو پلٹا دے۔

اَللّٰهُمَّ سُقْیَا مِنْکَ مُحْیِیَةً مُّرْوِیَةً، تَامَّةً عَامَّةً، طَیِّبَةً مُّبَارَکَةً، هَنِیْٓئَةً مَرِیْعَةً، زَاکِیًا نَّبْتُهَا، ثَامِرًا فَرْعُهَا، نَاضِرًا وَّرَقُهَا، تَنْعَشُ بِهَا الضَّعِیْفَ مِنْ عِبَادِکَ، وَ تُحْیِیْ بِهَا الْمَیِّتَ مِنْۢ بِلَادِکَ.

خدایا! ایسی سیرابی ہو کہ جو (مردہ زمینوں کو) زندہ کرنے والی، سیراب بنانے والی اور بھرپور برسنے والی اور سب جگہ پھیل جانے والی اور پاکیزہ و با برکت اور خوشگوار و شاداب ہو، جس سے نباتات پھلنے پھولنے لگیں، شاخیں بار آور اور پتے ہرے بھرے ہو جائیں اور جس سے تو اپنے عاجز و زمین گیر بندوں کو سہارا دے کر اوپر اٹھائے اور اپنے مردہ شہروں کو زندگی بخش دے۔

اَللّٰهُمَّ سُقْیَا مِنْکَ تُعْشِبُ بِهَا نِجَادُنَا، وَ تَجْرِیْ بِهَا وِهَادُنَا، وَ یُخْصِبُ بِهَا جَنَابُنَا، وَ تُقْبِلُ بِهَا ثِمَارُنَا، وَ تَعِیْشُ بِهَا مَوَاشِیْنَا، وَ تَنْدٰی بِهَا اَقَاصِیْنَا، وَ تَسْتَعِیْنُ بِهَا ضَوَاحِیْنَا، مِنْۢ بَرَکَاتِکَ الْوَاسِعَةِ، وَ عَطَایَاکَ الْجَزِیْلَةِ، عَلٰی بَرِیَّتِکَ الْمُرْمِلَةِ وَ وَحْشِکَ الْمُهْمَلَةِ.

اے اللہ! ایسی سیرابی کہ جس سے ہمارے ٹیلے سبزہ پوش ہو جائیں اور ندی نالے بہہ نکلیں اور آس پاس کے اطراف سر سبز و شاداب ہو جائیں اور پھل نکل آئیں اور چوپائے جی اٹھیں اور دور کی زمینیں بھی تر بتر ہو جائیں اور کھلے میدان بھی اس سے مدد پا سکیں۔ اپنی پھیلنے والی برکتوں اور بڑی بڑی بخششوں سے جو تیری تباہ حال مخلوق اور بغیر چرواہے کے کھلے پھرنے والے حیوانوں پر ہیں۔

وَ اَنْزِلْ عَلَیْنَا سَمَآءً مُّخْضِلَةً، مِدْرَارًا هَاطِلَةً، یُدَافِعُ الْوَدْقُ مِنْهَا الْوَدْقَ، وَ یَحْفِزُ الْقَطْرُ مِنْهَا الْقَطْرَ، غَیْرَ خُلَّبٍۭ بَرْقُهَا، وَ لَا جَهَامٍ عَارِضُهَا، وَ لَا قَزَعٍ رَّبَابُهَا، وَ لَا شَفَّانٍ ذِهَابُهَا، حَتّٰی یُخْصِبَ لِاِمْرَاعِهَا الْمُجْدِبُوْنَ، وَ یَحْیَا بِبَرَکَتِهَا الْمُسْنِتُوْنَ، فَاِنَّکَ تُنْزِلُ الْغَیْثَ مِنْۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا، وَ تَنْشُرُ رَحْمَتَکَ، وَ اَنْتَ ﴿الْوَلِیُّ الْحَمِیْدُ۝﴾.

ہم پر ایسی بارش ہو جو پانی سے شرابور کر دینے والی اور موسلا دھار اور لگاتار برسنے والی ہو۔ اس طرح کہ بارشیں بارشوں سے ٹکرائیں اور بوندیں بوندوں کو تیزی سے دھکیلیں (کہ تار بندھ جائے)، اس کی بجلی دھوکہ دینے والی نہ ہو اور نہ اُفق پر چھا جانے والی گھٹا پانی سے خالی ہو اور نہ سفید ابر کے ٹکڑے بکھرے بکھرے سے ہوں اور نہ صرف ہوا کے ٹھنڈے جھونکوں والی بوندا باندی ہو کر رہ جائے، (یوں برسا) کہ قحط کے مارے ہوئے اس کی سر سبزیوں سے خوشحال ہو جائیں اور خشک سالی کی سختیاں جھیلنے والے اس کی برکتوں سے جی اٹھیں اور تو ہی وہ ہے جو لوگوں کے ناامید ہو جانے کے بعد مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت کے دامن پھیلا دیتا ہے اور تو ہی والی و وارث اور (اچھی)صفتوں والا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 January 23 ، 15:11
عون نقوی