بصیرت اخبار

۲۶۶ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «عون نقوی» ثبت شده است

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الْوَاصِلِ الْحَمْدَ بِالنِّعَمِ، وَ النِّعَمَ بِالشُّکْرِ، نَحْمَدُهٗ عَلٰۤی اٰلَآئِهٖ کَمَا نَحْمَدُهٗ عَلٰی بَلَآئِهٖ، وَ نَسْتَعِیْنُهٗ عَلٰی هٰذِهِ النُّفُوْسِ الْبِطَآءِ عَمَّا اُمِرَتْ بِهٖ، السِّرَاعِ اِلٰی مَا نُهِیَتْ عَنْهُ، وَ نَسْتَغْفِرُهٗ مِمَّاۤ اَحَاطَ بِهٖ عِلْمُهٗ، وَ اَحْصَاهُ کِتَابُهٗ، عِلْمٌ غَیْرُ قَاصِرٍ، وَ کِتَابٌ غَیْرُ مُغَادِرٍ، وَ نُؤْمِنُ بِهٖ اِیْمَانَ مَنْ عَایَنَ الْغُیُوْبَ وَ وَقَفَ عَلَی الْمَوْعُوْدِ، اِیْمَانًا نَّفٰۤی اِخْلَاصُهٗ الشِّرْکَ، وَیَقِیْنُهُ الشَّکَ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جو حمد کا پیوند نعمتوں سے اور نعمتوں کا سلسلہ شکر سے ملانے والا ہے۔ ہم اس کی نعمتوں پر اسی طرح حمد کرتے ہیں جس طرح اس کی آزمائشوں پر ثنا و شکر بجا لاتے ہیں اور ان نفسوں کے خلاف اس سے مدد مانگتے ہیں کہ جو احکام کے بجا لانے میں سست قدم اور ممنوع چیزوں کی طرف بڑھنے میں تیز گام ہیں۔ اور (ان گناہوں سے) مغفرت چاہتے ہیں کہ جن پر اس کا علم محیط اور نامۂ اعمال حاوی ہے۔ نہ علم کوئی کمی کرنے والا ہے اور نہ نامۂ اعمال کسی چیز کو چھوڑنے والا ہے۔ ہم اس شخص کے مانند اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ جس نے غیب کی چیزوں کو (اپنی آنکھوں سے) دیکھ لیا ہو اور وعدہ کی ہوئی چیزوں سے آگاہ ہو چکا ہو۔ ایسا ایمان کہ جس کے خلوص نے شرک کو اور یقین نے شک کو دور پھینک دیا ہو۔

وَ نَشْهَدُ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِیْکَ لَهٗ، وَ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَ رَسُوْلُهٗ، شَهَادَتَیْنِ تُصْعِدَانِ الْقَوْلَ، وَ تَرْفَعَانِ الْعَمَلَ، لَا یَخِفُّ مِیْزَانٌ تُوْضَعَانِ فِیْهِ، وَ لَا یَثْقُلُ مِیْزَانٌ تُرْفَعَانِ عَنْهُ.

اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں جو وحدہٗ لاشریک ہے اور یہ کہ محمد ﷺ اس کے عبد اور رسول ہیں۔ یہ دونوں شہادتیں (اچھی) باتوں کو اونچا اور (نیک ) اعمال کو بلند کرتی ہیں۔ جس ترازو میں انہیں رکھ دیا جائے گا اس کا پلہ ہلکا نہیں ہو گا اور جس میزان سے انہیں الگ کر لیا جائے گا اس کا پلہ بھاری نہیں ہو سکتا۔

اُوْصِیْکُمْ عِبَادَ اللهِ بِتَقْوَی اللهِ الَّتِیْ هِیَ الزَّادُ وَ بِهَا الْمَعَادُ، زَادٌ مُّبَلِّغٌ وَّ مَعَادٌ مُّنْجِحٌ، دَعَاۤ اِلَیْهَاۤ اَسْمَعُ دَاعٍ، وَ وَعَاهَا خَیْرُ وَاعٍ، فَاَسْمَعَ دَاعِیْهَا، وَ فَازَ وَاعِیْهَا.

اے اللہ کے بندو! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ اس لئے کہ یہی تقویٰ زاد راہ ہے اور اسی کو لے کر پلٹنا ہے۔ یہ زاد (منزل تک) پہنچانے والا اور یہ پلٹنا کامیاب پلٹنا ہے۔ اس کی طرف سب سے بہتر سنا دینے والے نے دعوت دی اور بہترین سننے والے نے اسے سن کر محفوظ کر لیا۔ چنانچہ دعوت دینے والے نے سنا دیا اور سننے والا بہرہ اندوز ہو گیا۔

عِبَادَ اللهِ! اِنَّ تَقْوَی اللهِ حَمَتْ اَوْلِیَآءَ اللهِ مَحَارِمَهٗ، وَ اَلْزَمَتْ قُلُوْبَهُمْ مَخَافَتَهٗ، حَتّٰۤی اَسْهَرَتْ لَیَالِیَهُمْ، وَ اَظْمَاَتْ هَوَاجِرَهُمْ، فَاَخَذُوْا الرَّاحَةَ بِالنَّصَبِ، وَ الرِّیَّ بِالظَّمَاِ، وَ اسْتَقْرَبُوْا الْاَجَلَ فَبَادَرُوا الْعَمَلَ، وَ کَذَّبُوا الْاَمَلَ فَلَاحَظُوا الْاَجَلَ.

اللہ کے بندو! تقویٰ ہی نے اللہ کے دوستوں کو منہیات سے بچایا ہے اور ان کے دلوں میں خوف پیدا کیا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی راتیں جاگتے اور تپتی ہوئی دوپہریں پیاس میں گزر جاتی ہیں اور اس تعب و کلفت کے عوض راحت (دائمی) اور اس پیاس کے بدلہ میں (تسنیم و کوثر سے) سیرابی حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے موت کو قریب سمجھ کر اعمال میں جلدی کی اور امیدوں کو جھٹلا کر اجل کو نگاہ میں رکھا۔

ثُمَّ اِنَّ الدُّنْیَا دَارُ فَنَآءٍ وَّ عَنَآءٍ، وَ غِیَرٍ وَّ عِبَرٍ:

پھر یہ دنیا تو فنا اور مشقت، تغیر اور عبرت کی جگہ ہے:

فَمِنَ الْفَنَآءِ اَنَّ الدَّهْرَ مُوَتِّرٌ قَوْسَهٗ، لَا تُخْطِئُ سِهَامُهٗ، وَ لَا تُؤْسٰی جِرَاحُهٗ، یَرْمِی الْحَیَّ بِالْمَوْتِ، وَ الصَّحِیْحَ بِالسَّقَمِ، وَ النَّاجِیَ بِالْعَطَبِ، اٰکِلٌ لَّا یَشْبَعُ، وَ شَارِبٌ لَّا یَنْقَعُ.

چنانچہ فنا کرنے کی صورت یہ ہے کہ زمانہ اپنی کمان کا چلہ چڑھائے ہوئے ہے جس کے تیر خطا نہیں کرتے اور نہ اس کے زخموں کا کوئی مداوا ہو سکتا ہے، زندہ پر موت کے، تندرست پر بیماری کے اور محفوظ پر ہلاکت کے تیر چلاتا رہتا ہے۔ وہ ایسا کھاؤ ہے کہ سیر نہیں ہوتا اور ایسا پینے والا ہے کہ اس کی پیاس بجھتی ہی نہیں۔

وَ مِنَ الْعَنَآءِ اَنَّ الْمَرْءَ یَجْمَعُ مَا لَا یَاْکُلُ، وَ یَبْنِیْ مَا لَا یَسْکُنُ، ثُمَّ یَخْرُجُ اِلَی اللهِ، لَا مَالًا حَمَلَ، وَ لَا بِنَآءً نَقَلَ.

اور رنج و تعب کی صورت یہ ہے کہ انسان مال جمع کرتا ہے لیکن اس میں سے کھانا اسے نصیب نہیں ہوتا، گھر بناتا ہے مگر اس میں رہنے نہیں پاتا اور پھر اللہ کی طرف اس طرح چل دیتا ہے کہ نہ مال ساتھ اٹھا کر لے جا سکتا ہے اور نہ گھر ہی ادھر منتقل کر سکتا ہے۔

وَمِنْ غِیَرِهَا اَنَّکَ تَرَی الْمَرْحُوْمَ مَغْبُوْطًا، وَ الْمَغْبُوْطَ مَرْحُوْمًا، لَیْسَ ذٰلِکَ اِلَّا نَعِیْمًا زَلَّ،وَ بُؤْسًا نَزَلَ.

اور اس کے تغیّر کی یہ حالت ہے کہ تم ایک ایسے شخص کو دیکھتے ہو جس کی حالت قابل رحم ہوتی ہے اور وہ (دیکھتے ہی دیکھتے)اس قابل ہو جاتا ہے کہ اس پر رشک کھایا جائے اور قابل رشک آدمی کو دیکھتے ہو کہ (چند ہی دنوں میں) اس کی حالت پر ترس آنے لگتا ہے۔ اس کی یہی وجہ تو ہے کہ اس سے نعمت جاتی رہی اور اس پر فقر و افلاس ٹوٹ پڑا۔

وَ مِنْ عِبَرِهَا اَنَّ الْمَرْءَ یُشْرِفُ عَلٰۤی اَمَلِهٖ فَیَقْطَعُهٗ حُضُوْرُ اَجَلِهٖ، فَلَاۤ اَمَلٌ یُّدْرَکُ، وَ لَا مُؤَمَّلٌ یُّتْرَکُ.

اور اس سے عبرت حاصل کرنے کی صورت یہ ہے کہ انسان اپنی امیدوں کی انتہا تک پہنچنے والا ہی ہوتا ہے کہ موت پہنچ کر امیدوں کے سارے بندھن توڑ دیتی ہے۔ اس طرح نہ امیدیں بر آتی ہیں اور نہ امیدیں باندھنے والا ہی باقی چھوڑا جاتا ہے۔

فَسُبْحَانَ اللهِ! مَاۤ اَغَرَّ سُرُوْرَهَا! وَ اَظْمَاَ رِیَّهَا! وَ اَضْحٰی فَیْئَهَا! لَا جَآءٍ یُّرَدُّ، وَ لَا مَاضٍ یَّرْتَدُّ. فَسُبْحَانَ اللهِ! مَاۤ اَقْرَبَ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ لِلَحَاقِهٖ بِهٖ، وَ اَبْعَدَ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ لِانْقِطَاعِهٖ عَنْهُ.

اللہ اکبر! اس دنیا کی مسرت کی فریب کاریاں اور اس کی سیرابی کی تشنہ کامیاں کتنی زیادہ ہیں اور اس کے سایہ میں دھوپ کی شرکت کتنی زیادہ ہے۔ نہ آنے والی (موت) کو پلٹا یا جا سکتا ہے اور نہ جانے والا پلٹ کر آ سکتا ہے۔ سبحان اللہ! زندہ مُردوں سے انہی میں مل جانے کی وجہ سے کتنا قریب ہے اور مُردہ زندوں سے تمام تعلقات کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے کس قدر دور ہے۔

اِنَّهٗ لَیْسَ شَیْءٌۢ بِشَرٍّ مِّنَ الشَّرِّ اِلَّا عِقَابُهٗ، وَ لَیْسَ شَیْءٌۢ بِخَیْرٍ مِّنَ الْخَیْرِ اِلَّا ثَوَابُهٗ، وَ کُلُّ شَیْءٍ مِّنَ الدُّنْیَا سَمَاعُهٗ اَعْظَمُ مِنْ عِیَانِهٖ، وَ کُلُّ شَیْءٍ مِّنَ الْاٰخِرَةِ عِیَانُهٗ اَعْظَمُ مِنْ سَمَاعِهٖ، فَلْیَکْفِکُمْ مِنَ الْعِیَانِ السَّمَاعُ، وَ مِنَ الْغَیْبِ الْخَبَرُ.

بیشک کوئی بدی سے بدتر شے نہیں سوا اس کے عذاب کے اور کوئی اچھائی سے اچھی چیز نہیں سوا اس کے ثواب کے۔ دنیا کی ہر چیز کا سننا اس کے دیکھنے سے عظیم تر ہے، مگر آخرت کی ہر شے کا دیکھنا سننے سے کہیں بڑھا چڑھا ہوا ہے۔ تم اسی سننے سے اس کی اصلی حالت کا جو مشاہدہ میں آئے گی اندازہ اور خبر ہی سن کر اس غیب کی تصدیق کر لو۔

وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ مَا نَقَصَ مِنَ الدُّنْیَا وَ زَادَ فِی الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ مِّمَّا نَقَصَ مِنَ الْاٰخِرَةِ وَ زَادَ فِی الدُّنْیَا، فَکَمْ مِنْ مَّنْقُوْصٍ رَّابِحٍ وَّ مَزِیْدٍ خَاسِرٍ! اِنَّ الَّذِیْۤ اُمِرْتُمْ بِهٖۤ اَوْسَعُ مِنَ الَّذِیْ نُهِیْتُمْ عَنْهُ، وَ مَاۤ اُحِلَّ لَکُمْ اَکْثَرُ مِمَّا حُرِّمَ عَلَیْکُمْ، فَذَرُوْا مَا قَلَّ لِمَا کَثُرَ، وَ مَا ضَاقَ لِمَا اتَّسَعَ.

تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا کی کمی اور آخرت کا اضافہ عقبیٰ کی کمی اور دنیا کے اضافے سے کہیں بہتر ہے۔ بہت سے گھاٹا اٹھانے والے فائدہ میں رہتے ہیں اور بہت سے زیادہ سمیٹ لینے والے نقصان میں رہتے ہیں۔ جن چیزوں کا خدا نے تم کو حکم دیا ہے (اور تمہارے لئے جائز رکھی ہیں) ان کا دامن ان چیزوں سے کہیں وسیع ہے جن سے روکا ہے اور حرام کی ہوئی چیزوں سے حلال چیزیں کہیں زیادہ ہیں۔ لہٰذا زیادہ چیزوں کی وجہ سے کم چیزوں کو چھوڑ دو، اور تنگنائے حرام سے نکل کر حلال کی وسعتوں میں آ جاؤ۔

قَدْ تَکَفَّلَ لَکُمْ بِالرِّزْقِ، وَ اُمِرْتُمْ بِالْعَمَلِ، فَلَا یَکُوْنَنَّ الْمَضْمُوْنُ لَکُمْ طَلَبُهٗۤ اَوْلٰی بِکُمْ مِنَ الْمَفْرُوْضِ عَلَیْکُمْ عَمَلُهٗ، مَعَ اَنَّهٗ وَاللهِ! لَقَدِ اعْتَرَضَ الشَّکُّ، وَ دَخِلَ الْیَقِیْنُ، حَتّٰی کَاَنَّ الَّذِیْ ضُمِنَ لَکُمْ قَدْ فُرِضَ عَلَیْکُمْ، وَ کَاَنَّ الَّذِیْ قَدْ فُرِضَ عَلَیْکُمْ قَدْ وُضِعَ عَنْکُمْ.

اس نے تمہارے رزق کا ذمہ لے لیا ہے اور تمہیں اعمال بجا لانے کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا جس چیز کا ذمہ لیا جا چکا ہے اس کی تلاش و طلب، اعمال و فرائض کے بجا لانے سے تمہاری نظروں میں مقدم نہ ہونا چاہیے۔ مگر خدا کی قسم! تمہارا طرز عمل ایسا ہے کہ دیکھنے والے کو شبہ ہونے لگے اور ایسا معلوم ہو کہ رزق کا حاصل کرنا تو تم پر فرض ہے اور جو واقعی تمہارا فریضہ ہے یعنی واجبات کا بجا لانا، وہ تم سے ساقط ہے۔

فَبَادِرُوا الْعَمَلَ، وَ خَافُوْا بَغْتَةَ الْاَجَلِ، فَاِنَّهٗ لَا یُرْجٰی مِنْ رَجْعَةِ الْعُمُرِ مَا یُرْجٰی مِنْ رَّجْعَةِ الرِّزْقِ، مَا فَاتَ الْیَوْمَ مِنَ الرِّزْقِ رُجِیَ غَدًا زِیَادَتُهٗ، وَ مَا فَاتَ اَمْسِ مِنَ الْعُمُرِ لَمْ یُرْجَ الْیَوْمَ رَجْعَتُهٗ. اَلرَّجَآءُ مَعَ الْجَآئِیْ، وَ الْیَاْسُ مَعَ الْمَاضِیْ، فَـ ﴿اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝﴾.

عمل کی طرف بڑھو اور موت کے اچانک آ جانے سے ڈرو۔ اس لئے کہ عمر کے پلٹ کر آنے کی آس نہیں لگائی جا سکتی، جبکہ رزق کے پلٹنے کی امید ہو سکتی ہے۔ جو رزق ہاتھ نہیں لگا کل اس کی زیادتی کی توقع ہو سکتی ہے اور امید نہیں کہ عمر کا گزرا ہوا ’’کل‘‘ آج پلٹ آئے گا۔ امید تو آنے والے کی ہو سکتی ہے اور جو گزر جائے اس سے تو مایوسی ہی ہے۔ ’’اللہ سے ڈرو، جتنا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور جب موت آئے تو تم کو بہر صورت مسلمان ہونا چاہیے‘‘ ۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 January 23 ، 17:53
عون نقوی

وَ اُحَذِّرُکُمُ الدُّنْیَا، فَاِنَّهَا مَنْزِلُ قُلْعَةٍ، وَ لَیْسَتْ بِدَارِ نُجْعَةٍ، قَدْ تَزَیَّنَتْ بِغُرُوْرِهَا، وَ غَرَّتْ بِزِیْنَتِهَا، دَارٌ هَانَتْ عَلٰی رَبِّهَا، فَخَلَطَ حَلَالَهَا بِحَرَامِهَا، وَ خَیْرَهَا بِشَرِّهَا، وَ حَیَاتَهَا بِمَوتِهَا، وَ حُلْوَهَا بِمُرِّهَا. لَمْ یُصْفِهَا اللهُ تَعَالٰی لِاَوْلِیَآئِهٖ، وَ لَمْ یَضِنَّ بِهَا عَلٰۤی اَعْدَآئِهٖ، خَیْرُهَا زَهِیْدٌ، وَ شَرُّهَا عَتِیْدٌ، وَ جَمْعُهَا یَنْفَدُ، وَ مُلْکُهَا یُسْلَبُ، وَ عَامِرُهَا یَخْرَبُ. فَمَا خَیْرُ دَارٍ تُنْقَضُ نَقْضَ الْبِنَآءِ، وَ عُمُرٍ یَّفْنٰی فَنَآءَ الزَّادِ، وَ مُدَّةٍ تَنْقَطِعُ انْقِطَاعَ السَّیْرِ!.

میں تمہیں دنیا سے خبردار کئے دیتا ہوں کہ یہ ایسے شخص کی منزل ہے جس کیلئے قرار نہیں اور ایسا گھر ہے جس میں آب و دانہ نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔ یہ اپنے باطل سے آراستہ ہے اور اپنی آرائشوں سے دھوکا دیتی ہے۔ یہ ایک ایسا گھر ہے جو اپنے رب کی نظروں میں ذلیل و خوار ہے۔ چنانچہ اس نے حلال کے ساتھ حرام اور بھلائیوں کے ساتھ برائیاں اور زندگی کے ساتھ موت اور شیرینیوں کے ساتھ تلخیاں خلط ملط کر دی ہیں اور اپنے دوستوں کیلئے اسے بے غل و غش نہیں رکھا اور نہ دشمنوں کو دینے میں بخل کیا ہے۔ اس کی بھلائیاں بہت ہی کم ہیں اور برائیاں (جہاں چاہو) موجود۔ اس کی جمع پونجی ختم ہو جانے والی اور اس کا ملک چھن جانے والا اور اس کی آبادیاں ویران ہو جانے والی ہیں۔ بھلا اس گھر میں خیر و خوبی ہی کیا ہو سکتی ہے جو مسمار عمارت کی طرح گر جائے اور اس عمر میں جو زادِ راہ کی طرح ختم ہو جائے اور اس مدت میں جو چلنے پھرنے کی طرح تمام ہو جائے۔

اِجْعَلُوا مَا افْتَرَضَ اللهُ عَلَیْکُمْ مِنْ طَلَبِکُمْ، وَ اسْئَلُوْهُ مِنْ اَدَآءِ حَقِّهٖ مَا سَئَلَکُمْ، وَ اَسْمِعُوْا دَعْوَةَ الْمَوْتِ اٰذَانَکُمْ قَبْلَ اَنْ یُّدْعٰی بِکُمْ. اِنَّ الزَّاهِدِیْنَ فِی الدُّنْیَا تَبْکِیْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِنْ ضَحِکُوْا، وَ یَشْتَدُّ حُزْنُهُمْ وَ اِنْ فَرِحُوْا، وَ یَکْثُرُ مَقْتُهُمْ اَنْفُسَهُمْ وَ اِنِ اغْتُبِطُوْا بِمَا رُزِقُوْا.

جن چیزوں کی تمہیں طلب و تلاش رہتی ہے ان میں اللہ تعالیٰ کے فرائض کو بھی داخل کرلو اور جو اللہ نے تم سے چاہا ہے اسے پورا کرنے کی توفیق بھی اس سے مانگو۔ موت کا پیغام آنے سے پہلے موت کی پکار اپنے کانوں کو سنا دو۔ اس دنیا میں زاہدوں کے دل روتے ہیں، اگرچہ وہ ہنس رہے ہوں اور ان کا غم و اندوہ حد سے بڑھا ہوتا ہے، اگرچہ ان (کے چہروں) سے مسرت ٹپک رہی ہو اور انہیں اپنے نفسوں سے انتہائی بیر ہوتا ہے، اگرچہ اس رزق کی وجہ سے جو انہیں میسر ہے ان پر رشک کیا جاتا ہو۔

قَدْ غَابَ عَنْ قُلُوْبِکُمْ ذِکْرُ الْاٰجَالِ، وَ حَضَرَتْکُمْ کَوَاذِبُ الْاٰمَالِ، فَصَارَتِ الدُّنْیَا اَمْلَکَ بِکُمْ مِنَ الْاٰخِرَةِ، وَ الْعَاجِلَةُ اَذْهَبَ بِکُمْ مِنَ الْاٰجِلَةِ، وَ اِنَّمَاۤ اَنْتُمْ اِخْوَانٌ عَلٰی دِیْنِ اللهِ، مَا فَرَّقَ بَیْنَکُمْ اِلَّا خُبْثُ السَّرَآئِرِ، وَ سُوْٓءُ الضَّمَآئِرِ، فَلَا تَوَازَرُوْنَ، وَ لَا تَنَاصَحُوْنَ، وَلَا تَبَاذَلُوْنَ، وَ لَا تَوَادُّوْنَ.

تمہارے دلوں سے موت کی یاد جاتی رہی ہے اور جھوٹی امیدیں (تمہارے اندر) موجود ہیں۔ آخرت سے زیادہ دنیا تم پر چھائی ہوئی ہے اور وہ عقبیٰ سے زیادہ تمہیں اپنی طرف کھینچتی ہے۔ تم دین خدا کے سلسلہ میں ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہو، لیکن بد نیتی اور بد باطنی نے تم میں تفرقہ ڈال دیا ہے۔ نہ تم ایک دوسرے کا بوجھ بٹاتے ہو، نہ باہم پند و نصیحت کرتے ہو، نہ ایک دوسرے پر کچھ خرچ کرتے ہو، نہ تمہیں ایک دوسرے کی چاہت ہے۔

مَا بَالُکُمْ تَفْرَحُوْنَ بِالْیَسِیْرِ مِنَ الدُّنْیَا تُدْرِکُوْنَهٗ، وَ لَا یَحْزُنُکُمُ الْکَثِیْرُ مِنَ الْاٰخِرَةِ تُحْرَمُوْنَهٗ، وَ یُقْلِقُکُمُ الْیَسِیْرُ مِنَ الدُّنْیَا یَفُوْتُکُمْ، حَتّٰی یَتَبَیَّنَ ذٰلِکَ فِیْ وُجُوْهِکُمْ، وَ قِلَّةِ صَبْرِکُمْ عَمَّا زُوِیَ مِنْهَا عَنْکُمْ، کَاَنَّهَا دَارُ مُقَامِکُمْ، وَ کَاَنَّ مَتَاعَهَا بَاقٍ عَلَیْکُمْ.

تھوڑی سی دنیا پا کر خوش ہونے لگتے ہو اور آخرت کے بیشتر حصہ سے بھی محرومی تمہیں غم زدہ نہیں کرتی۔ ذرا سی دنیا کا تمہارے ہاتھوں سے نکلنا تمہیں بے چین کر دیتا ہے، یہاں تک کہ بے چینی تمہارے چہروں سے ظاہر ہونے لگتی ہے اور کھوئی ہوئی چیز پر تمہاری بے صبریوں سے آشکارا ہو جاتی ہے، گویا یہ دنیا تمہارا (مستقل ) مقام ہے اور دنیا کا ساز و برگ ہمیشہ رہنے والا ہے۔

وَ مَا یَمْنَعُ اَحَدَکُمْ اَنْ یَّسْتَقْبِلَ اَخَاهُ بِمَا یَخَافُ مِنْ عَیْبِهٖ، اِلَّا مَخَافَةُ اَنْ یَّسْتَقْبِلَهٗ بِمِثْلِهٖ. قَدْ تَصَافَیْتُمْ عَلٰی رَفْضِ الْاٰجِلِ وَ حُبِّ الْعَاجِلِ، وَ صَارَ دِیْنُ اَحَدِکُمْ لُعْقَةً عَلٰی لِسَانِهٖ، صَنِیْعَ مَنْ قَدْ فَرَغَ مِنْ عَمَلِهٖ، وَ اَحْرَزَ رِضٰی سَیِّدِهٖ.

تم میں سے کسی کو بھی اپنے کسی بھائی کا ایسا عیب اچھالنے سے کہ جس کے ظاہر ہونے سے ڈرتا ہے صرف یہ امر مانع ہوتا ہے کہ وہ بھی اس کا ویسا ہی عیب کھول کر اس کے سامنے رکھ دے گا۔ تم نے آخرت کو ٹھکرانے اور دنیا کو چاہنے پر سمجھوتہ کر رکھا ہے۔ تم لوگوں کا دین تو یہ رہ گیا ہے کہ جیسے ایک دفعہ زبان سے چاٹ لیا جائے (یعنی صرف زبانی اقرار) اور تم تو اس شخص کی طرح (مطمئن) ہو چکے ہو کہ جو اپنے کام دھندوں سے فارغ ہو گیا ہو اور اپنے مالک کی رضا مندی حاصل کر لی ہو۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 January 23 ، 17:50
عون نقوی

ذَکَرَ فِیْهَا مَلَکَ الْمَوْتِ وَ تَوْفِیَۃَ النَّفْسِ

اس میں ملک الموت اور اس کے روح قبض کرنے کا ذکر فرمایا ہے

هَلْ تُحِسُّ بِهٖۤ اِذَا دَخَلَ مَنْزِلًا؟ اَمْ هَلْ تَرَاهُ اِذَا تَوَفّٰی اَحَدًا؟ بَلْ کَیْفَ یَتَوَفَّی الْجَنِیْنَ فِیْ بَطْنِ اُمِّهٖ؟ اَ یَلِجُ عَلَیْهِ مِنْ بَعْضِ جَوَارِحِهَا؟ اَمِ الرُّوْحُ اَجَابَتْهُ بِاِذْنِ رَبِّهَا؟ اَمْ هُوَ سَاکِنٌ مَّعَهٗ فِیْۤ َحْشَآئِهَا؟ کَیْفَ یَصِفُ اِلٰهَهٗ مَنْ یَّعْجِزُ عَنْ صِفَةِ مَخْلُوْقٍ مِّثْلِهٖ؟!

جب (ملک الموت) کسی گھر میں داخل ہوتا ہے تو کبھی تم اس کی آہٹ محسوس کرتے ہو؟ یا جب کسی کی روح قبض کرتا ہے تو کیا تم اسے دیکھتے ہو؟ (حیرت ہے) کہ وہ کس طرح ماں کے پیٹ میں بچے کی روح کو قبض کر لیتا ہے۔ کیا وہ ماں کے جسم کے کسی حصہ سے وہاں تک پہنچتا ہے؟ یا اللہ کے حکم سے روح اس کی آواز پر لبیک کہتی ہوئی بڑھتی ہے؟ یا وہ بچہ کے ساتھ شکم مادر میں ٹھہرا ہوا ہے؟ جو اس جیسی مخلوق کے بارے میں بھی کچھ نہ بیان کر سکے، وہ اپنے اللہ کے متعلق کیا بتا سکتا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 January 23 ، 17:47
عون نقوی

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنِّیْۤ اُحَذِّرُکُمُ الدُّنْیَا، فَاِنَّهَا حُلْوَةٌ خَضِرِةٌ، حُفَّتْ بِالشَّهَوَاتِ، وَ تَحَبَّبَتْ بِالْعَاجِلَةِ، وَ رَاقَتْ بِالْقَلِیْلِ، وَ تَحَلَّتْ بِالْاٰمَالِ، وَ تَزَیَّنَتْ بِالْغُرُوْرِ، لَا تَدُوْمُ حَبْرَتُهَا، وَ لَا تُؤْمَنُ فَجْعَتُهَا، غَرَّارَةٌ ضَرَّارَةٌ، حَآئِلَةٌ زَآئِلَةٌ، نَافِدَةٌ بَآئِدَةٌ، اَکَّالَةٌ غَوَّالَةٌ، لَا تَعْدُوْـ اِذَا تَنَاهَتْ اِلٰۤی اُمْنِیَّةِ اَهْلِ الرَّغْبَةِ فِیْهَا وَ الرِّضَآءِ بِهَا ـ اَنْ تَکُوْنَ کَمَا قَالَ اللهُ تَعَالٰی سُبْحَانَهٗ: ﴿کَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُ ؕ وَ کَانَ اللّٰهُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا.

میں تمہیں دنیا سے ڈراتا ہوں، اس لئے کہ یہ (بظاہر) شیریں و خوشگوار، تر و تازہ و شاداب ہے، نفسانی خواہشیں اس کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں، وہ اپنی جلد میسر آ جانے والی نعمتوں کی وجہ سے لوگوں کو محبوب ہوتی ہے اور اپنی تھوڑی سی (آرائشوں) سے مشتاق بنا لیتی ہے۔ وہ (جھوٹی) امیدوں سے سجی ہوئی اور دھوکے اور فریب سے بنی سنوری ہوئی ہے۔ نہ اس کی مسرتیں دیرپا ہیں اور نہ اس کی ناگہانی مصیبتوں سے مطمئن رہا جا سکتا ہے۔ وہ دھوکے باز، نقصان رساں، ادلنے بدلنے والی اور فنا ہونے والی ہے، ختم ہونے والی اور مٹ جانے والی ہے، کھا جانے اور ہلاک کر دینے والی ہے۔ جب یہ اپنی طرف مائل ہونے والوں اور خوش ہونے والوں کی انتہائی آرزوؤں تک پہنچ جاتی ہے تو بس وہی ہوتا ہے جو اللہ سبحانہ نے بیان کیا ہے: ’’ (اس دنیاوی زندگی کی مثال ایسی ہے) جیسے وہ پانی جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو زمین کا سبزہ اس سے گھل مل گیا اور (اچھی طرح پھولا پھلا) پھر سوکھ کر تنکا تنکا ہو گیا جسے ہوائیں (اِدھر سے اُدھر) اڑائے پھرتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔

لَمْ یَکُنِ امْرُؤٌ مِّنْهَا فِیْ حَبْرَةٍ اِلَّاۤ اَعْقَبَتْهُ بَعْدَهَا عَبْرَةً، وَ لَمْ یَلْقَ مِنْ سَرَّآئِهَا بَطْنًا اِلَّا مَنَحَتْهُ مِنْ ضَرَّآئِهَا ظَهْرًا، وَ لَمْ تَطُلَّهُ فِیْهَا دِیْمَةُ رَخَآءٍ اِلَّا هَتَنَتْ عَلَیْهِ مُزْنَةُ بَلَآءٍ، وَ حَرِیٌّ اِذَا اَصْبَحَتْ لَهٗ مُنْتَصِرَةً اَنْ تُمْسِیَ لَهٗ مُتَنَکِّرَةً، وَ اِنْ جَانِبٌ مِّنْهَا اعْذَوْذَبَ وَ احْلَوْلٰی، اَمَرَّ مِنْهَا جَانِبٌ فَاَوْبٰی.

جو شخص اس دنیا کا عیش و آرام پاتا ہے تو اس کے بعد اس کے آنسو بھی بہتے ہیں اور جو شخص دنیا کی مسرتوں کا رخ دیکھتا ہے وہ مصیبتوں میں دھکیل کر اس کو اپنی بے رخی بھی دکھاتی ہے اور جس شخص پر راحت و آرام کی بارش کے ہلکے ہلکے چھینٹے پڑتے ہیں اس پر مصیبت و بلا کی دھواں دھار بارشیں بھی ہوتی ہیں یہ دنیا ہی کے مناسب ِ حال ہے کہ صبح کو کسی کی دوست بن کر اس کا (دشمن سے) بدلہ چکائے اور شام کو یوں ہو جائے کہ گویا کوئی جان پہچان ہی نہ تھی۔ اگر اس کا ایک جنبہ شیریں و خوشگوار ہے تو دوسرا حصہ تلخ اور بلا انگیز۔

لَا یَنَالُ امْرُؤٌ مِّنْ غَضَارَتِهَا رَغَبًا، اِلَّاۤ اَرْهَقَتْهُ مِنْ نَّوَآئِـبِهَا تَعَبًا، وَ لَا یُمْسِیْ مِنْهَا فِیْ جَنَاحِ اَمْنٍ، اِلَّاۤ اَصْبَحَ عَلٰی قَوَادِمِ خَوْفٍ، غَرَّارَةٌ غُرُوْرٌ مَّا فِیْهَا، فَانِیَةٌ فَانٍ مَّنْ عَلَیْهَا، لَا خَیْرَ فِیْ شَیْءٍ مِّنْ اَزْوَادِهَا اِلَّا التَّقْوٰی، مَنْ اَقَلَّ مِنْهَا اسْتَکْثَرَ مِمَّا یُؤْمِنُهٗ، وَ مَنِ اسْتَکْثَرَ مِنْهَا اسْتَکْثَرَ مِمَّا یُوْبِقُهٗ، وَ زَالَ عَمَّا قَلِیْلٍ عَنْهُ.

جو شخص بھی دنیا کی تر و تازگی سے اپنی کوئی تمنا پوری کرتا ہے تو وہ اس پر مصیبتوں کی مشقتیں بھی لاد دیتی ہے۔ جسے امن و سلامتی کے پر و بال پر شام ہوتی ہے تو اسے صبح خوف کے پروں پر ہوتی ہے۔ وہ دھوکے باز ہے اور اس کی ہر چیز دھوکا، وہ خود بھی فنا ہو جانے والی ہے اور اس میں رہنے والا بھی فانی ہے۔ اس کے کسی زاد میں سوا زادِ تقویٰ کے بھلائی نہیں ہے۔ جو شخص کم حصہ لیتا ہے وہ اپنے لئے راحت کے سامان بڑھا لیتا ہے اور جو دنیا کو زیادہ سمیٹتا ہے وہ اپنے لئے تباہ کن چیزوں کا اضافہ کر لیتا ہے۔ (حالانکہ) اسے اپنے مال و متاع سے بھی جلد ہی الگ ہونا ہے۔

کَمْ مِّنْ وَّاثِقٍۭ بِهَا قَدْ فَجَعَتْهُ، وَ ذِیْ طُمَاْنِیْنَةٍ اِلَیْهَا قَدْ صَرَعَتْهُ، وَ ذِیْۤ اُبَّهَةٍ قَدْ جَعَلَتْهُ حَقِیْرًا، وَ ذِیْ نَخْوَةٍ قَدْ رَدَّتْهُ ذَلِیْلًا، سُلْطَانُهَا دُوَلٌ، وَ عَیْشُهَا رَنِقٌ، وَ عَذْبُهَا اُجَاجٌ، وَ حُلْوُهَا صَبِرٌ، وَ غِذَآؤُهَا سِمَامٌ، وَ اَسْبَابُهَا رِمَامٌ، حَیُّهَا بِعَرَضِ مَوْتٍ، وَ صَحِیْحُهَا بِعَرَضِ سُقْمٍ، مُلْکُهَا مَسْلُوْبٌ، وَ عَزِیْزُهَا مَغْلُوبٌ، وَ مَوْفُوْرُهَا مَنْکُوْبٌ، وَ جَارُهَا مَحْرُوْبٌ.

کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے دنیا پر بھروسا کیا اور اس نے انہیں مصیبتوں میں ڈال دیا اور کتنے ہی اس پر اطمینان کئے بیٹھے تھے جنہیں اس نے پچھاڑ دیا اور کتنے ہی رعب و طنطنہ والے تھے جنہیں حقیر و پست بنا دیا اور کتنے ہی نخوت و غرور والے تھے جنہیں ذلیل کر کے چھوڑا۔ اس کی بادشاہی دست بدست منتقل ہونے والی چیز، اس کا سر چشمہ گدلا، اس کا خوشگوار پانی کھاری، اس کی حلاوتیں ایلوا (کے مانند تلخ) ہیں، اس کے کھانے زہر ہلاہل اور اس کے اسباب و ذرائع کے سلسلے بودے ہیں، زندہ رہنے والا معرض ہلاکت میں ہے اور تندرست کو بیماریوں کا سامنا ہے، اس کی سلطنت چھن جانے والی، اس کا زبردست زیردست بننے والا، مالدار بدبختیوں کا ستایا ہوا اور ہمسایہ لُٹا لُٹایا ہوا ہے۔

اَلَسْتُمْ فِیْ مَسَاکِنِ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ اَطْوَلَ اَعْمَارًا، وَ اَبْقٰۤی اٰثَارًا، وَ اَبْعَدَ اٰمَالًا، وَ اَعَدَّ عَدِیْدًا، وَ اَکْثَفَ جُنُوْدًا، تَعَبَّدُوْا لِلدُّنْیَا اَیَّ تَعَبُّدٍ، وَاٰثَرُوْهَا اَیَّ اِیْثَارٍ، ثُمَّ ظَعَنُوْا عَنْهَا بِغَیْرِ زَادٍ مُّبَلِّغٍ وَّ لَا ظَهْرٍ قَاطِعٍ؟ فَهَلْ بَلَغَکُمْ اَنَّ الدُّنْیَا سَخَتْ لَهُمْ نَفْسًۢا بِفِدْیَةٍ؟ اَوْ اَعَانَتْهُمْ بِمَعُوْنَةٍ؟ اَوْ اَحْسَنَتْ لَهُمْ صُحْبَةً‍‍؟ بَلْ اَرْهَقَتْهُمْ بِالْفَوَادِحِ، وَ اَوْهَنَتْهُمْ بِالْقَوَارِعِ، وَ ضَعْضَعَتْهُمْ بِالنَّوَآئِبِ، وَ عَفَّرَتْهُمْ لِلْمَنَاخِرِ، وَ وَطِئَتْهُمْ بِالْمَنَاسِمِ، وَ اَعَانَتْ عَلَیْهِمْ ﴿رَیْبَ الْمَنُوْنِ۝﴾، فَقَدْ رَاَیْتُمْ تَنَکُّرَهَا لِمَنْ دَانَ لَهَا، وَ اٰثَرَهَا وَ اَخْلَدَ اِلَیْهَا، حَتّٰی ظَعَنُوْا عَنْهَا لِفِرَاقِ الْاَبَدِ. وَ هَلْ زَوَّدَتْهُمْ اِلَّا السَّغَبَ؟ اَوْ اَحَلَّتْهُمْ اِلَّا الضَّنْکَ؟ اَوْ نَوَّرَتْ لَهُمْ اِلَّا الظُّلْمَةَ؟ اَوْ اَعْقَبَتْهُمْ اِلَّا النَّدَامَةَ؟ اَفَهٰذِهٖ تُؤْثِرُوْنَ؟ اَمْ اِلَیْهَا تَطْمَئِنُّوْنَ؟ اَمْ عَلَیْهَا تَحْرِصُوْنَ؟.

کیا تم انہی سابقہ لوگوں کے گھروں میں نہیں بستے جو لمبی عمروں والے، پائیدار نشانیوں والے، بڑی بڑی امیدیں باندھنے والے، زیادہ گنتی و شمار والے اور بڑے لاؤ لشکر والے تھے؟ وہ دنیا کی کس کس طرح پرستش کرتے رہے اور اسے آخرت پر کیسا کیسا ترجیح دیتے رہے۔ پھر بغیر کسی ایسے زاد و راحلہ کے جو انہیں راستہ طے کر کے منزل تک پہنچاتا، چل دئیے۔ کیا تمہیں کبھی یہ خبر پہنچی ہے کہ دنیا نے ان کے بدلہ میں کسی فدیہ کی پیشکش کی ہو؟ یا انہیں کوئی مدد پہنچائی ہو؟ یا اچھی طرح ان کے ساتھ رہی سہی ہو؟ بلکہ اس نے تو ان پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے، آفتوں سے انہیں عاجز و در ماندہ کر دیا اور لوٹ لوٹ کر آنے والی زحمتوں سے انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ناک کے بل انہیں خاک پر پچھاڑ دیا اور اپنے کھروں سے کچل ڈالا اور ان کے خلاف زمانہ کے حوادث کا ہاتھ بٹایا۔ تم نے تو دیکھا ہے کہ جو ذرا دنیا کی طرف جھکا اور اسے اختیار کیا اور اس سے لپٹا تو اس نے (اپنے تیور بدل کر ان سے کیسی) اجنبیت اختیار کر لی، یہاں تک کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس سے جدا ہو کر چل دئیے اور اس نے انہیں بھوک کے سوا کچھ زادِ راہ نہ دیا، اور ایک تنگ جگہ کے سوا کوئی ٹھہرنے کا سامان نہ کیا اور سوا گھپ اندھیرے کے کوئی روشنی نہ دی اور ندامت کے سوا کوئی نتیجہ نہ دیا۔ تو کیا تم اسی دنیا کو ترجیح دیتے ہو؟ یا اسی پر مطمئن ہو گئے ہو؟ یا اسی پر مرے جا رہے ہو؟۔

فَبِئْسَتِ الدَّارُ لِمَنْ لَّمْ یَتَّهِمْهَا، وَ لَمْ یَکُنْ فِیْهَا عَلٰی وَجَلٍ مِّنْهَا، فَاعْلَمُوْا ـ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ـ بِاَنَّکُمْ تَارِکُوْهَا وَ ظَاعِنُوْنَ عَنْهَا، وَ اتَّعِظُوْا فِیْهَا بِالَّذِیْنَ ﴿قَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ؕ ﴾، حُمِلُوْا اِلٰی قُبُوْرِهِمْ فَلَا یُدْعَوْنَ رُکْبَانًا، وَ اُنْزِلُوْا الْاَجْدَاثَ فَلَا یُدْعَوْنَ ضِیْفَانًا، وَ جُعِلَ لَهُمْ مِنَ الصَّفِیْحِ اَجْنَانٌ، وَ مِنَ التُّرَابِ اَکْفَانٌ، وَ مِنَ الرُّفَاتِ جِیْرَانٌ.

جو دنیا پر بے اعتماد نہ رہے اور اس میں بے خوف و خطر ہو کر رہے اس کیلئے یہ بہت بُرا گھر ہے۔ جان لو اور حقیقت میں تم جانتے ہی ہو کہ (ایک نہ ایک دن) تمہیں دنیا کو چھوڑنا ہے اور یہاں سے کوچ کرنا ہے ان لوگوں سے عبرت حاصل کرو جو کہا کرتے تھے کہ: ہم سے زیادہ قوت و طاقت میں کون ہے؟ انہیں لاد کر قبروں تک پہنچایا گیا مگر اس طرح نہیں کہ انہیں سوار سمجھا جائے، انہیں قبروں میں اتار دیا گیا مگر وہ مہمان نہیں کہلاتے، پتھروں سے ان کی قبریں چن دی گئیں اور خاک کے کفن ان پر ڈال دیئے گئے اور گلی سڑی ہڈیوں کو ان کا ہمسایہ بنا دیا گیا ہے۔

فَهُمْ جِیْرَةٌ لَّا یُجِیْبُوْنَ دَاعِیًا، وَ لَا یَمْنَعُوْنَ ضَیْمًا، وَ لَا یُبَالُوْنَ مَنْدَبَةً، اِنْ جِیْدُوْا لَمْ یَفْرَحُوْا، وَ اِنْ قُحِطُوْا لَمْ یَقْنَطُوْا، جَمِیْعٌ وَّ هُمْ اٰحَادٌ، وَ جِیْرَةٌ وَّ هُمْ اَبْعَادٌ، مُتَدَانُوْنَ لَا یَتَزَاوَرُوْنَ، وَ قَرِیْبُوْنَ لَا یَتَقَارَبُوْنَ، حُلَمَآءُ قَدْ ذَهَبَتْ اَضْغَانُهُمْ، وَ جُهَلَآءُ قَدْ مَاتَتْ اَحْقَادُهُمْ، لَا یُخْشٰی فَجْعُهُمْ، وَ لَا یُرْجٰی دَفْعُهُمْ.

وہ ایسے ہمسائے ہیں کہ جو پکارنے والے کو جواب نہیں دیتے اور نہ زیادتیوں کو روک سکتے ہیں اور نہ رونے دھونے والوں کی پروا کرتے ہیں۔ اگر بادل (جھوم کر) ان پر برسیں تو خوش نہیں ہوتے اور قحط آئے تو ان پر مایوسی نہیں چھا جاتی۔ وہ ایک جگہ ہیں مگر الگ الگ، وہ آپس میں ہمسائے ہیں مگر دور دور۔ پاس پاس ہیں مگر میل ملاقات نہیں، قریب قریب ہیں مگر ایک دوسرے کے پاس نہیں پھٹکتے۔ وہ بردبار بنے ہوئے بے خبر پڑے ہیں۔ ان کے بغض و عناد ختم ہو گئے اور کینے مٹ گئے۔ نہ ان سے کسی ضرر کا اندیشہ ہے، نہ کسی تکلیف کے دور کرنے کی توقع ہے۔

اِسْتَبْدَلُوْا بِظَهْرِ الْاَرْضِ بَطْنًا، وَ بِالسَّعَةِ ضِیْقًا، وَ بِالْاَهْلِ غُرْبَةً، وَ بِالنُّوْرِ ظُلْمَةً، فَجَآؤُوْهَا کَمَا فَارَقُوْهَا، حُفَاةً عُرَاةً، قَدْ ظَعَنُوْا عَنْهَا بِاَعْمَالِهِمْ اِلَی الْحَیَاةِ الدَّآئِمَةِ وَ الدَّارِ الْبَاقِیَةِ، کَمَا قَالَ سُبْحَانَهٗ: ﴿کَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُهٗ ؕ وَعْدًا عَلَیْنَا ؕ اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیْنَ۝﴾.

انہوں نے زمین کے اوپر کا حصہ اندر کے حصہ سے اور کشادگی اور وسعت تنگی سے اور گھر بار پر دیس سے اور روشنی اندھیرے سے بدل لی ہے اور جس طرح ننگے پیر اور ننگے بدن پیدا ہوئے تھے ویسے ہی زمین میں (پیوند خاک) ہو گئے اور اس دنیا سے صرف عمل لے کر ہمیشہ کی زندگی اور سدا رہنے والے گھر کی طرف کوچ کر گئے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ نے فرما یا ہے: ’’جس طرح ہم نے مخلوقات کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا اسی طرح دوبارہ پیدا کریں گے، اس وعدہ کا پورا کرنا ہمارے ذمہ ہے اور ہم اسے ضرور پورا کر کے رہیں گے۔‘‘


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 January 23 ، 17:46
عون نقوی

اِنَّ اَفْضَلَ مَا تَوَسَّلَ بِهِ الْمُتَوَسِّلُوْنَ اِلَی اللهِ سُبْحَانَهُ الْاِیْمَانُ بِهٖ وَ بِرَسُوْلِهٖ، وَ الْجِهَادُ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَاِنَّهٗ ذِرْوَةُ الْاِسْلَامِ، وَ کَلِمَةُ الْاِخْلَاصِ فَاِنَّهَا الْفِطْرَةُ،وَ اِقَامُ الصَّلٰوةِ فَاِنَّهَا الْمِلَّةُ، وَ اِیْتَآءُ الزَّکٰوةِ فَاِنَّهَا فَرِیْضَةٌ وَّاجِبَةٌ، وَ صَوْمُ شَهْرِ رَمَضَانَ فَاِنَّهٗ جُنَّةٌ مِّنَ الْعِقَاب، وَ حَجُّ الْبَیْتِ وَاعْتِمَارُهٗ فَاِنَّهُمَا یَنْفِیَانِ الْفَقْرَ وَ یَرْحَضَانِ الذَّنْۢبَ، وَ صِلَةُ الرَّحِمِ فَاِنَّهَا مَثْرَاَةٌ فِی الْمَالِ وَ مَنْسَاَةٌ فِی الْاَجَلِ، وَ صَدَقَةُ السِّرِّ فَاِنَّهَا تُکَفِّرُ الْخَطِیْٓئَةَ، وَ صَدَقَةُ الْعَلَانِیَةِ فَاِنَّهَا تَدْفَعُ مِیْتَةَ السُّوْٓءِ، وَ صَنَآئِعُ الْمَعْرُوْفِ فَاِنَّهَا تَقِیْ مَصَارِعَ الْهَوَانِ.

اللہ کی طرف وسیلہ ڈھونڈنے والوں کیلئے بہترین وسیلہ اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانا ہے اور اس کی راہ میں جہاد کرنا کہ وہ اسلام کی سر بلند چوٹی ہے اور کلمہ توحید کہ وہ فطرت (کی آواز) ہے اور نماز کی پابندی کہ وہ عین دین ہے اور زکوٰة ادا کرنا کہ وہ فرض و واجب ہے اور ماہ رمضان کے روزے رکھنا کہ وہ عذاب کی سپر ہیں اور خانہ کعبہ کا حج و عمرہ بجا لانا کہ وہ فقر کو دور کرتے اور گناہوں کو دھو دیتے ہیں اور عزیزوں سے حسن سلوک کرنا کہ وہ مال کی فراوانی اور عمر کی درازی کا سبب ہے اور مخفی طور پر خیرات کرنا کہ وہ گناہوں کا کفارہ ہے اور کھلم کھلا خیرات کرنا کہ وہ بری موت سے بچاتا ہے اور لوگوں پر احسانات کرنا کہ وہ ذلّت و رسوائی کے مواقع سے بچاتا ہے۔

اَفِیْضُوْا فِیْ ذِکْرِ اللهِ فَاِنَّهٗ اَحْسَنُ الذِّکْرِ، وَ ارْغَبُوْا فِیْمَا وَعَدَ الْمُتَّقِیْنَ فَاِنَّ وَعْدَهٗ اَصْدَقُ الْوَعْدِ، وَ اقْتَدُوْا بِهَدْیِ نَبِیِّکُمْ فَاِنَّهٗ اَفْضَلُ الْهَدْیِ، وَ اسْتَنُّوْا بِسُنَّتِهٖ فَاِنَّهَا اَهْدَی السُّنَنِ.

اللہ کے ذکر میں بڑھے چلو اس لئے کہ وہ بہترین ذکر ہے اور اس چیز کے خواہشمند بنو کہ جس کا اللہ نے پرہیز گاروں سے وعدہ کیا ہے۔ اس لئے کہ اس کا وعدہ سب وعدوں سے زیادہ سچا ہے۔ نبیؐ کی سیرت کی پیروی کرو کہ وہ بہترین سیرت ہے اور ان کی سنت پر چلو کہ وہ سب طریقوں سے بڑھ کر ہدایت کرنے والی ہے۔

وَ تَعَلَّمُوا الْقُرْاٰنَ فَاِنَّهٗ اَحْسَنُ الْحَدِیْثِ، وَ تَفَقَّهُوْا فِیْهِ فَاِنَّهٗ رَبِیْعُ الْقُلُوْبِ، وَ اسْتَشْفُوْا بِنُوْرِهٖ فَاِنَّهٗ شِفَآءُ الصُّدُوْرِ، وَ اَحْسِنُوْا تِلَاوَتَهٗ فَاِنَّهٗۤ اَنْفَعُ الْقَصَصِ.

اور قرآن کا علم حاصل کرو کہ وہ بہترین کلام ہے اور اس میں غور و فکر کرو کہ یہ دلوں کی بہار ہے اور اس کے نور سے شفا حاصل کرو کہ سینوں (کے اندر چھپی ہوئی بیماریوں) کیلئے شفا ہے اور اس کی خوبی کے ساتھ تلاوت کرو کہ اس کے واقعات سب واقعات سے زیادہ فائدہ رساں ہیں۔

فَاِنَّ الْعَالِمَ الْعَامِلَ بِغَیْرِ عِلْمِهٖ کَالْجَاهِلِ الْحَآئِرِ الَّذِیْ لَا یَسْتَفِیْقُ مِنْ جَهْلِهٖ، بَلِ الْحُجَّةُ عَلَیْهِ اَعْظَمُ، وَ الْحَسْرَةُ لَهٗۤ اَلْزَمُ، وَ هُوَ عِنْدَ اللهِ اَلْوَمُ.

وہ عالم جو اپنے علم کے مطابق عمل نہیں کرتا اس سرگرداں جاہل کے مانند ہے جو جہالت کی سر مستیوں سے ہوش میں نہیں آتا، بلکہ اس پر (اللہ کی ) حجت زیادہ ہے اور حسرت و افسوس اس کیلئے لازم و ضروری ہے اور اللہ کے نزدیک وہ زیادہ قابل ملامت ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 January 23 ، 17:43
عون نقوی