بصیرت اخبار

۲۶۶ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «عون نقوی» ثبت شده است

فِیْ حَثِّ اَصْحَابِهٖ عَلَى الْقِتَالِ

اپنے اصحاب کو جنگ پر آمادہ کرنے کیلئے فرمایا

فَقَدِّمُوا الدَّارِعَ، وَ اَخِّرُوا الْحَاسِرَ، وَ عَضُّوْا عَلَی الْاَضْرَاسِ، فَاِنَّهٗۤ اَنْۢبٰی لِلسُّیُوْفِ عَنِ الْهَامِ، وَ الْتَوُوْا فِیْۤ اَطْرَافِ الرِّمَاحِ، فَاِنَّهٗۤ اَمْوَرُ لِلْاَسِنَّةِ، وَ غُضُّوا الْاَبْصَارَ، فَاِنَّهٗۤ اَرْبَطُ لِلْجَاْشِ وَ اَسْکَنُ لِلْقُلُوْبِ، وَ اَمِیْتُوا الْاَصْوَاتَ فَاِنَّهٗۤ اَطْرَدُ لِلْفَشَلِ.

زرہ پوش کو آگے رکھو اور بے زرہ کو پیچھے کر دو اور دانتوں کو بھینچ لو کہ اس سے تلواریں سروں سے اُچٹ جاتی ہیں اور نیزوں کی اَنیوں کو پہلو بدل کر خالی دیا کرو کہ اس سے اُن کے رخ پلٹ جاتے ہیں۔ آنکھیں جھکائے رکھو کہ اس سے حوصلہ مضبوط رہتا ہے اور دل ٹھہرے رہتے ہیں اور آوازوں کو بلند نہ کرو کہ اس سے بزدلی دور رہتی ہے۔

وَ رَایَتَکُمْ فَلَا تُمِیْلُوْهَا وَ لَا تُخِلُّوْهَا، وَ لَا تَجْعَلُوْهَاۤ اِلَّا بِاَیْدِیْ شُجْعَانِکُمْ، وَ الْمَانِعِیْنَ الذِّمَارَ مِنْکُمْ، فَاِنَّ الصَّابِرِیْنَ عَلٰی نُزُوْلِ الْحَقَآئِقِ هُمُ الَّذِیْنَ یَحُفُّوْنَ بِرَایَاتِهِمْ، وَ یَکْتَنِفُوْنَهَا: حِفَافَیْهَا، وَ وَرَآءَهَا، وَ اَمَامَهَا، لَا یَتَاَخَّرُوْنَ عَنْهَا فَیُسْلِمُوْهَا، وَ لَا یَتَقَدَّمُوْنَ عَلَیْهَا فَیُفْرِدُوْهَا. اَجْزَاَ امْرُؤٌ قِرْنَهٗ، وَ اٰسٰۤی اَخَاهُ بِنَفْسِهٖ، وَ لَمْ یَکِلْ قِرْنَهٗۤ اِلٰۤی اَخِیْهِ فَیَجْتَمِـعَ عَلَیْهِ قِرْنُهٗ وَ قِرْنُ اَخِیْهِ.

اور اپنا جھنڈا سرنگوں نہ ہونے دو اور نہ اسے اکیلا چھوڑو۔ اسے اپنے جواں مردوں اور عزت کے پاسبانوں کے ہاتھوں ہی میں رکھو، چونکہ مصیبتوں کے ٹوٹ پڑنے پر وہی لوگ صبر کرتے ہیں جو اپنے جھنڈوں کے گرد گھیرا ڈال کر دائیں بائیں اور آگے پیچھے سے اس کا احاطہ کر لیتے ہیں۔ وہ پیچھے نہیں ہٹتے کہ اسے (دشمنوں کے ہاتھوں میں) سونپ دیں اور نہ آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اسے اکیلا چھوڑ دیں۔ ہر شخص اپنے مدمقابل سے خود نپٹے اور دل و جان سے اپنے بھائی کی بھی مدد کرے اور اپنے حریف کو کسی اور بھائی کے حوالے نہ کرے کہ یہ اور اس کا حریف ایکا کر کے اس پر ٹوٹ پڑیں۔

وَایْمُ اللهِ! لَئِنْ فَرَرْتُمْ مِنْ سَیْفِ الْعَاجِلَةِ، لَا تَسْلَمُوْا مِنْ سَیْفِ الْاٰخِرَةِ، وَ اَنْتُمْ لَهَامِیْمُ الْعَرَبِ، وَ السَّنَامُ الْاَعْظَمُ، اِنَّ فِی الْفِرَارِ مَوْجِدَةَ اللهِ، وَ الذُّلَّ اللَّازِمَ، وَ الْعَارَ الْبَاقِیَ، وَ اِنَّ الْفَارَّ لَغَیْرُ مَزِیْدٍ فِیْ عُمُرِهٖ، وَ لَا مَحْجُوْزٍۭ بَیْنَهٗ وَ بَیْنَ یَوْمِهٖ.

خدا کی قسم! تم اگر دنیا کی تلوار سے بھاگے تو آخرت کی تلوار سے نہیں بچ سکتے۔ تم تو عرب کے جواں مرد اور سر بلند لوگ ہو۔ (یاد رکھو کہ) بھاگنے میں اللہ کا غضب اور نہ مٹنے والی رسوائی اور ہمیشہ کیلئے ننگ و عار ہے۔ بھاگنے والا اپنی عمر بڑھا نہیں لیتا اور نہ اس میں اور اس کی موت کے دن میں کوئی چیز حائل ہو جاتی ہے۔

اَلرَّآئِحُ اِلَی اللهِ کَالظَّمَاٰنِ یَرِدُ الْمَآءَ. اَلْجَنَّةُ تَحْتَ اَطْرَافِ الْعَوَالِیْ! اَلْیَوْمَ تُبْلَی الْاَخْبَارُ! وَاللهِ! لَاَنَا اَشْوَقُ اِلٰی لِقَآئِهِمْ مِنْهُمْ اِلٰی دِیَارِهِمْ.

اللہ کی طرف جانے والا تو ایسا ہے جیسے کوئی پیاسا پانی تک پہنچ جائے۔ جنت نیزوں کی انیوں کے نیچے ہے۔ آج حالات پرکھ لئے جائیں گے۔ خدا کی قسم! میں ان دشمنوں سے دو بدو ہو کر لڑنے کا اس سے زیادہ مشتاق ہوں جتنا یہ اپنے گھروں کو پلٹنے کے مشتاق ہوں گے۔

اَللّٰهُمَّ فَاِنْ رَّدُّوا الْحَقَّ فَافْضُضْ جَمَاعَتَهُمْ، وَ شَتِّتْ کَلِمَتَهُمْ، وَ اَبْسِلْهُمْ بِخَطَایَاهُمْ. اِنَّهُمْ لَنْ یَّزُوْلُوْا عَنْ مَّوَاقِفِهِمْ دُوْنَ طَعْنٍ دِرَاکٍ یَّخْرُجُ مِنْهُ النَّسِیْمُ، وَ ضَرْبٍ یَّفْلِقُ الْهَامَ، وَ یُطِیْحُ الْعِظَامَ، وَ یُنْدِرُ السَّوَاعِدَ وَ الْاَقْدَامَ، وَ حَتّٰی یُرْمَوْا بِالْمَنَاسِرِ تَتْبَعُهَا الْمَنَاسِرُ، وَ یُرْجَمُوْا بِالْکَتَآئِبِ تَقْفُوْهَا الْحَلَآئِبُ، وَ حَتّٰی یُجَرَّ بِبِلَادِهِمُ الْخَمِیْسُ یَتْلُوْهُ الْخَمِیْسُ، وَ حَتّٰی تَدْعَقَ الْخُیُوْلُ فِیْ نَوَاحِرِ اَرْضِهِمْ، وَ بِاَعْنَانِ مَسَارِبِهِمْ وَ مَسَارِحِهِمْ.

خداوندا! اگر یہ حق کو ٹھکرا دیں تو ان کے جتھے کو توڑ دے اور انہیں ایک آواز پر جمع نہ ہونے دے اور ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں تباہ و برباد کر۔ یہ اپنے مؤقف (شر و فساد) سے اس وقت تک ہٹنے والے نہیں جب تک تابڑ توڑ نیزوں کے ایسے وار نہ ہوں کہ (جس سے زخموں کے منہ اس طرح کھل جائیں کہ) ہوا کے جھونکے گزر سکیں اور تلواروں کی ایسی چوٹیں نہ پڑیں کہ جو سروں کو شگافتہ کر دیں اور ہڈیوں کے پرخچے اڑا دیں اور بازوؤں اور قدموں کو توڑ کر پھینک دیں اور پے درپے لشکروں کا نشانہ نہ بنائے جائیں اور ایسی فوجیں ان پر ٹوٹ نہ پڑیں کہ جن کے پیچھے (کمک کیلئے) اور شہسواروں کے دستے ہوں اور جب تک کہ ان کے شہروں پر یکے بعد دیگرے فوجوں کی چڑھائی نہ ہو، یہاں تک کہ گھوڑے ان کی زمینوں کو آخر تک روند ڈالیں اور ان کے سبزہ زاروں اور چراگاہوں کو پامال کر دیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 January 23 ، 18:39
عون نقوی

قَالَهٗ لِاَصْحَابِهٖ فِیْ سَاحَةِ الْحَرْبِ

جنگ کے میدان میں اپنے اصحاب سے فرمایا

وَ اَیُّ امْرِئٍ مِّنْکُمْ اَحَسَّ مِنْ نَّفْسِهٖ رِبَاطَةَ جَاْشٍ عِنْدَ اللِّقَآءِ، وَ رَاٰی مِنْ اَحَدٍ مِّنْ اِخْوَانِهِ فَشَلًا، فَلْیَذُبَّ عَنْ اَخِیْهِ بِفَضْلِ نَجْدَتِهِ الَّتِیْ فُضِّلَ بِهَا عَلَیْهِ کَمَا یَذُبُّ عَنْ نَّفْسِهٖ، فَلَوْ شَآءَ اللهُ لَجَعَلَهٗ مِثْلَهٗ.

تم میں سے جو شخص بھی جنگ کے موقع پر اپنے دل میں حوصلہ و دلیری محسوس کرے اور اپنے کسی بھائی سے کمزوری کے آثار دیکھے تو اسے چاہیے کہ اپنی شجاعت کی برتری کے ذریعہ سے جس کے لحاظ سے وہ اس پر فوقیت رکھتا ہے اس سے (دشمنوں کو) اسی طرح دور کرے جیسے انہیں اپنے سے دور ہٹاتا ہے۔ اس لئے کہ اگر اللہ چاہے تو اسے بھی ویسا ہی کر دے۔

اِنَّ الْمَوْتَ طَالِبٌ حَثِیْثٌ لَّا یَفُوْتُهُ الْمُقِیْمُ، وَ لَا یُعْجِزُهُ الْهَارِبُ. اِنَّ اَکْرَمَ الْمَوْتِ الْقَتْلُ! وَالَّذِیْ نَفْسُ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ بِیَدِهٖ، لَاَلْفُ ضَرْبَةٍ بِالسَّیْفِ اَهْوَنُ عَلَیَّ مِنْ مِّیْتَةٍ عَلَی الْفِرَاشِ!.

بیشک موت تیزی سے ڈھونڈھنے والی ہے۔ نہ ٹھہرنے والا اس سے بچ کر نکل سکتا ہے اور نہ بھاگنے والا اسے عاجز کر سکتا ہے۔ بلاشبہ قتل ہونا عزت کی موت ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں ابن ابی طالبؑ کی جان ہے کہ بستر پر اپنی موت مرنے سے تلوار کے ہزار وار کھانا مجھے آسان ہیں۔

[مِنْہُ]

[اسی خطبہ کا ایک حصہ یہ ہے]

وَ کَاَنِّیْۤ اَنْظُرُ اِلَیْکُمْ تَکِشُّوْنَکَشِیْشَ الضِّبَابِ: لَا تَاْخُذُوْنَ حَقًّا، وَ لَا تَمْنَعُوْنَ ضَیْمًا. قَدْ خُلِّیْتُمْ وَ الطَّرِیْقَ، فَالنَّجَاةُ لِلْمُقْتَحِمِ، وَ الْهَلَکَةُ لِلْمُتَلَوِّمِ.

گویا میں تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ تم (شکست و ہزیمت کے وقت) اس طرح کی آوازیں نکال رہے ہو جس طرح سوسماروں کے اژدہام کے وقت ان کے جسموں کے رگڑ کھانے کی آواز ہوتی ہے۔ نہ تم اپنا حق لیتے ہو اور نہ توہین آمیز زیادتیوں کی روک تھام کر سکتے ہو۔ تمہیں راستے پر کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ نجات اس کیلئے ہے کہ جو اپنے کو (جنگ میں) جھونک دے اور جو سوچتا ہی رہ جائے اس کیلئے ہلاکت و تباہی ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 January 23 ، 18:35
عون نقوی

قَالَهٗ لِلْخَوَارِجِ وَ قَدْ خَرَجَ اِلٰى مُعَسْکَرِهِمْ وَ هُمْ مُقِیْمُوْنَ عَلٰۤى اِنْکَارِ الْحُکُوْمَةِ، فَقَالَ ؑ:

جب خوارج تحکیم کے نہ ماننے پر اَڑ گئے تو حضرتؑ ان کے پڑاؤ کی طرف تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا:

اَ کُلُّکُمْ شَهِدَ مَعَنَا صِفِّیْنَ؟ فَقَالُوْا: مِنَّا مَنْ شَهِدَ وَ مِنَّا مَنْ لَّمْ یَشْهَدْ. قَالَ: فَامْتَازُوْا فِرْقَتَیْنِ، فَلْیَکُنْ مَّنْ شَهِدَ صِفِّیْنَ فِرْقَةً، وَ مَنْ لَّمْ یَشْهَدْهَا فِرْقَةً، حَتّٰۤی اُکَلِّمَ کُلًّا مِّنْکُمْ بِکَلَامِهٖ.

کیا تم سب کے سب ہمارے ساتھ صفین میں موجود تھے؟ انہوں نے کہا کہ ہم میں سے کچھ تھے اور کچھ نہیں تھے۔ تو حضرتؑ نے فرمایا کہ: پھر تم دو گروہوں میں الگ الگ ہو جاؤ: ایک وہ جو صفین میں موجود تھا اور ایک وہ جو وہاں موجود نہ تھا تاکہ میں ہر ایک سے جو گفتگو اس سے مناسب ہو وہ کروں۔

وَ نَادَی النَّاسَ، فَقَالَ: اَمْسِکُوْا عَنِ الْکَلَامِ، وَ اَنْصِتُوْا لِقَوْلِیْ، وَ اَقْبِلُوْا بِاَفْئِدَتِکُمْ اِلَیَّ، فَمَنْ نَّشَدْنَاهُ شَهَادَةً فَلْیَقُلْ بِعِلْمِهٖ فِیْهَا.

اور لوگوں سے پکار کر کہا کہ: بس اب (آپس میں) بات چیت نہ کرو اور خاموشی سے میری بات سنو اور دل سے توجہ کرو اور جس سے ہم گواہی طلب کریں وہ اپنے علم کے مطابق (جوں کی توں) گواہی دے۔

ثُمَّ کَلَّمَهُمْ عَلَیْهِ السَّلَامُ بِکَلَامٍ طَوِیْلٍ، مِنْ جُمْلَتِهٖۤ اَنْ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ: اَلَمْ تَقُوْلُوْا عِنْدَ رَفْعِهِمُ الْمَصَاحِفَ ـ حِیْلَةً وَّ غِیْلَةً وَّ مَکْرًا وَّ خَدِیْعَةً ـ: اِخْوَانُنَا وَ اَهْلُ دَعْوَتِنَا اسْتَقَالُوْنَا وَ اسْتَرَاحُوْۤا اِلٰی کِتَابِ اللهِ سُبْحَانَهٗ، فَالرَّاْیُ الْقَبُوْلُ مِنْهُمْ وَ التَّنْفِیْسُ عَنْهُمْ؟ فَقُلْتُ لَکُمْ: هٰذَاۤ اَمْرٌ ظَاهِرُهٗ اِیْمَانٌ وَّ بَاطِنُهٗ عُدْوَانٌ، وَ اَوَّلُهٗ رَحْمَةٌ وَّ اٰخِرُهٗ نَدَامَةٌ، فَاَقِیْمُوْا عَلٰی شَاْنِکُمْ، وَ الْزَمُوْا طَرِیْقَتَکُمْ، وَ عَضُّوْا عَلَی الْجِهَادِ بِنَوَاجِذِکُمْ، وَ لَا تَلْتَفِتُوْۤا اِلٰی نَاعِقٍ نَّعَقَ: اِنْ اُجِیْبَ اَضَلَّ، وَ اِنْ تُرِکَ ذَلَّ.

پھر حضرتؑ نے ان لوگوں سے ایک طویل گفتگو فرمائی۔ منجملہ اس کے یہ فرمایا کہ: جب ان لوگوں نے حیلہ و مکر اور جعل و فریب سے قرآن (نیزوں پر) اٹھائے تھے تو کیا تم نے نہیں کہا تھا کہ: وہ ہمارے بھائی بند اور ہمارے ساتھ (اسلام کی) دعوت قبول کرنیوالے ہیں۔ اب چاہتے ہیں کہ ہم جنگ سے ہاتھ اٹھا لیں اور وہ اللہ سبحانہ کی کتاب پر (سمجھوتا کیلئے) ٹھہر گئے ہیں، صحیح رائے یہ ہے کہ ان کی بات مان لی جائے اور ان کی گلو خلاصی کی جائے، تو میں نے تم سے کہا تھا کہ اس چیز کے باہر ایمان اور اندر کینہ و عناد ہے۔ اس کی ابتدا شفقت و مہربانی اور نتیجہ ندامت و پشیمانی ہے۔ لہٰذا تم اپنے رویہ پر ٹھہرے رہو اور اپنی راہ پر مضبوطی سے جمے رہو اور جہاد کیلئے اپنے دانتوں کو بھینچ لو اور اس چلّانے والے کی طرف دھیان نہ دو کہ اگر اس کی آواز پر لبیک کہی گئی تو یہ گمراہ کرے گا اور اگر اسے یونہی رہنے دیا جائے تو ذلیل ہو کر رہ جائے گا۔

وَ قَدْ کَانَتْ هٰذِهِ الْفَعْلَةُ، وَ قَدْ رَاَیْتُکُمْ اَعْطَیْتُمُوْهَا، وَاللهِ! لَئِنْ اَبَیْتُهَا مَا وَجَبَتْ عَلَیَّ فَرِیْضَتُهَا وَ لَا حَمَّلَنِی اللهُ ذَنْۢبَهَا، وَ وَاللهِ! اِنْ جِئْتُهَاۤ اِنِّیْ لَلْمُحِقُّ الَّذِیْ یُتَّبَعُ، وَ اِنَّ الْکِتَابَ لَمَعِیْ، مَا فَارَقْتُهٗ مُذْ صَحِبْتُهٗ. فَلَقَدْ کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، وَ اِنَّ الْقَتْلَ لَیَدُوْرُ عَلَی الْاٰبَآءِ وَ الْاَبْنَآءِ وَ الْاِخْوَانِ وَ الْقَرَابَاتِ، فَمَا نَزْدَادُ عَلٰی کُلِّ مُصِیْبَةٍ وَّ شِدَّةٍ اِلَّاۤ اِیْمَانًا، وَ مُضِیًّا عَلَی الْحَقِّ، وَ تَسْلِیْمًا لِّلْاَمْرِ، وَ صَبْرًا عَلٰی مَضَضِ الْجِرَاحِ.

(لیکن) جب تحکیم کی صورت انجام پا گئی تو میں تمہیں دیکھ رہا تھا کہ تم ہی اس پر رضا مندی دینے والے تھے۔ خدا کی قسم! اگر میں نے اس سے انکار کر دیا ہوتا تو مجھ پر اس کا کوئی فریضہ واجب نہ ہوتا اور نہ اللہ مجھ پر اس (کے ترک) کا گناہ عائد کرتا اور قسم بخدا اگر میں اس کی طرف بڑھا تو اس صورت میں بھی میں ہی وہ حق پرست ہوں جس کی پیروی کی جانا چاہیے اور کتاب خدا میرے ساتھ ہے اور جب سے میرا اس کا ساتھ ہوا ہے میں اس سے الگ نہیں ہوا۔ ہم (جنگوں میں ) رسول ﷺ کے ساتھ تھے اور قتل ہونے والے وہی تھے جو ایک دوسرے کے باپ، بیٹے، بھائی اور رشتہ دار ہوتے تھے، لیکن ہر مصیبت اور سختی میں ہمارا ایمان بڑھتا تھا اور حق کی پیروی اور دین کی اطاعت میں زیادتی ہوتی تھی اور زخموں کی ٹیسوں پر صبر میں اضافہ ہوتا تھا۔

وَ لٰکِنَّاۤ اِنَّمَاۤ اَصْبَحْنَا نُقَاتِلُ اِخْوَانَنَا فِی الْاِسْلَامِ عَلٰی مَا دَخَلَ فِیْهِ مِنَ الزَّیْغِ وَ الْاِعْوِجَاجِ، وَ الشُّبْهَةِ وَ التَّاْوِیْلِ، فَاِذَا طَمِعْنَا فِیْ خَصْلَةٍ یَّلُمُّ اللهُ بِهَا شَعَثَنَا، وَ نَتَدَانٰی بِهَاۤ اِلَی الْبَقِیَّةِ فِیْمَا بَیْنَنَا، رَغِبْنَا فِیْهَا، وَ اَمْسَکْنَا عَمَّا سِوَاهَا.

مگر اب ہم کو ان لوگوں سے کہ جو اسلام کی رُو سے ہمارے بھائی کہلاتے ہیں جنگ کرنا پڑ گئی ہے، چونکہ ( ان کی وجہ سے) اس میں گمراہی، کجی، شبہات اور غلط سلط تاویلات داخل ہو گئے ہیں تو جب ہمیں کوئی ایسا ذریعہ نظر آئے کہ جس سے (ممکن ہے) اللہ ہماری پریشانیوں کو دور کر دے اور اس کی وجہ سے ہمارے درمیان جو باقی ماندہ (لگاؤ) رہ گیا ہے، اس کی طرف بڑھتے ہوئے ایک دوسرے سے قریب ہوں تو ہم اسی کے خواہشمند رہیں گے اور کسی دوسری صورت سے جو اس کے خلاف ہو ہاتھ روک لیں گے۔


ابن ابی الحدید نے لکھا ہے کہ یہ خطبہ تین ایسے ٹکڑوں پر مشتمل ہے جو ایک دوسرے سے غیر مرتبط ہیں۔ چونکہ علامہ سیّد رضیؒ حضرتؑ کے خطبوں کا کچھ حصہ منتخب کرتے تھے اور کچھ درج نہ کرتے تھے جس سے سلسلہ کلام ٹوٹ جاتا تھا اور ربط برقرار نہ رہتا تھا۔ چنانچہ ایک ٹکڑا «وَ اِنْ تُرِکَ ذَلَّ» پر اور دوسرا «وَ صَبْرًا عَلٰی مَضَضِ الْجِرَاحِ» پر ختم ہوتا ہے اور تیسرا آخر کلام تک ہے۔اس  سے معاویہ یا عمرو بن عاص مراد ہے۔

 

 

 

 

balagha.org
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 January 23 ، 15:41
عون نقوی

وَ قَدْ قَامَ اِلَیْهِ رَجُلٌ مِّنْ اَصْحَابِهٖ، فَقَالَ: نَهَیْتَنَا عَنِ الْحُکُوْمَةِ ثُمَّ اَمَرْتَنَا بِهَا، فَمَا نَدْرِیْۤ اَیُّ الْاَمْرَیْنِ اَرْشَدُ؟ فَصَفَّقَ ؑ اِحْدٰی یَدَیْهِ عَلَى الْاُخْرٰى، ثُمَّ قَالَ:‏

حضرتؑ کے اصحاب میں سے ایک شخص اٹھ کر آپؑ کے سامنے آیا اور کہا کہ: یا امیر المومنینؑ! پہلے تو آپؑ نے ہمیں تحکیم سے روکا اور پھر اس کا حکم بھی دے دیا، نہیں معلوم کہ ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات زیادہ صحیح ہے۔ (یہ سن کر) حضرتؑ نے اپنے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور فرمایا:

هٰذَا جَزَآءُ مَنْ تَرَکَ الْعُقْدَةَ! اَمَا وَاللهِ! لَوْ اَنِّیْ حِیْنَ اَمَرْتُکُمْ بِمَاۤ اَمَرْتُکُم بِهٖ حَمَلْتُکُمْ عَلَی الْمَکْرُوْهِ الَّذِیْ یَجْعَلُ اللهُ فِیْهِ خَیْرًا، فَاِنِ اسْتَقَمْتُمْ هَدَیْتُکُمْ، وَ اِنِ اعْوَجَجْتُمْ قَوَّمْتُکُمْ، وَ اِنْ اَبَیْتُمْ تَدَارَکْتُکُمْ، لَکَانَتِ الْوُثْقٰی، وَ لٰکِنْۢ بِمَنْ وَّ اِلٰی مَنْ؟ اُرِیْدُ اَنْ اُدَاوِیَ بِکُمْ وَاَنْتُمْ دَآئِیْ، کَنَاقِشِ الشَّوْکَةِ بِالشَّوْکَةِ، وَ هُوَ یَعْلَمُ اَنَّ ضَلْعَهَا مَعَهَا. اَللّٰهُمَّ قَدْ مَلَّتْ اَطِبَّآءُ هٰذَا الدَّآءِ الدَّوِیِّ، وَ کَلَّتِ النَّزَعَةُ بِاَشْطَانِ الرَّکِیِّ!.

جس نے عہدِ وفا کو توڑ دیا ہو اس کی یہی پاداش ہوا کرتی ہے۔ خدا کی قسم! جب میں نے تمہیں تحکیم کے مان لینے کا حکم دیا تھا اگر اسی امر ناگوار (جنگ) پر تمہیں ٹھہرائے رکھتا کہ جس میں اللہ تمہارے لئے بہتری ہی کرتا، چنانچہ تم اس پر جمے رہتے تو مَیں تمہیں سیدھی راہ پر لے چلتا اور اگر ٹیڑھے ہوتے تو تمہیں سیدھا کر دیتا اور اگر انکار کرتے تو تمہارا تدارک کرتا، تو بلاشبہ یہ ایک مضبوط طریق کار ہوتا، لیکن کس کی مدد سے اور کس کے بھروسے پر؟ میں تم سے اپنا چارہ چاہتا تھا اور تم ہی میرا مرض نکلے۔ جیسے کانٹے کو کانٹے سے نکالنے والا کہ وہ جانتا ہے کہ یہ بھی اسی کی طرف جھکے گا۔ خدایا! اس موذی مرض سے چارہ گر عاجز آ گئے ہیں اور اس کنوئیں کی رسیاں کھینچنے والے تھک کر بیٹھ گئے ہیں۔

اَیْنَ الْقَوْمُ الَّذِیْنَ دُعُوْۤا اِلَی الْاِسْلَامِ فَقَبِلُوْهُ؟ وَ قَرَاُوا الْقُرْاٰنَ فَاَحْکَمُوْهُ؟ وَ هِیْجُوْۤا اِلَی الْجِهَادِ، فَوَلِهُوْا وَلَهَ اللِّقَاحِ اِلٰۤی اَوْلَادِهَا، وَ سَلَبُوا السُّیُوْفَ اَغْمَادَهَا، وَ اَخَذُوْا بِاَطْرَافِ الْاَرْضِ زَحْفًا زَحْفًا وَّ صَفًّا صَفًّا، بَعْضٌ هَلَکَ، وَ بَعْضٌ نَّجَا. لَایُبَشَّرُوْنَ بِالْاَحْیَآءِ، وَ لَا یُعَزَّوْنَ عَنِ الْمَوْتٰی، مُرْهُ الْعُیُوْنِ مِنَ الْبُکَآءِ، خُمْصُ الْبُطُوْنِ مِنَ الصِّیَامِ، ذُبُلُ الشِّفَاهِ مِنَ الدُّعَآءِ، صُفْرُ الْاَلْوَانِ مِنَ السَّهَرِ، عَلٰی وَجُوْهِهِمْ غَبَرَةُ الْخَاشِعِیْنَ.

وہ لوگ کہاں ہیں کہ جنہیں اسلام کی طرف دعوت دی گئی تو انہوں نے اسے قبول کر لیا اور قرآن کو پڑھا تو اس پر عمل بھی کیا، جہاد کیلئے انہیں ابھارا گیا تو اس طرح شوق سے بڑھے جیسے دودھ دینے والی اونٹنیاں اپنے بچوں کی طرف۔ انہوں نے تلواروں کو نیاموں سے نکال لیا اور دستہ بدستہ اور صف بصف بڑھتے ہوئے زمین کے اطراف پر قابو پا لیا۔ (ان میں سے) کچھ مر گئے کچھ بچ گئے۔ نہ زندہ رہنے والوں کے مژدہ سے وہ خوش ہوتے ہیں اور نہ مرنے والوں کی تعزیت سے متاثر ہوتے ہیں۔ رونے سے ان کی آنکھیں سفید، روزوں سے ان کے پیٹ لاغر، دُعاؤں سے ان کے ہونٹ خشک اور جاگنے سے ان کے رنگ زرد ہو گئے تھے اور فروتنی و عاجزی کرنے والوں کی طرح ان کے چہرے خاک آلود رہتے تھے۔

اُولٰٓئِکَ اِخْوَانِیَ الذَّاهِبُوْنَ، فَحَقَّ لَـنَا اَنْ نَّظْمَاَ اِلَیْهِمْ وَ نَعَضَّ الْاَیْدِیَ عَلٰی فِرَاقِهِمْ! اِنَّ الشَّیْطٰنَ یُسَنِّیْ لَکُمْ طُرُقَهٗ، وَ یُرِیْدُ اَنْ یَّحُلَّ دِیْنَکُمْ عُقْدَةً عُقْدَةً، وَ یُعْطِیَکُمْ بِالْجَمَاعَةِ الْفُرْقَةَ، فَاصْدِفُوْا عَنْ نَّزَغَاتِهٖ وَ نَفَثَاتِهٖ، وَ اقْبَلُوا النَّصِیْحَةَ مِمَّنْ اَهْدَاهَاۤ اِلَیْکُمْ، وَ اعْقِلُوْهَا عَلٰۤی اَنْفُسِکُمْ.

یہ میرے وہ بھائی تھے جو (دنیا سے) گزر گئے۔ اب ہم حق بجانب ہیں اگر ان کی دید کے پیاسے ہوں اور ان کے فراق میں اپنی بوٹیاں کاٹیں۔ بے شک تمہارے لئے شیطان نے اپنی راہیں آسان کر دی ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ تمہارے دین کی ایک ایک گرہ کھول دے اور تم میں یکجائی کے بجائے پھوٹ ڈلوائے۔ تم اس کے وسوسوں اور جھاڑ پھونک سے منہ موڑے رہو اور نصیحت کی پیشکش کرنے والے کا ہدیہ قبول کرو اور اپنے نفسوں میں اس کی گرہ باندھ لو۔


امیر المومنین علیہ السلام کے پرچم کے نیچے جنگ کرنے والے گو آپؑ ہی کی جماعت میں شمار ہوتے تھے مگر جن کی آنکھوں میں آنسو، چہروں پر زردی، زبانوں پر قرآنی نغمہ، دلوں میں ایمانی ولولہ، پیروں میں ثبات و قرار، روح میں عزم و ہمت اور نفس میں صبر و استقامت کا جوہر ہوتا تھا انہی کو صحیح معنوں میں شیعانِ علیؑ کہا جا سکتا ہے اور یہی وہ لوگ تھے جن کی جدائی میں امیر المومنین علیہ السلام کے دل کی بے تابیاں آہ بن کر زبان سے نکل رہی ہیں اور آتش فراق کے لوکے قلب و جگر کو پھونکے دے رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو دیوانہ وار موت کی طرف لپکتے تھے اور بچ رہنے پر انہیں مسرت و شادمانی نہ ہوتی تھی، بلکہ ان کے دل کی آواز یہ ہوتی تھی کہ:
شرمندہ ماندہ ایم کہ چرا زندہ ماندہ ایم
جس انسان میں ان صفات کی تھوڑی بہت جھلک ہوگی وہی متبع آلِ محمد علیہم السلام اور شیعہ علی علیہ السلام کہلا سکتا ہے۔ ورنہ یہ ایک ایسا لفظ ہو گا جو اپنے معنی کو کھو چکا ہو اور بے محل استعمال ہونے کی وجہ سے اپنی عظمت کو گنوا چکا ہو۔ چنانچہ روایت میں ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے ایک جماعت کو اپنے دروازہ پر دیکھا تو قنبر سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ قنبر نے کہا کہ: یا امیر المومنین علیہ السلام یہ آپؑ کے شیعہ ہیں۔ یہ سن کر حضرتؑ کی پیشانی پر بَل آیا اور فرمایا: مَا لِیْ لَاۤ اَرٰى فِیهِمْ سِیْمَآءَ الشِّیْعَةِ؟: ’’کیا وجہ ہے کہ یہ شیعہ کہلاتے ہیں اور ان میں شیعوں کی کوئی بھی علامت نظر نہیں آتی‘‘؟ اس پر قنبر نے دریافت کیا کہ شیعوں کی علامت کیا ہوتی ہے؟ تو حضرتؑ نے جواب میں فرمایا:
خُمُصُ الْبُطُوْنِ مِنَ الطَّوٰى، یُبْسُ الشِّفَاةِ مِنَ الظَّمَإِ، عُمْشُ الْعُیُوْنِ مِنَ الْبُکَآءِ.
بھوک سے ان کے پیٹ لاغر، پیاس سے ان کے ہونٹ خشک اور رونے سے ان کی آنکھیں بے رونق ہو گئی ہوتی ہیں۔(۱)

[۱]۔ مناقب ابن شہر آشوب، ج ۲، ص ۱۲۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 January 23 ، 15:36
عون نقوی

تَاللهِ! لَقَدْ عَلِمْتُ تَبْلِیْـغَ الرِّسَالَاتِ، وَ اِتْمَامَ الْعِدَاتِ، وَ تَمَامَ الْکَلِمَاتَ. وَ عِنْدَنَا ـ اَهْلَ الْبَیْتِ ـ اَبْوَابُ الْحِکَمِ وَ ضِیَآءُ الْاَمْرِ.

خدا کی قسم! مجھے پیغاموں کے پہنچانے، وعدوں کے پورا کرنے اور آیتوں کی صحیح تاویل بیان کرنے کا خوب علم ہے اور ہم اہل بیتؑ (نبوت) کے پاس علم و معرفت کے دروازے اور شریعت کی روشن راہیں ہیں۔

اَلَا وَ اِنَّ شَرَآئِعَ الدِّیْنِ وَاحِدَةٌ، وَ سُبُلَهٗ قَاصِدَةٌ، مَنْ اَخَذَ بِهَا لَحِقَ وَ غَنِمَ، وَ مَنْ وَّقَفَ عَنْهَا ضَلَّ وَ نَدِمَ.

آگاہ رہو کہ دین کے تمام قوانین کی روح ایک اور اس کی راہیں سیدھی ہیں۔ جو ان پر ہو لیا وہ منزل تک پہنچ گیا اور بہرہ یاب ہوا اور جو ٹھہرا رہا وہ گمراہ ہوا اور (آخر کار) نادم و پشیمان ہوا۔

اِعْمَلُوْا لِیَوْمٍ تُذْخَرُ لَهُ الذَّخَآئِرُ، وَ تُبْلٰی فِیْهِ السَّرَآئِرُ، وَ مَنْ لَّا یَنْفَعُهٗ حَاضِرُ لُبِّهٖ فَعَازِبُهٗ عَنْهُ اَعْجَزُ، وَ غَآئِبُهٗ اَعْوَزُ.

اس دن کیلئے عمل کرو کہ جس کیلئے ذخیرے فراہم کئے جاتے ہیں اور جس میں نیتوں کو جانچا جائے گا۔ جسے اپنی ہی عقل فائدہ نہ پہنچائے کہ جو اس کے پاس موجود ہے تو (دوسروں کی) عقلیں کہ جو اس سے دور اور اوجھل ہیں فائدہ رسانی سے بہت عاجز و قاصر ہوں گی۔

وَ اتَّقُوْا نَارًا حَرُّهَا شَدِیْدٌ، وَ قَعْرُهَا بَعِیْدٌ، وَ حِلْیَتُهَا حَدِیْدٌ، وَ شَرَابُهَا صَدِیْدٌ. اَلَا وَ اِنَّ اللِّسَانَ الصَّالِحَ یَجْعَلُهُ اللهُ لِلْمَرْءِ فِی النَّاسِ، خَیْرٌ لَّهٗ مِنَ الْمَالِ یُوْرِثُهٗ مَنْ لَّا یَحْمَدُهٗ.

(دوزخ کی) آگ سے ڈرو کہ جس کی تپش تیز اور گہرائی بہت زیادہ ہے اور (جہاں پہننے کو) لوہے کے زیور اور (پینے کو) پیپ بھرا لہو ہے۔ ہاں! جس شخص کا ذکرِ خیر لوگوں میں خدا برقرار رکھے وہ اس کیلئے اس مال سے کہیں بہتر ہے جس کا ایسوں کو وارث بنا یا جاتا ہے جو اس کو سراہتے تک نہیں۔


اگر انسان جیتے جاگتے اپنے اختیار سے کسی کو کچھ دے جائے تو لینے والا اس کا احسان مند ہوتا ہے، لیکن جو مال مجبوری سے چھن جائے تو چھین لینے والا اپنے کو اس کا زیر بارِ احسان نہیں سمجھتا اور نہ اسے سراہتا ہے۔ یہی حالت مرنے والے کی ہوتی ہے کہ اس کے ورثا یہی سمجھتے ہیں کہ وہ جو کچھ چھوڑ گیا ہے وہ ہمارا حق تھا کہ جو ہمیں ملنا چاہیے تھا، اس میں اس کا احسان ہی کیا کہ اسے سراہا جائے، لیکن اسی مال سے اگر وہ کوئی اچھا کام کر جاتا تو دنیا میں اس کا نام بھی رہتا اور دنیا والے اس کی تحسین و آفرین بھی کرتے۔

خنک تنی که پس از وی حدیث خیر کنند

    که جز حدیث نمی‌ ماند از بنی ‌آدم


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 January 23 ، 15:31
عون نقوی