بصیرت اخبار

۲۶۶ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «عون نقوی» ثبت شده است

فِیْ ذِکْرِ الْمَکَایِیْلِ وَ الْمَوَازِیْنِ

جس میں آپؑ نے پیمانوں اور ترازوؤں کا ذکر فرمایا ہے

عِبَادَ اللهِ! اِنَّکُمْ ــ وَ مَا تَاْمُلُوْنَ مِنْ هٰذِهِ الدُّنْیَاــ اَثْوِیَآءُ مُؤَجَّلُوْنَ، وَ مَدِیْنُوْنَ مُقْتَضَوْنَ: اَجَلٌ مَّنْقُوْصٌ، وَ عَمَلٌ مَّحْفُوْظٌ، فَرُبَّ دَآئِبٍ مُّضَیِّـعٌ، وَ رُبَّ کَادِحٍ خَاسِرٌ. وَ قَدْ اَصْبَحْتُمْ فِیْ زَمَنٍ لَّا یَزْدَادُ الْخَیْرُ فِیْهِ اِلَّاۤ اِدْبَارًا، وَ لَا الشَّرُّ اِلَّا اِقْبَالًا، وَ لَا الشَّیْطٰنُ فِیْ هَلَاکِ النَّاسِ اِلَّا طَمَعًا.

اللہ کے بندو! تم اور تمہاری اس دنیا سے بندھی ہوئی امیدیں مقررہ مدت کی مہمان ہیں اور ایسے قرضدار جن سے ادائیگی کا تقاضا کیا جا رہا ہے۔ عمر ہے جو گھٹتی جا رہی ہے اور اعمال ہیں جو محفوظ ہو رہے ہیں۔ بہت سے دوڑ دھوپ کرنے والے اپنی محنت اَکارت کرنے والے ہیں اور بہت سے سعی و کوشش میں لگے رہنے والے گھاٹے میں جا رہے ہیں۔ تم ایسے زمانے میں ہو کہ جس میں بھلائی کے قدم پیچھے ہٹ رہے ہیں اور برائی آگے بڑھ رہی ہے اور لوگوں کو تباہ کرنے میں شیطان کی حرص تیز ہوتی جا رہی ہے۔

فَهٰذَا اَوَانٌ قَوِیَتْ عُدَّتُهٗ، وَ عَمَّتْ مَکِیْدَتُهٗ، وَ اَمْکَنَتْ فَرِیْسَتُهٗ. اِضْرِبْ بِطَرْفِکَ حَیْثُ شِئْتَ مِنَ النَّاسِ، فَهَلْ تُبْصِرُ اِلَّا فَقِیْرًا یُکَابِدُ فَقْرًا، اَوْ غَنِیًّا بَدَّلَ نِعْمَةَ اللهِ کُفْرًا، اَوْ بَخِیْلًا اتَّخَذَ الْبُخْلَ بِحَقِّ اللهِ وَفْرًا، اَوْ مُتَمَرِّدًا کَاَنَّ بِاُذُنِهٖ عَنْ سَمْعِ الْموَاعِظِ وَقْرًا!.

چنانچہ یہی وہ وقت ہے کہ اس (کے ہتھکنڈوں) کا سرو سامان مضبوط ہو چکا ہے اور اس کی سازشیں پھیل رہی ہیں اور اس کے شکار آسانی سے پھنس رہے ہیں۔ جدھر چاہو لوگوں پر نگاہ دوڑاؤ، تم یہی دیکھو گے کہ ایک طرف کوئی فقیر فقر و فاقہ جھیل رہا ہے اور دوسری طرف دولت مند نعمتوں کو کفرانِ نعمت سے بدل رہا ہے اور کوئی بخیل اللہ کے حق کو دبا کر مال بڑھا رہا ہے اور کوئی سرکش پند و نصیحت سے کان بند کئے پڑا ہے۔

اَیْنَ خِیَارُکُمْ وَ صُلَحَآؤُکُمْ! وَ اَیْنَ اَحْرَارُکُمْ وَ سُمَحَآؤُکُمْ! وَ اَیْنَ الْمُتَوَرِّعُوْنَ فِیْ مَکَاسِبِهِمْ، وَ الْمُتَنَزِّهُوْنَ فِیْ مَذَاهِبِهِمْ! اَ لَیْسَ قَدْ ظَعَنُوْا جَمِیْعًا عَنْ هٰذِهِ الدُّنْیَا الدَّنِیَّةِ، وَ الْعَاجِلَةِ الْمُنَغِّصَةِ، وَ هَلْ خُلِّفْتُمْ اِلَّا فِیْ حُثَالَةٍ لَّا تَلْتَقِیْۤ بِذَمِّهِمُ الشَّفَتَانِ، اسْتِصْغَارًا لِّقَدْرِهِمْ، وَ ذَهَابًا عَنْ ذِکْرِهِمْ؟! فَـ﴿اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ۝﴾، ﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ﴾ فَلَا مُنْکِرٌ مُّغَیِّرٌ، وَ لَا زَاجِرٌ مُّزْدَجِرٌ.

کہاں ہیں تمہارے نیک اور صالح افراد؟ اور کہاں ہیں تمہارے عالی حوصلہ اور کریم النفس لوگ؟ کہاں ہیں کاروبار میں (دَغا و فریب) سے بچنے والے اور اپنے طور طریقوں میں پاک و پاکیزہ رہنے والے؟ کیا وہ سب کے سب اس ذلیل اور زندگی کا مزا کرکرا کرنے والی تیز رو دنیا سے گزر نہیں گئے اور کیا تم ان کے بعد ایسے رذیل اور ادنیٰ لوگوں میں نہیں رہ گئے کہ جن کے مرتبہ کو پست و حقیر سمجھتے ہوئے اور ان کے ذکر سے پہلو بچاتے ہوئے ہونٹ ان کی مذمت میں بھی کھلنا گوارا نہیں کرتے۔﴿ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ﴾، فساد اُبھر آیا ہے، برائی کا وہ دور ایسا ہے کہ انقلاب کے کوئی آثار نہیں اور نہ کوئی روک تھام کرنے والا ہے جو خود بھی باز رہے۔

اَفَبِهٰذَا تُرِیْدُوْنَ اَنْ تُجَاوِرُوا اللهَ فِیْ دَارِ قُدْسِهٖ، وَ تَکُوْنُوْۤا اَعَزَّ اَوْلِیَآئِهٖ عِنْدَهٗ؟ هَیْهَاتَ! لَا یُخْدَعُ اللهُ عَنْ جَنَّتِهٖ، وَ لَا تُنَالُ مَرْضَاتُهٗ اِلَّا بِطَاعَتِهٖ. لَعَنَ اللهُ الْاٰمِرِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ التَّارِکِیْنَ لَهٗ، وَ النَّاهِیْنَ عَنِ الْمُنکَرِ الْعَامِلِیْنَ بِهٖ!.

کیا انہی کرتوتوں سے جنت میں اللہ کے پڑوس میں بسنے اور اس کا گہرا دوست بننے کا ارادہ ہے؟ ارے توبہ! اللہ کو دھوکا دے کر اس سے جنت نہیں لی جا سکتی اور بغیر اس کی اطاعت کے اس کی رضامندیاں حاصل نہیں ہو سکتیں۔ خدا ان لوگوں پر لعنت کرے کہ جو اوروں کو بھلائی کا حکم دیں اور خود اسے چھوڑ بیٹھیں اور دوسروں کو بری باتوں سے روکیں اور خود ان پر عمل کرتے ہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 January 23 ، 19:06
عون نقوی

فِیْمَا یُخْبِرُ بِهٖ عَنِ الْمَلَاحِمِ بِالْبَصْرَةِ

اس میں بصرہ کے اندر برپا ہونے والے ہنگاموں کا تذکرہ ہے

یاۤ اَحْنَفُ! کَاَنِّیْ بِهٖ وَ قَدْ سَارَ بِالْجَیْشِ الَّذِیْ لَا یَکُوْنُ لَهٗ غُبَارٌ وَّ لَا لَجَبٌ، وَ لَا قَعْقَعَةُ لُجُمٍ، وَ لَا حَمْحَمَةُ خَیْلٍ، یُثِیْرُوْنَ الْاَرْضَ بِاَقْدَامِهِمْ کَاَنَّهاۤ اَقْدَامُ النَّعَامِ.

اے احنف! میں اس شخص کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ ایک ایسے لشکر کو لے کر بڑھ رہا ہے کہ جس میں نہ گرد و غبار ہے، نہ شور و غوغا، نہ لگاموں کی کھڑکھڑاہٹ ہے اور نہ گھوڑوں کے ہنہنانے کی آواز۔ وہ لوگ زمین کو اپنے پَیروں سے جو شتر مرغ کے پیروں کے مانند ہیں روند رہے ہوں گے۔

یُوْمِئُ بِذٰلِکَ اِلٰی صَاحِبِ الزِّنْجِ. ثُمَّ قَالَ ؑ:

سیّد رضی کہتے ہیں کہ: حضرتؑ نے اس سے حبشیوں کے سردار کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پھر آپؑ نے فرمایا:

وَیْلٌ لِّسِکَـکِکُمُ الْعَامِرَةِ، وَ الدُّوْرِ الْمُزَخْرَفَةِ الَّتِیْ لَهَاۤ اَجْنِحَةٌ کَاَجْنَحَةِ النُّسُوْرِ، وَ خَرَاطِیْمُ کَخَرَاطِیْمِ الْفِیَلَةِ، مِنْ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَا یُنْدَبُ قَتِیْلُهُمْ، وَ لَا یُفْقَدُ غَآئِبُهُمْ. اَنَا کَآبُّ الدُّنْیَا لِوَجْهِهَا، وَ قَادِرُهَا بِقَدْرِهَا، وَ نَاظِرُهَا بِعَیْنِهَا.

ان لوگوں کے ہاتھوں سے کہ جن کے قتل ہو جانے والوں پر بین نہیں کیا جاتا اور گم ہونے والوں کو ڈھونڈھا نہیں جاتا، تمہاری ان آباد گلیوں اور سجے سجائے مکانوں کیلئے تباہی ہے کہ جن کے چھجے گِدوں کے پروں اور ہاتھیوں کی سونڈوں کے مانند ہیں۔ میں دنیا کو اوندھے منہ گرانے والا اور اس کی بساط کا صحیح اندازہ رکھنے والا اور اس کے لائق حال نگاہوں سے دیکھنے والا ہوں۔

[مِنْهُ: یُوْمِئُ بِہٖۤ اِلٰی وَصْفِ الْاَتْرَاکِ]

[اسی خطبہ کے ذیل میں ترکوں کی حالت کی طرف اشارہ کیا ہے]

کَاَنِّیْۤ اَرَاهُمْ قَوْمًا کَاَنَّ وُجُوْهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ، یَلْبَسُوْنَ السَّرَقَ وَ الدِّیْبَاجَ، وَ یَعْتَقِبُوْنَ الْخَیْلَ الْعِتَاقَ، وَ یَکُوْنُ هُنَاکَ اسْتِحْرَارُ قَتْلٍ، حَتّٰی یَمْشِیَ الْمَجْرُوْحُ عَلَی الْمَقْتُوْلِ، وَ یَکُوْنَ الْمُفْلِتُ اَقَلَّ مِنَ الْمَاْسُوْرِ!.

میں ایسے لوگوں کو دیکھ رہا ہوں کہ جن کے چہرے ان ڈھالوں کی طرح ہیں کہ جن پر چمڑے کی تہیں منڈھی ہوئی ہوں۔ وہ ابریشم و دیبا کے کپڑے پہنتے ہیں اور اصیل گھوڑوں کو عزیز رکھتے ہیں اور وہاں کشت و خون کی گرم بازاری ہو گی، یہاں تک کہ زخمی کشتوں کے اوپر سے ہو کر گزریں گے اور بچ کر بھاگ نکلنے والے اسیر ہونے والوں سے کم ہوں گے۔

فَقَالَ لَهٗ بَعْضُ اَصْحَابِهٖ: لَقَدْ اُعْطِیْتَ یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عِلْمَ الْغَیْبِ! فَضَحِکَ ؑ وَ قَالَ لِلرَّجُلِ ـ وَ کَانَ کَلْبِیًّاـ:

(اس موقع پر) آپؑ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے جو قبیلہ بنی کلب سے تھا عرض کیا کہ: یا امیرالمومنینؑ! آپؑ کو تو علم غیب حاصل ہے۔ جس پر آپؑ ہنسے اور فرمایا:

یاۤ اَخَا کَلْبٍ! لَیْسَ هُوَ بِعِلْمِ غَیْبٍ، وَ اِنَّمَا هُوَ تَعَلُّمٌ مِّنْ ذِیْ عِلْمٍ، وَ اِنَّمَا عِلْمُ الْغَیْبِ عِلْمُ السَّاعَةِ، وَ مَا عَدَّدَهُ اللهُ سُبْحَانَهٗ بِقَوْلِهٖ: ﴿اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ ...﴾ الْاٰیَةَ، فَیَعْلَمُ سُبْحَانَهٗ مَا فِی الْاَرْحَامِ مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی، وَ قَبِیْحٍ اَوْ جَمِیْلٍ، وَ سَخِیٍّ اَوْ بَخِیْلٍ، وَ شَقیٍّ اَوْ سَعِیْدٍ، وَ مَنْ یَّکُوْنُ فِی النَّارِ حَطَبًا، اَوْ فِی الْجِنَانِ لِلنَّبِیِّیْنَ مُرَافِقًا، فَهٰذَا عِلْمُ الْغَیْبِ الَّذِیْ لَا یَعْلَمُهٗۤ اَحَدٌ اِلَّا اللهُ، وَ مَا سِوٰی ذٰلِکَ فَعِلْمٌ عَلَّمَهُ اللهُ نَبِیَّهٗ بِہٖ فَعَلَّمَنِیْهِ، وَ دَعَا لِیْ بِاَنْ یَّعِیَهٗ صَدْرِیْ، وَ تَضْطَمَّ عَلَیْهِ جَوَانِحِیْ.

اے برادر کلبی! یہ علم غیب نہیں، بلکہ ایک صاحب علم (رسولؐ) سے معلوم کی ہوئی باتیں ہیں۔علم غیب تو قیامت کی گھڑی اور ان چیزوں کے جاننے کا نام ہے کہ جنہیں اللہ سبحانہ نے﴿اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ ...﴾والی آیت میں شمار کیا ہے۔ چنانچہ اللہ ہی جانتا ہے کہ شکموں میں کیا ہے، نر ہے یا مادہ، بد صورت ہے یا خوبصورت، سخی ہے یا بخیل، بدبخت ہے یا خوش نصیب اور کون جہنم کا ایندھن ہو گا اور کون جنت میں نبیوں کا رفیق ہو گا۔ یہ وہ علم غیب ہے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ رہا دوسری چیزوں کا علم تو وہ اللہ نے اپنے نبیؐ کو دیا اور نبیؐ نے مجھے بتایا اور میرے لئے دُعا فرمائی کہ میرا سینہ انہیں محفوظ رکھے اور میری پسلیاں انہیں سمیٹے رہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 January 23 ، 19:01
عون نقوی

لِلْخَوَارِجِ اَیْضًا

خوارج کے متعلق فرمایا

فَاِنْ اَبَیْتُمْ اِلَّا اَنْ تَزْعُمُوْا اَنِّیْۤ اَخْطَاْتُ وَ ضَلَلْتُ، فَلِمَ تُضَلِّلُوْنُ عَامَّةَ اُمَّةِ مُحَمَّدٍ ﷺ بِضَلَالِیْ، وَ تَاْخُذُوْنَهُمْ بِخَطَئِیْ، وَ تُکَفِّرُوْنَهُمْ بِذُنُوْبِیْ! سُیُوْفُکُمْ عَلٰی عَوَاتِقِکُمْ تَضَعُوْنَهَا مَوَاضِعَ الْبُرْءِ وَ السُّقْمِ، وَتَخْلِطُوْنَ مَنْ اَذْنَبَ بِمَنْ لَّمْ یُذْنِبْ.

اگر تم اس خیال سے باز آنے والے نہیں ہو کہ میں نے غلطی کی اور گمراہ ہو گیا ہوں تو میری گمراہی کی وجہ سے اُمت ِمحمدؐ کے عام افراد کو کیوں گمراہ سمجھتے ہو؟ اور میری غلطی کی پاداش انہیں کیوں دیتے ہو؟ اور میرے گناہوں کے سبب سے انہیں کیوں کافر کہتے ہو؟ تلواریں کندھوں پر اٹھائے ہر موقع و بے موقع جگہ پر وار کئے جا رہے ہو اور بے خطاؤں کو خطا کاروں کے ساتھ ملائے دیتے ہو۔

وَ قَدْ عَلِمْتُمْ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ رَجَمَ الزَّانِیَ الْمُحْصَنَ، ثُمَّ صَلّٰی عَلَیْهِ ثُمَّ وَرَّثَهٗ اَهْلَهٗ، وَ قَتَلَ الْقَاتِلَ وَ وَرَّثَ مِیْرَاثَهٗ اَهْلَهٗ، وَ قَطَعَ السَّارِقَ وَ جَلَدَ الزَّانِیَ غَیْرَ الْمُحْصَنِ ثُمَّ قَسَمَ عَلَیْهِمَا مِنَ الْفَیْءِ وَ نَکَحَا الْمُسْلِمَاتِ فَاَخَذَهُمْ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِذُنُوْبِهِمْ، وَ اَقَامَ حَقَّ اللهِ فِیْهِمْ، وَ لَمْ یَمْنَعْهُمْ سَهْمَهُمْ مِنَ الْاِسْلَامِ، وَ لَمْ یُخْرِجْ اَسْمَآئَهُمْ مِنْۢ بَیْنِ اَهْلِهٖ. ثُمَّ اَنْتُمْ شِرَارُ النَّاسِ، وَ مَنْ رَّمٰی بِهِ الشَّیْطٰنُ مَرَامِیَهٗ، وَ ضَرَبَ بِهٖ تِیْهَهٗ!.

حالانکہ تم جانتے ہو کہ رسول ﷺ نے جب زانی کو سنگسار کیا تو نماز جنازہ بھی اس کی پڑھی اور اس کے وارثوں کو اس کا ورثہ بھی دلوایا اور قاتل سے قصاص لیا تو اس کی میراث اس کے گھر والوں کو دلائی، چور کے ہاتھ کاٹے اور زنائے غیر محصنہ کے مرتکب کو تازیانے لگوائے تو اس کے ساتھ انہیں مال غنیمت میں سے حصہ بھی دیا اور انہوں نے (مسلمان ہونے کی حیثیت سے) مسلمان عورتوں سے نکاح بھی کئے۔ اس طرح رسول اللہ ﷺ نے ان کے گناہوں کی سزا ان کو دی اور جو ان کے بارے میں اللہ کا حق (حد شرعی) تھا اسے جاری کیا، مگر انہیں اسلام کے حق سے محروم نہیں کیا اور نہ اہل اسلام سے ان کے نام خارج کئے۔ اس کے بعد (ان شر انگیزیوں کے معنی یہ ہیں کہ) تم ہو ہی شر پسند اور وہ کہ جنہیں شیطان نے اپنی مقصد برآری کی راہ پر لگا رکھا ہے اور گمراہی کے سنسان بیابان میں لا پھینکا ہے۔

وَ سَیَهْلِکُ فِیَّ صِنْفَانِ: مُحِبٌّ مُّفْرِطٌ یَّذْهَبُ بِهِ الْحُبُّ اِلٰی غَیْرِ الْحَقِّ، وَ مُبْغِضٌ مُّفْرِطٌ یَّذْهَبُ بِهِ الْبُغْضُ اِلٰی غَیْرِ الْحَقِّ، وَ خَیْرُ النَّاسِ فِیَّ حَالًا النَّمَطُ الْاَوْسَطُ فَالْزَمُوْهُ، وَ الْزَمُوا السَّوَادَ الْاَعْظَمَ، فَاِنَّ یَدَ اللهِ عَلَی الْجَمَاعَةِ، وَ اِیَّاکُمْ وَ الْفُرْقَةَ! فَاِنَّ الشَّاذَّ مِنَ النَّاسِ لِلشَّیْطٰنِ، کَماۤ اَنَّ الشَّاذَّ مِنَ الْغَنَمِ لِلذِّئْبِ.

(یاد رکھو کہ) میرے بارے میں دو قسم کے لوگ تباہ و برباد ہوں گے: ایک حد سے زیادہ چاہنے والے جنہیں محبت (کی افراط) غلط راستے پر لگا دے گی اور ایک میرے مرتبہ میں کمی کر کے دشمنی رکھنے والے کہ جنہیں یہ عناد حق سے بے راہ کر دے گا۔ میرے متعلق درمیانی راہ اختیار کرنے والے ہی سب سے بہتر حالت میں ہوں گے۔ تم اسی راہ پر جمے رہو اور اسی بڑے گروہ کے ساتھ لگ جاؤ۔ چونکہ اللہ کا ہاتھ اتفاق و اتحاد رکھنے والوں پر ہے اور تفرقہ و انتشار سے باز آ جاؤ اس لئے کہ جماعت سے الگ ہو جانے والا شیطان کے حصہ میں چلا جاتا ہے، جس طرح گلہ سے کٹ جانے والی بھیڑ بھیڑیے کو مل جاتی ہے۔

اَلَا مَنْ دَعَاۤ اِلٰی هٰذَا الشِّعَارِ فَاقْتُلُوْهُ، وَ لَوْ کَانَ تَحْتَ عِمَامَتِیْ هٰذِهِ، وَ اِنَمَّا حُکِّمَ الْحَکَمَانِ لِیُحْیِیَا مَاۤ اَحْیَا الْقُرْاٰنُ، وَ یُمِیْتَا مَاۤ اَمَاتَ الْقُرْاٰنُ، وَ اِحْیَآؤُهُ الْاِجْتِمَاعُ عَلَیْهِ، وَ اِمَاتَتُهُ الْاِفْتَرَاقُ عَنْهُ، فَاِنْ جَرَّنَا الْقُرْاٰنُ اِلَیْهِمُ اتَّبَعْنَاهُمْ، وَ اِنْ جَرَّهُمْ اِلَیْنَا اتَّبَعُوْنَا.

خبردار! جو بھی ایسے نعرے لگا کر اپنی طرف بلائے اسے قتل کر دو، اگرچہ وہ اسی عمامہ کے نیچے کیوں نہ ہو ( یعنی میں خود کیوں نہ ہوں) اور وہ دونوں حَکم (ابو موسیٰ و عمر و ابن عاص) تو صرف اس لئے ثالث مقرر کئے گئے تھے کہ وہ انہی چیزوں کو زندہ کریں جنہیں قرآن نے زندہ کیا ہے اور انہی چیزوں کو نیست و نابود کریں جنہیں قرآن نے نیست و نابود کیا ہے۔ کسی چیز کے زندہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اس پر یکجہتی کے ساتھ متحد ہوا جائے اور اس کے نیست و نابود کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے علیحدگی اختیار کر لی جائے۔ اب اگر قرآن ہمیں ان لوگوں (کی اطاعت) کی طرف لے جاتا تو ہم ان کے پیرو بن جاتے اور اگر انہیں ہماری طرف لائے تو پھر انہیں ہمارا اتباع کرنا چاہیے۔

فَلَمْ اٰتِ ـ لَا اَبَا لَکُمْ ـ بُجْرًا، وَ لَا خَتَلْتُکُمْ عَنْ اَمْرِکُمْ، وَ لَا لَبَّسْتُهٗ عَلَیْکُمْ، اِنَّمَا اجْتَمَعَ رَاْیُ مَلَئِکُمْ عَلَی اخْتِیَارِ رَجُلَیْنِ، اَخَذْنَا عَلَیْهِمَاۤ اَنْ لَّا یَتَعَدَّیَا الْقُرْاٰنَ، فَتَاهَا عَنْهُ، وَ تَرَکَا الْحَقَّ وَ هُمَا یُبْصِرَانِهٖ، وَ کَانَ الْجَوْرُ هَوَاهُمَا فَمَضَیَا عَلیْهِ، وَ قَدْ سَبَقَ اسْتِثْنَآؤُنَا عَلَیْهِمَا ـ فِی الْحُکُومَةِ بِالْعَدْلِ، وَ الصَّمْدِ لِلْحَقِّ ـ سُوْٓءَ رَاْیِهِمَا وَ جَوْرَ حُکْمِهِمَا.

تمہارا بُرا ہو! میں نے کوئی مصیبت تو کھڑی نہیں کی اور نہ کسی بات میں تمہیں دھوکا دیا ہے اور نہ اس میں فریب کاری کی ہے۔ تمہاری جماعت ہی کی یہ رائے قرار پائی تھی کہ دو آدمی چن لئے جائیں جن سے ہم نے یہ اقرار لے لیا تھا کہ وہ قرآن سے تجاوز نہ کریں گے۔ لیکن وہ اچھی طرح دیکھنے بھالنے کے باوجود قرآن سے بہک گئے اور حق کو چھوڑ بیٹھے اور ان کے جذبات بے راہ روی کے مقتضی ہوئے۔ چنانچہ وہ اس روش پر چل پڑے (حالانکہ) ہم نے پہلے ہی ان سے شرط کر لی تھی کہ وہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے اور حق کا مقصد پیش نظر رکھنے میں بد نیتی و بے راہ روی کو دخل نہ دیں گے۔ (اگر ایسا ہوا تو وہ فیصلہ ہمارے لئے قابل تسلیم نہ ہو گا)۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 January 23 ، 18:46
عون نقوی

لَمَّا عُوْتِبَ عَلَى التَّسْوِیَةِ فِی الْعَطَآءِ:

جب مال کی تقسیم میں آپؑ کے برابری و مساوات کا اصول برتنے پر کچھ لوگ بگڑ اٹھے تو آپؑ نے ارشاد فرمایا:

اَتَاْمُرُوْنِّیْۤ اَنْ اَطْلُبَ النَّصْرَ بِالْجَوْرِ فِیْمَنْ وُّلِّیْتُ عَلَیْهِ! وَاللهِ! لَاۤ اَطُوْرُ بِهٖ مَا سَمَرَ سَمِیْرٌ، وَ مَاۤ اَمَّ نَجْمٌ فِی السَّمَآءِ نَجْمًا! لَوْ کَانَ الْمَالُ لِیْ لَسَوَّیْتُ بَیْنَهُمْ، فَکَیْفَ وَ اِنَّمَا الْمَالُ مَالُ اللهِ.

کیا تم مجھ پر یہ امر عائد کرنا چاہتے ہو کہ میں جن لوگوں کا حاکم ہوں ان پر ظلم و زیادتی کر کے (کچھ لوگوں کی) امداد حاصل کروں تو خدا کی قسم! جب تک دنیا کا قصہ چلتا رہے گا اور کچھ ستارے دوسرے ستاروں کی طرف جھکتے رہیں گے، میں اس چیز کے قریب بھی نہیں پھٹکوں گا۔ اگر یہ خود میرا مال ہوتا جب بھی میں اسے سب میں برابر تقسیم کرتا، چہ جائیکہ یہ مال اللہ کا مال ہے۔

اَلَا وَ اِنَّ اِعْطَآءَ الْمَالِ فِیْ غَیْرِ حَقِّهٖ تَبْذِیْرٌ وَّ اِسْرَافٌ، وَ هُوَ یَرْفَعُ صَاحِبَهٗ فِی الدُّنْیَا وَ یَضَعُهٗ فِی الْاٰخِرَةِ، وَ یُکْرِمُهٗ فِی النَّاسِ وَ یُهِیْنُهٗ عِنْدَ اللهِ، وَ لَمْ یَضَعِ امْرُؤٌ مَالَهٗ فِیْ غَیْرِ حَقِّهٖ وَ لَا عِنْدَ غَیْرِ اَهْلِهٖ اِلَّا حَرَمَهُ اللهُ شُکْرَهُمْ وَ کَانَ لِغَیْرِهٖ وُّدُّهُمْ، فَاِنْ زَلَّتْ بِهِ النَّعْلُ یَوْمًا فَاحْتَاجَ اِلٰی مَعُوْنَتِهِمْ فَشَرُّ خَدِیْنٍ وَّ اَلْاَمُ خَلِیْلٍ!.

دیکھو بغیر کسی حق کے داد و دہش کرنا بے اعتدالی اور فضول خرچی ہے اور یہ اپنے مرتکب کو دنیا میں بلند کر دیتی ہے، لیکن آخرت میں پست کرتی ہے اور لوگوں کے اندر عزت میں اضافہ کرتی، مگر اللہ کے نزدیک ذلیل کرتی ہے۔ جو شخص بھی مال کو بغیر استحقاق کے یا نااہل افراد کو دے گا اللہ اسے ان کے شکریہ سے محروم ہی رکھے گا اور ان کی دوستی و محبت بھی دوسروں ہی کے حصہ میں جائے گی اور اگر کسی دن اس کے پیر پھسل جائیں (یعنی فقر و تنگدستی اسے گھیر لے) اور ان کی امداد کا محتاج ہو جائے تو وہ اس کیلئے بہت ہی بُرے ساتھی اور کمینے دوست ثابت ہوں گے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 January 23 ، 18:44
عون نقوی

فِى التَّحْکِیْمِ

تحکیم کے بارے میں فرمایا

اِنَّا لَمْ نُحَکِّمِ الرِّجَالَ، وَ اِنَّمَا حَکَّمْنَا الْقُرْاٰنَ. وَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ اِنَّمَا هُوَ خَطٌّ مَّسْتُوْرٌۢ بَیْنَ الدَّفَّتَیْنِ، لَا یَنْطِقُ بِلِسَانٍ، وَ لَا بُدَّ لَهٗ مِنْ تَرْجُمَانٍ، وَ اِنَّمَا یَنْطِقُ عَنْهُ الرِّجَالُ.

ہم نے آدمیوں کو نہیں بلکہ قرآن کو حکم قرار دیا تھا۔ چونکہ یہ قرآن دو دفتیوں کے درمیان ایک لکھی ہوئی کتاب ہے کہ جو زبان سے بولا نہیں کرتی۔ اس لئے ضرورت تھی کہ اس کیلئے کوئی ترجمان ہو اور وہ آدمی ہی ہوتے ہیں جو اس کی ترجمانی کیا کرتے ہیں۔

وَ لَمَّا دَعَانَا الْقَوْمُ اِلٰی اَنْ نُّحَکِّمَ بَیْنَنَا الْقُرْاٰنَ لَمْ نَکُنِ الْفَرِیْقَ الْمُتَوَلِّیَ عَنْ کِتَابِ اللهِ تَعَالٰی، وَ قَدْ قَالَ اللهُ سُبْحَانَهٗ: ﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَی اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ﴾، فَرَدُّهٗۤ اِلَی اللهِ اَنْ نَّحْکُمَ بِکِتَابِهٖ، وَ رَدُّهٗۤ اِلَی الرَّسُوْلِ اَنْ نَّاْخُذَ بِسُنَّتِهٖ، فَاِذَا حُکِمَ بِالصِّدْقِ فِیْ کِتَابِ اللهِ فَنَحْنُ اَحَقُّ النَّاسِ بِهٖ، وَ اِنْ حُکِمَ بِسُنَّةِ رَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ فَنَحْنُ اَوْلَاهُمْ بِهٖ.

جب ان لوگوں نے ہمیں یہ پیغام دیا کہ ہم اپنے درمیان قرآن کو حَکم ٹھہرائیں تو ہم ایسے لوگ نہ تھے کہ اللہ کی کتاب سے منہ پھیر لیتے، جبکہ حق سبحانہ کا ارشاد ہے کہ: ’’اگر تم کسی بات میں جھگڑا کرو تو (اس کا فیصلہ نپٹانے کیلئے) اللہ اور رسولؐ کی طرف رجوع کرو‘‘۔ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کی کتاب کے مطابق حکم کریں اور رسول ﷺ کی طرف رجوع کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم ان کی سنت پر چلیں۔ چنانچہ اگر کتاب خدا سے سچائی کے ساتھ حکم لگایا جائے تو اس کی رُو سے سب لوگوں سے زیادہ ہم (خلافت کے ) حقدار ہوں گے اور اگر سنت ِرسولؐ کے مطابق حکم لگایا جائے تو بھی ہم ان سے زیادہ اس کے اہل ثابت ہوں گے۔

وَ اَمَّا قَوْلُکُمْ: لِمَ جَعَلْتَ بَیْنَکَ وَ بَیْنَهُمْ اَجَلًا فِی التَّحْکِیْمِ؟ فَاِنَّمَا فَعَلْتُ ذٰلِکَ لِیَتَبَیَّنَ الْجَاهِلُ وَ یَتَثَبَّتَ الْعَالِمُ، وَ لَعَلَّ اللهَ اَنْ یُّصْلِحَ فِیْ هٰذِهِ الْهُدْنَةِ اَمْرَ هٰذِهِ الْاُمَّةِ، وَ لَا تُؤْخَذَ بِاَکْظَامِهَا فَتَعْجَلَ عَنْ تَبَیُّنِ الْحَقِّ وَ تَنْقَادَ لِاَوَّلِ الْغَیِّ.

اب رہا تمہارا یہ قول کہ: ’’آپؑ نے تحکیم کیلئے اپنے اور ان کے درمیان مہلت کیوں رکھی؟‘‘، تو یہ میں نے اس لئے کیا کہ (اس عرصہ میں) نہ جاننے والا تحقیق کر لے اور جاننے والا اپنے مسلک پر جم جائے اور شاید کہ اللہ تعالیٰ اس صلح کی وجہ سے اس اُمت کے حالات درست کر دے اور وہ (بے خبری میں) گلا گھونٹ کر تیار نہ کی جائے کہ حق کے واضح ہونے سے پہلے جلدی میں کوئی قدم اٹھا بیٹھے اور پہلی ہی گمراہی کے پیچھے لگ جائے۔

اِنَّ اَفْضَلَ النَّاسِ عِنْدَ اللهِ مَنْ کَانَ الْعَمَلُ بِالْحَقِّ اَحَبَّ اِلَیْهِ ـ وَ اِنْ نَّقَصَهٗ وَ کَرَثَهٗ ـ مِنَ الْبَاطِلِ وَ اِنْ جَرَّ اِلَیْهِ فَآئِدَةً وَّ زَادَهٗ، فَاَیْنَ یُتَاهُ بِکُمْ! وَ مِنْ اَیْنَ اُتِیْتُمْ! اِسْتَعِدُّوْا لِلْمَسِیْرِ اِلٰی قَوْمٍ حَیَارٰی عَنِ الْحَقِّ لَا یُبْصِرُوْنَهٗ وَ مُوْزَعِیْنَ بِالْجَوْرِ لَا یَعْدِلُوْنَ بِهٖ، جُفَاةٍ عَنِ الْکِتَابِ، نُکُبٍ عَنِ الطَّرِیْقِ.

بلا شبہ اللہ کے نزدیک سب سے بہتر وہ شخص ہے کہ جو حق پر عمل پیرا رہے، چاہے وہ اس کیلئے باعث نقصان و مضرت ہو اور باطل کی طرف رخ نہ کرے، چاہے وہ اس کے کچھ فائدہ کا باعث ہو رہا ہو۔ تمہیں تو بھٹکایا جا رہا ہے۔ آخر تم کہاں سے (شیطان کی راہ پر) لائے گئے ہو۔ تم اس قوم کی طرف بڑھنے کیلئے مستعد و آمادہ ہو جاؤ کہ جو حق سے منہ موڑ کر بھٹک رہی ہے کہ اسے دیکھتی ہی نہیں اور وہ بے راہ رویوں میں بہکا دیئے گئے ہیں کہ ان سے ہٹ کر سیدھی راہ پر آنا نہیں چاہتے۔ یہ لوگ کتاب خدا سے الگ رہنے والے اور صحیح راستے سے ہٹ جانے والے ہیں۔

ماۤ اَنْتُمْ بِوَثِیْقَةٍ یُعْلَقُ بِهَا، وَ لَا زَوَافِرِ عِزٍّ یُّعْتَصَمُ اِلَیْهَا. لَبِئْسَ حُشَّاشُ نَارِ الْحَرْبِ اَنْتُمْ! اُفٍّ لَّکُمْ! لَقَدْ لَقِیْتُ مِنْکُمْ بَرْحًا، یَوْمًا اُنَادِیْکُمْ وَ یَوْمًا اُنَاجِیْکُمْ، فَلَاۤ اَحْرَارُ صِدْقٍ عِنْدَ النِّدَآءِ، وَ لَاۤ اِخْوَانُ ثِقَةٍ عِنْدَ النَّجَآءِ!.

لیکن تم تو کوئی مضبوط وسیلہ ہی نہیں ہو کہ تم پر بھروسا کیا جائے اور نہ عزت کے سہارے ہو کہ تم سے وابستہ ہوا جائے۔ تم (دشمن کیلئے) جنگ کی آگ بھڑکانے کے اہل نہیں ہو۔ تم پر افسوس ہے کہ مجھے تم سے کتنی تکلیفیں اٹھانا پڑی ہیں۔ میں کسی دن تمہیں (دین کی امداد کیلئے) پکارتا ہوں اور کسی دن تم سے (جنگ کی) راز دارانہ باتیں کرتا ہوں، مگر تم نہ پکارنے کے وقت سچے جواں مرد اور نہ راز کی باتوں کیلئے قابل اعتماد بھائی ثابت ہوتے ہو۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 January 23 ، 18:41
عون نقوی