بصیرت اخبار

۲۶۶ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «عون نقوی» ثبت شده است

وَ قَدْ شَاوَرَهٗ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِی الْخُرُوْجِ اِلٰى غَزْوِ الرُّوْمِ بِنَفْسِهٖ:

جب حضرت عمر ابن خطاب نے غزوہ روم میں شرکت کیلئے حضرتؑ سے مشورہ لیا تو آپؑ نے فرمایا:

وَ قَدْ تَوَکَّلَ اللهُ لِاَهْلِ هٰذَا الدِّیْنِ بِاِعْزَازِ الْحَوْزَةِ، وَ سَتْرِ الْعَوْرَةِ، وَ الَّذِیْ نَصَرَهُمْ وَ هُمْ قَلِیْلٌ لَّا یَنْتَصِرُوْنَ، وَ مَنَعَهُمْ وَ هُمْ قَلِیْلٌ لَّا یَمْتَنِعُوْنَ، حَیٌّ لَّا یَمُوْتُ.

اللہ نے دین والوں کی حدوں کو تقویت پہنچانے اور ان کی غیر محفوظ جگہوں کو (دشمن کی) نظر سے بچائے رکھنے کا ذمہ لے لیا ہے۔ وہی خدا (اب بھی) زندہ و غیر فانی ہے کہ جس نے اس وقت ان کی تائید و نصرت کی تھی جبکہ وہ اتنے تھوڑے تھے کہ دشمن سے انتقام نہیں لے سکتے تھے اور ان کی حفاظت کی جب وہ اتنے کم تھے کہ اپنے کو محفوظ نہیں رکھ سکتے تھے۔

اِنَّکَ مَتٰی تَسِرْ اِلٰی هٰذَا الْعَدُوِّ بِنَفْسِکَ، فَتَلْقَهُمْ بِشَخْصِکَ فَتُنْکَبْ، لَا تَکُنْ لِّلْمُسْلِمِیْنَ کَانِفَةٌ دُوْنَ اَقْصٰی بِلَادِهِمْ، وَ لَیْسَ بَعْدَکَ مَرْجِـعٌ یَّرْجِعُوْنَ اِلَیْهِ، فَابْعَثْ اِلَیْهِمْ رَجُلًا مِّحْرَبًا، وَ احْفِزْ مَعَهٗ اَهْلَ الْبَلَآءِ وَ النَّصِیْحَةِ، فَاِنْ اَظْهَرَ اللهُ فَذَاکَ مَا تُحِبُّ، وَ اِنْ تَکُنِ الْاُخْرٰی، کُنْتَ رِدْاً لِّلنَّاسِ وَ مَثَابَةً لِّلْمُسْلِمِیْنَ.

تم اگر خود ان دشمنوں کی طرف بڑھے اور ان سے ٹکرائے اور کسی افتاد میں پڑ گئے تو اس صورت میں مسلمانوں کیلئے دور کے شہروں کے پہلے کوئی ٹھکانا نہ رہے گا اور نہ تمہارے بعد کوئی ایسی پلٹنے کی جگہ ہو گی کہ اس کی طرف پلٹ کر آ سکیں۔ تم ان کی طرف (اپنے بجائے) کوئی تجربہ کار آدمی بھیجو اور اس کے ساتھ اچھی کارکردگی والے اور خیر خواہی کرنے والے لوگوں کو بھیج دو۔ اگر اللہ نے غلبہ دے دیا تو تم یہی چاہتے ہو اور اگر دوسری صورت (شکست) ہو گئی تو تم لوگوں کیلئے ایک مددگار اور مسلمانوں کیلئے پلٹنے کا مقام ہو گے۔


امیر المومنین علیہ السلام کے متعلق یہ عجیب روش اختیار کی جاتی ہے کہ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ آپؑ امورِ سیاست سے بے خبر اور طریق جہانبانی سے نا آشنا تھے کہ جس سے یہ غرض ہوتی ہے کہ بنی امیہ کے ہوس اقتدار سے پیدا کی ہوئی شورشوں کو آپ کی کمزوریٔ سیاست کا نتیجہ قرار دیا جائے اور دوسری طرف خلفائے وقت نے مملکت کے اہم معاملات اور کفار سے محاربات کے سلسلہ میں جو مختلف مواقع پر آپؑ سے مشورے لئے انہیں بڑی اہمیت دے کر اچھالا جاتا ہے۔ جس سے یہ مقصد نہیں ہوتا کہ آپؑ کی صحتِ فکر و نظر، اصابتِ رائے اور تہ رس بصیرت کو پیش کیا جائے، بلکہ صرف یہ غرض ہوتی ہے کہ آپؑ اور خلفاء میں اتحاد، یگانگت اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے، تا کہ ادھر توجہ ہی مبذول نہ ہونے پائے کہ آپؑ کسی مرحلہ پر ان سے متصادم بھی رہے ہیں اور باہم اختلاف و مناقشات بھی رونما ہوتے رہے ہیں۔چنانچہ تاریخی حقائق اس کے شاہد ہیں کہ آپؑ ان کے نظریات سے اختلاف کرتے تھے اور ان کے ہر اقدام کو درست و صحیح نہ سمجھتے تھے۔ جیسا کہ خطبہ شقشقیہ میں ہر دور کے متعلق واشگاف لفظوں میں تبصرہ کرتے ہوئے اپنے اختلافِ رائے اور غم و غصہ کا اظہار فرمایا ہے۔ لیکن اس اختلاف کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اسلامی و اجتماعی مفاد کے سلسلہ میں صحیح رہنمائی نہ کی جائے۔ پھر امیر المومنین علیہ السلام کی سیرت تو اتنی بلند تھی کہ کسی کو یہ خیال بھی نہیں ہو سکتا کہ آپؑ کسی ایسے مشورے سے پہلو تہی کریں گے کہ جس سے مفادِ عامہ وابستہ ہو یا کوئی ایسا مشورہ دیں گے جس سے مصالح عامہ کو نقصان پہنچے۔ اسی لئے نظریات کے اختلاف کے باوجود آپؑ سے مشورے لئے جاتے تھے جس سے آپؑ کے کردار کی عظمت اور صحتِ فکر و نظر پر روشنی پڑتی ہے۔اور جس طرح پیغمبر اکرم ﷺ کی سیرت کا یہ نمایاں جوہر ہے کہ کفار قریش آپؐ کو دعوتِ نبوت میں جھٹلانے کے باوجود بہترین امانتدار سمجھتے تھے اور کبھی آپؐ کی امانت پر شبہہ نہ کر سکے، بلکہ مخالفت کے ہنگاموں میں بھی اپنی امانتیں بے کھٹکے آپؐ کے سپرد کر دیتے تھے اور کبھی یہ وہم بھی نہ کرتے تھے کہ اُن کی امانتیں خُرد بُرد ہو جائیں گی۔ یوں ہی امیر المومنین علیہ السلام بھی وثوق و اعتماد کی اس سطح بلند پر سمجھے جاتے تھے کہ دوست و دشمن ان کی اصابتِ رائے پر اعتماد کرتے تھے تو جس طرح پیغمبر ﷺ کے طرزِ عمل سے ان کے کمال امانتداری کا پتہ چلتا ہے اور اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاتا کہ ان میں اور کفار میں یگانگت تھی، کیونکہ امانت اپنے مقام پر ہے اور کفر و اسلام کا ٹکراؤ اپنے مقام پر، اسی طرح امیر المومنین علیہ السلام خلفاء سے اختلاف رکھنے کے باوجود ان کی نظروں میں ملکی و قومی مفاد کے محافظ اور اسلام کی فلاح و بہبود کے نگران سمجھے جاتے تھے۔ چنانچہ جہاں نوعی مفاد کا سوال پیدا ہوتا تھا آپؑ سے مشورہ لیا جاتا تھا اور آپؑ شخصی اغراض کی سطح سے بلند ہو کر اپنی بے لاگ رائے کا اظہار فرما دیتے تھے اور حدیث نبوی ﷺ «اَلْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ» (۱): ’’مشیر امین ہوتا ہے‘‘ کے پیش نظر کبھی غل و غش گوارا نہ کرتے تھے۔چنانچہ جنگ فلسطین کے موقعہ پر جب حضرت عمر نے اپنی شرکت کے بارے میں ان سے مشورہ لیا تو قطع نظر اس سے کہ آپؑ کی رائے ان کے جذبات کے موافق ہو یا مخالف، آپؑ اسلام کی عزت و بقا کا لحاظ کرتے ہوئے انہیں اپنی جگہ پر ٹھہرے رہنے کا مشورہ دیتے ہیں اور محاذِ جنگ میں ایسے شخص کو بھیجنے کی رائے دیتے ہیں کہ جو آزمودہ کار اور فنون حرب و ضرب میں ماہر ہو، کیونکہ ناتجربہ کار آدمی کے چلے جانے سے اسلام کی بندھی ہوئی ہوا اُکھڑ جاتی اور پیغمبر ﷺ کے زمانہ سے جو مسلمانوں کی دھاک بیٹھ چکی تھی ختم ہو جاتی اور ان کے چلے جانے سے فتح و کامرانی کے بجائے شکست و ہزیمت کے آثار آپؑ کو نظر آ رہے تھے۔ اس لئے انہیں روک دینے ہی میں اسلامی مفاد نظر آیا۔ چنانچہ اس کا اظہار ان لفظوں میں فرمایا ہے کہ: اگر تمہیں میدان چھوڑ کر پلٹنا پڑے تو یہ صرف تمہاری شکست نہ ہو گی بلکہ اس سے مسلمان بد دل ہو کر حوصلہ چھوڑ بیٹھیں گے اور میدان جنگ سے روگردان ہو کر تتر بتر ہو جائیں گے، کیونکہ رئیس لشکر کے میدان چھوڑ دینے سے لشکر کے قدم جم نہ سکیں گے اور ادھر مرکز کے خالی ہو جانے کی وجہ سے یہ توقع بھی نہ کی جا سکے گی کہ عقب سے مزید فوجی کمک آ جائے گی کہ جس سے لڑنے بھڑنے والوں کی ڈھارس بندھی رہے۔یہ ہے وہ مشورہ جسے باہمی روابط پر دلیل بنا کر پیش کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ مشورہ صرف اسلام کی سربلندی اور اس کی عزت و بقا کے پیشِ نظر تھا جو آپؑ کو ہر مفاد سے زیادہ عزیز تھی اور کسی خاص شخص کی جان عزیز نہ تھی کہ جس کی بنا پر اسے جنگ میں شرکت سے روکا ہو۔

[۱]۔ تفسیر ابن کثیر، ج ۲، ص ۱۵۰۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 January 23 ، 19:32
عون نقوی

وَ انْقَادَتْ لَهُ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةُ بِاَزِمَّتِهَا، وَ قَذَفَتْ اِلَیْهِ السَّمٰوَاتُ وَ الْاَرَضُوْنَ مَقَالِیْدَهَا، وَ سَجَدَتْ لَهٗ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ الْاَشْجَارُ النَّاضِرَةُ، وَ قَدَحَتْ لَهٗ مِنْ قُضْبَانِهَا النِّیْرَانَ الْمُضِیْٓئَةَ، وَ اٰتَتْ اُکُلَهَا بِکَلِمَاتِهِ الثِّمَارُ الْیَانِعَةُ.

دنیا و آخرت اپنی باگ ڈور اللہ کو سونپے ہوئے اس کے زیر ِفرمان ہے اور آسمان و زمین نے اپنی کنجیاں اس کے آگے ڈال دی ہیں اور تر و تازہ و شاداب درخت صبح و شام اس کے آگے سر بسجود ہیں اور اپنی شاخوں سے چمکتی ہوئی آگ (کے شعلے) بھڑکاتے ہیں اور اس کے حکم سے (پھل پھول کر) پکے ہوئے میووں (کی ڈالیاں) پیش کرتے ہیں۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

وَ کِتَابُ اللهِ بَیْنَ اَظْهُرِکُمْ، نَاطِقٌ لَّا یَعْیَا لِسَانُهٗ، وَ بَیْتٌ لَّا تُهْدَمُ اَرْکَانُهٗ، وَ عِزٌّ لَّا تُهْزَمُ اَعْوَانُهٗ.

اللہ کی کتاب تمہارے سامنے اس طرح (کھل کر) بولنے والی ہے کہ اس کی زبان کہیں لڑکھڑاتی نہیں اور ایسا گھر ہے جس کے کھمبے سرنگوں نہیں ہوتے اور ایسی عزت ہے کہ اس کے معاون شکست نہیں کھاتے۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کے ذیل میں فرمایا]

اَرْسَلَهٗ عَلٰی حِیْنِ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ، وَ تَنَازُعٍ مِّنَ الْاَلْسُنِ، فَقَفّٰی بِهِ الرُّسُلَ، وَ خَتَمَ بِهِ الْوَحْیَ، فَجَاهَدَ فِی اللهِ الْمُدْبِرِیْنَ عَنْهُ، وَ الْعَادِلِیْنَ بِهٖ.

اللہ نے آپؐ کو اس وقت بھیجا جب کہ رسولوں کی بعثت کا سلسلہ رکا پڑا تھا اور لوگوں میں جتنے منہ تھے اتنی باتیں تھیں۔ چنانچہ آپؐ کو سب رسولوں سے آخر میں بھیجا اور آپؐ کے ذریعہ سے وحی کا سلسلہ ختم کیا۔ آپؐ نے اللہ کى راہ میں ان لوگوں سے جہاد کیا جو اس سے پیٹھ پھرائے ہوئے تھے اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھہرا رہے تھے۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

وَ اِنَّمَا الدُّنْیَا مَنْتَهٰی بَصَرِ الْاَعْمٰی، لَا یُبْصِرُ مِمَّا وَرَآءَهَا شَیْئًا، وَ الْبَصِیْرُ یَنْفُذُهَا بَصَرُهٗ، وَ یَعْلَمُ اَنَّ الدَّارَ وَرَآءَهَا. فَالْبَصِیْرُ مِنْهَا شَاخِصٌ، وَ الْاَعْمٰۤی اِلَیْهَا شَاخِصٌ، وَ الْبَصِیْرُ مِنْهَا مُتَزَوِّدٌ، وَ الْاَعْمٰی لَهَا مُتَزَوِّدٌ.

(دل کے) اندھے کا منتہائے نظر یہی دنیا ہوتی ہے کہ اسے اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور نظر رکھنے والے کی نگاہیں اس سے پار چلی جاتی ہیں اور وہ اس امر کا یقین رکھتا ہے کہ اس کے بعد بھی ایک گھر ہے۔ نگاہ رکھنے والا اس سے نکلنا چاہتا ہے اور اندھا اسی پر نظریں جمائے رہتا ہے۔ بابصیرت اس سے (آخرت کیلئے) زاد حاصل کرتا ہے اور بے بصیرت اسی کے سرو سامان میں لگا رہتا ہے۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ لَیْسَ مِنْ شَیْءٍ اِلَّا وَ یَکَادُ صَاحِبُهٗ یَشْبَعُ مِنْهُ وَ یَمَلُّهٗ، اِلَّا الْحَیَاةَ فَاِنَّهٗ لَا یَجِدُ لَهٗ فِی الْمَوْتِ رَاحَةً. وَ اِنَّمَا ذٰلِکَ بِمَنْزِلَةِ الْحِکْمَةِ الَّتِیْ هِیَ حَیَاةٌ لِّلْقَلْبِ الْمَیِّتِ، وَ بَصَرٌ لِّلْعَیْنِ الْعَمْیَآءِ، وَ سَمْعٌ لِّلْاُذُنِ الصَّمَّآءِ، وَ رِیٌّ لِّلظَّمْاٰنِ، وَ فِیْهَا الْغِنٰی کُلُّهٗ وَ السَّلَامَةُ.

تمہیں جاننا چاہیے کہ ہر شے سے آدمی کبھی کبھی سیر ہو جاتا ہے اور اُکتا جاتا ہے سوا زند گی کے کہ وہ کبھی مرنے میں راحت نہیں محسوس کرتا اور یہ اس حکمت کی طرح ہے کہ جو قلب مردہ کیلئے حیات، اندھی آنکھوں کیلئے بینائی، بہرے کانوں کیلئے شنوائی اور تشنہ کام کیلئے سیرابی ہے اور اسی میں پورا پورا سامان کفایت و سرو سامان حفاظت ہے۔

کِتَابُ اللهِ تُبْصِرُوْنَ بِهٖ، وَ تَنْطِقُوْنَ بِهٖ، وَ تَسْمَعُوْنَ بِهٖ، وَ یَنْطِقُ بَعْضُهٗ بِبَعْضٍ، وَ یَشْهَدُ بَعْضُهٗ عَلٰی بَعْضٍ، لَا یَخْتَلِفُ فِی اللهِ، وَ لَا یُخَالِفُ بِصَاحِبِهٖ عَنِ اللهِ. قَدِ اصْطَلَحْتُمْ عَلَی الْغِلِّ فِیْمَا بَیْنَکُمْ، وَ نَبْتِ الْمَرْعٰی عَلٰی دِمَنِکُمْ، وَ تَصَافَیْتُمْ عَلٰی حُبِّ الْاٰمَالِ، وَ تَعَادَیْتُمْ فِیْ کَسْبِ الْاَمْوَالِ.

یہ اللہ کی کتاب ہے کہ جس کے ذریعہ تمہیں سجھائی دیتا ہے اور تمہاری زبان میں گویائی آتی ہے اور (حق کی آواز) سنتے ہو۔ اس کے کچھ حصے کچھ حصوں کی وضاحت کرتے ہیں اور بعض بعض کی (صداقت کی) گواہی دیتے ہیں۔ یہ ذاتِ الٰہی کے متعلق الگ الگ نظریئے نہیں پیش کرتا اور نہ اپنے ساتھی کو اس کی راہ سے ہٹا کر کسی اور راہ پر لگا دیتا ہے۔ (مگر) تم نے دلی کدورتوں اور گھورے پر اُگے ہوئے سبزہ کی خواہش پر ایکا کر لیا ہے۔ امیدوں کی چاہت پر تو تم میں صلح صفائی ہے اور مال کے کمانے پر ایک دوسرے سے دشمنی رکھتے ہو۔

لَقَدِ اسْتَهَامَ بِکُمُ الْخَبِیْثُ، وَ تَاهَ بِکُمُ الْغُرُوْرُ، وَاللهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی نَفْسِیْ وَ اَنْفُسِکُمْ.

تمہیں (شیطان ) خبیث نے بھٹکا دیا ہے اور فریبوں نے تمہیں بہکا رکھا ہے۔ میرے اور تمہارے نفسوں کے مقابل میں اللہ ہی مدد گار ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 January 23 ، 19:27
عون نقوی

نَحْمَدُهٗ عَلٰی مَاۤ اَخَذَ وَ اَعْطٰی، وَ عَلٰی مَاۤ اَبْلٰی وَ ابْتَلٰی، الْبَاطِنُ لِکُلِّ خَفِیَّةٍ، الْحَاضِرُ لِکُلِّ سَرِیْرَةٍ، الْعَالِمُ بِمَا تُکِنُّ الصُّدُوْرُ، وَ مَا تَخُوْنُ الْعُیُوْنُ. وَ نَشْهَدُ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ غَیْرُهٗ، وَ اَنَّ مُحَمَّدًا ﷺ نَّجِیْبُهٗ وَ بَعِیْثُهٗ، شَهَادَةً یُّوَافِقُ فِیْهَا السِّرُّ الْاِعْلَانَ، وَ الْقَلْبُ اللِّسَانَ.

وہ جو کچھ لے اور جو کچھ دے اور جو نعمتیں بخشے اور جن آزمائشوں میں ڈالے (سب پر) ہم اس کی حمد و ثنا کرتے ہیں۔ وہ ہر چھپی ہوئی چیز کی گہرائیوں سے آگاہ اور ہر پوشیدہ شے پر حاضر و ناظر ہے۔ وہ سینوں میں چھپی ہوئی چیزوں اور آنکھوں کے چوری چھپے اشاروں کا جاننے والا ہے۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کے برگزیدہ (بندے) اور فرستادہ (رسول) ہیں۔ ایسی گواہی کہ جس میں ظاہر و باطن یکساں اور دل و زبان ہمنوا ہیں۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

فَاِنَّهٗ وَاللهِ! الْجِدُّ لَا اللَّعِبُ، وَ الْحَقُّ لَا الْکَذِبُ، وَ مَا هُوَ اِلَّا الْمَوْتُ اَسْمَعَ دَاعِیْهِ، وَ اَعْجَلَ حَادِیْهِ، فَلَا یَغُرَّنَّکَ سَوَادُ النَّاسِ مِنْ نَّفْسِکَ، فَقَدْ رَاَیْتَ مَنْ کَانَ قَبْلَکَ مِمَّنْ جَمَعَ الْمَالَ وَ حَذِرَ الْاِقْلَالَ، وَ اَمِنَ الْعَوَاقِبَ ـ طُوْلَ اَمَلٍ وَّ اسْتِبْعَادَ اَجَلٍ ـ کَیْفَ نَزَلَ بِهِ الْمَوْتُ فَاَزْعَجَهٗ عَنْ وَّطَنِهٖ، وَ اَخَذَهٗ مِنْ مَّاْمَنِهٖ، مَحْمُوْلًا عَلٰۤی اَعْوَادِ الْمَنَایَا یَتَعَاطٰی بِهِ الرِّجَالُ الرِّجَالَ، حَمْلًا عَلَی الْمَنَاکِبِ وَ اِمْسَاکًۢا بِالْاَنَامِلِ.

خدا کی قسم! وہ چیز جو سرا سر حقیقت ہے ہنسی کھیل نہیں اور سرتاپا حق ہے جھوٹ نہیں، وہ صرف موت ہے۔ اس کے پکارنے والے نے اپنی آواز پہنچا دی ہے اور اس کے ہنکانے والے نے جلدی مچا رکھی ہے۔ یہ (زندہ ) لوگوں کی کثرت تمہارے نفس کو دھوکا نہ دے (کہ اپنی موت کو بھول جاؤ)۔ تم ان لوگوں کو جو تم سے پہلے تھے، جنہوں نے مال و دولت کو سمیٹا تھا، جو افلاس سے ڈرتے تھے اور امیدوں کی درازی اور موت کی دوری کا (فریب کھا کر) نتائج سے بے خوف بن چکے تھے، دیکھ چکے ہو کہ کس طرح موت ان پر ٹوٹ پڑی کہ انہیں وطن سے نکال باہر کیا اور ان کی جائے امن سے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا، اس عالم میں کہ وہ تابوت پر لدے ہوئے تھے اور لوگ یکے بعد دیگرے کندھا دے رہے تھے اور اپنی انگلیوں (کے سہارے) سے روکے ہوئے تھے۔

اَ مَا رَاَیْتُمُ الَّذِیْنَ یَاْمُلُوْنَ بَعِیْدًا، وَ یَبْنُوْنَ مَشِیْدًا، وَ یَجْمَعُوْنَ کَثِیْرًا! کَیْفَ اَصْبَحَتْ بُیُوْتُهُمْ قُبُوْرًا، وَ مَا جَمَعُوْا بُوْرًا، وَ صَارَتْ اَمْوَالُهُمْ لِلْوَارِثِیْنَ، وَ اَزْوَاجُهُمْ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ، لَا فِیْ حَسَنَةٍ یَزِیْدُوْنَ، وَ لَا مِنْ سَیِّئَةٍ یَّسْتَعْتِبُوْنَ!.

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا کہ جو دور کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے، جنہوں نے مضبوط محل بنائے تھے اور ڈھیروں مال جمع کیا تھا، کس طرح ان کے گھر قبروں میں بدل گئے اور جمع پونجی تباہ ہو گئی اور ان کا مال وارثوں کا ہو گیا اور ان کی بیویاں دوسروں کے پاس پہنچ گئیں۔ (اب) نہ وہ نیکیوں میں کچھ اضافہ کر سکتے ہیں اور نہ اس کا کوئی موقعہ ہے کہ وہ کسی گناہ کے بعد (توبہ کر کے) اللہ کی رضا مندیاں حاصل کر لیں۔

فَمَنْ اَشْعَرَ التَّقْوٰی قَلْبَهٗ بَرَّزَ مَهَلُهٗ، وَ فَازَ عَمَلُهٗ. فَاهْتَبِلُوْا هَبَلَهَا، وَ اعْمَلُوْا لِلْجَنَّةِ عَمَلَهَا، فَاِنَّ الدُّنْیَا لَمْ تُخْلَقْ لَکُمْ دَارَ مُقَامٍ، بَلْ خُلِقَتْ لَکُمْ مَجَازًا لِّتَزَوَّدُوْا مِنْهَا الْاَعْمَالَ اِلٰی دَارِ الْقَرَارِ، فَکُوْنُوْا مِنْهَا عَلٰۤی اَوْفَازٍ، وَ قَرِّبُوا الظُّهُوْرَ لِلزِّیَالِ.

جس شخص نے اپنے دل کو تقویٰ شعار بنا لیا وہ بھلائیوں میں سبقت لے گیا اور اس کا کیا کرایا سوارت ہوا۔ تقویٰ حاصل کرنے کا موقعہ غنیمت سمجھو اور جنت کیلئے جو عمل ہونا چاہیے اسے انجام دو، کیونکہ دنیا تمہاری قیام گاہ نہیں بنائی گئی، بلکہ یہ تو تمہارے لئے گزر گاہ ہے، تاکہ تم اس سے اپنی مستقل قیام گاہ کیلئے زاد اکٹھا کر سکو۔ اس دنیا سے چل نکلنے کیلئے آمادہ رہو اور کوچ کیلئے سواریاں اپنے سے قریب کر لو (کہ وقت آنے پر با آسانی سوار ہو سکو)۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 January 23 ، 19:24
عون نقوی

اَیَّتُهَا النُّفُوْسُ الْمُخْتَلِفَةُ، وَ الْقُلُوْبُ الْمُتَشَتِّتَةُ، الشَّاهِدَةُ اَبْدَانُهُمْ، وَ الْغَآئِبَةُ عَنْهُمْ عُقُوْلُهُمْ، اَظْاَرُکُمْ عَلَی الْحَقِّ وَ اَنْتُمْ تَنْفِرُوْنَ عَنْهُ نُفُوْرَ الْمِعْزٰی مِنْ وَّعْوَعَةِ الْاَسَدِ! هَیْهَاتَ اَنْ اَطْلَعَ بِکُمْ سَرَارَ الْعَدْلِ، اَوْ اُقِیْمَ اعْوِجَاجَ الْحَقِّ.

اے الگ الگ طبیعتوں اور پراگندہ دل و دماغ والو کہ جن کے جسم موجود اور عقلیں گم ہیں، میں تمہیں نرمی و شفقت سے حق کی طرف لانا چاہتا ہوں اور تم اس سے اس طرح بھڑک اٹھتے ہو جس طرح شیر کے ڈکارنے سے بھیڑ بکریاں۔ کتنا دشوار ہے کہ میں تمہارے سہارے پر چھپے ہوئے عدل کو ظاہر کروں یا حق میں پیدا کی ہوئی کجیوں کو سیدھا کروں۔

اَللّٰهُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ اَنَّهٗ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْ کَانَ مِنَّا مُنَافَسَةً فِیْ سُلْطَانٍ، وَ لَا الْتِمَاسَ شِیْءٍ مِّنْ فُضُوْلِ الْحُطَامِ، وَ لٰکِنْ لِّنَرُدَّ الْمَعَالِمَ مِنْ دِیْنِکَ، وَ نُظْهِرَ الْاِصْلَاحَ فِیْ بِلَادِکَ، فَیَاْمَنَ الْمَظْلُوْمُوْنَ مِنْ عِبَادِکَ، وَ تُقَامَ الْمُعَطَّلَةُ مِنْ حُدُوْدِکَ.

بار الٰہا! تو خوب جانتا ہے کہ یہ جو کچھ بھی ہم سے (جنگ و پیکار کی صورت میں) ظاہر ہوا اِس لئے نہیں تھا کہ ہمیں تسلط و اقتدار کی خواہش تھی یا مال دنیا کی طلب تھی، بلکہ یہ اس لئے تھا کہ ہم دین کے نشانات کو (پھر ان کی جگہ پر) پلٹائیں اور تیرے شہروں میں امن و بہبودی کی صورت پیدا کریں تاکہ تیرے ستم رسیدہ بندوں کو کوئی کھٹکا نہ رہے اور تیرے وہ احکام (پھر سے) جاری ہو جائیں جنہیں بیکار بنا دیا گیا ہے۔

اَللّٰهُمَّ اِنّیْۤ اَوَّلُ مَنْ اَنابَ، وَ سَمِعَ وَ اَجَابَ، لَمْ یَسْبِقْنِیْۤ اِلَّا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِالصَّلٰوةِ.

اے اللہ! میں پہلا شخص ہوں جس نے تیری طرف رجوع کی اور تیرے حکم کو سن کر لبیک کہی اور رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی نے بھی نماز پڑھنے میں مجھ پر سبقت نہیں کی۔

وَ قَدْ عَلِمْتُمْ اَنَّهٗ لَا یَنْۢبَغِیْۤ اَنْ یَّکُوْنَ الْوَالِیَ عَلَی الْفُرُوْجِ وَ الدِّمَآءِ وَ الْمَغَانِمِ وَ الْاَحْکَامِ وَ اِمَامَةِ الْمُسْلِمِیْنَ الْبَخِیْلُ، فَتَکُوْنَ فِیْۤ اَمْوَالِهِمْ نَهْمَتُهٗ، وَ لَا الْجَاهِلُ فَیُضِلَّهُمْ بِجَهْلِهٖ، وَ لَا الْجَافِیْ فَیَقْطَعَهُمْ بِجَفَآئِهٖ، وَ لَا الْحَآئِفُ لِلدُّوَلِ فَیَتَّخِذَ قَوْمًا دُوْنَ قَوْمٍ، وَ لَا الْمُرْتَشِیْ فِی الْحُکْمِ فَیَذْهَبَ بِالْحُقُوْقِ وَیَقِفَ بِهَا دُوْنَ الْمَقَاطِعِ، وَ لَا الْمُعَطِّلُ لِلسُّنَّةِ فَیُهْلِکَ الْاُمَّةَ.

(اے لوگو!) تمہیں یہ معلوم ہے کہ ناموس، خون، مالِ غنیمت، (نفاذ) احکام اور مسلمانوں کی پیشوائی کیلئے کسی طرح مناسب نہیں کہ کوئی بخیل حاکم ہو، کیونکہ اس کا دانت مسلمانوں کے مال پر لگا رہے گا اور نہ کوئی جاہل کہ وہ انہیں اپنی جہالت کی وجہ سے گمراہ کرے گا اور نہ کوئی کج خلق کہ وہ اپنی تند مزاجی سے چرکے لگاتا رہے گا اور نہ کوئی مال و دولت میں بے راہ روی کرنے والا کہ وہ کچھ لوگوں کو دے گا اور کچھ کو محروم کر دے گا اور نہ فیصلہ کرنے میں رشوت لینے والا کہ وہ (دوسروں کے) حقوق کو رائیگاں کر دے گا اور انہیں انجام تک نہ پہنچائے گا اور نہ کوئی سنت کو بیکار کر دینے والا کہ وہ اُمت کو تباہ و برباد کر دے گا۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 January 23 ، 19:20
عون نقوی

لِاَبِیْ ذَرٍّ رَحِمَهُ اللهُ، لَـمَّاۤ اُخْرِجَ اِلَی الرَّبَذَةِ:

جب حضرت ابو ذرؓ کو ربذہ کی طرف جلا وطن کیا گیا تو ان سے خطاب کر کے فرمایا:

یَاۤ اَبَا ذَرٍّ! اِنَّکَ غَضِبْتَ لِلّٰهِ، فَارْجُ مَنْ غَضِبْتَ لَهٗ، اِنَّ الْقَوْمَ خَافُوْکَ عَلٰی دُنْیَاهُمْ، وَ خِفْتَهُمْ عَلٰی دِیْنِکَ، فَاتْرُکْ فِیْۤ اَیْدِیْهِمْ مَا خَافُوْکَ عَلَیْهِ، وَ اهْرُبْ مِنهُمْ بِمَا خِفْتَهُمْ عَلَیْهِ، فَمَاۤ اَحْوَجَهُمْ اِلٰی مَا مَنَعْتَهُمْ، وَ مَاۤ اَغْنَاکَ عَمَّا مَنَعُوْکَ! وَ سَتَعْلَمُ مَنِ الرَّابِحُ غَدًا، وَ الْاَکْثَرُ حُسَّدًا.

اے ابو ذر! تم اللہ کیلئے غضب ناک ہوئے ہو تو پھر جس کی خاطر یہ تمام غم و غصہ ہے اسی سے امید بھی رکھو۔ ان لوگوں کو تم سے اپنی دنیا کے متعلق خطرہ ہے اور تمہیں ان سے اپنے دین کے متعلق اندیشہ ہے، لہٰذا جس چیز کیلئے انہیں تم سے کھٹکا ہے وہ انہیں کے ہاتھ میں چھوڑو اور جس شے کیلئے تمہیں ان سے اندیشہ ہے اسے لے کر ان سے بھاگ نکلو۔ جس چیز سے تم انہیں محروم کر کے جا رہے ہو (کاش کہ وہ سمجھتے کہ) وہ اس کے کتنے حاجتمند ہیں اور جس چیز کو انہوں نے تم سے روک لیا ہے اس سے تم بہت ہی بے نیاز ہو اور جلد ہی تم جان لو گے کہ کل فائدہ میں رہنے والا کون ہے اور کس پر حسد کرنے والے زیادہ ہیں۔

وَ لَوْ اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرَضِیْنَ کَانَتَا عَلٰی عَبْدٍ رَتْقًا، ثُمَّ اتَّقَی اللهَ، لَجَعَلَ اللهُ لَهٗ مِنْهُمَا مَخْرَجًا! لَا یُؤْنِسَنَّکَ اِلَّا الْحَقُّ، وَ لَا یُوْحِشَنَّکَ اِلَّا الْبَاطِلُ، فَلَوْ قَبِلْتَ دُنْیَاهُمْ لَاَحَبُّوْکَ، وَ لَوْ قَرَضْتَ مِنْهَا لَاَمَّنُوْکَ.

اگر یہ آسمان و زمین کسی بندے پر بند پڑے ہوں اور وہ اللہ سے ڈرے تو وہ اس کیلئے زمین و آسمان کی راہیں کھول دے گا۔ تمہیں صرف حق سے دلچسپی ہونا چاہیے اور صرف باطل ہی سے گھبرانا چاہیے۔ اگر تم ان کی دنیا قبول کر لیتے تو وہ تمہیں چاہنے لگتے اور تم اس میں کوئی حصہ اپنے لئے مقرر کرا لیتے تو وہ تم سے مطمئن ہو جاتے۔


 
’’ابو ذر غفاری‘‘ کا نام جندب ابن جنادہ تھا۔ ربذہ کے رہنے والے تھے جو مدینہ کی مشرقی جانب ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔جب بعثتِ رسولؐ کا تذکرہ سنا تو مکہ آئے اور پوچھ گچھ کرنے کے بعد پیغمبر ﷺ کی خدمت میں بازیاب ہو کر اسلام قبول کیا جس پر کفار قریش نے انہیں طرح طرح کی تکلیفیں دیں اذیتوں پر اذیتیں پہنچائیں۔ مگر آپ کے ثبات قدم میں لغزش نہ آئی۔ اسلام لانے والوں میں آپ تیسرے یا چوتھے یا پانچویں ہیں اور اس سبقت اسلامی کے ساتھ آپ کے زہد و اتقاء کا یہ عالم تھا کہ پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا کہ:
 
اَبُوْ ذَرٍّ فِیْ اُمَّتِیْ شَبِیْهُ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ فِیْ زُهْدِه وَ وَرَعِه.
 
میری اُمت میں ابوذر زہد و ورع میں عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی مثال ہیں۔(۱)
 
آپ حضرت عمر کے دورِ حکومت میں شام چلے گئے اور حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں بھی وہیں مقیم تھے۔ زندگی کے شب و روز ہدایت و تبلیغ کے فرائض سر انجام دینے، اہل بیت رسول علیہم السلام کی عظمت سے روشناس کرنے اور جادۂ حق کی طرف رہنمائی فرمانے میں گزرتے تھے۔ چنانچہ شام اور جبل عامل میں شیعیت کے جو اثرات پائے جاتے ہیں وہ آپ ہی کی تبلیغ و مساعی کا نتیجہ اور آپ ہی کے بوئے ہوئے بیج کے برگ و بار ہیں۔ امیر شام معاویہ کو ان کی یہ روش پسند نہ تھی۔ چنانچہ وہ ان کے کھلم کھلا لے دے کرنے اور حضرت عثمان کی زر اندوزی و بے راہ روی کے تذکرے کرنے سے انتہائی بیزار تھے، مگر کچھ بنائے نہ بنتی تھی۔ آخر اس نے حضرت عثمان کو لکھا کہ اگر یہ کچھ عرصہ اور یہاں مقیم رہے تو ان اطراف کے لوگوں کو تم سے برگشتہ کر دیں گے، لہٰذا اس کا انسداد ہونا چاہیے جس پر انہوں نے لکھا کہ ابو ذرّ کو شتر بے پالان پر سوار کر کے مدینہ روانہ کر دیا جائے۔ چنانچہ اس حکم کی تعمیل کی گئی اور انہیں مدینہ روانہ کر دیا گیا۔ جب آپ مدینہ پہنچے تو یہاں بھی حق و صداقت کی تبلیغ شروع کر دی۔ مسلمانوں کو پیغمبر ﷺ کا عہد یاد دلاتے، کسروی و قیصری شان کے مظاہروں سے روکتے، جس پر حضرت عثمان جز بز ہوتے، ان کی زبان بندی کی تدبیریں کرتے۔ چنانچہ ایک دن انہیں بلا کر کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تم کہتے پھرتے ہو کہ پیغمبر ﷺ نے فرمایا تھا کہ:
 
اِذَا کَمُلَتْ بَنُوْۤ اُمَیّةَ ثَلَاثِیْنَ رَجُلًا، اتّخَذُوْا بِلَادَ اللّٰهِ دُوَلًا، و عِبادَ اللّٰهِ خَوَلًا، وَ دِیْنَ اللّٰهِ دَغَلًا.
 
جب بنی امیہ کی تعداد تیس تک پہنچ جائے گی تو وہ اللہ کے شہروں کو اپنی جاگیر اور اس کے بندوں کو اپنا غلام اور اس کے دین کو فریب کاری کا ذریعہ قرار دے لیں گے۔)
 
آپ نے کہا کہ بیشک میں نے پیغمبر اسلام ﷺ کو یہ فرماتے سنا تھا۔ عثمان نے کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو اور پاس بیٹھنے والوں سے کہا کہ کیا تم میں سے کسی نے اس حدیث کو سنا ہے۔ سب نے نفی میں جواب دیا۔ جس پر حضرت ابوذر نے فرمایا کہ: امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دریافت کیا جائے۔ چنانچہ آپؑ کو بلا کر دریافت کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا کہ: ہاں یہ درست ہے اور ابو ذر سچ کہتے ہیں۔ عثمان نے کہا کہ آپؑ کس بنا پر اس حدیث کی صحت کی گواہی دیتے ہیں۔ حضرتؑ نے فرمایا کہ میں نے پیغمبر ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ:
 
مَاۤ اَظَلَّتِ الْخَضْرَآءُ وَ لَاۤ اَقَلَّتِ الْغَبْرَآءُ عَلٰى ذِیْ لَهْجَةٍ اَصْدَقَ مِنْ اَبِیْ ذَرٍّ.
 
کسی بولنے والے پر آسمان نے سایہ نہیں ڈالا اور زمین نے اسے نہیں اٹھایا جو ابو ذر سے زیادہ راست گو ہو۔(۳)
 
اب حضرت عثمان کیا کہہ سکتے تھے اگر جھٹلاتے تو پیغمبر ﷺ کی تکذیب لازم آتی تھی۔ پیچ و تاب کھا کر رہ گئے اور کوئی تردید نہ کر سکے۔ ادھر حضرت ابو ذر نے سرمایہ پرستی کے خلاف کُھلم کھلا کہنا شروع کر دیا اور حضرت عثمان کو دیکھتے تو اس آیت کی تلاوت فرماتے:
 
﴿وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا یُنْفِقُوْنَهَا فِىْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ‏ ﴿۳۴﴾ یَّومَ یُحْمٰى عَلَیْهَا فِىْ نَارِ جَهَـنَّمَ فَتُکْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوْبُهُمْ وَظُهُوْرُهُمْ‌ؕ هٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ﴾
 
وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کرتے رہتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو درد ناک عذاب کی خوشخبری سنادو جس دن کہ ان کا جمع کیا ہوا سونا چاندی دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا اور اس سے ان کی پیشانیاں، پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی اور ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی ہے جسے تم نے اپنے لئے ذخیرہ بنا کر رکھا تھا تو اب اس ذخیرہ اندوزی کا مزا چکھو۔(۴)
 
حضرت عثمان نے مال و دولت کا لالچ دیا مگر اس طائر آزاد کو سنہرى جال میں نہ جکڑ سکے۔ تشدد و سختی سے بھی کام لیا مگر ان کی زبان حق ترجمان کو بند نہ کر سکے۔ آخر انہیں مدینہ چھوڑ دینے اور ربذہ کی جانب چلے جانے کا حکم دیا اور طرید رسولؐ کے فرزند مروان کو اس پر مامور کیا کہ وہ انہیں مدینہ سے باہر نکال دے اور اس کے ساتھ یہ قہرمانی فرمان بھی صادر فرمایا کہ کوئی ان سے کلام نہ کرے اور نہ انہیں الوداع کہے۔ مگر امیرالمومنین علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام، عقیل، عبد اللہ ابن جعفر اور عمار یاسر نے اس فرمان کی کوئی پرواہ نہ کی اور انہیں رخصت کرنے کیلئے ساتھ ہو لئے اور اسی رخصت کے موقعہ پر حضرتؑ نے ان سے یہ کلمات فرمائے۔
 
ربذہ میں حضرت ابو ذر کی زندگی بڑی ابتلاؤں میں کٹی۔ یہیں پر آپ کے فرزند ’’ذر‘‘ اور اہلیہ نے انتقال کیا اور جو بھیڑ بکریاں گزارے کیلئے پال رکھی تھیں وہ بھی ہلاک ہو گئیں۔ اولاد میں صرف ایک دختر رہ گئی جو فاقوں اور دکھوں میں برابر کی شریک تھی۔ جب سر و سامان زندگی ناپید ہو گئے اور فاقوں پر فاقے ہونے لگے تو اس نے حضرت ابو ذر سے عرض کیا کہ: بابا یہ زندگی کے دن کس طرح کٹیں گے؟ کہیں آنا جانا چاہئے اور رزق کی تلاش کرنا چاہئے۔ جس پر حضرت ابو ذرّ اسے ہمراہ لے کر صحرا کی طرف نکل کھڑے ہوئے مگر گھاس پات بھی میسر نہ آ سکا۔ آخر تھک کر ایک جگہ بیٹھ گئے اور ریت جمع کر کے اس کا ڈھیر بنایا اور اس پر سر رکھ کر لیٹ گئے اسی عالم میں سانسیں اکھڑ گئیں، پتلیاں اوپر چڑھ گئیں، نزع کی حالت طاری ہو گئی۔ جب دختر ابو ذرّ نے یہ حالت دیکھی تو سراسیمہ و مضطرب ہو کر کہنے لگی کہ: بابا! اگر آپ نے اس لق و دق صحرا میں انتقال فرمایا تو میں اکیلی کیسے دفن و کفن کا سامان کروں گی؟ آپ نے فرمایا کہ: بیٹی گھبراؤ نہیں، پیغمبر اکرم ﷺ مجھ سے فرما گئے تھے کہ: ’’اے ابو ذرّ! تم عالم غربت میں مرو گے اور کچھ عراقی تمہاری تجہیز و تکفین کریں گے‘‘۔ تم میرے مرنے کے بعد ایک چادر میرے اوپر ڈال دینا اور سرِ راہ جا بیٹھنا اور جب ادھر سے کوئی قافلہ گزرے تو اس سے کہنا کہ پیغمبر ﷺ کے صحابی ابو ذرّ نے انتقال کیا ہے۔ چنانچہ ان کی رحلت کے بعد وہ سرِ راہ جا کر بیٹھ گئی۔کچھ دیر کے بعد ادھر سے ایک قافلہ گزرا جس میں ہلال ابن مالک مزنی، احنف ابن قیس تمیمی، صعصعہ ابن صوحان عبدی، اسود ابنِ قیس تمیمی اور مالک ابن حارث اشتر تھے۔ جب انہوں نے حضرت ابو ذر کے انتقال کی خبر سنی تو اس بے کسی کی موت پر تڑپ اٹھے۔ سواریاں روک لیں اور ان کی تجہیز و تکفین کیلئے سفر ملتوی کر دیا۔ مالک اشتر نے ایک حلہ کفن کیلئے دیا جس کی قیمت چار ہزار درہم تھی اور تجہیز و تکفین کے فرائض سر انجام دے کر رخصت ہوئے۔ یہ واقعہ ۸ ذی الحجہ ۳۲ھ کا ہے۔

 
[۱]۔ بحار الانوار، ج ۶، ص ۴۔
 
[۲]۔ تاریخ الیعقوبی، ج ۱، ص ۱۷۵۔
 
[۳]۔ معانی الاخبار، ص ۱۷۸۔ طبقات ابن سعد، ج ۴، ص ۲۲۸۔
 
[۴]۔ سورۂ توبہ، آیت ۳۴-۳۵۔

balagha.org

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 January 23 ، 19:12
عون نقوی